Tag: امریکی صدارتی انتخابات

  • کرونا وائرس امریکی صدارتی انتخابات پر بھی اثر انداز ہونے لگا

    کرونا وائرس امریکی صدارتی انتخابات پر بھی اثر انداز ہونے لگا

    واشنگٹن: نہایت مہلک اور نیا وائرس کرونا امریکی صدارتی انتخابات پر بھی اثر انداز ہونے لگا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدارتی انتخابات بھی کرونا وائرس سے متاثر ہونے لگے ہیں، ریاست لوزیانا میں 4 اپریل کو ڈیموکریٹ پرائمری انتخاب ملتوی کر دیے گئے ہیں، جب کہ باقی ملک میں انتخابی مہم بھی ملتوی کی جا چکی ہے۔

    ڈیموکریٹ پارٹی نے اس فیصلے سے متعلق وضاحت کی ہے کہ الیکشن ڈیوٹی پر مامور معمر کارکنوں کے تحفظ کے لیے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔ دوسری طرف جوبائیڈن اور برنی سینڈرز کے درمیان آج ہونے والے مباحثے کا مقام بھی تبدیل کر دیا گیا ہے، ڈیموکریٹ مباحثہ فینکس میں ہونا تھا تاہم اب یہ واشنگٹن ڈی سی میں ہوگا۔ سابق امریکی نائب صدر جوبائیڈن کو اب تک پرائمری انتخابات میں برتری حاصل ہے۔

    کرونا وائرس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، 5839 ہلاکتیں ریکارڈ

    ادھر برطانیہ میں کرونا وائرس کے پیش نظر لیبر پارٹی نے ہنگامی قوانین لاگو کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے، اپوزیشن رہنما جیرمی کوربن کا کہنا تھا کہ گھروں کے کرائے اور اقساط ملتوی کی جائیں، سائنس دانوں کی ہدایات کو عوام تک پہنچایا جائے، اور آئسولیشن یا بیماری کی صورت میں پوری تنخواہ دی جائے۔

    خیال رہے کہ کرونا وائرس امریکا میں بھی نہایت تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے، ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے، مزید دس ہلاکتوں کے بعد تعداد 60 ہو گئی ہے، جب کہ متاثرہ افراد کی تعداد 3,041 ہو چکی ہے۔ برطانیہ میں بھی وائرس سے مزید 10 افراد ہلاک ہونے کے بعد اموات کی تعداد 21 ہو گئی ہے، اور 1140 افراد متاثر ہو چکے ہیں۔

  • سابق نائب صدر جوبائیڈن نے بھی مباحثے میں پوزیشن مستحکم کر لی

    سابق نائب صدر جوبائیڈن نے بھی مباحثے میں پوزیشن مستحکم کر لی

    واشنگٹن: امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹ صدارتی نامزدگی کے لیے کانٹے کا مقابلہ جاری ہے، سابق نائب صدر جوبائیڈن نے بھی مباحثے میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدارتی انتخابات کے لیے نامزدگی کا مقابلہ جاری ہے، جنوبی کیرولینا میں مباحثے کے دوران 7 امیدواروں نے ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر الزامات لگائے۔

    گزشتہ 9 مباحثوں میں 78 سالہ سینیٹر برنی سینڈرز مقبولیت میں سب سے آگے ہیں، تاہم سینڈرز کو ماضی کے بیانات کے باعث مباحثے میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اس دوران سابق نائب صدر جوبائیڈن نے بھی مباحثے میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی۔

    دوسری طرف مائیکل بلومبرگ اور الزبتھ وارن بھی ڈیموکریٹ ووٹرز کو متاثرکرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ ڈیموکریٹ کی جانب سے جو بائیڈن، مائیکل بلومبرگ، پیٹ بیٹی جیج، تلسی گبرڈ، ایمی کلوبچر، برنی سینڈرز، ٹام اسٹائر، الزبتھ وارن کے درمیان مقابلہ جاری ہے، جب کہ ری پبلکنز میں روک ڈی لا فونٹے، ڈونلڈ ٹرمپ اور بل ویلڈ کے درمیان مقابلہ ہے۔ ڈیموکریٹس کے درمیان مقابلہ تیزی سے سکڑتا جا رہا ہے، رواں سال جب یہ مباحثہ شروع ہوا تھا تو 25 سے بھی زیادہ امیدوار تھے جو اب 8 رہ گئے ہیں۔

    اب تک برنی سینڈرز کو سب سے زیادہ 24 ڈیلیگیٹس کی حمایت حاصل ہے، جوبائیڈن کو 9 اور بیٹی جیج کو 3 کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات 3 نومبر 2020 کو منعقد ہوں گے جس میں اب نو ماہ سے کم وقت رہ گیا ہے۔

  • امریکی صدارتی انتخابات کے 9 مباحثوں میں برنی سینڈرز کی مقبولیت

    امریکی صدارتی انتخابات کے 9 مباحثوں میں برنی سینڈرز کی مقبولیت

    واشنگٹن: امریکی صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹ امیدوار بننے کے خواہش مندوں کے درمیان آج 10 واں مباحثہ ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے کے خواہش مندوں کے مابین آج دسواں مباحثہ ہوگا، گزشتہ 9 مباحثوں میں 78 سالہ سینیٹر برنی سینڈرز مقبولیت میں سب سے آگے ہیں۔

    سینیٹر برنی سینڈرز کو ڈیموکریٹ پارٹی کے 45 ڈیلیگیٹس کی حمایت حاصل ہو گئی ہے، جب کہ صدارتی امیدوار بننے کے خواہش مند پیٹ بیٹی جیج کو اب تک 25 ڈیلیگیٹس کی حمایت مل سکی ہے۔

    سابق نائب صدر جوبائیڈن 17 ڈیلیگیٹس کے ساتھ فہرست میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ دوسری طرف ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار بننے کے خواہش مندوں کی تعداد 25 سے کم ہو کر 8 رہ گئی۔

    امریکی صدارتی انتخابات کے سلسلے میں ایک بار پھر روسی مداخلت کی خبریں سرخیوں میں ہیں، برنی سینڈرز نے کیلی فورنیا میں مہم کے دوران تصدیق کی کہ انھیں ایک ماہ قبل امریکی حکام کی جانب سے بریفنگ دی گئی تھی کہ روس ان کی مہم میں مدد کی کوشش کر رہا ہے، ہمیں بتایا گیا کہ روس یا دیگر ممالک مہم میں مداخلت کر رہے ہیں۔

    برنی سینڈرز نے واضح کیا کہ روس کے لیے میری طرف سے یہی پیغام ہے کہ امریکی انتخابات سے دور رہے۔

  • صدارتی انتخابات میں‌ دھاندلی، تحقیقاتی حکام نے ٹرمپ کو ہٹانے کی تجویز دی تھی، دعویٰ

    صدارتی انتخابات میں‌ دھاندلی، تحقیقاتی حکام نے ٹرمپ کو ہٹانے کی تجویز دی تھی، دعویٰ

    واشنگٹن : اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کی تحقیقات کرنے والے حکام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو عہدے سے ہٹانے کی تجویز پیش کی تھی جس پر عمل نہ ہوسکا۔

    تفصیلات کے مطابق سنہ 2016 میں ہونے والے امریکا کے صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کے معاملے پر تحقیقات کرنے والے عملے نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مسند صدارت سے ہٹانے کی تجویز دی تھی۔

    امریکی اخبار کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کی ہی منتخب کردہ کابینہ کے افراد ناراض ہیں اور جنہوں نے ٹرمپ کو ہٹانے کا مشورہ گیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اخبار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ روسی مداخلت کی تحقیقات کرنے والے حکام نے صدر ٹرمپ کی گفتگو ریکارڈ کرنے اور کابینہ کے ارکان کا تقرر کرنے کی ہدایات کی گئیں تھی۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی کابینہ میں نئے ارکان کا تقرر کرنا آئین میں ترمیم کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاوس سے نکالنا تھا۔

    امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ مذکورہ تجاویز گذشتہ برس ایف بی آئی کے ڈائرریکٹر جیمز کومی کو عہدے سے برطرف کرنے کے بعد سامنے آئی تھیں جس پر مختلف وجوہات کے سبب عمل نہیں ہوسکا تھا۔

    خیال رہے کہ گذشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے معاملے پر تحقیقات امریکا کے لیے باعث شرم ہے، اسے روکا جائے۔

    یاد رہے کہ نومبر 2016 میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل ماہ اکتوبر میں امریکی حکومت نے روس پر ڈیموکریٹک پارٹی پر سائبر حملوں کا الزام عائد کیا تھا۔

    واضح رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما بھی اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ مداخلت کرنے پر روس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

  • عدالت نے ٹرمپ کے سابق مشیر کو قید کی سزا سنا دی

    عدالت نے ٹرمپ کے سابق مشیر کو قید کی سزا سنا دی

    واشنگٹن : عدالت نے امریکا کے صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے معاملے پر سیکیورٹی ایجنسی سے غلط بیانی کرکے حقائق کی پردہ پوشی کرنے پر ٹرمپ کے سابق مشیر جارج پاپا ڈولس کو 14 دن قید اور جرمانے کی سزا سنادی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں دو برس قبل صدارتی انتخابات میں ہونے والی روسی مداخلت کے حوالے سے دیئے گئے بیان پر امریکی عدالت ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق ایڈوائزر جارج پاپا ڈو پولس کو قید کی سزا سنادی۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جارج پاپا ڈولس امریکا کے صدارتی انتخابات کے وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر تھے جنہوں امریکا کے سیکیورٹی ادارے ایف بی آئی سے جھوٹ بولنے اور تحقیقاتی کمیٹی کو گمراہ کرنے کے الزام میں 14 دن کی قید سنادی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر کو سزا پوری کرنے کے بعد بھی ایک سال سیکیورٹی اداروں کی نگرانی میں گزانے میں ہوں گے، اس کے علاوہ جارج کو 200 گھنٹے کمیونٹی کی خدمت میں گزارنے ہوں گے۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق جارج پاپا ڈولس کو 9 ہزار 500 ڈالر کا جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔

    یاد رہے کہ سنہ 2016 میں امریکا کے صدارتی الیکشن میں روس کی مبینہ مداخلت پر جاری تحقیقات کے دوران جارج نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے حقائق کی پردہ پوشی کی تھی۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ انتخابات میں مبینہ مداخلت کے معاملے پر امریکی صدر کے 6 قریبی ساتھیوں کو سزا ہوچکی ہے جس میں ٹرمپ کے وکیل بھی شامل ہیں، جبکہ 13 روسی شہریوں اور 12 افسران پر کیس درج ہے۔

  • صحافی کے سوال پر ’نو‘ کہنے کا مطلب روسی مداخلت سے انکار نہیں، وائٹ ہاوس کی وضاحت

    صحافی کے سوال پر ’نو‘ کہنے کا مطلب روسی مداخلت سے انکار نہیں، وائٹ ہاوس کی وضاحت

    واشنگٹن : وائٹ ہاوس کی ترجمان سارا سینڈر نے امریکی صدر کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کا صحافیوں کے سوال پر ’نو‘ کہنے کا مطلب روسی مداخلت سے انکار نہیں تھا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے صدراتی الیکشن میں ہونے والی روسی مداخلت ملبہ صدر ولادی میر پیوٹن پر گراتے ہوئے کہا ہے کہ ’جس طرح امریکی کارروائیوں کا ذمہ دار ذمہ دار میں ہوں اسی طرح روس کی کارروائیوں کے ذمہ دار ولادی میر پیوٹن ہیں‘۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکا میں سنہ 2016 میں ہونے والی انتخابات میں ہونے والی مداخلت پر پیوٹن کو بحیثیت صدر ذمہ دار سمجھتا ہوں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امریکی صدر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ پر متفق ہوں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کی دوران انٹرویو صحافی نے امریکی صدر سے سوال کیا کہ کیا روس اب بھی امریکا کو نشانہ بنانا رہا ہے، جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا ’نو‘، تاہم کچھ دیر وائٹ ہاوس کی ترجمان سارا سینڈر کو امریکی صدر کے بیان کی وضاحت پیش کرنا پڑگئی۔

    امریکی صدر کی ترجمان سارا سینڈر کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافی کو مزید سوالات جواب دینے کے لیے ’نو‘ کہا تھا۔

    امریکی صدر کی جانب سے روس کی حمایت میں بیان دیئے جانے کے بعد امریکی کانگریس کے اراکین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ساتھ ہی شہری بھی روسی صدر سے ملاقات کے دوران امریکی مؤقف پیش کرنے میں ناکامی پر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مظاہرہ کررہے ہیں۔

    وائٹ ہاوس کی ترجمان سارا سینڈر نے کہا ہے کہ امریکی صدر اور ان کی انتظامیہ اس بات کی یقین دہانی کررہی ہے کہ روس نے امریکی انتخابات میں مداخلت کی ہے یا نہیں، جس طرح ماضی میں کرتا آیا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق سارا سینڈر نے امریکی صدر کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ صحافیوں کی جانب سے کیے جانے والے اکثر سوالات کے جواب میں ’نو، نو‘ کہا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں ٹرمپ روس کی حمایت کررہے ہیں بلکہ انہوں نے مزید سوالوں کے جوابات دینے سے انکار کیا تھا۔

    خیال رہے کہ چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادی میر پیوٹن کے درمیان ہیلسنکی میں پہلی باضبطہ ملاقات ہوئی تھی، جس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے امریکی انتخابات میں روسی مداخلت سے انکار کیا تھا، تاہم تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد انہوں نے اپنی بیان کی تردید کردی تھی۔

    ترجمان وائٹ ہاؤس سارہ سینڈر نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے صحافی کے سوال لینے سے انکار کرتے ہوئے ’نو‘ کہا اس کا ہرگز مطلب روسی مداخلت سے انکار نہیں تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکا کے صدارتی انتخابات کا طریقہ کار

    امریکا کے صدارتی انتخابات کا طریقہ کار

    امریکا میں جاری صدارتی انتخابات نے پوری دنیا کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے دنیا پھر سے نیوز چینل اخبارات اور خبروں سے جڑے افراد امریکا پہنچ چکے ہیں اور براہ راست صدارتی انتخاب کی کوریج کر رہے ہیں جس سے اس انتخاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

    امریکا میں صدارتی طرز حکومت رائج ہے، عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صدر براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے،لیکن امریکا میں یہ صورت حال ذرا مختلف ہے،عوام براہ راست چناؤ کے بجائے بالواسطہ چناؤ کرتے ہیں جس کے لیے امریکی عوام پہلے 538  ’الیکٹرز‘ کا چناؤ کرتے ہیں جو صدارتی امیدواروں کے نام نامزد کرتے ہیں۔

    آج امریکا میں اگلے چار سال کی مدت کے لیے نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں جس میں ری پبلیکن کے ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کے مابین کانٹے دار مقابلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں ریاست ہائے متحدہ امریکا میں سرکاری عمارتوں، ڈاک خانوں اور تعلیمی اداروں کو پولنگ اسٹیشنز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

    امریکی صدارتی امیدوار کے لیے امریکی شہری اور کم سے کم عمر 35 سال ہونا لازمی ہے جس کے لیے امریکا کی ہرریاست میں کم سے کم تین الیکٹرز ہوتے ہیں تا ہم بڑی ریاستوں میں الیکٹرز کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے جیتنے والے صدارتی امیدوارکو حتمی کامیابی کے لیے الیکٹورل کالج کے کم از کم 270 ارکان کے ووٹ حاصل کرنا ہوں گے۔

    ابتدا میں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بآسانی مقابلہ جیت جائیں گے لیکن ہیلری کلنٹن کی بہترین اور موثر انتخابی مہم نے ری پبلیکن کے اس خواب کی تعبیر کو مشکل بنا دیا ہے۔

    تا ہم اگر ہیلری کلنٹن انتخاب جیت جاتی ہیں تو اس کی بڑی وجہ اُن کی کامیاب انتخابی مہم کے بجائے ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازعہ اور نفرت آمیز بیانات بنیں گے۔

  • امریکی صدارتی انتخابات، مسلمان ووٹرزیادہ متحرک ہوگئے

    امریکی صدارتی انتخابات، مسلمان ووٹرزیادہ متحرک ہوگئے

    واشنگٹن : امریکی صدارتی الیکشن میں مسلمان ووٹروں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ نوجوان ووٹروں نے بڑی تعداد میں ووٹنگ لسٹوں میں ناموں کا اندارج کرا لیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف کھلےعام تعصب کا مظاہرہ کیا گیا، جس کا جواب دینے کیلئے مسلم ووٹروں نے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    امریکا میں اٹھارہ برس سے کم عمر مسلمانوں کے اندراج میں پہلی باراضافہ ہوا ہے۔ 18 برس سے کم عمرہزاروں امریکی مسلمان پہلی بار ووٹ ڈالیں گے۔

    ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں اب تک 16 ہزار کے قریب نئے ووٹر رجسٹر ہوئے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذہبی تعصب کی وجہ سے مسلمان اپنی امریکی شناخت کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں اس لیے وہ انتخابی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں : امریکی صدارتی انتخابات، ڈونلڈ ٹرمپ کو ریاست آئیوا میں شکست کا سامنا

     واضح رہے کہ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ صدر بننے کے بعد مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دیں گے، ٹرمپ کے مسلمانوں سے تعصب کی وجہ سے ریپبلکنز کے حامی مسلمان بھی اس بار ڈیموکریٹس کو ووٹ دینے کا ارادہ کررہے ہیں۔

     

  • ٹرمپ اورہلری کلنٹن کے درمیان پہلا مباحثہ 26ستمبر کوہوگا

    ٹرمپ اورہلری کلنٹن کے درمیان پہلا مباحثہ 26ستمبر کوہوگا

    واشنگٹن : امریکہ میں صدارتی انتخابات میں صدارت کے امیدواروں کے مابین مباحث کا آغاز آئندہ پیر سے شروع ہو گا جس میں امیدوار اپنے اپنے انتخابی منشور اور اصلاحات کا دفاع کریں گے۔

    صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثوں کا انتظام کرنے والی تنظیم کے مطابق پہلا مباحثہ آئندہ پیر26 ستمبر کوریاست نیویارک کے شمال مشرقی شہر ہیمسٹڈ کی یونیورسٹی ہافسٹرا میں ہوگا جسے امریکہ کی تمام ریاستوں میں براہ راست نشرکیا جائے گا۔

    کمیشن آن پریذیڈنٹل ڈیبیٹ نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ کیے گئے سروے کے تحت ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار ہلری کلنٹن رائے عامہ کے لیے مقرر کردہ پانچ جائزوں میں مطلوبہ کم از کم 15فی صد اوسط حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔

    اس لیے 26 ستمبرکو ہونے والے پہلے مباحثے میں صرف دوبڑی سیاسی جماعتوں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد امیدوارہی شرکت کر سکیں گے یوں امریکی عوام ہلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کو اس مباحثے میں دو بدو حصہ لیتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔

    واضح رہے کہ رائے عامہ کے حالیہ جائزوں میں کلنٹن کو اوسطاً 43 فی صد اور ٹرمپ کو اوسطاً 40 اعشاریہ 4 فی صد کی عوامی حمایت حاصل ہے۔

    اس کے علاوہ ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نائب صدو انڈیانا کے گورنر مائک پنس اور ورجینیا کے گورنر ٹم بھی ریاست ورجینیا کے شہر فارم ول کی لانگ وڈ یونیورسٹی میں چار اکتوبرکو ہونے والے مباحثے میں حصہ لے سکیں گے۔

    اس طرح چار مباحثوں کے اس سلسلے کا تیسرا مباحثہ 9 اکتوبر کو سینٹ لوئیس اور چوتھا اور آخری 19 اکتوبر کو لاس ویگس میں ہوگا۔

  • لاس ویگاس میں برطانوی شہری کی ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے کی کوشش

    لاس ویگاس میں برطانوی شہری کی ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے کی کوشش

    لاس ویگاس : برطانوی شہری مائیکل اسٹیون اسٹیفرڈ نے گزشتہ روز ایک انتخابی ریلی کے دوران امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ کردیا،ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ محفوظ رہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں امریکی صدر کے لیے جاری انتخابات کے سلسلے میں ایک ریلی منعقد کی گئی تھی، یہ ریلی ممکنہ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابہ مہم کا حصہ تھی۔

    ریلی کے دوران برطانوی شہری اسٹیون اسٹیفورڈ نے امریکی صدارتی امیدواراور اپنے متنازعہ و نفرت آمیز بیانات کے لیے شہرت رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ پر برطانوہ باشندے نے آٹو گراف لینے کے بہانے قاتلانہ حملہ کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجینسی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ لاس ویگاس میں انتخابی ریلی میں شریک تھے کہ برطانوی شہری مائکل اسٹیون نامی برطانوی شہری نے پولیس اہلکار سے کہا کہ وہ ٹرمپ کا آٹوگراف لینا چاہتا ہے اور اسی دوران مائیکل اسٹیفرڈ نے پولیس اہلکار کی پشت پر لگے ہولسٹر سے گن نکالنے کی کوشش کی لیکن اہلکار نے اسے فوری قابو کرلیا۔

    پولیس ذرائع کے مطابق مائیکل اسٹیون اسٹینفرڈ کو قاتلانہ حملہ کرنے کی کوشش کرنے پر گرفتار کر کے آج عدالت میں پیش کیا گیاہے جہاں پولیس حکام نے موقف اختیار کیا کہ اسٹینفرڈ معاشرے کے لیے خطرہ ہے اس لئے معزز عدالت ملزم کو ضمانت نہ دے، جس پر عدالت نے ملزم کو 5 جولائی تک کے ریمانڈ پردپولیس کی تحویل دے دیا۔

    پولیس کے مطابق ملزم اسٹیون اسٹینفرڈ نے ابتدائی تفتیش میں اعتراف کیا ہے کہ وہ کیلیفورنیا سے لاس ویگاس صرف اس وجہ سے آیا تھا تا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرسکے جس کے لیے ملزم نے فائرنگ کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔

    ملزم اسٹینفرڈ نے دعویٰ کیا کہ اگر لاس ویگاس میں حملہ ناکام ہوجاتا تو آئندہ فینکس میں ہونے والے جلسے میں ملزم ڈونلڈ ٹرمپ پر دوبارہ قاتلانہ حملہ کرتا جس کے لیے ملزم نے پہلے ہی سے ٹکٹ خرید رکھا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجینسی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ اور ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے برطانوی دفترِ خارجہ سے رابطہ کرنے پر دفتر خارجہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ لاس ویگاس میں برطانوی شہری کو گرفتار کیا گیا ہے اورہم اسے قانونی مدد فراہم کررہے ہیں۔