Tag: امریکی صدر

  • امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف ایک دن میں دو اہم فیصلے

    امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف ایک دن میں دو اہم فیصلے

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ایک ہی دن میں دو اہم فیصلے کیے گئے ہیں، جس کے بعد ان کی دوسری مدت کے لیے صدارتی انتخابی مہم کے لیے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مالیاتی ریکارڈ سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، صدر ٹرمپ کے خلاف ماتحت عدالت مالیاتی ریکارڈ فراہم کرنے کی رولنگ دے چکی ہے۔

    عدالتی فیصلے کے خلاف امریکی صدر نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، اپیل میں امریکی صدر نے مالیاتی ریکارڈ تک رسائی روکنے کی استدعا کی ہے۔ دوسری طرف یہ فیصلہ ہوا ہے کہ سپریم کورٹ اس مقدمے میں اپنی رولنگ 30 جون تک جاری کرے گی، مقدمے کا فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت کے لیے صدارتی انتخابی مہم کے دوران سامنے آئے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:  ٹرمپ کے مستقبل کا فیصلہ آئندہ ہفتے متوقع، دو نکات کی منظوری

    ادھر امریکی ہاؤس پینل میں ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے 2 آرٹیکل منظور کر لیے گئے ہیں، جن کے تحت صدر ٹرمپ کا اختیارات کا ناجائز استعمال، مداخلتِ بے جا پر مواخذہ کیا جائے گا، اس مواخذے پر آیندہ ہفتے فل ہاؤس ووٹنگ متوقع ہے، امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ مواخذے کا سامنا کرنے والے تیسرے امریکی صدر ہوں گے۔

    خیال رہے کہ کمیٹی نے ٹرمپ پر دو الزامات عائد کیے ہیں، جن میں سے پہلا ملک سے دھوکا دہی کا الزام ہے، دوسرا الزام اسکینڈل کے حوالے سے ہونے والی کانگریس کی تفتیش میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے متعلق ہے۔

  • امریکی صدر نے چین سے جاری تجارتی جنگ روکنے کی ڈیل پر دستخط کر دیے

    امریکی صدر نے چین سے جاری تجارتی جنگ روکنے کی ڈیل پر دستخط کر دیے

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے جاری تجارتی جنگ روکنے کے لیے ہونے والی ڈیل پر دستخط کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق خبر ایجنسی کا کہنا ہے کہ امریکا چینی مصنوعات پر عائد اضافی ٹیکسز میں کمی کرنے پر رضا مند ہو گیا ہے، ٹرمپ نے اس سلسلے میں ڈیل پر دستخط کر دیے، ٹیکسوں میں کمی کا اطلاق اتوار سے ہوگا۔

    برطانوی خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ چین نے امریکا سے درآمدات بڑھانے کا عندیہ بھی دے دیا ہے، ڈیل کے خبر پر ایشیائی حصص بازاروں میں نمایاں تیزی دیکھی گئی ہے، جاپانی اسٹاک مارکیٹ میں 2 اعشاریہ 3 فی صد کا اضافہ نوٹ کیا گیا، ہانگ کانگ میں 2 فی صد جب کہ شنگھائی اسٹاک مارکیٹ میں 1.2 فی صد کا اضافہ ہوا، گزشتہ روز امریکی اسٹاک مارکیٹس کا اختتام بھی مثبت ہوا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:  تجارتی جنگ شدت اختیار کرگئی، امریکا نے 28 چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کردیا

    یاد رہے کہ دو ماہ قبل امریکا نے 28 چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کر دیا تھا، چینی کمپنیوں پر امریکی مصنوعات کی خریداری پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی، اگست میں امریکی اقدامات کے جواب میں چین نے بھی بھاری ڈیوٹیز عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    اکتوبر کے مہینے کے آخر میں دونوں ممالک کے درمیان آخر کار فیصلہ ہوا کہ تجارتی جنگ کا خاتمہ کیا جائے گا، جس کے لیے تیزی سے تکنیکی مشاورت کا عمل مکمل کیا گیا، اور باہمی رضا مندی کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کیا گیا جس کے تحت ایک دوسرے کی مصنوعات پر اضافی ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا۔

  • چین کے ساتھ بڑے معاہدے کے قریب پہنچ گئے، امریکی صدر

    چین کے ساتھ بڑے معاہدے کے قریب پہنچ گئے، امریکی صدر

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ بڑے معاہدے کے قریب پہنچ گئے، معاہدہ دونوں ممالک چاہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ امریکا اور چین بڑے معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں، معاہدہ دونوں ممالک چاہتے ہیں۔

    امریکا کے ساتھ ڈیل چاہتے ہیں لیکن تجارتی جنگ سے خوفزدہ نہیں، چینی صدر

    اس سے قبل گزشتہ ماہ چینی صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ چین امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکا کے ساتھ ابتدائی طور پر ایک تجارتی معاہدہ چاہتے ہیں۔

    چینی صدر نے خبردار کیا تھا کہ جیسے ہم نے ہمیشہ کہا کہ ہم تجارتی جنگ شروع نہیں کرنا چاہتے لیکن ہم اس سے خوف زدہ بھی نہیں، جب ضرورت ہوتی تو تجارتی جنگ سے پیچھے بھی نہیں ہٹیں گے۔

    انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہم امریکا کے ساتھ پہلے مرحلے میں کام کے لیے باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر معاہدہ کرنا چاہتےہیں۔

  • مواخذے کی کارروائی، آئینی ماہرین نے بھی ٹرمپ کے خلاف بیانات دے دیے

    مواخذے کی کارروائی، آئینی ماہرین نے بھی ٹرمپ کے خلاف بیانات دے دیے

    واشنگٹن: امریکی ایوان نمائندگان میں صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی جاری ہے، 3 آئینی ماہرین نے بھی ایوان نمائندگان میں ٹرمپ کے خلاف بیانات دے دیے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق آئینی ماہرین نے ایوان نمائندگان میں جاری ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کے دوران اپنے بیانات ریکارڈ کرا دیے، آئینی ماہرین نے کہا کہ یوکرین کے صدر پر دباؤ ڈال کر صدر ٹرمپ نے قابل مواخذہ کام کیا۔

    آئینی ماہرین نے کہا کہ ٹرمپ کا 2020 میں جوبائیڈن کے خلاف کارروائی کا کہنا جرم ہے، ٹرمپ کو صدارتی انتخاب میں غیر ملکی مداخلت کی مزاحمت کرنا چاہیے تھی، ٹرمپ کا یوکرینی صدر کو کارروائی کا کہنا اختیار کا نا جائز استعمال ہے۔

    دوسری طرف امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یوکرین کے صدر کو انھوں نے جو کہا وہ امریکا کے مفاد میں کہا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:  مواخذے کی کارروائی ، گواہوں نے ٹرمپ کے خلاف بیان دے دیا

    21 نومبر کو بھی مواخذے کی کارروائی کے دوران گواہان نے ٹرمپ کے خلاف بیانات ریکارڈ کرائے تھے، امریکی سفیر گورڈن سونڈلینڈ نے بیان دیا کہ صدر ٹرمپ نے یوکرین پر انتخابی حریف کے خلاف تحقیقات کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

    یاد رہے امریکی ایوان نمائندگان میں صدر ٹرمپ کے مواخذے کی تحقیقات سے متعلق کارروائی میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ امریکا کے 45 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کے عہدے سے برخاست کیا جائے یا نہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ ذاتی مفاد کے لیے انھوں نے صدارت کے عہدے کا غلط استعمال کیا ہے۔

  • اسرائیلیوں کے ہم درد ٹرمپ کا سیاسی انجام کیا ہو گا؟

    اسرائیلیوں کے ہم درد ٹرمپ کا سیاسی انجام کیا ہو گا؟

    امریکی کانگریس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کررہی ہے۔ اس سلسلے میں پہلی سماعت 4 دسمبر کو ہو گی۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ کس الزام کے تحت کیا جارہا ہے۔ مواخذے کی کارروائی کا طریقۂ کار اور ماضی میں کن امریکی صدور کو اس کا سامنا کرنا پڑا تھا، چند سطور میں جانیے۔

    امریکی صدر پر کیا الزام ہے؟
    ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انھوں نے یوکرین کے صدر کو سابق امریکی نائب صدر اور صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے بیٹے کے خلاف مبینہ کرپشن کے الزامات کی تحقیقات شروع کروانے پر مجبور کرنے کے لیے یوکرین کی فوجی امداد روک لی تھی۔

    مواخذے کی کارروائی میں کون سا نکتہ اہمیت رکھتا ہے؟
    سماعت کے دوران یہ دیکھا جائے گا کہ کیا امریکی صدر نے مبینہ کرپشن کی تحقیقات شروع نہ کرنے پر یوکرین کو امداد روکنے کی دھمکی دی تھی یا نہیں۔

    مواخذہ کیا ہے؟
    اس کا سادہ سا مطلب صدر کے خلاف الزامات کو کانگریس کے سامنے لانا ہے جس کے بعد ہی صدر کے خلاف مقدمے کی کارروائی ممکن ہوتی ہے۔

    امریکی آئین کیا کہتا ہے؟
    امریکی آئین میں ملک کے صدر کو بغاوت، رشوت ستانی کے علاوہ کسی بڑے جرم یا ان کے کسی عمل کی سزا دینے لیے یہ راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ کارروائی ایوانِ نمائندگان سے شروع ہوتی ہے جس کی منظوری سادہ اکثریت دیتی ہے۔ تاہم مقدمہ سینیٹ میں چلتا ہے۔ اس مرحلے پر صدر کی اس کے عہدے سے برطرفی کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔

    امریکی تاریخ میں کن صدور کو مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا؟
    سیاسی داؤ پیچ اور اختلافات کی بنیاد پر مواخذے کی بات تو مختلف صدور کے حوالے سے کی جاتی رہی ہے مگر اب تک دو ہی امریکی صدور کا مواخذہ ہوا ہے۔

    بل کلنٹن امریکا کے 42 ویں صدر تھے جن پر الزامات میں انصاف کا راستے میں رکاوٹ بننا، مونیکا لیونسکی کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں جھوٹ بولنا شامل تھا۔ یہ 1998 کی بات ہے جب صدر کے خلاف مواخذے کے لیے رائے شماری ہوئی۔ 1999 میں سماعت کے بعد یہ معاملہ سینیٹ میں گیا تھا۔

    دوسرے صدر اینڈریو جانسن تھے جو امریکا کے 17 ویں سربراہ تھے۔ 1868 میں انھیں اپنے خلاف مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کارروائی ان کی جانب سے اپنے ایک وزیر ایڈون سینٹن کو عہدے سے ہٹانے کے بعد عمل میں آئی۔

  • دوبارہ طالبان سے امن معاہدے پر کام کر رہے ہیں: امریکی صدر

    دوبارہ طالبان سے امن معاہدے پر کام کر رہے ہیں: امریکی صدر

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ریاست ہاے متحدہ امریکا کے صدر نے افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر پھر سے کام شروع ہونے سے متعلق امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کچھ وقت پہلے طالبان سے معاہدہ ہونے جا رہا تھا لیکن طالبان نے قتل و غارت شروع کر دی۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا امن معاہدے کے لیے پیش رفت جاری تھی اور طالبان نے سوچا کہ لوگوں کو قتل کر کے وہ مذاکرات میں زیادہ بہتر پوزیشن میں آ جائیں گے۔ جس کی وجہ سے مذاکرات معطل ہو گئے، تاہم اب دوبارہ طالبان سے امن معاہدے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

    امریکی صدر نے انٹرویو کے دوران افغان طالبان کی قید سے آسٹریلوی اور امریکی پروفیسرز کیون کنگ اور ٹموتھی وییکس کی رہائی کا خیر مقدم بھی کیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  امریکی قیدیوں کی رہائی پر صدر ٹرمپ کا عمران خان سے اظہار تشکر

    خیال رہے کہ رواں سال ستمبر میں طالبان کے کابل میں حملے اور متعدد افراد کی ہلاکت کے بعد صدر ٹرمپ نے نمایندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں طالبان سے ہونے والے امن مذاکرات منسوخ کر دیے تھے۔

    یاد رہے کہ دو دن قبل امریکی صدر اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا تھا، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں مغویوں کی رہائی کے سلسلے میں سہولت فراہم کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا۔

  • ٹرمپ کا امریکی امداد مذہبی آزادی سے مشروط کرنے کا فیصلہ

    ٹرمپ کا امریکی امداد مذہبی آزادی سے مشروط کرنے کا فیصلہ

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیگر ممالک کے لیے امریکی امداد مذہبی آزادی سے مشروط کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں مذہبی آزادی امریکا کی اولین ترجیحات میں شامل ہوگئی، اب امریکی امداد ان ممالک کو دی جائے گی جہاں مذہبی آزادی ہوگی، انسانوں کی فلاح وبہبود اور فوجی امداد بھی مذہبی آزادی سے مشروط کی جائے گی۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق وائٹ ہاؤس حکام کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے اس فیصلے سے متعلق حکمت عملی تیار کررہے ہیں، نئے فیصلے پر جلد قانون سازی کی جائے گی، صدر ٹرمپ اس حوالے سے جلد ایگزیکٹیو حکم نامہ پر دستخط کریں گے۔

    امریکی صدر مذہبی آزادی کو امریکا کی اولین ترجیح بنانا چاہتے ہیں، امریکا دنیا بھر میں مذہبی آزادی کو فروغ دینا چاہتا ہے، امداد سے قبل مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کا نام مذہبی آزادیوں کی غیر تسلی بخش صورت حال رکھنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا تھا، جس کے بعد پاکستان نے مذہبی آزادی سےمتعلق امریکی رپورٹ مسترد کردی تھی اور کرارا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ تعصب پرمبنی رپورٹ امریکا کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان ہے، پاکستان کو اپنی اقلیتوں سے متعلق بیرونی مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ پاکستان نے کرتارپورراہداری کھول کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہاں تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادی ہے۔

  • ابوبکر البغدادی کے جانشین کو بھی ختم کر دیا: ڈونلڈ ٹرمپ

    ابوبکر البغدادی کے جانشین کو بھی ختم کر دیا: ڈونلڈ ٹرمپ

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے امریکا کو آئی ایس آئی ایس کے خلاف ایک اور کامیابی ملی ہے، ابوبکر البغدادی کے جانشین کو بھی ختم کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر نے ٹویٹ کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ داعش کے ہلاک سربراہ ابوبکر البغدادی کے جانشین کو بھی امریکی فوجیوں نے ٹھکانے لگایا، ان کا کہنا تھا کہ جو مارا گیا ہے وہ تنظیم میں اہم مقام پر تھا۔

    امریکی صدر نے داعش کے مارے گئے شخص کی شناخت یا اس سے متعلق مزید تفصیل نہیں بتائی، تاہم پیر کو امریکا نے داعش کے ترجمان ابو الحسن المہاجر کی موت کی تصدیق کی تھی، جسے امریکی فورسز نے شام میں مار دیا تھا۔

    واضح رہے کہ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی لاش کی باقیات سمندر برد کر دی گئی ہیں، بتایا جا رہا ہے کہ شام میں آپریشن کے دوران امریکی فوج کا ایک کتا ہیرو ثابت ہوا، جس نے داعش سربراہ ابوبکر البغدادی کا بند سرنگ میں پیچھا کیا، فرار کا راستہ نہ ملنے پر داعش سربراہ نے خود کو بم سے اڑا لیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  ابو بکر البغدادی کی ہلاکت ، داعش کا نیا سربراہ کون؟

    امریکی صدر ٹرمپ نے ٹویٹر پر ایک کتے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ اس نے ابوبکر البغدادی کو پکڑنے اور ہلاک کرنے کے آپریشن میں حصہ لیا۔

    دوسری طرف کرد جنگجوؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ البغدادی کی ہلاکت کی تصدیق چوری شدہ انڈر وئیر سے ہوئی، ان کے ایجنٹوں نے اس کا انڈر ویئر چوری کر لیا تھا جس سے حاصل ڈی این اے سے کی موت کی تصدیق کی گئی۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی پر عائد تمام پابندیاں اٹھانے کا اعلان کر دیا

    ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی پر عائد تمام پابندیاں اٹھانے کا اعلان کر دیا

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی پر عائد تمام پابندیاں اٹھانے کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر نے کہا تھا کہ اگر ترکی جنگ بندی سے متعلق معاہدے کی پاس داری کرے تو پابندیاں اٹھائی جا سکتی ہیں، آج انھوں نے وائٹ ہاؤس میں باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ترکی پر عائد تمام پابندیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ پابندیاں اٹھانے کا فیصلہ ترکی اور شام میں سیز فائر پر کیا گیا ہے، اگر سیز فائر کو برقرار نہیں رکھا گیا تو امریکا پھر سے پابندیاں لگا دے گا۔

    گزشتہ روز امریکی صدر نے ٹویٹ کے ذریعے کہا تھا کہ ترکی اور شام کی سرحد پر ہمیں بڑی کامیابی ملی ہے، سیف زون بن چکا ہے، انھوں نے ترکی اور شام کے درمیان جنگ بندی پر خوشی کا اظہار کیا، اور لکھا کہ جنگ بندی ہو چکی اور لڑائی ختم ہو گئی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  لڑائی ختم ہو گئی، ترکی، شام بارڈر پر بڑی کامیابی ملی: امریکی صدر

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کرد اب محفوظ ہیں اور انھوں نے معاملات نمٹانے کے سلسلے میں ہمارے ساتھ مل کر اچھے طریقے سے کام کیا، داعش کے پکڑے گئے قیدی بھی اب محفوظ ہیں۔

    خیال رہے کہ سیز فائر معاہدے کے تحت کرد شام اور ترکی بارڈر کے ساتھ موجود علاقے سے نکالے گئے ہیں، ترکی اس علاقے کو سیف زون بنانے کا خواہاں تھا۔ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے شمالی شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے فیصلے کا دفاع کیا۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہماری فوج کا کام دنیا میں پولیس کا کردار ادا کرنا نہیں، دیگر ممالک کو بھی آگے آ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، لیکن ایسا تاحال نہیں ہوا ہے، آج کا فیصلہ اسی سمت میں امریکا کی طرف سے ایک سنجیدہ قدم ہے۔

  • لڑائی ختم ہو گئی، ترکی، شام بارڈر پر بڑی کامیابی ملی: امریکی صدر

    لڑائی ختم ہو گئی، ترکی، شام بارڈر پر بڑی کامیابی ملی: امریکی صدر

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی اور شام کی سرحد پر ہمیں بڑی کامیابی ملی ہے، سیف زون بن گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے تازہ پیغام میں ترکی اور شام کے درمیان جنگ بندی پر خوشی کا اظہار کیا، انھوں نے لکھا کہ جنگ بندی ہو چکی اور لڑائی ختم ہو گئی ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ کرد اب محفوظ ہیں اور انھوں نے معاملات نمٹانے کے سلسلے میں ہمارے ساتھ مل کر اچھے طریقے سے کام کیا۔

    امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ داعش کے پکڑے گئے قیدی بھی اب محفوظ ہیں، میں اس سلسلے میں گیارہ بجے صبح وائٹ ہاؤس سے باضابطہ بیان جاری کروں گا۔

    تازہ ترین:  امریکا کا ترکی سے پابندیاں ہٹانے کا عندیہ

    واضح رہے کہ آج امریکی حکام نے عندیہ دیا تھا کہ اگر ترکی جنگ بندی سے متعلق معاہدے کی پاس داری کرے تو اس پر سے عائد پابندیاں اٹھائی جا سکتی ہیں، واشنگٹن حکام نے ترکی سمیت کرد جنگجوؤں پر بھی دباؤ ڈالا کہ وہ سیز فائر سے متعلق ہونے والے معاہدے کی پاس داری کریں۔

    ادھر عالمی رہنما خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ شمالی شام میں جنگ بندی کے خاتمے سے خوف و ہراس کے ساتھ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ خیال رہے کہ امریکا اور ترکی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت ترکی نے کردوں کو سرحدی علاقہ خالی کرنے کے لیے پانچ دن (120 گھنٹے) کی مہلت دی تھی۔

    ترکی اپنے مشرقی سرحد سے ملحقہ شامی علاقے میں 35 لاکھ شامی مہاجرین کو بسا کر ایک ’سیف زون‘ بنانا چاہتا تھا تاہم اس علاقے سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد ایک بحران پیدا ہوا اور وہاں پر کردوں کی موجودگی پر ترکی نے علاقہ خالی کروانے کے لیے آپریشن شروع کر دیا تھا۔