Tag: امریکی صدر

  • طیارہ حملے کے خوف سے امریکی حکام میں کھلبلی، بائیڈن آنا فاناً محفوظ مقام پر منتقل

    طیارہ حملے کے خوف سے امریکی حکام میں کھلبلی، بائیڈن آنا فاناً محفوظ مقام پر منتقل

    واشنگٹن: طیارہ حملے کے خوف سے امریکی حکام میں کھلبلی مچ گئی، سیکیورٹی اہل کاروں نے جو بائیڈن اور ان کی اہلیہ کو آنا فاناً ساحلی گھر سے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ہفتے کو ایک چھوٹا نجی طیارہ غلطی سے نو فلائی زون میں داخل ہونے پر امریکی حکام میں کھلبلی مچ گئی، وائٹ ہاؤس نے کہا کہ طیارہ صدر بائیڈن کے بیچ ہاؤس کے اوپر سے ممنوع فضائی حدود میں اڑا، جس پر اہل کاروں نے انھیں اور خاتون اول کو فوری طور پر محفوظ مقام پر منتقل کیا۔

    واقعے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کی حفاظت میں غفلت کی خبریں منظر عام پر آنے لگیں، وائٹ ہاؤس نے کہا کہ ایک طیارہ اچانک ’نو فلائی زون‘ میں داخل ہو گیا تھا، جس کے پیش نظر سیکیورٹی ادارے الرٹ ہو گئے۔

    یہ واقعہ ڈیلاویئر کے ریہوبوتھ بیچ پر پیش آیا، وائٹ ہاؤس کے ایک اہل کار نے واقعے کے بارے میں کہا کہ صدر اور ان کی اہلیہ محفوظ ہیں اور ان پر کوئی حملہ نہیں ہوا ہے، اہل کار نے بتایا کہ جو بائیڈن اور ان کی اہلیہ جل بائیڈن بعد میں اپنی رہائش گاہ پر واپس آ گئے۔

    امریکی صدر کی حفاظت پر مامور سیکرٹ سروس نے بیان میں کہا کہ طیارہ غلطی سے محفوظ علاقے میں داخل ہو گیا تھا، سیکرٹ سروس کے ترجمان انتھونی گوگلیلمی نے کہا کہ پائلٹ مناسب ریڈیو چینل پر نہیں تھا اور ہدایات پر عمل نہیں کر رہا تھا۔

    امریکی خفیہ سروس کے مطابق مذکورہ پائلٹ سے اس واقعے کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی۔

  • بائیڈن کو دیکھ کر لوگ نعرے لگانے لگے ’کچھ کریں، کچھ کریں‘

    بائیڈن کو دیکھ کر لوگ نعرے لگانے لگے ’کچھ کریں، کچھ کریں‘

    ٹیکساس: امریکی ریاست ٹیکساس میں فائرنگ کا نشانہ بننے والے اسکول کے دورے کے موقع پر لوگ صدر بائیڈن کو دیکھ کر ڈو سم تِھنگ کے نعرے لگانے لگے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن نے ٹیکساس میں فائرنگ کا نشانہ بننے والے اسکول راب ایلیمنٹری کا دورہ کیا، جہاں موجود لوگ انھیں دیکھ کر نعرے لگانے لگے ‘کچھ کریں، کچھ کریں’۔

    امریکی صدر نے یادگار پر سفید پھول چڑھائے اور اس موقع پر وہ آب دیدہ بھی ہوئے، انھوں نے لوگوں کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے کہا ’ہاں میں کروں گا۔‘

    بائیڈن جب اتوار کو اسکول پہنچے تو وہاں بچوں کے والدین اور دوسرے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے، جو بائیڈن مرنے والے بچوں کے والدین اور ان افراد سے ملے جو اس واقعے میں بچ گئے تھے، امریکی صدر نے سانحے میں جان سے جانے والے 19 بچوں کے لیے دعا بھی کی۔

    خیال رہے کہ فائرنگ کے بعد امریکا میں اس امر پر بہت غصہ پایا جاتا ہے کہ حملہ آور ایک گھنٹے تک کلاس روم میں موجود رہا، جب کہ پولیس باہر انتظار کرتی رہی اور بچے 911 پر کالز کرتے رہے۔

    امریکی عدالت انصاف نے کہا ہے کہ اس امر کا پھر سے جائزہ لیا جا رہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا رد عمل سست کیوں تھا۔

    امریکی صدر نے دورے کے دوران ایک ٹویٹ بھی کی، جس میں انھوں نے لکھا ’ہم آپ کے ساتھ دکھ کا اظہار کرتے ہیں، ہم آپ کے لیے دعا کرتے ہیں، ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اس دکھ کو عمل میں تبدیل کریں گے۔‘

    اسکول پر فائرنگ کے واقعے کے بعد سے یہ بحث پھر سے زوروں پر ہے کہ امریکا میں ہتھیاروں کو کنٹرول کیا جائے اور اسلحے کے مخالف لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اس کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں۔ موجودہ ڈیموکریٹ امریکی صدر بائیڈن، کئی بار اس ضمن میں بڑے اقدامات کا خیال ظاہر کرتے رہے ہیں تاہم ابھی تک فائرنگ کے ایسے واقعات نہیں روکے جا سکے اور نہ ہی امریکی صدر ری پبلکنز کو قائل کر پائے ہیں کہ سخت قوانین کی بدولت ایسے واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔

  • ‘بیماری اور موت سے بھرے موسمِ سرما کے لیے تیار رہیں’

    ‘بیماری اور موت سے بھرے موسمِ سرما کے لیے تیار رہیں’

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے کرونا ویکسین نہ لگوانے والوں کو وارننگ دے دی ہے، انھوں نے کہا کہ ویکسین نہ لگوانے والے بیماری اور موت سے بھرے موسمِ سرما کے لیے تیار رہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے شہریوں سے کرونا ویکسین کی تیسری ڈوز لگوانے کی اپیل کرتے ہوئے ویکسین کے مخالفین کو بیماری اور موت کے خطرے سے بھرے موسم سرما سے خبردار کیا ہے۔

    وائٹ ہاؤس میں کووِڈ نائٹین کوآرڈینیشن ٹیم کے ساتھ ملاقات کے بعد جو بائیڈن کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے لیے بیان جاری کیا گیا۔

    انھوں نے کہا کہ اگر آپ ویکسین لگواتے ہیں یا پھر آپ نے ویکسین کورس پورا کر لیا ہے، تو آپ شدید بیماری یا بیماری کے نتیجے میں موت کے خطرے سے محفوظ ہو جائیں گے۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا حکومت کی جانب سے اختیار کردہ اقدامات کے سبب اومیکرون ویرینٹ ممکنہ حد تک تیزی سے نہیں پھیلا، لیکن اب یہ وائرس چوں کہ امریکا میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا ہے تو اس پھیلاؤ میں آئندہ دنوں میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

    بائیڈن نے خبردار کیا کہ بیماری اور موت سے بھرا موسم سرما ویکسین نہ لگوانے والوں کا منتظر ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا بھر میں اس وقت پھیلے کرونا انفیکشن کے ایک تہائی کیسز کی وجہ اومیکرون ویرینٹ ہے، دنیا بھر کے صحت حکام کہہ رہے ہیں کہ اومیکرون ویرینٹ ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے، تاہم اچھی بات یہ ہے کہ اومیکرون کی علامات ڈیلٹا کے مقابلے میں کم شدت والی ہوتی ہیں۔

  • امریکا کی پہلی خاتون قائم مقام صدر کون ہیں؟

    امریکا کی پہلی خاتون قائم مقام صدر کون ہیں؟

    امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کو طبی معائنے کے دوران نائب صدر کملا ہیرس کو مختصر دورانیے کے لیے اقتدار منتقل کیا جس کے بعد وہ قائم مقام صدر بن گئیں۔

    کملا ہیرس نے ایک گھنٹے اور 25 منٹ کے لیے قائم مقام صدر بن کر تاریخ رقم کر دی، وہ ملکی تاریخ کی پہلی خاتون بن گئی جنہوں نے امریکا کے صدر کے اختیارات سنبھالے۔

    وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر جو بائیڈن کی معمول کے طبی معائنے کے دوران کلونو سکوپی کی گئی جس کے لیے انہیں اینستھیزیا دیا گیا۔

    صدر جو بائیڈن اپنی 79 ویں سالگرہ کے دن جمعے کی صبح دارالحکومت واشنگٹن سے کچھ دور واقع والٹر ریڈ میڈیکل سینٹر گئے تھے۔ جو بائیڈن امریکی تاریخ میں صدارت کے منصب پر فائز ہونے والے سب سے عمر رسیدہ صدر ہیں۔

    واضح رہے کہ جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر بائیڈن کا یہ پہلا طبی معائنہ ہے۔

    کلونو سکوپی کے دوران جو بائیڈن کو بے ہوش کیا گیا جس کے دوران ماضی کی طرح نائب صدر نے اقتدار سنبھالا، جس میں امریکی مسلح افواج اور جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے پر کنٹرول بھی شامل ہے۔

    قبل ازیں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ صدر بائیڈن مختصر مدت کے لیے نائب صدر کو اقتدار منتقل کریں گے جب وہ بے ہوشی کی حالت میں ہوں گے، نائب صدر اس دوران ویسٹ ونگ میں اپنے دفتر سے کام کریں گی۔

    57 سالہ کملا ہیرس نائب صدر کے عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہیں جبکہ اب انہیں امریکا کی پہلی خاتون قائم مقام صدر بننے کا بھی اعزاز حاصل ہوچکا ہے، یہی نہیں بلکہ وہ ان دونوں عہدوں پر براجمان رہنے والی پہلی سیاہ فام ایشیائی نژاد خاتون بھی ہیں۔

    امریکا کے آئین میں 25 ویں ترمیم کے مطابق جو بائیڈن نے عارضی صدر اور ایوان نمائندگان کے اسپیکر کو دستخط شدہ خط لکھ دیا تھا جس میں انہوں نے آگاہ کیا کہ وہ اینستھیزیا کے دوران وہ اپنے فرائض نبھانے سے قاصر ہوں گے لہٰذا کملا ہیرس قائم مقام صدر ہوں گی۔

    طبی معائنہ مکمل ہونے کے بعد کملا ہیرس صدارتی فرائض جو بائیڈن کو واپس کر دیں گی۔

    جین ساکی کے مطابق آئین کے تحت اقتدار کی عارضی منتقلی سال 2002 اور 2007 میں بھی ہوئی تھی جب صدر جارج ڈبلیو بش کو اسی قسم کے طبی مرحلے سے گزرنا پڑا تھا۔

  • امریکا میں سرکاری ملازمین کے لیے کرونا ویکسی نیشن لازمی قرار

    امریکا میں سرکاری ملازمین کے لیے کرونا ویکسی نیشن لازمی قرار

    واشنگٹن: امریکا میں تمام سرکاری ملازمین کے لیے کرونا ویکسین لازمی قرار دے دی گئی، صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ ویکسین نہ لگوانے والے لوگ پورے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے حوالے سے اہم فیصلہ کرتے ہوئے تمام سرکاری ملازمین کے لیے کرونا ویکسین لگوانا لازمی قرار دے دیا ہے۔

    امریکا میں 1 کروڑ سے زائد سرکاری ملازمین اور کنٹریکٹرز مختلف عہدوں پر تعینات ہیں۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکا میں تاحال 8 کروڑ افراد نے کرونا ویکسین نہیں لگوائی، امریکا میں کرونا وائرس کے باعث یومیہ اموات 1 ہزار تک پہنچ گئی۔

    صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ ویکسین نہ لگوانے والے لوگ پورے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

  • امریکی صدر اچانک غیر مقبول ہو گئے

    امریکی صدر اچانک غیر مقبول ہو گئے

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن اچانک غیر مقبول ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک سروے میں معلوم ہوا ہے کہ افغانستان کی صورت حال سنبھالنےمیں ناکامی اور انخلامیں جلد بازی کی وجہ سے جو بائیڈن کی مقبولیت میں ڈرامائی کمی آ گئی ہے۔

    سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکیوں کی ایک نمایاں اکثریت کو شک ہے کہ افغانستان کی جنگ مفید تھی، یہاں تک کہ صدر بائیڈن خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کو جس طرح لے کر چل رہے ہیں، اس پر امریکا کہیں زیادہ تقسیم نظر آ رہا ہے۔

    سروے کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی مقبولیت کا گراف 50 فی صد سے بھی نیچے آ گیا ہے، اور امریکا کے صرف 25 فی صد عوام جو بائیڈن کی افغان پالیسی کے حق میں ہیں۔

    بائیڈن نے کابل حکومت کی حفاظت کے لیے 2500 فوجی کیوں نہ چھوڑے؟

    سروے میں دو تہائی نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ امریکا کی طویل ترین جنگ مفید تھی، جب کہ 47 فی صد نے بین الاقوامی امور کے انتظام کے لیے بائیڈن کی توثیق کی، اور 52 فی صد نے قومی سلامتی کے حوالے سے بائیڈن کی حمایت کی۔

    یہ سروے 12 سے 16 اگست کو کیا گیا تھا، ایسے میں کہ افغانستان میں دو دہائیوں کی جنگ ختم ہو گئی ہے، اورطالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے ہیں، انھوں نے دارالحکومت کابل پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔

    طالبان نے مجموعی طور پر معاہدے کی پاسداری کی، جوبائیڈن

    اس صورت حال پر بائیڈن کو واشنگٹن میں دو طرفہ مذمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، کیوں کہ طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی کے سلسلے میں کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی جس سے ایک انسانی بحران نے جنم لیا ہے۔

  • بائیڈن نے کابل حکومت کی حفاظت کے لیے 2500 فوجی کیوں نہ چھوڑے؟

    بائیڈن نے کابل حکومت کی حفاظت کے لیے 2500 فوجی کیوں نہ چھوڑے؟

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن پر اس حوالے سے تنقید کی جا رہی ہے کہ انھوں‌ نے کابل حکومت کی حفاظت کے لیے 2500 فوجی کیوں نہ چھوڑے؟

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کے افغانستان سے 31 اگست تک فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد طالبان نے تیزی سے افغانستان کے صوبوں پر قبضہ کیا اور کابل کا کنٹرول بھی سنبھال لیا، جس پر ناقدین سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیوں صدر بائیڈن نے گرائی گئی حکومت کی حفاظت کے لیے کابل میں 2500 فوجی نہیں چھوڑے؟

    فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جب جو بائیڈن نے جنوری میں عہدہ سنبھالا تو افغانستان میں‌ اتنے ہی فوجی موجود تھے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ تعداد 15 ہزار سے کم کی تھی۔

    بظاہر کابل میں 2500 فوجی اور 16 ہزار سویلین کنٹریکٹرز موجود تھے، 29 فروری 2020 کو سابق امریکی صدر کے طالبان سے انخلا کے معاہدے کے بعد یہ فوجی افغان حکومت کو اقتدار میں رکھنے کے لیے کافی تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ معاہدے کی پاس داری کرتے ہوئے طالبان کی جانب سے امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف حملے نہیں ہوئے اور ایک بھی امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا۔

    ‘کابل میں طالبان کے آنے کے بعد پاکستان میں ٹی ٹی پی دوبارہ متحرک ہو سکتی ہے’

    ناقدین کے مطابق اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فوج کی کم تعداد بھی کابل کو طالبان کے خلاف مضبوط رکھ سکتی تھی، ریپبلکن سینیٹر میکونل کا کہنا ہے کہ ہمارے 2500 فوجی وہاں موجود تھے، افغانستان سے نکلنے کی بجائے جو بائیڈن افغان فوجوں کی مدد میں اضافہ کر سکتے تھے، اگر ہم طالبان کو افغانستان پر غالب آنے دیں اور القاعدہ واپس آئے تو عالمی سطح پر جہادی تحریک پر اس کا اثر ہوگا۔

    فوجی تاریخ دان میکس بوٹ نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا تھا کہ اگر امریکا 2500 فوجی چھوڑتا اور فضائی مدد افغان فوجیوں کو فراہم کرتا تو توازن برقرار رہتا، طالبان صرف دور دراز علاقوں میں پیش قدمی کرتے، اور حکومتی عمل داری قائم رہتی۔

  • افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں: جو بائیڈن

    افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں: جو بائیڈن

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ہمارا مشن کبھی بھی قوم کی تعمیر نو نہیں تھا، افغان فوج کو سب کچھ دیا لیکن لڑنے کا جذبہ نہیں دے سکتے، افغان فورسز لڑنے کو تیار نہیں، امریکی فوجی کیوں اپنی جانیں گنوائیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی قوم سے خطاب کیا، اپنے خطاب میں جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان جانے کا مقصد تعمیر نو نہیں تھا، افغانستان میں ہمارا مشن دہشت گردی کی روک تھام تھا۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ میرے پاس بطور صدر 2 ہی راستے تھے، امن معاہدے پر عمل پیرا ہوتا یا دوبارہ افغانستان میں لڑائی کرتا، ہم نے افغان فوج پر اربوں ڈالرخرچ کیے، ہر طرح کے ہتھیار فراہم کیے، افغانستان سے فوج واپسی کا فیصلہ درست ہے۔

    انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کا تیزی سے خاتمہ حیرت کی بات ہے، افغان فورسز کی تنخواہیں تک ہم ادا کرتے تھے، افغان فوج خود لڑنے کے لیے تیار نہیں تھی، انہوں نے سرینڈر کردیا، افغان فورسز خود نہیں لڑنا چاہیں تو امریکی فوج کیا کر سکتی ہے۔

    جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ اشرف غنی کو مشورہ دیا تھا افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کریں، اشرف غنی نے ہماری تجویز مسترد کی اور کہا افغان فوج لڑے گی، افغان طالبان کے ساتھ معاہدہ سابق صدر ٹرمپ نے کیا تھا، دوسروں کی غلطیوں کو ہم نے نہیں دہرانا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ چین اور روس نے افغانستان کے لیے کچھ نہیں کیا، چین اور روس کی خواہش ہوگی کہ امریکا افغانستان میں مزید ڈالر خرچ کرے، امریکی فوج وہ جنگ نہیں لڑ سکتی جو افغان فوج خود اپنے لیے نہ لڑے، افغان عوام کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھاتے رہیں گے۔

    جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغان فوج کو سب کچھ دیا لیکن لڑنے کا جذبہ نہیں دے سکتے، افغان فورسز لڑنے کو تیار نہیں، امریکی فوجی کیوں اپنی جانیں گنوائیں۔ افغان جنگ میں مزید امریکی نہیں جھونک سکتے، افغانستان سے اتحادی افغان شہریوں کو نکال رہے ہیں، اگر انخلا روکنے کی کوشش کی گئی تو سخت جواب دیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجود امریکیوں کو واپس لایا جائے گا، انسانی حقوق ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیح ہونی چاہئیں، انخلا مکمل ہونے پر امریکا کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا، افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں، افغانستان سے انخلا کا فیصلہ درست اور امریکی عوام کے مفاد میں ہے۔

    جو بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں اپنا سفارتخانہ بند کر دیا ہے اور عملے کو واپس بلا لیا ہے، اگر طالبان نے امریکی مفادات پر حملے کیے تو سخت جواب دیں گے، افغان عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔

    بعد ازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہمارا مشن کبھی بھی قوم کی تعمیر نو نہیں تھا، ہم 20 سال پہلے واضح اہداف کے ساتھ افغانستان گئے تھے، ہمارا ہدف 11 ستمبر کو حملے کرنے والوں کو پکڑنا تھا اور القاعدہ کو حملوں کے لیے افغانستان کو بطور بیس استعمال سے روکنا تھا۔

    ٹویٹ میں صدر بائیڈن نے مزید کہا کہ ہم نے ایک دہائی پہلے ہی افغانستان میں اہداف حاصل کر لیے تھے، افغانستان میں جو واقعات دیکھ رہے ہیں وہ افسوسناک ہیں، امریکی فوج کی چاہے کتنی بھی تعداد ہو وہ افغانستان کو مستحکم و محفوظ نہیں بنا سکتی، جو آج ہو رہا ہے وہ 5 سال پہلے بھی ہو سکتا تھا اور 15 سال بعد بھی۔

  • جو بائیڈن کی افغان طالبان کو وارننگ

    جو بائیڈن کی افغان طالبان کو وارننگ

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے افغان طالبان کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان افغانستان میں موجود امریکیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے سے باز رہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے افغان طالبان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان امریکیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے سے باز رہیں، افغانستان میں ایسے کسی بھی اقدام کا جواب فوجی طاقت سے دیا جائے گا۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ میری انتظامیہ نے قطر میں طالبان حکام کو آگاہ کر دیا ہے۔

    جو بائیڈن نے افغانستان سے انخلا میں معاونت کے لیے مزید امریکی افواج بھیجنے کی منظوری دے دی، انہوں نے کہا کہ انخلا میں معاونت کے لیے افغانستان میں 5 ہزار فوجی تعینات کر رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ طالبان اب تک افغانستان کے 20 صوبائی دارالحکومتوں پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔

    افغان میڈیا کے مطابق 70 فیصد افغانستان پر طالبان قابض ہوچکے ہیں، افغان صدر اشرف غنی کا آبائی صوبہ لوگر کا دارالحکومت پل علم بھی طالبان کے قبضے میں چلا گیا۔

    جن صوبوں پر طالبان نے قبضہ کیا ہے ان میں نمروز، جوزجان، سریل، تخار، قندوز، سمنگان، فراہ، بغلان، بدخشاں، غزنی، ہرات، بادغیس، قندھار، ہلمند، غور، اروزگان، زاہل، لوگر، پکتیکا اور کنڑ شامل ہیں۔

  • امریکی صدر کا خصوصی سپر سانک طیارہ، آواز سے دگنی رفتار

    امریکی صدر کا خصوصی سپر سانک طیارہ، آواز سے دگنی رفتار

    واشنگٹن: امریکی صدر کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجیز سے آراستہ ایک سپر سانک ہوائی جہاز تیار کیا جا رہا ہے، جو آواز سے دگنی رفتار سے اڑے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ریاست کیلیفورنیا کی ایک کمپنی ایگزوسانک امریکی فضائیہ کے ساتھ مل کر ایسے سپر سانک ہوائی جہاز پر کام کر رہی ہے، جو اگلا ایئر فورس وَن ہو سکتا ہے۔

    ایگزوسانک نامی کمپنی کو یہ کام تب سونپا گیا تھا جب اس کے لو-بوم سپر سانک ماک 1.8 ٹوئن جیٹ نے امریکی فوج کو کافی متاثر کیا۔

    یہ طیارہ 31 نشستوں کا حامل ہوگا، جو ایگزوسانک کے کمرشل ایئر لائن جیٹ کی بنیاد پر بنایا جائے گا، اور اسے بزنس جیٹ جہازوں کا عروج کہا جا رہا ہے، جس میں چمڑے کی نشستیں، نفیس لکڑی اور سنگ چینی کا کام اور آرام اور کام کے لیے علیحدہ مقامات اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار موجودہ ہوائی جہازوں سے دو گنی ہوگی۔

    اس جہاز کے ڈیزائن میں میں دو نجی حصوں میں سے پہلا حصہ تین مسافروں کے لیے میٹنگ رُوم کی صورت میں ہے، جس میں محفوظ وڈیو ٹیلی کانفرنس کی سہولت ہوگی تاکہ کام کے لیے آن لائن ہونے اور صحافیوں سے گفتگو کی سہولت ملے، یہاں چمڑے کی گھومنے والی نشستیں ہیں اور وڈیو مانیٹر کو بھی تہہ کر کے بند کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے حصے میں سیدھی نشستیں ہیں جن کے ساتھ موجود کرسی کو اپنی مرضی کی اونچائی پر رکھا جا سکتا ہے، یہاں سینئر عملہ مل کر کام یا آرام کر سکتا ہے، اور مین کیبن میں 20 بزنس کلاس نشستیں ہیں۔

    ایگزو سانک کا یہ ہوائی جہاز 5 ہزار بحری میل یعنی 9,260 کلومیٹرز کی رینج رکھتا ہے اور آواز سے تقریباً دو گنی رفتار کی صلاحیت بھی، اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی لو-بوم ٹیکنالوجی زمین پر رہنے والے لوگوں کو متاثر نہیں کرتی، عموماً سپر سانک ہوائی جہازوں سے بہت زیادہ آواز پیدا ہوتی ہے، جس سے لوگ بہت پریشان ہوتے ہیں۔

    اس جہاز کی زیادہ سے زیادہ رفتار ماک 1.8 یعنی 2,222 کلومیٹرز فی گھنٹہ ہوگی، کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ جہاز 2030 کی دہائی کے وسط تک فضاؤں میں پرواز کرے گا۔

    واضح رہے کہ اٹلانٹا میں قائم ہرمیوس کارپوریشن بھی 20 نشستوں والا ایک ہائپر سانک طیارے پر کام کر رہی ہے، یہ سپر سانک نہیں بلکہ ہائپر سانک ہوگا جو صرف 90 منٹ میں نیو یارک سے لندن پہنچے گا۔ ہرمیوس امریکی فضائیہ اور ناسا سمیت مختلف اداروں کے ساتھ ملک کر ایک ماک 5 جہاز بنانے کے لیے بھی کام کر رہا ہے، یعنی آواز کی رفتار سے 5 گُنا رفتار پر اڑنے والا طیارہ۔