Tag: امریکی عدالت

  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کو غیر ملکی امدادی تنظیموں کو ادائیگی روکنے کی اجازت نہیں دی

    امریکی عدالت نے ٹرمپ کو غیر ملکی امدادی تنظیموں کو ادائیگی روکنے کی اجازت نہیں دی

    واشنگٹن : امریکی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو غیر ملکی امدادی تنظیموں کو رقم کی ادائیگی روکنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر دنیا بھر میں چلنے والے انسانی ہمدردی کے منصوبوں پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایسے میں امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے ٹرمپ کے فیصلے کو روک دیا گیا ہے۔

    امریکی سپریم کورٹ نے ضلعی جج امیر علی کے اس حکم کو برقرار رکھا، جس میں انتظامیہ کو امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور محکمہ خارجہ کے کنٹریکٹرز اور گرانٹ وصول کنندگان کو ان کے ماضی کے کام کی ادائیگی فوری طور پر کرنے کا کہا گیا تھا۔

    جج علی کے حکم کے مطابق انتظامیہ کو 26 فروری تک فنڈز جاری کرنے کا کہا گیا تھا، جس کی مجموعی رقم تقریباً 2 ارب ڈالر بتائی گئی ہے جس کی مکمل ادائیگی میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔

    چیف جسٹس جان رابرٹس اور ان کی ساتھی ایمی کونی بیرٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے امریکی عدالت کے 3 لبرل ممبران کے ساتھ اکثریتی فیصلہ دیا، جبکہ کنزرویٹو جسٹس سیموئل علیٹو، کلیرنس تھامس، نیل گورسچ اور بریٹ کاوانوف نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر نے 20 جنوری کو اپنے عہدے پر فائز ہونے کے پہلے دن تمام غیر ملکی امداد کو 90 دن کے لیے روکنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے۔

    امریکی صدر نے اپنے سب سے بڑے عطیہ دہندہ اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کی سربراہی میں جنگی اقدامات کا آغاز کیا ہے تاکہ امریکی حکومت کے بڑے حصے کو کم یا ختم کیا جا سکے۔

    سب سے زیادہ توجہ امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) پر مرکوز ہے، جو دنیا بھر میں امریکی انسانی امداد کی تقسیم کی بنیادی تنظیم ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ہزاروں غیر ملکی ملازمین کو واپس بلا لیا اور غیر ملکی امداد منجمد کردی۔

  • امریکی عدالت کے فیصلے سے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا

    امریکی عدالت کے فیصلے سے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا

    واشنگٹن : امریکی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وفاقی نگران ادارے کے سربراہ ہیمپٹن ڈیلنگر کی برطرفی کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی ڈسٹرکٹ جج ایمی برمن جیکسن نے وفاقی نگران ادارے کے سربراہ کو برطرف کرنے کے فیصلے کو "غیر قانونی” قرار دے دیا۔

    عدالت نے گزشتہ روز فیصلہ سنایا کہ آزاد نگران ایجنسی کے سربراہ کو برطرف کرنے کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اختیارات پر عائد پابندیاں آئینی ہیں، جس سے یہ معاملہ ممکنہ طور پر سپریم کورٹ میں پہنچ سکتا ہے۔

    جج کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ ڈیلنگر کو برطرف کرنے کی کوشش صدر ٹرمپ کے اختیارات سے تجاوز کے زمرے میں آتی ہے، اس سے ایگزیکٹو برانچ کے عہدیداروں کو غیر قانونی دباؤ ڈالنے کا موقع ملے گا۔

    جج جیکسن نے اس بات کو مسترد کیا کہ اس قانون کا اطلاق غیر آئینی ہے، اور کہا کہ یہ قانون وفاقی ملازمین اور خاص طور پر وسل بلورز کو تحفظ فراہم کرتا ہے تاکہ وہ غیر قانونی سلوک کا مقابلہ کر سکیں۔

    انہوں نے کہا کہ صدر مخصوص قانونی وجوہات کی بنا پر اسپیشل کونسل کے سربراہ کو برطرف کر سکتے ہیں، لیکن وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھیجی گئی مختصر ای میل میں کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی تھی، جس میں محض اتنا لکھا تھا کہ اسپیشل کونسل کو برطرف کر دیا گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق حالیہ فیصلے کے بعد محکمہ انصاف نے اس کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان کیا ہے، ٹرمپ انتظامیہ کے وکلا کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ٹرمپ کے اختیارات کی حدود کو محدود کرتا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ ایک جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یو ایس ایڈ کے 2200 ملازمین کو بمعہ تنخواہ جبری رخصت پر بھیجنے سے متعلق منصوبے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے کچھ گھنٹے قبل عارضی طور پر روک دیا تھا۔

     

  • امریکی عدالت نے صدر ٹرمپ کا ایک اور فیصلہ روک دیا

    امریکی عدالت نے صدر ٹرمپ کا ایک اور فیصلہ روک دیا

    امریکی عدالت نے یو ایس ایڈ کے ملازمین سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے پروگرام کو مکمل ختم کرنے سے روک دیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی جج نے صدر ٹرمپ کی جانب سے یو ایس ایڈ کے ہزاروں ملازمین کو جبری رخصت پر بھیجنے کے فیصلے کو عارضی طور پر روک دیا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غیرملکی امداد روکنے کے احکامات کے بعد یو ایس ایڈ خاتمے کے قریب پہنچ گئی تھی۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ ٹرمپ نے بغیر کسی ثبوت کے اس پر بدعنوانی کے الزامات لگائے۔

    واشنگٹن میں ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے جج کارل نکولس نے کہا ہے کہ وہ امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) کے 2 ہزار 200 ملازمین کو جبری رخصت پر بھیجنے کے منصوبے کو عارضی طور پر روک دیں گے۔

    یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام کے خلاف ایک مقدمے کے دوران سامنے آیا ہے جس میں امریکی سرکاری ملازمین کی یونین اور غیر ملکی سروس ورکرز کی ایک ایسوسی ایشن نے یو ایس ایڈ کو بند کرنے کے حکومتی اقدام کو چیلنج کیا تھا۔

    مذکورہ عدالت کے جج کارل نکولس، جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دورِ صدارت میں نامزد کیا تھا، نے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ وہ اپنا تحریری فیصلہ بعد میں جاری کریں گے۔

    مقدمہ دائر کرنیوالی یونین نے عدالت سے کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ صدر ٹرمپ نے اس اقدام کے لیے کانگریس سے اجازت نہیں لی۔ یونین کا یہ بھی مؤقف ہے کہ یو ایس ایڈ کیخلاف صدر ٹرمپ کا اقدام غیر آئینی اور غیرقانونی ہے۔

    ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ روز یو ایس ایڈ کے ملازمین کو نوٹس بھیج کر اعلان کیا تھا کہ وہ دنیا بھر میں ایجنسی کے 10ہزار سے زائد ملازمین میں سے صرف 611 انتہائی ضروری” ملازمین کو برقرار رکھے گی۔

    واضح رہے کہ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں بعد ہی’’سب سے پہلے امریکا‘‘ پالیسی کے تحت ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا، جس کے مطابق تمام امریکی غیر ملکی امداد کو معطل کر دیا گیا تھا۔

    https://urdu.arynews.tv/usaids-end-nears-almost-all-staff-laid-off/

  • امریکی عدالت میں پولیس افسر  نے جج کو قتل کردیا

    امریکی عدالت میں پولیس افسر نے جج کو قتل کردیا

    امریکا کی جنوبی ریاست کینٹکی میں پیش آنے والے واقعے میں پولیس افسر نے معمولی تکرار کے بعد جج کو قتل کردیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق واقعے کے بعد کاؤنٹی لیچر کے پولیس افسر مِکی سٹائنز کو حراست میں لے لیا گیا ہے، جو امریکی عدالت میں جج پر فائرنگ کے واقعے میں ملوث ہے۔

    پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق خط میں پولیس نے بتایا کہ امریکی عدالت میں مِکی سٹائنز اور 54 سالہ جج کیون مُلنز کے درمیان تکرار ہوئی، تاہم ابتدائی تحقیقات میں قتل کا اصل مقصد واضح نہیں کیا گیا ہے۔

    کینٹکی کے گورنر اینڈی بیشیئر نے ایکس پر پوسٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ دوپہر کے وقت جج کو فائرنگ کر کے ان کے چیمبر میں قتل کر دیا گیا ہے۔

    اُن کا اپنی پوسٹ میں مزید کہنا تھا کہ اس دنیا میں بہت زیادہ تشدد ہے، دعاگو ہوں کہ بہتر مستقبل کے لیے کوئی راستہ نکلے۔

    درجنوں خواتین سے زیادتی، سابق سی آئی اے اہلکار کو سزا سنادی گئی

    واضح رہے کہ اسلحے کے ذریعے تشدد کے واقعات امریکہ میں کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں لوگوں کی تعداد سے زیادہ اسلحہ موجود ہے۔

  • حماس کے نئے سربراہ یحیٰی السنوار پر امریکی عدالت میں فردِ جرم عائد

    حماس کے نئے سربراہ یحیٰی السنوار پر امریکی عدالت میں فردِ جرم عائد

    حماس کے نئے سربراہ یحیٰی السنوار پر امریکی عدالت میں فردِ جرم عائد کر دی گئی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی عدالت نے حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار اور دیگر 5 رہنماؤں پر فردِ جرم عائد کی ہے، تمام افراد پر 7 اکتوبر کو اسرائیل میں حملے کی منصوبہ بندی کرنے اور حملہ آوروں کو مالی امداد مہیا کرنے کا الزام ہے۔

    6 میں سے تین حماس رہنما جن پر فردِ جرم عائد ہوئی ہے، انتقال کر چکے ہیں، اسرائیل کی جانب سے شہید کیے گئے سابق حماس سربراہ اساعیل ہنیہ پر بھی فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔

    جنوبی اسرائیل میں 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے میں 40 سے زائد امریکیوں سمیت 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد صہیونی فورسز نے غزہ پر ایسے وحشیانہ حملوں کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیا ہے، جو ابھی تک جاری ہے اور جس میں اب تک 40 ہزار 861 سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں اور غزہ کے زیادہ تر علاقے کو برباد کر دیا گیا ہے۔

    حماس رہنماؤں پر الزامات میں دہشت گرد تنظیم کو مادی تعاون کی فراہمی کے لیے سازش کرنا، امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی سازش، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی سازش کرنا شامل ہیں۔

    فرد جرم میں ایران اور حزب اللہ پر بھی راکٹوں اور فوجی سامان سمیت مالی مدد اور ہتھیار فراہم کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

  • گوگل سرچ انجن غیر قانونی اجارہ داری کا مرتکب قرار، امریکی عدالت کا فیصلہ

    گوگل سرچ انجن غیر قانونی اجارہ داری کا مرتکب قرار، امریکی عدالت کا فیصلہ

    واشنگٹن : امریکی عدالت نے سرچ انجن ’گوگل‘ کے خلاف دائر ایک مقدمے میں اسے غیر قانونی اجارہ داری کا مرتکب قرار دے دیا۔

    امریکی فیڈرل جج کی جانب سے کیے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گوگل نے عدم اعتماد کے قانون کی خلاف ورزی کی، ادارے نے ایک غیر قانونی اجارہ داری قائم کرنے اور دنیا کا ڈیفالٹ سرچ انجن بننے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کیے۔

    یہ عدالتی فیصلہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مارکیٹ پر غلبے کے خلاف وفاقی حکام کی پہلی بڑی کامیابی ہے، اس فیصلے نے ممکنہ اصلاحات کا تعین کرنے کیلئے دوسرے مقدمے کی راہ ہموار کی ہے جس میں ممکنہ طور پر گوگل پیرنٹ الفابیٹ کا ٹوٹنا بھی شامل ہے جو آن لائن اشتہاری دنیا کے منظر نامے کو تبدیل کردے گا جس پر گوگل برسوں سے غلبہ رکھتا ہے۔

    Google

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی ڈسٹرکٹ جج امیت مہتا نے 277 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ گوگل ایک اجارہ دار ادارہ ہے اور اس نے اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے غیرقانونی طریقے اپنائے۔

    اپنے فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ ’گوگل‘ آن لائن سرچ مارکیٹ کا تقریباً 90فیصد شیئر اور اسمارٹ فونز پر 95فیصد کنٹرول کرتا ہے۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گوگل کو اپنے غیر مسابقتی رویے کو روکنا ہوگا، گوگل کی جانب سے ایپل اور دیگر موبائل کمپنیوں سے کیے جانے والے خصوصی معاہدے مسابقتی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔

    فیصلے میں امریکی جج نے مزید کہا کہ گوگل کی جانب سے آن لائن اشتہارات کے لیے زیادہ فیس لی جاتی ہے جس سے اس کی آن لائن سرچ میں اجارہ داری کی طاقت ظاہر ہوتی ہے۔

    اس حوالے سے امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے اس فیصلے کو امریکی عوام کے لئے ایک تاریخی فتح قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی کمپنی چاہے وہ کتنی ہی بڑی یا با اثر کیوں نہ ہو – قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

    وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کارین جین پیئر کا کہنا تھا کہ یہ عدالتی فیصلہ امریکی عوام کے لئے ایک فتح ہے، امریکی عوام ایک ایسا انٹرنیٹ چاہتے ہیں جو آزاد، منصفانہ اور مقابلے کے لئے آزاد ہو۔

  • بیوی کو سفاکی سے قتل کرنیوالے بھارتی شہری کا عبرتناک انجام

    بیوی کو سفاکی سے قتل کرنیوالے بھارتی شہری کا عبرتناک انجام

    فلوریڈا : امریکہ میں رہائش پذیر ایک بھارتی شہری کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے جس نے اپنی بیوی کو انتہائی وحشیانہ طریقے سے قتل کیا تھا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ 2020 میں ایک ہسپتال کے پارکنگ ایریا میں پیش آیا تھا جہاں اس شخص کی بیوی بطور نرس کام کرتی تھیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 26سالہ میرن جوئی ایک ہسپتال میں بحیثیت نرس ملازمت کرتی تھی، پولیس کے مطابق سال 2020 میں اس کے شوہر گلپ میتھیو نے اس پر چاقو کے 17 وار کیے۔

    پولیس کے مطابق شوہر نے میرن جوئی کو گاڑی میں بند کرکے اس پر چاقو کے وار کیے اور بعد اسے نیچے گرا کر اس کے جسم پر گاڑی بھی چڑھا دی تھی۔

    قتل

    میرن جوئی کے دفتری ساتھیوں میں سے ایک نے بعد میں بتایا کہ میتھیو نے جوئی پر گاڑی ایسے چلائی جیسے وہ کسی سڑک کا اسپیڈ بریکر ہو۔ جب وہاں جوئی کے دیگر ساتھی جمع ہوئے تو وہ چیخ رہی تھی کہ ’میرا ایک بچہ بھی ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ میرن جوئی نے اپنی موت سے قبل خود پر حملہ کرنے والے ملزم کی شناخت بھی ظاہر کر دی تھی۔

    ریاستی اٹارنی کے دفتر کی ترجمان پاؤلا میک موہن نے کہا کہ سزائے موت کو معاف کرنے کا فیصلہ عمر قید کے یقینی ہونے کی وجہ سے کیا گیا تھا اور کیونکہ مدعا علیہ اپیل کے اپنے حق سے دستبردار ہو رہا تھا۔

  • امریکی عدالت نے قاتل کے آنسوؤں سے متاثر ہوکر اسے بری کر دیا

    امریکی عدالت نے قاتل کے آنسوؤں سے متاثر ہوکر اسے بری کر دیا

    وسکونسن: امریکی عدالت نے ایک قاتل کے آنسوؤں سے متاثر ہوکر اسے بری کر دیا، عدالتی فیصلے پر امریکی صدر جو بائیڈن نے اظہار ناراضی کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست وسکونسن میں نسلی امتیاز کے خلاف مظاہرہ کرنے والے 2 افراد کے قتل کے الزام میں گرفتار سفید فام امریکی شہری کائل رِٹنہاؤس کو الزام سے بری کر دیا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق ملزم نے امریکی عدالت میں رو رو کر صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ انھیں مظاہرین سے جان کا خطرہ تھا، اس لیے اس نے گولیاں چلائیں۔

    امریکی عدالت نے دلائل اور بیانات پر غور کرنے کے بعد کائل رِٹنہاوس کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔

    یاد رہے کہ سفید فام امریکی شہری کائل رِٹنہاؤس نے 25 اگست 2020 کو کنوشا میں نسلی امتیاز کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر فائرنگ کر کے 2 افراد کو ہلاک اور ایک کو زخمی کیا تھا۔ اس کیس میں امریکی عدالت کی 12 رکنی جیوری نے تین دن غور کے بعد فیصلہ سنایا، جسے سیاہ فام امریکیوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

    عدالتی فیصلے کے بعد امریکا میں نسلی امتیاز پر نئی بحث چھڑ گئی ہے، اور امریکی معاشرہ نسلی بنیاد پر واضح طور پر تقسیم ہو کر رہ گیا ہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے اس پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ وسکونسن میں گزشتہ سال نسلی بدامنی کے دوران دو افراد کو گولی مار کر ہلاک کرنے والے نوجوان کو بری کیے جانے کے فیصلے پر وہ ‘ناراض’ ہیں۔

    جو بائیڈن نے کہا کہ اس فیصلے سے مجھ سمیت کئی امریکیوں کو غصہ اور تشویش ہوگی، مگر لوگوں کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اب جیوری فیصلہ سنا چکی ہے۔ دوسری طرف متعدد ڈیموکریٹ اراکین نے اس فیصلے کو عدالت کی بے ضمیری قرار دے دیا، تاہم کچھ کانگریس مین اس فیصلے کے حق میں ہیں۔

  • امریکی عدالت کی4 لاکھ تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کی اجازت

    امریکی عدالت کی4 لاکھ تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کی اجازت

    واشنگٹن: امریکی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو 4 لاکھ امیگرینٹس کو ملک بدر کرنے کی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی عدالت نے امیگرینٹس کے لیے عارضی تحفظ کا پروگرام ختم کرتے ہوئے 4 لاکھ امیگرینٹس کو امریکا بدر کرنے کی اجازت دی دی۔

    عدالت کے فیصلےمیں ایک جج نے مخالفت،2 نے ٹرمپ انتظامیہ کے حق میں فیصلہ دیا۔فیصلے کے مطابق4 لاکھ امیگرینٹس کی قانونی حیثیت ختم کر دی جائےگی۔

    امریکی میڈیا کے مطابق عدالتی فیصلے سے ال سلواڈور،ہیٹی،سوڈان کے امیگرینٹس متاثر ہو رہے ہیں۔

    ٹرمپ انتظامیہ نے امیگرینٹس کے لیے عارضی تحفظ کے پروگرام کو چیلنج کیا ہوا تھا۔سرکاری وکلا نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ان ممالک میں ایمرجنسی کی صورتحال ختم ہوچکی ہے،ان ممالک سے آنے والے لوگوں کو اب محفوظ جگہوں کی ضرورت نہیں ہے۔

    ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے متاثرہ امیگرینٹس کو 5 مارچ 2021 تک امریکا میں رہنے کی اجازت ہے۔

    خیال رہے کہ متاثرہ امیگرینٹس متعدد سالوں سے امریکامیں رہ رہے ہیں۔نئی پالیسی شام،جنوبی سوڈان،صومالیہ،یمن کے امیگرینٹس پر اثر انداز نہیں ہوگی۔

  • پہلی سعودی خاتون امریکی عدالت میں معاون جج مقرر

    پہلی سعودی خاتون امریکی عدالت میں معاون جج مقرر

    ریاض: سعودی عرب کی پہلی خاتون کو امریکا کی ایک عدالت میں معاون جج تعینات کردیا گیا، خاتون امریکا میں زیر تعلیم ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق امریکی عدالت نے سرکاری اسکالر شپ پر زیر تعلیم سعودی اسکالر خاتون کو معاون جج تعینات کر دیا۔

    سعودی اسکالر خاتون ہیا الشمری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بتایا کہ انہیں امریکی عدالت میں معاون جج کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔

    عدالت میں سعودی اسکالر کی حیثیت رضا کارانہ ہوگی، وہ اس وقت امریکا میں قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ الشمری نے کنگ سعود یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لا سے ایل ایل بی کیا ہے جبکہ وہ قانون میں اعلیٰ ڈپلومہ بھی حاصل کرچکی ہیں۔

    وہ اعلیٰ تعلیم اور وکالت کی پریکٹس کے لیے اسکالر شپ پر امریکا گئی ہیں جہاں وہ قانون میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔ الشمری پہلی سعودی اسکالر خاتون ہیں جنہیں امریکی عدالت میں معاون جج بنایا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز مملکت کی نائب وزیر برائے پائیدار ترقی اور جی 20 کے امور کی معاون، شہزادی ہیفا بنت عبد العزیز آل مقرن کو اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) میں سعودی عرب کی مستقل مندوب مقرر کیا گیا۔

    شہزادی ہیفا نے سنہ 2008 سے 2009 کے دوران کنگ سعود یونیورسٹی میں لیکچرار کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ دسمبر 2017 سے پائیدار ترقیاتی امور کے اسسٹنٹ انڈر سیکریٹری سمیت وزارت اقتصادیات اور منصوبہ بندی میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔