Tag: امل

  • کراچی: میڈیکل کی طالبہ کی ہلاکت، معمہ حل نہ ہوسکا، واقعہ کئی سوالات چھوڑ گیا

    کراچی: میڈیکل کی طالبہ کی ہلاکت، معمہ حل نہ ہوسکا، واقعہ کئی سوالات چھوڑ گیا

    کراچی: شہر قائد کے علاقے انڈہ موڑ  پر مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والی میڈیکل کی طالبہ نمرہ کی موت کا معمہ حل نہ ہوسکا.

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں پولیس کی بے حسی اور غیر پیشہ ورانہ رویہ پھر  عیاں ہوگیا، انڈہ موڑ  پر گولی لگنے سے میڈیکل کی طالب نمرہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔

    22 سالہ نمرہ بیگ کو سر میں گولی لگی،  نمرہ کو جناح اسپتال لایا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی، البتہ یہ تعین نہیں‌ ہوسکا کہ وہ ڈاکوؤں کی گولی کا نشانہ بنی تھی یا پولیس کی فائرنگ کی زد میں آئی.

    عینی شاہدین کے بیانات میں بھی تضاد ہے،کچھ افراد کا کہنا تھا کہ نمرہ ڈاکوؤں کی فائرنگ کا نشانہ بنی،  ایک عینی شاہد کا کہنا ہے لوٹ مار کے دوران لڑکی نے شور مچایا تو ڈاکوؤں نے گولی چلادی۔ البتہ مقتولہ کے گھر تعزیت کے لیے آنے والی عینی شاہد خاتون نے اس کا ذمے دار پولیس کی فائرنگ کو قرار دیا۔

    زخمی ہونے کے بعد نمرہ کی فوری موت واقع نہیں ہوئی،  مگر فوری ایمبولینس نہ ملنے کے باعث  اسے درکار طبی امداد نہ مل سکی.

     لڑکی کے ماموں کا کہنا ہے کہ موبائل میں بیٹھے پولیس اہل کار  کہہ رہے تھے کہ بڑی غلطی ہوگئی۔ مبینہ مقابلےمیں زخمی ڈاکو آئی سی یو میں زیر علاج  ہے۔

    ابتدائی تفتیش میں پولیس نے  دعویٰ کیا کہ نمل کو چھوٹے ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا۔ یاد رہے کہ پولیس کےپ اس نائن ایم ایم اور ایس ایم جی دونوں ہتھیار تھے۔

    کیا امل کی قربانی رائیگاں گئی؟


    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں امل بل بھی پاس ہوا تھا، لیکن کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی،  ننھی امل اور مقصود کے بعد نمرہ بھی پولیس کے اناڑی پن اور قانون کے جبر کا شکار ہوگئی۔

    نمرہ کی جان بچائی جاسکتی تھی ،لیکن عباسی شہید اسپتال میں وینٹی لیٹر نہیں تھا،  جناح اسپتال میں لیڈی ایم ایل او نے پوسٹ مارٹم سے انکار کردیا، حالاں کہ قانون موجود ہے۔

    یوں لگتا ہے کہ حکومت اپنے قوانین پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ نہیں اور انتظامیہ نے پچھلے واقعات سےکوئی سبق نہیں سیکھا۔

    دوسری طرف حکومتی نمایندے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے نظر آئے۔

  • امل عمر بل، شکر ہے ہماری بیٹی کی قربانی رائیگاں نہیں گئی: والدہ

    امل عمر بل، شکر ہے ہماری بیٹی کی قربانی رائیگاں نہیں گئی: والدہ

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والی 10 سالہ امل کی والدہ کا کہنا ہے کہ اگر ہماری بچی کی قربانی سے بہتری آنی ہے تو یہی ہمارے لیے تسلی بخش ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ اسمبلی میں امل عمر کے نام سے منسوب بل پیش کیے جانے کے بعد امل کے والدین نے سندھ حکومت کے مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کی۔

    امل کی والدہ کا کہنا تھا کہ جو واقعہ پیش آیا اس کی ذمہ داری سندھ حکومت کی ہی بنتی ہے لیکن اگر حکومت اپنی غلطی تسلیم کر رہی ہے اور اسے بہتر کرنا چاہ رہی ہے تو ہم اس کے حق میں ہیں۔

    انہوں نے کہا واقعے کے بعد سندھ حکومت کے رویے پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

    امل کی والدہ کا کہنا تھا کہ اگر ہماری بچی کی قربانی سے بہتری کا آغاز ہونے جارہا ہے تو ہمارے لیے یہ تسلی بخش بات ہے۔

    اس سے قبل سندھ اسمبلی میں زخمیوں کے علاج سے متعلق ایکٹ کا مسودہ پیش کیا گیا۔ مجوزہ قانون میں کہا گیا ہے کہ تمام نجی و سرکاری اسپتالوں کے لیے زخمی کا فوری علاج لازم ہوگا، کوئی نجی یا سرکاری اسپتال زخمی کے علاج سے انکار نہیں کر سکے گا۔

    مسودے کے مطابق کوئی ڈاکٹر یا اسپتال زخمی کے علاج کے لیے میڈیکل لیگل کا تقاضہ نہیں کرے گا۔

    وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی بچی کو واپس نہیں لاسکتے مگر بل کو اس کا نام دے رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ 13 اگست کی شب کراچی میں ڈیفنس موڑ کے قریب اختر کالونی سگنل پر ایک مبینہ پولیس مقابلے ہوا تھا، مذکورہ مقابلے میں ایک مبینہ ملزم کے ساتھ ساتھ 10 سالہ امل بھی جاں بحق ہوگئی تھی جو جائے وقوع پر موجود گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی تھی۔

  • امل ہلاکت کیس،  والدین نے اسپتال کی رپورٹ مسترد کردی

    امل ہلاکت کیس، والدین نے اسپتال کی رپورٹ مسترد کردی

    اسلام آباد :کراچی میں امل کی موت کے معاملے پر چیف جسٹس نے سابق جسٹس عارف خلجی کو  تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ  مقرر کردیا  جبکہ امل کے والدین نے اسپتال کی رپورٹ مستردکردی اور کہا اسپتال انتظامیہ جھوٹ پرجھوٹ بول رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پولیس کی غفلت سےامل ہلاکت از خود نوٹس کیس کی سماعت کی، سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ کمیٹی کی تشکیل کےلیےسفارشات پیش کردی ہیں ، نجی اسپتالوں سےمتعلق قوانین بنانےپرعملدرآمدشروع ہوچکا ہے۔

    ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے مزید بتایا کہ آئی جی سندھ نے بھی اقدامات شروع کردیےہیں، ہمیں 3 ہفتوں کاوقت چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا مشق چلتی رہنی چاہیےکمیٹی کےبارےمیں بتائیں۔

    معاون نے بتایا کہ کمیٹی میں ریٹائرڈ یا حاضرسروس جج سے متعلق فیصلہ عدالت کرے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ٹراماسینٹرسرکاری اورنجی اسپتالوں میں لازمی ہوناچاہیے، اخلاقیات بھی کوئی چیزہوتی ہے، اسپتال نے بچی کو ابتدائی طبی امداد تک نہیں دی، ہم کیوں نہ اسپتال کی غفلت پر تحقیقات کرائیں، وکیل متاثرہ خاندان کا کہنا تھا کہ عدالت کےسامنےنجی اسپتال نےغلط بیانی کی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا ہم مقدمہ درج کرالیتےہیں،نجی اسپتال کامالک کہاں ہے؟اسپتال عملہ نے جواب دیا کہ اسپتال کے مالک بیرون ملک ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم کیوں نہ فوجداری تحقیقات کرائیں۔

    امل کی والدین نے کہا اسپتال والوں نےجورپورٹ دی وہ سچ نہیں ہے، یہ سراسر جھوٹ ہے جواسپتال بیان کررہاہے، اسپتال مالک نے فون پر کہا سامان اور عملہ نہیں دے سکتا، اسپتال مالک نے کہا سامان آپ کو دے دیا تو میری ایمرجنسی کا کیا ہوگا۔

    متاثرہ خاندان کے وکیل نے کہاعدالت کے سامنےنجی اسپتال نے غلط بیانی کی، پولیس نےغلطی مان لی،اسپتال غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

    جس پر چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا ڈائریکٹرصاحب آپ نے سپریم کورٹ میں جھوٹ بولا، آپ کیاسمجھتےہیں کہ ہم تحقیقات نہیں کرائیں گے، جس پر ڈائریکٹر اسپتال نے کہا آپ تحقیقات کرالیں۔

    جسٹس نے کہا عدالت نے کمیٹی اورٹی اوآرکوتسلیم کرلیاہے،وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ آئی جی سندھ کو کمیٹی کاممبربنانے کی مخالفت کرتےہیں۔

    سپریم کورٹ نے سابق جسٹس عارف خلجی کو تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ مقرر کردیا، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ کمیٹی میں پولیس کی جانب سے اےڈی خواجہ، وکلا کا نمائندہ اوردوڈاکٹرز شامل ہوں گے اور کمیٹی دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرے۔

    چیف جسٹس نے والدہ سے مکالمہ میں کہا امل دنیا سے چلی گئی ، ہم مقدمہ اس لیے سن رہے ہیں تاکہ آئندہ ایساواقعہ پیش نہ آئے، ہم کمیٹی کے حوالے سے حکم جاری کریں گے۔

    عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ ٹراماسینٹر،ایمبولینس کو ہر اسپتال میں لازمی قرار دیا جائے، چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ایم ڈی سی کاقانون ابھی تک حکومت نےمنظورکیوں نہیں کیا؟ جس پر سرکاری وکیل نے کہا آئندہ بل پیش کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے صحت کے لیے انتہائی کم بجٹ رکھا جاتا ہے، میں ذاتی تجربہ بتاتا ہوں،میرے بھائی ڈاکٹر ہیں، میرے بھائی نے پیسے مانگے ، میں نے وجہ پوچھی، بھائی نےکہا مشین ٹھیک کرانے کے لیے پیسےنہیں ہیں، ہم سب نے مل کر 25 لاکھ روپے اکٹھےکیے، حکومت کی صحت پر توجہ نہیں ہے، میں اس حکومت یا کسی اور حکومت کی بات کر رہا ہوں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں امل کی موت سےمتعلق سماعت2 ہفتے کیلئے ملتوی کردی گئی۔

    پولیس مقابلےمیں جاں بحق بچی کے والدین نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا اسپتال والوں کوخوف خدا نہیں وہ جھوٹ پرجھوٹ بول رہےہیں ، اسپتال سےمتعلق لوگوں نےرابطہ کیا بتایایہ اسی طرح کرتے ہیں۔

    امل کے والد کا کہنا تھا کہ اللہ کرے چیف جسٹس ان کےخلاف سخت ایکشن لیں ، سپر یم کورٹ میں کیس آگیاہے اس لیےکارروائی تو لازمی ہوگی ، چیف جسٹس صاحب اور میڈیا کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

    گذشتہ سماعت میں چیف جسٹس نے امل ہلاکت کیس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کردی تھی اور کہا تھا ہنستی کھیلتی بچی والدین کے ہاتھوں سے چلی گئی، دنیا کا کوئی معاوضہ والدین کے دکھ کا مداوا نہیں کرسکتا، بغیرتربیت پولیس کوایس ایم جی پکڑائی گئی، لگتا ہے پورا برسٹ مارا گیا۔

    یاد رہے 19 ستمبر کو شہر قائد میں فائرنگ سے دس سالہ بچی امل کی ہلاکت پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سندھ ، آئی جی سندھ ، سیکریٹری ہیلتھ اور ایڈمنسٹریٹر نیشنل میڈیکل سینٹر کو نوٹس جاری کیا تھا۔

    واضح رہے گزشتہ ماہ 13 اگست کی شب کراچی میں ڈیفنس موڑ کے قریب اختر کالونی سگنل پر ایک مبینہ پولیس مقابلے ہوا تھا، مذکورہ مقابلے میں ایک مبینہ ملزم کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پرموجود گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی 10 سالہ بچی امل بھی جاں بحق ہوگئی تھی۔

    بعد ازاں میڈیا کی جانب سے اس بچی کی ڈکیتی کے دوران زخمی ہونے کے بعد نجی اسپتال اورایمبولینس سروس کی غفلت اور لا پرواہی کا معاملہ اٹھایا گیا تھا۔