Tag: امن مذاکرات

  • ماسکو کی براہ راست رابطے کی تردید، زیلنسکی امن مذاکرات سے ٹرمپ کے جڑے رہنے کے خواہش مند

    ماسکو کی براہ راست رابطے کی تردید، زیلنسکی امن مذاکرات سے ٹرمپ کے جڑے رہنے کے خواہش مند

    ماسکو: روس نے یوکرین کے ساتھ براہ راست رابطے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا ہے، جب کہ یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی شدت کے ساتھ امن مذاکرات سے ٹرمپ کے جڑے رہنے کے خواہش مند ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق کریملن کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ روس یوکرین براہ راست رابطے کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے، اگلے براہ راست رابطے سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

    ترجمان کریملن کا کہنا ہے کہ روس یوکرین معاہدے کی تیاری کی ڈیڈ لائن نہیں دی جا سکتی، مسئلہ بظاہر سادہ لگتا ہے مگر اس میں پیچیدگیاں ہیں، ماسکو کی دل چسپی تنازع کی بنیادی وجوہ ختم کرنے میں ہے۔

    انھوں نے کہا ٹرمپ پیوٹن گفتگو میں ویٹیکن کی تجویز پر خصوصی بات نہیں کی گئی، اور ماسکو ویٹی کن کی یوکرین مذاکرات میں شرکت کی تجویز سے آگاہ ہے۔


    امن معاہدہ، پیوٹن نے ٹرمپ کے ساتھ اتفاق کر لیا


    امریکی صدر کی جانب سے پیوٹن کے ساتھ فون گفتگو کو ’’بہترین‘‘ قرار دینے کے فوراً بعد، کریملن کے خارجہ پالیسی کے معاون اور اعلیٰ سفارت کار یوری یوشاکوف نے کہا کہ یوکرین میں جنگ بندی شروع کرنے کے لیے کسی ٹائم فریم کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔

    ادھر یوکرین صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ یہ ’’اہم‘‘ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امن مذاکرات سے دست بردار نہ ہوں۔ امریکی صدر سے فون پر گفتگو کے بعد انھوں نے ٹرمپ کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا ’’یہ ہم سب کے لیے بہت اہم ہے کہ امریکا خود کو مذاکرات اور امن کے حصول سے دور نہ کرے، کیوں کہ اس سے فائدہ اٹھانے والے صرف پیوٹن ہوں گے۔‘‘

    زیلنسکی نے کہا کہ وہ جنگ کے خاتمے کے لیے یوکرین، روس، امریکا، یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کر سکتے ہیں، اگر روس قتل کو روکنے سے انکار کرتا ہے، جنگی قیدیوں اور یرغمالیوں کو رہا کرنے سے انکار کرتا ہے، اگر پیوٹن غیر حقیقی مطالبات پیش کرتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ روس جنگ کو جاری رکھے گا۔

  • جنگ بندی کے لیے یوکرین متحرک، مشروط امن مذاکرات کی پیشکش، مودی کو بھی فون

    کیف: جنگ بندی کے لیے یوکرین کی جانب سے ہلچل کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں، کیف کی جانب سے روس کو مشروط امن مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے، جب کہ یوکرینی صدر نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی فون کر کے مدد مانگ لی۔

    عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق یوکرین نے روس کو مشروط امن مذاکرات کی پیش کش کر دی ہے، یوکرینی وزیر خارجہ نے فروری 2023 میں مشروط امن مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اقوام متحدہ میں سربراہ اجلاس کے ذریعے ثالثی کر سکتے ہیں۔

    یوکرین کے وزیر خارجہ دمیترو کولیبا نے پیر کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کی حکومت دو ماہ کے اندر اقوام متحدہ میں ایک ’امن‘ سربراہی اجلاس چاہتی ہے، جس میں سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس ثالث ہوں گے، انھوں نے کہا لیکن ہم روس کے اس میں حصہ لینے کی توقع نہیں رکھتے۔

    کولیبا نے کہا کہ اس سے پہلے کہ ان کا ملک ماسکو سے براہ راست بات کرے، روس کو جنگی جرائم کے ٹریبونل کا سامنا کرنا ہوگا۔ تاہم، انھوں نے کہا کہ دوسری اقوام کو بلا جھجھک روسیوں کے ساتھ اپنے معاملات جاری رکھنے چاہیئں، جیسا کہ ترکی اور روس کے درمیان اناج کی ترسیل کا معاہدہ ہوا۔

    تاہم، اقوام متحدہ نے اس پر انتہائی محتاط ردعمل دیا ہے، یو این ایسوسی ایٹ ترجمان فلورنسیا سوٹو نینو مارٹینز نے پیر کو کہا ’’جیسا کہ سیکریٹری جنرل ماضی میں کئی بار کہہ چکے ہیں، وہ صرف اس صورت میں ثالثی کر سکتے ہیں جب تمام فریقین چاہیں کہ وہ ثالثی کریں۔‘‘

    دوسری طرف روسی وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف نے رد عمل میں کہا کہ آگے بڑھنے کے لیے یوکرین کو اپنے علاقے غیر فوجی بنانے ہوں ہوں گے، اور اپنی زمین سے روس کی سیکیورٹی کو لاحق خطرات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ماسکو کے مطالبات کیف کو اچھی طرح معلوم ہیں، اور یہ یوکرین کے حکام پر منحصر ہے کہ وہ انھیں پورا کریں، بصورت دیگر روسی فوج اس معاملے کا فیصلہ کرے گی۔

    ادھر الجزیرہ اور روئٹرز کے مطابق یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو فون کال کے ذریعے ’امن فارمولے‘ پر عمل درآمد کے لیے مدد مانگی ہے۔ خیال رہے کہ پیر کو ہونے والی یہ بات چیت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ہندوستان ماسکو کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جب کہ مغربی ممالک یوکرین میں اپنی جنگ کے لیے روس کی فنڈنگ کو محدود کرنے کے لیے نئے اقدامات متعارف کرا رہے ہیں۔

    زیلنسکی نے ٹویٹر پر لکھا ’’میں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے فون پر بات کی، اور جی 20 کی کامیاب صدارت کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا، یہی وہ پلیٹ فارم ہے جس پر میں نے امن فارمولے کا اعلان کیا تھا، اور اب میں اس کے اطلاق کے لیے ہندوستان کی شرکت کے لیے پُر اعتماد ہوں۔‘‘

  • افغان طالبان اور امریکا کے درمیان عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا

    افغان طالبان اور امریکا کے درمیان عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا

    واشنگٹن: افغان طالبان اور امریکا کے درمیان عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی میڈیا نے کہا ہے کہ پُرتشدد کارروائیوں میں کمی کے لیے امریکا طالبان معاہدہ طے ہو گیا ہے، معاہدے کے تحت طالبان ایک ہفتے تک پُرتشدد کارروائیوں میں کمی لائیں گے۔

    امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے 7 روزہ جنگ بندی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغان مسئلے کا حل سیاسی ہے، معاملے پر پیش رفت ہوئی ہے۔

    اس معاہدے کے بعد پُرتشدد کارروائیوں میں کمی پر مذاکرات اگلے مرحلے میں داخل ہوں گے، معاہدے کے ذریعے امریکی فوج کی خاصی تعداد میں واپسی کی راہ ہم وار ہوگی۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ معاہدہ جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ طالبان نے جو یقین دہانی کرائی ہے اس کی پاس داری کی جائے۔

    امریکا جنگ بندی پیش کش کا جواب دے ورنہ مذاکرات سے نکل جائیں گے

    میونخ میں افغان صدر اشرف غنی اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ملاقات میں افغان امن مذاکرات اور افغانستان کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا، نیٹو سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ کا کہنا تھا کہ طالبان کو تشدد میں کمی اور مذاکرات کے لیے نیت ظاہر کرنے کی ضرورت ہے، دیرپا افغان امن کے لیےانٹرا افغان مذاکرات ہونے چاہئیں۔ خیال رہے کہ افغان طالبان اور امریکا میں گزشتہ ایک سال سے جاری مذاکرات کا مقصد افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے۔

    یاد رہے کہ تین دن قبل دوحہ میں افغان طالبان نے امریکا کو دھمکی دی تھی کہ جنگ بندی کی پیش کش کا جواب دیا جائے ورنہ مذاکرات سے نکل جائیں گے، طالبان نے امریکا کو 7 روز کے لیے جنگ بندی کی پیش کش کی تھی۔ طالبان کا کہنا تھا کہ عارضی جنگ بندی کا جلد جواب نہ دیا گیا توامن مذاکرات سے نکل جائیں گے، مذاکرات ختم کرنے کا انتباہ طالبان کے چیف مذاکرات کار عبدالغنی برادر نے دیا تھا۔

    افغان طالبان کی جانب سے افغانستان میں 7 روز کے لیے پرتشدد کارروائیاں بند کرنے کی پیش کش کا مقصد فریقین کے درمیان مذاکرات کے تحت حتمی معاہدے کی طرف بڑھنا ہے۔ اس سے چند روز قبل عبدالغنی برادر نے افغان امن عمل کے لیے امریکا کے نمایندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی تھی، طالبان قطر دفتر کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات اور مستقبل کے اقدامات پر بات ہوئی تھی۔

  • امریکا نے افغان طالبان سے امن مذکرات معطل کردیے

    امریکا نے افغان طالبان سے امن مذکرات معطل کردیے

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کردیے ہیں۔ انہوں نے یہ اعلان سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کیا۔

    امریکی صدر نے اپنے پیغام میں کہا کہ طالبان سے مذاکرات کابل حملے کے بعد منسوخ کیے گئے ہیں جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ طالبان نے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کی، افغان طالبان کتنی دہائیوں تک جنگ لڑنا چاہتے ہیں۔؟

    امریکی صدر نے کہا کہ کیمپ ڈیوڈ میں افغان صدر اور طالبان رہنماؤں ہونے والی خفیہ ملاقاتیں بھی منسوخ کردیں ہیں۔ کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں اور افغان صدر سے الگ الگ ملاقاتیں اتوار کو ہونا تھیں وہ آج رات امریکہ پہنچ رہے تھے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ طالبان دوران مذاکرات غیرضروری بالا دستی چاہتے ہیں، طالبان جنگ بندی نہیں کرسکتے تو انہیں مذاکرات کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں امن معاہدے پر دستخط کے فوراََ بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہونا تھے جن میں جنگ بندی، افغانستان کے مستقبل کے سیاسی نظام، آئینی ترمیم، حکومتی شراکت داری اور طالبان جنگجوؤں کے مستقبل سمیت کئی معاملات پر بات چیت شامل ہے۔

  • طالبان نے امریکا سے مذاکرات میں پیش رفت کا عندیہ دے دیا

    طالبان نے امریکا سے مذاکرات میں پیش رفت کا عندیہ دے دیا

    کابل: افغان طالبان نے قطری دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت کا عندیہ دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا اور طالبان کے درمیان افغان امن عمل کی خاطر مذاکرات کا نیا دور کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، مرحلہ وار متعدد مذاکرات ہوں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان نے عندیہ دیا ہے کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات میں اختلافات کم ہورہے ہیں، غیر ملکی فوجی انخلا پر بھی بات جیت جاری ہے۔

    طالبان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے سامنے تجاویز رکھی گئی ہیں جس پر تبادلہ خیال ہوا تاہم کوئی بھی فیصلے کو حتمی شکل دینے کے لیے مزید ملاقاتیں درکار ہوں گی۔

    غیر ملکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ کسی طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ امریکا اپنے 14 ہزار فوجیوں کے انخلا کے لیے ڈیڑھ سال کی مہلت چاہتا ہے، جس پر طالبان راضی نہیں ہیں۔

    امریکا حکام نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ شدت پسند کارروائیاں بھی ختم کرے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ روز ہی افغانستان کے شمالی صوبے بغلان کے شہر پل خمری میں طالبان نے پولیس ہیڈ کوارٹر پر بارود سے بھری گاڑی کے ساتھ حملہ کیا، جس میں 13 سیکورٹی اہل کار ہلاک ہوگئے۔

    بغلان: طالبان کا بارود سے بھری گاڑی سے پولیس ہیڈکوارٹر پر حملہ، 13 ہلاک

    یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب افغانستان میں کل سے رمضان کا آغاز ہو رہا ہے، تین دن قبل لویہ جرگہ کے اجلاس میں طالبان کے ساتھ جنگ بندی کی قرارداد بھی منظور کی گئی ہے۔

  • افغان امن مذاکرات میں تاخیر پر امریکا کا اظہارِ تشویش

    افغان امن مذاکرات میں تاخیر پر امریکا کا اظہارِ تشویش

    واشنگٹن: امریکی حکام نے قطری دارالحکومت دوحہ میں طالبان سے ہونے والے مذاکرات میں تاخیر پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے افغان امن مذاکرات میں غیر معینہ اِلتو پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جلد مذاکرات کی کے آمادگی پر زور دیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا دوحہ میں ہونے والے ممکنہ مذاکرات کو جلد حتمی شکل دینا چاہتا ہے جس کے لیے افغان حکام پر شدید دباؤ بھی ہے۔

    یہ مذاکرات جمعہ سے خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہونے والے تھے، البتہ طالبان نے افغان شرکاءکی تعداد پراعتراض کیا تھا۔

    مذکورہ مذاکرات شروع ہو جاتے تو پہلی مرتبہ طالبان اور افغان شہریوں کے درمیان رابطہ استوار ہوتا، عالمی ماہرین نے مذاکرات کو اہم قرار دیا ہے۔

    ادھر افغانستان کے لیے مقرر امریکی مندوب زلمے خلیل زاد اگلے پیر سے افغانستان، پاکستان، بھارت، روس اور برطانیہ کا ایک اور دورہ شروع کرنے والے ہیں، خلیل زاد کا یہ دورہ گیارہ مئی کو ختم ہوگا۔

    یاد رہے کہ طالبان اور افغان نمائندوں کے درمیان ملاقات 20 اور 21 اپریل کو قطر میں ہونا تھی اور مذاکرات کے لیے افغان حکومت نے 250 رکنی فہرست تیار کی تھی۔

    امریکی صدر کی عرب ممالک کے تیل پر نظر

    افغان حکومت کی مذاکرات کے لیے تیار کی گئی فہرست پرطالبان نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شادی یا کسی اور مناسب سے دعوت اور مہمان نوازی کی تقریب نہیں کہ کابل انتظامیہ نے کانفرنس میں شرکت کے لیے 250 افراد کی فہرست جاری کی۔

  • افغانستان میں 2019 امن کے قیام کا سال ہے: امریکا

    افغانستان میں 2019 امن کے قیام کا سال ہے: امریکا

    واشنگٹن: امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ افغانستان میں 2019 امن کے قیام کا سال ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا نے امید ظاہر کی ہے کہ رواں سال افغانستان میں امن قائم ہوجائے گا، طالبان سے مذاکرات سے متعلق بھی مثبت پیش رفت کی توقع ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اٹھارہ سال سے جاری خانہ جنگی صورت سے نکلنے کے لیے رواں سال اہم ثابت ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، ایک معاہدے کے ذریعے سالوں سے جاری جنگ کے خاتمے کی امید ہے۔

    امریکی نمائندہ خصوصی کا مزید کہنا تھا کہ بات جیت کی اچھی فضا ہموار ہوچکی ہے، افغانستان میں ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے پہلے ہی امن مذاکرات ہوجائیں گے۔

    دریں اثنا زلمے خلیل زاد 26 مارچ سے10اپریل تک یورپ اور ایشیا کے مختلف ممالک کے دورے پر ہیں، اس دورے میں پاکستان اور افغانستان کا دورہ مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔

    افغان مفاہمتی عمل : زلمے خلیل زاد آج سے سات ممالک کے دورے کا آغاز کریں گے

    یاد رہے کہ حالیہ امریکا طالبان مذاکرات دوحہ قطر میں 25 فروری کو شروع ہوئے، جس کے لیے پاکستان نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ دو دن قبل افغان میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ فریقین میں کچھ معاملات پر اتفاق ہو گیا ہے اور چند معاملات پر ابھی بھی رکاوٹ موجود ہے۔

    امریکا اور طالبان کے درمیان سلسلہ وار ہونے والے مذاکرات سے متعلق اب تک کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آئی، فریقین کے درمیان تاحال اختلافات موجود ہیں۔

  • کشمیریوں کوحق خودارادیت دیے بغیرخطے کا امن خطرے میں رہے گا‘ پاکستانی سفیر

    کشمیریوں کوحق خودارادیت دیے بغیرخطے کا امن خطرے میں رہے گا‘ پاکستانی سفیر

    واشنگٹن: امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے امریکا سے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق واشنگٹن میں پاکستانی سفیرڈاکٹر اسد مجید خان نے چیئرمین امورخارجہ ذیلی کمیٹی برائے جنوبی ایشیا سینیٹرمٹ رومنی سے ملاقات کی۔

    اسد مجید خان نے ملاقات کے دوران ری پبلکن سینیٹرمٹ رومنی کو جنوبی ایشیا کے حالات پر تفصیلی بریفنگ دی۔

    پاکستانی سفیر نے کہا کہ بھارتی پائلٹ کی رہائی کشیدگی کم کرنے کے لیے اہم تھی، انہوں نے پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے کردارکو سراہا۔

    ڈاکٹراسد مجید خان نے کہا کہ کشمیریوں کوحق خودارادیت دیے بغیرخطے کا امن خطرے میں رہے گا، خطے کے اہم مسئلے پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔

    پاکستانی سفیر نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے امریکا سے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں، پاکستان افغان امن کے لیے پُرعزم ہے۔

    ری پبلکن سینیٹرمٹ رومنی نے بریفنگ پر پاکستانی سفیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے متواتر رابطے اہم ہیں۔

    پاکستان نے بھارتی جارحیت پرامریکی ردعمل کوناکافی قراردے دیا

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں پاکستانی سفیرڈاکٹراسد مجیدخان نے پریس کانفرنس کے دوران بھارتی جارحیت پرامریکی ردعمل کوناکافی قراردیا تھا۔

  • برطانیہ کو یمن میں امن ڈیل متاثر ہونے کا خدشہ

    برطانیہ کو یمن میں امن ڈیل متاثر ہونے کا خدشہ

    لندن: برطانوی وزیرخارجہ جیریمی ہنٹ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یمن میں امن ڈیل ختم ہوسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیرخارجہ نے یمن کا دورہ کیا، اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ حوثی باغیوں اور حکومت کے درمیان حدیدہ امن ڈٰیل ختم ہوسکتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے حوثی باغیوں اور یمنی حکومت کے درمیان امن معاہدہ طے کیا گیا تھا جس کی تمام شقوں پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔

    دونوں فریقین کے درمیان وعدوں پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو دوبارہ جنگی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے، اور بندرگاہی شہر حدیدہ سے فوج اور باغیوں کا انخلا ناکام ہوجائے گا۔

    حوثی باغی اور حکومت کے درمیان معاہدے کے تحت رواں سال 7 جنوری تک حدیدہ کو غیر مسلح کرنا تھا اور فوجیں ہٹا لینی تھیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

    یمن میں جنگ بندی امن کی جانب پہلا قدم ہے: مندوب اقوام متحدہ

    برطانوی وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے خبردار کیا ہے کہ فریقین نے وعدوں پر عمل نہ کیا تو یمن میں قیام امن کا معاہدہ چند ہفتوں میں ختم ہو سکتا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں یورپی ملک سویڈن میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے امن مذاکرات میں دونوں فریقن کے درمیان حدیدہ شہر میں جنگ بندی سمیت کئی نکات پر اتفاق ہوا تھا جس کے بعد یمن میں گذشتہ کئی برسوں سے جاری جنگ کے ختم ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی۔

    یاد رہے کہ یمنی حکومت اور حوثیوں کے درمیان سنہ 2016 کے بعد سے یہ پہلے امن مذاکرات ہیں جس کے بعد تین نکات پر اتفاق رائے کیا گیا ہے اگر کسی بھی فریق کی جانب سے کوتاہی یا لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا تو امن مذاکرات تعطلی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

  • واضح کرنا چاہتا ہوں امریکا صرف امن چاہتا ہے: زلمے خلیل زاد کا ٹویٹ

    واضح کرنا چاہتا ہوں امریکا صرف امن چاہتا ہے: زلمے خلیل زاد کا ٹویٹ

    واشنگٹن: امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خیل زاد نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا صرف امن چاہتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق زلمے خلیل زاد نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں افغانستان کے حوالے سے امریکی طرزِ عمل پر اٹھنے والے سوال پر لوگوں کو اطمینان دلانے کی کوشش کی ہے کہ امریکا امن چاہتا ہے۔

    [bs-quote quote=”افغانستان کی آزادی اور خود مختاری اور خطے کی ریاستوں کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”زلمے خلیل زاد”][/bs-quote]

    زلمے خلیل زاد نے لکھا کہ لوگوں کے اس حوالے سے تحفظات ہیں کہ امریکا ایک طرف افغانستان میں لڑنا بھی چاہتا ہے اور دوسری طرف مذاکرات بھی کرنا چاہتا ہے۔

    امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امریکا صرف امن چاہتا ہے، امن کے قیام کے لیے تمام افغانیوں کے تحفظات دیکھیں گے۔

    زلمےخلیل زاد نے لکھا کہ افغانستان میں تمام فریقین، افغانستان کی آزادی اور خود مختاری اور خطے کی ریاستوں کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔

    انھوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں لڑائی فوری ختم ہو، لیکن امن کی تلاش کا مطلب ہے کہ ہمیں ضرورت کے مطابق لڑنا بھی پڑے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:  وزیراعظم عمران خان سے امریکی نمائندہ خصوصی زلمےخلیل زاد کی ملاقات

    یاد رہے کہ گزشتہ روز زلمے خلیل زاد نے وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کی، اس موقع پر افغان امن عمل میں پیش رفت اور دیگر موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔