Tag: امید فاضلی

  • امید فاضلی: ‘خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے…’

    امید فاضلی: ‘خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے…’

    اردو زبان کے ممتاز شاعر امید فاضلی کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہوا۔ ان کا مشہور شعر ہے۔

    کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
    خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

    امید فاضلی 1952ء میں بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔ ان کا تعلق ڈبائی سے تھا جو متحدہ ہندوستان کے ضلع بلند شہر کا حصّہ تھا۔ 17 نومبر 1923ء کو پیدا ہونے والے امید فاضلی کا خاندانی نام ارشاد احمد فاضلی تھا۔ اردو ادب اور شاعری کے میدان میں ان کی پہچان امید فاضلی کے نام سے ہوئی۔ آج امید فاضلی کی برسی منائی جا رہی ہے۔

    امید فاضلی نے ابتدائی تعلیم ڈبائی اور میرٹھ کے مدارس سے مکمل کی اور اور بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1944ء میں وہ کنٹرولر آف ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے سے وابستہ ہوگئے اور پاکستان آنے کے بعد اسی محکمے میں ملازمت اختیار کی۔

    امید فاضلی اردو کے اہم غزل گو شاعر اور مرثیہ نگار تھے۔ انھوں‌ نے بطور شاعر طبع آزمائی کا سلسلہ 15 برس کی عمر میں شروع کیا تھا اور پہلے شکیل بدایونی اور پھر استاد شاعر نوح ناروی سے شرفِ تلمّذ حاصل رہا۔ ابتداً وہ امید ڈبائیوی کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ بعد میں امید فاضلی کا قلمی نام اختیار کیا۔ امید فاضلی کی شہرت کا سفر تو غزل گو شاعر کے طور پر شروع ہوا تھا، لیکن ان کی مذہبی شاعری ریڈیو اور پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہوئی تو ملک گیر شہرت ان کے حصّے میں آئی۔ امید فاضلی فنِ شاعری میں غزل اور نظم کے علاوہ سلام، نوحہ اور گیت نگاری میں بھی مشہور ہوئے۔

    امید فاضلی کی غزلیات کا پہلا مجموعہ دریا آخر دریا کے نام سے شایع ہوا تھا۔ اس کتاب کو 1979ء میں بہترین شعری مجموعے کے لیے آدم جی انعام دیا گیا۔ امید فاضلی کے مرثیوں کا مجموعہ سر نینوا اور تب و تابِ جاودانہ کے نام سے جب کہ حمد اور نعتیہ شاعری کی کتاب میرے آقا، منقبت کا مجموعہ مناقب کے نام سے منظرِ‌عام پر آیا۔ امید فاضلی نے قومی نغمات اور ملّی شاعری کو بھی پاکستان زندہ باد کے عنوان سے شایع کروایا۔ ان کے نعتیہ کلام پر مشتمل مجموعہ کو بھی رائٹرز گلڈ نے انعام دیا تھا۔

    ممتاز شاعر امید فاضلی کا انتقال 2005ء میں 28 اور29 ستمبر کی درمیانی شب ہوا تھا۔ وہ سخی حسن کے قبرستان میں مدفون ہیں۔

    امید فاضلی کا ایک خوب صورت شعر دیکھیے۔

    یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بوجھ
    ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

  • امید فاضلی: غزل گوئی اور مرثیہ ان کی پہچان ہے

    امید فاضلی: غزل گوئی اور مرثیہ ان کی پہچان ہے

    امید فاضلی کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    وہ 17 نومبر 1923ء کو ڈبائی، ضلع بلند شہر(ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام ارشاد احمد فاضلی اور تخلّص امید تھا۔

    انھوں نے ابتدائی تعلیم ڈبائی اور میرٹھ سے حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1944ء میں وہ کنٹرولر آف ملٹری اکائونٹس کے محکمے سے وابستہ ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی اور اسی محکمے سے وابستہ رہے۔

    امید فاضلی اردو کے اہم غزل اور مرثیہ گو شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی غزلیات کا پہلا مجموعہ دریا آخر دریا کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا جسے 1979ء میں شائع ہونے والے بہترین شعری مجموعے کا آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ ان کے مرثیوں کا مجموعہ سر نینوا، نعتوں کا مجموعہ میرے آقا، منقبت کا مناقب اور قومی شاعری پر مشتمل کلام پاکستان زندہ باد کے نام سے جب کہ مراثی کی ایک اور کتاب تب و تابِ جاودانہ کے عنوان سے شایع ہوئی۔

    امید فاضلی کے نعتیہ مجموعہ کلام میرے آقا پر بھی انھیں رائٹرز گلڈ کا انعام عطا ہوا تھا۔ وہ 28 اور29 ستمبر 2005ء کی درمیانی شب کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    امید فاضلی کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

    کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
    خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے