Tag: امیر خسرو

  • امیر خسرو کا اپنی بیٹی کے لیے نصیحت آمیز مکتوب

    امیر خسرو کا اپنی بیٹی کے لیے نصیحت آمیز مکتوب

    حضرت امیر خسرو عمیق فکر کے مالک تھے۔ فارسی کے عظیم شاعر، موسیقار اور صوفی امیر خسرو نے ہندوستان میں اپنے علم و فن سے شہرت اور شخصیت و کردار سے ہر خاص و عام سے سندِ قبولیت پائی اور تاریخ میں نام رقم کیا۔ انھیں دقیق موضوعات میں غور و فکر کی عادت، فطری ذہانت اور نکتہ رسی کے سبب ہندوستان بھر میں ایک مدبر و مصلح سمجھا گیا۔ ان کی نصیحتیں سبھی کو بھائیں اور مشہور ہے کہ ان کے عہد میں لوگ اپنے مسائل کا حل طلب کرنے دور دور سے ان کے پاس چلے آتے تھے۔

    خسرو نے اپنی بیٹی کو بھی منظوم نصیحتیں کی تھیں جن کے اردو تراجم ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ایک پارہ ہے جس میں اگرچہ نصیحتیں اس دور کے اعتبار سے ہیں، تاہم ان نصیحتوں کو آج کے زمانے سے منطبق کر کے دیکھیں تو یہ بہت مفید اور کارآمد ہیں۔

    امیر خسرو ؔنے تیرہویں صدی میں جنم لیا۔ وہ ایسے شاعر تھے جس نے کبھی پہیلیوں اور کہہ مکرنیوں میں علم بانٹا تو کبھی شادی بیاہ کے گیتوں میں لوگوں کی تفریحِ طبع کا سامان کیا۔ وہ ایک شاعر اور ماہر موسیقی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خسرو نے متعدد ساز اور کئی راگ ایجاد کیے۔ امیر خسرو کو ایک صوفی کا درجہ بھی حاصل ہے جو حضرت خواجہ نظام الدّین اولیاء کے مریدِ خاص رہے۔

    امیر خسرو کے مکتوب کا اردو ترجمہ ملاحظہ کیجیے۔

    ’’اے بیٹی تیرا وجود میرے دل کا چشم و چراغ ہے اور میرے دل کے باغ میں کوئی اور میوہ تجھ سے بہتر نہیں۔ اگرچہ تیرے بھائی بھی تیری طرح خوش بخت ہیں مگر جہاں تک میری نظر کا تعلق ہے وہ تجھ سے بہتر نہیں۔

    باغبان جب باغ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہے تو اس کے نزدیک سرو کی بھی وہی قدر ہوتی ہے جو سوسن کی ہوتی ہے۔ تیرا نصیب جس نے تجھے نیک فال بتایا، اسی نے تیرا نام مستورہ میمون (نیک بخت و عصمت مآب خاتون) رکھ دیا۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس نے تیرے اندازِ طبیعت کو پہلے سے دیکھا تو میری شرم و حیا اور پاک دامنی کو زیادہ سے زیادہ پایا۔ مجھے امید ہے کہ اس خوش بختی و نیک فالی کے باعث تیرے نام کو تیرے کردار سے چار چاند لگ جائیں گے۔ لیکن تجھے بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے نیک انجام سے اپنے اس نام کی بنیاد کو صحیح ثابت کرے۔ عمر کے اعتبار سے تیرا یہ ساتواں سال ہے جب تو سترہ سال کی ہوجائے گی تو ان باتوں کو سمجھ سکے گی۔
    جب تو اس عمر کو پہنچے گی تو میری ان نصیحتوں پر عمل کرکے اپنی نیک نامی سے مجھے بھی سر بلند کرے گی۔ اس طرح زندگی بسر کر کہ تیرے شان دار کارناموں سے تیرے قرابت داروں کا نام بھی روشن ہو۔

    جس موتی کی طرف بزرگ توجہ مبذول کرتے ہیں، اس کے طفیل میں اس کے والدین یعنی سیپی کو بھی یاد کر لیتے ہیں۔ بہتر ہے کہ اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے تو اپنی نقل و حرکت کو اپنے دامن کی حدود میں منحصر کر دے۔ تاکہ تیرا دامنِ شکوہ و وقار بھی جگہ سے اسی طرح نہ ہلے جس طرح دامنِ کوہ پتھر سے جدا نہیں ہوتا۔ اگر تیرا وقار ایک بھاری پتھر کی طرح تیرے دامن کا لنگر ہے تو یقیناً تیرا دامن تیری عصمت کا محافظ ہے۔
    وہ عورت جس کا گھر سے نکلنا آسان ہو جاتا ہے وہ گھر کے اندر سب سے خوف زدہ رہتی ہے۔ جو عورت گلستان و لالہ زار میں ٹہلتی پھرتی ہے وہ اپنا گریبان گل کی نذر کر دیتی ہے اور دامن خار کو بخش دیتی ہے۔

    جب اس کی نظر گلِ سرخ پر پڑتی ہے تو پھول کی ہنسی یہ تقاضا کرتی ہے کہ شراب پینی چاہیے۔ تُو اپنے چہرہ سے نمائشِ باطل کا غازہ دھو ڈال اور یہ کوشش کر کہ تو غازہ ہی کے بغیر سرخرو ہو جائے۔ تاکہ صدق و صواب کی شہرتِ عامّہ، تیری اس سرخروئی کی وجہ سے، تجھے حمیرا (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لقب کا مخفف) کا خطاب عطا کر دے۔

    جو عورت راحت و آرام سے بے پروا رہی اس کا ویران گھر آباد ہو گیا۔ جو عورت لذتِ شراب کی رو میں بہہ کر پستی کے اندر چلی گئی، اس کا گھر خرابات بن گیا اور وہ خود بھی خراب ہوئی۔ جب اس کی شریف ذات شراب سے آلودہ ہو گئی تو در و دیوار سے دشمن اندر گھس آئے گا۔

    اگر بند کمرے میں بھی شراب کا دور چلے تو اس کی بُو پڑوسیوں کو یہ پیغام پہنچا دیتی ہے کہ یہاں شراب پی جا رہی ہے۔ کسی عورت کا ایک چھوٹا سا آنچل جو وہ اپنی نشت گاہ میں بیٹھ کر بطور نقاب ڈال دیتی ہے ان فقیہوں کی پوری دو پگڑیوں سے بہتر ہے جو فسق و فجور میں مست ہیں۔

    جلوہ گری یہ نہیں کہ ایک پری چہرہ حسینہ زن و شوہر کے تعلقات میں جلوہ گر ہو۔ جلوہ گری اس عورت کا حصہ ہے جو شرم و حیا اور خوف خدا کے باعث لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہونے کے باوجود اپنے اعلیٰ کردار کے لیے مشہور ہے۔

    تُو سورج کی طرح اپنے آپ کو اجالوں میں چھپا لے اور شرم و حیا کو رخسار کا پردہ بنا۔ جس نے حیا کا نقاب اتار کر پھینک دیا اس سے کوئی امید نہ رکھو، کیونکہ اس کی عزت و آبرو پر پانی پھر گیا۔

    جو مرد اس کی عریانی کے لیے کوشش کرتا ہے، وہ اس کو برہنہ کرنے کے بعد پھر اس کی پردہ پوشی کیا کرے گا؟ وہ آوارہ گرد جو بغیر کچھ کیے ہوئے ڈینگیں مارتا ہے، جب کوئی گناہ کر لے گا تو اسے کس طرح ظاہر نہ کرے گا۔

    برے لوگوں کی یہ رسم ہے کہ جب کوئی برا کام کرتے ہیں تو اس کی شہرت کو اپنے لیے بڑائی سمجھتے ہیں۔ ہر بننے ٹھننے والی عورت جو نمائشِ حسن کے درپے ہوتی ہے، دس پردوں کے اندر بھی اپنی رسوائی کا سامان مہیا کر لیتی ہے۔

    جب کوئی بری عورت تباہی کی طرف رخ ملتی ہے تو اس کی صورت اس کے فسق و فجور کی گواہی دینے لگتی ہے۔ عورت کے لیے فراخ حوصلگی و سخاوت زیب نہیں دیتی، البتہ اگر مرد میں یہ اوصاف نہ ہوں تو وہ عورت بن جاتا ہے۔

    لیکن اتنی بد مزاج بھی نہ بن کہ تیری خادمائیں تجھ سے بھاگ کر باہر گلی میں چلی جائیں۔ ایسا گھر جس میں آرام و آسائش کم میسر ہو اگر اپنے ساز و سامان کے اعتبار سے بہشت بھی ہو تو جہنم کے مترادف ہو جاتا ہے۔

    اس شوہر کو جس کی بیوی دراز ہو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک وحشی کتؑے کے ساتھ بند کر دیا گیا ہے۔ جو شوہر دولت و ثروت رکھتا ہے، اس کی بیوی خود گھر کے اندر سونے میں پیلی ہوتی ہے۔ لیکن جب کسی شوہر کے پاس پونجی نہ ہو تو اس کی بیوی کے لیے قناعت سے بہتر کوئی زیور نہیں ہے۔ نفس، جو انسان کے قالب میں سرایت کیے ہوئے ہے، انسان دشمن ہونے کے باوجود اس کے تن بدن میں موجود ہے۔ یہ نفس نہیں چاہتا کہ جس دل کو دنیا کا عیش حاصل ہے، وہ عقبیٰ کی فکر میں پڑ جائے اس لیے جہاں تک ہو سکے اس نفس کی رسی دراز نہ ہونے دے۔ یہ ساری مصیبت جو تن پر آتی ہے اس نظر کی بدولت آتی ہے جو توبہ کو توڑ کر گناہ پر مائل کرتی ہے۔

    جس طرح موتی سیپ کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے اسی طرح اپنی آنکھ کو شرم و حیا میں چھپا لے تاکہ تو تیرِ بلا کا نشانہ نہ بنے۔ جب آنکھ مائل ہوتی ہے تو دل قابو سے باہر ہو جاتا ہے اور نظر کا ہاتھ دل کے ڈورے کھینچنے لگتا ہے۔

    وہ عورت، جسے حق تعالیٰ نے خود داری کا جذبہ دیا ہے، جان دے دیتی ہے مگر تن کو فسق و فجور میں مبتلا نہیں ہونے دیتی۔

    ایک بادشاہ اپنے اونچے محل کی چھت پر کھڑا ہوا، ادھر ادھر نظر ڈال رہا تھا۔ اس نے محل کے دیوار کے پیچھے ایک حسینہ کو دیکھا جو اپنے حسن سے اس زمانہ کے تمام حسینوں کو مات کرتی تھی۔ جیسے ہی بادشاہ نے اسے دیکھا، بے چین ہو گیا اور اس کے صبر و قرار کی بنیاد اپنی جگہ سے مل گئی۔ فوراً ایک پیغامبر کو اس کے پاس بھیجا تاکہ اسے بلا کر اس پر دست درازی کرے۔

    اس حسینہ نے اپنی پاک دامنی کی بنا پر اپنے وقار کو عصمت کا پردہ بنا لیا اور چھپ گئی۔ پہلے تو ایک عرصہ تک در پردہ گفتگو ہوتی رہی مگر چاہنے والے کی مقصد براری نہ ہوئی۔
    جب بادشاہ کا دل ہوس سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تو اس نے کھل کر بات کی اور یہ خوف دلایا کہ میں جان سے مار ڈالوں گا۔ خادم کو حکم دیا کہ اسے اپنے گھر سے باہر گھسیٹ کر، بالوں سے کھینچتا ہوا، بادشاہ کی خواب گاہ میں لے آئے۔ (جب وہ حسینہ آئی تو) اس نے کہا کہ” اے فرمانروائے وقت، بادشاہوں کو فقیروں سے کیا واسطہ ہے۔ میرے جسم میں ایسی کون سی چیز ہے جو تیری آنکھوں کو بھا گئی ہے اور جسے تُو نے اپنے جذبۂ دل سے مجبور ہو کر عزیز بنا لیا ہے۔

    بادشاہ نے اپنی آرزو مند آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا۔” تیری دونوں آنکھوں نے مجھ سے میری نیند چھین لی ہے۔” وہ خوش جمال حسینہ اندر کی طرف ایک کونے میں چلی گئی اور انگلی سے اپنی دونوں آنکھیں باہر نکال لیں۔ اور خادم کو وہ دونوں آنکھیں دے کر کہا۔ "جا انہیں لے جا اور امیر سے کہہ دے کہ میری جو چیز تجھے عزیز تھی اسے تھام۔”

    خادم نے جو یہ کیفیت بادشاہ پر ظاہر کی تو اس کے دل میں آگ لگ گئی اور اس کی سوزش سے دھواں بھر گیا۔ اپنے کرتوت پر شرمندہ ہو کر بیٹھ رہا اور اس حسینہ کا پاک دامن اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا۔

    اے بیٹی تُو خسرو کی آنکھ کا نور ہے تو بھی اسی طرح اپنی عصمت پر صابر و مستقیم رہ۔‘‘

    (امیر خسرو سے منسوب اس منظوم مکتوب کے مختلف اہلِ قلم نے تراجم کیے ہیں جن میں تفاوت ناگزیر ہے)

  • امیر خسرو: مؤرخین کیا بتانا چاہتے ہیں؟

    امیر خسرو: مؤرخین کیا بتانا چاہتے ہیں؟

    مؤرخین امیر خسرو کے بارے میں ہمیں جو کچھ بتانا چاہتے ہیں، مجھے تو وہ غیرمتعلق ہی سا معلوم ہوتا ہے۔

    وہ 1253 میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے آپ کو ہندوستانی کہتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ مؤرخین اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے ترک خاندان سے تھے جسے منگولوں نے گھر سے بے گھر کر دیا تھا۔ ان کے والد نے شاہی افسروں کی حیثیت سے خاصی کامیاب زندگی گزاری تھی، لیکن خسرو کا لڑکپن ہی تھا جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ایک اور عزیز نے خسرو کی سرپرستی کی۔

    خسرو جب بڑے ہو گئے تو اس زمانے کے عام رواج کے مطابق انہیں ایسے امراء کی تلاش ہوئی جو ان کے مربی بن سکیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ انہیں پڑھایا جائے۔ ان کے استادوں نے پہلے یہ کوشش کی کہ انہیں عام ڈھرے ہی کے مطابق تعلیم دی جائے اور پھر شعر گوئی سے جو انہیں غیرمعمولی طبعی مناسبت تھی اسے سنوارنے میں انہوں نے مدد کی۔ شاعر ہی کی حیثیت سے امراء اور پھر بادشاہوں کے درباروں میں ان کی آؤ بھگت ہوئی اور مؤرخ کے لیے یہ بہت دلچسپی کی بات ہے کہ خسرو نے اپنے مربیوں کی فتوحات کے تاریخی واقعات کو منظوم کر دیا ہے۔ یہ معاصرانہ ماخذ ہیں اور اسی لیے ان کی بڑی قدر و قیمت ہے۔

    لیکن شعری کارناموں کی حیثیت سے یہ مغلق، پرتکلف اور بوجھل ہیں۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ انہیں پڑھنے میں مزہ نہیں آتا۔ لیکن معمولی واقعات کے بیچ بیچ میں جنہیں بڑھا چڑھا کر بیان کرنے میں خسرو نے اپنی مشاقی دکھائی ہے بہت ہی حسین غزلیں بکھری ہوئی ہیں۔ ان سے خسرو کو یقیناً اس تھکا دینے والے تکلف و تصنع سے نجات اور سکون مل جاتا ہوگا۔ ان کی وجہ سے ان کے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہوگا کیونکہ وقائع صرف گراں قدر انعامات حاصل کرنے کے لیے لکھے جاتے تھے اور ایک اعتبار سے یہ خسرو اور ان کے زمانے کی غلط نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے لکھنے میں خسرو کو اپنی طبیعت کے خلاف فاتحین کے سخت سیاسی مزاج کو قبول کرنا پڑتا تھا۔ لڑائیوں اور جنگجو سپاہیوں کو ایسے مذہبی اور تہذیبی رنگ میں پیش کرنا پڑتا تھا جوان میں ہوتا ہی نہیں تھا۔ معمولی معمولی آدمیوں اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو خلاف قیاس مبالغے کے ساتھ بڑھا چڑھا کر بیان کرنا پڑتا تھا، صداقت اور انصاف کا خیال کیے بغیر طرف داری کرنی پڑتی تھی۔

    اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جن بادشاہوں، امرا اور افواج کو خسرو نے ان وقائع میں بڑھا چڑھا کر دکھایا ہے وہ زندگی، خوشی اور مال و املاک کو برباد کر سکتی تھیں اور مصیبت اور عذاب میں مبتلا کر سکتی تھیں۔ یہ ایسی باتیں نہیں تھیں جن سے خسرو کے دل پر کوئی اچھا اثر پڑتا یا یہ ان کے تخیل کو ابھارتیں۔ معلّم اخلاق اس کی توجیہ یوں کرے گا کہ ایسا ضرورت کے تحت ہوا، لالچ کی وجہ سے نہیں، مجبوری تھی جس نے خسرو کو امرا اور بادشاہوں کا قصیدہ خواں بنا دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خسرو اور ہی طبیعت کے آدمی تھے۔ ان کا تعلق کسی اور دربار سے اور کچھ اور ہی لوگوں سے تھا۔

    تاریخ جو کچھ ہمیں بتاتی ہے وہ ان ترکوں کی سیاسی اور فوجی سرگرمیوں کے بارے میں ہے جنہوں نے ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی۔ مجھے تویقین نہیں آئے گا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ ان خاندانوں کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ ان تمام ترکوں میں سب کے سب پیشہ ور سپاہی نہیں تھے اور ان میں جو سپاہی پیشہ تھے بھی، انہیں ایسے مؤرخین سے زیادہ واضح طور پر یہ احساس ہو گیا ہو گا جو ہمیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ ایک وسیع ملک میں بہت ہی اقلیت میں تھے۔ میرا مقصد ان کے تصورات اور ان کی کامیابیوں کی اہمیت کم کرنا نہیں ہے۔ میں تو صرف اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ان تصورات اور کامیابیوں کا ایک خاص سماجی پس منظر تھا اور ہمارے مؤرخین نے ابھی اس پر توجہ کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پورے کا پورا ملک سیاسی رقابتوں میں مبتلا نہیں تھا۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پورے کے پورے ملک نے معرکہ آرائیوں میں حصہ نہیں لیا۔ ملک میں امن و امان تھا، خیر خواہی تھی، افہام و تفہیم اور سمجھوتے کی فضا تھی جسے قوی روحانی رجحانات سے مدد ملتی تھی۔

    اس زمانے کے ہندوستان کے سماجی پس منظر میں شاید سب سے زیادہ اہم عنصر صوفیوں اور خصوصاً چشتیہ سلسلے کے صوفیوں کا اثر تھا۔ آج ہم ان کی سماجی قدر و قیمت یا اہمیت پر بحث کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے انسان دوستی کی سرگرمیوں کا کوئی منصوبہ، کسی قسم کا کوئی پروگرام نہیں تھا، ان کے مقاصد واضح نہیں تھے۔ وہ تو بس کسی بھی جگہ تکیہ لگا لیتے، عبادت کرتے اور لوگوں سے باتیں کرتے، وہ روحانی وعظ و پند بیان کرتے اور کبھی کبھی ان لوگوں کو بالواسطہ عملی رشد و ہدایت دیتے جنہیں اس کی خواہش ہوتی، ان کے کوئی سیاسی تصورات یا مفادات نہیں تھے اور اگر علانیہ زیادتیاں ہوتیں تو وہ دلوں کے بدلنے کی دعائیں کرتے۔

    آج ہمیں یہ بے عملی معلوم ہوتی ہے اور ہم اس کی اثرانگیزی محسوس نہیں کر سکتے۔ صوفی کو ’شاہ‘ یا ’بادشاہ‘ کے نام سے یاد کیا جانے لگا تھا۔ اس کی گدی شاہی تخت کے برابر سمجھی جاتی اور جب لوگ ان سے ملنے آتے تو شاہی دربار کے آداب ہی برتے جاتے۔ بادشاہ ہزار بے گناہ آدمیوں کو مروا سکتا تھا، اس بات کو قسمت کی خرابی پر محمول کیا جاسکتا تھا لیکن اگر وہ کسی صوفی کے خلاف کوئی قدم اٹھاتا تو اس کا تخت ہی خطرے میں پڑ جاتا تھا۔

    امیر خسرو دلّی کے عظیم صوفی حضرت نظام الدین اولیاء کے حلقہ خاص میں شامل تھے اور ایک مرتبہ کسی پر ان کا اثر ہو جانے کا مطلب یہ تھا کہ اب اس پر طاقتور سے طاقتور بادشاہ کا بھی اثر نہیں ہو سکتا۔ اس غیر معمولی اور دیرپا اثر کا نتیجہ ہوتا تھا ہمدردی اور رواداری کے جذبات کی پرورش اور ان تمام عقائد کا احترام جنہیں لوگ سچے دل سے مانتے ہیں اور ثابت قدمی کے ساتھ ان پر عمل کرتے ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیاء کی مثال سے امیر خسرو کے سامنے اپنی ذہنی اور فنکارانہ صلاحیتوں کو کام میں لانے کا ایک وسیع میدان کھل گیا۔ ان کے لیے کچھ بھی اجنبی، غیرخالی ازعلت یا ایسا نہ رہا جس سے دلچسپی نہ لی جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ گاؤں تک میں بھی ان کا جی لگتا تھا اور یہ دیکھنے اور سمجھنے میں بھی کہ عورتیں اور مرد کس طرح زندگی بسر کرتے تھے، ان کے احساسات کیا تھے اور ان کے رویے کیسے تھے۔

    معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کئی زبانوں کا مطالعہ کیا تھا اور اب بھی بیسیوں ایسے شعر مل جاتے ہیں جن میں انہوں نے الفاظ کو بڑے دل فریب انداز میں تفریحاً استعمال کیا ہے۔ ان کے پیر و مرشد نے ان کی دنیاداری کو معاف کر دیا تھا۔ افکار وعقائد کے بارے میں خسرو جو بے تکلفی برت لیتے تھے، اس پر اور ان کی شاعری پر چاہے اس میں عشق وعاشقی ہی راہ پاگئی ہو، وہ مسکرا دیتے تھے۔ خسرو کی غزلوں میں ان کے مرشد کی شخصیت ہر جگہ اور ہر شکل میں جھلکتی ہے۔ ایک خود دار ہیرو کی شکل میں بھی، ایک ایسی حسین عورت کی شکل میں بھی جس کے حسن کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ میخانہ کے پیرمغاں کی حیثیت سے بھی، انتہائی حسین اور ظالمانہ حد تک بے نیاز ترک کی حیثیت سے بھی جو شراب روحانی سے سرشار کر رہا ہو اور ان کے مرشد ان باتوں کا برا نہیں مانتے تھے۔

    ان کو تو حقیقت میں خوشی ہوتی ہوگی اس وقت جب خسرو مروجہ ادبی زبان و بیان کو چھوڑ کر ایک ایسی زبان میں شعر کہتے ہوں گے جسے وہ ’ہندی‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ صوفیاء بول چال کی زبان کو اپنانے اور سنوارنے میں یقین رکھتے تھے اور عوامی بولی کو اعلٰی روحانی خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنانے میں انہوں نے ہی پہل کی تھی۔ لوک شاعری کے اثر سے خسرو نے عورت کو عاشق کے روپ میں پیش کیا اور اس زمانے کی شاعری کے جو نمونے ہم تک پہنچے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس سے زیادہ پرلطف نہیں ہے جتنی امیر خسرو کی وہ غزلیں جن میں فارسی اور ہندی دونوں ملی جلی ہیں۔ لیکن تعداد کی بنیاد پر ہی فیصلہ کیا جائے تو ہندوستانی انداز میں عشق کا یہ اظہار ادبی تفریح ہی معلوم ہوتا ہے۔

    امیر خسرو کا وہ کلام جس کی وجہ سے ان کا نام اب تک مشہور ہے، وہ غزلیں ہیں جو انہوں نے ایسی محفلوں میں گائی جانے کے لیے لکھیں جن میں موسیقی اور شاعری سے مذہبی جوش اور روحانی وجدان کو تقویت ملتی تھی۔ ان میں سے بہت سی غزلوں میں ایسے عقائد کا اظہار ہے جو مسلمانوں کے مروجہ انداز نظر کے اعتبار سے بدعتی ہیں لیکن اس بدعت کے پیچھے دراصل انسانیت کی صوفیانہ روایت تھی، مذہب کی ایسی تعبیر کی روایت تھی جس سے مذہب کو ماننے والے کی مذہبیت تو بڑھتی رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اسے رسمیات کے بندھنوں سے آزاد بھی کر دے۔ اس سے مسلمان شاعر کو مکمل آزادی مل جاتی تھی اور ایک خاص قسم کا روحانی مرتبہ بھی۔ اس سے بے تکلفی اور احترام کا، حسن اور غم کا، شاعرانہ جرأت اور روحانیت کا وہ امتزاج پیدا ہو گیا جو مسلم تہذیب کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ خسرو کی غیرمعمولی تخلیقی قوت میں مسلم تہذیب کے یہ وصف غالباً سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ خسرو کی شخصیت ایک افسانہ سی بن گئی ہے۔ ان کے معاصرین انہیں طوطی ہند کہتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کا فارسی کلام ایران کی بہترین شاعری کے ہم پلہ ہے۔

    ہندوستانی موسیقی میں انہیں مہارت حاصل تھی اور وہ خاص خاص راگ راگنیوں کے موجد تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دیہات کی عورتوں سے وہ شوخی کر لیتے تھے، انہیں اپنی پہیلیوں اور لطیفوں سے خوش کر دیتے تھے اور حیران پریشان بھی۔ اپنی بات میں فارسی اور ہندی کو اس طرح ملا دیتے تھے کہ لوگ اس پر ہنستے بھی تھے اور یہ بھی محسوس کرنے لگتے تھے کہ وہ سب ایک ہی ہیں۔ دلہن کی بدائی یا رخصتی کے وقت جو گیت گایا جاتا ہے اور جو بالکل ہندوستانی رسم ہے، کہا جاتا ہے یہ ان ہی کا لکھا ہواہے۔ ہندی اور فارسی الفاظ اور فقروں کی ایک فرہنگ جو عالمانہ تفریح کا ایک شاہکار ہے، ان ہی کے زور قلم کا نتیجہ بتائی جاتی ہے۔

    کوئی ہنسنا چاہے یا عشق ومحبت کرنا، زبان و لسان کا مطالعہ کرنا چاہے یا لوک ادب کا، مقصد گانا ہو یا روحانی کیف وانبساط تو اس کے لیے خسرو کی مثال بطور نقشِ اوّل موجود ہے۔ ان کی وجہ سے روایت ایک دم بھرپور، ہمہ گیر اور نہایت نفیس ہو گئی۔ کئی صدیوں سے انہیں ہندو مسلم تہذیب کا خالق سمجھا جاتا رہا ہے اور اب بھی ہمیں خسرو کو ان باتوں کا سرچشمہ تسلیم کرنا پڑتا ہے جنہیں ہم دل سے چاہتے ہیں۔

  • طوطیٔ ہند امیر خسرو اور حضرت نظام الدّین اولیاء

    طوطیٔ ہند امیر خسرو اور حضرت نظام الدّین اولیاء

    کہا جاتا ہے کہ حضرت امیر خسرو کو ان کے عہد کے ایک بادشاہ نے ’’ملکُ الشعراء‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا مگر وہ کشورِ سخنوری کے ایسے شہنشاہ ثابت ہوئے جس کی سلطنت آج تک قائم ہے۔

    برصغیر میں کوئی سخن ور پیدا ہی نہیں ہوا جسے ان کا ہم سَر کہا جائے۔ امیر خسرو کی شاعرانہ عظمت ہی نہیں موسیقی کے فن میں بھی انھیں یکتا و یگانہ کہا جاتا ہے۔ فنِ‌ موسیقی میں ان کی کچھ ایجادات اور اختراعات کا بھی تذکرہ محققین نے کیا ہے۔

    خسروؔ نے اپنی شاعری اور موسیقی کو خالص ہندوستانی رنگ دیا جس کی تقلید بعد کے فن کاروں نے کی۔ آئیے، امیر خسرو کی زندگی کے مختلف ادوار پر نظر ڈالتے ہیں۔

    ابتدائی زندگی
    محققین کے مطابق امیر خسرو کی ولادت اتر پردیش کے پٹیالی قصبے میں ہوئی تھی جو گنگا کے کنارے واقع ہے۔ زیادہ تر مؤرخین نے ان کا سنہ پیدائش 1252ء بتایا ہے اور یہ وہ زمانہ تھا جب سلطان ناصرالدّین محمود نے سلطنت کو سنبھال رکھا تھا۔ خسرو کا اصل نام یمین الدّین محمود تھا مگر شہرت انھیں ان کے تخلّص سے ملی۔

    خاندانی پس منظر
    خسروؔ کے والد امیر سیف الدّین محمود کا خاندان وسطِ ایشیا کے شہر سمر قند کے قریب کش کا رہنے والا تھا مگر مغلوں کی تاراجی سے پریشان ہوکر بلخ میں آبسا تھا۔ بعد میں وہاں‌ سے سکونت ترک کی اور ان کے والد ہندوستان چلے آئے۔ یہاں کسی طرح پٹیالی کی چھوٹی سی جاگیر مل گئی۔ امیر سیف الدّین محمود ایک سپاہی تھے اور معرکوں پر اکثر جایا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خسرو کی عمر سات سال تھی جب وہ والد کے سائے سے محروم ہوگئے اور پرورش و تربیت نانا نے کی۔ اس گھرانے کا ہندو پس منظر تھا اور وہاں رہتے ہوئے لوک گیت اور بھجن بھی خسرو کے کان میں پڑتے تھے۔ ایک طرف انھیں عربی، فارسی اور دینیات کی تعلیم بھی دی جارہی تھی۔ اس ماحول میں خسرو کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

    شاعری کا آغاز
    اس دور میں اچھے گھرانوں میں زبان و ادب کی تعلیم بھی ضرور دی جاتی تھی اور ماحول علمی ہوتا تھا جس میں شعر وسخن سے رچا بسا تھا۔ چنانچہ خسرو بھی مکتب میں ہی شعر سنانے لگے۔ خسرو بیس سال کی عمر تک ایک دیوان مرتب کر چکے تھے۔

    درباروں سے وابستگیاں
    مسلم عہدِ سلطنت میں شعراء کو ملازم رکھنے کا عام رواج تھا جو کہ وسط ایشیا اور ایران سے یہاں پہنچا تھا۔ سلطان غیاث الدین بلبن کا دور تھا جب خسروؔ آزادانہ طور پر تلاشِ معاش کے لیے نکلے۔ انھیں بھی بادشاہ کا ایک شاہ خرچ بھتیجا مل گیا جو علی گڑھ (کول) کا جاگیر دار تھا۔ خسرو اس کی نوازشات سے فیض یاب ہونے لگے۔

    امیر خسرو نے دوسری ملازمت سلطان بلبن کے بیٹے بغرا خان کے ہاں کی جو سامانہ (پنجاب) کا گورنر تھا۔ بغرا خاں، سلطان بلبن کے ساتھ بنگال کی بغاوت فرو کرنے گیا۔ خسروؔ بھی ساتھ تھے۔ بغاوت فرو ہوئی اور بغرا خاں کو وہاں کا گورنر بن کر لکھنوتی (موجودہ مرشد آباد) میں رکنا پڑا۔ شہزادے کے اصرار پر خسرو کو بھی کچھ دن رکنا پڑا۔ چھے مہینے بعد بہانہ کرکے دہلی چلے آئے۔

    یہ 1280ء کی بات ہے جب وہ اس وقت کے گورنر ملتان کے ملازم ہوگئے جو بے حد قابل اور مردم شناس ہونے کے ساتھ ساتھ رزم و بزم میں یکتا تھا۔ اس نے خوب قدردانی کی۔ ملتان صوفیا، شعراء، موسیقار اور اہلِ علم و فن کا مرکز تھا۔ یہیں خسرو نے اپنا دوسرا دیوان ترتیب دیا۔ یہیں قوالی کی صنف ایجاد کی۔ بعد میں‌ دہلی چلے گئے جہاں سلطان نے بلا بھیجا اور کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔ چند مہینے بعد ان کے ہاتھ میں مثنوی ’’قران السعدین‘‘ تھی جس میں‌ ان کا فنِ سخن وری عروج پر تھا۔ اسے سن کر پورا دربار دم بخود رہ گیا۔ سلطان کیقباد نے انھیں ڈھیروں انعام و اکرام سے نوازا اور ’’ملک الشعراء‘‘ کا خطاب بھی دیا۔

    نظام الدّین اولیاء کی بارگاہ میں
    جلال الدّین خلجی کے عہد میں دو سال تک امیر خسرو دہلی میں رہے اور اسی دوران ان کا خانقاہِ نظام الدین اولیاء سے ربط گہرا ہوگیا۔ مرید بھی بہت پہلے ہوچکے تھے، مگر مرشد کی خدمت میں وقت بتانے اور روحانی فیوض و برکات کے حصول کا موقع اب میسر آیا تھا۔دل کے سکون کا احساس مرشد کی خدمت میں آکر ہونے لگا۔ لگ بھگ چالیس سال کے تھے جب ایک دیوان مرتب ہوا جس میں‌ مرشد کی منقبت کے بعد بادشاہ کا ذکر آتا ہے۔ یہ پہلا دیوان تھا جس میں انھوں نے اپنے مرشد کی مدح خوانی کی ہے۔

    علمی و ادبی خدمات
    انھوں نے خمسہ نظامی کی طرز پر خمسہ لکھا اور تصوف و اخلاقیات کے موضوع پر اپنی پہلی کوشش ’’مطلعُ الانوار‘‘ پیش کی۔ انھوں نے مثنوی ’’شیریں خسرو‘‘ اور ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ لکھی۔ دورِ علائی کا بارہ سال جائزہ لیتے اور مشاہدہ کرتے ہوئے امیر خسرو نے ’’خزائن الفتوح‘‘ پیش کی جو ان کا پہلا نثری کارنامہ تھا۔ انھوں نے اس کتاب میں اپنے عہد کی تاریخ پیش کی ہے جو، اب سند کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ کتاب ’’تاریخِ علائی‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اسی کے بعد حضرت نظام الدین اولیاء کے ملفوظات کو ’’افضل الفواد‘‘ کے نام سے جمع کیا اور صخیم نثری تصنیف ’’رسائلُ الاعجاز‘‘ مکمل کی۔

    آخری ایّام
    اپنے پیر و مرشد کے وصال کے ٹھیک چھے مہینے بعد خسروؔ بھی 1325ء دارِ بقا کو چلے جنھیں ان کے مرشد کی پائنتی میں جگہ ملی جہاں صدیوں بعد بھی عام دنوں میں‌ اور عرس کے موقع پر لوگ زیارت کے لیے پہنچتے ہیں۔

    (ماخوذ از تاریخِ فیروزشاہی، تاریخِ فرشتہ، شعراء العجم، خسرو شناسی)

  • حضرت امیر خسرو اور بچّے

    حضرت امیر خسرو اور بچّے

    بچّو! تم حضرت امیر خسروؒ کو خوب جانتے ہو، اُنھیں اپنے ملک ہندوستان سے بے پناہ محبّت تھی، یہاں کی ہر چیز کو پسند کرتے تھے۔

    ایک بار ایسا ہوا کہ امیر خسرو گھوڑے پر سوار کہیں سے آ رہے تھے۔ مہر ولی پہنچتے ہی اُنھیں پیاس لگی، آہستہ آہستہ پیاس کی شدّت بڑھتی چلی گئی۔ اُنھوں نے اپنے پانی والے چمڑے کا بیگ کھولا اس میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا۔ وہ خود اپنے سفر میں سارا پانی پی چکے تھے۔ مئی جون کے مہینوں میں تم جانتے ہی ہو دلّی میں کس شدّت کی گرمی پڑتی ہے۔

    گرمی بڑھی ہوئی تھی، دھوپ تیز تھی، کچھ دور سے اُنھوں نے دیکھا آم کا ایک گھنا باغ ہے۔ اس کے پاس ہی ایک کنواں ہے، نزدیک آئے تو دیکھا وہاں چند بچّے آم کے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھے رسیلے آم چوس رہے ہیں اور مٹکے سے پانی نکال نکال کر پی رہے ہیں۔ پانی کا مٹکا دیکھ کر حضرت امیر خسروؒ کی پیاس اور بڑھ گئی۔

    یوں تو وہ آم کے دیوانے تھے۔ پھلوں میں سب سے زیادہ آم ہی کو پسند کرتے تھے، لیکن اس وقت آم کا زیادہ خیال نہیں آیا، بس وہ پانی پینا چاہتے تھے۔ گھوڑے پر سوار، آہستہ آہستہ وہ اُن بچّوں کے پاس آئے جو آم چوس رہے تھے اور مٹکے سے پانی پی رہے تھے۔ بچّوں نے اُنھیں فوراً پہچان لیا۔ خوشی سے چیخنے لگے، ’’خسرو بابا خسرو بابا۔’’

    امیر خسرو اُنھیں اس طرح خوشی سے اُچھلتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ گھوڑے سے اُترے اور بچّوں کے پاس آ گئے۔ بچّوں نے اُنھیں گھیر لیا۔

    ’’خسرو بابا خسرو بابا کوئی پہیلی سنائیے۔’’

    ’’ہاں ہاں کوئی پہیلی سنائیے۔’’ بچوّں کی آوازیں اِدھر اُدھر سے آنے لگیں۔

    ’’نہیں بابا، آج پہیلی وہیلی کچھ بھی نہیں، مجھے پیاس لگ رہی ہے، میری کٹوری میں پانی بھر دو تاکہ میری پیاس بجھے۔ اور میرے گھوڑے کو بھی پانی پلا دو۔’’

    امیر خسرو نے اپنی پیالی بچوّں کی طرف بڑھائی ہی تھی کہ ایک بچّے نے کٹوری اُچک لی اور بھاگ کر مٹکے سے پانی لے آیا۔ حضرت کی پیاس بجھی لیکن پوری نہیں بجھی۔ بولے ’’اور لاؤ پانی ایک کٹوری اور۔’’ بچّے نے کٹوری لیتے ہوئے کہا ’’پہلے آپ ایک آم کھالیں، اِس سے پیاس بھی کم ہو جائے گی۔ یہ لیجیے، یہ آم کھائیے، میں ابھی پانی لاتا ہوں۔’’

    حضرت امیر خسرو نے مسکراتے ہوئے بچّے کا تحفہ قبول کر لیا اور بچّہ ایک بار پھر دوڑ کر پانی لے آیا۔ حضرت نے پانی پی کر سب بچوّں کو دُعائیں دیں۔ بچّوں نے گھوڑے کو بھی خوب پانی پلایا۔

    ’’خسرو بابا، اس سے کام نہیں چلے گا آپ کو آج ہمیں کچھ نہ کچھ سنانا ہی پڑے گا ورنہ ہم آپ کو جانے نہ دیں گے۔‘‘ ایک بچّے نے مچل کر کہا۔

    ’’تو پھر ایسا کرو بچّو، تم لوگ مجھ سے سوال کرو، میں تمھیں جواب دوں گا۔‘‘

    حضرت امیر خسروؒ نے بچّوں کے سامنے ایک تجویز رکھی۔ بچّے فوراً راضی ہو گئے۔

    ’’تو پھر کرو سوال۔‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے فرمایا۔ ایک بچّی نے سوچتے ہوئے پوچھا: ’’خسرو بابا، خسرو بابا، آپ کو کون سا پھول سب سے زیادہ پسند ہے؟‘‘

    حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔ ’’یوں تو ہندوستان کے تمام پھول خوب صورت ہیں، سب کی خوشبو بہت اچھّی اور بھلی ہے، لیکن تمام پھولوں میں مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں اسے پھولوں کا سرتاج کہتا ہوں۔‘‘

    ’’چمپا تو مجھے بھی بہت پسند ہے، اس کی خوش بُو بہت ا چھّی لگتی ہے‘‘ ایک بچّی نے کہا۔

    ’’خوب! دیکھو نا ہندوستان میں کتنے پھول ہیں، کوئی گِن نہیں سکتا اُنھیں۔ اس ملک میں سوسن، سمن، کبود، گلِ زرّیں، گلِ سرخ، مولسری، گلاب، ڈھاک، چمپا، جوہی، کیوڑا، سیوتی، کرنا، نیلوفر۔ پھر بنفشہ، ریحان، گلِ سفید، بیلا، گلِ لالہ اور جانے کتنے پھول ہیں۔ اپنے مولوی استاد سے کہنا، وہ تمھیں ہر پھول کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتا دیں گے۔ مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے، یوں چنبیلی بھی مجھے بہت پسند ہے۔‘‘

    ایک دوسرے بچّے نے سوال کیا، ’’خسرو بابا، اور پھلوں میں آپ کو سب سے زیادہ کون سا پھل پسند ہے؟‘‘

    ’’آم۔‘‘ حضرت نے فوراً جواب دیا۔

    سارے بچّے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’خسرو بابا، آم ہم سب کو بھی سب سے زیادہ پسند ہے۔ دیکھیے نا ہم کتنی دیر سے بس آم کھائے جا رہے ہیں، آپ بھی کھائیے نا، ہاتھ پر لے کر کیا بیٹھے ہیں؟‘‘ اُس بچیّ نے کہا۔

    ’’میں اس آم کو تحفے کے طور پر لے جاؤں گا، اپنے بچّوں کا تحفہ ہے نا، گھر پہنچ کر اسے دھو کر اطمینان سے بیٹھ کر کھاؤں گا۔‘‘ حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔

    ’’اس کے بعد کون سا پھل آپ پسند کرتے ہیں؟‘‘ ایک دوسرے بچّے نے پوچھا۔‘‘

    ’’آم کے بعد کیلا۔ کیلا بھی مجھے پسند ہے۔’’حضرت نے جواب دیا۔

    ’’اور خسرو بابا، پرندوں میں کون سا پرندہ آپ کو زیادہ پسند ہے؟‘‘ ایک تیسرے بچّی نے سوال کیا۔

    ’’پرندوں میں مجھے طوطا بہت ہی پسند ہے، اس لیے کہ طوطے اکثر انسان کی طرح بول لیتے ہیں۔ یوں مجھے مور، مینا، گوریّا بھی پسند ہیں۔ اب آپ لوگ پوچھیں گے، جانوروں میں مجھے کون سا جانور پسند ہے؟ حضرت نے کہا۔

    ’’میں تو ابھی پوچھنے ہی والا تھا۔‘‘ ایک بچّے نے کہا۔

    ’’تو سن لو مجھے ہاتھی، بندر اور بکری پسند ہیں۔‘‘ حضرت نے جواب دیا، پھر خود ہی پوچھ لیا۔

    ’’جانتے ہو بکری مجھے کیوں پسند ہے؟ اور مور کیوں پسند کرتا ہوں؟‘‘

    کیوں؟‘‘ کئی بچّے ایک ساتھ بول پڑے۔’’

    ’’مور اس لیے کہ وہ دُلہن کی طرح سجا سجایا نظر آتا ہے اور بکری اس لیے کہ وہ ایک پتلی سی لکڑی پر چاروں پاؤں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔‘‘ بچّے کھلکھلا پڑے۔

    ا چھا بچّو، اب میں چلتا ہوں۔ پانی پلانے کا شکریہ اور اس آم کا بھی شکریہ، میرے گھوڑے کو پانی پلایا اس کا بھی شکریہ۔’’

    حضرت امیر خسرو چلنے کو تیّار ہو گئے تو ایک چھوٹے بچّے نے روتے ہوئے کہا۔’’آپ سے دوستی نہیں کروں گا۔’’

    بھلا کیوں بابا، آپ ناراض کیوں ہو گئے؟‘‘ حضرت امیر خسرو نے پوچھا۔’’

    آپ نے کوئی گانا نہیں سنایا۔ وہی گانا سنائیے نا جو آپ حضرت نظام الدین اولیا کے پاس کل صبح گا رہے تھے۔’’

    لیکن تم کہاں تھے وہاں؟’’ حضرت نے حیرت سے دریافت کیا۔

    ’’میں وہیں چھپ کر سن رہا تھا۔‘‘ پھر رونے لگا وہ بچّہ۔

    ’’ارے بابا روؤ نہیں، آنسو پونچھو۔ میں تمھیں وہی گانا سناؤں گا۔‘‘ حضرت نے اسے منا لیا اور لگے لہک لہک کر گانے لگے۔

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملاے کے

    حضرت امیر خسروؒ دیکھ رہے تھے کہ گانا سنتے ہوئے بچّے جھوم رہے ہیں۔ گانا ختم ہوتے ہی بچے چُپ ہو گئے اور پھر اچانک ہنسنے لگے، حضرت بچوّں کو پیار کرنے کے بعد اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ آم کے پیڑوں کے نیچے وہ بچّے جھوم جھوم کر گا رہے تھے:

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائے کے

    (شکیل الرّحمٰن کئی کتابوں کے مصنّف اردو میں جمالیاتی تنقید نگاری کے لیے پہچانے جاتے ہیں، ان کا تعلق ہندوستان سے تھا، انھوں نے بچّوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا)

  • نام وَر ستار نواز استاد کبیر خان کی برسی

    نام وَر ستار نواز استاد کبیر خان کی برسی

    پاکستان کے مشہور ستار نواز استاد کبیر خان 22 مارچ 2001ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ کلاسیکی موسیقی اور سازوں کی دنیا میں اپنے فن کے لیے مشہور دبستان، سینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خاندان موسیقار تان سین کی نسبت سے مشہور ہوا جس میں پیدا ہونے والے کبیر خان کو ماہر اور باکمال ستار نواز تسلیم کیا جاتا ہے۔

    برصغیر پاک و ہند میں کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے مختلف سازوں میں ستار بہت مشہور ہے جسے بہت دل چسپی اور شوق سے سنا جاتا ہے۔ روایتی طرزِ موسیقی اور گائیکی کے ساتھ قدیم سازوں میں اگرچہ ستار اور اس کے بجانے والے بھی اب بہت کم ہیں، لیکن استاد کبیر کا نام ان کے فن کی بدولت آج بھی زندہ ہے۔

    انھوں نے پچاس برس تک ملکی سطح پر منعقدہ مختلف تقاریب اور محافلِ موسیقی میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے نہ صرف شائقین سے داد پائی بلکہ اس ساز کو بجانے اور اسے سیکھنے والوں کو بھی متاثر کیا، انھیں بیرونِ ملک بھی ثقافتی وفود کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔

    استاد کبیر خان وہ واحد ستار نواز تھے جو اس ساز کے دو معروف اسالیب کے ماہر تھے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے 1989ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • گم شدہ امیر خسرو

    گم شدہ امیر خسرو

    شاعری، کم از کم بڑی شاعری محض شعور کا معاملہ نہیں ہوتی۔ وہ چھوٹے شاعر ہوتے ہیں جنھیں پوری خبر ہوتی ہے کہ وہ شعر میں کیا کررہے ہیں۔ بڑا شاعر خبر اور بے خبری کے دوراہے پر ہوتا ہے۔ اسے چھوٹے شاعروں اور عام لوگوں سے زیادہ خبر ہوتی ہے۔ اپنے پورے عہد سے زیادہ اسے خبر ہوتی ہے۔ بس اسے ایک خبر نہیں ہوتی۔ یہ کہ اسے کتنی خبر ہے۔

    یہی معاملہ تاریخی عمل کا ہے۔ تاریخی عمل بھی محض شعور کی سطح پر جاری نہیں رہتا۔ وہ اپنے لیے بہت سے پیچیدہ، پراسرار اور ڈھکے چھپے راستے بناتا ہے۔ وہ اپنا کام نکالنے کے لیے جن شخصیتوں کو چنتا ہے، لازم نہیں ہے کہ وہ شخصیتیں اپنے فعل وعمل کے مضمرات سے پوری طرح واقف ہوں۔

    امیر خسرو نے فارسی شاعری میں جو کچھ کہا اس کی اہمیت اور معنویت سے وہ اپنے زمانے کے مسلمان اشراف کے ادبی معیارات اور مذاقِ سخن کے واسطے سے باخبر تھے۔ مگر نئی زبان میں وہ جو کچھ کہہ رہے تھے اور کر رہے تھے اس کے معنٰی تو مستقبل میں پوشیدہ تھے۔ امیر خسرو کے صرف باطن کو اس کی خبر تھی۔

    چلیے، یہ بھی دیکھ لیں کہ وہ کیا تاریخی عمل تھا، جس نے امیر خسرو کو جنم دیا تھا اور اپنا کام نکالنے کے لیے امیر خسرو کو چُنا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان اپنے تازہ تازہ تخلیقی جذبے کے ساتھ اس برصغیر میں اپنا اعلان کررہے تھے۔ ابھی ان کے یہاں کسی خوف نے راہ نہیں پائی تھی۔ اپنے تخلیقی جوہر پر اعتبار تھا۔ اس اعتبار کے ساتھ وہ حکمت و دانائی کی تلاش میں چین تک کا بھی سفر کرسکتے تھے اور ارد گرد بکھری ہوئی حکمت کو بھی سمیٹنے اور ہضم کرنے میں دلیر تھے۔

    اس دلیرانہ رویے نے ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جو جذب کرنے، پھیلنے اور چھا جانے کی توانائی سے مالا مال تھی۔ امیر خسرو اسی توانائی کا کرشمہ تھے۔

    امیر خسرو نے فارسی شاعری خوب کی، مگر اس پر قانع نہیں ہوئے۔ انہوں نے گیت کہے، دوہے، پہیلیاں، کہہ مکرنیاں، دو سخنے، انمل۔ یہ ان کی نئی شاعری تھی۔

    کوئی نمود کرتی ہوئی تہذیب اور کوئی اُبھرتا ہوا تخلیقی جوہر روایت میں مقید ہو کر نہیں رہ سکتا۔ ایک نئے گرد و پیش میں نمو کرتی ہوئی یہ تہذیب ورثے میں ملی ہوئی شعری روایت پر قانع نہیں رہ سکتی تھی۔ اس کے تجربے اہلِ عجم کے تجربوں سے مختلف تھے۔ یہ تجربے نیا اظہار مانگتے تھے۔

    صحیح ہے کہ امیر خسرو نے اپنی فارسی شاعری میں ان تجربوں کو سمونے کی بہت کوشش کی۔ صحیح ہے کہ انہوں نے اپنی غزل اور مثنوی کو عجمیت کی ڈبیا میں بند کرکے نہیں رکھا۔ یہاں کے رنگوں اور خوشبوؤں کے لیے یہاں کے لفظوں اور لہجوں کے لیے انہوں نے اپنی فارسی غزل اور مثنوی کے سارے دریچے کھول رکھے تھے، مگر اصناف کو بہرحال اپنی عجمی روایت کی بھی اطاعت کرنی تھی۔

    بس یہیں سے امیر خسرو کو اپنی فارسی شاعری کے ناکافی ہونے کا احساس ہوا اور یہاں سے انہیں بیان میں وسعت کی تلاش ہوئی کہ جو تجربے اس مٹی کی دین ہیں، ان کے اظہار کی گنجائش نکل سکے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے امیر خسرو ایک باغی شاعرکا روپ دھارتے نظر آتے ہیں۔

    بات کو سمجھنے کے لیے یوں کہہ لیجیے کہ ہماری شعری روایت میں امیر خسرو، راشد اور میرا جی سے بڑے باغی ہوئے ہیں۔ راشد اور میرا جی کی نظمِ آزاد کو اس تہذیب کی سند حاصل تھی جس کا اس وقت کے محکوم ہندوستان پر بہت رعب تھا۔ امیر خسرو نے ہیئت کے جو تجربے کیے اس کا اشارہ انہوں نے کسی ایذرا پاؤنڈ اور کسی ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ سے نہیں لیا تھا۔

    امیر خسرو اپنے وقت کے خود ہی ایذرا پاؤنڈ تھے اور خود ہی ٹی ایس ایلیٹ تھے۔ پھر جن دیسی اصناف پر وہ مائل ہوئے، وہ اس عوامی ادبی روایت سے لی گئی تھیں جنہیں ثقہ ادبی مذاق رکھنے والے مسلمان اشراف خاطر ہی میں نہیں لاتے تھے۔ اس اعتبار سے امیر خسرو کی یہ شاعری ہماری شعری روایت میں پہلی نئی شاعری ہے۔

    (ممتاز فکشن رائٹر، منفرد اسلوب کے حامل ادیب انتظار حسین کے مضمون "گم شدہ امیر خسرو سے اقتباس)

  • انسانی ذہن پر پوشیدہ حقیقت کیسے منکشف ہوسکتی ہے؟

    انسانی ذہن پر پوشیدہ حقیقت کیسے منکشف ہوسکتی ہے؟

    انسان کے مراتبِ استعداد بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی استعداد درجۂ حیوانیت سے متجاوز نہیں ہو پاتی اور وہ صرف حیات کی اساسی ضروریات تک ہی محدود رہتے ہیں، یہ انسانی استعداد کا سب سے کم مرتبہ ہے۔

    ان سے اونچا طبقہ ان اصحاب کا ہے جو ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنی استعداد کے رجحانات اور تقاضوں کی مناسبت سے بعض علوم و فنون سیکھ لیتے ہیں۔ اس طرح ان کا شمار تعلیم یافتہ اور اربابِ فن میں ہوتا ہے، یہ استعداد کا درجہ اوسط ہے۔

    آخری اور سب سے بلند طبقہ وہ ہے جس پر جامع الکمالات، نابغہ روزگار اور فطین کے القاب صادق آتے ہیں۔

    قدرت نے انہیں استعداد کے اُس نقطۂ عروج پر فائز کیا ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی استعداد کو بروئے کار لائیں اور ذرا توجہ سے کام لیں تو کائنات کا کوئی علم اور فن ان کے دائرہ گرفت سے باہر نہیں جانے پاتا بلکہ جس موضوع کو ان کے آئینۂ استعداد کے روبرو پیش کیا جاتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ اس پر برجستہ محو گفتگو ہو جاتے ہیں بلکہ اس موضوع پر ایسے عالمانہ، محققانہ اور ناقابلِ تردید عقلی و نقلی دلائل کا ایک دریا بہاتے نظر آتے ہیں اور اپنے جوہرِ استعداد سے ایسی ایسی نادرہ زائیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ آیت "وحملھا الانسان” میں پوشیدہ حقیقتِ کبرٰی ذہن پر منکشف ہو جاتی ہے۔

    ان کے زیرِ بحث موضوع کا جو صحیح تجزیہ اور حتمی نتیجہ برآمد ہوتا ہے اس کے قبول کرنے میں سلیم الطبع، انصاف پسند، معقول اور ذی ہوش سامعین کبھی بھی تاخیر سے کام نہیں لیا کرتے۔

    مذکورہ بالا صفاتِ عالیہ، خصائص اور استعداد کے مالک غزالیؒ ، رازیؒ، رومیؒ اور امیر خسروؒ جیسے ذہن کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں اور ایسے حضرات صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور جس خطۂ ارض کو ان کی قیام گاہ کا شرف مل جاتا ہے، وہ قیامت تک نہ صرف یہ کہ اپنے اس اعزاز پر فخر کرتا ہے، بلکہ دنیا اس خطہ کے باشندوں کو بھی اس نابغۂ روزگار سے قربت کے باعث چشمِ احترام سے دیکھتی ہے۔

    تیری محبت کے سبب مجھے اس قوم کے ساتھ بھی حسنِ سلوک اور مروت سے پیش آنا پڑا جو میرے دشمن تھے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ایک آنکھ کی خاطر ہزار آنکھوں کی عزت کرنا پڑتی ہے۔

    سید نصیر الدین نصیر کی معطر فکر سے ایک ورق