Tag: امیر مینائی

  • قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا تذکرہ

    قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا تذکرہ

    اردو زبان کے قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا کلام عشق و محبّت، کیف و مستی، رندی و سرشاری کے ساتھ زہد و تقویٰ کے مضامین سے آراستہ ہے۔ ان کی شاعری ندرت و خوش سلیقگی اور موضوعات کی رنگا رنگی کا ایسا نمونہ ہے جس نے امیر مینائی کو ان کے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔

    امیر مینائی شاعر ہی نہیں نثر نگار اور لغت نویس بھی تھے جو زبان و بیان پر ان کے عبور کا مظہر ہے۔ ان کا نام امیر احمد تھا، سن 1828ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی اور 13 اکتوبر 1900ء میں حیدرآباد دکن میں وفات پائی۔ امیر مینائی نے شروع گھر میں اپنے والد اور بھائی سے ابتدائی تعلیم پائی اور بعد میں مفتی سعد اللہ مراد آبادی سے فارسی، عربی سیکھی اور ادب میں فیض اٹھایا۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں منشی مظفر علی اسیر کے شاگرد ہو گئے جو اپنے زمانہ کے مشہور شاعر اور ماہرِعروض تھے۔ اس زمانہ میں لکھنؤ میں شاعری کا چرچا عام تھا۔ امیر مینائی کا کلام جلد ہی لکھنؤ اور پھر دوسرے شہروں تک مشہور ہوگیا۔ ان کی تعریف سن کر 1852ء میں نواب واجد علی شاہ نے اپنے دربار میں‌ طلب کیا اور وظیفہ جاری کرتے ہوئے انھیں اپنی اولادوں کا اتالیق مقرر کردیا۔ لیکن اودھ پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد اور غدر کی وجہ سے دربدر ہوئے اور ان کا بہت سا کلام بھی ضائع ہو گیا۔ تب وہ کسی طرح رام پور پہنچے اور کلب علی خان کے عہد میں جہاں کئی باکمال اور نادرِ روزگار ہستیاں اپنے علم و فن کے سبب عزّت و احترام اور وظیفہ پارہی تھیں، امیر مینائی بھی دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    یہاں ان کی شاعری کا خوب چرچا ہوا۔ بعد میں حیدر آباد دکن جیسی مرفہ الحال ریاست کے عظیم سخی اور علما و ادبا کے مشہور خیرخواہ نظام کی دعوت پر وہاں پہنچے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ شاعرِ بے بدل اپنے فن و کمال سے دربارِ دکن میں کیا جگہ پاتے کہ انھیں وہاں بیماری نے آ لیا۔ امیر مینائی دکن میں انتقال کر گئے۔ امیر مینائی طبعاً شریف النفس، پاک باز، عبادت گزار اور متّقی تھے۔ ان سے متعلق ایک قصّہ مشہور ہے کہ جن دنوں رام پور میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار تھے تو امیر مینائی کسی کام کی غرض سے رام پور میں تھے۔ ان سے کسی نے نواب صاحب کی پریشانی کا ذکر کیا اور دُعا کو کہا تو انھوں نے یہ دعائیہ کلام پڑھا جس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہو جائے
    ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہو جائے

    جوش میں ابرِ کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
    کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہو جائے

    باغ شاداب ہو، کھیتی ہو ہری، دل ہوں نہال
    عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہو جائے

    اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
    یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہو جائے

    اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
    ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہو جائے

    ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
    درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہو جائے

    کہتے ہیں اس کے بعد رام پور میں ابرِ کرم خوب برسا۔ حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری کے موضوعات میں خدا پرستی، دین داری، حسنِ خلق کی تلقین اور آخرت کی فکر بھی ملتی ہے۔ ان کا نعتیہ کلام بہت مشہور ہے جب کہ قصیدہ گوئی میں ان کا قدرتِ کلام مسلّم ہے۔

    غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں ان کے کلام میں سلاست، روانی، مضمون آفرینی، نزاکتِ خیال اور شگفتہ بیانی جیسے تمام لوازم دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکثر کلام ان کی نازک خیالی، تمثیل نگاری اور صوفیانہ مضامین سے سجا ہوا ہے۔ امیر مینائی نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی جو اس دور میں رائج تھیں۔ ان کے بہت سے شعر زباں زدِ خاص و عام ہیں۔

    یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
    سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    امیر مینائی کو زبان و بیان اور تحقیق سے بھی لگاؤ تھا۔ انھوں نے اردو میں غلط رائج عربی اور فارسی الفاظ کی نشان دہی کی اور انھیں کتابی صورت میں اکٹھا کیا۔ ایک کتاب شعرا کا یادگار انتخاب اور سرمہ بصیرت کے علاوہ امیراللغات ان کا بڑا کارنامہ ہے جب کہ دیوان بھی شایع ہوئے۔

  • بارش کے لیے منظوم دُعا کرنے والے امیر مینائی کا تذکرہ

    بارش کے لیے منظوم دُعا کرنے والے امیر مینائی کا تذکرہ

    اردو زبان کے قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی نے متنوع موضوعات پر اپنے کلام اور اشعار کی رنگا رنگی کے سبب ہم عصروں میں امتیاز حاصل کیا۔ کیف و انبساط اور ندرت و خوش سلیقگی امیر مینائی کے فنِ شاعری کی خصوصیت ہے۔

    امیر مینائی شاعر ہی نہیں نثر نگار اور لغت نویس بھی تھے اور زبان و بیان پر عبور رکھتے تھے۔ ان کا نام امیر احمد تھا۔ سنہ 1828ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی اور 13 اکتوبر 1900ء میں حیدرآباد دکن میں وفات پائی۔

    امیر مینائی کی شاعری عشق و محبّت، کیف و مستی، رندی و سرشاری کے ساتھ زہد و تقویٰ کے ایسے مضامین سے گندھی ہوئی ہے جو انھیں بطور شاعر جداگانہ حیثیت دیتے ہیں۔

    اردو زبان کے اس مشہور شاعر نے گھر میں اپنے والد اور بھائی سے ابتدائی تعلیم پائی اور بعد میں مفتی سعد اللہ مراد آبادی سے فارسی، عربی سیکھی اور ادب میں اکتساب کیا۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں منشی مظفر علی اسیر کے شاگرد ہو گئے جو اپنے زمانہ کے مشہور شاعر اور ماہرِعروض تھے۔ اس زمانہ میں لکھنؤ میں شاعری کا چرچا عام تھا۔ امیر مینائی کا کلام جلد ہی لکھنؤ اور پھر دوسرے شہروں تک مشہور ہوگیا۔ ان کی تعریف سن کر 1852ء میں نواب واجد علی شاہ نے اپنے دربار میں‌ طلب کیا اور وظیفہ جاری کرتے ہوئے انھیں اپنی اولادوں کا اتالیق مقرر کردیا۔ لیکن اودھ پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد اور غدر کی وجہ سے دربدر ہوئے اور ان کا بہت سا کلام بھی ضائع ہو گیا۔ تب وہ کسی طرح رام پور پہنچے اور کلب علی خان کے عہد میں جہاں کئی باکمال اور نادرِ روزگار ہستیاں اپنے علم و فن کے سبب عزّت و احترام اور وظیفہ پارہی تھیں، امیر مینائی بھی دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    یہاں امیر مینائی کی شاعری کا خوب چرچا ہوا۔ بعد میں حیدر آباد دکن جیسی مرفہ الحال ریاست کے عظیم سخی اور علما و ادبا کے مشہور خیرخواہ نظام کی دعوت پر وہاں پہنچے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ شاعرِ بے بدل اپنے فن و کمال سے دربارِ دکن میں کیا جگہ پاتے کہ انھیں وہاں بیماری نے آلیا۔ امیر مینائی دکن میں انتقال کرگئے۔

    وہ طبعاً شریف النفس، پاک باز، عبادت گزار اور متّقی تھے۔ ان سے متعلق ایک قصّہ مشہور ہے کہ جن دنوں رام پور میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار تھے تو امیر مینائی کسی کام کی غرض سے رام پور میں تھے۔ ان سے کسی نے نواب صاحب کی پریشانی کا ذکر کیا اور دُعا کو کہا تو انھوں نے یہ دعائیہ کلام پڑھا جس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہو جائے
    ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہو جائے

    جوش میں ابرِ کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
    کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہو جائے

    باغ شاداب ہو، کھیتی ہو ہری، دل ہوں نہال
    عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہو جائے

    اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
    یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہو جائے

    اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
    ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہو جائے

    ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
    درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہو جائے

    کہتے ہیں اس کے بعد رام پور میں ابرِ کرم خوب برسا۔ حضرت امیر مینائی کا یہ قصہ ڈاکٹر امیر علی نے ہندوستان کے اہم شعرا سے متعلق اپنے تحقیقی مضمون میں رقم کیا ہے۔

    حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری کے موضوعات میں خدا پرستی، دین داری، حسنِ خلق کی تلقین اور آخرت کی فکر بھی ملتی ہے۔ ان کا نعتیہ کلام بہت مشہور ہے جب کہ قصیدہ گوئی میں ان کا قدرتِ کلام مسلّم ہے۔

    غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں ان کے کلام میں سلاست، روانی، مضمون آفرینی، نزاکتِ خیال اور شگفتہ بیانی جیسے تمام لوازم دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکثر کلام ان کی نازک خیالی، تمثیل نگاری اور صوفیانہ مضامین سے سجا ہوا ہے۔

    امیر مینائی نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی جو اس دور میں رائج تھیں۔ ان کے بہت سے شعر زباں زدِ خاص و عام ہیں۔

    یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
    سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    امیر مینائی کو زبان و بیان اور تحقیق سے بھی لگاؤ تھا۔ انھوں نے اردو میں غلط رائج عربی اور فارسی الفاظ کی نشان دہی کی اور انھیں کتابی صورت میں اکٹھا کیا۔ ایک کتاب شعرا کا یادگار انتخاب اور سرمہ بصیرت کے علاوہ امیراللغات ان کا بڑا کارنامہ ہے جب کہ دیوان بھی شایع ہوئے۔

  • اردو زبان کے قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا یومِ وفات

    اردو زبان کے قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا یومِ وفات

    آج قادرُ الکلام شاعر امیر مینائی کا یومِ وفات ہے۔ وہ اپنے کلام کی رنگا رنگی اور تنوع کے سبب شعروسخن کی دنیا میں ممتاز ہوئے۔

    انھوں نے اپنے کلام میں عشق و محبّت، کیف و مستی، رندی و سرشاری کے ساتھ زہد و تقویٰ کے مضامین کو نہایت کیف و انبساط اور ندرت و خوش سلیقگی سے برتا اور اپنے کمالِ فن کا لوہا منوایا۔

    امیر مینائی شاعر ہی نہیں نثر نگار اور لغت نویس بھی تھے جو زبان و بیان پر ان کے عبور کا مظہر ہے۔ ان کا نام امیر احمد تھا، سن 1828ء میں لکھنؤ میں آنکھ کھولی اور 13 اکتوبر 1900ء میں حیدرآباد دکن میں وفات پائی۔

    امیر مینائی نے شروع گھر میں اپنے والد اور بھائی سے ابتدائی تعلیم پائی اور بعد میں مفتی سعد اللہ مراد آبادی سے فارسی، عربی سیکھی اور ادب میں فیض اٹھایا۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔

    پندرہ سال کی عمر میں منشی مظفر علی اسیر کے شاگرد ہو گئے جو اپنے زمانہ کے مشہور شاعر اور ماہرِعروض تھے۔ اس زمانہ میں لکھنؤ میں شاعری کا چرچا عام تھا۔ امیر مینائی کا کلام جلد ہی لکھنؤ اور پھر دوسرے شہروں تک مشہور ہوگیا۔ ان کی تعریف سن کر 1852ء میں نواب واجد علی شاہ نے اپنے دربار میں‌ طلب کیا اور وظیفہ جاری کرتے ہوئے انھیں اپنی اولادوں کا اتالیق مقرر کردیا۔ لیکن اودھ پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد اور غدر کی وجہ سے دربدر ہوئے اور ان کا بہت سا کلام بھی ضائع ہو گیا۔ تب وہ کسی طرح رام پور پہنچے اور کلب علی خان کے عہد میں جہاں کئی باکمال اور نادرِ روزگار ہستیاں اپنے علم و فن کے سبب عزّت و احترام اور وظیفہ پارہی تھیں، امیر مینائی بھی دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    یہاں ان کی شاعری کا خوب چرچا ہوا۔ بعد میں حیدر آباد دکن جیسی مرفہ الحال ریاست کے عظیم سخی اور علما و ادبا کے مشہور خیرخواہ نظام کی دعوت پر وہاں پہنچے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہ شاعرِ بے بدل اپنے فن و کمال سے دربارِ دکن میں کیا جگہ پاتے کہ انھیں وہاں بیماری نے آلیا۔ امیر مینائی دکن میں انتقال کرگئے۔

    وہ طبعاً شریف النفس، پاک باز، عبادت گزار اور متّقی تھے۔ ان سے متعلق ایک قصّہ مشہور ہے کہ جن دنوں رام پور میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار تھے تو امیر مینائی کسی کام کی غرض سے رام پور میں تھے۔ ان سے کسی نے نواب صاحب کی پریشانی کا ذکر کیا اور دُعا کو کہا تو انھوں نے یہ دعائیہ کلام پڑھا جس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہو جائے
    ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہو جائے

    جوش میں ابرِ کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
    کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہو جائے

    باغ شاداب ہو، کھیتی ہو ہری، دل ہوں نہال
    عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہو جائے

    اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
    یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہو جائے

    اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
    ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہو جائے

    ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
    درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہو جائے

    کہتے ہیں اس کے بعد رام پور میں ابرِ کرم خوب برسا۔

    حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری کے موضوعات میں خدا پرستی، دین داری، حسنِ خلق کی تلقین اور آخرت کی فکر بھی ملتی ہے۔ ان کا نعتیہ کلام بہت مشہور ہے جب کہ قصیدہ گوئی میں ان کا قدرتِ کلام مسلّم ہے۔

    غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں ان کے کلام میں سلاست، روانی، مضمون آفرینی، نزاکتِ خیال اور شگفتہ بیانی جیسے تمام لوازم دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکثر کلام ان کی نازک خیالی، تمثیل نگاری اور صوفیانہ مضامین سے سجا ہوا ہے۔

    امیر مینائی نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی جو اس دور میں رائج تھیں۔ ان کے بہت سے شعر زباں زدِ خاص و عام ہیں۔

    یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
    سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

    امیر مینائی کو زبان و بیان اور تحقیق سے بھی لگاؤ تھا۔ انھوں نے اردو میں غلط رائج عربی اور فارسی الفاظ کی نشان دہی کی اور انھیں کتابی صورت میں اکٹھا کیا۔ ایک کتاب شعرا کا یادگار انتخاب اور سرمہ بصیرت کے علاوہ امیراللغات ان کا بڑا کارنامہ ہے جب کہ دیوان بھی شایع ہوئے۔

  • لکھنؤ کے امیر کا دل ٹوٹا تو گوہرِ یگانہ ہوا!

    لکھنؤ کے امیر کا دل ٹوٹا تو گوہرِ یگانہ ہوا!

    لکھنؤ کے امیر مینائی کو دنیائے ادب میں‌ شاعر اور ادیب کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ 1829 میں پیدا ہوئے۔ اسیر لکھنوی کو شاعری میں اپنا استاد مانا اور خوب نام کمایا۔

    1852 میں امیر مینائی کو نواب واجد علی شاہ کے دربار تک رسائی نصیب ہوئی اور ان کے حکم پر شاد سلطان اور ہدایت السلطان نامی کتب تصنیف کیں۔ 1857 کے بعد رام پور گئے جہاں نواب کلب علی خاں نے اُنھیں اپنا استاد بنایا۔ نواب صاحب کے انتقال کے بعد رام پور چھوڑنا پڑا۔ 1900 میں حیدرآباد(دکن) چلے گئے جہاں‌ بیمار ہوئے اور زندگی تمام کی۔

    باذوق قارئین کے لیے امیر مینائی کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔

    غزل
    امیر لاکھ ادھر سے ادھر زمانہ ہوا
    وہ بت وفا پہ نہ آیا، میں بے وفا نہ ہوا
    ہوا فروغ جو مجھ کو غمِ زمانہ ہوا
    پڑا جو داغ جگر میں چراغِ خانہ ہوا
    امید جا کے نہیں اس گلی سے آنے کی
    بہ رنگِ عمر مرا نامہ بر روانہ ہوا
    ترے جمال نے زہرہ کو دور دکھلایا
    ترے جلال سے مریخ کا زمانہ ہوا
    کوئی گیا درِ جاناں پہ ہم ہوئے پامال
    ہمارا سَر نہ ہوا سنگِ آستانہ ہوا
    جب آئی جوش پہ میرے کریم کی رحمت
    گرا جو آنکھ سے آنسو دُرِ یگانہ ہوا
    اٹھائے صدمے پہ صدمے تو آبرو پائی
    امیر ٹوٹ کے دل گوہرِ یگانہ ہوا

  • "مجرم نے کوڑے کھانے کی سزا کیوں قبول کی؟”

    "مجرم نے کوڑے کھانے کی سزا کیوں قبول کی؟”

    ہم تین چیزوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ تجریدی مصوری سے، علامتی افسانے سے اور اساتذہ کے کلام سے۔ وجہ یہ ہے کہ ان تینوں کے مفہوم اخذ کرنا ناظر یا قاری کی ذمہ داری ہے نہ کہ مصور، افسانہ نگار اور شاعر کی۔

    مصور ترچھے خطوط سے، افسانہ نگار الفاظ سے اور اساتذۂ سخن ردیف و قوانی سے فن پارے کو اس حد تک گراں بار کر دیتے ہیں کہ اس میں مزید کوئی بار اٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ لہٰذا مفہوم و معنی کا یہ بار ہم جیسے ناتوانوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔

    میر تقی میرؔ کو بھی اس قسم کا تجربہ ہوا تھا جس کا ذکر اس شعر میں ملتا ہے:

    سب پہ جس بار نے گرانی کی
    اس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا

    ہم تجریدی مصوری کی نمائشوں میں کبھی نہیں جاتے، یہاں تک احتیاط برتتے ہیں کہ جب شہر میں اس قسم کی کوئی نمائش ہوتی ہے، تو گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ کہیں فضائی آلودگی ہم پر بھی اثر انداز نہ ہوجائے۔ علامتی افسانے لکھنے والوں کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ انہوں نے گفتگو میں علامتوں سے کام لیا، تو ہمارا حشر بھی وہی ہوگا جو افسانے کی صنف کا ہوا ہے۔

    اساتذۂ سخن کا ہم بے حد ادب کرتے ہیں اور اِسی وجہ سے ہم نے کبھی ان سے بے تکلف ہونے کی جسارت نہیں کی، یعنی ان کے دواوین کے قریب جانا اور چُھونا تو کیا، انھیں دُور سے دیکھنا بھی ہمارے نزدیک سوئے ادب ہے۔

    ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے، تو بڑی جماعتوں کے طالب علموں کو ان کی شرارتوں پر جو سخت سزا دی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ ان سے استاد ذوقؔ کی کسی غزل کی شرح لکھوائی جاتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ہم نے بڑی جماعتوں میں پہنچنے سے پہلے ہی سلسلۂ تعلیم منقطع کر لیا۔ معلوم نہیں آج کل اسکولوں میں اِس قسم کی سزائیں دینے کا رواج ہے یا نہیں۔ اگر ہوگا تو یقینا اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی کا کلام سزا دینے کے کام آتا ہوگا۔

    یہ بات ہم نے بلاوجہ نہیں کہی۔ سلطان جمیل نسیم نے یہ واقعہ ہمیں سنایا ہے کہ حیدرآباد میں ایک مجرم کو پندرہ کوڑے کھانے یا استاد کی پندرہ غزلیں سننے کی سزا دی گئی۔ سزا کے انتخاب کا حق استعمال کرتے ہوئے مجرم نے کوڑے کھانے کا فیصلہ کیا کیوں کہ یہ سزا نسبتاً نرم تھی۔ سلطان جمیل نسیم چوں کہ افسانہ نگار ہیں، اِس لیے ممکن ہے بعض لوگ اس واقعے کو درست نہ سمجھیں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ کسی افسانہ نگار کا سہواً کسی واقعے کو صحیح بیان کر دینا خارج از امکان نہیں۔

    استاد اختر انصاری شاعر ہی نہیں، ایک رسالے کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ رسالہ تو کبھی کبھی چھپتا ہے، لیکن دیوان ہر سال باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں استاد کا بیسواں دیوان شائع ہوا تھا، تو وہ اسے اپنے عقیدت مندوں میں قیمتاً تقسیم کرنے کے لیے کراچی تشریف لائے تھے۔ اس سلسلے میں وہ ہم سے بھی ملے تھے۔

    ہم نے عرض کیا تھا: ’’استاد! ہم اس شرط پر قیمت ادا کریں گے کہ دیوان آپ کسی اور کو دے دیں۔‘‘ اس گزارش سے وہ بے حد خوش ہوئے اور فرمایا: ’’اگر سب عقیدت مند آپ کی طرح کے ہوں، تو پھر دیوان چھپوائے بغیر ہی اس کا پورا ایڈیشن فروخت ہوسکتا ہے۔‘‘

    (مشفق خواجہ، خامہ بگوش کے قلم سے)

  • امیر مینائی کی دُعا اور بارش

    امیر مینائی کی دُعا اور بارش

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب رام پور میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار پیدا ہوگئے تھے اور عوام سخت پریشان تھے۔

    والیٔ رام پور نواب یوسف علی خان نے مشہور شاعر حضرت امیرؔ مینائی سے کہا کہ بارش کے لیے بارگاہِ الٰہی میں التجا کریں۔ امیر مینائی کا خاندان زہد و تقویٰ، خدمتِ خلق کے لیے مشہور تھا اور آپ بھی نیک طینت اور پرہیز گار شمار ہوتے تھے۔

    کہتے ہیں امیر مینائی ان دنوں کسی کام کی غرض سے رام پور آئے ہوئے تھے۔ نواب صاحب کی پریشانی اور اپنے لوگوں کے لیے ان کا درد سنا تو سبھی کو دُعا کا کہتے ہوئے خود بھی اپنے رب کی بارگاہ میں‌ ہاتھ اٹھائے۔ کہتے ہیں ان کی دُعا کے بعد وہاں خوب بارش ہوئی۔

    حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری کے موضوعات میں خدا پرستی، دین داری، حسنِ خلق کی تلقین اور آخرت کی فکر بھی ملتی ہے۔ انھوں نے بارش کے لیے اپنا ایک دعائیہ کلام پڑھا جس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہو جائے
    ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہو جائے

    جوش میں ابرِ کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
    کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہو جائے

    باغ شاداب ہو، کھیتی ہو ہری، دل ہوں نہال
    عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہو جائے

    اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
    یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہو جائے

    اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
    ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہو جائے

    ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
    درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہو جائے

    (حضرت امیر مینائی کا یہ قصہ ڈاکٹر امیر علی نے ہندوستان کے اہم شعرا کے فن اور ان کی زندگی سے متعلق ادبی تحقیق پر مبنی مضمون میں رقم کیا ہے)

  • آج ممتازشاعرامیرمینائی کا یوم وفات ہے

    آج ممتازشاعرامیرمینائی کا یوم وفات ہے

    امیر کے نام سے شاعری کرنے والے ممتاز غزل گو شاعرامیر احمد مینائی 21 فروری 1829 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے،آپ کا تعلق مخدوم شاہ مینا کے خاندان سے تعلق تھا اس لیے مینائی کہلائے،آپ علمِ طب،جفر اور علمِ نجوم میں ماہر تھے اسی وجہ سے اپنے معاصرین سے ممتاز تھے۔

    حالاتِ زندگی کے کچھ پر تو

    امیر مینائی کوشعروسخن کا شوق بچپن سے تھا،شروع میں مظفرعلی اسیرسے تلمذ حاصل تھا پھر 1852ء میں واجد علی شاہ کے دربار سے تعلق قائم ہوا اور ان کے حکم سے دو کتابیں’’ارشاد السلطان‘‘ اور ’’ہدایت السلطان‘‘ تصنیف کیں۔

    ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے بعد آپ رام پور چلے گئے اور نواب یوسف علی خاں والئ رام پور کے انتقال کے بعد نواب کلب علی خاں کے استاد مقرر ہوئے اور رام پور میں 43 برس بڑی عزت وآرام سے زندگی بسر کی اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہے۔

    نواب کلب علی خان کے انتقال کے بعد آپ اپنے ہم عصر شاعر اور قریبی دوست داغ دہلوی کے ایماء پر امیرمینائی حیدرآباد (دکن) چلے آئے اور اپنے آخری ایام یہی گذارے۔

    سفرِ جہانِ فانی 

    1892 میں امیرؔ مینائی بیمار ہو گئے، حکیموں اور ڈاکٹروں سے علاج کرایا مگر افاقہ نہ ہوا،آخر 13 اکتوبر 1900 ء کو 71 برس کی عمرمیں خالق حقیقی سے جا ملے،مینائی خود فرماتے ہیں کہ

    توڑ ڈالی موت نے غربت میں میناےٗ امیرؔ

    اور اسی دن درگاہ شاہ یوسف و شاہ شریف میں ابدی نیند سلا دیئے گئے، جہاں ان کا مزار مرجع خلائق ہے،جناب امیر مینائی کے لوحِ مزار پر جلیلؔ رانکپوری کی یہ تاریخ کندہ کی گئی ہے

    امیر کشور معنی امیرؔ مینائی
    خدا کے عاشقِ صادق درِ نبیﷺ کے فقیر
    گےٗ جو خلد بریں کو تو ان کی تربت پر
    جلیلؔ نے یہ لکھا روضہٗ جناب امیرؔ

    جب کہ امیر مینائی کی قبر انور کے لوح مزار کی پشت پرامیرؔ مینائی کا اپنا ہی یہ شعر کنداں ہے جو اہل دنیا کو دنیا کی بے ثباتی سے آگاہ کرتا رہتا ہے کہ

    ابھی مزار پہ احباب فاتحہ پڑھ لیں
    پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے

    تاریخ وفات 

    امیرؔ کے انتقال پر دنیائے اردو ادب میں عام طور پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا اخبارات و رسائل میں تعزیتی مضامین شائع ہوئے اور اکثر ہم عصروں شاگردوں اور دوسرے شاعروں نے اردو اور فارسی میں وفات کی تاریخیں کہیں۔

    ان میں مہاراجہ کشن پرشادؔ،داغؔجلالؔ اور جلیل وغیرہ کی تاریخیں خصوصیت کی مالک ہیں۔داغؔ کی تین تاریخوں میں سے ایک تاریخ ملاحظہ ہو۔

     

    کر گئے رحلت امیر احمد امیرؔ
    اب نشاطِ زندگی جاتا رہا
    مل گئی تاریخ دل سے داغؔ کے
    آہ لطفِ شاعری جاتا رہا

    مشہورغزل

    سرکتی جاےٗ ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
    نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
    جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
    حیا لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
    شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
    کبھی فرصت میں کر لینا حساب آ ہستہ آہستہ
    سوال وصل پر ان کو ردو کا خوف ہے اتنا
    دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آ ہستہ آہستہ
    وہ بے دردی سے سر کاٹیں امیرؔ اور میں کہوں ان سے
    حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ

    چند اور نمونہ شاعری

    کون بیماری میں آتا ہے عیادت کرنے؟
    غش بھی آیا تو مِری روح کو رخصت کرنے
    اُس کو سمجھاتے نہیں جاکے کسی دن ناصح
    روز آتے ہیں مجھ ہی کو یہ نصیحت کرنے
    تیر کے ساتھ چلا دل، تو کہا میں نے، کہاں؟
    حسرتیں بولیں کہ، مہمان کو رخصت کرنے
    آئے میخانے میں، تھے پیرِ خرابات امیر
    اب چلے مسجدِ جامع کی امامت کرنے


    یہ چرچے، یہ صحبت، یہ عالم کہاں
    خدا جانے ، کل تم کہاں، ہم کہاں
    جو خورشید ہو تم تو شبنم ہیں ہم
    ہوئے جلوہ گر تم تو پھر ہم کہاں
    حسیں قاف میں گوکہ پریاں بھی ہیں
    مگر اِن حسینوں کا عالم کہاں
    الٰہی ہے دل جائے آرام غم
    نہ ہوگا جو یہ جائے گا غم کہاں
    کہوں اُس کے گیسو کو سنبل میں کیا
    کہ سنبل میں یہ پیچ یہ خم کہاں
    وہ زخمی ہوں میں، زخم ہیں بے نشاں
    الٰہی لگاؤں میں مرہم کہاں
    زمانہ ہوا غرق طوفاں امیر
    ابھی روئی یہ چشم پُرنم کہاں


    ہر غنچہ میں وحدت کا تماشا نظر آیا
    ہر پھول میں رنگِ چمن آرا نظر آیا
    کیا ذکر حرم جا کے جو میخانہ میں دیکھا
    واں بھی تری قدرت کا تمشا نظر آیا
    وہ رند ہوں میں دل کی طرح سینہ میں رکھا
    ساقی جو شکستہ کوئی مینا نظر آیا
    منہ چھاگلوں کے کھول دیے چھالوں نے میرے
    کانٹا کوئی صحرا میں جو پیاسا نظر آیا
    اس بزم میں حیرت کی مری وجہ نہ پوچھو
    آئینے سے پوچھو کہ تجھے کیا نظر آیا
    وہ آپ ہی ناظر وہ ہے آپ ہی منظور
    نظارہ ہی اک بیچ میں پردا نظر آیا
    تارا جسے سمجھا تھا امیرؔ آنکھ کا اپنے
    دیکھا تو وہی داغ جگر کا نظر آیا


    اک ادا سے ،ناز سے، انکار سے
    دل میں وہ آےٗ تو کس تکرار سے
    لوٹ جانا پاےٗ رنگیں پر امیرؔ
    سیکھ لے کوئی حناےٗ یار سے