آج ام المومنین صدیقہ عالم جناب عائشہ کا یوم وفات ہے۔ آپؓ نے 17 رمضان 58 ہجری، بروز منگل 66 سال کی عمر میں اس دار فانی سے پردہ فرمایا تھا۔
حضرت عائشہؓ پیغمبر اسلام ﷺ کی صغیر سن زوجہ تھیں اور آپ نے انہیں شرف زوج اپنے دوست اور صحابی حضرت ابو بکرؓ کے احترام میں عطا کیا تھا۔
ولادت
حضرت عائشہؓ کی تاریخ ولادت کے متعلق تاریخ و سیرت کی تمام کتابیں خاموش ہیں۔ ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہے۔
ان کا لقب صدیقہ تھا، ام المومنین ان کا خطاب تھا جبکہ نبی مکرم محمد ﷺ نے بنت الصدیق سے بھی خطاب فرمایا ہے اور کبھی کبھار حمیرا کے لقب سے بھی پکارتے تھے۔
کنیت
عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے۔ چونکہ حضرت عائشہؓ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔
ایک دفعہ آنحضرت محمد ﷺ سے حسرت کے ساتھ عرض کیا کہ اورعورتوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر کنیت رکھ لی ہے، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بھانجے عبد اللہ کے نام پر رکھ لو، چنانچہ اسی دن سے ام عبد اللہ کنیت قرار پائی۔
نکاح
ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ ہجرت سے 3 برس قبل حضور اکرم ﷺ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور 9 برس کی عمرمیں رخصتی ہوئی۔ ان کا مہر بہت زیادہ نہ تھا صرف 500 درہم تھا۔
وفات
سن 58 ہجری کے ماہ رمضان میں حضرت عائشہؓ بیمار ہوئیں اور انہوں نے وصیت کی کہ انہیں امہات المومنینؓ اور رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کیا جائے۔
ماہ رمضان کی 17 تاریخ منگل کی رات ام المومنین عائشہؓ نے وفات پائی۔ آپؓ 18 سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھیں اور وفات کے وقت ان کی عمر 66 برس تھی۔ حضرت ابوہریرہؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
حضرت عائشہؓ اوراحادیث نبوی
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو علمی صداقت اور احادیث روایت کرنے کے حوالے سے دیانت و امانت میں امتیاز حاصل تھا۔ ان کا حافظہ بہت قوی تھا جس کی وجہ سے وہ حدیث نبوی کے حوالے سے صحابہ کرام کے لیے بڑا اہم مرجع بن چکی تھیں۔
حضرت عائشہ حدیث حفظ کرنے اور فتویٰ دینے کے اعتبار سے صحابہ کرام سے بڑھ کر تھیں۔ حضرت عائشہ نے 2 ہزار 2 سو 10 احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی۔
دور نبوی کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے ام المومنین عائشہؓ سے زیادہ رسول اللہ محمد ﷺ سے احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو۔ صدیقہؓ سے 174 احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری و مسلم میں ہیں۔
آج اسلام کی خاتونِ اول، حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا 1443 واں یومِ وصال ہے، آپ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی پہلی اور سب سے محبوب زوجہ تھیں، آپ کا شماربلاشبہ بانیانِ اسلام میں ہوتا ہے۔
حضرت خدیجہ ؓ، مکے کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ آپ حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے ’طاہرہ‘ کے لقب سے مشہور تھیں۔ آپ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلی اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔
حضرت خدیجہؓ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اورام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام آل اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے پیدا ہوئی اورصرف ابراہیم جوکہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے تھے جوکہ اسکندریہ کے بادشاہ اورقبطیوں کےبڑے کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبطورہدیہ پیش کی گئی تھیں۔
رسول اللہ کے نزدیک ام المومنین خدیجہؓ کی منزلت
حضرت خدیجہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مشترکہ زندگی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اورآپﷺ کی سیرت طیبہ میں سیدہ خدیجہؓ کو ایک خاص مقام و منزلت حاصل ہے۔ رسول اللہﷺ نزدیک آپ کے مقام و مرتبے کے بارے میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں؛ یہاں تک کہ آپﷺ ان کی وفات کے کئی برس بعد بھی حضرت خدیجہؓ کو یاد کرکے آپ کے بے مثل ہونے پر زور دیا کرتے تھے؛ اور جب رسول اللہ(ﷺ) سے کہا گیا کہ ’’خدیجہ آپ کے لئے ایک سن رسیدہ بیوی سے زیادہ کچھ نہ تھیں!‘‘ تو آپ بہت ناراض ہوئے اور اس کی بات کو ردّ کرکے اشارہ فرمایا کہ “خداوند متعال نے مجھے کبھی بھی ایسی زوجہ عطا نہیں کی جو خدیجہؓ کا نعم البدل بن سکے؛ کیونکہ انھوں نے میری تصدیق کی جبکہ کسی اور نے میری تصدیق نہیں کی؛ انھوں نے میری مدد کی ایسے حال میں جبکہ کسی اور نے میری مدد نہیں کی؛ اپنے مال سے میری امداد کی جبکہ دوسروں نے اپنا مال مجھے دینے سے انکاری تھے۔
ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج4، ص1824۔
حضرت خدیجہؓ، رسول اللہﷺ کی زوجیت میں آنے کے بعد آپﷺ کے لئے بہترین زوجہ تھیں، آپ نے صداقت و عشق کے ساتھ شوہر کے عنوان سے آپﷺ کا حق ادا کیا اور وہ سکون آپﷺ کے لئے فراہم کیا جس کی خواہش مشترکہ زندگی میں ہرمیاں بیوی کو تلاش ہوتی ہے اور یہ سب کرتے ہوئے خدیجہؓ کے سامنے اللہ کی رضا و خوشنودی کے سوا کوئی بھی دوسرا مقصد نہ تھا۔
چنانچہ رسول اللہﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی حیات کے دوران دوسری شادی نہیں کی اورجو توصیفات حضور اکرمﷺ نے آپ کی شان میں بیان کی ہیں، ان سے آپﷺ کے نزدیک خدیجہؓ کے اعلیٰ مقام ومنزلت کا اظہارہوتا ہے۔ شاید سیدہ خدیجہؓ کی شان میں اہم ترین اور بہترین توصیف یہی ہو کہ اسلام کی خاتون اول حضرت خدیجۃ الکبریؓ کوآپﷺ نے اپنے لئے بہترین اور صادق ترین وزیر و مشیر اور سکون و آسودگی کا سبب قراردیا ہے۔
حضرت خدیجہؓ، خاتونِ علم و ایمان
حضرت خدیجہؓ حقیقتاً ایک عقل مند اورشریف خاتون تھیں۔ ابن جوزی رقمطراز ہیں کہ ’’خدیجہ ـ یہ پاک طینت خاتون ـ جس کی خصوصیات میں فضیلت پسندی، فکری جدت، عشق و کمال اور ترقی جیسی خصوصیات شامل ہیں ۔ نوجوانی کی عمر سے ہی حجاز اور عرب کی نامور اور صاحب فضیلت خاتون سمجھی جاتی تھیں‘‘۔آپ کی مادی قوت اور مال و دولت سے زيادہ اہم آپ کی بے انتہا معنوی اور روحانی ثروت تھی۔ آپ نے اپنا رشتہ مانگنے والے اشراف قریش کی درخواست مسترد کرکے رسول اللہﷺ کو شریک حیات کے عنوان سے منتخب کیا اوریوں مادی و دنیاوی ثروت کی نعمت کو آخرت کی سعادت اور جنت کی ابدی نعمتوں سے مکمل کیا اور اپنی عقلمندی و دانائی اپنے زمانے کے لوگوں کو جتادی۔ آپ نے اس نعمت کے حصول کے لئے سب سے پہلے رسول اللہﷺ کی تصدیق کی، اسلام قبول کیا اور اسلام کی پہلی نماز رسول اللہﷺ کے ساتھ ادا کی۔
ابن جوزی، تذکرة الخواص، ج2، ص 300۔
اسلام کی ترقی میں جنابِ خدیجہؓ کا کردار
حضرت خدیجہؓ نے اسلام و رسول خداﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان کو اپنے عمل سے ملا لیا اور اس حدیث شریف کا مصداق ٹھہریں جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ایمان قلبی اعتقاد، زبانی اقرار اوراعضاء و جوارح کے ذریعے عمل کا نام ہے‘‘۔ چنانچہ حضرت خدیجہؓ نے قرآن کے احکام پر عمل اور اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی امداد کے لئے اپنی دولت خرچ کرکے، رسول خداﷺ کے مقدس اہداف کی راہ میں اپنی پوری دولت کو قربان کرگئیں اور اسلام کی ترقی و پیشرفت میں ناقابل انکار کردار ادا کیا۔
سليمان الکتاني کہتا ہےکہ سیدہ خدیجہؓ نے اپنی دولت حضرت محمدﷺ کو عطا کردی مگر وہ یہ محسوس نہیں کررہی تھیں کہ اپنی دولت آپﷺ کو دے رہی ہیں بلکہ محسوس کررہی تھیں کہ اللہ تعالی جو ہدایت محمدﷺ کی محبت اور دوستی کی وجہ سے، آپ کو عطا کررہا ہے دنیا کے تمام خزانوں پر فوقیت رکھتی ہے۔
حضرت خدیجہؓ کی مالی امداد کے بدولت رسول خداﷺ تقریبا غنی اور بےنیاز ہوگئے۔ خداوند متعال آپﷺ کو اپنی عطا کردہ نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہےکہ
وَوَجَدَكَ عَائِلاً فَأَغْنَى۔
ترجمہ: اور [خدا نے] آپ کو تہی دست پایا تو مالدار بنایا۔
سورہ ضحیٰ (93) آیت 8۔
رسول خداﷺ فرمایا کرتے تھےکہ
ما نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجة۔
ترجمہ: کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہؓ کی دولت نے پہنچایا۔
مجلسی، بحارالانوار، ج19، ص 63۔
ام المومنین خدیجہ الکبرےٰکی وفات
منابع و ذرائع میں منقول ہے کہ سیدہ خدیجہؓ کا سن وفات 10 بعد از بعثت یعنی 3 سال قبل از ہجرت مدینہ ہے۔ زیادہ ترکتب میں ہے کہ وفات کے وقت آپ کی عمر 65 برس تھی۔ ابن عبدالبر، کا کہنا ہے کہ حضرت خدیجہؓ کی عمر بوقت وفات 64 سال چھ ماہ تھی۔
انہدام سےقبل کی نایاب تصویر
،بعض منابع میں ہے کہ حضرت خدیجہؓ کا سال وفات ابو طالبؓ کا سال وفات ہی ہے۔ ابن سعد کا کہنا ہے کہ حضرت خدیجہؓ ابو طالبؓ کی رحلت کے 35 دن بعد رحلت کرگئی تھیں۔ وہ اور بعض دوسرے مؤرخین نے کہا ہے کہ آپ کی وفات کی صحیح تاریخ 10 رمضان سنہ 10 بعد از بعثت ہے۔
رسول اللہﷺ نے آپ کو اپنی ردا اور پھر جنتی ردا میں کفن دیا اور مکہ کے بالائی حصے میں واقع پہاڑی کوہ حجون کے دامن میں واقع ’مقبرہ معلی‘ جسے ’جنت المعلی‘ بھی کہتے ہیں،اس میں سپرد خاک کیا۔
اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا کہ انہیں بشارت دے دیجئے کہ اللہ نے ان کے لیے جنت میں ایک بڑا خوشنما اور پرسکون مکان تعمیر کرایا ہے۔جس میں کوئی پتھر کا ستون نہیں ہے۔ یہی روایت امام مسلم نے حسن بن فضیل کے حوالے سے بھی بیان کی ہے۔ اسی روایت کو اسی طرح اسماعیل بن خالد کی روایت سے امام بخاری نے بھی بیان کیا ہے۔
حضرت خدیجہ مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون تھیں جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ وہ حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے ’طاہرہ‘ کے لقب سے مشہور تھیں۔ انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامان تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔
حضرت خدیجہؓ اسلام قبول کرنے والی پہلی خاتون تھیں اور انہیں ام المومنین اول ہونے کی سعادت حاصل تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولادیں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے پیدا ہوئی اور صرف ابراہیم ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے تھے جو اسکندریہ کے بادشاہ اور قبطیوں کے بڑوں کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی گئی تھیں۔
رسول اللہ کے نزدیک ام المومنین خدیجہؓ کی قدر و منزلت
حضرت خدیجہؓ نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اورآپ کی سیرت طیبہ میں سیدہ خدیجہؓ کو ایک خاص مقام و منزلت حاصل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک آپؓ کے مقام و مرتبے کے بارے میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ آپ سیدہؓ کی وفات کے کئی برس بعد بھی آپ ﷺ حضرت خدیجہؓ کو یاد کر کے آپ کے بے مثل ہونے پر زور دیا کرتے تھے۔
جب ایک بار رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا کہ ’خدیجہؓ آپ کے لیے ایک سن رسیدہ بیوی سے زیادہ کچھ نہ تھیں‘ تو آپ بہت ناراض ہوئے اور اس کی بات کو رد کر کے اشارہ فرمایا کہ ’خداوند متعال نے مجھے کبھی بھی ایسی زوجہ عطا نہیں کی جو خدیجہؓ کا نعم البدل بن سکے، کیونکہ انہوں نے میری تصدیق کی جب کسی اور نے میری تصدیق نہیں کی، انہوں نے میری مدد کی ایسے حال میں جب کسی اور نے میری مدد نہیں کی، اپنے مال سے میری امداد کی جب دوسرے اپنا مال مجھے دینے سے انکاری تھے‘۔
ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج 4، ص 1824۔
حضرت خدیجہؓ رسول اللہ ﷺ کی زوجیت میں آنے کے بعد آپ کے لیے بہترین زوجہ تھیں۔ آپؓ نے صداقت و عشق کے ساتھ شوہر کے عنوان سے آپ ﷺ کا حق ادا کیا اور وہ سکون آپ ﷺ کے لیے فراہم کیا جس کی خواہش مشترکہ زندگی میں ہر میاں بیوی کو ہوتی ہے اور یہ سب کرتے ہوئے خدیجہؓ کے سامنے اللہ کی رضا و خوشنودی کے سوا کوئی بھی دوسرا مقصد نہ تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی حیات کے دوران دوسری شادی نہیں کی اورجو توصیفات حضور اکرم ﷺ نے آپؓ کی شان میں بیان کی ہیں، ان سے آپؓ کے نزدیک خدیجہؓ کے اعلیٰ مقام ومنزلت کا اظہار ہوتا ہے۔ شاید سیدہ خدیجہؓ کی شان میں اہم ترین اور بہترین توصیف یہی ہو کہ اسلام کی خاتون اول حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ کو آپ نے اپنے لیے بہترین اور صادق ترین وزیر و مشیر اور سکون و آسودگی کا سبب قرار دیا ہے۔
حضرت خدیجہؓ ۔ خاتون علم و ایمان
حضرت خدیجہؓ حقیقتاً ایک عقلمند اورشریف خاتون تھیں۔ ابن جوزی رقم طراز ہیں، ’خدیجہ ـ یہ پاک طینت خاتون ـ جس کی خصوصیات میں فضیلت پسندی، فکری جدت، عشق و کمال اور ترقی جیسی خصوصیات شامل ہیں۔ نوجوانی کی عمر سے ہی حجاز اور عرب کی نامور اور صاحب فضیلت خاتون سمجھی جاتی تھیں‘۔
آپؓ کی مادی قوت اور مال و دولت سے زيادہ اہم آپؓ کی بے انتہا معنوی اور روحانی ثروت تھی۔ آپؓ نے اپنا رشتہ مانگنے والے اشراف قریش کی درخواست مسترد کر کے رسول اللہ ﷺ کو شریک حیات کے عنوان سے منتخب کیا اور یوں مادی و دنیاوی ثروت کی نعمت کو آخرت کی سعادت اور جنت کی ابدی نعمتوں سے مکمل کیا اور اپنی عقلمندی و دانائی اپنے زمانے کے لوگوں کو جتا دی۔ آپؓ نے اس نعمت کے حصول کے لیے سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کی، اسلام قبول کیا اور اسلام کی پہلی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ادا کی۔
ابن جوزی، تذکرة الخواص، ج 2، ص 300۔
اسلام کی ترقی میں حضرت خدیجہؓ کا کردار
حضرت خدیجہؓ نے اسلام و رسول ﷺ خدا کی نبوت و رسالت پر ایمان کو اپنے عمل سے ملا لیا اور اس حدیث شریف کی مصداق ٹہریں جس میں کہا گیا ہے کہ ’ایمان قلبی اعتقاد، زبانی اقرار اور اعضا و جوارح کے ذریعے عمل کا نام ہے‘۔ چنانچہ حضرت خدیجہؓ نے قرآن کے احکام پر عمل اور اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی امداد کے لیے اپنی دولت خرچ کر کے، رسول خدا کے مقدس اہداف کی راہ میں اپنی پوری دولت کو قربان کر گئیں اور اسلام کی ترقی و پیشرفت میں ناقابل انکار کردار ادا کیا۔
سليمان الکتانی کہتا ہے کہ سیدہ خدیجہؓ نے اپنی دولت حضرت محمد ﷺ کو عطا کردی مگر وہ یہ محسوس نہیں کررہی تھیں کہ اپنی دولت آپ ﷺ کو دے رہی ہیں بلکہ محسوس کررہی تھیں کہ اللہ تعالی جو ہدایت محمد ﷺ کی محبت اور دوستی کی وجہ سے آپ کو عطا کررہا ہے دنیا کے تمام خزانوں پر فوقیت رکھتی ہے۔
حضرت خدیجہؓ کی مالی امداد کی بدولت رسول خدا ﷺ تقریباً غنی اور بے نیاز ہوگئے۔ خداوند متعال آپ ﷺ کو اپنی عطا کردہ نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ
وَوَجَدَكَ عَائِلاً فَأَغْنَى۔
ترجمہ: اور [خدا نے] آپ کو تہی دست پایا تو مال دار بنایا۔
سورہ ضحیٰ (93) آیت 8۔
رسول خدا ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ
ما نَفَعَنِي مالٌ قَطُّ ما نَفَعَني (أَو مِثلَ ما نَفَعَني) مالُ خَديجة۔
ترجمہ: کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا فائدہ مجھے خدیجہؓ کی دولت نے پہنچایا۔
مجلسی، بحار الانوار، ج 19، ص 63۔
ام المومنین خدیجۃ الکبریٰ کی وفات
منابع و ذرائع میں منقول ہے کہ سیدہ خدیجہؓ کا سن وفات 10 بعد از بعثت یعنی 3 سال قبل از ہجرت مدینہ ہے۔ زیادہ ترکتب میں ہے کہ وفات کے وقت آپؓ کی عمر 65 برس تھی۔ ابن عبد البر، کا کہنا ہے کہ خدیجہؓ کی عمر بوقت وفات 64 سال 6 ماہ تھی۔
بعض منابع میں ہے کہ حضرت خدیجہؓ کا سال وفات ابو طالبؓ کا سال وفات ہی ہے۔ ابن سعد کا کہنا ہے کہ حضرت خدیجہؓ ابو طالبؓ کی رحلت کے 35 دن بعد رحلت کرگئی تھیں۔ وہ اور بعض دوسرے مؤرخین نے کہا ہے کہ آپ کی وفات کی صحیح تاریخ 10 رمضان سنہ 10 بعد از بعثت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اپنی ردا اور پھر جنتی ردا میں کفن دیا اور مکہ کے بالائی حصے میں واقع پہاڑی کوہ حجون کے دامن میں، مقبرہ معلیٰ یا جنت المعلیٰ میں سپرد خاک کیا۔
اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا کہ انہیں بشارت دے دیجیئے کہ اللہ نے ان کے لیے جنت میں ایک بڑا خوشنما اور پرسکون مکان تعمیر کروایا ہے جس میں کوئی پتھر کا ستون نہیں ہے۔ یہی روایت امام مسلم نے حسن بن فضیل کے حوالے سے بھی بیان کی ہے۔ اسی روایت کو اسی طرح اسماعیل بن خالد کی روایت سے امام بخاری نے بھی بیان کیا ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔