Tag: انتخابات

  • کینیڈا میں لبرل پارٹی کی مسلسل چوتھی بار حکومت بننے کا امکان

    کینیڈا میں لبرل پارٹی کی مسلسل چوتھی بار حکومت بننے کا امکان

    اوٹاوا: کینیڈا میں ایک بار پھر لبرل پارٹی کی حکومت بننے کا امکان ہے۔

    کینیڈا میڈیا کے مطابق ملک میں لبرل پارٹی کی مسلسل چوتھی بار حکومت بننے کا امکان ہے، لبرل پارٹی کینیڈا کی اگلی حکومت تشکیل دے گی، تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ لبرل پارٹی کی اکثریتی حکومت بنے گی یا مخلوط ؟

    ووٹنگ کے بعد ابتدائی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبرل پارٹی کو کنزرویٹو پارٹی پر برتری حاصل ہے، ووٹرز نے معیشت اور امریکا سے سفارتی و تجارتی معاملات پر ووٹ دیا۔

    343 کے ایوان میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی پارٹی کو 172 نشستیں درکار ہیں، کینیڈا کے قومی نشریاتی ادارے سی بی سی نیوز کے مطابق لبرلز فی الحال 161 نشستیں جیتنے کے راستے پر ہیں۔ اب تک اس نے 118 سیٹیں جیت لی ہیں جب کہ 43 پر انھیں برتری حاصل ہے، دوسری طرف کنزرویٹو پارٹی نے 110 سیٹیں جیت لی ہیں جب کہ اسے 40 سیٹوں پر برتری حاصل ہے۔

    موجودہ وزیر اعظم مارک کارنی نے اوٹاوا میں اپنی نشست جیت لی ہے۔ اگر لبرلز یہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو 10 سال بعد یہ ان کی چوتھی فتح ہوگی۔


    روس کے یک طرفہ جنگ بندی کے اعلان پر یوکرین کا ناراضی بھرا مؤقف سامنے آ گیا


    لبرل پارٹی کے ووٹرز کا کہنا تھا کہ وہ ٹرمپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ کینیڈا کبھی بھی 51 ویں ریاست نہیں بنے گا، اور یہ ایک قابل فخر ملک ہے۔ ایک ووٹر نے بتایا کہ کنزرویٹو لیڈر پیئر پوئیلیور صحیح شخص اس لیے نہیں ہیں کیوں کہ وہ ٹرمپ کے قریبی ساتھی ہیں، وہ امریکا کے ریپبلکن پارٹی کے ساتھ نظریاتی اتحاد رکھتے ہیں۔

  • کینیڈا انتخابات میں ریکارڈ پاکستانی نژاد شہری امیدوار

    کینیڈا انتخابات میں ریکارڈ پاکستانی نژاد شہری امیدوار

    کینیڈا میں رواں ماہ 28 اپریل کو عام انتخابات ہو رہے ہیں ان الیکشن میں پہلی بار ریکارڈ تعداد میں پاکستانی نژاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کینیڈا میں رواں ماہ 28 اپریل کو وفاقی انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں سینکڑوں مقامی سیاستدانوں کے ساتھ پہلی بار ریکارڈ تعداد میں پاکستانی نژاد امیدوار بھی الیکشن کے میدان میں اتر رہے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق 50 پاکستانی نژاد امیدوار 28 اپریل کو کینیڈا کی سیاسی ایوان میں انٹری کے لیے اپنی قسمت آزمائی کریں گے اور وہ مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارمز سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

    سب سے زیادہ 15 پاکستانی نژاد امیدوار لبرل پارٹی آف کینیڈا کی جانب سے امیدوار ہیں۔ ان میں سے 5 امیدوار سلمیٰ زاہد، اقراء خالد، شفقت علی، یاسر نقوی اور سمیر زبیری ارکانِ پارلیمنٹ رہ چکے ہیں اور اس بار بھی ان کی کامیابی کے روشن امکانات ہیں۔

    لبرل پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے والے دیگر پاکستانی نژاد امیدواروں میں اسلم رانا، مبارک احمد، حفیظ ملک، ذیشان خان، شہناز منیر، غضنفر تارڑ، ایاز بنگش، عزیز میاں، گل خان اور نجم نقوی شامل ہیں۔

    نیو ڈیموکریٹک پارٹی سے 10 پاکستانی نژاد امیدوار الیکشن کا حصہ ہیں۔ ان میں خاور حسین، محمد ریاض ساہی، آفتاب قریشی، سمیر قریشی، احمد خان، روبی زمان، نوید احمد، ضیغم جاوید ودیگر شامل ہیں۔

    گرین پارٹی آف کینیڈٓ سے تین پاکستانی نژاد امیدوار الیکشن کے میدان میں ہیں۔ ان میں طالبہ افرا بیگ بھی شامل ہیں۔

    کینیڈا میں سنٹرسٹ پارٹی کے نام ایک سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہے جس کے بیشتر امیدواروں کا تعلق پاکستانی کمیونٹی سے ہے۔ اس سیاسی جماعت کے سربراہ بھی پاکستانی نژاد ہیں اور ان کی صاحبزادی زینب رانا کینیڈا کے تمام امیدواروں میں کم عمر ترین اور گریڈ 12 کی طالبہ ہیں۔

    کمیونسٹ پارٹی آف کینیڈا سے سلمان ظفر اور پیپلز پارٹی آف کینیڈا نے نجیب بٹ کو انتخابی اکھاڑے میں اتارا ہے۔ ان کے علاوہ مزید پانچ پاکستانی نژاد آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔

  • بھارت کینیڈا کے عام انتخابات میں مداخلت کرسکتا ہے، انٹیلی جنس کا انتباہ

    بھارت کینیڈا کے عام انتخابات میں مداخلت کرسکتا ہے، انٹیلی جنس کا انتباہ

    کینیڈین سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کینیڈا کے عام انتخابات میں مداخلت کی کوشش کرسکتا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس کی ڈپٹی ڈائریکٹر وینیسالائیڈ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت کینیڈین کمیونیٹیز اور جمہوری عمل میں مداخلت کا ارادہ اور صلاحیت رکھتا ہے۔

    ریاست مخالف عناصرانتخابات میں مداخلت کیلئے مصنوعی ذہانت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

    کینیڈین سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس کی ڈپٹی ڈائریکٹر نے خدشہ ظاہرکیا کہ امکان ہے چین بھی انتخابات میں مداخلت کیلئے اے آئی ٹولز کا استعمال کریگا۔انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ روس بھی ممکنہ طور پر کینیڈا کے خلاف سرگرمیاں کرسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے پارلیمنٹ تحلیل کرکے نئے الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے، انہوں نے کہا کہ 28 اپریل کو نئے انتخابات ہونگے۔

    کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کیلئے گورنر جنرل سے باضابطہ ملاقات بھی کی ہے، وزیراعظم مارک کارنی نے کہا ہے کہ 28 اپریل کو کینیڈا میں نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔

    مارک کارنی کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے، ٹرمپ سے نمٹنے کیلئے کینیڈا کے لوگوں سے مضبوط مینڈیٹ مانگ رہا ہوں۔

    ایران نے ایٹمی پروگرام پر امریکا سے براہ راست مذاکرات کا امکان مسترد کر دیا

    انھوں نے کہا کہ نئی کینیڈین معیشت کی تعمیر کیلئے ہمیں تبدیلی کی ضرورت ہے، ٹرمپ کے غیرمنصفانہ تجارتی اقدامات اور ہماری خودمختاری کو خطرات لاحق ہیں۔

    کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا جواب ایک مضبوط معیشت اور زیادہ محفوظ کینیڈا کی تعمیرکیلئے ہونا چاہیے۔

  • مودی سرکار نے نئی دہلی سے عام آدمی پارٹی کی حکمرانی ختم کر دی

    مودی سرکار نے نئی دہلی سے عام آدمی پارٹی کی حکمرانی ختم کر دی

    نئی دہلی: بی جے پی نے نئی دہلی سے عام آدمی پارٹی کی حکمرانی ختم کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق نئی دہلی میں بھی اب مودی سرکار چلے گی، ابتدائی نتائج کے مطابق بی جے پی نے 70 نشستوں میں سے 47 حاصل کر لی ہیں۔

    نئی دہلی پر گزشتہ 10 برس سے راج کرنے والی عام آدمی پارٹی (آپ) کو بڑا دھچکا لگا ہے، اور وہ 23 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئی ہے، 3 بار وزیر اعلیٰ رہنے والے اروند کیجریوال کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم انھوں نے اپنی نشست جیت لی ہے۔

    کانگریس کوئی نشست نہیں جیت سکی ہے، یاد رہے کہ 5 فروری کو نئی دہلی میں ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹنگ ہوئی تھی جس کا ٹرن آوٹ 60 فی صد رہا تھا۔

    گوتم اڈانی کا بیٹے کی شادی پر کروڑوں روپے عطیہ کرنے کا اعلان

    بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے دہلی اسمبلی انتخابات میں فیصلہ کن کامیابی حاصل کرنے کے لیے 27 سالہ طویل انتظار کیا، اور اخرکار اس انتظار کا خاتمہ ہو گیا ہے، یہ جیت عام آدمی پارٹی کے زوال کی بھی نشان دہی کرتی ہے، جس نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک دہلی پر حکومت کی۔

    بی جے پی پچھلے انتخابات میں AAP کے مقابلے میں تقریباً 15 فی صد ووٹوں سے پیچھے رہی تھی، ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک ’آپ‘ کو دہلی کے غریبوں کی غیر متزلزل حمایت حاصل رہی، خاص طور پر کچی آبادیوں میں مفت بجلی اور پانی کی اسکیموں کی بدولت۔

    تاہم اس بار مودی سرکار کی پارٹی نے کچی آبادیوں کے لیے پکے مکان کے وعدے کیے اور مفت سہولیات جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی، جس نے بی جے پی کو عام آدمی پارٹی کے گڑھ میں اسے شکست دی۔ دہلی کے 13 فی صد مسلم ووٹروں نے روایتی طور پر ’آپ‘ کی حمایت کی، لیکن یہ ووٹ بھی اسے نہیں بچا سکی۔

  • اپوزیشن جماعتوں کا ملک بھر میں فوری انتخابات کا مطالبہ

    اپوزیشن جماعتوں کا ملک بھر میں فوری انتخابات کا مطالبہ

    اسلام آباد : اپوزیشن رہنماؤں نے موجودہ حکومت کو غیر نمائندہ قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں نئے اور منصفانہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    اسلام آباد میں اپوزیشن رہنماؤں کا مشاورتی اجلاس اسد قیصر کی رہائش گاہ پر ہوا جس میں اپوزیشن جماعتوں نے 8 فروری کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے ملک میں فی الفور نئے صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانےکا مطالبہ کیا ہے۔

    اجلاس کے بعد شاہد خاقان عباسی نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا، انہوں نے بتایا کہ تمام جماعتوں نے یہ مؤقف اپنایا ہے کہ عوام پر مسلط حکومت غیر نمائندہ ہے۔ سیاسی عدم استحکام، معاشی ابتری اور دہشت گردی جیسے سنگین مسائل کا واحد حل نئے الیکشن ہیں۔

    جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دو ہزار چوبیس کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے، حکمرانوں کو عوام پر مسلط رہنے کا کوئی حق نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ مقاصد کے حصول کے لیے مشاورت کا عمل جاری رہے گا، اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ملک میں موجودہ سیاسی حالات انتہائی تشویشناک ہیں، ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔

    اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما اسد قیصر کی رہائش گاہ پر منعقدہ عشائیے میں اپوزیشن کے اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔

    عشائیے میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر شریک ہوئے۔

    اس کے علاوہ دیگر رہنماؤں میں چیئرمین پی اے سی جنید اکبر، صاحبزادہ حامد رضا، وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ نا صر عباس بھی موجود تھے۔

  • بھارت نے کینیڈا میں انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، تحقیقاتی مشن کا انکشاف

    بھارت نے کینیڈا میں انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، تحقیقاتی مشن کا انکشاف

    اوٹاوا: کینیڈا کی تحقیقاتی مشن نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے کینیڈا میں انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق کینیڈین انتخابات میں بیرونی مداخلت کی تحقیقات کرنے والے مشن کا کہنا ہے کہ بھارت کینیڈا میں گمراہ کُن پروپیگنڈا مہم چلانے اور اپنے نیٹ ورک کے ذریعے غیر ملکی کمیونیٹیز پر دباؤ ڈالنے میں ملوث رہا ہے۔

    بھارتی مداخلت کی کوششوں میں کینیڈا میں ہونے والے گزشتہ 2 انتخابات کے نتائج پر اثر نہیں پڑا، کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ گمراہ کن معلومات کینیڈا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جس سے حکومتی ادارے تنہا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

    دوسری طرف بھارت نے کینیڈا کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے اور الٹا کینیڈا پر بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام لگا دیا ہے۔

    کمبھ کے میلے میں بھگڈر، 38 افراد ہلاک

    واضح رہے کہ یہ رپورٹ منگل کو جاری کی گئی ہے، اس حتمی رپورٹ میں سرکاری تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ کینیڈا کی حکومت نے چین اور بھارت کی جانب سے ملکی انتخابات میں مداخلت کی کوششوں کا جواب دینے میں سست روی کا مظاہرہ کیا، تاہم مداخلت سے ان کے نتائج متاثر نہیں ہوئے۔

    یہ رپورٹ 2019 اور 2021 کے انتخابات سے متعلق تحقیقات پر مبنی ہے، جس کا آغاز ستمبر 2023 میں کیا گیا تھا، یہ دونوں انتخابات حکمران پارٹی لبرلز نے جیتے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی مداخلت نے انتخابات کے نتائج کو تبدیل نہیں کیا بلکہ انتخابی نظام پر عوام کے اعتماد کو ختم کیا ہے۔

    بھارت کی طرح چین نے بھی مداخلت کا الزام مسترد کر دیا ہے اور کینیڈا میں قائم سفارت خانے نے کہا کہ چین ہمیشہ اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کو برقرار رکھتا ہے اور اس نے کبھی بھی کینیڈا کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی اور نہ ہی وہ ایسا کرنے میں دل چسپی رکھتا ہے۔

  • بیلاروس کے صدر لوکاشنکو نے ساتویں بار میدان مار لیا

    بیلاروس کے صدر لوکاشنکو نے ساتویں بار میدان مار لیا

    بیلاروس: بیلاروس کے صدر لوکاشنکو نے ساتویں بار میدان مار لیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق بیلاروس کے انتخابی حکام نے لوکاشنکو کو صدارتی انتخابات کا فاتح قرار دے دیا ہے، تاہم مغربی حکومتوں نے انتخابات کو دھوکا دہی کہہ کر اسے مسترد کر دیا ہے۔

    ایگزٹ پولز کے مطابق الیگزینڈر لوکاشنکو نے ساتویں مدت کے لیے عہدہ سنبھالا تو 3 دہائیوں پر محیط ان کے اقتدار میں مزید 5 سال کا اضافہ ہو جائے گا۔ الیگزینڈر لوکاشنکو 87.6 فی صد ووٹوں کے ساتھ آگے ہیں، دیگر امیدواروں میں سے کوئی بھی 5 فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر سکا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ بیلاروس میں ووٹنگ نہ تو آزادانہ ہوئی ہے، نہ ہی منصفانہ، بیلاروس میں آزاد میڈیا پر پابندی اور حزب اختلاف کو جیل یا ملک بدری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے قریبی ساتھی لوکاشنکو 1994 سے ملک کی قیادت کر رہے ہیں۔

    روس کی جانب سے یوکرین کو 757 فوجیوں کی لاشیں موصول

    ملک کے مرکزی الیکشن کمیشن کے سربراہ ایگور کارپینکو نے پیر کی صبح ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ’’آپ بیلاروس جمہوریہ کو مبارک باد دے سکتے ہیں، ہم نے ایک صدر منتخب کر لیا ہے۔‘‘ الیکشن حکام نے بتایا کہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ 85.7 فی صد رہا، جس میں 6.9 ملین لوگ ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔

    جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیربوک نے X پر پوسٹ کیا کہ ’’بیلاروس کے لوگوں کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ ان تمام لوگوں کے لیے ایک تلخ دن ہے جو آزادی اور جمہوریت کے خواہاں ہیں۔‘‘ اپنے مخالفین کو جیل بھیجنے کے بارے میں پوچھے جانے پر، لوکاشینکو نے اتوار کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’انھوں نے اپنی قسمت کا انتخاب خود کیا ہے۔‘‘

  • شام میں انتخابات کب ہوں گے؟ ابو محمد الجولانی نے بتا دیا

    شام میں انتخابات کب ہوں گے؟ ابو محمد الجولانی نے بتا دیا

    دمشق: ابو محمد الجولانی نے کہا ہے کہ شام میں عام انتخابات کے انعقاد میں 4 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

    حیات تحریر الشام گروپ کے سربراہ احمد الشرع المعروف ابو محمد الجولانی نے اتوار کو سعودی سرکاری نشریاتی ادارے العربیہ کو انٹرویو میں کہا کہ سابق صدر بشار الاسد کی انتظامیہ کے خاتمے کے بعد ملک میں انتخابات کے انعقاد میں چار سال لگ سکتے ہیں۔

    انھوں نے شام میں ممکنہ انتخابات کے لیے پہلی بار ٹائم لائن دیتے ہوئے کہا کہ نئے آئین کی تیاری میں 3 سال، جب کہ انتخابات کے انعقاد میں چار سال لگ سکتے ہیں کیوں کہ اس کے لیے ایک جامع مردم شماری کی ضرورت ہے۔

    الجولانی نے کہا کہ ملک میں اہل ووٹرز کی شناخت میں وقت لگے گا، خانہ جنگی کے دوران بہت سے شامی اندرونی طور پر بے گھر ہو گئے ہیں، یا انھوں نے دوسرے ملکوں میں پناہ لی ہے۔

    شام میں پہلی بار خاتون انتہائی اہم منصب پر تعینات

    احمد الشرع نے کہا کہ اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد شامی عوام کو ’عوامی سروسز‘ میں نمایاں تبدیلی اور بہتری دیکھنے میں ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس ماہ کے شروع سے ملک کی قیادت سنبھالنے کے بعد سے الشرع کی حکومت پر اس حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ وہ کثیر النسل ملک پر حکومت کیسے کریں گے، انھوں نے واضح کیا کہ شام کو اپنے نظام قانون کی تعمیر نو کی ضرورت ہے اور قانون کے مطابق انتخابات کرانے کے لیے ایک آبادی کی ایک جامع مردم شماری کرانی ہوگی۔

    واضح رہے کہ شام بہت سے نسلی اور مذہبی گروہوں کا گھر ہے، جن میں کرد، آرمینیائی، آشوری (سُریانی)، عیسائی، دروز، علوی شیعہ اور عرب سنی شامل ہیں، عرب سنیوں کی اکثریت ہے۔

  • بنگلادیش میں انتخابات کی تاریخوں کے حوالے سے محمد یونس کا اہم اعلان

    بنگلادیش میں انتخابات کی تاریخوں کے حوالے سے محمد یونس کا اہم اعلان

    ڈھاکا: بنگلادیش میں انتخابات کی تاریخوں کے حوالے سے محمد یونس کا ایک اہم اعلان سامنے آیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بنگلادیش کی عبوری حکومت کے رہنما محمد یونس نے اعلان کیا ہے کہ نئے انتخابات اگلے سال 2025 کے آخر یا پھر 2026 کے شروع میں ہوں گے۔

    محمد یونس کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخیں 2025 کے آخر یا 2026 کی پہلی ششماہی تک فائنل کی جا سکتی ہیں، انتخابات کی ٹائم لائن مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں پر منحصر ہوگی۔

    ٹی وی انٹرویو میں 73 سالہ محمد یونس نے کہا کہ انتخابات کے انتظامات سے پہلے اصلاحات ہونی چاہئیں، اگر سیاسی جماعتیں کچھ بنیادی اصلاحات کے ساتھ قبل از وقت انتخابات کرانے پر راضی ہو جاتی ہیں، جیسے کہ ووٹر لسٹ کی درستگی کو یقینی بنانا تو انتخابات نومبر کے آخر میں ہی ہو سکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر انتخابی اصلاحات کمیشن کی سفارشات اور قومی اتفاق رائے کی بنیاد پر جامع اصلاحات نافذ کی جاتی ہیں، تو اس کے لیے مزید 6 ماہ کا وقت درکار ہو سکتا ہے۔

    ملک کے عبوری رہنما محمد یونس نے یہ اعلان 16 دسمبر 2024 کو قوم سے اپنے خطاب کے دوران کیا، جو جولائی اگست کی بغاوت کے بعد پہلے یوم فتح کے موقع پر تھا، اس بغاوت نے معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کی 16 سالہ حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔

    ڈاکٹر یونس نے مشرقی تیمور کے صدر، نوبل امن انعام یافتہ ہوزے راموس ہورٹا کا بھی خیرمقدم کیا، جو یوم فتح کی تقریبات میں شامل ہونے کے لیے ڈھاکا پہنچے تھے۔ ڈاکٹر یونس نے کہا کہ راموس ہورٹا نے بنگلادیش کی جنگ آزادی سے متاثر ہو کر اپنے ملک کی آزادی کی جدوجہد کی قیادت کی تھی۔ مشرقی تیمور نے 2002 میں آزادی حاصل کی تھی۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی طریقہ کار تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا

    ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی طریقہ کار تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا

    واشنگٹن: ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی طریقہ کار تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

    نیوز ویک کے مطابق نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی انتخابات کے انعقاد کے طریقے کو تبدیل کرنے کے لیے ایک بڑے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

    78 سالہ ٹرمپ کو جمعرات کو فاکس نیشن کے زیر اہتمام لانگ آئی لینڈ کی تقریب میں ’’پیٹریاٹ آف دی ایئر‘‘ ایوارڈ دیا گیا، اس تقریب میں امریکی گلوکار لی گرین ووڈ کے گانے ’’گاڈ بلیس دی یو ایس اے‘‘ کی لائیو پرفارمنس دی، ٹرمپ کو دیا گیا ایوارڈ امریکی پرچم کی شکل میں ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں انھوں نے خطاب میں کہا ’’ہمیں اس ملک میں چیزوں کو سیدھا کرنے کی ضرورت ہے، بشمول انتخابات۔‘‘

    ٹرمپ نے کہا انتخابات کے طریقہ کار کو بدلنے کی طویل عرصے سے ضرورت تھی، ہم کاغذی بیلٹ اور صرف ایک دن کی ووٹنگ چاہتے ہیں، اور پولنگ اسٹیشن پر ووٹر آئی ڈی اور شہریت کا ثبوت لازمی دینا ہوگا۔

    ٹرمپ نے کیلیفورنیا میں ووٹر آئی ڈی پوچھنے کی ممانعت کے حالیہ منظور کیے گئے قانون کی مذمت کی، اور کہا ’’کیلیفورنیا میں انھوں نے ابھی ایک قانون پاس کیا ہے کہ آپ کو ووٹر سے ووٹر آئی ڈی مانگنے کی بھی اجازت نہیں ہے، ذرا سوچیں کہ اگر آپ کسی ووٹر سے اس کی ووٹر آئی ڈی مانگتے ہیں تو آپ جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، آپ کو سزا ملے گی، غرض ہمیں پورا ملک سیدھا کرنا ہوگا۔‘‘

    یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں تبدیلی کی تجویز پیش کی ہو۔ جونسٹاؤن، پنسلوینیا میں اگست میں ایک تقریر کے دوران انھوں نے اسی دن ووٹنگ اور ووٹر آئی ڈی قوانین کے حق میں میل ان بیلٹ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔

    شام میں جو ہورہا ہے اسے چلنے دیں امریکا کا کوئی لینا دینا نہیں، ٹرمپ

    امریکا میں 98 فی صد کاؤنٹیز کاغذی بیلٹ استعمال کرتی ہیں لیکن برینن سینٹر کے مطابق کرونا وبا کے بعد سے امریکا نے انتخابات کے کام کرنے کے طریقے میں بڑی تبدیلیاں کیں، اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ لوگ ارلی ووٹ یا ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالتے ہیں، رواں برس 2024 میں، قومی سطح پر سوا 8 کروڑ امریکیوں نے میل کے ذریعے اور ارلی ووٹ ڈالے۔ تاہم دوسری طرف ووٹر آئی ڈی کی ضرورت کے قوانین میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، 8 ریاستیں 2020 سے ووٹر آئی ڈی کے قوانین نافذ کر رہی ہیں۔