Tag: انتخابات پر ازخود نوٹس کیس

  • خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ آج سنایا جائے گا

    خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ آج سنایا جائے گا

    اسلام آباد : خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ آج سنایا جائے گا، سپریم کورٹ نے فیصلہ آج گیارہ بجے سے پہلے سنائے جانے کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ آج سنائے گی۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ آج گیارہ بجے سے پہلے سنائے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    گزشتہ روز سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد پنجاب ، کے پی انتخابات پر ازخود نوٹس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے تھے کہ الیکشن بروقت نہ ہوئےتواستحکام نہیں آئے گا، تاریخ ہم نے نہیں دینی صرف تعین کرنا ہے کہ تاریخ دینے کا ذمہ دار کون ہوگا؟

    جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم کسی ایک سے اختیارلےکردوسرے کو نہیں دے رہے، صرف آئین اورقانون کی نشاندہی کریں گے اور واضح کیا کہ میں کسی پارٹی کیساتھ نہیں۔

    سٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جمہوریت کا تقاضا ہےمل بیٹھ کر تاریخ طےکریں، میرے پنچایتی دماغ میں یہ خیال آیا ہے۔

    جسٹس مندوخیل نے بھی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اصل طریقہ یہی ہے کہ ملکر فیصلہ کیا جائے، سپریم کورٹ نے قائدین سے مشاورت کیلئے جماعتوں کو وقت بھی دیا۔

  • انتخابات پر ازخود نوٹس کیس : جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کیا لکھا؟

    انتخابات پر ازخود نوٹس کیس : جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کیا لکھا؟

    اسلام آباد : پنجاب اور کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کی 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

    جس میں 9رکنی لارجر بینچ میں سے 4ججز نے بینچ کی از سر نوتشکیل کا مطالبہ کیا، تحریری فیصلے میں جسٹس منصور علی،جسٹس یحیی آفریدی ، جسٹس اطہرمن اللہ اورجسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ شامل تھے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا میرے پاس بینچ سےالگ ہونےکاقانونی جوازنہیں، اپنے خدشات کو منظرعام پر لانا چاہتا ہوں۔

    نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے بنچ میں شامل ایک جج کا آڈیولیکس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جج سے متعلق الزامات کا کسی فورم پر جواب نہیں دیا گیا ، بارکونسلزنے جج کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائرکیا۔

    اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے دیگر سینئر ججز کی بینچ پر عدم شمولیت پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا دو سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا،عدلیہ پر عوام کےاعتماد کیلئےضروری ہے اسکی شفافیت برقرار رہے۔

    دوسری جانب جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں آڈیولیکس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ غلام ڈوگرکیس سے متعلق آڈیوسنجیدہ معاملہ ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس مظاہر علی نقوی پہلےہی ذہن واضح کرچکے ہیں، دونوں ججز کا مؤقف ہے کہ انتخابات 90 روز میں ہونے چاہئیں ، دونوں ججز نے رائے دیتے وقت آرٹیکل10 اے پر غور نہیں کیا۔

    اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ ان حالات میں چیف جسٹس کاازخودنوٹس کا جواز نہیں بنتا۔

  • انتخابات پر ازخود نوٹس کیس : جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے لکھا گیا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    انتخابات پر ازخود نوٹس کیس : جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے لکھا گیا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد : پنجاب اور کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس میں جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے لکھا گیا اختلافی نوٹ سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کی 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

    جس میں 9رکنی لارجر بینچ میں سے 4ججز نے بینچ کی از سر نوتشکیل کا مطالبہ کیا، تحریری فیصلے میں جسٹس منصور علی،جسٹس یحیی آفریدی ، جسٹس اطہرمن اللہ اورجسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ شامل تھے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے لکھا گیا اختلافی نوٹ سامنے آگیا، جس میں کہا گیا ہےکہ چیف جسٹس کا دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت  نہیں رکھتا، ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسمبلیاں توڑنے کی آئینی وقانونی حیثیت کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا اور سوال کیا کہ کیا اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی  اصولوں کو روندکر توڑی گئیں؟

    اختلافی نوٹ میں لکھا گیا کہ اسمبلیاں توڑنے کی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر ہیں ، ہمارے سامنے آنیوالا معاملہ پہلے ہی صوبائی عدالت کے سامنے موجود ہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ میں آنا ابھی قبل از وقت ہے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ پہلے اسمبلیاں توڑنےکی آئینی وقانونی حیثیت دیکھناناگزیرہے، چیف جسٹس نے مجھ سےاس معاملے پر سوالات مانگے ہیں۔

    اختلافی نوٹ کے مطابق کیا اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے، جس کی آئینی وجوہات دیکھنا ضروری نہیں؟ کیا وزیراعلیٰ  اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیادپر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مسترد اور اسمبلی  بحال کی جاسکتی ہے؟