Tag: انتخابات 2024

  • کیا انتخابات معاشی، سیاسی مسائل کے شکار پاکستان کو مستحکم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے؟

    کیا انتخابات معاشی، سیاسی مسائل کے شکار پاکستان کو مستحکم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے؟

    پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر بارہویں انتخابات تھے، کیا یہ انتخابات معاشی اور سیاسی مسائل کے شکار پاکستان کو مستحکم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کسی دانشور، سیاست دان، ماہر معاشیات سمیت کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔

    پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل معاشی و سیاسی و مسائل کا شکار رہا ہے اور ملک کا بیرونی قرضہ 27 بلین ڈالرز اور مقامی قرضہ 60 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ ان حالات میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کیا اس ملک کی خوش حالی اور ترقی میں معاون ثابت ہو سکیں گے؟ اس سوال کا جواب شاید نیوٹن کے پاس بھی نہیں ہوگا!

    پاکستان میں جمہوری عمل کے نام پر انتخابات تو بہ ظاہر وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں، مگر متنازع۔ دوسری جانب ملک غلط پالیسیوں اور دیگر اَن دیکھے عوامل کی بنا پر کئی دہائیوں سے ان گنت مسائل کی دلدل میں مسلسل دھنستا جا رہا ہے، اس صورت حال میں ایک عام شہری انتخابات کے عمل سے کیسے کسی خوش گوار تبدیلی کی توقع رکھ سکتا ہے؟

    عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ اور معاشی و سیاسی ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ انتخابات حکومتی چہروں کی تبدیلی تو ہو سکتی ہے مگر اس سے مسائل کے حل میں کوئی جامع تبدیلی کی کوئی توقع کرنا بظاہر غیر فطری ہوگا، مگر اس کے ساتھ دنیا میں بہ ظاہر جمہوریت کے علاوہ ایسا کوئی نظام معرض وجود میں نہیں آیا، جو جمہوریت کا نعم للبدل ثابت ہو سکے۔

    عوام انتخابات کے ذریعے جمہوری نظام، منتخب نمائندوں اور حکومت کو جواب دہ ٹھہرانے کا حق استعمال کرتے ہیں، مگر کیا وجہ ہے کہ پاکستان اپنی عمر کے 76 سال گزارنے کے باوجود بھی نہ صرف لاتعداد سیاسی مسائل کا شکار ہے، بلکہ اس کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے؟ ماہرین اس کی سب سے بڑی وجہ پالسیوں کا عدم تسلسل اور حکومت چلانے کے نت نئے نظام قرار دیتے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں ممالک کے لوگوں کے حالات زندگی پاکستان سے مختلف نہیں، مگر وہاں ترقی کی واحد وجہ جمہوری اور کسی ایک نظام کا تسلسل ہے۔

    نوجوان طبقہ اس ملک کا تقریبآ 70 فی صد ہے، جو اَن گنت مسائل کی وجہ سے اپنے مستقبل سے مایوس نظر آتا ہے، پاکستان میں جاری سنگین معاشی مسائل سے سب سے زیادہ غریب اور مڈل کلاس کی روزمرہ زندگی متاثر ہوئی ہے، نہ صرف مڈل کلاس کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، بلکہ شرح غربت میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے چیلنجوں پر قابو پانے اور خوش حال مستقبل کی طرف گامزن ہونے کے لیے نہ صرف شفاف انتخابات بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے ملک کے بہترین مفاد میں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

  • عام انتخابات: پاکستان کے مشہور سیاست دانوں کی آپ بیتیاں

    عام انتخابات: پاکستان کے مشہور سیاست دانوں کی آپ بیتیاں

    آپ بیتی یا خودنوشت میں مصنّف اپنی زندگی کے حالات و واقعات اور تجربات کو بیان کرتا ہے۔ آپ بیتی محض احوال و واقعات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات یہ جذبات و احساسات، مشاہدات اور تجربات کا ایسا نمونہ ہوتی ہے جو بحیثیتِ مجموعی زندگی کے بارے میں مصنّف کے نقطۂ نظر کو بھی سامنے لاتی ہے۔

    اردو زبان میں خود نوشت یا آپ بیتیوں کو ایک صنفِ ادب کا درجہ حاصل ہے اور اگر کوئی آپ بیتی کسی مشہور شخصیت کی تصنیف کردہ ہو تو باذوق قارئین ہی نہیں‌ اکثر عام لوگ بھی پڑھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ خودنوشت کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں ادب اور ثقافت کی چاشنی کے ساتھ تہذیب اور معاشرت کے رنگ، تاریخ کے حوالے، سیاست اور سیاسی نظام کی کہانی بھی پرھنے کو ملتی ہے۔ غرض ہر موضوع پر مختلف واقعات اور قصّے پڑھنے کے ساتھ معلومات میں‌ بھی اضافہ ہوتا ہے۔

    پاکستان میں اس وقت عام انتخابات کا شور ہے۔ سیاسی جماعتیں‌ انتخابی منشور کا اعلان اور عوام کے سامنے مختلف جماعتوں کے قائدین اپنے سیاسی حریفوں پر الزامات عائد کرتے نظر آرہے ہیں۔ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کی مناسبت سے ہم یہاں آپ کے لیے چند خود نوشت یا اُن آپ بیتیوں‌ کا ذکر کررہے ہیں جن کے مصنّفین نے کار زارِ سیاست میں‌ ایک عمر گزاری ہے۔

    اردو ادب میں بعض سیاست دانوں کی تحریر کردہ خود نوشت مشہور ہیں جو دل چسپ ہی نہیں‌ ایک مستند دستاویز کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ ان آپ بیتیوں کو پڑھ کر ہم سیاست اور جمہوریت کے کئی راز، ملک میں‌ ہونے والے انتخابات کا احوال، دوست ممالک سے تعلقات، ان میں اتار چڑھاؤ، ملک دشمن عناصر اور پاکستان کے خلاف سازشوں کے بارے میں‌ جان سکتے ہیں۔ سیاسیاست اور تاریخ‌ کے طلباء کے لیے ان کا مطالعہ مفید ہو گا اور عام قارئین کی بھی دل چسپی کا باعث بنیں‌ گی۔

    سیاست پر مبنی ان مشہور آپ بیتیوں میں “پردے سے پارلیمنٹ تک”، “ہاں میں باغی ہوں”، “فرزندِ پاکستان”، “میری تنہا پرواز”، “بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک”، “ایونِ اقتدار کےمشاہدات”، “چاہ یوسف سے صدا”، “سچ تو یہ ہے”، “اور لائن کٹ گئی”، “اور بجلی کٹ گئی” شامل ہیں جن میں کئی انکشافات کیے گئے ہیں اور اسی لیے یہ خاص اہمیت کی حامل ہیں‌۔

    اور لائن کٹ گئی
    مولانا کوثر نیازی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں اور یہ انہی کی سیاسی روداد پر مبنی کتاب ہے۔ مولانا نے یہ کتاب 1977ء میں اپنے ایّامِ اسیری میں لکھی۔ یہ آپ بیتی ملک میں‌ بیسٹ سیلر کتاب ثابت ہوئی۔ مولانا کوثر نیازی نے اس کتاب میں سیاست دانوں، فوجی عہدے داروں اور خود اپنے بارے میں بھی کئی ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔

    میں باغی ہوں
    یہ ممتاز سیاست داں جاوید ہاشمی کی آپ بیتی ہے۔ جاوید ہاشمی طویل سیاسی سفر میں کئی رازوں‌ کے امین ہیں اور کئی سرد و گرم دیکھے ہیں۔ ان کی وضع داری اور جمہوریت کی خاطر ان کی قربانیوں کا اپنے پرائے سبھی اعتراف کرتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے اس خودنوشت میں‌ کئی عجیب و غریب واقعات اور ہوش ربا انکشاف بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک
    یہ راجہ انور کی خودنوشت ہے جنھوں نے جوانی میں میدانِ سیاست میں قدم رکھا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو تشکیل ہوتے دیکھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی قربت حاصل کی۔ مارشل لاء کے زمانے میں کئی بار جیل گئے اور اس آپ بیتی میں راجہ انور نے اسی دور کے شب و روز، اپنے خاندان اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کو بیان کیا ہے۔ یہ آپ بیتی جیل اور قید خانوں کے بارے میں کئی حیران کن انکشافات کرتی ہے۔

    ایوانِ اقتدار کے مشاہدات
    گوہر ایوب کا نام سیاست اور افسر شاہی کے حوالے سے بہت معروف ہے اور وہ ایوب خان کے فرزند بھی ہیں۔ کئی اہم وزارتوں پر فائز رہنے والے گوہر ایوب کی یہ مشہور آپ بیتی ہے جس میں پچھلے پچاس برس میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انقلاب اور تبدیلیوں کو بھی انھوں‌ نے بیان کیا ہے۔ گوہر ایوب خان نے ملکی سیاست اور سیاست دانوں‌ کے متعلق کئی انکشافات بھی کیے ہیں۔

    فرزندِ پاکستان
    یہ شیخ رشید احمد کی سرگزشت ہے جسے بڑی شوق سے پڑھا گیا۔ گزشتہ دہائیوں کی سیاسی، معاشی، معاشرتی تبدیلیوں پر اس کتاب میں شیخ رشید کے مشاہدات اور ذاتی تجربات کے ساتھ ہمیں ملکی سیاست کے کئی اہم واقعات اور انکشافات پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    چاہِ یوسف سے صدا
    پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی یہ آپ بیتی ان کی اسیری کے دوران رقم ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی جس ملتان کے ایسے سیاسی اور پیر خاندان کے فرد ہیں‌ جو قیامِ پاکستان سے پہلے سے سیاست میں حصّہ لیتا رہا ہے۔

    سچ تو یہ ہے
    پنجاب کی سیاست کا ایک بڑا نام چوہدری شجاعت حسین کا ہے جن کی یہ خود نوشت چوہدری شجاعت کی پیدائش کے بعد سے 2008ء کے عام انتخابات تک کے حالات و واقعات کو ہمارے سامنے رکھتی ہے۔

    اور بجلی کٹ گئی
    یہ آپ بیتی مشہور سیاست داں اور سفارت کار سیدہ عابدہ حسین کے قلم سے نکلی ہے جس میں ان کی ذاتی زندگی کے ساتھ اہم سیاسی اور غیر سیاسی موضوعات پر تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ سب انگریزی زبان میں رقم کیا گیا تھا جس کا اردو ترجمہ بجلی کٹ گئی کے نام سے شایع ہوا۔

    میری تنہا پرواز
    مشہور صنعتی اور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والی کلثوم سیف اللہ خان کی زندگی کے نشیب و فراز اور کام یابیوں کی داستان ہے۔ کلثوم سیف اللہ نے اپنی ذات، سیاست دانوں، حکم رانوں، ریاست اور دوسرے لوگوں سے متعلق اس کتاب میں کئی دل چسپ انکشافات کیے ہیں۔

    پردے سے پارلیمنٹ تک
    یہ معروف سیاست داں بیگم شائستہ اکرام اللہ کی آپ بیتی ہے جو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ اس آپ بیتی کی سیاست کے ساتھ ادب، تاریخ اور سماجی و معاشرتی لحاظ سے بھی کافی اہمیت ہے۔

  • انتخابات 2024 : امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور اور مسترد ہونے کی تفصیلات سامنے آگئیں

    انتخابات 2024 : امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور اور مسترد ہونے کی تفصیلات سامنے آگئیں

    اسلام آباد :  انتخابات 2024 کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور اور مسترد ہونے کی تفصیلات سامنے آگئیں۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی منظوری اور مسترد ہونے کی تفصیلات جاری کردیں۔

    جس میں بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کیلئے 7 ہزار 473 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور ریٹرننگ افسران نے 6 ہزار 449 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور اور ایک ہزار 24 کے کاغذات مسترد کیے۔

    صوبائی اسمبلیوں کیلئے اٹھارہ ہزار چار سو اٹہتر امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے، چاروں صوبوں میں دو ہزار دو سو سولہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے اور چار صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کیلئے سولہ ہزار دو سو باسٹھ امیدواروں کے کاغذات منظور کیے گئے۔

    پنجاب سے قومی اسمبلی کے 521،اسلام آباد 93، سندھ 166 امیدواروں، خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر 152، بلوچستان سے 92 سیٹوں پر امیدواروں کے کاغذات رد ہوئے۔

    اس کے علاوہ پنجاب اسمبلی سے 943، سندھ اسمبلی 520، کے پی اسمبلی 367، بلوچستان سے 386امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں پر 252 خواتین کے کاغذات مسترد ہوئے۔

  • انتخابات 2024 : کئی امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع

    انتخابات 2024 : کئی امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع

    آئندہ سال 8 فروری ہونے والے انتخابات کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں، مختلف سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی حاصل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    کاغذات نامزدگی حاصل اور جمع کرانے کے دوسرے روز کئی بڑے سیاستدانوں نے فارم حاصل اور جمع کرا دیے، تاہم اب کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کردی گئی ہے۔

    اب تک مزید جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی حاصل اور جمع کرائے ان میں کراچی سے شکور شاد نے این اے 239 سے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے۔

    قومی اسمبلی کی مخصوص نشست اور ڈی جی خان میں جنرل نشست کے لیے پی ٹی آئی رہنما زرتاج گل کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے،

    مردان سے اےاین پی کے امیرحیدر ہوتی نے این اے 22 اور پی کے 58 سے۔ سابق وزیر مملکت علی محمد خان نے این اے 23 سے۔ پی ٹی آئی کے عاطف خان نے این اے 22 اور پی کے59سے کاغذات جمع کرا دیے۔

    اس کے علاوہ مٹیاری سے صدر ن لیگ سندھ بشیرمیمن نے پی ایس 56 ہالہ ، پی ایس 44 شہدادپور سے اور ان کےبھائی بشیرمیمن نے پی ایس 56 ہالہ ، پی ایس 44 شہدادپور سے نامزدگی فارم جمع کروا دیے۔

    چمن سے پی بی 51 سے پی ٹی آئی کے جلال خان سعدی، کراچی ملیر کے حلقوں این اے 231 پر پی پی کے عبدالحکیم بلوچ، این اے 229 اور 231 پر ن لیگ کے قادر بخش کلمتی نے فارم جمع کرائے۔

    پی ٹی آئی رہنما اشرف گجر نے این اے 46اور47سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے، ن لیگ کے شیخ انصر عزیز نےاین اے 47 اور 48 سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، حافظ نعیم نے این اے 250سے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے۔

    اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے مسلم پرویز این اے 249سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جبکہ سیالکوٹ سے خواجہ آصف کے ایک قومی ،2 صوبائی حلقوں سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے۔

    استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین نے لودھراں کے حلقہ این اے 155 سے اور عون چوہدری نے پی پی163سےکاغذات جمع کرادیئے، مسلم لیگ ن کی طرف سے نذیرچوہان نے پی پی 162 کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ راولپنڈی سے حنیف عباسی نے این اے 56 سے کاغذات نامزدگی جمع کرادیے۔

    پی ٹی آئی رہنما پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت کے بیٹے سالک حسین نے این اے 64 سے کاغذات جمع کرائے، گجرات سے ن لیگ کے امیدوار علیم اللہ وڑائچ کے کاغذات نامزدگی بھی جمع کرادیے گئے۔

    واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جماعتیں دستور میں عوامی حقوق کو سر بلند رکھیں گی۔ امیدوار قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مکمل تعاون کریں گے۔ ملکی خود مختاری، سالمیت اور سلامتی کے خلاف کوئی اظہار، عدلیہ اور افواج کی شہرت کو نقصان پہنچانےوالا عمل نہ کریں۔

  • انتخابات 2024 : الیکشن کمیشن نے حتمی حلقہ بندیوں کی تفصیل جاری کردی

    انتخابات 2024 : الیکشن کمیشن نے حتمی حلقہ بندیوں کی تفصیل جاری کردی

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت کر دی، ملک میں قومی اسمبلی کی 266 نشستوں اور صوبائی اسمبلیوں کی 593 نشستوں پر الیکشن ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن 2024 کے لئے الیکشن کمیشن نے حتمی حلقہ بندیوں کی تفصیل جاری کردی ، ملک میں قومی اسمبلی کی 266 نشستوں پر انتخابات ہوں گے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی 593 نشستوں پر الیکشن ہوں گے۔

    تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد کی قومی اسمبلی کی جنرل 3 نشستیں ہوں گی جبکہ اٹک کی قومی اسمبلی کی 2 ، راولپنڈی کی 6 اور راولپنڈی اور مری کی ملا کر ایک نشست ہو گی جبکہ چکوال کی قومی اسمبلی کی 1، تلا گنگ چکوال کی 1 نشست ہو گی۔

    جہلم کی قومی اسمبلی کی 2، گجرات کی 4 ہوں گی جبکہ وزیر اباد اور حافظ آباد کی 1، 1 نشت ، منڈی بھاولدین کی 2 نشستیں ، سیالکوٹ کی قومی اسمبلی کی 5، ناوال کی 2, گوجروانلہ کی 5 نشستیں یوں گی۔ سرگودھا کی قومی اسمبلی کی 5، خوشاب کی 2، میانوالی کی 2، بھکر کی 2، چنیوٹ کی 2 نشستیں ہوں گی۔

    فیصل آباد کی قومی اسمبلی کی 10 نشستیں ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، جھنگ کی قومی اسمبلی کی 3، ننکانہ صاب کی2، شیخوپورہ کی 4 نشستیں ، لاہور کی قومی اسمبلی کی 14 ، قصور کی قومی اسمبلی کی 4، اوکاڑہ کی 4، پاکپتین کی 2 ، ساہیوال کی قومی اسمبلی کی 3، خانیول کی 4، ملتان کی 6 نشتیں ہوں گی۔

    لودھراں کی قومی اسمبلی کی 2، وہاڑی کی 4، بہالونگر کی 4، بہاولپور کی 5 نشستیں، رحیم یار خان کی قومی اسمبلی کی 6 ، مظفر گڑھ کی 4، کوٹ ادو کی 2، لیہ کی 2، تونسہ کی 1 نشست ، ڈی جی خان کی قومی اسمبلی کی 3، راجن پور کی 3 نشستیں ہوں گی۔

    بلوچستان میں شیرانی، ژوب، قلعہ سیف اللہ پر مشتمل قومی اسمبلی کا 1 حلقہ، موسی خیل، بارکھان، لورالائی ، دکی پر مشتمل قومی اسمبلی کا 1 حلقہ ، زیارت، ہرنائی، سبی، کوہلو، ڈیرا بگٹی پر مشتمل 1 حلقہ قومی اسمبلی ہو گا۔ جھل مگسی، کچھی، نصیر اباد پر مشتمل قومی اسمبلی کا 1 حلقہ ہو گا۔

    سوبت پور، جعفر آباد، استا محمد اقر نصیر آباد پر مشتمل قومی اسمبلی کا 1 حلقہ ، خضدار کا 1 قومی اسمبلی کا حلقہ ، پنجگور کیچھ پر مشتمل قومی اسمبلی کا 1 حلقہ ، کیچھ گودار پر مشتمل 1 قومی اسمبلی کا حلقہ ہو گا جبکہ چاغی، نوشکی، خاران اور واسک پر مشتمل قومی اسمبلی کا 1 حلقہ ، صوراب، قلات ، مستونگ پر مشتمل قومی اسمبلی کا 1 حلقہ ہو گا۔

    کوئٹہ کے قومی اسمبلی کے 3 حلقے ہوں گے، پشین کا قومی اسمبلی کا 1 حلقہ ہوگا، قلعہ عبداللہ اور چمن پر مشتمل قومی اسمبلی کا 1 حلقہ ، سندھ میں جیک اباد میں قومی اسمیلی کا ایک حلقہ، جبکہ جیک اباد اور کشمور پر مشتمل 1 حلقہ ، کشمور اور شکار پور پر مشتمل قومی اسمبلی کا 1 حلقہ جبکہ شکار پور کا 1 حلقہ ہو گا۔ لاڑکانہ اور قنبر شہدات کوٹ کے قومی اسمبلی کے 2، 2 حلقے ہوں گے۔

    گھوٹکی اور سکھر کے قومی اسمبلی کے 2، خیر پور کے 3 حلقے، نوشہرو فیروز اور شہید بے نظیر اباد کے قومی اسمبلی کے 2 ، 2 حلقے، سانھگڑ کے قومی اسمبلی کے 2، میر پور خاص کے 2، عمر کوٹ کا 1 اور تھرپارکر کے 2 حلقے ہوں گے جبکہ مٹیاری اور ٹنڈواللہ یار کے قومی اسمبلی کے 1، 1 حلقے ہوں گے۔

    حیدر آباد کے قومی اسمبلی کے 3، ٹنڈومحمد خان کے 1، بدین کے 2 حلقے ، سجاول ، ٹھٹہ، جامشورو، کے قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ، دادود کے قومی اسمبلی کے 2 حلقے ، ملیر کے قومی اسمبلی کے 3 ، کورنگی کے 3، کراچی ایسٹ کے 4، کراچی ساوتھ کے 4 حلقے ، کیماڑی کے 2، کراچی ویسٹ کے 3، کراچی سینٹرل لے قومی اسمبلی کے 4 حلقے ہوں گے۔

    خیبر پختونخوا میں اپر اور لوئر چترال کا قومی اسمبلی کا 1، سوات کے 3 حلقے، اپر دیر کا 1 اور لوئر دیر کے 2 قومی اسمبلی کے حلقے ، باجوڑ،مالاکنڈ، بنیر، شانگلہ، بٹ گرام کا 1 ایک حلقہ ہو گا۔

    اس کے علاوہ کوہستان اپر، کوہستان لوئر اور کولائی پاس کوہستان پر مشتمل 1 قومی اسمبلی کا حلقہ ، مانسہرہ کا 1 ، اور مانسہرہ تور غر پر مشتمل قومی اسمبلی کا 1 حلقہ ، ایبٹ آباد کے قومی اسمبلی کے 2، ہری پور کا 1، صوابی کے 2، مرادن کے 3 حلقے ہوں گے۔

    چارسدہ کے قومی اسمبلی کے 2، مہمند اور خیبر کے 1 ایک حلقے ، پشاور کے قومی اسمبلی کے 5، نوشہرہ کے 2، کوہاٹ کا ایک حلقہ ، ہنگو اورکزئی پر مشتمل قومی اسمبلی کا 1، کرم، کرک، بنوں کا ایک ایک حلقہ ہو گا۔

    شمالی وزیرستان اور لکی مروت کا ایک ایک قومی اسمبلی کا حلقہ ، اپر اور لوئر جنوبی وزیرستان پر مشتمل 1 جبکہ ٹانک اور ڈیرا اسماعیل خان پر مشتمل قومی اسمبلی کا 1 حلقہ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے قومی اسمبلی کے 2 حلقے ہوں گے۔