Tag: انتظار حسین

  • ادب یک طرفہ معاملہ تو نہیں ہے!

    ادب یک طرفہ معاملہ تو نہیں ہے!

    روزگار کا مسئلہ ہر زمانے میں رہتا ہے۔ اس لئے پیٹ آدمی کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ لیکن حالی اور اقبال کے زمانے میں لوگوں کو پیٹ کے علاوہ بھی کچھ فکریں تھیں۔ جب پیٹ کے علاوہ بھی کچھ فکریں ہوں تو خود پیٹ کی فکر کو بھی اجتماعی فکروں کے پس منظر میں رکھ کر دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔

    مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں آدمی صرف اپنی نہیں سوچتا بلکہ آس پاس کے لوگوں کے متعلق بھی سوچتا ہے یا یہ کہ اپنے متعلق دوسروں سے غیر متعلق ہو کر نہیں سوچتا۔ یہیں سے ادب کے لئے کشش پیدا ہوتی ہے۔ آدمی اور آدمی کے درمیان رشتہ نہ رہے یعنی اجتماعی فکریں ختم ہو جائیں اور ہر فرد کو اپنی فکر ہو تو ادب اپنی اپیل کھو بیٹھتا ہے۔

    ادیب بھی آدمی ہوتے ہیں۔ اردگرد کے حالات اس کے طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب ہر شخص کو اپنی فکر ہو تو ادیب کو بھی اپنی فکر پڑتی ہے۔ اپنی فکر کو دوسروں کی فکروں کے رشتہ میں رکھ کر دیکھنے یعنی آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے اور جگ بیتی کو آپ بیتی بنانے کا عمل اسے فضول نظر آتا ہے۔ پھر وہ لکھنے کے نئے نئے فائدے دریافت کرتا ہے۔ جس نے فائدے دریافت کر لیے وہ کامیاب ادیب ہے۔ اگر فائدے حسبِ دل خواہ حاصل نہ ہوں تو اچھا بھلا ادیب نرا میرزا ادیب بن کر رہ جاتا ہے۔

    ہر گنہگار معاشرہ اپنے گناہوں کا بوجھ اپنے عضوِ ضعیف پر ڈالتا ہے۔ گنہگار معاشرہ میں ادیب کی حیثیت عضوِ ضعیف کی ہوتی ہے۔ وہ پہلے ادیبوں کو کبھی بہلا پھسلا کر، کبھی عرصۂ حیات تنگ کر کے اپنی راہ پر لاتا ہے اور بعد میں خود ہی ادیبوں کی روش پر نکتہ چیں ہوتا ہے اور کبھی ادبی جمود کی، کبھی ادیبوں میں قومی احساس کے فقدان کی شکایت کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے اندر کے جمود اور اپنے قومی احساس کے فقدان پر پردہ ڈالتا ہے۔

    معاشرہ کا اپنے ادیب سے تعلق کبھی عقیدت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، کبھی غصہ کی صورت میں۔ دونوں صورتوں میں لکھنے کے ایک معنی ہوتے ہیں اور عرضِ ہنر کی بہت قیمت ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت یہ دونوں صورتیں نہیں ہیں۔ شعر و افسانہ پر داد نہ ملتی، بیداد تو ملتی مگر وہ بھی نہیں ہے،

    دیوانہ بہ راہے رود و طفل بہ راہے
    یاراں مگر ایں شہر شما سنگ ندارد

    ہمارے معاشرہ کو ادب کی تو آج بھی ضرورت ہے، اس لئے کہ کرکٹ کے میچ سال بھر متواتر نہیں ہوتے۔ آخر ایک میچ اور دوسرے میچ کے درمیانی عرصے میں کیا کیا جائے۔ غزل اور افسانہ ہی پڑھا جائے گا۔ مگر غزل اور افسانے میں کرکٹ میچ کی کمنٹری والا لطف نہیں آتا۔ اس لئے ادبی جمود کی شکایت بر محل ہے۔ خیر افسانہ پڑھنے والوں کو تو جاسوسی اور اسلامی تاریخی ناول میں مکتی مل گئی ہے۔ شعر کی تلافی کیسے کی گئی ہے اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ اس قسم کے قارئین سے حالی اور اقبال کو پالا پڑا تھا نہ عصمت اور منٹو کو، اور اگر میرے ساتھ کے لکھنے والوں کو یاد ہو تو پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ہمارے قارئین کا رویہ بھی مختلف تھا۔ اس وقت ادب ان کی دل لگی کا سامان نہیں تھا بلکہ ایک دردِ مشترک تھا جو ہمارے اور ان کے درمیان تعلق پیدا کرتا تھا۔ مگر دیکھتے دیکھتے زیر آسمان ترقی کی نئی راہیں نکل آئیں۔ کچھ نئی راہیں ادیبوں نے بھی دریافت کیں۔ ترقی کی رفتار تیز ہے اور لکھنا ایک سست رو مشغلہ ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ جتنے عرصے میں ابنِ انشا نے یورپ اور ایشیا کا چکر لگایا اتنے عرصے میں میں نے صرف ایک افسانہ لکھا۔

    ایسے عالم میں جو لکھنے والا لکھتا رہ گیا ہے اور عرضِ ہنر کو سب سے بڑی قدر جانتا ہے، وہ معاشرہ کا بچھڑا ہوا فراد ہے۔ یہاں مجھے مولانا حالی سے ذرا پہلے کا زمانہ یاد آ رہا ہے۔ ۱۸۵۷ء میں جب مجاہدین ہارے تو بہت سے مر کٹ گئے۔ بہت سوں نے مفاہمت کر لی، بہت سے روپوش ہو گئے۔ مگر چند کا عالم یہ تھا کہ مورچہ ہارتے تھے تو بھاگ کر دوسرا مورچہ سنبھالتے تھے اور لڑتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ میدان ہاتھ سے نکل چکا ہے، ان کی شمشیر زنی کا کوئی حاصل نہیں اور زمانہ اتنا بدل چکا ہے کہ وہ مارے گئے تو وہ ہیرو اور شہید بھی نہیں بنیں گے۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ لڑ رہے تھے۔ ہمارے معاشرہ نے لکھنے والوں کا وہ حال کیا جو انگریزوں نے ۱۸۵۷ء کے مجاہدوں کا حال کیا تھا۔ ۱۸۵۸ء کے نئے ہندوستان کو یہ علم نہیں تھا کہ ابھی تانتیا ٹوپے اور شہزادہ فیروز شاہ زندہ ہیں اور جنگل جنگل چھپتے پھرتے اور انگریز پر شب خون مارتے پھرتے ہیں۔ شاید تانتیا ٹوپے اور شہزادہ فیروز شاہ کو بھی یہ آرزو نہیں رہی تھی کہ ہندوستان اس واقعہ کو جانے۔

    ہم میں سے جو لوگ لکھتے رہ گئے ہیں، ان میں ابھی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنی اس آرزو پر قابو نہیں پا سکے ہیں کہ معاشرہ یہ جانے کہ کچھ ہنرمند آج بھی عرضِ ہنر ہی کو فائدہ جانتے ہیں۔ میری کمزوری یہ ہے کہ میں اپنے ۱۹۴۹ء کے افسانے کی دنیا کو نہیں بھولا ہوں اور چاہتا ہوں کہ سواریوں کی زبان کوچوان اور کوچوان کی زبان سواریاں سمجھیں۔ لیکن اگر میرے دل میں کوئی کھوٹ نہیں ہے اور میں واقعی افسانہ لکھنا چاہتا ہوں تو میری فلاح اس میں ہے کہ میں اپنے لکھے ہوئے افسانے کو بھول کر چیخوف کے افسانے کے معنی کو سمجھوں۔ افسانہ اب میرے لئے اپنی ذات کو محسوس کرنے اور قائم رکھنے کا وسیلہ ہے اور یہ کام میں گھوڑے کو کہانی سنا کر بھی کر سکتا ہوں۔

    جو معاشرہ اپنے آپ کو جاننا نہیں چاہتا وہ ادیب کو کیسے جانے گا۔ جنہیں اپنے ضمیر کی آواز سنائی نہیں دیتی، انہیں ادیب کی آواز بھی سنائی نہیں دے سکتی۔ ایسے معاشرہ میں لکھنے کا ان معنوں میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا کہ تحریر کے معنی پوری طرح نہیں ابھرتے۔ آخر ادب یک طرفہ معاملہ تو نہیں ہے۔ اس میں لکھنے والے اور قاری دونوں کی تخلیقی کاوش شامل ہوتی ہے۔ تحریر میں کچھ معنی لکھنے والا پیدا کرتا ہے، کچھ اس میں قاری شامل کرتا ہے۔ اس طرح ادب معاشرہ میں ایک فعال طاقت بنتا ہے اور ادیب کی شخصیت تکمیل حاصل کرتی ہے لیکن اگر معاشرہ ادیب سے قطع تعلق کر لے تو ادیب کے لئے اپنے آپ کو قائم رکھنے کی یہی صورت ہے کہ وہ اپنی ہی ذات میں اپنی تکمیل تلاش کرے۔

    دلّی اور لکھنؤ کے زوال کے بعد فیروز شاہ کے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، لیکن ایسے عالم میں جب پورا ہندوستان اپنی جگہ سے ہل گیا تھا وہ بے فائدہ شمشیر زنی کرکے اپنے آپ کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لکھنے والا ایک سرد مہر معاشرہ میں یہی کرتا ہے۔ اس کی تحریر اپنی ذات کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اس وقت اس کا یہی فائدہ ہوتا ہے۔ ہم نے ابھی بات شاید پوری طرح نہیں سمجھی ہے اور اس لئے ہم معاشرہ کی شکایت کرتے ہیں۔

    (ممتاز ادیب اور کالم نگار انتظار حسین کی تحریر ادب، گھوڑے سے گفتگو سے اقتباسات)

  • ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں!

    ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں!

    میں سوچتا ہوں کہ ہم غالب سے کتنے مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ اس شخص کا پیشۂ آبا سپہ گری تھا۔ شاعری کو اس نے ذریعۂ عزت نہیں سمجھا۔ غالب کی عزت غالب کی شاعری تھی۔ شاعری اس کے لیے کسی دوسری عزت کا ذریعہ نہ بن سکی۔

    اب شاعری ہمارے لیے ذریعۂ عزت ہے مگر خود شاعری عزت کی چیز نہیں رہی اور میں سوچتا ہوں کہ خازن تو لوگ غالب کے زمانے میں بھی بنتے ہوں گے اور اس پر خوش ہوتے ہوں گے۔ عہدوں اور مراتب اور ہاتھی اور بگھی کی سواری کی فکریں اوروں کو بھی تھیں اور خود غالب کو بھی ستاتی تھیں۔ اسی قسم کی فکریں سر سیّد اور اکبر کے زمانے میں بھی آدمی کی جان کے ساتھ لگی ہوئی ہوں گی۔ لیکن کبھی عقائد کے اثر و رسوخ نے اور کبھی قومی تحریکوں نے ہمارے معاشرہ میں ایسی پنچائتی فکریں پیدا کر دیں کہ نجی فکریں محض نجی بن کر رہ گئیں۔ وہ معاشرہ پر حاوی نہیں ہو پائیں۔

    پچھلے سو برس سے ہمیں بڑی فکر یہ چلی آتی تھی کہ ہم نے صدیوں کے فکر و عمل سے جو سچائیاں دریافت کی ہیں اور جو، اب ہماری زندگی ہیں، ان سچائیوں کا تحفظ ہونا چاہیے۔ اس قسم کے فکر کے یہ معنی ہیں کہ لوگ اپنی نجی ضرورتوں کے ساتھ بلکہ ان سے بڑھ کر کسی اجتماعی ضرورت میں بھی یقین رکھتے ہیں۔ اس یقین کی بدولت وہ اپنی ذات سے بلند ہوکر کسی اجتماعی مقصد سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس صلاحیت کو ایمان کہا جاتا ہے اور ٹی ایس ایلیٹ کا یہ کہنا ہے کہ جو قوم ایمان سے محروم ہے وہ اچھی نثر پیدا نہیں کرسکتی مگر اس میں نثر کی کیا تخصیص ہے۔ ایک بے ایمان قوم اچھی نثر نہیں پیدا کرسکتی تو اچھی شاعری کیا پیدا کرے گی۔ ویسے اس بیان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے معاشرہ میں اچھے نثر نگار یا شاعر سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ہوتے تو ہیں مگر وہ ایک موثر ادبی رجحان نہیں بن سکتے اور ادب ایک معاشرتی طاقت نہیں بن پاتا۔

    ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں۔ ذاتی منفعت اس معاشرہ کا اصل الاصول بن گئی ہے اور موٹر کار ایک قدر کا مرتبہ حاصل کرچکی ہے۔ جب اصل الاصول ذاتی منفعت ہو تو دولت کمانے کے آسان نسخوں کے لیے دوڑ دھوپ روحانی جد وجہد کا سا رنگ اختیار کر جاتی ہے۔ عام لوگ موٹر کار کی چابی کی آرزو میں صابون کی ٹکیاں خریدتے ہیں اور معمے حل کرتے ہیں اور اہلِ قلم حضرات انعاموں کی تمنا میں کتابیں لکھتے ہیں۔ جن کے قلم کو زنگ لگ چکا ہے وہ ادب، زبان اور کلچر کی ترقی کے لیے یا ادبیوں کی بہبود کے لیے ادارے قائم کرتے ہیں اور ادارے والے تو روز افزوں ترقی کرتے ہیں مگر ادب، زبان اور کلچر دن بدن تنزل کرتے چلے جاتے ہیں۔ ادب، زبان اور کلچر کی ترقی کی کوشش میں زیرِ آسمان ترقی کی نئی راہیں نکلتی ہیں اور ستاروں سے آگے کے جہان دریافت کیے جاتے ہیں۔

    ایسے عالم میں جو ادیب افسانہ اور شعر لکھتا رہ گیا ہے وہ وقت سے بہت پیچھے ہے۔ اس کے لیے لکھنا بنفسہ عشق کا امتحان بن جاتا ہے۔

    جب سب سچ بول رہے ہوں تو سچ بولنا ایک سیدھا سادا معاشرتی فعل ہے لیکن جہاں سب جھوٹ بول رہے ہوں وہاں سچ بولنا سب سے بڑی اخلاقی قدر بن جاتا ہے۔ اسے مسلمانوں کی زبان میں شہادت کہتے ہیں اور شہادت اسلامی روایت میں ایک بنیادی اور مطلق قدر کا مرتبہ رکھتی ہے۔ جب ایک معاشرہ تخلیق کے فریضہ کو فریضہ سمجھنا ترک کردے اور اسے ترقی کا ذریعہ سمجھے تو جو شخص اس فریضہ کو ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے وہ گویا شہادت پیش کرتا ہے۔

    لفظ خود ایک شہادت ہے۔ جس انسان نے پہلی مرتبہ لفظ بولا تھا اس نے تخلیق کی تھی پھر یہ تخلیق فعل و عمل میں شیر و شکر ہوگئی اور زبان ایک معاشرتی فعل بن گئی۔ ادب معاشرتی عمل میں پیوست تخلیقی جوہر کی تلاش ہے۔ صدیوں کے قول و عمل، دکھ درد اور خارجی و داخلی مہمات کے وسیلہ سے جو سچائیاں دریافت کی جاتی ہیں اور بعد میں اقدار کہلاتی ہیں۔ ان کی کارفرمائی سے معاشرتی عمل تخلیقی عمل بن جاتا ہے۔ جب تک ایک معاشرہ ان اقدار میں ایمان رکھتا ہے اور ان کی بدولت تخلیقی طور پر فعال رہتا ہے اس کا اس تخلیقی عمل کی تلاش پر بھی ایمان رہتا ہے۔ یعنی ادب بنفسہ اس کے لیے ایک قدر کا، ایک عظیم سچائی کا مرتبہ رکھتا ہے۔ شاید اسی لیے میر و غالب اپنے اپنے زمانے میں ہماری قدروں کے امین بھی تھے اور خود اپنی اپنی جگہ بھی ایک قدر کا مرتبہ رکھتے تھے۔ ان کی عظمت میں کچھ ان کے تخلیقی جوہر کا حصہ ہے اور کچھ اس معاشرہ کے تخلیقی جوہر کا جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔ بڑا ادیب فرد کے تخلیقی جوہر اور معاشرہ کے تخلیقی جوہر کے وصال کا حاصل ہوتا ہے۔

    بڑا ادیب ہمارے عہد میں پیدا نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ یہ عہد اپنا تخلیقی جوہر کھو بیٹھا ہے اور ان اقدار پر اس کا ایمان برقرار نہیں ہے جو اس کی تاریخ کا حاصل ہیں۔ اسے اپنے تخلیقی جوہر کی تلاش میں بھی کوئی معنی نظر نہیں آتے۔ صُمً بُکم عُمی فہم لایرجعون۔ یہ لوگ کرکٹ کی کمنٹری سنتے ہیں، موٹر کار اور غیر ملکی وظیفوں کی باتیں کرتے ہیں، ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں سمجھتے۔

    (ممتاز ادیب اور ناول نگار انتظار حسین کی تحریر سے اقتباس)

  • ڈبیا اور قوام کی ڈبچی!

    ڈبیا اور قوام کی ڈبچی!

    یہ اردو ادب کی مایہ ناز شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی کا تذکرہ ہے جنھوں نے کئی اصناف میں طبع آزمائی کی اور اردو ادب کو اپنی تصانیف سے مالا مال کیا۔ ادبیاتِ اردو میں انھیں ایک محقق، نقاد، ادبی مؤرخ، مترجم، لغت نویس اور بچوں کے ادیب کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

    جالبی صاحب کا یہ تذکرہ انتظار حسین کے قلم کی نوک سے نکلا ہے جو اردو کے ایک مشہور ادیب اور نقاد تھے۔ انتظار حسین پہلے پاکستانی قلم کار تھے جن کا نام مین بکر پرائز کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ آج دونوں‌ ہی شخصیات اس دنیا میں‌ نہیں ہیں۔ لیکن ان کی تصانیف اور بہت سی ادبی تحریریں ہم پڑھتے رہتے ہیں۔ انتظار حسین کی کتاب ‘چراغوں کا دھواں’ سے جمیل جالبی کے بارے میں یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    انتظار حسین لکھتے ہیں، "سلیم کو تو 1947ء میں جیسا چھوڑا تھا، اب بھی ویسا ہی پایا، مگر وہ جو اس ٹولی کا دوسرا جوان تھا، جمیل خان اور جس نے آگے چل کر جمیل جالبی کے نام سے اپنی محققی کا ڈنکا بجایا وہ کتنا بدل گیا تھا۔ ماشاء اللہ کیا قد نکالا تھا۔ جب میرٹھ میں دیکھا تھا، تو نام خدا ابھی شاید مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔ چھریرا بدن، گوری رنگت، پتلے پتلے ہونٹ، ستواں ناک، جیسی اچھی صورت ویسا اجلا لباس۔ میرٹھ کالج کا نیا دانہ اور اب جو دیکھا، تو نقشہ کچھ سے کچھ ہو چکا تھا۔ لمبا قد، چوڑا چکلا بدن، چہرہ سرخ و سفید، کلے میں گلوری، ہونٹوں پر پان کی لالی، جیب میں پانوں کی ڈبیا اور قوام کی ڈبچی۔ کتنی جلدی مگر کسی شائستگی سے جیب سے یہ ڈبیاں نکلتی تھیں۔ ”ناصر صاحب پان لیجیے اور یہ قوام چکھیے۔“

    ناصر کاظمی کو جمیل خاں کیا ملے، دونوں جہاں کی نعمت مل گئی۔ فوراً ہی مجھے اپنی رائے سے آگاہ کر دیا۔ ”یہ تمہارے جمیل صاحب آدمی شستہ ہیں۔“ پانوں کی اس ڈبیا اور قوام کی اس ڈبچی نے ہمارے بہنوئی شمشاد حسین کو بھی متاثر کیا۔ ”ارے میاں تمہارے دوستوں میں بس یہی ایک جوان کام کا ہے۔ باقی تو سب مجھے یوں ہی سے لگتے ہیں۔“

  • ادب اور عشق

    ادب اور عشق

    ایک بادشاہ نے ایک ملکہ کے حسن و جمال کا شہرہ سنا اور اس پر عاشق ہو گیا۔ پھر وہ تخت و تاج چھوڑ کر اس اجنبی ملک کی طرف اس ملکہ کا دیدار کرنے چلا۔ مگر اس بادشاہ سے زیادہ کمال شہزادہ جانِ عالم نے دکھایا جو ایک توتے کی باتوں میں آکر انجمن آرا کا نادیدہ عاشق ہو گیا اور دربدر خاک بسر پھرا۔ مگر ایک شہزادہ وہ بھی تو تھا جس نے خواب میں ایک صورت دیکھی تھی اور صبح ہونے پر اس نے باپ سے کہا کہ ایسا اس کا ناک نقشہ ہے اور ایسی اس کی چھب ہے، شادی کروں گا تو اسی سے کروں گا، نہیں تو ڈوب مروں گا۔ اور ایک وہ شہزادہ تھا جس نے جوتی دیکھی اور کہا کہ جوتی ایسی ہے تو جوتی والی کیسی ہوگی اور جوتی والی پر مر مٹا۔

    شہزادوں پر منحصر نہیں۔ اُن دنوں سب عشق کرتے تھے اور اسی طور کرتے تھے۔ کوئی نوجوان لکڑہارا درخت کاٹتے کاٹتے کوئی شیریں آواز سنتا وہ آواز اسے لے اڑتی۔ آواز ایسی ہے تو آواز والی کیسی ہوگی۔ پھر جب وہ درخت آہستہ آہستہ کاٹ چکتا تو کوئی پری چہرہ برآمد ہوتی اور وہ اس پر مہربان ہو جاتی۔ مہربان کا لفظ میں نے جان کر استعمال کیا ہے۔ عورت مہربان ہی ہو سکتی ہے، عشق نہیں کر سکتی، عشق مردوں کا پیشہ رہا ہے۔ عورت اس پیشے میں شریک ہو جائے تو یہ اس کی عنایت ہے، نہ ہو تو اس کی شکایت نہ کرنا چاہیے اور جب دونوں ہی گریجویٹ ہوں تو پھر تو شکایت بالکل زیب نہیں دیتی۔

    خیر تو ذکر یہ تھا کہ عشق ان دنوں سچ مچ اندھا تھا۔ دیدار شربتِ وصل کا مرتبہ رکھتا تھا۔ مگر دیدار ہوتا کہاں تھا۔ محبوب کی خوشبو چہار سو پھیلی ہوتی تھی مگر اس کا جلوہ نہیں ہوتا تھا۔ مگر یہ بات شاید شاعرانہ ہو گئی۔ نثر میں بات یوں ہے کہ ان دنوں مرد اندھا تھا اور عورت تاریک براعظم تھی۔ تاریک براعظم مرد کو پکارتا بھی تھا، ڈراتا بھی تھا۔ اس بلاوے اور ڈراوے سے مہموں اور معرکوں اور واردات نے جنم لیا اور اندھا عشق عہد کی بینائی بن گیا اور اس کی روشنی میں لوگ چلتے تھے اور اپنے کام کرتے تھے۔ اس روشنی میں خودکشیاں ہوئیں، سفر کئے گئے، لڑائیاں لڑی گئیں۔ کبھی ہار کبھی جیت۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب جذبے پر آدمی کا ایمان قائم تھا۔ اپنے جذبے کے واسطے سے بروئے کار ہونے میں اسے کسی صورت عار نہ تھی۔ سری کرشن جی حکیم عصر بھی تھے اور عاشق پیشہ بھی تھے۔ جذبے پر ایمان ہی ایکلیز کو کھینچ کر لڑائی کے محاذ پر لے گیا اور جذبے پر ایمان ہی نے اسے اس معرکے سے بیزار کیا۔ وہ روٹھ گیا۔ اس نے ہتھیار کھول کر رکھ دیے اور کہا کہ بھاڑ میں جائے یونان کی غربت۔ میری محبوبہ کو ایگمنان لے گیا ہے۔ اب میں نہیں لڑوں گا۔

    جنگیں طرزِ احساس کو بناتی اور بگاڑتی ہیں۔ جیسا معرکہ پڑتا ہے ویسا ہی ذہن پیدا ہوتا ہے۔ لڑائی کے محاصرے کی داستان نے ہومر کو پیدا کیا۔ جذبے کے معنی ہونے پر ہومر کا ایمان تھا۔ اس حد تک ایمان کہ اس کے لئے اس واسطے سے پڑنے والا معرکہ ایسی جامعیت رکھتا ہے کہ اسے بیان کر کے شاعر اپنے عہد کے جذبات، احساسات اور عقائد و افکار کی تفسیر کر سکتا ہے۔ مگر دوسری جنگِ عظیم نے کامیو کو پیدا کیا۔ اس نے ایک تو OUTSIDER لکھا، اوپر سے یہ کہا کہ ہر ادیب اپنے عہد کے جذبات کو ایک شکل عطا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کل کا جذبہ محبت کا تھا۔ آج اتحاد اور آزادی کے جذبات نے دنیا میں ہنگامہ پیدا کر رکھا ہے۔ کل تک یہ ہوتا تھا کہ محبت کے پیچھے آدمی خودکشی کر لیتا تھا، آج اجتماعی جذبات عالمگیر تباہی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔

    کامیو صاحب محبت کو آج کا جذبہ نہیں مانتے مگر آدمی بامروت ہیں۔ انہوں نے ہمیں تمہیں یہ اجازت دی ہے کہ ضروری کاموں سے وقت اگر بچے تو وقتاً فوقتاً عشق کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ویسے اگر ضروری کاموں سے وقت بچنے ہی کا معاملہ ہے تو بہتر ہے کہ عشق طالب علمی کے زمانے میں کر لیا جائے۔ اس وقت آدمی کو ضروری کام نہیں ہوتے۔ بات یہ ہے کہ اگر اسمگلنگ یا چور بازاری یا اس قسم کی اور کوئی حرکت کرکے ہم نے جذباتی خودکشی نہیں کر لی ہے، تو یہ لہو کی بوند جو ہمارے اندر ہے کسی نہ کسی وقت ضرور ہنگامہ آرا ہو گی۔ طالب علمی ہی کے زمانے میں وہ ہنگامہ آرا ہو جائے تو اچھا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک سال امتحان نہیں دیں گے۔

    پرانی دنیا میں عشق جز وقتی مشغلہ نہیں تھا۔ اس کی حیثیت ضمنی اور غیرضروری کام کی نہیں تھی۔ عشق کے آغاز کے ساتھ سارے ضروری کام معطل ہو جاتے تھے اور آدمی کی پوری ذات اس کی لپیٹ میں آ جاتی تھی۔ یہ صنعتی عہد کا کارنامہ ہے کہ عشق کو ذات کی واردات اور زندگی کا نمائندہ جذبہ ماننے سے انکار کیا گیا اور یورپ کا معاملہ یہ ہے کہ صنعتی عہد کے ساتھ وہاں سے انسانی حوالے غائب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یورپ نے بیسویں صدی میں دو بڑی جنگیں لڑیں اور دونوں بغیر کسی انسانی حوالے کے۔ بیسویں صدی کا یورپ کسی ہیلن کی خاطر جنگ کرنے کا جگر پیدا نہ کر سکا۔ لہو کی بوند ہنگامہ آرا تو ہوئی مگر کسی جیتی جاگتی ہستی کے حوالے سے نہیں، کسی کھرے اور سچے جذبے کے واسطے سے نہیں۔ کیا ہٹلر اور کیا اس کے حریف، دونوں کے پیشِ نظر کچھ غیرانسانی مجرد قسم کے حوالے تھے، کچھ سامراجی مقاصد تھے۔

    قوموں کو جنگیں تباہ نہیں کرتیں۔ قومیں اس وقت تباہ ہوتی ہیں جب جنگ کے مقاصد بدل جاتے ہیں۔ یورپ کے اخلاقی زوال کی ذمہ داری اس واقعے پر ہے کہ اس نے جذبے کو فراموش کیا اور غیرانسانی حوالوں سے دو لڑائیاں لڑیں۔ سو پھر الیڈ اور اوڈیسی کہاں سے پیدا ہو جاتیں۔ ’آوٹ سائڈر‘ ہی لکھا جانا تھا۔ جہاں سب انسانی رشتے اپنے معنی کھو چکے ہیں۔

    رہے ہم، تو ہمارا مغربی سامراج نے ۱۸۵۷ء ہی میں پٹرا کر دیا تھا۔ سن ستاون کے بعد مولانا حالی آئے اور بے چاروں نے سیدھا سچا اعتراف کر لیا کہ،

    کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم

    آسمان سے ڈر کر ہم نے انگریزوں کی اطاعت قبول کی اور دل سے ڈر کر ملکہ وکٹوریہ کے زمانے والی انگریزی اخلاقیات میں پناہ لی۔ تب نیچرل اور قومی شاعری کی بدعت شروع ہوئی اور واردات عشق کے واسطے سے ہونے والی شاعری ملعون ٹھہری اور مولانا حالیؔ نے بیان جاری کیا کہ،

    بھائیو! دل نہ لگانا، نہ لگانا ہرگز

    جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز

    یوں تو اس سے بہت پہلے میر صاحب یہ کہہ چکے تھے کہ،

    وصیت میر نے مجھ کو یہی کی
    کہ سب کچھ ہونا تو عاشق نہ ہونا

    مگر دونوں آوازوں میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ حالیؔ کی آواز ایک سہمے ہوئے آدمی کی آواز ہے، اس آدمی کی جو عشق سے خائف ہے۔ میر کی آواز ایک خوار و خستہ عاشق کا مشورہ ہے۔ اس شخص کا جو پوری واردات سے گزرا ہے۔ ویسے ایک طرح سے یہ اسی قسم کا مشورہ ہے جو تجربے سے ناآشنا نوخیز شہزادوں کو دیا جاتا تھا کہ سب کھونٹ جانا، چوتھے کھونٹ مت جانا، یا سب دروازے کھولنا پر ساتواں درمت کھولنا، مگر یہ مشورہ تھوڑا ہی تھا۔ یہ تو چیلنج ہوتا تھا کہ اگر جگر ہے تو ساتواں در کھولو، ور نہ شریف آدمی بن کر بیٹھے رہو۔ لہو کی بوند ان دنوں مستقل ہنگامہ آرا رہتی تھی۔ سو شہزادے چیلنج کو قبول کرتے تھے اور ساتواں در کھول کر اپنے سر خرابی لاتے تھے۔ خرابی ان کے خون کے اندر تھی۔

    برہمن جنم پتری بناتے تھے اور بتاتے تھے کہ جنون کے آثار ہیں، خرابی کی علامات ہیں، بارہ برس تک آسمان مت دیکھنے دو اور چاندنی میں مت سونے دو۔ مگر خون کا فساد ادبدا کر تاریخ کا گھپلا ڈالتا تھا۔ بارہویں برس کی آخری شب شہزادہ آسمان دیکھ لیتا تھا اور کوئی پری اسے اڑا لے جاتی تھی۔ مگر وہ شخص جو شہزادہ نہیں تھا، شاعر تھا، اس کے لئے عمر کی ہر رات بارہویں برس کی آخری شب بنی اور چاند میں پری نظر آکر خور و خواب میں خلل ڈالتی رہی۔ اس کا نام میر تقی تھا۔ اسے باپ نے نصیحت کی تھی کہ فرزند عشق کیا کر، سعادت مند بیٹے نے صوفی صافی باپ کی نصیحت گرہ میں باندھی۔ عشق کیا، دیوانہ ہوا اور غزل کہی۔

    ایک زمانے کے بعد مولانا حالی آئے۔ اب وقت اور تھا۔ دل کا خوف الگ، آسمان کا خوف الگ، مولانا حالی نہ سید علی متقی بن سکتے تھے، نہ میر تقی بن سکتے تھے۔ عاشقوں اور صوفیوں کا دور گزر چکا تھا۔ یہ مصلحین کا دور تھا۔ واردات کی جگہ وعظ نے لے لی۔ مولانا حالی نے غزل سے کنارہ کیا اور اصلاحی شاعری پر آ رہے۔ فرزندان قوم کو نصیحت کی کہ عشق سے پرہیز کرو اور انگریزی پڑھو۔ فرزندان قوم نے نصیحت قبول کی۔ انگریزی پڑھی اور اصلاحی ادب پیدا کیا۔ عشق کا تقاضا ہوا تو جواب دیا کہ، مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ۔ یعنی ویسی محبت جس میں رکتے رکتے جنون ہو جاتا تھا اور گریبان کے چاک اور دامن کے چاک میں فاصلہ ختم ہو جاتا تھا۔ مگر محبت کسی قسم کی بھی ہو بہرحال محبت ہوگی۔ نئے شاعر کی بصیرت نے یہ نکتہ پیدا کیا۔

    اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

    ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
    تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

    یہ اردو کی مخرب الاخلاق شاعری ہے۔ بات یہ ہے کہ اخلاقی ادب اور مخرب الاخلاق ادب کے بارے میں بہت سی باتیں مولویوں نے کہی ہیں۔ کچھ باتیں مولانا حالی اور ڈپٹی نذیر احمد نے کہیں۔ مگر ایک بات ڈی ایچ لارنس نے بھی کہی ہے۔ مگر ٹھہریے! اس سے پہلے ۳۶ء کے ادیبوں کا ایک اخلاقی محاکمہ سن لیجیے۔ جب ان کی مختلف نظموں اور افسانوں پر فحاشی کا الزام لگا تو انہوں نے بیان صفائی یوں دیا کہ جنس کے بیان میں اگر لذت کی کیفیت پیدا ہو جائے تو وہ فحاشی ہے مگر ہمارے افسانوں اور نظموں میں جنس ایک گھناؤنے پن کے ساتھ پیش ہوتی ہے، اس میں لذت کا رنگ ہوتا ہی نہیں، اس لئے اسے فحاشی نہیں کہا جا سکتا۔ مطلب اس کا یہ ہوا کہ جذبہ ایک گھناؤنی چیز ہے، اس سے بیزار رہنا ہی بھلا ہے۔ اور اب لارنس کی بات سنئے۔ وہ بات یہ ہے کہ جب لکھنے والا ترازو میں اپنا انگوٹھا اڑا دے اور پلڑے کو اپنے مطلب کے موافق جھکانے کی کوشش کرے تو یہ مخرب الاخلاق بات ہے۔

    اور فیض صاحب نے ایک مخرب الاخلاق بات تو یہ کی کہ ترازو کے ایک پلڑے کو ڈنڈی پہ انگوٹھا رکھ کر جھکا دیا اور دوسری مخرب الاخلاق بات انہوں نے یہ کی کہ زندگی کے دکھوں میں تقسیم پیدا کر دی۔ دکھ بٹے ہوئے نہیں ہیں، سب دکھ اکٹھے ہیں۔ ایک دکھ دوسرے دکھ میں اور دوسرا دکھ تیسرے دکھ میں بندھا ہوا ہے۔ وہ سب ایک وحدت میں ڈھل کر زندگی کے غم کی صورت میں منور ہوتے ہیں۔ اگر آپ اس بات کو نہیں مانتے تو نتیجہ یہی ہوگا کہ یا تو آپ میر کو ایک فراری شاعر کہہ کر رد کر دیں گے، یا اس کے کلیات سے چند دوسرے بلکہ تیسرے درجہ کے شعر نکال کر یہ ثابت کریں گے کہ میر کو اپنے عہد کے مصائب کا بھی احساس تھا اور وہ سیاسی شعور بھی رکھتا تھا۔ مگر میر کے یہاں تو فرد کے دکھ اور عہد کے دکھ گھل مل کر میر کا غم بنے ہیں۔ سب دکھ ایک وحدت میں ڈھلے تو غم عشق بن گیا۔ اب آپ ایک دکھ کو دوسرے دکھ سے کیسے تمیز کریں۔

    دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
    یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

    اس شعر میں عہد کے غم اور ذات کے غم کو کیسے علاحدہ کریں گے اور غالب کے اس شعر کو آپ کس خانے میں ڈالیں گے،

    اس چمن میں آگ برسے گی کہ آئے گی بہار
    اک لہو کی بوند کیوں ہنگامہ آرا دل میں ہے

    سیاسی شاعری کے خانے میں یا؟ عشقیہ شاعری کے خانے میں؟

    قصہ اصل میں یہ ہے کہ باقی غم بھی تو عشق کے غم ہی کے واسطے سے سمجھ میں آتے ہیں،

    پہنچا جو آپ تک تو وہ پہنچا خدا تئیں
    معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

    خدا تئیں اور عہد تئیں، اور اب پھر میں لارنس سے رجوع کرتا ہوں جس نے کہا تھا کہ انسانی معاملات میں سب سے بڑا رشتہ ہمیشہ مرد اور عورت والا رشتہ رہے گا۔ مرد اور مرد کا رشتہ، عورت اور عورت کا رشتہ، والدین اور اولاد کا رشتہ یہ سب ثانوی رشتے ہیں اور مرد اور عورت کا رشتہ ہر آن، ہر گھڑی بدلے گا اور ہر صورت انسانی زندگی کے لئے نئی کلید بنے گا۔ اور اہم نہ تو مرد ہے نہ عورت ہے اور نہ ان کے رشتے سے پیدا ہونے والے بچے ہیں۔ بلکہ خود یہ رشتہ اہم ہے۔۔۔ تو غزل اور داستان نے اس رشتے کو انسانی زندگی کی کلید جانا اور عشق کی واردات کے راستے سب انسانی رشتوں کو سمجھا اور حاصل یہ نکلا کہ بندہ بشر ہے اور آدمی کا شیطان آدمی ہے اور بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں۔ پس، اے برے آ میں تجھ سے پیار کروں۔

    یہ آخری بیان فراق کا ہے۔ مگر یہ وہ بصیرت ہے جو اسے کلاسیکی غزل سے ورثے میں ملی ہے اور اس عہد میں عاشق نے بہت گریباں چاک کئے اور صحراؤں کی خاک اڑائی اور دیواروں سے سر پھوڑے مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ باپوں نے بیٹوں کو نصیحت کی کہ بیٹا عشق کیا کرو اور بیٹوں نے عشق کیا۔ ان بیٹوں نے بھی جنہوں نے واحد صداقت جذبے کو جانا اور ان بیٹوں نے بھی جنہوں نے عقل و دانش کو سر پر چڑھایا۔ ہاں ایک بصیرت حاصل ہوئی۔ آدمی کے بارے میں ایک بصیرت۔ پچھلی غزل اور داستان کا سرمایہ یہی بصیرت ہے۔ اصلاحی دور اور ترقی پسند دور کے ادب کا سرمایہ درس ہے۔ آج کے لکھنے والے کے لئے یہ دونوں رستے کھلے ہیں۔ وہ چاہے تو درس والا رویہ اپنا لے، اس واسطے سے اسے ادب پیدا کرنے کے مقبول عام نسخے میسر آ جائیں گے اور ادب پیدا کرنے کا کام آسان ہو جائے گا اور چاہے تو وہ اول الذکر رستے کو اپنا لے۔ مگر وہ رستہ کٹھن ہے۔ واردات کے رستے بصیرت کی منزل تک پہنچنے کا عمل ہے۔

    (ممتاز فکشن رائٹر اور انتظار حسین کی تحریر)

  • مچھلیاں مت پکڑنا!

    مچھلیاں مت پکڑنا!

    یہ جاتک کتھا اور تاریخی واقعات پر مبنی افسانہ ہے۔ سمندر کے کنارے ایک بستی ہے، اس بستی کے لوگ مچھلی کا شکار کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ انھیں ایک خاص دن کو مچھلی پکڑنے سے منع کیا جاتا ہے، لیکن لوگ بات کو ان سنا کر کے مچھلی پکڑتے ہیں اور وہ بندر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بس ایک شخص بچتا ہے جو بندر نہ بننے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔

    اردو کے ممتاز فکشن رائٹر اور منفرد حکایتی اسلوب کے حامل ادیب انتظار حسین نے یہ کہانی آخری آدمی کے عنوان سے تحریر کی تھی انتظار حسین وہ پہلے پاکستانی ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا۔ ان کی کہانی پڑھیے۔

    الیاسف اس قریے میں آخری آدمی تھا۔ اس نے عہد کیا تھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور میں آدمی ہی کی جون میں مروں گا۔ اور اس نے آدمی کی جون میں رہنے کی آخر دم تک کوشش کی۔

    اور اس قریے سے تین دن پہلے بندر غائب ہو گئے تھے۔ لوگ پہلے حیران ہوئے اور پھر خوشی منائی کہ بندر جو فصلیں برباد اور باغ خراب کرتے تھے نابود ہو گئے۔ پر اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا کرتا تھا یہ کہا کہ بندر تو تمہارے درمیان موجود ہیں مگر یہ کہ تم دیکھتے نہیں۔ لوگوں نے اس کا برا مانا اور کہا کہ کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے اور اس نے کہا کہ بے شک ٹھٹھا تم نے خدا سے کیا کہ اس نے سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا اور تم نے سبت کے دن مچھلیوں کا شکار کیا اور جان لو کہ وہ تم سے بڑا ٹھٹھا کرنے والا ہے۔

    اس کے تیسرے دن یوں ہوا کہ الیعذر کی لونڈی گجر دم ، الیعذر کی خواب گاہ میں داخل ہوئی اور سہمی ہوئی الیعذر کی جورو کے پاس الٹے پاؤں آئی۔ پھر الیعذر کی جورو خواب گاہ تک گئی اور حیران و پریشان واپس آئی۔ پھر یہ خبر دور دور تک پھیل گئی اور دور دور سے لوگ الیعذر کے گھر آئے اور اس کی خواب گاہ تک جا کر ٹھٹھک ٹھٹھک گئے کہ الیعذر کی خواب گاہ میں الیعذر کی بجائے ایک بڑا بندر آرام کرتا تھا اور الیعذر نے پچھلے سبت کے دن سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑی تھیں۔

    پھر یوں ہوا کہ ایک نے دوسرے کو خبر دی کہ اے عزیز! الیعذر بندر بن گیا ہے۔ اس پر دوسرا زور سے ہنسا، تو نے مجھ سے ٹھٹھا کیا۔ اور وہ ہنستا چلا گیا، حتٰی کہ منہ اس کا سرخ پڑ گیا اور دانت نکل آئے اور چہرے کے خد و خال کھینچتے چلے گئے اور وہ بندر بن گیا۔ تب پہلا کمال حیران ہوا۔ منہ اس کا کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں اور پھر وہ بھی بندر بن گیا۔

    اور الیاب، ابن زبلون کو دیکھ کر ڈرا اور یوں بولا کہ اے زبلون کے بیٹے تجھے کیا ہوا ہے کہ تیرا چہرا بگڑ گیا ہے۔ ابن زبلون نے اس بات کا برا مانا اور غصے سے دانت کچکچانے لگا۔ تب الیاب مزید ڈرا اور چلّا کر بولا کہ اے زبلون کے بیٹے! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، ضرور تجھے کچھ ہو گیا ہے۔ اس پر ابن زبلون کا منہ غصے سے لال ہو گیا اور دانت بھینچ کر الیاب پر جھپٹا۔ تب الیاب پر خوف سے لرزہ طاری ہوا اور ابن زبلون کا چہرہ غصے سے اور الیاب کا چہرہ خوف سے بگڑتا چلا گیا۔ ابن زبلون غصے سے آپے سے باہر ہوا اور الیاب خوف سے اپنے آپ میں سکڑتا چلا گیا اور وہ دونوں کہ ایک مجسم غصہ اور ایک خوف کی پوٹ تھے آپس میں گتھ گئے۔ ان کے چہرے بگڑتے چلے گئے۔ پھر ان کے اعضا بگڑے۔ پھر ان کی آوازیں بگڑیں کہ الفاظ آپس میں مدغم ہوتے چلے گئے اور غیر ملفوظ آوازیں بن گئے۔ پھر وہ غیر ملفوظ آوازیں وحشیانہ چیخ بن گئیں اور پھر وہ بندر بن گئے۔

    الیاسف نے کہ ان سب میں عقل مند تھا اور سب سے آخر تک آدمی بنا رہا۔ تشویش سے کہا کہ اے لوگو! ضرور ہمیں کچھ ہو گیا ہے۔ آؤ ہم اس شخص سے رجوع کریں جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا ہے۔ پھر الیاسف لوگوں کو ہمراہ لے کر اس شخص کے گھر گیا۔ اور حلقہ زن ہو کے دیر تک پکارا کیا۔ تب وہ وہاں سے مایوس پھرا اور بڑی آواز سے بولا کہ اے لوگو! وہ شخص جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا کرتا تھا آج ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اور اگر سوچو تو اس میں ہمارے لئے خرابی ہے۔ لوگوں نے یہ سنا اور دہل گئے۔ ایک بڑے خوف نے انہیں آ لیا۔

    دہشت سے صورتیں ان کی چپٹی ہونے لگیں۔ اور خد و خال مسخ ہو تے چلے گئے۔ اور الیاسف نے گھوم کر دیکھا اور بندروں کے سوا کسی کونہ پایا۔

    جاننا چاہیے کہ وہ بستی ایک بستی تھی۔ سمندر کے کنارے۔ اونچے برجوں اور بڑے دروازوں والی حویلیوں کی بستی، بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ کٹورا بجتا تھا۔ پر دم کے دم میں بازار ویران اور اونچی ڈیوڑھیاں سونی ہو گئیں۔ اور اونچے برجوں میں عالی شان چھتوں پر بندر ہی بندر نظر آنے لگے اور الیاسف نے ہراس سے چاروں سمت نظر دوڑائی اور سوچا کہ میں اکیلا آدمی ہوں اور اس خیال سے وہ ایسا ڈرا کہ اس کا خون جمنے لگا۔ مگر اسے الیاب یاد آیا کہ خوف سے کس طرح اس کی صورت بگڑتی چلی گئی اور وہ بندر بن گیا۔ تب الیاسف نے اپنے خوف پر غلبہ پایا اور عزم باندھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور آدمی ہی کی جون میں مروں گا اور اس نے ایک احساسِ برتری کے ساتھ اپنے مسخ صورت ہم جنسوں کو دیکھا اور کہا۔ تحقیق میں ان میں سے نہیں ہوں کہ وہ بندر ہیں اور میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں سے نفرت کی۔ اس نے ان کی لال بھبوکا صورتوں اور بالوں سے ڈھکے ہوئے جسموں کو دیکھا اور نفرت سے چہرہ اس کا بگڑنے لگا مگر اسے اچانک زبان کا خیال آیا کہ نفرت کی شدت سے صورت اس کی مسخ ہو گئی تھی۔ اس نے کہا کہ الیاسف نفرت مت کر کہ نفرت سے آدمی کی کایا بدل جاتی ہے اور الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا۔

    الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا اور کہا کہ بے شک میں انہی میں سے تھا اور اس نے وہ دن یاد کئے جب وہ ان میں سے تھا اور دل اس کا محبت کے جوش سے امنڈنے لگا۔ اسے بنت الاخضر کی یاد آئی کہ فرعون کے رتھ کی دودھیا گھوڑیوں میں سے ایک گھوڑی کی مانند تھی۔ اور اس کے بڑے گھر کے در سرو کے اور کڑیاں صنوبر کی تھیں۔ اس یاد کے ساتھ الیاسف کو بیتے دن یاد آ گئے کہ وہ سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے مکان میں عقب سے گیا تھا اور چھپر کھٹ کے لئے اسے ٹٹولا جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور اس نے دیکھا لمبے بال اس کی رات کی بوندوں سے بھیگے ہوئے ہیں اور چھاتیاں ہرن کے بچوں کے موافق تڑپتی ہیں۔ اور پیٹ اس کا گندم کی ڈیوڑھی کی مانند ہے اور پاس اس کے صندل کا گول پیالہ ہے اور الیاسف نے بنت الاخضر کو یاد کیا اور ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیر اور صندل کے گول پیالے کے تصور میں سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے گھر تک گیا۔ ساس نے خالی مکان کو دیکھا اور چھپر کھٹ پر اسے ٹٹولا۔ جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور پکارا کہ اے بنت الاخضر! تو کہاں ہے اور اے وہ کہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ دیکھ موسم کا بھاری مہینہ گزر گیا اور پھولوں کی کیاریاں ہری بھری ہو گئیں اور قمریاں اونچی شاخوں پر پھڑپھڑاتی ہیں۔ تو کہاں ہے؟ اے اخضر کی بیٹی! اے اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر آرام کرنے والی، تجھے دشت میں دوڑتی ہوئی ہرنیوں اور چٹانوں کی دراڑوں میں چھپے ہوئے کبوتروں کی قسم تو نیچے اتر آ۔ اور مجھ سے آن مل کہ تیرے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ الیاسف بار بار پکارتا کہ اس کا جی بھر آیا اور بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا۔

    الیاسف بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا مگر اچانک الیعذر کی جورو یاد آئی جو الیعذر کو بندر کی جون میں دیکھ کر روئی تھی۔ حالانکہ اس کی ہڑکی بندھ گئی اور بہتے آنسوؤں میں اس کے جمیل نقوش بگڑتے چلے گئے۔ اور ہڑکی کی آواز وحشی ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ اس کی جون بدل گئی۔ تب الیاسف نے خیال کیا۔ بنت الاخضر جن میں سے تھی ان میں مل گئی۔ اور بے شک جو جن میں سے ہے وہ ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا کہ اے الیاسف ان سے محبت مت کر مبادا تو ان میں سے ہو جائے اور الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا اور الیاسف نے ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کو فراموش کر دیا۔

    الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور اپنے ہم جنسوں کی لال بھبوکا صورتوں اور کھڑ ی دم دیکھ کر ہنسا اور الیاسف کو الیعذر کی جورو یاد آئی کہ وہ اس قریے کی حسین عورتوں میں سے تھی۔ وہ تاڑ کے درخت کی مثال تھی اور چھاتیاں اس کی انگور کے خوشوں کی مانند تھیں۔ اور الیعذر نے اس سے کہا تھا کہ جان لے کہ میں انگور کے خوشے توڑوں گا اور انگور کے خوشوں والی تڑپ کر ساحل کی طرف نکل گئی۔

    الیعذر اس کے پیچھے پیچھے گیا اور پھل توڑا اور تاڑ کے درخت کو اپنے گھر لے آیا اور اب وہ ایک اونچے کنگرے پر الیعذر کی جوئیں بن بن کر کھاتی تھی۔ الیعذر جھری جھری لے کر کھڑا ہو جاتا اور وہ دم کھڑی کر کے اپنے لجلجے پنجوں پر اٹھ بیٹھی۔ اس کے ہنسنے کی آواز اتنی اونچی ہوتی کہ اسے ساری بستی گونجتی معلوم ہوئی اور وہ اپنے اتنی زور سے ہنسنے پر حیران ہوا مگر اچانک اسے اس شخص کا خیال آیا جو ہنستے ہنستے بندر بن گیا تھا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا۔ اے الیاسف تو ان پر مت ہنس مبادا تو انہیں کی جنس بن جائے اور الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔

    الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔ الیاسف محبت اور نفرت سے غصہ اور ہمدردی سے رونے اور ہنسنے سے ہر کیفیت سے گزر گیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا۔ ان کا درختوں پر اچکنا، دانت پیس پیس کر کلکاریاں کرنا، کچے کچے پھلوں پر لڑنا اور ایک دوسرے کو لہو لہان کر دینا۔ یہ سب کچھ اسے آگے کبھی ہم جنسوں پر رلاتا تھا، کبھی ہنساتا تھا۔ کبھی غصہ دلاتا کہ وہ ان پر دانت پیسنے لگا اور انہیں حقارت سے دیکھتا اور یوں ہوا کہ انہیں لڑتے دیکھ کر اس نے غصہ کیا اور بڑی آواز سے جھڑکا۔ پھر خود اپنی آواز پر حیران ہوا۔ اور کسی کسی بندر نے اسے بے تعلقی سے دیکھا اور پھر لڑائی میں جٹ گیا۔ اور الیاسف کے تئیں لفظوں کی قدر کی جاتی رہی۔ کہ وہ اس کے اور اس کے ہم جنسوں کے درمیان رشتہ نہیں رہے تھے اور اس کا اس نے افسوس کیا۔ الیاسف نے افسوس کیا اپنے ہم جنسوں پر، اپنے آپ پر اور لفظ پر۔ افسوس ہے ان پر بوجہ اس کے وہ اس لفظ سے محروم ہو گئے۔ افسوس ہے مجھ پر بوجہ اس کے لفظ میرے ہاتھوں میں خالی برتن کی مثال بن کر رہ گیا۔ اور سوچو تو آج بڑے افسوس کا دن ہے۔ آج لفظ مر گیا۔ اور الیاسف نے لفظ کی موت کا نوحہ کیا اور خاموش ہو گیا۔

    الیاسف خاموش ہو گیا اور محبت اور نفرت سے، غصے اور ہمدردی سے، ہنسنے اور رونے سے در گزرا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے کنارہ کیا اور اپنی ذات کے اندر پناہ لی۔ الیاسف اپنی ذات کے اندر پناہ گیر جزیرے کے مانند بن گیا۔ سب سے بے تعلق، گہرے پانیوں کے درمیان خشکی کا ننھا سا نشان اور جزیرے نے کہا میں گہرے پانیوں کے درمیان زمین کا نشان بلند رکھو ں گا۔

    الیاسف اپنے تئیں آدمیت کا جزیرہ جانتا تھا۔ گہرے پانیوں کے خلاف مدافعت کرنے لگا۔ اس نے اپنے گرد پشتہ بنا لیا کہ محبت اور نفرت، غصہ اور ہمدردی، غم اور خوشی اس پر یلغار نہ کریں کہ جذبے کی کوئی رو اسے بہا کر نہ لے جائے اور الیاسف اپنے جذبات سے خوف کرنے لگا۔ پھر جب وہ پشتہ تیار کر چکا تو اسے یوں لگا کہ اس کے سینے کے اندر پتھری پڑ گئی ہے۔ اس نے فکر مند ہو کر کہا کہ اے معبود میں اندر سے بدل رہا ہوں تب اس نے اپنے باہر پر نظر کی اور اسے گمان ہونے لگا کہ وہ پتھری پھیل کر باہر آ رہی ہے کہ اس کے اعضاء خشک، اس کی جلد بد رنگ اور اس کا لہو بے رس ہوتا جا رہا ہے۔ پھر اس نے مزید اپنے آپ پر غور کیا اور اسے مزید وسوسوں نے گھیرا۔ اسے لگا کہ اس کا بدن بالوں سے ڈھکتا جا رہا ہے۔ اور بال بد رنگ اور سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ تب اسے اپنے بدن سے خوف آیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ خوف سے وہ اپنے اندر سمٹنے لگا۔ اسے یوں معلوم ہوا کہ اس کی ٹانگیں اور بازو مختصر اور سر چھوٹا ہوتا جا رہا ہے تب اسے مزید خوف ہوا اور اعضاء اس کے خوف سے مزید سکڑنے لگے اور اس نے سوچا کہ کیا میں بالکل معدوم ہو جاؤں گا۔

    اور الیاسف نے الیاب کو یاد کیا کہ خوف سے اپنے اندر سمٹ کر وہ بندر بن گیا تھا۔ تب اس نے کہا کہ میں اندر کے خوف پر اسی طور غلبہ پاؤں گا جس طور میں نے باہر کے خوف پر غلبہ پایا تھا اور الیاسف نے اندر کے خوف پر غلبہ پا لیا۔ اور اس کے سمٹتے ہوئے اعضاء دوبارہ کھلنے اور پھیلنے لگے۔ اس کے اعضاء ڈھیلے پڑ گئے۔ اور اس کی انگلیاں لمبی اور بال بڑے اور کھڑے ہونے لگے۔ اور اس کی ہتھیلیاں اور تلوے چپٹے اور لجلجے ہو گئے اور اس کے جوڑ کھلنے لگے اور الیاسف کو گمان ہوا کہ اس کے سارے اعضاء بکھر جائیں گے تب اس نے عزم کر کے اپنے دانتوں کو بھینچا اور مٹھیاں کس کر باندھا اور اپنے آپ کو اکٹھا کرنے لگا۔

    الیاسف نے اپنے بد ہیئت اعضاء کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اسے لگا کہ اس کے اعضاء کی صورت بدلتی جا رہی ہے۔

    اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے آپ سے پوچھا کہ میں، میں نہیں رہا۔ اس خیال سے دل اس کا ڈھینے لگا۔ اس نے بہت ڈرتے ڈرتے ایک آنکھ کھولی اور چپکے سے اپنے اعضاء پر نظر کی۔ اسے ڈھارس ہوئی کہ اس کے اعضاء تو جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ اس نے دلیری سے آنکھیں کھولیں اور اطمینان سے اپنے بدن کو دیکھا اور کہا کہ بے شک میں اپنی جون میں ہوں مگر اس کے بعد آپ ہی آپ اسے پھر وسوسہ ہوا کہ جیسے اس کے اعضاء بگڑتے جا رہے ہیں اور اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    الیاسف نے آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اس کا دھیان اندر کی طرف گیا اور اس نے جانا کہ وہ کسی اندھیرے کنویں میں دھنستا جا رہا ہے اور الیاسف کنویں میں دھنستے ہوئے ہم جنسوں کی پرانی صورتوں نے اس کا تعاقب کیا۔ اور گزری راتیں محاصرہ کرنے لگیں۔ الیاسف کو سبت کے دن ہم جنسوں کا مچھلیوں کا شکار کرنا یاد آیا کہ ان کے ہاتھوں مچھلیوں سے بھر ا سمندر مچھلیوں سے خالی ہونے لگا۔ اور اس کی ہوس بڑھتی گئی اور انہوں نے سبت کے دن بھی مچھلیوں کا شکار شروع کر دیا۔ تب اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کرتا تھا کہا کہ رب کی سو گند جس نے سمندر کو گہرے پانیوں والا بنایا اور گہرے پانیوں کی مچھلیوں کا مامن ٹھہرایا، سمندر تمہارے دستِ ہوس سے پناہ مانگتا ہے اور سبت کے دن مچھلیوں پر ظلم کرنے سے باز رہو کہ مباد ا تم اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے قرار پاؤ۔ الیاسف نے کہا کہ معبود کی سوگند میں سبت کے دن مچھلیوں کا شکار نہیں کرو ں گا اور الیاسف عقل کا پتلا تھا۔ سمندر سے فاصلے پر ایک گڑھا کھودا اور نالی کھود کر اسے سمندر سے ملا دیا اور سبت کے دن مچھلیاں سطحِ آب پر آئیں تو تیرتی ہوئی نالی کی راہ گڑھے پر نکل گئیں۔ اور سبت کے دوسرے دن الیاسف نے اس گڑھے سے بہت سی مچھلیاں پکڑیں۔ وہ شخص جو سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر بولا کہ تحقیق جس نے اللہ سے مکر کیا اللہ اس سے مکر کرے گا۔ اور بے شک اللہ زیادہ بڑا مکر کرنے والا ہے اور الیاسف یہ یاد کر کے پچھتایا اور وسوسہ کیا کہ کیا وہ مکر میں گھر گیا ہے۔ اس گھڑی اسے اپنی پوری ہستی ایک مکر نظر آئی۔ تب وہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑایا کہ پیدا کرنے والے نے تو مجھے ایسا پیدا کیا جیسے پیدا کرنے کا حق ہے۔ تو نے مجھے بہترین کینڈے پر خلق کیا۔ اور اپنی مثال پر بنایا۔ پس اے پیدا کرنے والے تو اب مجھ سے مکر کرے گا اور مجھے ذلیل بندر کے اسلوب پر ڈھالے گا اور الیاسف اپنے حال پر رویا۔ اس کے بنائے ہوئے پشتہ میں دراڑ پڑ گئی تھی اور سمندر کا پانی جزیرے میں آ رہا تھا۔

    الیاسف اپنے حال پر رویا اور بندروں سے بھری بستی سے منہ موڑ کر جنگل کی سمت نکل گیا کہ اب بستی اسے جنگل سے زیادہ وحشت بھری نظر آتی تھی۔ اور دیواروں اور چھتوں والا گھر اس کے لئے لفظ کی طرح معنی کھو بیٹھا تھا۔ رات اس نے درخت کی ٹہنیوں پر چھپ کر بسر کی۔

    جب صبح کو وہ جاگا تو اس کا سارا بدن دکھتا تھا اور ریڑھ کی ہڈی درد کرتی تھی۔ اس نے اپنے بگڑے اعضاء پر نظر کی کہ اس وقت کچھ زیادہ بگڑے بگڑے نظر آ رہے تھے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے سوچا کیا میں، میں ہی ہوں اور اس آن اسے خیال آیا کہ کاش بستی میں کوئی ایک انسان ہوتا کہ اسے بتا سکتا کہ وہ کس جون میں ہے اور یہ خیال آنے پر اس نے اپنے تئیں سوال کیا کہ کیا آدمی بنے رہنے کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ آدمیوں کے درمیان ہو۔ پھر اس نے خود ہی جواب دیا کہ بیشک آدم اپنے تئیں ادھورا ہے کہ آدمی، آدمی کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اور جو جن میں سے ہے ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اور جب اس نے یہ سوچا تو روح اس کی اندوہ سے بھر گئی اور وہ پکارا کہ اسے بنت الاخضر تو کہا ں ہے کہ تجھ بن میں ادھورا ہوں۔ اس آن الیاسف کو ہرن کے تڑپتے ہوئے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کی یاد بے طرح آئی۔

    جزیرے میں سمندر کا پانی امنڈا چلا آ رہا تھا اور الیاسف نے درد سے صدا کی۔ کہ اے بنت الاخضر اے وہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ تجھے میں اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر اور بڑے درختوں کی گھنی شاخوں میں اور بلند برجیوں میں ڈھونڈوں گا۔ تجھے سرپٹ دوڑی دودھیا گھوڑیوں کی قسم ہے۔ قسم ہے کبوتروں کی جب وہ بلندیوں پر پرواز کرے۔ قسم ہے تجھے رات کی جب وہ بھیگ جائے۔ قسم ہے تجھے رات کے اندھیرے کی جب وہ بدن میں اترنے لگے۔ قسم ہے تجھے اندھیرے اور نیند کی۔ اور پلکوں کی جب وہ نیند سے بوجھل ہو جائیں۔ تو مجھے آن مل کہ تیرے لئے میراجی چاہتا ہے اور جب اس نے یہ صدا کی تو بہت سے لفظ آپس میں گڈ مڈ ہو گئے جیسے زنجیر الجھ گئی ہو۔ جیسے لفظ مٹ رہے ہوں۔ جیسے اس کی آواز بدلتی جا رہی ہو اور الیاسف نے اپنی بدلتی ہوئی آواز پر غور کیا اور زبلون اور الیاب کو یاد کیا کہ کیوں کر ان کی آوازیں بگڑتی چلی گئی تھیں۔ الیاسف اپنی بدلتی ہوئی آواز کا تصور کر کے ڈرا اور سوچا کہ اے معبود کیا میں بدل گیا ہوں اور اس وقت اسے یہ نرالا خیال سوجھا کہ اے کاش کوئی ایسی چیز ہوتی کہ اس کے ذریعے وہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا۔ مگر یہ خیال اسے بہت انہونا نظر آیا۔ اور اس نے درد سے کہا کہ اے معبود میں کیسے جانوں کہ میں نہیں بد لاہوں۔

    الیاسف نے پہلے بستی کو جانے کا خیال کیا مگر خود ہی اس خیال سے خائف ہوگیا، اور الیاسف کو خالی بستی اور اونچے گھروں سے خفقان ہونے لگا، اور جنگل کے اونچے درخت رہ رہ کر اسے اپنی طرف کھینچتے تھے، الیاسف بستی واپس جانے کے خیال سے خائف چلتے چلتے جنگل میں دور نکل گیا۔ بہت دور جاکر اسے ایک جھیل نظر آئی کہ پانی اس کا ٹھہرا ہوا تھا۔ جھیل کے کنارے بیٹھ کر اس نے پانی پیا، جی ٹھنڈا کیا۔ اسی اثنا میں وہ موتی ایسے پانی کو تکتے تکتے چونکا۔ یہ میں ہوں؟ اسے پانی میں اپنی صورت دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی چیخ نکل گئی اور الیاسف کو الیاسف کی چیخ نے آلیا۔ اور وہ بھاگ کھڑا ہوا۔

    الیاسف کو الیاسف کی چیخ نے آلیا تھا۔ اور وہ بے تحاشا بھاگا چلا جاتا تھا۔وہ یوں بھاگا جاتا تھا جیسے جھیل اس کا تعاقب کررہی ہے۔ بھاگتے بھاگتے تلوے اس کے دکھنے لگے اور چپٹے ہونے لگے اور کمر اس کی درد کرنے لگی، پر وہ بھاگتا رہا اور کمر کا درد بڑھتا گیا اور اسے یوں معلوم ہوا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی دوہری ہوا چاہتی ہے اور دفعتا جھکا بے ساختہ اپنی ہتھیلیاں زمین پر ٹکا دیں۔

    الیاسف نے جھک کر ہتھیلیاں زمین پر ٹکا دیں اور بنت الاخضر کو سوگھتا ہوا چاروں ہاتھوں پیروں کے بل تیر کے موافق چلا۔

  • ”یار تم لوگوں کو کوئی مرثیہ ورثیہ یاد ہے؟“

    ”یار تم لوگوں کو کوئی مرثیہ ورثیہ یاد ہے؟“

    انتظار حسین کے بقول ان کے پاس دوسروں کی طرح ہجرت کی مظلومیت کی کوئی ذاتی کہانی نہیں تھی جسے بیان کر کر کے وہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ سکتے۔ لہٰذا انہوں نے تقسیم اور ہجرت کے بعد جو کچھ لاہور میں دیکھا، اسے اپنی سوانح میں سمیٹ لیا۔

    اردو کے اس ممتاز فکشن رائٹر کو ان کے منفرد حکایتی اسلوب اور خوب صورت طرزِ نگارش کے لیے ادب کی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انتظار حسین پہلے پاکستانی ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ اس کا نام انھوں نے چراغوں کا دھواں رکھا۔ یہ ان کے پچاس برس کی یادوں کا خزانہ ہے۔

    یہ کتاب تقسیم اور ہجرت کے بعد کے لاہور میں علم و فنون کی گویا ایک تاریخ ہے۔ کون سا شاعر یا ادیب کس شہر سے آیا، کہاں ٹھہرا، کیسے اپنا تخلیقی سفر شروع کیا، کیسی مشکل جھیلی، اس کی یافت کا ذریعہ کیا تھا، کس نے کیا کچھ کیا، کون کس کو عزیز تھا اور معاصرین کی ادبی چشمک کا حال۔ اسی طرح ادبی رسائل و جرائد جیسے سویرا، لیل و نہار، خیال، ساقی، آفاق کی ابتدا، ان کے عروج اور زوال کی کہانیاں انتظار حسین کے اسلوب میں‌ امر ہوگئی ہیں۔ اسی کتاب سے فنون و ادب سے وابستہ نام ور ہستیوں سے متعلق ایک خوب صورت یاد ہم آپ لیے نقل کررہے ہیں۔

    انتظار حسین لکھتے ہیں، ”شاکر صاحب کو سبط حسن سے واقعی بہت لگاؤ تھا۔ بہت پکی دوستی تھی۔ ایسی پکی کہ ایک مرتبہ ان کی خاطر وہ اچھے خاصے مولائی بن گئے تھے۔ وہ عاشور کی دوپہرتھی۔ میں، ناصر (کاظمی) اور (احمد) مشتاق ٹی ہاؤس میں بیٹھے تھے۔ انیس کی ایک جلد ہمارے بیچ رکھی تھی۔ مظفر(علی سید) کی فراہم کردہ۔ اس جلد کو مشتاق نے ان تاریخوں میں کس خضوع خشوع سے پڑھا تھا۔ اچانک شاکر صاحب وارد ہوئے۔ نہ دعا نہ سلام ”اٹھو اٹھو یار، ہمارے گھر چلو مجلس کرنی ہے۔“

    ”مجلس “ہم تینوں نے شاکر صاحب کو تعجب سے دیکھا۔

    ”ہاں یار، سبطے میرے گھر بیٹھا ہے۔ کہتا ہے آج عاشور کا دن ہے۔ کچھ ماتم مرثیہ ہونا چاہیے۔ یار تم لوگوں کو کوئی مرثیہ ورثیہ یاد ہے۔ کوئی سوز، کوئی نوحہ۔ “

    مشتاق بولا ”انیس جو موجود ہے۔ “

    شاکر صاحب نے انیس کی جلد کو دیکھا، ”بس بس کام بن گیا۔ اٹھو، چلو جلدی سے۔ “

    سو ہم شاکر صاحب کے یہاں پہنچے۔ سبطِ حسن وہاں سچی مچی محرمی صورت لیے بیٹھے تھے۔ مراثی انیس کی جلد اس وقت انھیں بہت بڑی نعمت نظر آئی۔ کس رقت بھری کیفیت میں انھوں نے سوز خوانی شروع کی۔ بازو کے طور پر دائیں احمد مشتاق اور بائیں خورشید شاہد۔

    بعد میں ایک گفتگو میں سبط صاحب نے مجھے بتایا کہ شروع عمر میں انھوں نے بہت سوز خوانی کی ہے اور یہ کہ وہ بہت اچھے سوز خواں تھے۔“

  • انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا….

    انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا….

    اردو ادب کے حق میں دو چیزیں سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوئیں۔ انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا۔

    آدمی کی پوری ذات محبت کے واسطے سے بروئے کار آتی ہے نہ کہ دوستی کے حوالے سے اور جن کی نفرت عمیق نہیں ہوتی ان کی محبت بھی عمیق نہیں ہوتی۔ رہا کھدر کے کُرتے کا معاملہ تو وہ جوگیا ہو یا نیلا، انتہا اس کی پاکستان میں بہرصورت موٹرکار ہے۔ وہ دورِ جاگیرداری گزر گیا جب سعادت حسن منٹو ململ کا سفید کرتا پہن کر تانگے میں مال پر نکلا کرتے تھے۔ اب لاہور کی مال پر تانگا ممنوع ہے اور نئی قدروں نے موٹر کار کی صورت اختیار کر لی ہے۔

    ادب اور موٹر کار دو الگ الگ قدریں ہیں۔ ادب شعر اور افسانہ گھسیٹ دینے کا نام نہیں ہے۔ ادب ایک ذہنی رویہ ہے، جینے کا ایک طور ہے، موٹر کار جینے کا ایک دوسرا اسلوب ہے۔ ادب اور موٹر کار کو یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ موٹر تیز چلتی ہے اور یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جب سواری تیز چلتی ہے تو ادب کی گاڑی رک جاتی ہے۔ مثلاً جب سے پاکستان کے ادیبوں نے رائٹرز گلڈ کے توسط سے ہوائی جہاز میں سفر کرنا شروع کیا ہے، انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے اور ابن انشاؔ نے جتنے عرصے میں پورے یورپ کا دورہ کیا، اتنے عرصے میں میں صرف ایک افسانہ لکھ سکا۔

    مولانا محمد حسین آزادؔ جب لاہور کے اکبری دروازے سے گورنمنٹ کالج کی طرف چلتے تھے تو ان کا گھوڑا بہت سست چلتا تھا مگر ان کی نثر سرپٹ دوڑتی ہے۔ فیض احمد فیضؔ کی کار بہت تیز چلتی ہے۔ البتہ مصرع پوئیاں چلتا ہے۔

    میری نانی اماں نے تو خیر مغلوں کا سکہ بھی دیکھا تھا مگر میں نے بچپن میں بس دو سکے دیکھے۔ ملکہ کی اکنی جو بہت گھس گئی تھی اور جارج پنجم کا روشن اور ابھری مورت والا پیسا۔ اب یہ دونوں سکے ٹکسال باہر ہیں۔ حالانکہ عظیم انسان کی اصطلاح اب بھی چالو ہے۔ اصطلاحیں استعارے اور تصورات سکے ہوتے ہیں۔ اپنے وقت میں خوب چلتے ہیں۔ وقت کا سکہ بدلتا ہے توان کی بھی قیمت گر جاتی ہے۔ مگر وضع دار لکھنے والے اپنے لفظ، استعارے، ترکیبیں اور تصورات پتھر پہ بجا کے نہیں دیکھتے اور انہیں چالو سمجھ کر آخر دم تک استعمال کرتے رہتے ہیں۔

    ملکہ کے وقت کے تین گھسے ہوئے سکے:

    (1) جوشؔ ملیح آبادی کی عقلی شاعری۔

    (2) نیازؔ فتح پوری اور نئی پود کی دہریت۔

    (3) انسان دوستی۔

    چند استعارے جنہیں پھپھوندی لگ چکی ہے: سحر، اندھیرا، رہزن، رہبر۔

    کلاسیکی شاعری کے وہ استعارے جو نئے ترقی پسند شاعروں کے ہاتھوں معنی کھو بیٹھے، دار و رسن، زنداں، قفس، منصور۔ غدر سے پہلے کے لفظ، لہجے اور ترکیبیں جن کے کنارے گھس چکے ہیں، معاذ اللہ، ارے توبہ، لہو کے چراغ، پرچم، گہرا سناٹا، خلا، سسکیاں، آکاش، سماج، دھندلکا، حریری ملبوس، غم جاناں، غم دوراں، عظیم ادب، آفاقیت، ابدی اقدار، انفرادیت، رچاؤ، سوز و گداز۔

    اردو تنقید کی زنگ آلود ضرب الامثال:

    (1) ادب نام ہے تنقید حیات کا۔

    (2) ادب اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

    (3) ادب شخصیت کا اظہار ہے۔

    (4) ادب پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔

    (5) ہر ادب اپنے ماحول کا ترجمان ہوتا ہے۔

    (6) ادب روایت کے شعور سے پیدا ہوتا ہے۔

    گھسی ہوئی دونیاں چونیاں، رمبو، بایلئر، ٹی ایس ایلیٹ، غالب، گورکی، موپساں۔

    (انتظار حسین کے مضمون ادب کی الف، ب، ت سے اقتباسات)

  • ’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں…!‘‘

    ’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں…!‘‘

    مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیے جانے والے پہلے پاکستانی ادیب، فکشن نگار انتظار حسین کی خود نوشت "جستجو کیا ہے؟” ان کے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد ہندوستان کے کئی سفر کی داستان ہے۔

    اس دوران انھوں نے اپنی بستی کا تفصیلی سفر کیا اور اپنے زمانے کے مشترکہ ہندوستان کی یادداشتوں کی بنیاد پر دو ملکوں کی داستان، اس کی تہذیب اور ان میں بسنے والے ایک جیسے لوگوں کی فکر کے امتزاج سے بنی ایسی مشترک قدروں کو محفوظ کرنے کی سعی کی جنھیں فراموش کرنے کی کوشش کرنے کے باوجود بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس کتاب میں انھوں نے اردو کے آخری داستان گو میر باقر علی کے بارے میں بھی لکھا ہے میر باقر علی کو دہلی کا سحر طراز داستان گو کہا جاتا ہے جنھیں‌ زبان و بیان پر غضب کی قدرت تھی۔ داستان سناتے تو سماں باندھ دیتے۔ انتظار حسین لکھتے ہیں:

    ان (میر باقر علی) کی داستانِ حیات کچھ اس طرح بیان ہوئی ہے، یا شاید وہ زندگی ہی اس طور گزری ہے کہ اس کے درجہ بدرجہ زوال کے ساتھ دلّی کا بھی درجہ بدرجہ زوال دیکھتے چلے جائیے۔

    آگے رجواڑوں سے بلاوے آتے تھے۔ کس ٹھسے کے ساتھ وہاں جاتے تھے اور راجوں مہاراجوں کو داستان سناتے تھے۔ وہ دروازہ بند ہوا تو دلّی کے دیوان خانوں میں ساتھ عزّت کے بلائے جاتے۔ رفتہ رفتہ وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ پھر دلّی کے رئیس چھنا مل کے یہاں داستان سنانے پر ملازم ہو گئے۔ ماہوار تنخواہ مبلغ چالیس روپے۔ پھر وہ در بھی بند ہو گیا۔

    اب ایرا غیرا نتھو خیرا جس کی گرہ میں دو روپے ہیں وہ گھر پر میر صاحب کو بلائے اور داستان سن لے۔ پھر بقول شاہد صاحب، ’’جب لوگوں کو دو روپے بھی اکھرنے لگے تو میر صاحب نے گھر پر داستان کی محفل سجانی شروع کر دی۔‘‘ ایک آنے کا ٹکٹ خریدو اور میر باقر علی سے داستان سن لو۔ مگر پھر کیا ہوا۔ دلّی میں بائیسکوپ آگیا۔ دلّی والوں نے داستان سے منھ موڑا اور بائیسکوپ پر ٹوٹ پڑے۔

    انتظار حسین میر باقر علی اور داستان گوئی کے ختم ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں:

    تب میر صاحب نے داستانیں طاق میں رکھیں اور چھالیاں کتر کتر کے بیچنے لگے۔ پہلے ان کی زبان چلتی تھی، اب ان کا سروطہ(سروتا) چلتا تھا۔ کیا گول گول چھالیا ں کترتے تھے۔ گلی محلہ میں انھیں اس حال میں پھیری لگاتے دیکھ کر کوئی پوچھ بیٹھتا کہ میر صاحب یہ چھالیاں اور آپ، تو جواب دیتے کہ ’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں، انھیں وہ آداب یاد دلا رہا ہوں۔‘‘ بس دلّی والوں کو پان کھانے کے آداب سکھاتے سکھاتے ہی دنیا سے گزر گئے۔ داستان گوئی کی روایت نے شاہی درباروں سے آغاز کیا تھا، ایک سروطے پر جاکر وہ ختم ہوئی۔

  • جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

    جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

    ناصر کاظمی کی ”برگِ نے“ شائع ہونے لگی تو ناصر نے شاکر صاحب سے گزارش کی کہ آپ میری کتاب کا سرورق بنائیے۔

    شاکر صاحب نے سرورق بنایا۔ ناصر نے بہت پسند کیا۔ ہم سب نے پسند کیا مگر جب حنیف رامے تک یہ خبر پہنچی تو وہ مچل گیا کہ ناصر کی کتاب کا سرورق بنانے کا حق اگر کسی کو ہے تو مجھے ہے۔

    اسے سمجھایا گیا، ناصر نے بھی بہت سمجھایا کہ وہ تو میرے کہنے پر شاکر صاحب نے بنایا تھا اور میں تو ناشر کو (کارواں پبلشرز) یہ سرورق حوالے کر چکا ہوں، مگر حنیف اپنی ہٹ پر قائم رہا۔ اس نے کارواں کے حمید صاحب کے پاس جا کر ناصر کے ساتھ اپنے حقِ رفاقت کو جتایا اور انہیں قائل کرنے میں کام یاب رہا۔ سو ”برگِ نے“ حنیف رامے کے سر ورق کے ساتھ شائع ہوئی۔

    لیجیے یہ ایک اور پیچ پڑ گیا۔ شاکر صاحب ناصر سے خفا خفا پھرنے لگے۔ میں نے ناصر کی طرف سے بہت صفائیاں پیش کیں، مگر شاکر صاحب کے دل میں جو ایک گرہ پڑ گئی تھی وہ نہیں گئی، بس دب گئی۔

    اصل میں یہ جو حنیف رامے کا بات بات میں مچل جانا تھا اس نے میرے اور ناصر کے لیے بہت الجھنیں پیدا کیں۔ شیخ صاحب کے وہ مسائل نہیں تھے جو ہمارے تھے۔ انہیں تو اس حلقۂ دوستاں سے غرض ہی نہیں تھی جس میں ہم اٹھتے بیٹھتے چلے آئے تھے اور اس اٹھنے بیٹھنے میں ہم نے محبت کے رشتے قائم کیے تھے مگر شیخ صاحب اپنے ملنے والے سے پوری وفا مانگتے تھے اور پوری وفا سے نوازتے تھے۔ وفا بلا شرکت غیرے۔ بس اس ایک وجہ سے ان کا حلقۂ ارادت پھیلنے سے پہلے ہی سکڑ گیا۔

    ہمارے دوستوں میں سب سے سرکش مخلوق احمد مشتاق کو جانیے۔ اس نے تو پٹھے پر ہاتھ ہی نہیں رکھنے دیا۔ پہلے ہی مرحلہ میں شیخ صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مظفر کو اس انکارِ اطاعت سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شیخ صاحب کی خطائیں شیخ صاحب کے ساتھ، مظفر کی خطائیں مظفر کے ساتھ۔ احمد مشتاق کے یہاں یاروں کی کسی خطا کے لیے معافی کا خانہ نہیں تھا۔ مگر صحیح تولتا تھا۔ ترازو اس کے ہاتھ میں تھی۔ سو ہر یار کی خطاؤں کا پلہ ہمیشہ بھاری ہی دیکھا گیا۔ ادھر شیخ صاحب کی ترازو میں یاروں کی خوبیوں کا پلّہ ہمیشہ بھاری رہا۔ اور حنیف کی مصوّری کو انہوں نے کیا خوب تولا کہ پلّہ اس کا گراں ہوتا ہی چلا گیا۔

    ناصر دوستوں کے معاملہ میں مرنجاں مرنج۔ احمد مشتاق سے بھی آخر دوستی رکھنی تھی اور شیخ صاحب اور حنیف رامے کی بھی دل شکنی منظور نہیں تھی۔ اور ناصر کی رضا میں میری رضا، مگر شاکر صاحب بھی تو دوست تھے بلکہ دوستوں سے بڑھ کر دوست۔ اور ان کی مصوری کی خوشبو تو اب پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی۔

    جب ناصر کی ”برگِ نے“ کے سر ورق کا قصّہ نیا پرانا ہو گیا اور شاکر صاحب کی طبیعت بھی بحال ہو گئی تو ایک خواہش نے میرے اندر سر اٹھایا۔ میرا مجموعہ ”شہرِ افسوس“ اشاعت کا منتظر تھا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کا سر ورق شاکر صاحب سے بنوایا جائے۔ شاکر صاحب نے فوراً ہی ہامی بھر لی، مگر فوراً ہی بیمار بھی پڑ گئے اور ایسے بیمار پڑے کہ طبیعت سنبھلنے ہی میں نہیں آرہی تھی۔

    ادھر ناشر کا سخت تقاضا کہ سرورق کہاں ہے۔ آخر کو میں نے اسپتال جا کر شاکر صاحب سے کہا کہ میں نے آپ کو سر ورق کی ذمہ داری سے آزاد کیا۔ طبیعت پر بوجھ مت لیں اور اچھے ہو جائیں اور واقعی اس کے تیسرے ہی دن ان کی طبیعت بحال ہو گئی اور اسپتال سے گھر منتقل ہو گئے۔

    ہاں جب اس مجموعہ کی افتتاحی تقریب ہونے لگی تو جیسے شاکر صاحب سر ورق والا چڑھا قرض یہاں اتارنا چاہتے تھے۔ تقریب کی صدارت پر اس اعلان کے ساتھ آمادہ ہوئے کہ ان کہانیوں کے بارے میں انہیں ایک نکتہ سوجھا ہے، وہ بیان کریں گے۔

    اسٹیج پر سہیل احمد خان ان کے برابر میں بیٹھے تھے۔ بعد میں بتایا کہ سامنے رکھے کورے کاغذوں پر وہ بہت تیزی سے دوسروں کی سنتے ہوئے کچھ لکھتے چلے جا رہے تھے مگر جب صدارتی کلمات کی باری آئی تو جانے کیا ہوا کہ چند فقرے اس رنگ سے ادا کیے کہ گونگا خود سمجھے یا گونگے کی ماں سمجھے۔ پھر سٹپٹا کر چپ ہو گئے۔

    ارے وہ تو اسٹیج تھا اور سامنے مائیک جو پوری تقریر کا مطالبہ کر رہا تھا، مگر شاکر صاحب تو دوستوں کے بیچ بیٹھ کر بھی گفتگو اس طرح کرتے تھے کہ آدھا فقرہ بول کر چپ ہو گئے اور سمجھ لیا کہ فقرہ یار خود مکمل کر لیں گے اور مفہوم سمجھ لیں گے۔ ایک روز موڈ میں تھے۔ بولے ” انتظار حسین، تمہیں پتہ ہے، ہم مولانا محمد علی کے خاندان سے ہیں۔“

    میں نے ہنس کر کہا کہ ”جب ہی۔“ چکرا کر بولے ”جب ہی کیا۔“

    تب میں نے اپنے ”جب ہی“ کی وضاحت کی اور کہا کہ ”مولانا محمد علی قیامت کے مقرر تھے۔ ان کی گرمیٔ تقریر کو تو تحریکِ خلافت بھی زیادہ دنوں تک نہیں سہار سکی۔ جلدی ہی ڈھے گئی۔ اب پتہ چلا کہ ان کے خاندان کے حصے میں جتنی قوتِ گویائی آئی تھی وہ بھی سب انہوں نے اپنی خطابت میں سمیٹ لی تھی۔ آپ کی قوّتِ گویائی بھی اُدھر ہی سمٹ گئی۔“

    مگر ایک دوست نے کیا خوب کہا کہ شاکر صاحب خود نہیں بولتے، ان کی تصویر بولتی ہے۔ میں نے کہا ’مگر وہ بھی تجریدی زبان بولتی ہے جسے سمجھنے والے ہی سمجھتے ہیں۔“

    (از قلم انتظار حسین)

  • 1947: دلّی کے ایک جلسے کا اکلوتا اور بے زبان سامع

    1947: دلّی کے ایک جلسے کا اکلوتا اور بے زبان سامع

    ’’ یہ 48 کا ذکر ہے۔ عسکری صاحب اور میں شام پڑے مال کی طرف نکل جاتے تو ادبدا کر ایک نوجوان سے مڈھ بھیڑ ہوتی۔ چھریرا بدن، لمبا قد، کھلتا ہوا رنگ۔ اپنی بھڑکیلی شرٹ اور ٹھاٹ دار پتلون کے ساتھ بہت سمارٹ نظر آتا تھا۔

    اپنے ٹامی کو لے کر نکلتا تھا۔ مستقل اسے روکتا ٹوکتا چلتا۔ ہمارے قریب آکر عسکری صاحب کو سلام کرتا اور پھر اپنے ٹامی سے باتیں کرتا آگے نکل جاتا۔ میں نے عسکری صاحب سے پوچھا کہ یہ کون نوجوان ہے۔

    کہا، ”اس کا نام انور جلال ہے۔“

    اگلے چند برسوں میں اس سے اس طرح تعارف ہوا کہ شاعری کرتا نظر آیا۔ پھر افسانے میں خامہ فرسائی کرتا دکھائی دیا۔ پھر اس کا ایک ناول شایع ہوا۔ اور اچھا بھلا ناول تھا۔ پھر قلم کے ساتھ اس کے ہاتھ میں موقلم نظر آیا۔ اس کے ساتھ اس کے نام کے ساتھ شمزا کا لاحقہ لگ گیا۔ اب وہ انور جلال شمزا تھا اور ادیبوں کے ساتھ کم مصوروں کی صحبت میں زیادہ دکھائی دینے لگا۔ ٹی ہاوس سے کافی ہائوس کی طرف۔ کافی ہائوس سے ٹی ہائوس کی طرف۔ تھوڑا ادب زیادہ مصوری۔ اور مصوری کے بہانے باہر نکل گیا۔ مصوری میں اس کے کام کی خوشبو پاکستان تک آئی۔

    زمانے بعد ایک سہ پہر میں نے ٹی ہائوس میں قدم رکھا تو دیکھا کہ انور جلال بیٹھا ہے۔ مجھے دیکھ کر چلایا ”یار میں اتنی دیر سے یہاں بیٹھا انتظار کر رہا ہوں۔ کوئی آشنا صورت نظر نہیں آ رہی۔ ناصر تو دنیا سے چلا گیا۔ باقی یار کہاں گئے۔“

    ”بس جیسے تم چلے گئے ویسے دوسرے بھی جس کے جہاں سینگ سمائے نکل گیا۔“

    یہ اس کا شاید پاکستان کا آخری پھیرا تھا۔ پھر تو وہ آیا نہیں۔ اس کی خبر ہی آئی۔

    دوسرے کتے کو میں نے دیکھا نہیں، اس کا ذکر عبادت صاحب سے سنا۔ یہ غلام عباس کا کتا تھا جس کا نام حلقہ ارباب ذوق کی تاریخ میں سنہری حرفوں میں لکھا جانا چاہیے۔ عبادت صاحب بتاتے تھے کہ 47 میں 3 جون کے اعلان کے بعد کتنے یار جو دلی کے حلقہ میں شریک ہوا کرتے تھے پاکستان چلے گئے۔ غلام عباس ابھی موجود تھے۔

    شہر میں حالات بہت خراب تھے۔ کرفیو لگا ہوا تھا۔ آ گیا اتوار۔ غلام عباس کا گھر میرے گھر سے قریب ہی تھا۔ ان کا پیغام آیا۔ میں ان کے یہاں پہنچ گیا۔ کہنے لگے کہ آج اتوار ہے۔ حلقہ کا جلسہ نہیں ہو گا۔ میں نے کہا کہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کرفیو میں کون آئے گا۔ کہنے لگے کہ ہم اپنے گھر پہ جلسہ کیے لیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ مگر لوگ کہاں ہیں۔

    بولے کہ دیکھیے میرے پاس نیا افسانہ پڑھنے کے لیے موجود ہے۔ آپ صدر بن جائیں گے۔ میں نے کہا ”اور سامعین کہاں سے آئیں گے۔“

    اس پر عباس صاحب نے تھوڑا سوچا۔ پھر اندر گئے۔ اور اپنے کتے کو پکڑ کر لائے۔ بولے ”لیجیے سامعین کا انتظام بھی ہو گیا۔ ہمارا ٹامی ہمارا افسانہ سنے گا۔“ پھر اسے پچکار کر بٹھایا۔ کہا کہ ”ٹامی تمہیں میرا افسانہ سننا ہے۔“

    سو میں صدر بنا۔ غلام عباس نے افسانہ پڑھا۔ ٹامی نے یہ افسانہ سنا۔ اس طرح 47 کے پُرآشوب دنوں میں دلی میں حلقہ کا جلسہ ہوا۔‘‘

    (انتظار حسین کی کتاب چراغوں کا دھواں سے انتخاب)