Tag: انتظار حسین کی تحریریں

  • سنتوش کمار کے پان کی ڈبیا اور چھالی الائچی کا بٹوا

    سنتوش کمار کے پان کی ڈبیا اور چھالی الائچی کا بٹوا

    اب ایک بالکل مختلف قسم کی صبح یاد آ رہی ہے۔ صبح ہی صبح گھر سے نکلا اور جہاز میں جا بیٹھا۔ کشور ناہید ہم سفر ہیں۔ یہ فلموں کا چکر ہے۔

    اس زمانے میں کشور ناہید اور میں دونوں ہی فلم سنسر بورڈ کے رکن تھے۔ اس واسطے سے مجھے بس ایک ہی شخصیت اس وقت یاد آرہی ہے، سنتوش کمار، کہ وہ بھی ان دنوں اس بورڈ کے رکن تھے اور جو گاڑی انہیں لینے جاتی تھی وہ رستے میں سے مجھے بھی بٹھا لیتی تھی۔ میں گاڑی میں بیٹھا اور سنتوش کمار نے پان کی ڈبیا کھولی۔ کس سلیقہ اور محبت سے پان پیش کرتے تھے۔ میں نے پان ناصر کے ساتھ بہت کھائے تھے۔ وہ زمانہ گزر گیا تو پان کھانا ہی چھوڑ دیا۔ اب سنتوش کمار کی صحبت میں پھر پان کھانے شروع کر دیے تھے، بلکہ بہت سی فلمیں تو ایسی ہوتی تھیں کہ اگر سنتوش کمار کی پانوں کی ڈبیا اور چھالی الائچی کے بٹوے کا سہارا نہ ہوتا تو پتا نہیں ہمارا کیا حال ہوتا۔ کیا باغ و بہار آدمی تھے اور کیسے بانکے سجیلے۔

    میں نے شروع میں انہیں اس وقت دیکھا تھا جب 1948ء کے اوائل میں مسعود پرویز کی فلم میں جس کی کہانی منٹو صاحب نے لکھی تھی، وہ ہیرو کا رول ادا کر رہے تھے اور منٹو صاحب کہتے تھے کہ یہ نوجوان پاکستان کا دلیپ کمار بنے گا یا اب دیکھ رہا تھا، جب وہ اداکاری کے کاروبار سے فارغ ہو چکے تھے، مگر اسی طرح سرخ و سفید۔ وہی سفید براق کرتا پاجاما، قریب سے اب دیکھا احساس ہوا کہ بہت باغ و بہار شخصیت ہیں۔ فلم کے بارے میں وہ کہہ دیتے کہ ہاں تو پھر میں بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتا۔ جب ہی تو فلم پاس، فیل کے سلسلہ میں سفارش میرے پاس کم کم پہنچتی تھی۔ انہیں پتا تھا کہ جو دو پنچوں سنتوش کمار اور کشور ناہید کی رائے ہوگی وہی اس شخص کی بھی رائے ہو گی۔ میں اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ اصل رائے کے اظہار کی وہاں گنجائش کہاں تھی۔ اس حساب سے تو مشکل ہی سے کوئی فلم اس لائق نکلتی کہ اسے پاس کیا جا سکے۔

    (فکشن نگار اور کالم نویس انتظار حسین کی کتاب ”چراغوں کا دھواں“ سے اقتباس)

  • نظام حیدر آباد اور جذباتی قاسم رضوی

    نظام حیدر آباد اور جذباتی قاسم رضوی

    تقسیم کے فوراً بعد جذباتیت کا جیسا مظاہرہ حیدر آباد (دکن) کے سلسلے میں ہوا تھا، ویسا شاید ہی اور کسی مسئلے کے بارے میں ہوا ہو۔ حیدر آباد برصغیر میں سب سے بڑی مسلمان ریاست تھی۔ ذہنی طور پر یہاں لوگ اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کہ اس ریاست کا الحاق ہندوستان سے ہو جائے۔

    اتفاق سے ان دنوں ہم ایک ہفتہ وار رسالہ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور تبادلے میں حیدر آباد کے سارے اردو اخبارات، روزنامے بھی اور ہفت روزے بھی ہمیں موصول ہوتے تھے اور کس انہماک سے ہم یہ ساری خبریں اور تبصرے پڑھتے تھے۔ حیدر آباد میں ایک تنظیم تھی جس کا نام ہمیں اگر غلط یاد نہیں تو وہ تھا ’مجلس اتحاد المسلمین‘، اس کے سربراہ تھے سید قاسم رضوی۔ کیسے شعلہ فشاں خطیب تھے۔ اپنی تقریروں میں اخباری بیانات میں انگارے اُگلتے تھے۔ اعلان کرتے تھے کہ ہم موسیٰ ندی کو جمنا ندی سے ملا دیں گے اور لال قلعے پر ریاستِ عثمانیہ کا پرچم لہرائیں گے۔

    ان تقریروں نے ادھر حیدر آباد میں سخت جذباتی فضا پیدا کر دی تھی۔ ادھر پاکستان میں بھی یار لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حیدر آباد کے محاذ پر بڑا معرکہ پڑنے والا ہے۔ ساتھ میں ہتھیاروں کے ایک ایجنٹ کا نام خبروں میں بہت آرہا تھا، خبریں یہ تھیں کہ حیدرآباد میں ہتھیار بہت بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔ بس جب معرکہ پڑے گا تو دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ نو نیزے پانی چڑھے گا۔

    نظام حیدر آباد ایسی جذباتی مخلوق کے نرغے میں تھے۔ اس کے باوصف درون پردہ افہام و تفہیم کی بہت کوششیں ہو رہی تھیں جس کے نتیجہ میں اسٹینڈ اِسٹل اگریمنٹ) Agreement Still (Stand کے نام سے ایک سمجھوتا ہوا، جس کی رو سے یہ طے ہوا کہ اگلے پانچ سال تک ریاست حیدر آباد جوں کی توں رہے گی۔ پانچ سال کے بعد ٹھنڈے دل سے ریاست کے مسئلے پر سوچ بچار کیا جائے گا۔

    سنا گیا کہ اس سمجھوتے کے کرانے میں ہندوستان کے بعض مسلمان زعما نے یعنی نیشنلسٹ مسلمان زعما نے بہت کردار ادا کیا تھا۔ خاص طور پر دو نام لیے جا رہے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور سر مرزا اسماعیل۔ بس ادھر پاکستان میں شور مچ گیا کہ نظام نے حیدر آباد کو بیچ ڈالا…!

    ادھر حیدر آباد میں سید قاسم رضوی کی تنظیم نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ مجاہد اعظم، موسیٰ ندی کو جمنا ندی سے ملانے کے لیے پَر تول رہا تھا۔ حیدر آباد سے لے کر پاکستان تک ’نظام‘ پر تُھو تُھو ہونے لگی اور اب اس تنظیم کا احوال سن لیجیے۔ ہم نے ’بی بی سی‘ کے ایک نمایندے کی ایک رپورٹ ایک کتاب میں پڑھی تھی۔ اس نے اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور سید قاسم رضوی سے ملاقات کی۔ اس کا بیان ہے کہ یہ سب رضا کار مرنے مارنے کے لیے تیار تھے، مگر تیاری ان کی یہ تھی کہ ان کے پاس ہتھیار کے نام بلم تھے۔ رائفل اس گروہ کے پاس صرف ایک تھی۔ تو جو ہونا تھا وہی ہوا۔ یعنی ؎

    بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
    جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

    جب ہندوستان کی طرف سے فوجی کارروائی ہوئی، جسے ’پولیس ایکشن‘ کا نام دیا گیا تھا، تو چند جوشیلے رضا کار ٹینکوں کی زد میں آکر کچلے گئے کارروائی چند گھنٹوں میں مکمل ہو گئی۔

    ہندی مسلمانوں کی سیاست ہمیشہ اس طرح رنگ لائی کہ سیاسی سوجھ بوجھ کم‘ جذبات کی ندی چڑھی ہوئی، جیسے دشمنوں کو بہا کر لے جائے گی، مگر آخر میں ٹائیں ٹائیں فش۔ جذباتیت کے ہاتھوں تحریک کا انجام ہوتا ہے۔ مگر الزام دیا جاتا ہے اِکا دُکا ان افراد کو جو جذبات سے ہٹ کر زمینی حقائق کو جانچتے پرکھتے ہیں اور مفاہمت کی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جذباتی مخلوق یہ سو لگائے بیٹھی تھی کہ حیدر آباد پاکستان سے الحاق کا یا آزاد ریاست ہونے کا اعلان کرے گا۔ ادھر اور ہی گُل کھلا۔ ہندوستان سے مفاہمت اور مولانا ابوالکلام آزاد کے واسطے سے۔ بھلا یہ واقعہ کیسے ہضم ہو جاتا۔ یاروں کو اس واقعے سے سازش کی بو آنے لگی۔ حیدرآباد کے لوگوں کو جو پانچ سال کی مہلت ملی تھی وہ ہم میں سے کسی کو گوارا نہ ہوئی۔ جو شور پڑا اس میں سید قاسم رضوی خوب چمکے دمکے۔ نظام حیدر آباد سمجھوتا کر کے چور بن گئے۔ اس کے بعد وہی ہوا کہ کتنی خلقت حیدر آباد سے اُکھڑ کر پاکستان کے لیے نکل کھڑی ہوئی اور کراچی کی مہاجر کالونیوں میں ایک کالونی کا اور اضافہ ہو گیا…. حیدر آباد کالونی۔

    (ممتاز فکشن نگار اور ادیب انتظار حسین کے کالم ’زوالِ حیدرآباد کی کہانی‘ سے لیا گیا)

  • مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر!

    مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر!

    اردو ادب میں منیر نیازی وہ خوش قسمت شاعر تھے جنھیں اُن کی زندگی میں بڑا شاعر تسلیم کیا گیا اور ان کی تعریف کی گئی۔

    ممتاز ادیب اور فکشن رائٹر انتظار حسین منیر نیازی کے فن و کمال کے معترف رہے اور منیر نیازی بھی اُن کی تحریروں کو سراہتے تھے۔ انتظار حسین نے کی شاعری اور شخصیت پر ایک مضمون لکھا تھا جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ وہ لکھتے ہیں:

    دراصل میں اور منیر نیازی جنت میں ایک ہی وقت میں نکالے گئے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو اسی حیثیت سے پہچانا ہے۔ چلتے پھرتے کسی موٹر پر ہماری مڈھ بھیڑ ہوتی ہے۔ منیر نیازی سنانے لگتا ہے کہ اس کی بستی کے آدمیوں کے کیسے گھنے پیڑ تھے۔ میں بیان کرنے لگتا ہوں کہ اپن بستی میں شام کیسے پڑتی ہے۔ اور مور کس رنگ سے بولتا تھا۔ منیر نے ہمیشہ اسی طرح سنایا اور سنا جیسے کہ وہ یہ داستان پہلی مرتبہ سن رہا ہے اور پہلی مرتبہ سن رہا ہے۔ ایک ملال کے ساتھ سناتا ہے اور ایک حیرت کے ساتھ سنتا ہے۔ ہم اپنی گمشدہ جنت اپنے دھیان میں بسائے پھرتے ہیں۔ اوروں کے تصور میں بھی اسے تو بسا تو رہنا چاہیے تھا۔ مگر لگتا یوں ہے کہ سب نے کسی نہ کسی رنگ سے اس کی تلافی کر لی ہے۔ یا ضعف حافظہ نے ان کی مدد کی ہے مگر ہمارا حافظہ ہمارا دشمن بن گیا ہے۔ حافظے نے بی بی حوا کو بھی بہت ستایا تھا۔ جنت سے نکلنے کے بعد انہیں جنت کی ایک عمر تک یاد آتی رہی۔ انہوں نے جنت کو بہت یاد کیا اور بہت روئیں۔ جنت کی یاد بہنے والے آنسو جو زمین پر گرے ان سے مہندی کے پیڑ اگے قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ روئے ارض پر جتنے مہندی کے پیڑ ہیں وہ سب بی بی حوا کے آنسوؤں کا فیض ہیں۔

    مجھے مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر اچھے لگتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان میں تھوڑی میری آنکھوں کی نمی بھی شامل ہے۔ جب منیر اپنے خانپور کو پکارتا ہے تو میرا بھی ایک بستی پکارنے کو جی چاہتا ہے۔ جب وہ اپنے باغوں اور جنگل کا ذکر کرتا ہے تو میں اسے اسی عالم میں چھوڑ کر اپنے جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں۔ ہماری بستی کا جنگل کچھ بہت گھنا نہیں تھا مگر میری یادوں نے اسے گھنا بنا دیا ہے۔ جب میں منیر نیازی کے شعر پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ جنگل اور زیادہ گھنا ہو گیا ہے اور زیادہ پھیل گیا ہے۔ سو اپنا جنگل بہت گھنا ہو گیا ہے اور زیادہ پھیل گیا ہے، سو اب اپنا جنگل بہت گھنا اور بہت پھیلا ہوا ہے لیکن بات یہاں آ کر ختم نہیں ہو جاتی۔ لگتا ہے کہ اس سے آگے بھی کوئی جنگل ہے۔ اپنے جنگل میں چلتے چلتے میں اچانک کسی اور ہی جنگل میں جا نکلتا ہوں، زیادہ بڑے اور زیادہ پُر ہول جنگل میں۔ مجھے ڈر لگنے لگتا ہے جیسے کہ میں عہدِ قدیم میں سانس لے رہا ہوں۔ شاید عہدِ قدیم بھی ہمارے بچپن کے منطقے کے آس پاس ہی واقع ہے یا منیر نیازی نے اپنے شعروں سے کوئی عجب سی پگڈنڈی بنا دی ہے کہ وہ خانپور سے چل کر میری بستی کو چھوتی ہوئی عہد قدیم میں جا نکلتی ہے۔ تو اب صورت یہ ہے کہ میں منیر کے شعر پڑھتے ہوئے اپنے بچپن کے راستے عہد قدیم میں جا نکلتا ہوں۔ بچپن کے اندیشے اور وسوسے عہد قدیم کے آدمی کے وسوسوں اور اندیشوں سے جا ملتے ہیں۔

    جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بلائے تو منیرؔ
    مڑ کے رستے میں کبھی اس کی طرف مت دیکھو

    مگر مجھے لگتا ہے کہ منیر نے خود مڑ کر دیکھ لیا ہے۔ وسوسے اور اندیشے عہد قدیم سے آج تک آتے آتے آدمی کے اندر اتر گئے ہیں۔ اب باہر سے ہم ہمت والے ہیں اندر سے خوف زدہ ہیں۔ پہلے ہم مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اب اندر دیکھنے سے ڈرتے ہیں۔ کیا اندر بھی کوئی جنگل ہے۔ جنگل اصل میں ہمارے پہلے باہر تھا، اب ہمارے اندر ہے۔ ہم تو جنگل سے نکل آئے اور بڑے بڑے شہر تعمیر کر کے اپنے چاروں طرف فصیلیں کھڑی کر لیں مگر جنگل ہماری بے خبری میں ہمارے اندر اتر گیا اور سات پردوں میں چھپ کر بیٹھا ہے۔ اب وہ ہمارے اندر سو رہا ہے۔ منیر نیازی وہ شخص ہے جس کے اندر جنگل جاگ اٹھا ہے اور سنسنا رہا ہے۔ اس نے مڑ کر جو دیکھ لیا ہے اس کی شاعری کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہم جنگل میں چل رہے ہیں اور پاتال میں اتر رہے ہیں، عجب عجب تصویریں ابھرتی ہیں۔

    دبی ہوئی ہے زیرِ زمیں اک دہشت گنگ صداؤں کی
    بجلی سی کہیں لرز رہی ہے کسی چھپے ہوئے تہ خانے میں
    ٭٭٭

    کرے گا تو بیمار مجھے یا
    بنے گا نامعلوم کا ڈر
    رہے گا دائم گہری تہ میں
    جیسے اندھیرے میں کوئی در

    پھر میرے تصور میں عجب عجب تصویریں ابھرنے لگتی ہیں۔ میں اپنے پاتال میں اترنے لگتا ہوں۔ اگلی پچھلی کہانیاں اور بھولے بسرے قصے یاد آنے لگتے ہیں چمکتی دمکتی اشرفیوں سے بھری زمین دوز دیگیں راجہ باسٹھ راجہ باسٹھ کے محل کے سنہری برج جو زمین کے اندھیرے میں جگمگ جگمگ کرتے ہیں۔ میری نانی اماں بہت سنایا کرتی تھیں کہ زمیں میں دبی یہ دیگیں کس طرح اندر ہی اندر سفر کرتی ہیں اور پکارتی ہیں اور جب کسی کو یہ پکار سنائی دے جاتی ہے تو اس پر کیا بیتتی ہے۔ ان کی باتیں اسی پکار کو سننے کی خواہش کی غمازی بھی کرتی ہیں مگر وہ ڈرتی بھی رہتی ہیں کہ کہیں سچ مچ کسی سنسان اندھیری رات میں یہ پکار انہیں سنائی نہ دے جائے۔ سانپ ان دیگوں کی رکھوالی کرتا ہے۔ میری نانی اماں یہ بتاتی تھیں کہ سانپوں کا ایک راجہ ہے۔ اسے وہ راجہ باسٹھ کہتی تھیں۔ ہندو دیو مالا کے تذکروں میں اس کا نام راجہ بسو کا لکھا ہے اس کا محل سونے کا بنا ہوا ہے اور پاتال کے اندھیرے میں جگمگاتا ہے۔ میری نانی اماں سانپ کا نام شاذ و نادر ہی لیتی تھیں۔ اشاروں کنایوں سے اس کا ذکر کرتی تھیں۔ منیر نیازی بھی اس کا نام لینے سے ڈرتا ہے مگر اس کا ذکر بہت کرتا ہے۔ اتنا خوف اور اتنی کشش آخر کیوں؟

    نامعلوم کا خوف اور نامعلوم کے لیے کشش اس خوف اور کشش کی صورت میں منیر نیازی کی شاعری میں کچھ ایسی ہی ہے کہ جیسے آدم و حوا ابھی ابھی جنت سے نکل کر زمیں پر آئے ہیں۔ زمین ڈرا بھی رہی ہے اور اپنی طرف کھینچ بھی رہی ہے۔ پاتال بھی ایک بھید ہے اور وسعت بھی ایک بھید ہے۔ بھید بھری فضا کبھی اس حوالے سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی اس حوالے سے اور شعر کے ساتھ دیومالائی قصے اور پرانی کہانیاں لپٹی چلی آتی ہیں۔

    سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
    کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
    نہ جا کہ اس سے پرے دشتِ مرگ ہو شاید
    پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستا ہی نہ ہو

    منیر نیازی کے لیے زمین اپنے پاتال اور اپنے پھیلاؤ کے ساتھ دہشت و حیرت سے بھرا ایک تجربہ ہے۔ مگر پھر وہی سوال کہ آخر کیوں؟ کیا اس کا تعلق بھی جنت سے نکلنے سے ہے؟ کیا یہ ہجرت کا ثمر ہے؟ مہندی کے یہ پیڑ خود بخود تو نہیں اگ آئے، قدیم آدمی کے تجربے تو ہمارے آپ کے اندر اور دیو مالاؤں اور داستانوں کے اندر دبے پڑے ہیں۔ آخر کوئی واقعہ تو ہوا ہے کہ یہ تجربے پھر سے زندہ ہوئے ہیں اور ایک نئی معصومیت اختیار کر گئے۔

    ہجرت کا تجربہ لکھنے والوں کی ایک پوری نسل کو اردو ادب کی باقی نسلوں سے الگ کرتا ہے۔ اس نسل کے مختلف لکھنے والوں کے یہاں اس تجربے نے الگ الگ روپ دکھائے ہیں۔ منیر نیازی کے یہاں اس کے فیض سے ایسا روپ ابھرا ہے جو ایک نئی دیو مالا کا سا نقشہ پیش کرتا ہے۔ باقی نئی شاعری کا کیا ہے وہ تو کسی تجربے کے حوالے کے بغیر خالی ٹی ہاؤس میں بیٹھ کر بھی ہو سکتی ہے۔

    (انتظار حسین کی یہ تحریر امجد طفیل کی کتاب بعنوان منیر نیازی: شخصیت و فن میں شامل ہے)

  • ادب یک طرفہ معاملہ تو نہیں ہے!

    ادب یک طرفہ معاملہ تو نہیں ہے!

    روزگار کا مسئلہ ہر زمانے میں رہتا ہے۔ اس لئے پیٹ آدمی کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ لیکن حالی اور اقبال کے زمانے میں لوگوں کو پیٹ کے علاوہ بھی کچھ فکریں تھیں۔ جب پیٹ کے علاوہ بھی کچھ فکریں ہوں تو خود پیٹ کی فکر کو بھی اجتماعی فکروں کے پس منظر میں رکھ کر دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔

    مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں آدمی صرف اپنی نہیں سوچتا بلکہ آس پاس کے لوگوں کے متعلق بھی سوچتا ہے یا یہ کہ اپنے متعلق دوسروں سے غیر متعلق ہو کر نہیں سوچتا۔ یہیں سے ادب کے لئے کشش پیدا ہوتی ہے۔ آدمی اور آدمی کے درمیان رشتہ نہ رہے یعنی اجتماعی فکریں ختم ہو جائیں اور ہر فرد کو اپنی فکر ہو تو ادب اپنی اپیل کھو بیٹھتا ہے۔

    ادیب بھی آدمی ہوتے ہیں۔ اردگرد کے حالات اس کے طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب ہر شخص کو اپنی فکر ہو تو ادیب کو بھی اپنی فکر پڑتی ہے۔ اپنی فکر کو دوسروں کی فکروں کے رشتہ میں رکھ کر دیکھنے یعنی آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے اور جگ بیتی کو آپ بیتی بنانے کا عمل اسے فضول نظر آتا ہے۔ پھر وہ لکھنے کے نئے نئے فائدے دریافت کرتا ہے۔ جس نے فائدے دریافت کر لیے وہ کامیاب ادیب ہے۔ اگر فائدے حسبِ دل خواہ حاصل نہ ہوں تو اچھا بھلا ادیب نرا میرزا ادیب بن کر رہ جاتا ہے۔

    ہر گنہگار معاشرہ اپنے گناہوں کا بوجھ اپنے عضوِ ضعیف پر ڈالتا ہے۔ گنہگار معاشرہ میں ادیب کی حیثیت عضوِ ضعیف کی ہوتی ہے۔ وہ پہلے ادیبوں کو کبھی بہلا پھسلا کر، کبھی عرصۂ حیات تنگ کر کے اپنی راہ پر لاتا ہے اور بعد میں خود ہی ادیبوں کی روش پر نکتہ چیں ہوتا ہے اور کبھی ادبی جمود کی، کبھی ادیبوں میں قومی احساس کے فقدان کی شکایت کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے اندر کے جمود اور اپنے قومی احساس کے فقدان پر پردہ ڈالتا ہے۔

    معاشرہ کا اپنے ادیب سے تعلق کبھی عقیدت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، کبھی غصہ کی صورت میں۔ دونوں صورتوں میں لکھنے کے ایک معنی ہوتے ہیں اور عرضِ ہنر کی بہت قیمت ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت یہ دونوں صورتیں نہیں ہیں۔ شعر و افسانہ پر داد نہ ملتی، بیداد تو ملتی مگر وہ بھی نہیں ہے،

    دیوانہ بہ راہے رود و طفل بہ راہے
    یاراں مگر ایں شہر شما سنگ ندارد

    ہمارے معاشرہ کو ادب کی تو آج بھی ضرورت ہے، اس لئے کہ کرکٹ کے میچ سال بھر متواتر نہیں ہوتے۔ آخر ایک میچ اور دوسرے میچ کے درمیانی عرصے میں کیا کیا جائے۔ غزل اور افسانہ ہی پڑھا جائے گا۔ مگر غزل اور افسانے میں کرکٹ میچ کی کمنٹری والا لطف نہیں آتا۔ اس لئے ادبی جمود کی شکایت بر محل ہے۔ خیر افسانہ پڑھنے والوں کو تو جاسوسی اور اسلامی تاریخی ناول میں مکتی مل گئی ہے۔ شعر کی تلافی کیسے کی گئی ہے اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ اس قسم کے قارئین سے حالی اور اقبال کو پالا پڑا تھا نہ عصمت اور منٹو کو، اور اگر میرے ساتھ کے لکھنے والوں کو یاد ہو تو پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ہمارے قارئین کا رویہ بھی مختلف تھا۔ اس وقت ادب ان کی دل لگی کا سامان نہیں تھا بلکہ ایک دردِ مشترک تھا جو ہمارے اور ان کے درمیان تعلق پیدا کرتا تھا۔ مگر دیکھتے دیکھتے زیر آسمان ترقی کی نئی راہیں نکل آئیں۔ کچھ نئی راہیں ادیبوں نے بھی دریافت کیں۔ ترقی کی رفتار تیز ہے اور لکھنا ایک سست رو مشغلہ ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ جتنے عرصے میں ابنِ انشا نے یورپ اور ایشیا کا چکر لگایا اتنے عرصے میں میں نے صرف ایک افسانہ لکھا۔

    ایسے عالم میں جو لکھنے والا لکھتا رہ گیا ہے اور عرضِ ہنر کو سب سے بڑی قدر جانتا ہے، وہ معاشرہ کا بچھڑا ہوا فراد ہے۔ یہاں مجھے مولانا حالی سے ذرا پہلے کا زمانہ یاد آ رہا ہے۔ ۱۸۵۷ء میں جب مجاہدین ہارے تو بہت سے مر کٹ گئے۔ بہت سوں نے مفاہمت کر لی، بہت سے روپوش ہو گئے۔ مگر چند کا عالم یہ تھا کہ مورچہ ہارتے تھے تو بھاگ کر دوسرا مورچہ سنبھالتے تھے اور لڑتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ میدان ہاتھ سے نکل چکا ہے، ان کی شمشیر زنی کا کوئی حاصل نہیں اور زمانہ اتنا بدل چکا ہے کہ وہ مارے گئے تو وہ ہیرو اور شہید بھی نہیں بنیں گے۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ لڑ رہے تھے۔ ہمارے معاشرہ نے لکھنے والوں کا وہ حال کیا جو انگریزوں نے ۱۸۵۷ء کے مجاہدوں کا حال کیا تھا۔ ۱۸۵۸ء کے نئے ہندوستان کو یہ علم نہیں تھا کہ ابھی تانتیا ٹوپے اور شہزادہ فیروز شاہ زندہ ہیں اور جنگل جنگل چھپتے پھرتے اور انگریز پر شب خون مارتے پھرتے ہیں۔ شاید تانتیا ٹوپے اور شہزادہ فیروز شاہ کو بھی یہ آرزو نہیں رہی تھی کہ ہندوستان اس واقعہ کو جانے۔

    ہم میں سے جو لوگ لکھتے رہ گئے ہیں، ان میں ابھی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنی اس آرزو پر قابو نہیں پا سکے ہیں کہ معاشرہ یہ جانے کہ کچھ ہنرمند آج بھی عرضِ ہنر ہی کو فائدہ جانتے ہیں۔ میری کمزوری یہ ہے کہ میں اپنے ۱۹۴۹ء کے افسانے کی دنیا کو نہیں بھولا ہوں اور چاہتا ہوں کہ سواریوں کی زبان کوچوان اور کوچوان کی زبان سواریاں سمجھیں۔ لیکن اگر میرے دل میں کوئی کھوٹ نہیں ہے اور میں واقعی افسانہ لکھنا چاہتا ہوں تو میری فلاح اس میں ہے کہ میں اپنے لکھے ہوئے افسانے کو بھول کر چیخوف کے افسانے کے معنی کو سمجھوں۔ افسانہ اب میرے لئے اپنی ذات کو محسوس کرنے اور قائم رکھنے کا وسیلہ ہے اور یہ کام میں گھوڑے کو کہانی سنا کر بھی کر سکتا ہوں۔

    جو معاشرہ اپنے آپ کو جاننا نہیں چاہتا وہ ادیب کو کیسے جانے گا۔ جنہیں اپنے ضمیر کی آواز سنائی نہیں دیتی، انہیں ادیب کی آواز بھی سنائی نہیں دے سکتی۔ ایسے معاشرہ میں لکھنے کا ان معنوں میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا کہ تحریر کے معنی پوری طرح نہیں ابھرتے۔ آخر ادب یک طرفہ معاملہ تو نہیں ہے۔ اس میں لکھنے والے اور قاری دونوں کی تخلیقی کاوش شامل ہوتی ہے۔ تحریر میں کچھ معنی لکھنے والا پیدا کرتا ہے، کچھ اس میں قاری شامل کرتا ہے۔ اس طرح ادب معاشرہ میں ایک فعال طاقت بنتا ہے اور ادیب کی شخصیت تکمیل حاصل کرتی ہے لیکن اگر معاشرہ ادیب سے قطع تعلق کر لے تو ادیب کے لئے اپنے آپ کو قائم رکھنے کی یہی صورت ہے کہ وہ اپنی ہی ذات میں اپنی تکمیل تلاش کرے۔

    دلّی اور لکھنؤ کے زوال کے بعد فیروز شاہ کے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، لیکن ایسے عالم میں جب پورا ہندوستان اپنی جگہ سے ہل گیا تھا وہ بے فائدہ شمشیر زنی کرکے اپنے آپ کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لکھنے والا ایک سرد مہر معاشرہ میں یہی کرتا ہے۔ اس کی تحریر اپنی ذات کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اس وقت اس کا یہی فائدہ ہوتا ہے۔ ہم نے ابھی بات شاید پوری طرح نہیں سمجھی ہے اور اس لئے ہم معاشرہ کی شکایت کرتے ہیں۔

    (ممتاز ادیب اور کالم نگار انتظار حسین کی تحریر ادب، گھوڑے سے گفتگو سے اقتباسات)

  • ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں!

    ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں!

    میں سوچتا ہوں کہ ہم غالب سے کتنے مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ اس شخص کا پیشۂ آبا سپہ گری تھا۔ شاعری کو اس نے ذریعۂ عزت نہیں سمجھا۔ غالب کی عزت غالب کی شاعری تھی۔ شاعری اس کے لیے کسی دوسری عزت کا ذریعہ نہ بن سکی۔

    اب شاعری ہمارے لیے ذریعۂ عزت ہے مگر خود شاعری عزت کی چیز نہیں رہی اور میں سوچتا ہوں کہ خازن تو لوگ غالب کے زمانے میں بھی بنتے ہوں گے اور اس پر خوش ہوتے ہوں گے۔ عہدوں اور مراتب اور ہاتھی اور بگھی کی سواری کی فکریں اوروں کو بھی تھیں اور خود غالب کو بھی ستاتی تھیں۔ اسی قسم کی فکریں سر سیّد اور اکبر کے زمانے میں بھی آدمی کی جان کے ساتھ لگی ہوئی ہوں گی۔ لیکن کبھی عقائد کے اثر و رسوخ نے اور کبھی قومی تحریکوں نے ہمارے معاشرہ میں ایسی پنچائتی فکریں پیدا کر دیں کہ نجی فکریں محض نجی بن کر رہ گئیں۔ وہ معاشرہ پر حاوی نہیں ہو پائیں۔

    پچھلے سو برس سے ہمیں بڑی فکر یہ چلی آتی تھی کہ ہم نے صدیوں کے فکر و عمل سے جو سچائیاں دریافت کی ہیں اور جو، اب ہماری زندگی ہیں، ان سچائیوں کا تحفظ ہونا چاہیے۔ اس قسم کے فکر کے یہ معنی ہیں کہ لوگ اپنی نجی ضرورتوں کے ساتھ بلکہ ان سے بڑھ کر کسی اجتماعی ضرورت میں بھی یقین رکھتے ہیں۔ اس یقین کی بدولت وہ اپنی ذات سے بلند ہوکر کسی اجتماعی مقصد سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس صلاحیت کو ایمان کہا جاتا ہے اور ٹی ایس ایلیٹ کا یہ کہنا ہے کہ جو قوم ایمان سے محروم ہے وہ اچھی نثر پیدا نہیں کرسکتی مگر اس میں نثر کی کیا تخصیص ہے۔ ایک بے ایمان قوم اچھی نثر نہیں پیدا کرسکتی تو اچھی شاعری کیا پیدا کرے گی۔ ویسے اس بیان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے معاشرہ میں اچھے نثر نگار یا شاعر سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ہوتے تو ہیں مگر وہ ایک موثر ادبی رجحان نہیں بن سکتے اور ادب ایک معاشرتی طاقت نہیں بن پاتا۔

    ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں۔ ذاتی منفعت اس معاشرہ کا اصل الاصول بن گئی ہے اور موٹر کار ایک قدر کا مرتبہ حاصل کرچکی ہے۔ جب اصل الاصول ذاتی منفعت ہو تو دولت کمانے کے آسان نسخوں کے لیے دوڑ دھوپ روحانی جد وجہد کا سا رنگ اختیار کر جاتی ہے۔ عام لوگ موٹر کار کی چابی کی آرزو میں صابون کی ٹکیاں خریدتے ہیں اور معمے حل کرتے ہیں اور اہلِ قلم حضرات انعاموں کی تمنا میں کتابیں لکھتے ہیں۔ جن کے قلم کو زنگ لگ چکا ہے وہ ادب، زبان اور کلچر کی ترقی کے لیے یا ادبیوں کی بہبود کے لیے ادارے قائم کرتے ہیں اور ادارے والے تو روز افزوں ترقی کرتے ہیں مگر ادب، زبان اور کلچر دن بدن تنزل کرتے چلے جاتے ہیں۔ ادب، زبان اور کلچر کی ترقی کی کوشش میں زیرِ آسمان ترقی کی نئی راہیں نکلتی ہیں اور ستاروں سے آگے کے جہان دریافت کیے جاتے ہیں۔

    ایسے عالم میں جو ادیب افسانہ اور شعر لکھتا رہ گیا ہے وہ وقت سے بہت پیچھے ہے۔ اس کے لیے لکھنا بنفسہ عشق کا امتحان بن جاتا ہے۔

    جب سب سچ بول رہے ہوں تو سچ بولنا ایک سیدھا سادا معاشرتی فعل ہے لیکن جہاں سب جھوٹ بول رہے ہوں وہاں سچ بولنا سب سے بڑی اخلاقی قدر بن جاتا ہے۔ اسے مسلمانوں کی زبان میں شہادت کہتے ہیں اور شہادت اسلامی روایت میں ایک بنیادی اور مطلق قدر کا مرتبہ رکھتی ہے۔ جب ایک معاشرہ تخلیق کے فریضہ کو فریضہ سمجھنا ترک کردے اور اسے ترقی کا ذریعہ سمجھے تو جو شخص اس فریضہ کو ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے وہ گویا شہادت پیش کرتا ہے۔

    لفظ خود ایک شہادت ہے۔ جس انسان نے پہلی مرتبہ لفظ بولا تھا اس نے تخلیق کی تھی پھر یہ تخلیق فعل و عمل میں شیر و شکر ہوگئی اور زبان ایک معاشرتی فعل بن گئی۔ ادب معاشرتی عمل میں پیوست تخلیقی جوہر کی تلاش ہے۔ صدیوں کے قول و عمل، دکھ درد اور خارجی و داخلی مہمات کے وسیلہ سے جو سچائیاں دریافت کی جاتی ہیں اور بعد میں اقدار کہلاتی ہیں۔ ان کی کارفرمائی سے معاشرتی عمل تخلیقی عمل بن جاتا ہے۔ جب تک ایک معاشرہ ان اقدار میں ایمان رکھتا ہے اور ان کی بدولت تخلیقی طور پر فعال رہتا ہے اس کا اس تخلیقی عمل کی تلاش پر بھی ایمان رہتا ہے۔ یعنی ادب بنفسہ اس کے لیے ایک قدر کا، ایک عظیم سچائی کا مرتبہ رکھتا ہے۔ شاید اسی لیے میر و غالب اپنے اپنے زمانے میں ہماری قدروں کے امین بھی تھے اور خود اپنی اپنی جگہ بھی ایک قدر کا مرتبہ رکھتے تھے۔ ان کی عظمت میں کچھ ان کے تخلیقی جوہر کا حصہ ہے اور کچھ اس معاشرہ کے تخلیقی جوہر کا جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔ بڑا ادیب فرد کے تخلیقی جوہر اور معاشرہ کے تخلیقی جوہر کے وصال کا حاصل ہوتا ہے۔

    بڑا ادیب ہمارے عہد میں پیدا نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ یہ عہد اپنا تخلیقی جوہر کھو بیٹھا ہے اور ان اقدار پر اس کا ایمان برقرار نہیں ہے جو اس کی تاریخ کا حاصل ہیں۔ اسے اپنے تخلیقی جوہر کی تلاش میں بھی کوئی معنی نظر نہیں آتے۔ صُمً بُکم عُمی فہم لایرجعون۔ یہ لوگ کرکٹ کی کمنٹری سنتے ہیں، موٹر کار اور غیر ملکی وظیفوں کی باتیں کرتے ہیں، ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں سمجھتے۔

    (ممتاز ادیب اور ناول نگار انتظار حسین کی تحریر سے اقتباس)

  • "کباب میں ہڈی کون ہوا؟”

    "کباب میں ہڈی کون ہوا؟”

    بھٹو صاحب نے کہا ہے کہ جمہوریت چپلی کباب نہیں ہے۔ پس جمہوریت اور آئین کو کھایا نہیں جا سکتا۔

    اس پر ایک چٹورا ہونٹ چاٹتا ہمارے پاس آیا اور بولا کہ اگر جمہوریت چپلی کباب نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ ہم نے کہا کہ جمہوریت اصل میں جوتیوں میں دال بٹنے کا معاملہ ہے۔ اس پر چٹورا بھڑکا اور بولا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ چپل سے چلے جوتی تک پہنچ گئے اور کباب سے چل کر دال پہ آرہے ہیں۔ میں نے آپ سے صرف اتنا پوچھا کہ جمہوریت اگر چپلی کباب نہیں ہے تو پھر کون سا کباب ہے۔

    اس نے پھر پوچھا کہ ’ڈکٹیٹر شپ‘ کیا ہے۔ ہم نے کہا کہ کباب میں ہڈی…! اس میں وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا کہ تمہیں یاد ہے کہ جب ایوب خان صاحب نے گول میز کانفرنس بلائی تھی تو لیڈر اچکنیں سلوا سلوا کر وہاں پہنچے تھے۔ وزارتوں کا اچھا خاصا نقشہ جم گیا تھا، مگر مولانا بھاشانی اڑ گئے کہ میں کانفرنس میں شامل نہیں ہوں گا۔ اس پس منظر میں ذرا سوچو کہ کباب میں ہڈی کون ہوا۔

    ہم واقعی سوچ میں پڑ گئے۔ ٹالتے ہوئے بولے کہ یار یہ ٹیڑھی کھیر ہے، وہ تڑپ کر بولا، تمہارے منہ میں گھی شکر، اصل میں جمہوریت ٹیڑھی کھیر ہے۔

    (انتظار حسین کی تصنیف ’قطرے میں دریا‘ سے اقتباس)

  • اگلے وقتوں کی روایات!

    اگلے وقتوں کی روایات!

    اگلے وقتوں سے روایت یہ چلی آرہی تھی۔ عید کی نماز بستی سے باہر نکل کر کھلے میدان میں آسمان تلے پڑھی جائے۔ اس کا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ تو اس برصغیر میں جہاں جہاں مسلمان آباد چلے آتے تھے اور چلے آتے ہیں بستی سے باہر عید گاہ تعمیر کی جاتی تھی۔

    یہ کوئی لمبی چوڑی عمارت نہیں ہوتی تھی۔ بس ایک لمبی دیوار جس میں پیش امام کے لیے محراب بنی ہوتی تھی۔ دیوار کے دونوں کناروں پر دو بلند مینار، بیچ میں ایک گنبد۔

    مگر عید کی صبح یہی سادہ سی دو میناروں والی دیوار نمازیوں کا مرجع بن جاتی تھی۔ عہدِ مغلیہ میں دلّی تک کا نقشہ یہ تھا کہ جمعتہ الوداع کی نماز بہت دھوم سے شاہ جہانی مسجد میں ہوتی تھی۔ آس پاس کی بستیوں سے بھی نمازی کھنچ کر وہاں پہنچتے تھے۔ مگر عید کی صبح اور تو اور بادشاہ سلامت بھی اپنے جدّ کی تعمیر کی ہوئی بڑی مسجد سے کنی کاٹ کر عید گاہ کی طرف نکل جاتے تھے۔ پھر توپ بھی وہیں دغتی تھی۔

    ہاں عید گاہ کے نمازیوں میں سب سے پُرجوش نمازی کم سن صاحب زادگان ہوتے تھے۔ جو نئے بھڑکیلے کپڑے پہن کر ’سلمہ ستارے‘ کے کام سے لیس مخملی ٹوپی سر پر سجا کر اور بڑوں کی انگلی پکڑ کر عیدگاہ جاتے۔ نماز بڑے خضوع و خشوع سے پڑھتے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر باہر سجے ہوئے عید بازار یا عید میلہ میں گھس جاتے اور رنگ رنگ کے کھلونے خرید کر خوش خوش گھر واپس آتے۔ پھر گلی گلی ان کے لائے ہوئے غبارے اڑتے نظر آتے اور بانس کی تیلیوں سے بنی ہوئی پھٹ پھٹ گاڑیوں کے شور سے گلیاں گونجتی نظر آتیں۔

    ارے ہاں گھروں کے اندر جو کچھ ہوتا وہ بھی تو سن لیجیے۔ لو منہارن کو تو ہم بھولے ہی جا رہے تھے۔ ہم کیا اسے تو زمانے نے فراموش کر دیا۔ ورنہ 29 رمضان کے دن سے لے کر چاند رات تک اسی کا دور دورہ ہوتا تھا۔ رنگ رنگ کی چوڑیوں کی گٹھری کمر پر لادے گھر گھر کا پھیرا لگاتی۔ لڑکیاں بالیاں کنتی خوش ہو کر اس کا استقبال کرتیں اور اپنی گوری گوری کلائیاں اس کے سامنے پھیلا دیتیں۔ کتنی چوڑیاں کلائیوں پر چڑھتے چڑھتے چکنا چور ہو جاتیں۔ بہرحال کلائیوں پر چڑھی چوڑیاں جلد ہی کھن کھن کرنے لگتیں۔

    اور ہاں ہتھیلیوں، پوروں اور انگلیوں پر گھلی منہدی کا لیپ، عید کی صبح کو یہ منہدی اپنی بہار دکھائے گی۔ یہ سارا کاروبار گزرے زمانے میں گھروں کے اندر ہوتا تھا۔ اب بازاروں میں ہوتا ہے۔ اور ہاں سویّوں کا کاروبار بھی تو بھلے دنوں میں گھروں کے اندر ہی ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو لکڑی کی بنی گھوڑیاں ہوتی تھیں۔ ان کے پیندے میں ایک چھلنی پیوست ہوتی تھی۔ بچے بڑے اس پر سوار ہوتے تھے تب وہ پچکتی تھی اور پیندی والی چھلنی سے سویاں نکلنی شروع ہوتی تھیں۔ ان لمبی لمبی سوئیوں کو دھوپ میں رکھے جھاڑ جھنکاڑ پر پھیلا دیا جاتا تھا۔ سکھا کر انہیں بارود میں پھونا جاتا تھا۔ پھر ابلتے دودھ میں انھیں بار بار ابالا دے کر شیر تیار کیا جاتا تھا۔ گھوڑی گئی تو ہتھے والی مشین آگئی۔ مگر اب ہم بازار سے سویاں خریدتے ہیں۔

    اور ہاں عید کا چاند۔ ارے یارو، نئے لوگوں کے تعقل سے مرعوب ہو کر تم ہلالِ عید کی دید سے کیوں بیزار ہو گئے ہو۔ یہ عید کا فیض ہے کہ چاند ہمارے لیے آج بھی زندہ جیتی جاگتی مخلوق ہے۔ ورنہ مغربی تہذیب نے تو اسے سائنس کا کفن پہنا کر مردہ بنا دیا ہے۔ ویسے جب سے رویت ہلال کا فریضہ رویت ہلال کمیٹی کے سپرد ہوا ہے۔ تب سے ہم بھی چاند کی دید سے محروم ہو گئے ہیں۔ ورنہ 29 کی شام کو بچے بڑے چھتوں پر چڑھ کر آسمان پر اسے کس شوق سے ڈھونڈتے تھے۔ ہلال کی ایک جھلک کس طرح ہمارے دلوں میں خوشی کی لہر پیدا کرتی تھی، سلام عید سے پہلے چاند رات کا سلام اپنی بہار دکھاتا تھا۔

    (انتظار حسین کے کالم ’عید گاہ گم منہارن غائب‘ سے ماخوذ)

  • ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں!

    ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں!

    یہ اس برس کی بات ہے جب ہندوستان چھوڑ دو تحریک چلی تھی۔ شہر شہر ہنگامے ہو رہے تھے۔ میرٹھ کیسے بچا رہتا۔ وہ بھی اس کی زد میں آگیا۔

    اردگرد ہندوستان چھوڑ دو کے نعرے لگ رہے تھے۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس، گرفتاریاں مگر میرٹھ کالج میں امن و امان تھا۔ بس ایک صبح کالج کے کسی گوشے میں یہ نعرہ بلند ہوا۔ سمجھو کہ جیسے کسی نے بھس میں چنگاری پھینک دی۔ آگ فورا ہی بھڑک اٹھی۔ کلاسوں سے لڑکے بھرا کھا کر نکلے۔ نعرہ بازی شروع ہوگئی۔ کسی نے گھما کر پتھر مارا اور ایک کمرے کے کسی دریچے کے شیشے چکنا چور ہوگئے۔ بس پھر دروازوں، دریچوں کے شیشے چکنا چور ہوتے چلے گئے۔ جب ہجوم کسی طور قابو نہ آیا تو پولیس طلب کرلی گئی۔

    مگر پولیس کے آنے سے پہلے میرٹھ کے جانے مانے لیگی راہ نما ڈاکٹر اشرف کالج آن پہنچے۔ مسلمان طلباء میں جو لیڈر قسم کی مخلوق تھا، اسے ہدایات دیں اور چلے گئے۔ میں نے اردگرد نظر ڈالی تو دیکھا کہ مسلمان طلباء بھاگنے کے بجائے لپک جھپک پرنسپل چٹر جی کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ میں بھی ان میں جا شامل ہوا۔ آگے آگے جو گھڑ سوار تھا، اس نے اپنے دستہ کو ہدایت دی کہ کر لو انہیں گرفتار۔ مگر چٹر جی بیچ میں آگئے۔

    "نہیں انہیں نہیں۔ یہ میرے بچّے ہیں۔”

    سو رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت

    کالج بند ہوگیا مگر پروفیسر مکر جی کلاس سے اپنی بے تعلقی کو زیادہ دن برداشت نہ کرسکے، جلد ہی اس جمود کو توڑا اور کلاس لینا شروع کر دی۔ آج یوں ہوا کہ انگریزی شاعری کے نئے رجحانات پر بات کرتے کرتے کہیں ایزرا پاؤنڈ کا حوالہ آگیا۔ لیجیے پھر ایزرا پاؤنڈ پر ہی رواں ہوگئے۔ یہ دھیان ہی نہیں رہا کہ ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں۔ ذرا وقفہ آیا تو ایک طالب علم ڈرتے ڈرتے کھڑا ہوا اور جھجھکتے ہوئے بولا: سر، ایزرا پاؤنڈ ہمارے کورس میں نہیں ہے۔

    بس مکر جی کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ کورس؟ میں کورس نہیں پڑھاتا، تمہیں انگریزی ادب پڑھاتا ہوں۔ یہ کہا، سامنے رکھی کتاب کہنے والے طالبِ علم کی طرف پھینک کر ماری اور بھنّا کر باہر نکل گئے۔ کلاس ہکا بکا کہ یہ کیا ہوا۔

    اگلے دن کلاس میں طلباء سب موجود، مکر جی غائب۔ بہت انتظار کیا مگر بے سود۔ تب طلباء کو احساس ہوا کہ مکر جی کچھ زیادہ ہی خفا ہوگئے ہیں۔ اگلے دن طلباء کی ایک ٹولی ان کے گھر پہنچی۔ منت سماجت کی، روٹھے ہوئے کو منایا اور کلاس میں لے کر آئے۔ یہ تھے ہمارے پروفیسر مکر جی۔

    (ماخوذ از "جسجتو کیا ہے”)

  • ادب اور عشق

    ادب اور عشق

    ایک بادشاہ نے ایک ملکہ کے حسن و جمال کا شہرہ سنا اور اس پر عاشق ہو گیا۔ پھر وہ تخت و تاج چھوڑ کر اس اجنبی ملک کی طرف اس ملکہ کا دیدار کرنے چلا۔ مگر اس بادشاہ سے زیادہ کمال شہزادہ جانِ عالم نے دکھایا جو ایک توتے کی باتوں میں آکر انجمن آرا کا نادیدہ عاشق ہو گیا اور دربدر خاک بسر پھرا۔ مگر ایک شہزادہ وہ بھی تو تھا جس نے خواب میں ایک صورت دیکھی تھی اور صبح ہونے پر اس نے باپ سے کہا کہ ایسا اس کا ناک نقشہ ہے اور ایسی اس کی چھب ہے، شادی کروں گا تو اسی سے کروں گا، نہیں تو ڈوب مروں گا۔ اور ایک وہ شہزادہ تھا جس نے جوتی دیکھی اور کہا کہ جوتی ایسی ہے تو جوتی والی کیسی ہوگی اور جوتی والی پر مر مٹا۔

    شہزادوں پر منحصر نہیں۔ اُن دنوں سب عشق کرتے تھے اور اسی طور کرتے تھے۔ کوئی نوجوان لکڑہارا درخت کاٹتے کاٹتے کوئی شیریں آواز سنتا وہ آواز اسے لے اڑتی۔ آواز ایسی ہے تو آواز والی کیسی ہوگی۔ پھر جب وہ درخت آہستہ آہستہ کاٹ چکتا تو کوئی پری چہرہ برآمد ہوتی اور وہ اس پر مہربان ہو جاتی۔ مہربان کا لفظ میں نے جان کر استعمال کیا ہے۔ عورت مہربان ہی ہو سکتی ہے، عشق نہیں کر سکتی، عشق مردوں کا پیشہ رہا ہے۔ عورت اس پیشے میں شریک ہو جائے تو یہ اس کی عنایت ہے، نہ ہو تو اس کی شکایت نہ کرنا چاہیے اور جب دونوں ہی گریجویٹ ہوں تو پھر تو شکایت بالکل زیب نہیں دیتی۔

    خیر تو ذکر یہ تھا کہ عشق ان دنوں سچ مچ اندھا تھا۔ دیدار شربتِ وصل کا مرتبہ رکھتا تھا۔ مگر دیدار ہوتا کہاں تھا۔ محبوب کی خوشبو چہار سو پھیلی ہوتی تھی مگر اس کا جلوہ نہیں ہوتا تھا۔ مگر یہ بات شاید شاعرانہ ہو گئی۔ نثر میں بات یوں ہے کہ ان دنوں مرد اندھا تھا اور عورت تاریک براعظم تھی۔ تاریک براعظم مرد کو پکارتا بھی تھا، ڈراتا بھی تھا۔ اس بلاوے اور ڈراوے سے مہموں اور معرکوں اور واردات نے جنم لیا اور اندھا عشق عہد کی بینائی بن گیا اور اس کی روشنی میں لوگ چلتے تھے اور اپنے کام کرتے تھے۔ اس روشنی میں خودکشیاں ہوئیں، سفر کئے گئے، لڑائیاں لڑی گئیں۔ کبھی ہار کبھی جیت۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب جذبے پر آدمی کا ایمان قائم تھا۔ اپنے جذبے کے واسطے سے بروئے کار ہونے میں اسے کسی صورت عار نہ تھی۔ سری کرشن جی حکیم عصر بھی تھے اور عاشق پیشہ بھی تھے۔ جذبے پر ایمان ہی ایکلیز کو کھینچ کر لڑائی کے محاذ پر لے گیا اور جذبے پر ایمان ہی نے اسے اس معرکے سے بیزار کیا۔ وہ روٹھ گیا۔ اس نے ہتھیار کھول کر رکھ دیے اور کہا کہ بھاڑ میں جائے یونان کی غربت۔ میری محبوبہ کو ایگمنان لے گیا ہے۔ اب میں نہیں لڑوں گا۔

    جنگیں طرزِ احساس کو بناتی اور بگاڑتی ہیں۔ جیسا معرکہ پڑتا ہے ویسا ہی ذہن پیدا ہوتا ہے۔ لڑائی کے محاصرے کی داستان نے ہومر کو پیدا کیا۔ جذبے کے معنی ہونے پر ہومر کا ایمان تھا۔ اس حد تک ایمان کہ اس کے لئے اس واسطے سے پڑنے والا معرکہ ایسی جامعیت رکھتا ہے کہ اسے بیان کر کے شاعر اپنے عہد کے جذبات، احساسات اور عقائد و افکار کی تفسیر کر سکتا ہے۔ مگر دوسری جنگِ عظیم نے کامیو کو پیدا کیا۔ اس نے ایک تو OUTSIDER لکھا، اوپر سے یہ کہا کہ ہر ادیب اپنے عہد کے جذبات کو ایک شکل عطا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کل کا جذبہ محبت کا تھا۔ آج اتحاد اور آزادی کے جذبات نے دنیا میں ہنگامہ پیدا کر رکھا ہے۔ کل تک یہ ہوتا تھا کہ محبت کے پیچھے آدمی خودکشی کر لیتا تھا، آج اجتماعی جذبات عالمگیر تباہی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔

    کامیو صاحب محبت کو آج کا جذبہ نہیں مانتے مگر آدمی بامروت ہیں۔ انہوں نے ہمیں تمہیں یہ اجازت دی ہے کہ ضروری کاموں سے وقت اگر بچے تو وقتاً فوقتاً عشق کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ویسے اگر ضروری کاموں سے وقت بچنے ہی کا معاملہ ہے تو بہتر ہے کہ عشق طالب علمی کے زمانے میں کر لیا جائے۔ اس وقت آدمی کو ضروری کام نہیں ہوتے۔ بات یہ ہے کہ اگر اسمگلنگ یا چور بازاری یا اس قسم کی اور کوئی حرکت کرکے ہم نے جذباتی خودکشی نہیں کر لی ہے، تو یہ لہو کی بوند جو ہمارے اندر ہے کسی نہ کسی وقت ضرور ہنگامہ آرا ہو گی۔ طالب علمی ہی کے زمانے میں وہ ہنگامہ آرا ہو جائے تو اچھا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک سال امتحان نہیں دیں گے۔

    پرانی دنیا میں عشق جز وقتی مشغلہ نہیں تھا۔ اس کی حیثیت ضمنی اور غیرضروری کام کی نہیں تھی۔ عشق کے آغاز کے ساتھ سارے ضروری کام معطل ہو جاتے تھے اور آدمی کی پوری ذات اس کی لپیٹ میں آ جاتی تھی۔ یہ صنعتی عہد کا کارنامہ ہے کہ عشق کو ذات کی واردات اور زندگی کا نمائندہ جذبہ ماننے سے انکار کیا گیا اور یورپ کا معاملہ یہ ہے کہ صنعتی عہد کے ساتھ وہاں سے انسانی حوالے غائب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یورپ نے بیسویں صدی میں دو بڑی جنگیں لڑیں اور دونوں بغیر کسی انسانی حوالے کے۔ بیسویں صدی کا یورپ کسی ہیلن کی خاطر جنگ کرنے کا جگر پیدا نہ کر سکا۔ لہو کی بوند ہنگامہ آرا تو ہوئی مگر کسی جیتی جاگتی ہستی کے حوالے سے نہیں، کسی کھرے اور سچے جذبے کے واسطے سے نہیں۔ کیا ہٹلر اور کیا اس کے حریف، دونوں کے پیشِ نظر کچھ غیرانسانی مجرد قسم کے حوالے تھے، کچھ سامراجی مقاصد تھے۔

    قوموں کو جنگیں تباہ نہیں کرتیں۔ قومیں اس وقت تباہ ہوتی ہیں جب جنگ کے مقاصد بدل جاتے ہیں۔ یورپ کے اخلاقی زوال کی ذمہ داری اس واقعے پر ہے کہ اس نے جذبے کو فراموش کیا اور غیرانسانی حوالوں سے دو لڑائیاں لڑیں۔ سو پھر الیڈ اور اوڈیسی کہاں سے پیدا ہو جاتیں۔ ’آوٹ سائڈر‘ ہی لکھا جانا تھا۔ جہاں سب انسانی رشتے اپنے معنی کھو چکے ہیں۔

    رہے ہم، تو ہمارا مغربی سامراج نے ۱۸۵۷ء ہی میں پٹرا کر دیا تھا۔ سن ستاون کے بعد مولانا حالی آئے اور بے چاروں نے سیدھا سچا اعتراف کر لیا کہ،

    کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم

    آسمان سے ڈر کر ہم نے انگریزوں کی اطاعت قبول کی اور دل سے ڈر کر ملکہ وکٹوریہ کے زمانے والی انگریزی اخلاقیات میں پناہ لی۔ تب نیچرل اور قومی شاعری کی بدعت شروع ہوئی اور واردات عشق کے واسطے سے ہونے والی شاعری ملعون ٹھہری اور مولانا حالیؔ نے بیان جاری کیا کہ،

    بھائیو! دل نہ لگانا، نہ لگانا ہرگز

    جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز

    یوں تو اس سے بہت پہلے میر صاحب یہ کہہ چکے تھے کہ،

    وصیت میر نے مجھ کو یہی کی
    کہ سب کچھ ہونا تو عاشق نہ ہونا

    مگر دونوں آوازوں میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ حالیؔ کی آواز ایک سہمے ہوئے آدمی کی آواز ہے، اس آدمی کی جو عشق سے خائف ہے۔ میر کی آواز ایک خوار و خستہ عاشق کا مشورہ ہے۔ اس شخص کا جو پوری واردات سے گزرا ہے۔ ویسے ایک طرح سے یہ اسی قسم کا مشورہ ہے جو تجربے سے ناآشنا نوخیز شہزادوں کو دیا جاتا تھا کہ سب کھونٹ جانا، چوتھے کھونٹ مت جانا، یا سب دروازے کھولنا پر ساتواں درمت کھولنا، مگر یہ مشورہ تھوڑا ہی تھا۔ یہ تو چیلنج ہوتا تھا کہ اگر جگر ہے تو ساتواں در کھولو، ور نہ شریف آدمی بن کر بیٹھے رہو۔ لہو کی بوند ان دنوں مستقل ہنگامہ آرا رہتی تھی۔ سو شہزادے چیلنج کو قبول کرتے تھے اور ساتواں در کھول کر اپنے سر خرابی لاتے تھے۔ خرابی ان کے خون کے اندر تھی۔

    برہمن جنم پتری بناتے تھے اور بتاتے تھے کہ جنون کے آثار ہیں، خرابی کی علامات ہیں، بارہ برس تک آسمان مت دیکھنے دو اور چاندنی میں مت سونے دو۔ مگر خون کا فساد ادبدا کر تاریخ کا گھپلا ڈالتا تھا۔ بارہویں برس کی آخری شب شہزادہ آسمان دیکھ لیتا تھا اور کوئی پری اسے اڑا لے جاتی تھی۔ مگر وہ شخص جو شہزادہ نہیں تھا، شاعر تھا، اس کے لئے عمر کی ہر رات بارہویں برس کی آخری شب بنی اور چاند میں پری نظر آکر خور و خواب میں خلل ڈالتی رہی۔ اس کا نام میر تقی تھا۔ اسے باپ نے نصیحت کی تھی کہ فرزند عشق کیا کر، سعادت مند بیٹے نے صوفی صافی باپ کی نصیحت گرہ میں باندھی۔ عشق کیا، دیوانہ ہوا اور غزل کہی۔

    ایک زمانے کے بعد مولانا حالی آئے۔ اب وقت اور تھا۔ دل کا خوف الگ، آسمان کا خوف الگ، مولانا حالی نہ سید علی متقی بن سکتے تھے، نہ میر تقی بن سکتے تھے۔ عاشقوں اور صوفیوں کا دور گزر چکا تھا۔ یہ مصلحین کا دور تھا۔ واردات کی جگہ وعظ نے لے لی۔ مولانا حالی نے غزل سے کنارہ کیا اور اصلاحی شاعری پر آ رہے۔ فرزندان قوم کو نصیحت کی کہ عشق سے پرہیز کرو اور انگریزی پڑھو۔ فرزندان قوم نے نصیحت قبول کی۔ انگریزی پڑھی اور اصلاحی ادب پیدا کیا۔ عشق کا تقاضا ہوا تو جواب دیا کہ، مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ۔ یعنی ویسی محبت جس میں رکتے رکتے جنون ہو جاتا تھا اور گریبان کے چاک اور دامن کے چاک میں فاصلہ ختم ہو جاتا تھا۔ مگر محبت کسی قسم کی بھی ہو بہرحال محبت ہوگی۔ نئے شاعر کی بصیرت نے یہ نکتہ پیدا کیا۔

    اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

    ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
    تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

    یہ اردو کی مخرب الاخلاق شاعری ہے۔ بات یہ ہے کہ اخلاقی ادب اور مخرب الاخلاق ادب کے بارے میں بہت سی باتیں مولویوں نے کہی ہیں۔ کچھ باتیں مولانا حالی اور ڈپٹی نذیر احمد نے کہیں۔ مگر ایک بات ڈی ایچ لارنس نے بھی کہی ہے۔ مگر ٹھہریے! اس سے پہلے ۳۶ء کے ادیبوں کا ایک اخلاقی محاکمہ سن لیجیے۔ جب ان کی مختلف نظموں اور افسانوں پر فحاشی کا الزام لگا تو انہوں نے بیان صفائی یوں دیا کہ جنس کے بیان میں اگر لذت کی کیفیت پیدا ہو جائے تو وہ فحاشی ہے مگر ہمارے افسانوں اور نظموں میں جنس ایک گھناؤنے پن کے ساتھ پیش ہوتی ہے، اس میں لذت کا رنگ ہوتا ہی نہیں، اس لئے اسے فحاشی نہیں کہا جا سکتا۔ مطلب اس کا یہ ہوا کہ جذبہ ایک گھناؤنی چیز ہے، اس سے بیزار رہنا ہی بھلا ہے۔ اور اب لارنس کی بات سنئے۔ وہ بات یہ ہے کہ جب لکھنے والا ترازو میں اپنا انگوٹھا اڑا دے اور پلڑے کو اپنے مطلب کے موافق جھکانے کی کوشش کرے تو یہ مخرب الاخلاق بات ہے۔

    اور فیض صاحب نے ایک مخرب الاخلاق بات تو یہ کی کہ ترازو کے ایک پلڑے کو ڈنڈی پہ انگوٹھا رکھ کر جھکا دیا اور دوسری مخرب الاخلاق بات انہوں نے یہ کی کہ زندگی کے دکھوں میں تقسیم پیدا کر دی۔ دکھ بٹے ہوئے نہیں ہیں، سب دکھ اکٹھے ہیں۔ ایک دکھ دوسرے دکھ میں اور دوسرا دکھ تیسرے دکھ میں بندھا ہوا ہے۔ وہ سب ایک وحدت میں ڈھل کر زندگی کے غم کی صورت میں منور ہوتے ہیں۔ اگر آپ اس بات کو نہیں مانتے تو نتیجہ یہی ہوگا کہ یا تو آپ میر کو ایک فراری شاعر کہہ کر رد کر دیں گے، یا اس کے کلیات سے چند دوسرے بلکہ تیسرے درجہ کے شعر نکال کر یہ ثابت کریں گے کہ میر کو اپنے عہد کے مصائب کا بھی احساس تھا اور وہ سیاسی شعور بھی رکھتا تھا۔ مگر میر کے یہاں تو فرد کے دکھ اور عہد کے دکھ گھل مل کر میر کا غم بنے ہیں۔ سب دکھ ایک وحدت میں ڈھلے تو غم عشق بن گیا۔ اب آپ ایک دکھ کو دوسرے دکھ سے کیسے تمیز کریں۔

    دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
    یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

    اس شعر میں عہد کے غم اور ذات کے غم کو کیسے علاحدہ کریں گے اور غالب کے اس شعر کو آپ کس خانے میں ڈالیں گے،

    اس چمن میں آگ برسے گی کہ آئے گی بہار
    اک لہو کی بوند کیوں ہنگامہ آرا دل میں ہے

    سیاسی شاعری کے خانے میں یا؟ عشقیہ شاعری کے خانے میں؟

    قصہ اصل میں یہ ہے کہ باقی غم بھی تو عشق کے غم ہی کے واسطے سے سمجھ میں آتے ہیں،

    پہنچا جو آپ تک تو وہ پہنچا خدا تئیں
    معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

    خدا تئیں اور عہد تئیں، اور اب پھر میں لارنس سے رجوع کرتا ہوں جس نے کہا تھا کہ انسانی معاملات میں سب سے بڑا رشتہ ہمیشہ مرد اور عورت والا رشتہ رہے گا۔ مرد اور مرد کا رشتہ، عورت اور عورت کا رشتہ، والدین اور اولاد کا رشتہ یہ سب ثانوی رشتے ہیں اور مرد اور عورت کا رشتہ ہر آن، ہر گھڑی بدلے گا اور ہر صورت انسانی زندگی کے لئے نئی کلید بنے گا۔ اور اہم نہ تو مرد ہے نہ عورت ہے اور نہ ان کے رشتے سے پیدا ہونے والے بچے ہیں۔ بلکہ خود یہ رشتہ اہم ہے۔۔۔ تو غزل اور داستان نے اس رشتے کو انسانی زندگی کی کلید جانا اور عشق کی واردات کے راستے سب انسانی رشتوں کو سمجھا اور حاصل یہ نکلا کہ بندہ بشر ہے اور آدمی کا شیطان آدمی ہے اور بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں۔ پس، اے برے آ میں تجھ سے پیار کروں۔

    یہ آخری بیان فراق کا ہے۔ مگر یہ وہ بصیرت ہے جو اسے کلاسیکی غزل سے ورثے میں ملی ہے اور اس عہد میں عاشق نے بہت گریباں چاک کئے اور صحراؤں کی خاک اڑائی اور دیواروں سے سر پھوڑے مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ باپوں نے بیٹوں کو نصیحت کی کہ بیٹا عشق کیا کرو اور بیٹوں نے عشق کیا۔ ان بیٹوں نے بھی جنہوں نے واحد صداقت جذبے کو جانا اور ان بیٹوں نے بھی جنہوں نے عقل و دانش کو سر پر چڑھایا۔ ہاں ایک بصیرت حاصل ہوئی۔ آدمی کے بارے میں ایک بصیرت۔ پچھلی غزل اور داستان کا سرمایہ یہی بصیرت ہے۔ اصلاحی دور اور ترقی پسند دور کے ادب کا سرمایہ درس ہے۔ آج کے لکھنے والے کے لئے یہ دونوں رستے کھلے ہیں۔ وہ چاہے تو درس والا رویہ اپنا لے، اس واسطے سے اسے ادب پیدا کرنے کے مقبول عام نسخے میسر آ جائیں گے اور ادب پیدا کرنے کا کام آسان ہو جائے گا اور چاہے تو وہ اول الذکر رستے کو اپنا لے۔ مگر وہ رستہ کٹھن ہے۔ واردات کے رستے بصیرت کی منزل تک پہنچنے کا عمل ہے۔

    (ممتاز فکشن رائٹر اور انتظار حسین کی تحریر)

  • کچھ آوازیں تو اب ہم سن ہی نہیں سکتے!

    کچھ آوازیں تو اب ہم سن ہی نہیں سکتے!

    افسانے کا مستقبل تاریک ہے، اس لیے کہ دنیا میں درخت کم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور آدمیوں کی بھیڑ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایسی دنیا میں جہاں آدمی ہی آدمی ہوں صحافت پیدا ہو سکتی ہے، شعر اور افسانہ پیدا نہیں ہو سکتے۔

    صحافت اور خطابت خالص انسانی دنیا کے ذرائع اظہار ہیں۔ شعر اور افسانہ خالص انسانی ذریعۂ اظہار نہیں۔ انہوں نے انسان اور غیر انسان کے باہمی میل ملاپ سے جنم لیا ہے۔ افسانے نے اس زمانے میں جنم لیا تھا، جب اس دھرتی پر درخت بہت اور آدمی کم تھے۔ رات پڑتی تو الاؤ کے گرد مٹھی بھر آدمی، آگے اندھیرا ہی اندھیرا اور درخت ہی درخت۔ فطرت کی بنائی ہوئی چیز کا بدل فطرت کی بنائی ہوئی چیز ہی ہو سکتی ہے۔ جنگل نہیں ہے تو صحرا ہوا اور صحرا نہیں ہے تو اونچے پہاڑ ہوں، کسی پر شور سمندر کا ساحل ہو۔ گیان دھیان، تخیّل کی تربیت، تخلیقی عمل برگد کی چھاؤں میں بھی ہو سکتا ہے، پہاڑوں کی گپھاؤں میں بھی ہو سکتا ہے، صحرا کی وسعتوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ مگر کارخانے کی دیوار کے سائے میں نہیں ہو سکتا اور فلک بوس عمارتیں فلک بوس پہاڑوں اور گھنے اونچے درختوں کا بدل نہیں بن سکتیں۔

    فلک بوس عمارتوں، شور مچاتے کارخانوں، قطار اندر قطار کوارٹروں اور فلیٹوں سے اب مفر نہیں ہے۔ ارتگا جوزے نے آج سے چالیس برس پہلے انسانی بھیڑ کا جو نقشہ یورپ کے سیاق و سباق میں کھینچا تھا، اب وہ ہماری بستیوں میں بھی صنعتی عہد کی پرچھائیاں پڑنے کے ساتھ اُبھر رہا ہے۔ ٹریفک اتنا ہے کہ درخت کاٹ کاٹ کر سڑکیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ بسیں آدمیوں سے بھری ہوتی ہیں، رکشاؤں اور ٹیکسیوں کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مگر سواری کا پھر بھی توڑا ہے۔ رہائش کا مسئلہ بھی اسی قدر سنگین ہے۔ مکان کم ہیں، مکین بہت ہیں۔ نئی آبادیاں بسائی جا رہی ہیں۔ جہاں کل جنگل تھے آج وہاں کوارٹروں اور فلیٹوں کا جنگل پھیلا ہوا ہے، اس کے باوجود مکان کا حصول ایک مسئلہ ہے۔ خالی مکان ماضی کا افسانہ ہیں، ایسے مکان جو برسوں خالی پڑے رہتے تھے حتیٰ کہ ان میں پڑے ہوئے تالوں پر زنگ جم جاتی تھی، اب کسی شہر میں نظر نہیں آتے۔ ایسے مکان پُر اسرار بن کر تخیل کی نشوو نما کرتے تھے اور قصہ کہانی کو جنم دیتے تھے۔ تخیل کی نشو و نما کچھ خالی پُر اسرار مکانوں کے ذمے تھی، کچھ گھنے پرانے درختوں کے ذمے، کچھ پرندوں اور دوسرے جانوروں کے ذمے تھی، یہ سب معاشرے کے فعال کردار تھے۔

    انسان دوستی برحق مگر تلسی، کبیر اور نظیر کی انسان دوستی خالی خولی انسانی حوالے سے نہیں تھی۔ وہ انسان اور غیرانسان کے اس پراسرار رشتے کے حوالے سے تھی جو ان زمانوں میں پروان چڑھنے والے معاشروں کی بنیاد تھا۔ مگر اب ہم اپنی فلک بوس عمارتوں، شور مچاتے کارخانوں اور بھاری بھرکم مشینوں کے ساتھ ایک نئے عہدِ بربریت میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس تہذیب نما بربریت کی بدولت تجربے کا منطقہ سکڑتا جا رہا ہے اور اطلاعات و معلومات کا جنگل پھیلتا جا رہا ہے۔ آدمی کا جنگل سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے اور آدمی جنگلی بنتا جا رہا ہے۔ اب ’بیتال پچیسی، نہیں لکھی جا سکتی۔ کیوں؟ اس لیے کہ بیتال نے یہ کہا تھا کہ ”راہ اچھی باتوں کی چرچا میں کٹے تو اچھا ہے۔ سو اے راجا جو میں کتھا کہتا ہوں، اسے سن۔ جو تو رستے میں بولے گا تو میں الٹا پھر جاؤں گا۔“ مگر اب ہم بولنے بہت لگے ہیں۔ تقریریں، اخباری بیانات، مذاکرے، مباحثے اور ہماری راہیں بہت پُرشور ہیں۔ ان راہوں پر چلتے ہوئے انسان اور غیر انسان کے درمیان مکالمہ ممکن نہیں رہا۔

    مسلسل شور کے بیچ ہماری سماعت میں فرق آ گیا ہے۔ کچھ آوازیں تو اب ہم سن ہی نہیں سکتے۔

    (اردو کے ممتاز فکشن نگار انتظار حسین کے مضمون سے اقتباس)