Tag: انتظار حسین کی تحریریں

  • لالو کھیت اور مرغیوں کا ٹاپا

    لالو کھیت اور مرغیوں کا ٹاپا

    ’’پتہ نہیں یہ خواجہ معین الدین کے ڈرامہ ”لال قلعہ سے لالو کھیت تک“ کی برکت تھی یا اس علاقہ میں بسنے والے مہاجروں کا کمال تھا۔ بہرحال لالو کھیت نے پاکستان کے ابتدائی برسوں میں بہت شہرت کمائی۔

    خیر، لاہور میں ہمارا اپنا ایک لالو کھیت تھا۔ لالو کھیت تو لالو کھیت نہیں رہا، لیاقت آباد بن گیا۔ مگر کرشن نگر بدستور کرشن نگر چلا آتا ہے۔ اسے اسلام پورہ بنانے کی کوششیں ابھی تک تو بار آور ہوئی نہیں ہیں۔ میں نے پاکستان میں قدم رکھنے کے بعد یہیں آنکھ کھولی تھی۔

    خوب جگہ تھی۔ اجڑی اجڑی اور ساتھ ہی میں اتنی آباد کہ بازار سے گزرتے ہوئے کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ یہ سب کھوے پناہ گیروں کے تھے جو رفتہ رفتہ پناہ گیر سے مہاجر بن گئے۔ انہیں پناہ گیروں میں وہ ایک بڑھیا بھی تھی جس کے منہ سے نکلا ہوا معصوم سا فقرہ عسکری صاحب نے لپک لیا اور اس میں سے پاکستان کا فلسفہ کشید کر لیا۔ وہ ہمارے آگے آگے پناہ گیروں کی ایک ٹولی میں گھری چل رہی تھی اور اپنی رو میں بول رہی تھی۔ کہنے لگی اے بھیا ملک ولک کیا ہے۔ بس بچارے مسلمانوں نے لشٹم پشٹم ایک کچا گھر کھڑا کر لیا ہے۔ چلو سر چھپانے کو ایک کونا تو مل گیا۔

    اسی بازار کے ایک نکڑ پہ ایک دکان کے تھڑے پہ ایک میر صاحب بیٹھے تھے۔ پورا نام تھا میر عترت حسین۔ مظفر نگر سے لٹ پٹ کر آئے تھے۔ مگر اس تھڑے پہ آ کر ایسے بیٹھے تھے جیسے پشتوں سے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پان سگریٹ کی اس دکان پر گاہک تو کم ہی دکھائی دیتے تھے۔ شعر و شاعری کا چسکا رکھنے والوں اور گپ ہانکنے والوں کی پھڑ جمی رہتی تھی۔ جب بے فکروں کا ہجوم زیادہ ہوا تو میر صاحب نے ایک اعلان نامہ لکھ کر دکان پر آویزاں کر دیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہمارے حلقۂ خاص میں داخل ہونے کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں۔ آدمی گریجویٹ ہو، خوش شکل ہو، مذاقِ سخن رکھتا ہو، زبان صحیح بولتا ہو۔

    اس حلقۂ خاص کے رکن رکین ڈاکٹر صفدر حسین تھے کہ وہ بھی مظفر نگر ہی سے تعلق رکھتے تھے اور اس دکان سے چند قدم کے فاصلہ پر ایک مکان میں آکر بسے تھے۔ دوسرا رکن جو مجھے یاد آ رہا ہے وہ سانولی رنگت والا گورنمنٹ کالج کا ایک ایم اے کا طالب علم تھا۔ نام تھا سلیم گیلانی جو شاعری سے زیادہ موسیقی کا دلدادہ تھا۔ آگے چل کر ریڈیو پاکستان کے واسطے سے ترقی کی منزلیں طے کیں۔

    تو کرشن نگر کا بازار تو بہت آباد تھا۔ مگر گلیاں اجڑی اجڑی نظر آتی تھیں۔ کتنے گھر ابھی تک بے آباد تھے۔ مکان بہت اچھے بنے ہوئے، دو دو منزلہ، سہ سہ منزلہ۔ باہر تالے پڑے ہوئے۔ اندر فرنیچر سے آراستہ۔ نقشہ بتا رہا تھا کہ یہاں کوئی فساد نہیں ہوا۔ بس ان مکانوں کے مکین اچانک یہاں سے رخصت ہوئے ہیں اور اس طرح رخصت ہوئے ہیں کہ اوپر کی منزلوں کی جو کھڑکیاں کھلی تھیں وہ کھلی ہی رہ گئیں۔ دن میں ان مکانوں پر اداسی برستی۔ رات کے اندھیرے میں وہ بھوت بن جاتے تھے۔ اور جب تیز ہوا چلتی تو کھڑکیوں کے پٹ دھاڑ دھاڑ بولتے تھے۔
    جو مکان آباد ہو گئے تھے وہ مکان اپنے مکینوں کے ساتھ گھلے ملے نظر نہیں آتے تھے۔ مکانوں کی اپنی شان، مکینوں کا اپنا رنگ۔ ایک ڈرائنگ روم کا نقشہ اب یہ تھا کہ اندر فرنیچر ایک کونے میں سمیٹ دیا گیا تھا۔ باقی جگہ میں بھوسہ بکھرا ہوا تھا۔ آگے برآمدے میں بھینس بندھی ہوئی تھی۔

    میرا عسکری صاحب کے ساتھ بسیرا تھا۔ اور عسکری صاحب نے اپنے ایک پھپھیرے ممیرے یا خلیرے بھائی کے گھر میں چھاؤنی چھائی تھی۔ یہ گھر بس واجبی واجبی تھا۔ میں نے عسکری صاحب سے کہا کہ عسکری صاحب کرشن نگر میں یار تو بڑے اچھے اچھے آراستہ و پیراستہ مکانوں میں آ کر براجمان ہوئے ہیں۔ آپ کے بھائی نے یہ کیسا مکان الاٹ کرایا تھا۔ فرنیچر کے نام یہاں تو ایک کرسی بھی نظر نہیں آ رہی۔

    کہنے لگے کہ اس مکان میں ایک ہی چیز ملی تھی وہ بھی مالک مکان آ کر لے گیا۔ میں نے پوچھا”وہ کیا چیز تھی۔“

    بولے ”تمہارے آنے سے کوئی دو تین دن پہلے ایک سکھ فوجی جیپ پر سوار پاکستانی پہرے میں یہاں آیا۔ کہا کہ ”یہ ہمارا مکان تھا۔ باقی سامان تو ہم نے سنگھوا لیا تھا۔ مگر یہاں ہماری مرغیوں کا ٹاپا رہ گیا ہے۔“

    ”مرغیوں کا ٹاپا۔“ میں نے حیران ہو کر پوچھا:

    بولا ”بات یہ ہے جی کہ ٹاپا نہ ہونے سے مرغیوں کے سلسلہ میں ہمیں بڑی پریشانی ہو رہی ہے۔ مہربانی کر کے ہمارا ٹاپا دے دیجیے۔“

    سکھ فوجی نے ٹاپا جیپ پہ رکھا اور پاکستانی سپاہیوں کے پہرے میں بحفاظت تمام…. یہاں سے لے گیا۔‘‘

    (ممتاز ادیب اور فکشن نگار انتظار حسین کی کتاب چراغوں کا دھواں سے ایک پارہ)

  • ”یار تم لوگوں کو کوئی مرثیہ ورثیہ یاد ہے؟“

    ”یار تم لوگوں کو کوئی مرثیہ ورثیہ یاد ہے؟“

    انتظار حسین کے بقول ان کے پاس دوسروں کی طرح ہجرت کی مظلومیت کی کوئی ذاتی کہانی نہیں تھی جسے بیان کر کر کے وہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ سکتے۔ لہٰذا انہوں نے تقسیم اور ہجرت کے بعد جو کچھ لاہور میں دیکھا، اسے اپنی سوانح میں سمیٹ لیا۔

    اردو کے اس ممتاز فکشن رائٹر کو ان کے منفرد حکایتی اسلوب اور خوب صورت طرزِ نگارش کے لیے ادب کی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انتظار حسین پہلے پاکستانی ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ اس کا نام انھوں نے چراغوں کا دھواں رکھا۔ یہ ان کے پچاس برس کی یادوں کا خزانہ ہے۔

    یہ کتاب تقسیم اور ہجرت کے بعد کے لاہور میں علم و فنون کی گویا ایک تاریخ ہے۔ کون سا شاعر یا ادیب کس شہر سے آیا، کہاں ٹھہرا، کیسے اپنا تخلیقی سفر شروع کیا، کیسی مشکل جھیلی، اس کی یافت کا ذریعہ کیا تھا، کس نے کیا کچھ کیا، کون کس کو عزیز تھا اور معاصرین کی ادبی چشمک کا حال۔ اسی طرح ادبی رسائل و جرائد جیسے سویرا، لیل و نہار، خیال، ساقی، آفاق کی ابتدا، ان کے عروج اور زوال کی کہانیاں انتظار حسین کے اسلوب میں‌ امر ہوگئی ہیں۔ اسی کتاب سے فنون و ادب سے وابستہ نام ور ہستیوں سے متعلق ایک خوب صورت یاد ہم آپ لیے نقل کررہے ہیں۔

    انتظار حسین لکھتے ہیں، ”شاکر صاحب کو سبط حسن سے واقعی بہت لگاؤ تھا۔ بہت پکی دوستی تھی۔ ایسی پکی کہ ایک مرتبہ ان کی خاطر وہ اچھے خاصے مولائی بن گئے تھے۔ وہ عاشور کی دوپہرتھی۔ میں، ناصر (کاظمی) اور (احمد) مشتاق ٹی ہاؤس میں بیٹھے تھے۔ انیس کی ایک جلد ہمارے بیچ رکھی تھی۔ مظفر(علی سید) کی فراہم کردہ۔ اس جلد کو مشتاق نے ان تاریخوں میں کس خضوع خشوع سے پڑھا تھا۔ اچانک شاکر صاحب وارد ہوئے۔ نہ دعا نہ سلام ”اٹھو اٹھو یار، ہمارے گھر چلو مجلس کرنی ہے۔“

    ”مجلس “ہم تینوں نے شاکر صاحب کو تعجب سے دیکھا۔

    ”ہاں یار، سبطے میرے گھر بیٹھا ہے۔ کہتا ہے آج عاشور کا دن ہے۔ کچھ ماتم مرثیہ ہونا چاہیے۔ یار تم لوگوں کو کوئی مرثیہ ورثیہ یاد ہے۔ کوئی سوز، کوئی نوحہ۔ “

    مشتاق بولا ”انیس جو موجود ہے۔ “

    شاکر صاحب نے انیس کی جلد کو دیکھا، ”بس بس کام بن گیا۔ اٹھو، چلو جلدی سے۔ “

    سو ہم شاکر صاحب کے یہاں پہنچے۔ سبطِ حسن وہاں سچی مچی محرمی صورت لیے بیٹھے تھے۔ مراثی انیس کی جلد اس وقت انھیں بہت بڑی نعمت نظر آئی۔ کس رقت بھری کیفیت میں انھوں نے سوز خوانی شروع کی۔ بازو کے طور پر دائیں احمد مشتاق اور بائیں خورشید شاہد۔

    بعد میں ایک گفتگو میں سبط صاحب نے مجھے بتایا کہ شروع عمر میں انھوں نے بہت سوز خوانی کی ہے اور یہ کہ وہ بہت اچھے سوز خواں تھے۔“

  • انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا….

    انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا….

    اردو ادب کے حق میں دو چیزیں سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوئیں۔ انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا۔

    آدمی کی پوری ذات محبت کے واسطے سے بروئے کار آتی ہے نہ کہ دوستی کے حوالے سے اور جن کی نفرت عمیق نہیں ہوتی ان کی محبت بھی عمیق نہیں ہوتی۔ رہا کھدر کے کُرتے کا معاملہ تو وہ جوگیا ہو یا نیلا، انتہا اس کی پاکستان میں بہرصورت موٹرکار ہے۔ وہ دورِ جاگیرداری گزر گیا جب سعادت حسن منٹو ململ کا سفید کرتا پہن کر تانگے میں مال پر نکلا کرتے تھے۔ اب لاہور کی مال پر تانگا ممنوع ہے اور نئی قدروں نے موٹر کار کی صورت اختیار کر لی ہے۔

    ادب اور موٹر کار دو الگ الگ قدریں ہیں۔ ادب شعر اور افسانہ گھسیٹ دینے کا نام نہیں ہے۔ ادب ایک ذہنی رویہ ہے، جینے کا ایک طور ہے، موٹر کار جینے کا ایک دوسرا اسلوب ہے۔ ادب اور موٹر کار کو یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ موٹر تیز چلتی ہے اور یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جب سواری تیز چلتی ہے تو ادب کی گاڑی رک جاتی ہے۔ مثلاً جب سے پاکستان کے ادیبوں نے رائٹرز گلڈ کے توسط سے ہوائی جہاز میں سفر کرنا شروع کیا ہے، انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے اور ابن انشاؔ نے جتنے عرصے میں پورے یورپ کا دورہ کیا، اتنے عرصے میں میں صرف ایک افسانہ لکھ سکا۔

    مولانا محمد حسین آزادؔ جب لاہور کے اکبری دروازے سے گورنمنٹ کالج کی طرف چلتے تھے تو ان کا گھوڑا بہت سست چلتا تھا مگر ان کی نثر سرپٹ دوڑتی ہے۔ فیض احمد فیضؔ کی کار بہت تیز چلتی ہے۔ البتہ مصرع پوئیاں چلتا ہے۔

    میری نانی اماں نے تو خیر مغلوں کا سکہ بھی دیکھا تھا مگر میں نے بچپن میں بس دو سکے دیکھے۔ ملکہ کی اکنی جو بہت گھس گئی تھی اور جارج پنجم کا روشن اور ابھری مورت والا پیسا۔ اب یہ دونوں سکے ٹکسال باہر ہیں۔ حالانکہ عظیم انسان کی اصطلاح اب بھی چالو ہے۔ اصطلاحیں استعارے اور تصورات سکے ہوتے ہیں۔ اپنے وقت میں خوب چلتے ہیں۔ وقت کا سکہ بدلتا ہے توان کی بھی قیمت گر جاتی ہے۔ مگر وضع دار لکھنے والے اپنے لفظ، استعارے، ترکیبیں اور تصورات پتھر پہ بجا کے نہیں دیکھتے اور انہیں چالو سمجھ کر آخر دم تک استعمال کرتے رہتے ہیں۔

    ملکہ کے وقت کے تین گھسے ہوئے سکے:

    (1) جوشؔ ملیح آبادی کی عقلی شاعری۔

    (2) نیازؔ فتح پوری اور نئی پود کی دہریت۔

    (3) انسان دوستی۔

    چند استعارے جنہیں پھپھوندی لگ چکی ہے: سحر، اندھیرا، رہزن، رہبر۔

    کلاسیکی شاعری کے وہ استعارے جو نئے ترقی پسند شاعروں کے ہاتھوں معنی کھو بیٹھے، دار و رسن، زنداں، قفس، منصور۔ غدر سے پہلے کے لفظ، لہجے اور ترکیبیں جن کے کنارے گھس چکے ہیں، معاذ اللہ، ارے توبہ، لہو کے چراغ، پرچم، گہرا سناٹا، خلا، سسکیاں، آکاش، سماج، دھندلکا، حریری ملبوس، غم جاناں، غم دوراں، عظیم ادب، آفاقیت، ابدی اقدار، انفرادیت، رچاؤ، سوز و گداز۔

    اردو تنقید کی زنگ آلود ضرب الامثال:

    (1) ادب نام ہے تنقید حیات کا۔

    (2) ادب اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

    (3) ادب شخصیت کا اظہار ہے۔

    (4) ادب پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔

    (5) ہر ادب اپنے ماحول کا ترجمان ہوتا ہے۔

    (6) ادب روایت کے شعور سے پیدا ہوتا ہے۔

    گھسی ہوئی دونیاں چونیاں، رمبو، بایلئر، ٹی ایس ایلیٹ، غالب، گورکی، موپساں۔

    (انتظار حسین کے مضمون ادب کی الف، ب، ت سے اقتباسات)

  • ’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں…!‘‘

    ’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں…!‘‘

    مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیے جانے والے پہلے پاکستانی ادیب، فکشن نگار انتظار حسین کی خود نوشت "جستجو کیا ہے؟” ان کے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد ہندوستان کے کئی سفر کی داستان ہے۔

    اس دوران انھوں نے اپنی بستی کا تفصیلی سفر کیا اور اپنے زمانے کے مشترکہ ہندوستان کی یادداشتوں کی بنیاد پر دو ملکوں کی داستان، اس کی تہذیب اور ان میں بسنے والے ایک جیسے لوگوں کی فکر کے امتزاج سے بنی ایسی مشترک قدروں کو محفوظ کرنے کی سعی کی جنھیں فراموش کرنے کی کوشش کرنے کے باوجود بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس کتاب میں انھوں نے اردو کے آخری داستان گو میر باقر علی کے بارے میں بھی لکھا ہے میر باقر علی کو دہلی کا سحر طراز داستان گو کہا جاتا ہے جنھیں‌ زبان و بیان پر غضب کی قدرت تھی۔ داستان سناتے تو سماں باندھ دیتے۔ انتظار حسین لکھتے ہیں:

    ان (میر باقر علی) کی داستانِ حیات کچھ اس طرح بیان ہوئی ہے، یا شاید وہ زندگی ہی اس طور گزری ہے کہ اس کے درجہ بدرجہ زوال کے ساتھ دلّی کا بھی درجہ بدرجہ زوال دیکھتے چلے جائیے۔

    آگے رجواڑوں سے بلاوے آتے تھے۔ کس ٹھسے کے ساتھ وہاں جاتے تھے اور راجوں مہاراجوں کو داستان سناتے تھے۔ وہ دروازہ بند ہوا تو دلّی کے دیوان خانوں میں ساتھ عزّت کے بلائے جاتے۔ رفتہ رفتہ وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ پھر دلّی کے رئیس چھنا مل کے یہاں داستان سنانے پر ملازم ہو گئے۔ ماہوار تنخواہ مبلغ چالیس روپے۔ پھر وہ در بھی بند ہو گیا۔

    اب ایرا غیرا نتھو خیرا جس کی گرہ میں دو روپے ہیں وہ گھر پر میر صاحب کو بلائے اور داستان سن لے۔ پھر بقول شاہد صاحب، ’’جب لوگوں کو دو روپے بھی اکھرنے لگے تو میر صاحب نے گھر پر داستان کی محفل سجانی شروع کر دی۔‘‘ ایک آنے کا ٹکٹ خریدو اور میر باقر علی سے داستان سن لو۔ مگر پھر کیا ہوا۔ دلّی میں بائیسکوپ آگیا۔ دلّی والوں نے داستان سے منھ موڑا اور بائیسکوپ پر ٹوٹ پڑے۔

    انتظار حسین میر باقر علی اور داستان گوئی کے ختم ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں:

    تب میر صاحب نے داستانیں طاق میں رکھیں اور چھالیاں کتر کتر کے بیچنے لگے۔ پہلے ان کی زبان چلتی تھی، اب ان کا سروطہ(سروتا) چلتا تھا۔ کیا گول گول چھالیا ں کترتے تھے۔ گلی محلہ میں انھیں اس حال میں پھیری لگاتے دیکھ کر کوئی پوچھ بیٹھتا کہ میر صاحب یہ چھالیاں اور آپ، تو جواب دیتے کہ ’’دلّی والے پان کھانے کے آداب بھول چکے ہیں، انھیں وہ آداب یاد دلا رہا ہوں۔‘‘ بس دلّی والوں کو پان کھانے کے آداب سکھاتے سکھاتے ہی دنیا سے گزر گئے۔ داستان گوئی کی روایت نے شاہی درباروں سے آغاز کیا تھا، ایک سروطے پر جاکر وہ ختم ہوئی۔

  • مادھو، جس نے لاہور کے نوجوان شعرا کو پریشان کر دیا تھا!

    مادھو، جس نے لاہور کے نوجوان شعرا کو پریشان کر دیا تھا!

    عشق، مشک اور شاعری یہ تین چیزیں کبھی چھپی نہیں رہا کرتیں۔ ان کی خوش بُو پھیلے ہی پھیلے۔

    اس شہر لاہور میں ایک نوجوان تھا جو نظم پہ نظم باندھے چلا جارہا تھا اور چھپا کر رکھے چلا جارہا تھا۔ شاعری جب بہت ہو گئی اور اس کے لیے چھپا کر رکھنا مشکل ہو گیا تو اس نے شہر میں ایک رازداں تلاش کیا۔

    یہ صفدر میر تھے۔ اس سادہ دل نے اپنی نظموں کی کاپی صفدر میر کے سپرد کر دی اور تاکید کی کہ کسی دوسرے تک یہ راز نہ پہنچے۔ یہ 60ء کی آس پاس کا ذکر ہے۔ ان دنوں لاہور شہر میں نوجوان شاعروں کی ایک پوری ٹولی نئی شاعری کا طوفان اٹھا رہی تھی۔

    انہی دنوں کراچی سے محمد حسن عسکری کے سائے میں ایک ادبی پرچہ نکلا۔ صفدر میر سے شاعری کی یہ کاپی اسمگل ہو کر اس رسالہ میں پہنچ گئی۔ وہاں یہ نظمیں چھپیں۔ بس اس کے ساتھ ہی ایک نئی قسم کی شاعری کی خوش بُو کراچی سے لاہور تک پھیل گئی۔ شاعر کا نام پھر بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔ یہ نظمیں مادھو کے نام سے شائع ہوئیں۔

    لاہور کے نوجوان نئے شاعر سخت پریشان کہ یہ مادھو کون ہے مگر مادھو تو ان کے بیچ میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اتنا سیدھا سادہ اور خاموش قسم کی شے تھا کہ انہیں اس پر شاعر ہونے کا گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا۔

    وہ روز کوئی کتاب بغل میں دابے پجامہ قمیص پہنے ٹی ہاﺅس آتا۔ نئے شاعروں کے بیچ میں بیٹھ کر خاموشی سے شاعری پر بحثیں سنتا۔ پھر بیزاری سے لمبی جمائی لیتا اور اٹھ کر چلا جاتا۔

    رفتہ رفتہ یہ بات نکل گئی کہ زاہد ڈار مادھو ہے۔ تب نئے شاعر اس غریب پر بہت لال پیلے ہوئے کہ تم نے یہ نظمیں لکھی ہیں۔ اس نے بہت انکار کیا مگر بالآخر اسے اعتراف کرنا پڑا اور پھر وہ مادھو کا نقاب اتار کر سیدھا زاہد ڈار بن کر میدانِ شاعری میں اتر آیا اور 65ء آتے آتے اس نے اپنا مجموعہ کلام بھی ”درد کا شہر“ کے نام سے چھپوا دیا۔

    شاعر بالعموم رفتہ رفتہ کر کے مانے جاتے ہیں مگر زاہد ڈار تو بس آناً فاناً جانا پہچانا شاعر بن گیا، مگر شاعر اب پھر پردۂ اخفا میں ہے۔ اس کی نظم کسی رسالہ یا کسی اخبار میں نہیں دیکھی جاتی۔

    میں نے پوچھا کہ کیا تم نے شاعری سے توبہ کرلی ہے؟ جواب دیا کہ شاعری تو میں نے شروع ہی اب کی ہے۔

    پہلے کیا کر رہے تھے؟

    دل لگی۔ بات یہ ہے کہ شاعری محبت کے بغیر تو نہیں ہو سکتی۔

    پھر اس شاعری کو باہر کیوں نہیں لاتے؟ اس نے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے اپنی طرف سے اور بات کہی۔

    کہا کہ ”شاعری میرے لیے فارم کا نام نہیں تجربے کا مسئلہ ہے۔ یہ تجربہ کسی بھی شکل میں اظہار پا سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کسی وقت رقص میں اظہار پا جائے۔“

    زاہد ڈار کو اس کی شاعری نہیں اس کی زندگی کا طور بھی دوسرے شاعروں سے الگ کرتا ہے۔

    سچ پوچھو تو اب اردو شاعری میں بے عمل شاعر ایک زاہد ڈار ہی رہ گیا ہے ورنہ سب شاعر اور سب ادیب صاحبِ عمل ہیں اور زندگی کی دوڑ میں شامل ہیں۔

    زاہد ڈار کے لیے زندگی کی دوڑ اس قدر ہے کہ ایک عدد کتاب کے ساتھ صبح ہی گھر سے نکلنا اور سواری کا مرہونِ منت ہوئے بغیر ٹی ہاﺅس پہنچنا اور وہاں بیٹھ کر پوری کتاب ختم کر ڈالنا۔ کہتا ہے کہ بعض ادیب ادب برائے ادب کے قائل رہے ہیں۔ بعض ادب برائے زندگی کے قائل ہیں۔ میں زندگی برائے شاعری کا قائل ہوں۔

    کتاب پڑھنا بھی زندگی برائے شاعری ہی کے ذیل میں آتا ہے۔ ویسے کتاب پڑھنے کے سلسلے میں بھی زاہد ڈار کی ایک سنک ہے۔ انگریزی کتابیں بہت پڑھنے کے بعد اس نے یہ طے کیا کہ صرف اردو پڑھو اور صرف اردو لکھو۔ اب اس کا طور یہ ٹھہرا ہے کہ اردو کی جو کتاب نظر آتی ہے وہ اچھی ہو یا بری اسے پڑھ ڈالتا ہے۔ زاہد ڈار اردو کا وہ واحد قاری ہے جس نے اردو کی معیاری کتابوں کے ساتھ اسی زبان میں لکھی ہوئی گھٹیا کتابیں بھی اسی ذوق و شوق سے پڑھی ہیں۔

    لاہور کی مال روڈ بہت خوش نصیب ہے۔ نئی سواریوں کی بہتات کے باوصف اسے ہر دور میں کوئی نہ کوئی پیادہ پا مل ہی جاتا ہے۔ اب سے پہلے بالعموم گرمیوں کی عین دوپہر میں اس کے فٹ پاتھ پر مولانا صلاح الدین سوٹ پہنے‘ ہیٹ لگائے‘ چھڑی ٹیکتے نظر آتے تھے۔ اب وقت بے وقت کبھی دوپہر میں‘ کبھی دن ڈھلے‘ کبھی شام پڑے زاہد ڈار کتاب دَر بغل ان فٹ پاتھوں پر بھٹکتا نظر آتا ہے۔

    اس کے یہاں بھٹکنے کا سیدھا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس وقت ٹی ہاﺅس میں بہت ہجوم ہے اور جس کونے میں وہ اکیلا بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا، اس گوشے کا امن اس کی میز پر آ کر بیٹھنے والے ادیبوں کے ہاتھوں برباد ہو چکا ہے۔ زاہد ڈار مولانا صلاح الدّین احمد کے بعد شہر کا دوسرا پیدل ادیب ہے۔‘‘

    (علم و ادب کے رسیا اور شاعر زاہد ڈار کے بارے میں‌ ممتاز ادیب اور نقّاد انتظار حسین کی ایک تحریر)