Tag: انتقال

  • اسٹیج کی دنیا کے نام وَر ڈرامہ نگار اور ہدایت کار حبیب تنویر کی برسی

    اسٹیج کی دنیا کے نام وَر ڈرامہ نگار اور ہدایت کار حبیب تنویر کی برسی

    ہندوستان میں تھیٹر کو نیا روپ اور زندگی دینے کے لیے مشہور حبیب احمد خان تنویر 8 جون 2009ء کو اس دارِ‌ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ ان کا شمار بھارت کے نام ور ڈرامہ نگاروں میں‌ کیا جاتا ہے جنھوں نے تھیٹر ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی یادگار کام کیا۔

    حبیب تنویر ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔ وہ ڈرامہ نویس اور ہدایت کار ہی نہیں، ایک اچّھے اداکار، شاعر، موسیقار اور اسٹیج ڈیزائنر بھی تھے۔

    انھوں نے تھیٹر کی دنیا میں معروف ناموں کے بجائے لوک فن کاروں اور مقامی آرٹسٹوں کو موقع دیا اور اپنے ڈراموں میں ان گلیوں اور بازاروں کو اسٹیج بنایا جن سے جڑی ہوئی کہانی وہ بیان کر رہے تھے۔ حبیب تنویر نے یہ تجربہ "آگرہ بازار” سے کیا جو نذیرؔ اکبر آبادی کی زندگی اور ان کی تخلیقات پر مبنی تھا۔ اس ڈرامے کے ذریعے انھوں‌ نے کلاسیکی دور کے اس ممتاز شاعر کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔

    حبیب تنویر یکم ستمبر سن 1923ء کو رائے پور(ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام حبیب احمد خان تھا۔ انھوں‌ نے شاعری کا آغاز کیا تو اپنا تخلص تنویر رکھا جو بعد میں‌ ان کے نام کا مستقل حصّہ بن گیا۔

    وہ ممبئی میں‌ آل انڈیا ریڈیو سے بہ حیثیت پروڈیوسر وابستہ ہوئے اور اسی عرصے میں انھوں نے ہندی فلموں کے لیے گیت لکھے اور چند فلموں میں اداکاری بھی کی۔

    پچاس کے عشرے میں انھوں‌ نے برطانیہ کا رُخ کیا اور وہاں ڈرامہ اور اس آرٹ کی تعلیم اور تربیت کے لیے داخلہ لے لیا۔ اسی زمانے میں انھیں جرمنی کے شہر برلن میں قیام کا موقع ملا، جہاں انھوں‌ نے نام ور ڈرامہ نگار بیرتھولٹ بریشت کے ڈرامے دیکھے اور ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ بریشت نے ان کے فن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

    اسی کے بعد 1954ء میں انھوں‌ نے ’’آگرہ بازار‘‘ کے نام سے اسٹیج ڈرامہ لکھا تھا۔ 1959ء میں انھوں نے بھوپال میں ’’نیا تھیٹر‘‘ کے نام سے ایک تھیٹر کمپنی کی بنیاد رکھی۔

    1975ء میں حبیب تنویر کا ڈرامہ ’’چرن داس چور‘‘ کے نام سے سامنے آیا اور بے حد مقبول ہوا۔ اِسی ڈرامے پر انھیں 1982ء میں ایڈنبرا انٹرنیشنل ڈرامہ فیسٹیول میں ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انھیں بھارتی حکومت اور مختلف ادبی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں پدم شری اور پدم بھوشن ایوارڈ بھی شامل ہیں۔

  • پاکستان کے معروف گلوکار ایس بی جان انتقال کرگئے

    پاکستان کے معروف گلوکار ایس بی جان انتقال کرگئے

    کراچی: پاکستان کے معروف گلوکار سنی بینجمن جان المعروف ایس بی جان کراچی میں ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق معروف صدارتی ایوارڈ یافتہ گلوکار و موسیقار ایس بی جان طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال کرگئے، وہ 1934 میں کراچی میں ایک کرسچن گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔

    سنی بینجمن جان کی عمر 87 سال تھی، وہ کئی روز سے علیل تھے، بیٹے نے بتایا کہ والد کی حالت انتہائی تشویش ناک تھی، 3 روز سے وینٹی لیٹر پر تھے، سنی بینجمن جان کے بیٹوں اور اسپتال انتظامیہ نے ان کے انتقال کی تصدیق کر دی۔

    اس سے قبل سوشل میڈیا پر آج دوپہر کو ان کے انتقال کی خبریں وائرل ہو گئی تھیں، تاہم بیٹے نے اس وقت اس کی تردید کر دی تھی، اور اسے کزن کی غلط فہمی قرار دیا تھا۔

    ایس بی جان نے گلوکاری کا آغاز 20 مئی 1950 کو ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا تھا، ان کو 2011 میں پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔

    ایس بی جان کو ان کی منفرد انداز میں غزل گائیکی کی وجہ سے شہرت ملی، ان کا شمار پاکستان کے 1960 سے 1975 کے معروف گلوکاروں اور غزل گائیکوں میں ہوتا ہے، اگرچہ ان کے متعدد گانے مشہور ہوئے، تاہم ان کی مقبولیت کی وجہ ’تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے‘ گانا بنا۔

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف گلوکار مجیب عالم کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف گلوکار مجیب عالم کی برسی

    پاکستان کے نام وَر گلوکار مجیب عالم کی زندگی کا سفر 2004 میں تمام ہوا۔ 2 جون کو فلم نگری میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے مشہور اس فن کار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ آج مجیب عالم کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ہندوستان کے شہر کان پور سے تعلق رکھنے والے مجیب عالم 1948ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بے حد سریلی آواز کے مالک تھے۔ پہلی بار موسیقار حسن لطیف نے انھیں اپنی فلم نرگس میں گائیکی کا موقع دیا مگر یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی۔ تاہم فلمی دنیا میں‌ ان کا سفر شروع ہوگیا تھا اور فلم مجبور کے گانے ان کی آواز میں‌ شائقین تک پہنچے۔ 1966ء میں انھوں نے فلم جلوہ اور 1967ء میں چکوری کا ایک نغمہ ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا۔ اس نغمے کے بول تھے، وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں….

    مجیب عالم کو اس گیت کے لیے نگار ایوارڈ عطا کیا گیا۔ اس کے بعد کئی فلموں میں مجیب عالم نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور یہ نغمات بہت مقبول ہوئے۔ ان کی آواز میں‌ جن فلموں کے گیت ریکارڈ کیے گئے ان میں دل دیوانہ، گھر اپنا گھر، جانِ آرزو، ماں بیٹا، شمع اور پروانہ، قسم اس وقت کی، میں کہاں منزل کہاں سرفہرست ہیں۔

    1960 کی دہائی میں مجیب عالم نے اس وقت اپنا فنی سفر شروع کیا تھا جب مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے گلوکار انڈسٹری میں جگہ بنا رہے تھے۔ مجیب عالم نے یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم اور میں تیرے اجنبی شہر میں جیسے خوب صورت اور سدا بہار نغمات کو اپنی آواز دے کر امر کر دیا۔ “میرا ہر گیت ہے ہنستے چہروں کے نام” مجیب عالم کی آواز میں‌ نشر ہونے والا وہ نغمہ تھا جو بے حد مقبول ہوا۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام وَر گلوکار کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔

  • یومِ وفات: اداکار ظفر مسعود اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں عالمِ جاوداں کو سدھار گئے تھے

    یومِ وفات: اداکار ظفر مسعود اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں عالمِ جاوداں کو سدھار گئے تھے

    پاکستان ٹیلی ویژن کے چند اداکار ایسے بھی ہیں جنھوں نے گویا راتوں رات شہرت کے ہفت آسمان طے کرلیے، لیکن فن کی دنیا میں اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں فرشتۂ اجل کے آگے بے بس ہوکر منوں مٹی تلے جا سوئے۔ ظفر مسعود ایسے ہی اداکار تھے جو 24 مئی 1981ء کو عالمِ جاوداں کو سدھار گئے۔ وہ قاہرہ میں ٹریفک کے ایک حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔

    ظفر مسعود نے پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور ترین ڈراموں خدا کی بستی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، آبگینے، بندش اور کرن کہانی میں اپنی کمال اداکاری سے ناظرین کو محظوظ سے کیا اور مقبولیت حاصل کی تھی۔ انھوں نے مشہور ڈرامہ سیریز ایک محبت سو افسانے کے چند ڈراموں میں بھی کردار نبھائے تھے جو یادگار ثابت ہوئے۔ ظفر مسعود نے تین اردو اوردو پنجابی فلموں میں بھی کام کیا تھا۔

    پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کے اس باکمال اداکار نے قاہرہ کی ایک شپنگ کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی تھی، جہاں قیام کے دوران ان کی کار کو حادثہ پیش آیا اور اس حادثے میں ظفر مسعود زندگی سے محروم ہوگئے۔ وہ کراچی کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

    ظفر مسعود نے ڈرامہ سیریل خدا کی بستی میں نوشہ کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ ایک مشکل کردار تھا جسے انھوں نے نہایت خوبی سے نبھایا اور ایک اداکار کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو منوانے میں کام یاب رہے۔ ظفر مسعود کی فطری اداکاری نے سبھی کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ یہ ڈرامہ سیریل دوسری بار اسکرین پر پیش ہوا تو اس میں‌ نوشہ کا کردار بہروز سبزواری نے نبھایا۔

  • یومِ‌ وفات: رقاص ہی نہیں‌ بلبل چوہدری ناول نگار بھی تھے

    یومِ‌ وفات: رقاص ہی نہیں‌ بلبل چوہدری ناول نگار بھی تھے

    آج پاکستان کے مشہور رقاص بلبل چوہدری کا یومِ وفات ہے۔ 17 مئی 1954ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ جانے والے بلبل چوہدری سرطان کے مرض میں مبتلا تھے۔

    رقص، پرفارمنگ آرٹ کی وہ شکل ہے جسے اعضا کی شاعری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آرٹ اور ثقافت کی ایک خوب صورت شکل ہی نہیں بلکہ بعض خطّوں میں‌ رقص کو عبادت کا درجہ حاصل ہے اور اسے روحانی سکون کا ایک ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ بلبل چوہدری کو اسی فن کی بدولت دنیا بھر میں شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔

    1919ء میں بوگرا میں آنکھ کھولنے والے بلبل چوہدری کا اصل نام رشید احمد چوہدری تھا۔ والد ان کے پولیس انسپکٹر تھے اور چٹاگانگ کے ایک قصبے کے رہائشی تھے۔

    بلبل چوہدری بچپن ہی سے فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگے تھے۔ جلد ہی انھوں‌ نے رقص کو اپنالیا۔ زمانہ طالبِ علمی میں اسٹیج پر پرفارم کرنے کا موقع ملا اور جب کالج میں‌ قدم رکھا تو وہاں اورینٹل فائن آرٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔

    بلبل چوہدری کے لیے زمانہ طالبِ علمی ہی سے رقص محض تفریحِ طبع کا ذریعہ اور تماشا نہیں تھا بلکہ وہ اسے باقاعدہ فن کے طور پر اہمیت دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس فن کو باقاعدہ سیکھنے، سکھانے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ہندوستان میں تھیٹر کی مشہور تنظیم انڈین پیپلز تھیٹریکل ایسوسی ایشن سے ناتا جوڑ لیا اور اس پلیٹ فارم سے جو بیلے ترتیب دیے ان کی شہرت امریکا اور یورپ تک جا پہنچی تھی۔

    بلبل چوہدری نے 1943ء میں ایک ہندو رقاصہ سے شادی کی تھی جنھوں نے قبولِ اسلام کے بعد ان کے ساتھ پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں انھوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں تھیٹر اور اسٹیج پر پرفارمنس دی اور خوب شہرت حاصل کی۔

    بلبل چوہدری کو بہترین رقاص اور اس فن کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں کے اعتراف میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے عطا کیا گیا تھا۔

    انھیں اردو زبان و ادب سے بھی لگاؤ تھا۔ بلبل چوہدری کا ایک ناول اور متعدد مختصر کہانیاں بھی شایع ہوچکی ہیں۔

  • بیگم نسیم ولی خان انتقال کرگئیں

    بیگم نسیم ولی خان انتقال کرگئیں

    پشاور: معروف خاتون سیاست دان بیگم نسیم ولی خان انتقال کرگئیں۔

    تفصیلات کے مطابق بیگم نسیم ولی خان 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں، اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ شوگر اور عارضہ قلب میں مبتلا تھیں، مرحومہ کی نماز جنازہ کا اعلان جلد کیا جائے گا۔

    مرحومہ اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی کی سوتیلی والدہ اور خان عبدالولی خان مرحوم کی بیوہ تھیں، ان کی نماز جنازہ چارسدہ میں ادا کی جائے گی۔

    بیگم نسیم ولی خان صوبہ خیبر پختون خوا سے منتخب ہونے والی پہلی خاتون سیاست دان تھیں، وہ ایک بار رکن قومی اسمبلی، تین بار رکن صوبائی اسمبلی رہ چکی ہیں، اور اور عوامی نیشنل پارٹی کی سابق صوبائی صدر تھیں۔

    یاد رہے کہ بیگم نسیم ولی کے شوہر اور پاکستان کے نامور سیاست دان خان عبدالولی خان کا انتقال 26 جنوری 2006 کو پشاور میں ہوا تھا، وہ 11 جنوری 1917 کو ضلع چارسدہ کے علاقے اتمان زئی میں پیدا ہوئے تھے۔

    بیگم نسیم ولی خان

    بیگم نسیم ولی خان کی پیدائش اور پرورش ایک قدامت پسند سیاسی گھرانے میں ہوئی، میدانِ سیاست میں وہ 1975 میں اس وقت منظرِ عام پر آئیں جب اُن کے شوہر اور پشتون قوم پرست جماعت نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) کے صدر ولی خان کو گرفتار کر لیا گیا، اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اُن کی پارٹی پر پابندی عائد کر دی تھی۔

    جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں بیگم نسیم ولی خان نے این اے پی کی باگ ڈور سنبھال لی اور حیدر آباد جیل سے اپنے شوہر اور اے این پی کے درجنوں ساتھیوں کی رہائی کے لیے ایک کامیاب مہم چلائی۔

    اپنی سیاست کے ابتدائی دنوں ہی میں بیگم ولی نے اس وقت ایک نئی تاریخ رقم کی جب وہ 1977 کے عام انتخابات میں جنرل نشست پر خیبر پختون خوا سے منتخب ہونے والی پہلی خاتون بنیں، انھوں نے 1993 اور 1997 میں اے این پی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا اور اپنے مرد حریفوں کو شکست دے کر صوبائی اسمبلی کی نشست اپنے نام کی۔

    بعض سیاسی اختلافات کی وجہ سے بیگم نسیم ولی نے 2014 میں عوامی نیشنل پارٹی (ولی) کے نام سے اپنی سیاسی جماعت کا آغاز کیا، وہ اپنی پارٹی بنانے والی چارسدہ کی پہلی پختون ہیں، وہ ہمیشہ انتخابی عمل میں خواتین کی سیاسی شمولیت کی مضبوط حامی رہیں، اور اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ خواتین کو سیاست میں ضرور حصہ لینا چاہیے کیوں کہ وہ معاشرے کا بڑا حصہ ہیں۔

  • یومِ وفات: معروف صدا کارہ موہنی حمید کو بلبلِ نشریات بھی کہا جاتا تھا

    یومِ وفات: معروف صدا کارہ موہنی حمید کو بلبلِ نشریات بھی کہا جاتا تھا

    16 مئی 2009ء کو ریڈیو پاکستان کی مشہور صدا کار موہنی حمید وفات پاگئی تھیں۔ انھیں بلبلِ نشریات بھی کہا جاتا تھا۔

    موہنی حمید بچّوں میں آپا شمیم کے نام سے معروف تھیں۔ انھوں نے کئی ریڈیو ڈراموں میں‌ کام کیا اور بچوں کے لیے کئی گیت بھی گائے۔ موہنی حمید کی بیٹی کنول نصیر بھی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی معروف صدا کار اور نیوز اناؤنسر تھیں۔

    موہنی حمید نے موہنی داس کے نام سے نوجوانی میں ریڈیو پر کام شروع کیا تھا اور 35 سال تک ریڈیو پاکستان لاہور سے بچوں کے ہفتہ وار پروگرام میں آپا شمیم کا کردار نبھاتی رہیں۔

    وہ 1922ء میں امرتسر میں پیدا ہوئی تھیں۔ آل انڈیا ریڈیو، لاہور سے صدا کاری کا آغاز کیا اور اپنی دل کش آواز کے سبب جلد سامعین میں مقبول ہوگئیں۔ انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا تھا جن میں ریڈیو پاکستان کا اعزاز گولڈن مائیک، گریجویٹ ایوارڈ اور حکومت پاکستان کی جانب سے تمغۂ امتیاز شامل ہیں۔

  • مجید امجد: اردو نظم کو جدید لہجے اور متنوع موضوعات سے آراستہ کرنے والا شاعر

    مجید امجد: اردو نظم کو جدید لہجے اور متنوع موضوعات سے آراستہ کرنے والا شاعر

    مجید امجد کا شمار جدید اردو نظم کے عظیم شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ 11 مئی 1974ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج اردو زبان کے اس نام وَر شاعر کی برسی ہے۔

    مجید امجد 29 جون 1914ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد صحافت کا شعبہ اپنایا اور عملی زندگی میں قدم رکھا۔ بعد ازاں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ وہ محکمہ خوراک سے وابستہ ہوگئے تھے۔

    مجید امجد کا شمار اردو کے اہم نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات متنوع اور لہجہ و آہنگ جدید ہے جس نے انھیں اپنے دور کے شعرا میں‌ ممتاز کیا۔ مجید امجد کا اسلوب منفرد اور نہایت خوب صورت تھا جس نے انھیں ہر خاص و عام میں‌ مقبول کیا۔

    ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں شبِ رفتہ، شبِ رفتہ کے بعد، چراغِ طاقِ جہاں، طاقِ ابد اور مرے خدا مرے دل کے نام سرِفہرست ہیں۔ ان کی نظموں کے عنوانات ان کے تخیل کی دین اور نظمیں حالات و واقعات کے ساتھ سماج کے مختلف پہلوؤں پر ان نظر اور گرفت کی عمدہ مثال ہیں۔ مجید امجد کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
    میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

  • لوک گلوکار عارف لوہار کی اہلیہ انتقال کر گئیں

    لوک گلوکار عارف لوہار کی اہلیہ انتقال کر گئیں

    لاہور: معروف پاکستانی لوک گلوکار عارف لوہار کی اہلیہ انتقال کر گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق لوک فن کار عارف لوہار کی اہلیہ رضیہ عارف کا گزشتہ رات ایک نجی اسپتال میں انتقال ہو گیا، وہ کرونا کی مشتبہ مریضہ تھیں۔

    نجی اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عارف لوہار کی اہلیہ رضیہ عارف کو 2 گھنٹے قبل اسپتال لایا گیا تھا، وہ کرونا وائرس کی علامات میں مبتلا تھیں، ان کا کرونا ٹیسٹ کیا جا رہا تھا لیکن ٹیسٹ کرنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا۔

    بشریٰ انصاری کی بہن اداکارہ سنبل شاہد انتقال کرگئيں

    یاد رہے کہ چند دن قبل پاکستانی شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ سنبل شاہد بھی کرونا وائرس کے باعث دار فانی سے کوچ کرگئی تھیں، ان کا علاج لاہور کے سی ايم ايچ ميں جاری تھا لیکن وہ صحت یاب نہ ہو سکیں، سنبل شاہد اداکارہ بشریٰ انصاری اور اسما عباس کی بہن تھیں۔

    گزشتہ ماہ شہنشاہ غزل مرحوم مہدی حسن کے صاحب زادے عارف مہدی انتقال کر گئے تھے، خاندانی ذرائع کے مطابق عارف مہدی کا انتقال ہائی بلڈ پریشر کے باعث ہوا، وہ طویل عرصے سے شوگر کے مرض میں بھی مبتلا تھے۔

  • یومِ‌ وفات: دیواریں اور جنگل جیسے ڈراموں سے شہرت پانے والے منصور بلوچ کا تذکرہ

    یومِ‌ وفات: دیواریں اور جنگل جیسے ڈراموں سے شہرت پانے والے منصور بلوچ کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہری دور میں جہاں کئی فن کار اپنی لاجواب اداکاری کے سبب پہچانے گئے، وہیں وہ اپنے منفرد لب و لہجے اور آواز و انداز کی وجہ سے بھی مشہور ہوئے اور منصور بلوچ انہی میں سے ایک‌ ہیں۔ منصور بلوچ 3 مئی 1994ء کو لاہور میں وفات پا گئے تھے۔

    آج ٹیلی ویژن ڈراموں اور فلموں کے اس مشہور و معروف اداکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    1942ء میں پیدا ہونے والے منصور بلوچ کا تعلق سندھ کے شہر نواب شاہ سے تھا۔ لاہور میں وفات پانے والے منصور بلوچ کو اسی ضلع نواب شاہ کے ایک گاؤں میں سپردِ خاک گیا گیا۔

    منصور بلوچ نے متعدد سندھی فلموں اور ڈراموں میں‌ کام کیا۔ ان کے فنی سفر کا آغاز بھی سندھی زبان میں بننے والی ایک فلم سے ہوا تھا، بعد میں انھیں‌ پاکستان ٹیلی وژن پر ڈراموں‌ میں‌ اداکاری کے جوہر دکھانے ملا اور وہ پی ٹی وی کے ناظرین کو اپنی لاجواب اداکاری کے سبب متوجہ کرنے میں کام یاب رہے۔

    منصور بلوچ کو ٹیلی وژن کے مقبول ترین ڈراما سیریل دیواریں اور جنگل میں ان کے کرداروں کی وجہ سے گویا راتوں رات شہرت نصیب ہوئی۔ ڈراما سریل دیواریں میں‌ ان کی شان دار پرفارمنس کو ناظرین نے بہت سراہا اور یہ ایک یادگار ڈراما ثابت ہوا۔ منصور بلوچ کو ان کی کردار نگاری پر پی ٹی وی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔