Tag: انتقال

  • فلمی دنیا کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف کی برسی

    فلمی دنیا کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف کی برسی

    29 اپریل 1976ء کو پاکستان کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف وفات پاگئے تھے۔ اداکاری کے میدان میں ان کا فلمی سفر بہت کام یاب رہا اور منور ظریف نے اپنی بے ساختگی، چہرے کے تاثرات اور انداز سے بہت جلد شائقین کی توجہ اور فلم سازوں کی نظر میں‌ اہمیت اور مقام حاصل کرلیا۔

    وہ 2 فروری 1940ء کو لاہور کے گنجان آباد علاقے قلعہ گجر سنگھ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے فلم اونچے محل میں مزاحیہ اداکاری سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا تھا، لیکن اس فلم کی نمائش سے پہلے ایک اور فلم ڈنڈیاں ریلیز ہوگئی اور یوں اس فلم کی بدولت وہ پہلی بار بڑے پردے شائقین کے سامنے آئے۔ منور ظریف کا شمار باصلاحیت اداکاروں میں ہوتا تھا۔ ان کی عمدہ پرفارمنس نے انھیں اردو اور پنجابی فلموں کا مصروف اداکار بنا دیا۔

    منور ظریف کا فلمی کیریئر 15 سال پر محیط ہے جس میں انھوں نے 321 فلموں میں کام کیا۔ ہر سال ان کی دو درجن کے قریب فلمیں پردے پر پیش کی جاتی رہیں۔ منور ظریف کی پہلی سپر ہٹ فلم ہتھ جوڑی تھی۔ وہ ایک ایسے اداکار تھے جنھوں‌ نے اکثر فلموں میں اپنے بے ساختہ فقروں اور لطیف مکالموں سے شائقین کو لبھایا اور خود کو باصلاحیت ثابت کیا۔ انھیں‌ فلمی جگتوں کی وجہ سے پنجابی فلموں کا سب سے بڑا مزاحیہ اداکار کہا جانے لگا۔ یہاں تک کہ فلم سازوں نے ان کی شخصیت کے مطابق فلمی سین رکھے اور مکالمے لکھوانے کا سلسلہ شروع کردیا۔

    بنارسی ٹھگ، جیرا بلیڈ، رنگیلا اور منور ظریف، نوکر ووہٹی دا، خوشیاں، شیدا پسٹل، چکر باز، میرا ناں پاٹے خاں، حکم دا غلام، نمک حرام ان کی کام یاب ترین فلموں میں سے ایک ہیں۔ منور ظریف کی آخری فلم لہو دے رشتے تھی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے اس معروف و مقبول مزاحیہ اداکار نے متعدد نگار ایوارڈ حاصل کیے۔ وہ لاہور میں بی بی پاک دامناں کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • پاکستانی فلموں کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر کی برسی

    پاکستانی فلموں کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر کی برسی

    26 اپریل 2005ء کو فلمی صنعت کے مشہور مزاحیہ اداکار خلیفہ نذیر انتقال کرگئے تھے۔ ان کا شمار ایسے فن کاروں‌ میں ہوتا ہے جو انڈسٹری میں‌ اپنے کام کے ساتھ ساتھ فلمی صنعت کی ترقی، بقا اور استحکام کے لیے بھی سرگرم رہے اور اس حوالے سے مثبت کردار ادا کیا۔ آج پنجابی فلموں‌ کے اس مشہور اداکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    انھوں نے لگ بھگ 150 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، خلیفہ نذیر کی اداکاری میں بے ساختگی ہوتی تھی جو فلم بینوں کو محظوظ کرتی تھی۔ خلیفہ نذیر نے پنجابی فلموں میں مزاحیہ اداکار کی حیثیت سے رنگیلا اور منور ظریف کے بعد بڑی مقبولیت حاصل کی۔

    ان کے فلمی کیریئر کا آغاز 1963ء میں اردو فلم خون کی پیاس سے ہوا تھا تاہم ان کی شہرت کا آغاز 1966ء میں ریلیز ہونے والی فلم زمیندار سے ہوا جس میں وہ ایک منجھے ہوئے مزاحیہ اداکار کے طور سامنے آئے۔ انھوں نے اس فلم کے ولن الیاس کاشمیری کے منشی کے طور پر اردو، پنجابی مکس زبان میں مکالمے بول کر جہاں شائقین کو اس انداز سے محفوظ ہونے کا موقع دیا، وہیں متاثر کن اداکاری بھی کی تھی۔

    خلیفہ نذیر نے زیادہ تر پنجابی فلموں میں ہی کردار نبھائے۔ ان کی مشہور فلموں میں بھائیاں دی جوڑی، انورا، اصغرا، دولت اور دنیا، انتقام، غلام، اک دھی پنجاب دی، بے تاب اور ماں پتر کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے فلم مستانہ میں مرکزی کردار بھی ادا کیا۔

  • یومِ وفات: ایم ای زیڈ غزالی نے کرکٹ کی دنیا میں‌ کون سا منفرد ریکارڈ بنایا؟

    یومِ وفات: ایم ای زیڈ غزالی نے کرکٹ کی دنیا میں‌ کون سا منفرد ریکارڈ بنایا؟

    محمد ابراہیم زین الدّین غزالی پاکستان کے سابق مڈل آرڈر بیٹسمین اور آف بریک بائولر تھے جو ایم ای زیڈ غزالی کے نام سے مشہور ہیں۔

    کرکٹ کے کھیل کی تاریخ میں وہ اپنے ایک منفرد اعزاز کی وجہ سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ انھیں یہ منفرد اعزاز حاصل رہا کہ وہ اولڈ ٹریفرڈ (مانچسٹر) میں انگلینڈ کے خلاف میچ کھیلتے ہوئے دونوں اننگز میں صفر کے اسکور پر آئوٹ ہوئے۔ یوں ایم ای زیڈ غزالی پاکستانی ٹیم کے وہ کھلاڑی بنے جس نے اپنے ملک کی جانب سے پہلا ’’پیئر‘‘ بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ یہ میچ 24 جولائی 1954ء کو کھیلا گیا تھا۔

    ایم ای زیڈ غزالی 26 اپریل 2003ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ آج کرکٹ کے کھیل میں پیئر بنانے کا ریکارڈ قائم کرنے والے اس کھلاڑی کا یومِ وفات ہے۔

    ایم ای زیڈ غزالی 15 جون 1924ء کو بمبئی میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ انھوں نے 1954ء میں پاکستانی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے انگلینڈ کا دورہ کیا۔ کُل دو ٹیسٹ میچز کھیلنے والے اس کھلاڑی کے منفرد ریکارڈ میں دونوں صفروں میں صرف دو گھنٹے کا وقفہ تھا جو کسی بھی کھلاڑی کی جانب سے ٹیسٹ میچ میں سب سے تیز رفتار پیئر بنانے کا عالمی ریکارڈ ہے۔

  • ممتاز محقّق، ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمد باقر کی برسی

    ممتاز محقّق، ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمد باقر کی برسی

    اردو، فارسی اور پنجابی زبان و ادب کے نام وَر محقق، ادیب اور نقّاد ڈاکٹر محمد باقر 25 اپریل 1993ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے اور علمی و ادبی موضوعات پر کئی کتابیں‌ یادگار چھوڑیں۔ ڈاکٹر محمد باقر پاکستان میں ایک اسکالر اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔

    4 اپریل 1910ء کو لاہور بنگلہ، لائل پور میں پیدا ہونے والے محمد باقر نے 1939ء میں لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1950ء سے 1970ء تک پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی میں صدارت کے منصب پر رہتے ہوئے انھوں نے اپنے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی مشاغل اور تخلیقی کام بھی جاری رکھا۔

    1965ء میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل مقرر ہوگئے۔ پاکستان کے ان دونوں اہم تعلیمی اداروں میں انھوں نے تعلیم و تدریس کے حوالے سے اپنے وسیع تجربے، گہرے مشاہدے اور مختلف نظام ہائے تدریس کے مطالعے کی بدولت نمایاں خدمات انجام دیں۔

    ڈاکٹر محمد باقر کی تصانیف میں Lahore Past and Present، اردوئے قدیم دکن اور پنجاب میں، لندن سے لاہور تک، لندنی دوست کے نام خطوط، لندن سے خطوط،
    خدا کی لاٹھی، سیاہ کار اور دوسرے افسانے، شعرائے پنجاب، تہذیبِ عمل، شرحِ بانگِ درا، احوال و آثارِ اقبال شامل ہیں جنھیں علمی و ادبی حلقوں میں‌ بڑی اہمیت دی گئی اور یہ کتب ڈاکٹر محمد باقر کا ادب کے لیے گراں قدر سرمایہ ہیں۔

  • منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    23 اپریل 1991ء کو اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقّاد اور براڈ کاسٹر عزیز حامد مدنی وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ عزیز حامد مدنی کا شمار جدید لب و لہجے اور جداگانہ اسلوب کے حامل شعرا میں کیا جاتا ہے۔

    عزیز حامد مدنی 15 جون 1922ء کو رائے پور (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک ذی علم گھرانے سے تھا۔ ان کے والد علامہ شبلی نعمانی جیسے عالم، ادیب اور مصنف کے شاگردوں میں سے ایک تھے۔

    عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ انھوں نے ریڈیو پر کئی پروگرام کیے اور خود کو بہترین براڈ کاسٹر ثابت کیا۔ علم و ادب کے شائق و شیدا عزیز حامد مدنی نے تخلیقی ادب میں شاعری کو اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا اور تنقید کے میدان میں بھی خوب کام کیا۔

    انھیں اردو کا جدید اور منفرد اسلوب کا حامل شاعر مانا جاتا ہے جن کے موضوعات میں تنوع اور انفرادیت تھی۔ عزیز حامد مدنی کے شعری مجموعے چشمِ نگراں، دشتِ امکاں اور نخلِ گماں کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی تنقیدی کتب جدید اردو شاعری اور آج بازار میں پابجولاں چلو ان کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے عزیز حامد مدنی کو لیاقت آباد کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
    گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے

  • امریکا کے مشہور طنز نگار، بذلہ سنج اور حاضر جواب مارک ٹوین کا تذکرہ

    امریکا کے مشہور طنز نگار، بذلہ سنج اور حاضر جواب مارک ٹوین کا تذکرہ

    دنیا بھر میں مارک ٹوین کی وجہِ شہرت ان کی طنز نگاری ہے۔ انھیں ایک ناول نگار اور مدرّس کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ مارک ٹوین کی زندگی کا سفر 21 اپریل 1910ء میں ہمیشہ کے لیے تمام ہوگیا تھا۔ آج علم و ادب کے شیدا اور مارک ٹوین کے جوہرِ تخلیق کے معترف ان کی یاد منا رہے ہیں۔

    1835ء میں فلوریڈا میں پیدا ہونے والے سیموئل لینگ ہارن کلیمنز کو جہانِ ادب میں مارک ٹوین کے نام سے شہرت ملی۔ انھیں ایک بے باک مزاح نگار کہا جاتا ہے جن کے ناولوں ’’دی ایڈوینچرز آف ہکل بیری فن‘ اور ’دی ایڈوینچرز آف ٹام سایر‘ کو بہت پذیرائی ملی اور یہ شائقینِ ادب میں مقبول ہوئے۔

    مارک ٹوین گیارہ سال کی عمر میں اپنے والد کی شفقت سے محروم ہوگئے تھے۔ انھیں مالی مسائل کی وجہ سے مجبوراً اسکول چھوڑنا پڑا اور وہ ایک اخبار کے دفتر میں کام سیکھنے لگے۔ وہیں اخبار بینی کے ساتھ مارک ٹوین کو مختلف علوم اور ادب کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ اسی ذوق و شوق کے ساتھ جب انھوں نے لکھنے کے لیے قلم تھاما تو ان کا شمار مقبول ترین مزاح نگاروں میں ہونے لگا۔ مارک ٹوین کے کئی اقوال بھی مشہور ہیں اور آج بھی تحریر سے تقریر تک اظہارِ خیال کے لیے ان کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ اقوال پڑھے اور شایع کیے جاتے ہیں۔

    مارک ٹوین نہ صرف عوام میں مقبول تھے بلکہ سیاست دانوں، صنعت کاروں اور فن کاروں سے بھی ان کے گہرے مراسم اور تعلقات تھے جو ان کی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے بے حد متاثر تھے۔ مارک ٹوین کو ناقدین اور ہم عصروں میں ان کے منفرد طرزِ فکر اور طنز و مزاح کے سبب بہت سراہا گیا۔

    اس امریکی طنز نگار کی ذاتی زندگی میں کئی الم ناک موڑ بھی آئے جن میں مالی خسارے کے ساتھ ٹوین کی بیٹیوں اور اہلیہ کی موت ایسے صدمات تھے جنھوں نے انھیں توڑ کر رکھ دیا اور دوسری بیٹی کی وفات کے اگلے ہی برس وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

  • معروف پاکستانی مصوّر اینا مولکا کی برسی

    معروف پاکستانی مصوّر اینا مولکا کی برسی

    پاکستان میں فائن آرٹ کے شعبے میں تعلیم و تربیت اور فنِ مصوّری کے فروغ کے لیے اینا مولکا احمد کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج اس نام ور مصوّرہ کی برسی ہے۔ وہ 20 اپریل 2005ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    اینا مولکا نے 1917ء میں ایک یہودی جوڑے کے گھر میں آنکھ کھولی جو ان دنوں لندن میں مقیم تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب انھوں نے رائل کالج آف آرٹس، لندن میں داخلہ لیا تو وہاں ان کی ملاقات شیخ احمد سے ہوئی جو خود بھی ایک اچھے مصوّر تھے۔ یہ 1935ء کی بات ہے۔ شیخ احمد سے دوستی محبت میں بدل گئی اور انھوں نے عمر بھر کے لیے ایک دوسرے کی رفاقت قبول کرلی۔ اینا مولکا نے اسلام قبول کیا اور 1939ء میں شیخ احمد سے شادی کے بعد تمام عمر پاکستان میں گزرا دی۔

    یہاں لاہور میں قیام کے دوران اینا مولکا نے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فنونِ لطیفہ کی بنیاد رکھی۔ اینا مولکا 1940ء سے 1972ء تک اس شعبے کی چیئرپرسن رہیں۔

    فن کی دنیا میں اس وقت کے ناقدین اور باذوق شخصیات نے اینا مولکا کے فن پاروں اور مصوّری کے شعبے میں ان کی‌ خدمات کو بہت سراہا اور ان کی شہرت ایک ایسی فن کار کے طور پر ہوئی جو یورپی طرزِ مصوّری میں ماہر تھیں، اس میں برش کے چھوٹے چھوٹے اسٹروکس سے تصویر مکمل کی جاتی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اینا مولکا کو مصوّری کے شعبے میں ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ اینا مولکا لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • معروف ترقّی پسند ادیب،‌ صحافی اور دانش وَر سبطِ حسن کا یومِ وفات

    معروف ترقّی پسند ادیب،‌ صحافی اور دانش وَر سبطِ حسن کا یومِ وفات

    پاکستان میں‌ ترقّی پسند فکر اور ادب تخلیق کرنے والوں میں سید سبطِ حسن ایک بڑا نام ہیں‌ جو 20 اپریل 1986ء میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے سبطِ‌ حسن نے ماضی کے مزار، موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، انقلابِ ایران، کارل مارکس اور نویدِ فکر جیسی تصانیف سے علمی و ادبی حلقوں اور اہلِ دانش کو متاثر کیا۔

    ان کا تعلق اعظم گڑھ سے تھا جہاں وہ 31 جولائی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تعلیم مکمل کی۔ وہاں انھیں ترقّی پسند دانش وروں، ادبا اور شعرا کا ساتھ نصیب ہوا جن میں علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، خواجہ احمد عباس، اختر الایمان اور اختر حسین رائے پوری و دیگر شامل تھے۔ یہ وہ نام تھے جنھوں نے سیّد سجاد ظہیر کی قیادت میں اردو کی ترقّی پسند تحریک کا آغاز کیا جو مقبول اور ہمہ گیر ثابت ہوئی۔

    سید سبط حسن نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا تھا۔ وہ پیام، نیا ادب اور نیشنل ہیرالڈ جیسے رسالوں اور اخبار سے وابستہ رہے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے پہلے لاہور اور بعد میں کراچی کو اپنایا تھا۔ سید سبطِ حسن نے خالص علمی اور فکری موضوعات پر کام کیا اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔

    ان کا انتقال بھارت کے شہر دہلی میں ہوا جہاں وہ ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ سبطِ حسن کو کراچی کے سخی حسن قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی انتقال کرگئے

    معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی انتقال کرگئے

    معروف فکشن نگار اور حساس سماجی و سیاسی موضوعات پر اپنی کہانیوں کے ذریعے اردو ادب میں نام اور پہچان بنانے والے مشرف عالم ذوقی 58 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

    مشرف عالم ذوقی ایسے زود نویس تھے جن کا قلم بامقصد اور تعمیری سوچ کے ساتھ متحرک رہا۔ ان کے 14 ناول اور افسانوں کے 8 مجموعے شائع ہوچکے ہوئے۔ بھارت کے سماجی اور سیاسی حالات پر خصوصا چند برسوں کے دوران بھارت میں افراتفری، عدم برداشت اور انتشار کو انھوں نے اپنی بعض کہانیوں کا موضوع بنایا اور ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ سنجیدہ و باشعور قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

    ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں لکھے گئے ان کے ناول ’مرگِ انبوہ‘ اور ’مردہ خانے میں عورت‘ کو پاک و ہند میں بھی پڑھا اور سراہا گیا۔ انھوں نے ہم عصر ادیبوں کے خاکے بھی تحریر کیے جب کہ دیگر اصنافِ ادب میں بھی طبع آزمائی کی اور متعدد کتابیں لکھیں۔

    مشرف عالم ذوقی 24 نومبر 1963 کو بہار کے ضلع آرہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اس دوران ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ 1992 میں ان کا پہلا ناول ’نیلام گھر‘ شائع ہوا تھا۔ ان کے دیگر مقبول ناولوں میں ’شہر چپ ہے‘، ‘مسلمان’، ‘بیان’، ‘لے سانس بھی آہستہ’، ‘ آتشِ رفتہ کا سراغ’ شامل ہیں۔

    مشرف عالم ذوقی کا شمار ایسے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے متنوع موضوعات کے سبب اردو ادب میں الگ پہچان بنائی ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں اقلیتوں کے مسائل سے لے کر ہر طبقے کی بھرپور ترجمانی کی۔ ان کا قلم سماجی گھٹن، سیاسی بنیاد پر ظلم اور ناانصافی کے خلاف متحرک رہا۔

    چند دنوں سے مشرف عالم ذوقی علالت کے سبب دلی میں ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھے جہاں 19 اپریل کو ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

  • مشہور شاعر افتخار امام صدیقی انتقال کرگئے

    مشہور شاعر افتخار امام صدیقی انتقال کرگئے

    نئی دہلی: بھارت سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر افتخار امام صدیقی ممبئی میں انتقال کرگئے۔

    اطلاعات کے مطابق کئی برس سے علیل افتخار امام صدیقی نے آج صبح ممبئی میں واقع اپنی رہائش گاہ پر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ انھیں پاک و ہند میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں ترنم اور مخصوص انداز کے سبب بہت پسند کیا جاتا تھا، 2002 ء میں ایک حادثے میں اپاہج ہوجانے والے افتخار امام صدیقی نے ضعیف العمری اور معذوری کے باوجود علم و ادب سے تعلق برقرار رکھا اور آخر وقت تک ماہ نامہ ‘شاعر’ کا اجرا بھی یقینی بناتے رہے۔

    افتخار امام صدیقی کے دادا سیماب اکبر آبادی بھی اپنے وقت کے نام وَر اور استاد شاعر تھے۔ انھوں نے 1930ء میں ماہ نامہ شاعر کا اجرا کیا تھا جسے بعد میں افتخار امام صدیقی نے جاری رکھا اور علالت کے باوجود یہ ماہ نامہ پابندی سے شایع ہوتا رہا۔

    افتخار امام صدیقی کا شمار بھی بھارت کے نام ور شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کا کلام مشہور گلوکاروں نے گایا، وہ غزلوں کے علاوہ اپنے حمدیہ اور نعتیہ کلام کے لیے بھی مشہور تھے، 19 نومبر 1947ء کو آگرہ میں پیدا ہونے والے افتخار امام صدیقی کے والد کا نام اعجاز صدیقی تھا جو سیماب اکبر آبادی کے بیٹے تھے۔ ان کی تدفین بعد نمازِ ظہر ناریل واڑی قبرستان رے روڈ، ممبئی میں کی گئی۔

    افتخار امام صدیقی کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    جو چپ رہا تو وہ سمجھے گا بد گمان مجھے
    برا بھلا ہی سہی کچھ تو بول آؤں میں

    وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں
    مگر یہ دل کو کیا ہوا کیوں بجھ گیا پتا نہیں

    پھر اس کے بعد تعلق میں فاصلے ہوں گے
    مجھے سنبھال کے رکھنا بچھڑ نہ جاؤں میں