Tag: انتقال

  • عوام کے محبوب، حکم رانوں کے معتوب حبیب جالب کی برسی

    عوام کے محبوب، حکم رانوں کے معتوب حبیب جالب کی برسی

    آج سیاسی جبر، سماجی سطح پر ناانصافی، عدم مساوات، طبقاتی اور سرمایہ دارانہ نظام اور وقت کے آمروں کو للکارنے والے حبیب جالب کی برسی ہے۔ 12 مارچ 1993ء کو وفات پاجانے والے حبیب جالب کو ان کے انقلاب آفریں نغمات اور جدوجہد کی وجہ سے شاعرِ عوام کہا جاتا ہے۔

    حبیب جالب نے جو لکھا زبان زدِ عام ہو گیا۔ ظلم اور زیادتی کے خلاف ان کی شاعری نے جہاں عوام میں بیداری اور جوش و ولولہ پیدا کیا، وہیں اپنے اشعار میں وقت کے آمروں اور مفاد پرست ٹولے کو بھی للکارا اور ان کے خلاف آواز بلند کی۔

    حبیب جالب نے غربت، تنگ دستی اور نامساعد حالات کے باوجود بے بس، ناچار اور ناانصافی و طبقاتی نظام کی چکّی میں پسنے والے ہم وطنوں کا ساتھ دیا اور شاعری کے ساتھ سڑکوں پر ریاستی جبر اور عوام دشمن فیصلوں کے خلاف احتجاج بھی کیا، انھوں نے کوڑے بھی کھائے اور زنداں کی صعوبت بھی جھیلی، لیکن پیچھے نہیں‌ ہٹے۔

    بے خوف اور نڈر حبیب جالب کی توانا فکر نے جہاں اردو شاعری کو انقلاب آفریں نغمات سے سجایا، وہیں ان کے رومانوی گیت بھی قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن انھیں اپنی عوامی شاعری کی وجہ سے زیادہ مقبولیت ملی۔

    24 مارچ 1928ء کو میانی افغاناں، ہوشیار پور میں پیدا ہونے والے حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔

    1962ء میں صدر ایوب خان کے آئین کے خلاف ان کی نظم دستور ملک بھر میں سنی گئی جس کا یہ شعر "ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا” آج بھی ہر عوامی جدوجہد اور احتجاجی تحریک کا حصّہ ہوتا ہے۔ وہ محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم میں بھی متحرک تھے۔ وہ ایسے انقلابی تھے جو ہر عہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔

    برگِ آوارہ، سرِمقتل، عہدِ ستم، حرفِ حق، ذکر بہتے خون کا، گوشے میں قفس کے، حبیب جالب کے شعری مجموعے ہیں۔ انھوں نے فلموں کے لیے نغمہ نگاری بھی کی۔ تاہم ان کا سب سے بڑا اور روشن حوالہ ان کی عوام دوستی اور پاکستان میں جمہوریت اور عوام کے حقوق کی جدوجہد ہے۔ 2008ء میں حکومتِ پاکستان نے حبیب جالب کے لیے نشانِ امتیاز کا اعلان کیا تھا۔ اس انقلابی شاعر کا مدفن لاہور میں ہے۔

  • ایک وزیر اعظم کے انتقال کے بعد دوسرے وزیر اعظم بھی چل بسے

    ایک وزیر اعظم کے انتقال کے بعد دوسرے وزیر اعظم بھی چل بسے

    مغربی افریقی ملک آئیوری کوسٹ میں ایک وزیر اعظم کے انتقال کے بعد عہدہ سنبھالنے والے دوسرے وزیر اعظم بھی 8 ماہ بعد انتقال کر گئے جس سے ملک میں بے چینی کی کیفیت پھیل گئی۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق آئیوری کوسٹ کے صدر الاسن اوتارا کے قریبی سمجھے جانے والے وزیر اعظم حامد بیکا یوکو اپنی 56 ویں سالگرہ کے کچھ دن بعد ہی کینسر کے باعث انتقال کر گئے۔

    رپورٹ کے مطابق حامد بیکا یوکو جولائی 2020 میں اس وقت کے وزیر اعظم عمادو غون کولیبالے کے انتقال کے بعد وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔

    صدر نے حامد بیکا یوکو کی علالت کے دوران ہی چیف آف اسٹاف پیٹرک آچی کو قائم مقام وزیر اعظم نامزد کیا تھا، تاہم اب حامد کے انتقال کے بعد ان کے مضبوط جانشین کی تقرری کے لیے ایک خلا پیدا ہوگیا ہے۔

    تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کا متبادل لانا بہت مشکل ہے کیونکہ ان کا کام کرنے کا انداز مختلف تھا، یہاں تک کہ جو سیاسی طور پر ان کے ساتھ نہیں ہوتا تب بھی وہ ان کے معاملات سدھارتے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق حامد بیکا یوکو تنازعات اور علیحدگی کا شکار رہنے والے مغربی افریقی ملک میں میڈیا سے مربوط رشتہ رکھنے والے رہنما کے طور پر ابھرے اور تنازعات کے تمام فریقین کے درمیان ثالث بن کر سامنے آئے تھے۔

    تجزیہ کاروں نے بتایا کہ آئیوری کوسٹ کے سابق علیحدگی پسند جنگجوؤں کو بھی ان پر اعتماد تھا، وہ سنہ 2017 میں وزیر دفاع بنے تھے اور وزیر اعظم بننے کے بعد بھی یہ وزارت اپنے پاس رکھی۔

    مقامی تاریخ دان آرتھر بنگا کا کہنا تھا کہ انہوں نے تنازعات ختم کر کے اصلاحات نافذ کیں جس کے نتیجے میں فوجیوں کو بھی سنہ 2020 کے صدارتی انتخاب میں سیاسی مداخلت سے دور ہونا پڑا۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہ فوجیوں، اعلیٰ عسکری قیادت اور حکومت کے درمیان اعتماد بڑھانے میں بھی کامیاب ہوئے تھے جس کے نتیجے میں سنہ 2017 سے اب تک بڑے پیمانے پر استحکام رہا۔

  • نادرِ روزگار شخصیت آغا شاعر قزلباش کا یومِ وفات

    نادرِ روزگار شخصیت آغا شاعر قزلباش کا یومِ وفات

    اردو زبان و ادب کا ایک نہایت معتبر اور مستند نام آغا شاعر قزلباش دہلوی کا ہے جنھیں ہندوستان بھر میں استادِ فن ،صاحبِ کمال اور زبان داں کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ 11 مارچ 1940ء کو یہ نادرِ روزگار شخصیت اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔ آج ان کی برسی ہے۔

    آغا صاحب کے سیکڑوں شاگرد تھے جب کہ علّامہ اقبال جیسی ہستیاں زبان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی اپنے وقت کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے، لیکن زبان و بیان پر عبور اور اپنی خوش گوئی کے سبب نہ صرف عوام اور خواص میں شہرت و مقبولیت حاصل کی بلکہ ان کے ہم عصر اور استاد شاعر کا درجہ رکھنے والے بھی ان کے کلام کی فصاحت، روانی اور برجستگی کے معترف رہے۔

    وہ 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ انھوں نے حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بن گیا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

    انھوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا اور ان کا ایک نثری مجموعہ خمارستان کے نام سے بھی شایع ہوا۔ ان کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزہ گوش، دامنِ مریم اور پرواز شامل ہیں۔

  • مشہور موسیقار اور گائیک استاد عاشق علی خان کی برسی

    مشہور موسیقار اور گائیک استاد عاشق علی خان کی برسی

    کلاسیکی موسیقی اور غزل گائیکی میں‌ نام و مرتبہ رکھنے والے استاد عاشق علی خان 10 مارچ 1948ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق فنِ موسیقی اور گائیکی کے‌ لیے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔

    استاد عاشق علی خان کافیاں گانے میں‌ خاص مہارت رکھتے تھے اور اس حوالے سے بہت مقبول تھے۔ 1880ء میں پیدا ہونے والے استاد عاشق علی خان نے موسیقی اور گائیکی کے فن کو اپنے شوق کی بدولت اپنایا اور لے کاری میں‌ خاص مہارت حاصل کی۔

    ایک زمانے میں‌ جب پاک و ہند میں بڑی تعداد کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کا شوق رکھتی تھی تو استاد عاشق علی خان سے اس فن کی تربیت لینے اور گائیکی کے اسرار و رموز سیکھنے والے بھی ان کے گرد موجود رہتے تھے، جن میں سے بعض نے آگے چل کر اس فن میں بڑا نام پیدا کیا اور پاکستان کے نام ور گلوکاروں میں‌ شمار ہوئے۔

    استاد عاشق علی خان کے کئی شاگردوں‌ نے غزل گائیکی اور صوفیانہ کلام کو اپنے انداز میں‌ پیش کرکے مقبولیت حاصل کی۔ ان کے شاگردوں میں استاد بڑے غلام علی خان، چھوٹے عاشق علی خان، حسین بخش ڈھاڑی، اللہ دینو خاں، مختار بیگم، فریدہ خانم اور زاہدہ پروین نمایاں ہیں۔

  • پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز کی برسی

    پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز کی برسی

    پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز 10 مارچ 2001ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ مسعود پرویز کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ اردو کے نام ور ادیب سعادت حسن منٹو ان کے قریبی عزیز تھے۔

    مسعود پرویز 1918ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی فلم منگنی سے ہیرو کی حیثیت سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ بعد وہ ہدایت کاری کی طرف آگئے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں انڈسٹری سے وابستہ ہوتے ہوئے ہدایت کاری کے شعبے میں اپنے تجربے اور مہارت کو آزمایا اور بیلی، انتظار، زہرِ عشق، کوئل، مرزا جٹ، ہیر رانجھا، مراد بلوچ، نجمہ، حیدر علی اور خاک و خون جیسی یادگار فلمیں بنائیں۔

    مسعود پرویز نے 1957ء میں فلم انتظار پر بہترین ہدایت کار کا صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ وہ فلم تھی جس نے مجموعی طور پر 6 صدارتی ایوارڈ حاصل کیے اور ایک اس ہدایت کار کے نام ہوا۔

    پاکستان میں فلمی دنیا کے معتبر اور معروف، نگار ایوارڈ کی بات کی جائے تو مسعود پرویز کو فلم ہیر رانجھا اور خاک و خون پر یہ ایوارڈ دیا گیا جب کہ ان کی ہدایت کاری میں بننے والی دوسری فلموں نے متعدد زمروں میں نگار ایوارڈز حاصل کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس کام گار کو لاہور میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • عظیم لوک گلوکار پٹھانے خان کو دنیا سے رخصت ہوئے 21 برس بیت گئے

    عظیم لوک گلوکار پٹھانے خان کو دنیا سے رخصت ہوئے 21 برس بیت گئے

    پاکستان کے نام وَر لوک گلوکار پٹھانے خان کو دنیا سے رخصت ہوئے 21 سال بیت گئے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    پٹھانے خان 1926ء میں مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو میں پیدا ہوئے تھے، ان کا اصل نام غلام محمد تھا۔ سرائیکی خطّے سے تعلق رکھنے والے اس گلوکار کو کافی اور غزل گائیکی میں ملَکہ حاصل تھا۔

    انھوں نے ملتان کے مشہور گلوکار استاد امیر خان سے موسیقی سیکھی اور مختلف محافل کے علاوہ عوامی مقامات پر کافیاں اور لوگ گیت گانے کا سلسلہ شروع کیا۔ پٹھانے خان کو جہاں عوامی سطح پر بہت پزیرائی ملی، وہیں ملک کی نام وَر شخصیات، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاءُ الحق سمیت اہلِ اقتدار ان کے کمالِ فن کے معترف رہے۔

    وہ کئی برس تک پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرکے ہر خاص و عام سے داد وصول کرتے رہے۔ پٹھانے خان نے صدارتی ایوارڈ سمیت 80 کے قریب قومی و علاقائی ایوارڈ اپنے نام کیے اور اپنے فن کی بدولت شہرت حاصل کی۔ انھیں اپنے صوفیانہ کلام کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں‌ بیرونِ ملک بھی سنا اور پہچانا جاتا ہے۔ ”میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں” وہ کلام تھا جو اس عظیم گلوکار کی آواز میں آج بھی بڑے ذوق و شوق اور عقیدت سے سنا اور گایا جاتا ہے۔

    پٹھانے خان 9 مارچ 2000ء کو کوٹ ادو میں وفات پاگئے تھے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • بھارت: پاکستانی ادیب کا افسانہ نصاب میں شامل

    بھارت: پاکستانی ادیب کا افسانہ نصاب میں شامل

    رشید امجد کے سانحۂ ارتحال پر رنجیدہ و ملول سلام بِن رزّاق نے بتایا کہ رشید امجد کا افسانہ "بگل والا” بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں بارہویں جماعت کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ممتاز افسانہ نگار اور مترجم سلام بِن رزّاق مہاراشٹر اردو رائٹرز گِلڈ کے صدر ہیں جن کے مطابق حال ہی میں رشید امجد کا افسانہ نصاب میں‌ شامل کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ مختلف ادبی جرائد میں شایع ہوچکا ہے اور مختلف ویب سائٹوں پر گوشۂ ادب میں بھی قارئین کی بڑی تعداد نے اسے پڑھا اور سراہا ہے۔

    5 مارچ 1940ء کو کشمیر میں پیدا ہونے والے رشید امجد پاکستان کے نام وَر افسانہ نگار، نقّاد اور دانش وَر کی حیثیت سے بھارت میں بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا انتقال 3 مارچ 2021ء کو ہوا تھا۔ حکومتِ پاکستان نے رشید امجد کو ’پرائڈ آف پرفارمینس‘ بھی عطا کیا تھا۔ وہ کئی اہم ادبی رسالوں کے مدیر رہے ہیں۔

    اپنی افسانہ نگاری کے بارے میں ڈاکٹر رشیدامجد کہتے ہیں:

    ”میں اس لیے لکھتا ہوں کہ اپنا اظہار چاہتا ہوں۔ اپنے عہد اور اس کے آشوب کو لفظوں میں زندہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک آدرش کی تکمیل چاہتا ہوں کہ کبھی تو وہ غیر طبقاتی آئیڈیل معاشرہ وجود میں آئے گا جہاں میں اور مجھ جیسے سب سَر اٹھا کر چل سکیں گے، ہمیں کوئی فتح کرنے والا نہیں ہوگا، ہماری رائے کی اہمیت ہوگی۔ یہ خواب سہی، میری بات تمنائیں سہی لیکن میری تحریروں کا اثاثہ یہی خواب اور یہی تمنائیں ہیں۔”

    ایک انٹرویو کے دوران رشید امجد نے بتایا تھاکہ وہ کیسے لکھنے کی طرف مائل ہوئے:

    ”ایک ورکشاپ میں ٹائم کیپر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن میرے مطالعے کا موضوع زیادہ تر جاسوسی ناول اور ان کے تراجم تھے۔ دفتر میں فارغ وقت میں پڑھتا رہتا تھا۔ وہیں ایک اور نوجوان بھی اسی طرح کتاب پڑھتے دکھائی دیتا تھا۔ ہم نے کتابوں کا تبادلہ شروع کر دیا۔ اس نے بتایا کہ وہ اعجاز راہی کے نام سے لکھتا ہے۔ ایک روز اس نے مجھے اپنی ایک کہانی پڑھنے کو دی۔ کہانی پڑھ کر میں نے اسے کہا کہ ایسی کہانی تو میں بھی لکھ سکتا ہوں۔ اس نے مجھے لکھنے کی ترغیب دی۔ سو دو ایک دنوں بعد میں نے اسے ایک کہانی لکھ کر دکھائی۔ اس نے کہا یہ تو افسانہ ہے اور تم اب باقاعدگی سے لکھا کرو۔ یوں میں نے لکھنا شروع کیا اور پھر مجھے لکھنے کی چاٹ لگ گئی۔ ”

    رشید امجد کی افسانہ نگاری کا آغاز ایوب خان کے مارشل لاء کے زمانے میں ہوا جس کے اثرات ان کے ابتدائی افسانوی میں نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ جب انھوں نے فکری پختگی کی نئی منزلوں کا سفر طے کیا تو دوسرا مارشل لاء جمہوریت کی بساط لپیٹ چکا تھا۔ یہ افسانے جبر کے دور میں لکھے گئے۔ اگرچہ اس دور کو معروف معنوں میں علامتی و تجریدی نام دیا گیا، لیکن اس تکنیک میں سادہ لفظوں میں پوشیدہ معنٰی کےجہان آباد ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید کہتے ہیں:

    رشید امجد کا شعری لہجہ، علامتی اظہار اور تجریدی ڈھانچہ سب مل کر اس کے فن کی ایک نمائندہ جہت اور اس کا منفرد تشخص قائم کرتے ہیں۔ اس نے ٹھوس کہانی کو گرفت میں لینے اور سماج کی اصلاحی خدمت سَر انجام دینے کے بجائے اس تاثر کو پکڑنے کی سعی کی جو تجربے کے مرکز میں سیال صورت میں موجود ہوتا ہے اور اکثر شعری انداز میں افسانہ نگار کی طرف سفر کرتا ہے۔

    رشید امجد کے افسانوں میں معاشرے کی انفرادی و اجتماعی سطح کے لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ، کرب اور بے چینی کی مختلف کیفیات دکھائی دیتی ہیں۔

    نام ور افسانہ نگار رشید امجد کے افسانوی مجموعوں اور دیگر موضوعات پر کتابوں میں ”ایک عام آدمی کا خواب، بھاگے ہے بیاباں مجھ سے، ریت پر گرفت، پاکستانی ادب تنقید، پت جھڑ میں خود کلامی، تمنّا بے تاب، ست رنگے پرندے کے تعاقب میں” شامل ہیں۔

  • سعودی شہزادی کا انتقال

    سعودی شہزادی کا انتقال

    ریاض: سعودی عرب کی شہزادی نورہ بنت فہد بن محمد بن عبدالرحمٰن انتقال کر گئیں، شہزادی کی تدفین آج بروز سوموار ہوگی۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی ایوان شاہی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہزادی نورہ بنت فہد بن محمد بن عبدالرحمٰن آل سعود کا اتوار کو انتقال ہوگیا ہے۔

    بیان میں کہا گیا ہے کہ تدفین پیر کو ہوگی، نمازجنازہ کہاں ہوگی اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا۔

    شہزادی نورہ کے والد شہزادہ فہد بن محمد بن عبدالرحمٰن بن فیصل آل سعود تھے، یہ شہزادہ محمد بن عبدالرحمٰن آل سعود کے دوسرے بیٹے اور شہزادہ خالد بن محمد بن عبدالرحمٰن کے سگے بھائی تھے۔

    2 روز قبل سعودی شہزادے ترکی بن ناصر بن عبد العزیز السعود بھی 72 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔

    ترکی بن ناصر کی نماز جنازہ اتوار کو مملکت کے دارالحکومت ریاض میں ادا کی گئی تھی۔

  • معروف شاعر نصیر ترابی انتقال کر گئے

    معروف شاعر نصیر ترابی انتقال کر گئے

    کراچی: معروف شاعر نصیر ترابی کراچی میں انتقال کر گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اردو شعر و ادب کا ایک روشن چراغ آج بجھ گیا، نامور شاعر، ماہر لسانیات اور نقاد نصیر ترابی آج کراچی میں انتقال کرگئے۔

    ان کی عمر 75 برس تھی، حیدر آباد دکن میں پیدا ہونے والے نصیر ترابی معروف شیعہ ذاکر علامہ رشید ترابی کے صاحب زادے تھے۔

    ادبی حلقوں میں ان کی تحقیقات اور تخلیقات کو سند کا درجہ حاصل تھا، ان کی مشہور زمانہ غزل ’وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی‘ کو عوامی حلقوں میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔

    نصیر ترابی 15 جون 1945 کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے، تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے تھے، اور کراچی میں سکونت اختیار کی، 1968 میں انھوں نے جامعہ کراچی سے تعلقات عامہ میں ایم اے کیا۔

    نصیر ترابی کی شاعری کا آغاز 1962 میں ہوا، ان کا اوّلین مجموعۂ کلام ’عکس فریادی‘ 2000 میں شائع ہوا، وہ افسر تعلقات عامہ، ایسٹرن فیڈرل یونین انشورنس کمپنی میں ملازم رہے۔

  • انڈونیشیا کے قونصل جنرل کا کراچی میں انتقال

    انڈونیشیا کے قونصل جنرل کا کراچی میں انتقال

    کراچی: انڈونیشیا کے قونصل جنرل کراچی میں انتقال کر گئے، سفارت خانے نے بھی تصدیق کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق قونصل جنرل توتوک پریانامتو گزشتہ روز کراچی کے ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئے، توتوک عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔

    سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ قونصل جنرل کراچی کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے، انھیں ایک ہفتہ قبل سینے میں تکلیف پر اسپتال لایا گیا تھا۔

    انڈونیشیا کے قونصل جنرل 3 سال سے کراچی میں تعینات تھے، ان کی میت سرد خانے منتقل کر دی گئی ہے، سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ این او سی ملنے پر قونصل جنرل کی میت انڈونیشیا لے جائی جائے گی۔