Tag: انتقال

  • کرونا کو شکست دینے والے رکن قومی اسمبلی افتخار الحسن انتقال کر گئے

    کرونا کو شکست دینے والے رکن قومی اسمبلی افتخار الحسن انتقال کر گئے

    ڈسکہ: کرونا وائرس انفیکشن کو شکست دینے والے مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی سید افتخار الحسن انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں حلقہ این اے 75 سے منتخب ہونے والے ن لیگی ایم این اے سید افتخار الحسن المعروف ظاہرے شاہ 81 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

    مرحوم کرونا وائرس کو شکست دے کر صحت یاب ہوئے تھے اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب بھی کیا تھا، تاہم اوپن ہارٹ سرجری کے دوران برین ہیمبرج کے باعث انتقال کر گئے۔

    سید افتخار الحسن 50 سالہ سیاسی زندگی میں ناقابل شکست رہے، 2 مرتبہ ممبر ضلع کونسل، 3 مرتبہ ایم پی اے، 4 مرتبہ ایم این اے منتخب ہوئے، ظاہرے شاہ میاں نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے، مرحوم کے والد سید فیض الحسن شاہ سید عطا اللہ شاہ بخاری کے دست راست تھے۔

    ظاہرے شاہ نے بلدیاتی نمائندے کا الیکشن لڑ کر عملی سیاست کا آغاز کیا تھا۔ جون میں کرونا مثبت آنے کی وجہ سے سید افتخار الحسن کو لاہور منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ علاج کے بعد صحت یاب ہو گئے۔

    17 جولائی کو انھیں اچانک ہارٹ اٹیک ہوا جس کے بعد ڈاکٹرز نے اوپن ہارٹ سرجری کی، تاہم اس دوران برین ہیمرج ہو گیا، جس پر انھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا، آج ڈاکٹرز نے ان کی موت کی تصدیق کی۔

  • مسکراہٹیں بکھیرنے والے شاعر عنایت علی خان انتقال کر گئے

    مسکراہٹیں بکھیرنے والے شاعر عنایت علی خان انتقال کر گئے

    کراچی: مسکراہٹیں بکھیرنے والے معروف شاعر اور استاد پروفیسر عنایت علی خان خالق حقیقی سے جا ملے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں طنز و مزاح کے نامور شاعر پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی انتقال کر گئے ہیں، ان کی نماز جنارہ کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں ادا کی جائے گی۔

    مرحوم کے اہل خانہ کے مطابق پروفیسر عنایت علی کا انتقال گزشتہ شب دل کا دورہ پڑنے سے ہوا، مرحوم کی عمر 85 برس تھی اور وہ کئی ماہ سے علیل تھے۔

    پروفیسر عنایت طنز و مزاح کے ساتھ سنجیدہ شاعری میں بھی الگ پہچان رکھتے تھے، ان کی موت سے علم و ادب کی ایک اور شمع بجھ گئی ہے، وہ 1935 میں بھارتی ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے تھے، اور نومبر 1948 میں ہجرت کے بعد سندھ کے شہر حیدرآباد میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ انھوں نے 1962 میں سندھ یونی ورسٹی سے ایم اے کے امتحان میں ٹاپ کیا۔

    سنجیدہ شاعری ہو یا مزاحیہ پروفیسرعنایت علی خان منفرد اسلوب کے مالک تھے، تدریس سے وابستہ پروفیسر عنایت علی خان کو 6 کتابوں پر انعام سے بھی نوازا گیا، ان کی مشہور تصانیف میں ازراہِ عنایت، عنایات، عنایتیں کیا کیا شامل ہیں۔

    چنو منو اور شیطان، پیاری کہانیاں کے نام سے پروفیسر عنایت نے بچوں کے لیے کہانیوں اور نظموں کی دو کتابیں بھی لکھیں، ان کی نظم بول میری مچھلی کے کئی مزاحیہ قطعات زبان زد عام ہوئے۔

    پروفیسر عنایت کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

  • کرونا وائرس نے ایک اور مسیحا کی جان لے لی

    کرونا وائرس نے ایک اور مسیحا کی جان لے لی

    ملتان: نشتر میڈیکل یونی ورسٹی کے وائس چانسلر مصطفی کمال پاشا انتقال کر گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ملتان میں نشتر میڈیکل یونی ورسٹی کے وی سی ڈاکٹر مصطفیٰ کمال پاشا کا کرونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا تھا، طبیعت بگڑنے پر انھیں اسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔

    مصطفیٰ کمال پاشا نجی اسپتال میں 14 جون سے زیر علاج تھے تاہم انھیں بچایا نہ جا سکا، چند دن قبل سانس لینے میں تکلیف کے باعث انھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔

    پروفیسر ڈاکٹر مصطفیٰ کمال پاشا نشتر میڈیکل یونی ورسٹی کے پہلے وائس چانسلر تھے اور ایک ماہر لیپرو اسکوپک سرجن تھے، ان کی نمازِ جنازہ آج بعد نمازِ عصر نشتر گراؤنڈ میں ادا کی جائے گی۔

    ادھر ملک بھر میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 67 مریض جاں بحق ہو گئے ہیں، جس سے اموات کی تعداد 5386 ہو گئی ہے، گزشتہ روز کرونا کے 2165 نئے کیس بھی رپورٹ ہوئے۔

    پاکستان میں کرونا وائرس انفیکشن سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 2 لاکھ 55 ہزار 769 ہو گئی ہے، کیسز کی تعداد کے لحاظ سے 213 ممالک میں پاکستان دنیا کا 12 واں ملک ہے۔

    ملک کے مختلف شہروں میں اس وقت کرونا کے زیر علاج مریضوں کی تعداد 77 ہزار 573 ہے، اب تک 172,810 مریض وائرس سے لاحق ہونے والی بیماری سے صحت یاب ہو چکے ہیں، جب کہ 2,078 مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے۔

    پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے کرونا وائرس سے متعلق اعداد و شمار کچھ یوں ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں 10 لاکھ آبادی میں اموات کی شرح 23 سے بھی بڑھ کر 24 فی صد ہو گئی ہے، جب کہ 10 لاکھ آبادی میں کیسز کی تعداد بھی بڑھ کر 1,157 ہو گئی۔ کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے کیے جانے والے ٹیسٹس کی شرح 10 لاکھ آبادی میں 7,365 ہے۔

  • پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما آیت اللہ درانی انتقال کر گئے

    پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما آیت اللہ درانی انتقال کر گئے

    کوئٹہ: پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر آیت اللہ درانی انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وفاقی وزیر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما آیت اللہ درانی 64 برس کی عمر میں انتقال کر گئے، آیت اللہ درانی گزشتہ چندروز سے کوئٹہ کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔

    خاندانی ذرائع کے مطابق آیت اللہ درانی کی تدفین آبائی علاقے پڑنگ آباد میں ہوگی۔

    سابق صدر آصف علی زرداری نے آیت اللہ درانی کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم پارٹی کے نظریاتی اور وفادار کارکن تھے،آیت اللہ درانی کا انتقال پارٹی،بلوچستان کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔

    چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سابق وفاقی وزیر آیت اللہ درانی کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان کے ایک پراثر آواز تھے،آیت اللہ درانی محترمہ بینظیر بھٹو کے سچے نظریاتی اور وفادار سپاہی تھے۔

    بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان آیت اللہ درانی کے خاندان کے دکھ میں شریک ہے۔

  • وہ کیسے تھے؟ منور حسن کی زندگی پر ایک نظر

    وہ کیسے تھے؟ منور حسن کی زندگی پر ایک نظر

    دنیا بھر میں تحریک اسلامی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں احباب کے لیے یہ خبر بڑے افسوس کے ساتھ سنی اور پڑھی گئی کہ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سابق ناظم اعلی اسلامی جمیعت طلبہ پاکستان سید منور حسن آج جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔

    وہ گزشتہ کئی برسوں سے پارکنسن کے مرض میں مبتلا تھے، ان کی طبیعت میں اتار چڑھاؤ کافی عرصے سے جاری تھا لیکن تین ہفتے قبل ان کو اچانک طبیعت بگڑنے پر مقامی اسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور ایک ہفتے سے وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیر علاج تھے، چند دن قبل ڈاکٹروں نے ان کی سانس کی تکلیف کی وجہ سے انھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا تھا۔

    ڈاکٹر پروفیسر سلیم اللہ خان کی سربراہی میں چار ڈاکٹروں آغا خان کے ڈاکٹر عبدالواسع شاکر، امام کلینک کے ڈاکٹر اظہر چغتائی اور ڈاکٹر عبد اللہ المتقی کا بورڈ ان کا علاج کر رہا تھا، آج ان کی طبیعت اچانک بگڑ گئی، ڈاکٹروں نے بر وقت ہر ممکن طبی علاج کیا لیکن وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ سید منور حسن کے انتقال سے پاکستان ایک سچے محب وطن، اسلام کے مخلص داعی ، جابر حکمرانوں کے سامنے ڈنکے کی چوٹ پر کلمہ حق کہنے والے نڈر مجاہد اور ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرنے والے ایک بڑے بے لوث رہنما سے محروم ہو گیا۔

    سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن خالق حقیقی سے جاملے

    انھوں نے اپنے پس ماندگان میں بیوہ محترمہ عائشہ منور سابق رکن قومی اسمبلی و سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی خواتین، بیٹے طلحہ منور، 2 بھائیوں، سید شفیق حسن سابق جنرل منیجر ٹیکسٹائلز، سابق ڈائریکٹر جنرل پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن سید ارشاد حسن اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تحریک اسلامی کے لاکھوں شیدائیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔ ان کے سب سے بڑے بھائی سید مجتبیٰ حسن سابق چیف انجیئر پی ڈبلیو ڈی اور ایک بہن کا پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے۔

    منور حسن کی عمر 79 برس تھی، وہ 2008 سے 2013 تک امیر جماعت اسلامی پاکستان، 1993 سے 2008 تک سیکریٹری جنرل، 1992-93 تک اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل، اور 1989 سے 1991 تک امیر جماعت اسلامی کراچی اور 12 سال تک اس کے سیکریٹری جنرل رہے۔ جب کہ 1966 سے 1968 تک اسلامی جمیعت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے۔ وہ اپنے وقت کے مقبول طالب علم لیڈر تھے۔ سید منور حسن نے پوری زندگی اسلامی نظام حیات کے نفاذ کی جدوجہد میں گزاری۔ وہ جماعت اسلامی میں درویشوں کے اس قافلے میں شامل تھے جنھوں نے اسلام کو سوچ سمجھ کر از سر نو قبول کیا اور اپنی پوری زندگی اس کی اشاعت و تبلیغ کے لیے وقف کی، انھوں نے اعلیٰ تعلیم، وسائل اور مواقع رکھنے کے باوجود امیرانہ بود و باش چھوڑ کر فقیرانہ طرز زندگی کو اختیار کیا۔

    5 اگست 1941 کو پیدا ہونے والے سید منور حسن کا تعلق دہلی کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، متمول اور دینی اقدار کے حامل خاندان سے تھا جس نے پاکستان کے قیام کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی، اپنے بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے، ان کے اندر بچپن ہی سے قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں، تقریری مباحثوں میں حصہ لینا ان کا شوق اور مشغلہ تھا۔ گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں اس وقت کی بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف میں شامل ہوئے اور جلد اس کی کراچی شاخ کے صدر بن گئے۔ اسی دوران ان کا رابطہ اسلامی جمیعت طلبہ کے بعض مخلص کارکنوں سے ہوا، جنھوں نے ان کو جمیعت میں شامل ہونے کی دعوت دی اور مولانا مودودی کا لٹریچر پڑھنے کو دیا۔

    خاندانی دینی پس منظر کی وجہ سے انھوں نے اس لٹریچر کا مطالعہ شروع کیا تو ان کی دنیا ہی بدل گئی اور وہ یکا یک بائیں بازو سے دائیں بازو کے لیڈر بن گئے، اسلامی جمیعت طلبہ میں ایسے شامل ہوئے کہ پھر مڑ کر کبھی پیچھے نہیں دیکھا۔ پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، خرم جاہ مراد، اور محبوب علی شیخ نے اس جوہر قابل کو فوری طور پر اپنی تربیت میں لے لیا اور اسے جمیعت کا بہترین نظریاتی رہنما بنا دیا۔

    1963 میں وہ کراچی یونی ورسٹی اور 1964 میں کراچی کے ناظم منتخب ہوئے، اسی برس ہی میں کراچی یونی ورسٹی سے انھوں نے سوشیالوجی میں اور 1966 میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر کیا۔ 1966 میں ناظم اعلیٰ بنے اور 1968 تک اس پر فائز رہے۔ تعلیم اور جمیعت سے فارغ ہوتے ہی وہ جماعت اسلامی میں شامل ہو گئے اور جلد ہی انھیں پہلے نائب قیم، پھر قیم اور 1989 میں کراچی جماعت کا امیر مقرر کیا گیا۔ قبل ازیں وہ اسلامی ریسرچ اکیڈیمی کے ریسرچ فیلو ، سیکریٹری، ڈائریکٹر اور انگریزی جریدے Criterion کے ایڈیٹر بھی رہے۔

    ملکی سیاست میں اچھی سوجھ بوجھ رکھنے کی وجہ سے ان کا شمار جماعت اسلامی کے ان رہنماؤں میں رہا ہے جن کا رابطہ حکمراں اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رہتا تھا، مارچ 1977 کے عام انتخابات میں انھوں نے کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف قومی اتحاد کی ملک گیر تحریک اور مارشل لا لگنے کی وجہ سے یہ انتخابات ہی کالعدم ہو گئے اور اسمبلی کام نہ کر سکی، ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار ممتاز دانشور جمیل الدین عالی تھے۔

    انھوں نے 2013 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے جماعت کی سربراہی سے مستعفی ہونے کی پیش کش کی لیکن مرکزی مجلس شوریٰ نے ان کی یہ پیش کش مسترد کی، تاہم اسی سال امارت کے انتخابات میں ارکان جماعت نے سراج الحق کو امیر جماعت منتخب کر لیا جو اس وقت صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خواہ ) کے امیر تھے اور اسلامی جمیعت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ رہ چکے تھے۔

    سید منور حسن اپنے تقویٰ، زندگی کے رویوں اور معاملات میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد گار تھے جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین کی سربلندی کی جدوجہد میں گزرا اور جن کا ایک ایک عمل قرآن و سنت کی تعلیمات کا عکاس اور مظہر تھا۔

  • ہزاروں صحافیوں کے استاد پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین کا کرونا سے انتقال

    ہزاروں صحافیوں کے استاد پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین کا کرونا سے انتقال

    لاہور: ہزاروں صحافیوں کے استاد پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کرونا وائرس انفیکشن کے باعث انتقال کر گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پروفیسر مغیث الدین شیخ آج صبح انتقال کر گئے ہیں، وہ کرونا وائرس انفیکشن میں مبتلا تھے اور ڈاکٹرز اسپتال میں وینٹی لیٹر پر تھے۔

    ڈاکٹر مغیث الدین پنجاب یونی ورسٹی کے ادارہ علوم ابلاغیات کے بانی تھے، پنجاب یونی ورسٹی میں بہ طور ڈین بھی وہ خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں، چیئرمین ہال کونسل پنجاب یونی ورسٹی بھی رہے۔

    ڈاکٹر مغیث 40 سال سے زائد عرصے تک صحافت کے استاد رہے، وہ ناروے کی اوسلو یونی ورسٹی کالج میں بھی پڑھاتے رہے ہیں، 1998 میں ترقی پا کر ڈاکٹر مغیث پنجاب یونی ورسٹی میں پروفیسر تعینات ہوئے۔

    ڈاکٹر مغیث الدین اگاراماتھا کمیونٹی ریڈیو اسٹیشن کٹھمنڈو، نیپال میں

    ڈاکٹر مغیث کو جرنلزم فورتھ اسٹیٹ ایوارڈ آف آئیوا اسٹیٹ سے نوازا گیا، 2006 میں زلزلہ زدگان کے لیے ایف ایم ریڈیو کے قیام پر اقوام متحدہ نے بھی ایوارڈ سے نوازا، ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے 2003 میں ڈاکٹر مغیث کو بیسٹ یونی ورسٹی ٹیچر ایوارڈ سے نوازا، انٹرنیشنل پبلک ریلیشنز ایسوسی ایشن نے 2004 میں ڈاکٹر مغیث کو کراؤن ایوارڈ سے نوازا، ڈبلیو ایچ او اور یونی سیف کی جانب سے انھیں پولیو ایمبیسڈر نامزد کیا گیا۔

    یاد رہے کہ 2 دن قبل سندھ بھی ایک نامور ماہر تعلیم سے محروم ہو گیا تھا جب سکھر میں آئی بی اے کی بنیاد ڈالنے والے 77 سالہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد صدیقی انتقال کر گئے۔

    سکھر میں آئی بی اے کی بنیاد ڈالنے والے پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد صدیقی انتقال کرگئے

    مرحوم عارضہ قلب میں مبتلا تھے اور ایک ہفتے سے کراچی کے اسپتال میں زیر علاج تھے، انھوں نے سندھ کے چیف سیکریٹری، ہوم سیکرٹری اور سکھر کے کمشنر سمیت دیگر اہم سرکاری عہدوں پر بھی اپنے فرائض انجام دیے۔

    انتقال کے وقت وہ نہ صرف سکھر آئی بی اے کے وائس چانسلر تھے بلکہ سکھر الیکٹرک پاور کمپنی سیپکو کے بورڈز آف ڈائریکٹرز کے چیئر مین بھی تھے، مرحوم نے اپنی پوری زندگی تعلیم کے فروغ اور بہتری کے لیے وقف کر رکھی تھی۔

  • معروف اداکارہ صبیحہ خانم امریکا میں انتقال کر گئیں

    معروف اداکارہ صبیحہ خانم امریکا میں انتقال کر گئیں

    لاہور: معروف اداکارہ صبیحہ خانم امریکا میں انتقال کر گئیں، وہ طویل عرصے سے امریکا میں مقیم تھیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق خاندانی ذرایع نے تصدیق کی ہے کہ طویل عرصے سے امریکا میں مقیم اداکارہ صبیحہ خانم 84 برس کی عمر میں انتقال کر گئی ہیں، صبیحہ خانم 1935 میں گجرات میں پیدا ہوئی تھیں۔

    صبیحہ خانم نے 1950 میں فلم بیلی سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا، صبیحہ اور سنتوش کی جوڑی فلمی دنیا کے مقبول ترین جوڑیوں میں سے ایک تھی، 50 اور 60 کی دہائی میں ان کی جوڑی فلم کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی۔

    صبیحہ خانم ٹی وی ڈراما سیریل دشت میں بھی جلوہ گر ہوئیں، ان کو خوبصورت اداکاری پر صدارتی تمغاے حسن کارکردگی اور نگار سمیت متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ صبیحہ خانم نے 7 لاکھ، تہذیب، انوکھا، مکھڑا، دیور بھابی، ایک گناہ، شکوہ، باجی اور درجنوں دیگر کامیاب فلموں میں زبردست اداکاری کے جوہر دکھائے۔

    صبیحہ خانم کی نوجوانی کی تصویر، دوسری تصویر میں وہ اپنی پوتی سارش خان کے ساتھ

    صبیحہ خانم کا پیدائشی نام مختار بیگم تھا، ان کی شادی سنتوش کمار سے ہوئی جن کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا، صبیحہ خانم نے 50 اور 60 کی دہائی میں پاکستانی سنیما پر راج کیا، 1980 اور90 کی دہائی میں انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ڈراموں میں بھی اداکاری کی۔

    خاندانی ذرایع کے مطابق صبیحہ خانم کا انتقال ہفتے کی صبح (13 جون کو) ورجینیا میں ہوا، وہ کافی عرصے سے گردوں کے عارضے، بلڈ پریشر اور شوگر سمیت کئی بیماریوں میں مبتلا تھیں۔

  • معروف فن کار اطہر شاہ خان جیدی انتقال کر گئے

    معروف فن کار اطہر شاہ خان جیدی انتقال کر گئے

    کراچی: ممتاز شاعر، ڈراما نگار اور معروف فن کار اطہر شاہ خان عرف جیدی انتقال کر گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق فن کی دنیا کے نامور ستارے اور اپنے زمانے میں ٹی وی ناظرین کو چہرے کے تاثرات سے محظوظ کرنے والے فن کار اطہر شاہ خان جیدی طویل علالت کے بعد 77 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔

    اطہر شاہ خان کے صاحب زادے نے ان کے انتقال کی تصدیق کر دی، جیدی گزشتہ چند برس سے علیل تھے اور گلستان جوہر کراچی کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے۔

    ان کے بیٹے ندیم شاہ نے بتایا کہ اطہر شاہ خان کو دل کا دورہ پڑنے پر فوری اسپتال لے جایا گیا تھا، تاہم وہ جاں بر نہ ہو سکے، ان کی نماز جنازہ کی ادائیگی کے وقت کا ابھی طے نہیں ہوا۔

    اطہر شاہ خان یکم جنوری 1943 کو بھارت کی ریاست رام پور میں پیدا ہوئے تھے، انھوں نے ٹی وی، اسٹیج پر بطور ڈراما نگار اپنے تخلیقی کام کا آغاز کیا، وہ اپنے ہی تخلیق کردہ مزاحیہ کردار ’’جیدی‘‘ سے پہچانے جاتے ہیں، پی ٹی وی کے پروگرام ’کشت زعفران‘ سے مزاحیہ شاعری میں بھی مقبولیت حاصل کی، اطہر شاہ خان مزاحیہ شاعری میں بھی ’’جیدی‘‘ تخلص کرتے۔

    انھوں نے پی ٹی وی پر طویل عرصے تک راج کیا، وہ ایک بہترین لکھاری بھی تھے اور انھوں نے متعدد ڈرامے لکھے، انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے جب کہ پی ٹی وی نے اپنی گولڈن جوبلی پر انھیں گولڈ میڈل بھی دیا تھا۔

    اطہر شاہ جیدی نے لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پشاور سے سیکنڈری تک پڑھا اور پھر کراچی میں اُردو سائنس کالج سے گریجویشن کیا، بعد ازاں انھوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے صحافت کے شعبے میں ماسٹرز کیا، ان کا شمار ٹیلی وژن کے ابتدائی ڈراما نگاروں اور فن کاروں میں کیا جاتا ہے۔

    جیدی کے مشہور ڈراما سیریلز میں انتظار فرمائیے، ہیلو ہیلو، جانے دو، برگر فیملی، آپ جناب، پرابلم ہاؤس، جیدی ان ٹربل، آشیانہ، ہائے جیدی، با ادب با ملاحظہ ہوشیار شامل ہیں، ڈراما سیریل انتظار فرمائیے میں جیدی کے کردار نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔

  • تعزیت کے لیے آنے والے 37 افراد کرونا وائرس کا شکار ہوگئے

    تعزیت کے لیے آنے والے 37 افراد کرونا وائرس کا شکار ہوگئے

    بغداد: عراق کے شہر بصرہ میں ایک انتقال پر آنے والے 37 افراد کرونا وائرس کا شکار ہوگئے، تمام افراد کو ایک ہی شخص سے وائرس منتقل ہوا جو انتقال پر شریک ہوا تھا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق عراق کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے ملک کے بیشتر شہروں میں سخت احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی پابندی عائد ہے مگر اس کے باوجود بصرہ میں ایک شخص کے انتقال کے بعد تعزیت کے لیے متعدد افراد شریک ہوئے۔

    وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس موقع پر شریک افراد میں ایک شخص کرونا وائرس کا شکار تھا جس نے شرکا سے مصافحہ کیا اور بعض کو گلے بھی لگایا، اس ایک شخص کی وجہ سے مزید 37 شرکا کو وائرس منتقل ہوگیا۔

    ترجمان وزارت کا کہنا ہے کہ کرونا کے شکار تمام مریضوں کو قرنطینہ منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ باقی تمام شرکا کا بھی کرونا ٹیسٹ لیا گیا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ملک گیر آگاہی مہم کے باوجود بعض لوگ ہدایات پر عمل نہیں کرتے اور بڑی تعداد میں اکٹھے ہو رہے ہیں، اسی رویے کی وجہ سے کرونا کے انسداد کی تمام تر کوششیں بے سود ہو رہی ہیں۔

    خیال رہے کہ عراق میں اب تک کرونا وائرس کے 1 ہزار 928 مریض سامنے آچکے ہیں جبکہ 90 اموات ہوچکی ہیں۔

  • نعیم الحق کے انتقال پر وزیراعظم گہرے صدمے کا شکار

    نعیم الحق کے انتقال پر وزیراعظم گہرے صدمے کا شکار

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف کے بانی رہنما نعیم الحق کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنے سب سے پرانے دوست کے انتقال پر صدمہ پہنچا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اپنے تعزیتی پیغام میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نعیم الحق پی ٹی آئی کے دس بانی ممبران میں شامل تھے، وہ اب تک پی ٹی آئی کے سب سے وفادار ساتھی تھے، تیئیس سال کی جدوجہد میں نعیم الحق ہمیشہ میرے ساتھ کھڑے رہے، جب بھی پارٹی پر مشکل وقت آیا انہوں نے ساتھ دیا۔

    عمران خان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے دو برسوں میں نعیم الحق کو کینسر سے بہادری سے لڑتے دیکھا، وہ آخر وقت تک پارٹی معاملات میں مشورہ دیتے رہے، جب تک ہوسکا انہوں نے کابینہ اجلاسوں میں شرکت کی، ان کے انتقال سے نہ پر ہونے والا خلا پیدا ہوگیا۔

    تحریک انصاف کے بانی رہنما نعیم الحق انتقال کر گئے

    خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما نعیم الحق70برس کی عمر میں انتقال کرگئے، وہ 11جولائی1949کو کراچی میں پیدا ہوئے، نعیم الحق پیشے کے اعتبار سے بینکر اور کاروباری شخصیت تھے، وہ پی ٹی آئی کے بانی ارکین میں شمار کیے جاتے تھے، انہوں نے 1996میں عمران خان کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔

    نعیم الحق کی نماز جنازہ کل بعدنمازعصرمسجدعائشہ خیابان اتحاد کراچی میں اداکی جائے گی۔