Tag: انتقال

  • تنہا چوٹیاں سر کرنے والا راک کلائمبر عمران علی جاں بحق

    تنہا چوٹیاں سر کرنے والا راک کلائمبر عمران علی جاں بحق

    کوئٹہ: پہاڑوں کی چوٹیاں تنہا سر کرنے والا کلائمبر عمران علی جاں بحق ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے مشہور اور باصلاحیت راک کلائمبر عمران علی ہزارہ کوہ مردار سے گر کر جاں بحق ہو گئے، خاندانی ذرائع نے بھی تصدیق کر دی ہے۔

    خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران علی کوہ مردار پر معمول کی کلائمبنگ پریکٹس کرنے گئے تھے، پہاڑی پر کلائمبنگ کرتے ہوئے عمران علی اونچائی سے گر گئے۔

    راک کلائمبر عمران علی ہزارہ 360 وال کو عبور کرنے کے دوران اونچائی سے گرے، وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے ان کی موت پر اظہار افسوس کیا ہے۔

    نامور پاکستانی کوہ پیما علی رضا سدپارہ اسکردو میں انتقال کر گئے

    جوان کوہ پیما کی لاش عملدار روڈ منتقل کر دی گئی ہے، عمران علی راک کلائمبنگ میں اپنی پہچان بنانا چاہتے تھے، اور ان کی خواہش تھی کہ پاکستان کی تمام چوٹیاں سر کر لیں۔

    36 سالہ عمران علی کوئٹہ کے رہائشی تھے، ان کا تعلق بلوچستان کے ہزارہ قبیلے سے ہے جو ماڑی آباد میں رہائش پذیر ہے، گزشتہ برس سوشل میڈیا پر ان کی راک کلائمبنگ کی ایک خطرناک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، جس میں وہ چار شاخ پہاڑ پر چڑھ رہے تھے، اس پر انھیں نوٹس بھی ملا تھا۔

    واضح رہے کہ پہاڑی چٹانوں پر چڑھنا ایک انتہائی مشکل اور خطرناک کھیل سمجھا جاتا ہے، اس میں کلائمبر کھڑی چٹانوں کو سر کرتے ہیں اور وہ بھی اکثر کسی حفاظتی ساز و سامان کے، اس لیے گرنے کی صورت میں 99 فی صد موت ہی کا امکان ہوتا ہے۔

  • ابوظبی کے حکمران کے انتقال پر پاکستانی شخصیات کی جانب سے تعزیت

    ابوظبی کے حکمران کے انتقال پر پاکستانی شخصیات کی جانب سے تعزیت

    کراچی: قونصل جنرل یو اے ای نے ابوظبی کے حکمران کے انتقال پر تعزیت کرنے والے پاکستانی شخصیات کا شکریہ ادا کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قونصل جنرل یو اے ای بخیت عتیق الرمیثی نے متحدہ عرب امارات کے صدر اور ابوظبی کے حکمران شیخ خلیفہ بن زاید النہیان کے انتقال پر اظہار افسوس کرنے والے پاکستانیوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔

    شیخ خلیفہ بن زاید النہیان کے انتقال پر پوری مسلم امہ سوگ میں ہے، یو اے ای میں سوگ منایا گیا، پاکستان میں بھی اس پر سوگ اور بہت اظہار افسوس کیا جا رہا ہے۔

    پاکستانی حکمرانوں، سیاست دانوں، تاجروں اور دیگر شہریوں اور ارباب اختیار کی بڑی تعداد نے کراچی قونصلیٹ پہنچ کر اظہار افسوس کیا۔

    قونصل جنرل یو اے ای بخیت عتیق الرمیثی نے کہا میں وزیر اعلیٰ سندھ، گورنر سندھ، صوبائی وزرا، سردار قبیلے کے سربراہ اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، تاجروں اور دیگر شہریوں کا تہ دل سے مشکور ہوں، کہ وہ ہمارے اس دکھ میں شریک ہوئے اور اظہار افسوس کیا۔

  • نامور پاکستانی کوہ پیما علی رضا سدپارہ اسکردو میں انتقال کر گئے

    نامور پاکستانی کوہ پیما علی رضا سدپارہ اسکردو میں انتقال کر گئے

    اسکردو: نامور پاکستانی کوہ پیما علی رضا سدپارہ لگنے والی چوٹ سے جاں بر نہ ہو سکے اور اسکردو میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی کوہ پیما علی رضا سدپارہ کا انتقال ہو گیا، ان کی نماز جنازہ آج صبح 10 بجے اولڈِینگ امام بارگاہ میں ادا کی جائے گی۔

    علی رضا سدپارہ رواں ماہ پہاڑ سے گرنے کے باعث زخمی ہو گئے تھے اور گزشتہ ایک ہفتے سے ریجنل اسپتال اسکردو میں زیر علاج تھے، ان کی عمر 56 برس تھی۔

    سدپارہ نے 8 ہزار میٹر سے بلند 4 چوٹیوں سمیت 7 ہزار میٹر سے بلند پہاڑوں کو 17 بار سر کیا تھا، علی رضا نے رواں سال کے ٹو کی مہم جوئی پر جانا تھا۔

    کوہ پیما علی سدپارہ پہاڑ سے گر کر زخمی، ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی

    عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما 17 مئی کو صبح معمول کی پریکٹس کے دوران پہاڑ سے پھسل کر زخمی ہوئے تھے، آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر ناصر کا کہنا تھا کہ علی رضا سدپارہ کی ریڑھ کی ہڈی پر گہری چوٹ لگی ہے۔

    سیکریٹری الپائن کلب پاکستان کرار حیدری نے کہا تھا کہ سدپارہ پہاڑ سے پھسل کر کھائی میں جا گرے تھے، جس کے باعث ان کی ریڑھ کی ہڈی اور پسلیاں ٹوٹ گئیں۔

    چیف سیکریٹری گلگت بلتستان نے کہا کہ علی رضا سدپارہ کے کارناموں پر قوم کو فخر ہے۔

  • سعودی شہزادی انتقال کر گئیں

    سعودی شہزادی انتقال کر گئیں

    ریاض: سعودی عرب کی شہزادی لولوۃ بنت فہد بن عبدالعزیز آل سعود انتقال کر گئیں، شہزادی حدود شمالیہ کے گورنر شہزادہ فیصل بن خالد بن سلطان کی والدہ ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی ایوان شاہی نے کہا ہے کہ شہزادی لولوۃ بنت فہد بن عبدالعزیز آل سعود سوموار کے روز انتقال کرگئیں۔

    شہزادی لولوۃ بنت فہد کی نماز جنازہ منگل 19 اپریل کو عصر کے بعد امام ترکی بن عبد اللہ جامع مسجد ریاض میں ادا کی جائے گی۔

    شہزادی لولوۃ بنت فہد حدود شمالیہ کے گورنر شہزادہ فیصل بن خالد بن سلطان کی والدہ ہیں، شاہی خاندان کے افراد، مقامی عہدیداروں اور عوام نے شاہی خاندان خصوصاً گورنر حدود شمالیہ سے اظہار تعزیت کیا ہے۔

  • نسلہ ٹاور کے مالک کا انتقال

    نسلہ ٹاور کے مالک کا انتقال

    کراچی: نسلہ ٹاور کے مالک عبدالقادر کاٹیلیا انتقال کر گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں سپریم کورٹ کے حکم پر مسمار کیےگئے نسلہ ٹاور کے بلڈر عبدالقادر انتقال کرگئے، عبدالقادر کاٹیلیا آغا خان اسپتال میں زیر علاج تھے۔

    عبدالقادر کاٹیلیا کی نماز جنازہ آج پیر کو بعد نماز عشا ادا کی جائے گی۔

    واضح رہے کہ عدالتی حکم پر کراچی میں نسلہ ٹاور کے انہدام نے تعمیراتی شعبے کو سخت خدشات سے دوچار کیا تھا، اور تعمیرات سے متعلقہ سرکاری اداروں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی لگا۔

    ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے ترجمان نے نسلہ ٹاور کے بلڈر عبدالقادر کاٹیلیا کے انتقال کی اطلاع دی۔

    یاد رہے کہ 5 فروری کو سپریم کورٹ کے حکم پر کثیر المنزلہ عمارت نسلہ ٹاور کو 69 روز بعد مکمل طور پر مسمار کیا گیا، سپریم کورٹ کے حکم پر 22 نومبر 2021 کو نسلہ ٹاور کو توڑنے کا کام شروع کیا گیا تھا۔

    اس سے قبل 28 جون 2021 کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد نے نسلہ ٹاور کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے گرانے کا حکم دیا تھا، جب کہ بلڈر اور رہائشیوں کی جانب سے دائر تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔

    نسلہ ٹاور کو مکمل طور پر مسمار کر دیا گیا

    سندھ حکومت کو بھیجی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 30 جولائی 2013 کو ایس بی سی اے نے اس 15 منزلہ بلڈنگ کے تعمیراتی پلان کی منظوری دی تھی، اور اس وقت ڈی جی ایس بی سی اے منظور قادر عرف کاکا تھے۔

    رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مختار کار فیروز آباد نے اضافی رقبہ پلاٹ میں شامل کرنے کی منظوری دی، نسلہ ٹاور کا 780 گز کا پلاٹ سندھی مسلم سوسائٹی نے 1951 میں الاٹ کیا تھا، اور چیف کمشنر کراچی نے 1957 میں مذکورہ پلاٹ میں 264 گز اضافے کی منظوری دی تھی۔

    رپورٹ کے مطابق 1980 میں شارع فیصل کے دونوں جانب 20 فٹ کا رقبہ پلاٹس میں شامل کر دیاگیا، پھر شاہراہ قائدین فلائی اوور تعمیر کے دوران 77 فٹ رقبہ پلاٹ میں شامل کیا گیا، اور اضافے کے بعد نسلہ ٹاور کا پلاٹ بڑھ کر 1121 مربع گز ہوگیا۔

  • مشہور قوال انتقال کر گئے

    مشہور قوال انتقال کر گئے

    کراچی: مشہور قوال زمان ذکی تاجی کراچی میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک کے مشہور قوال زمان ذکی تاجی کراچی کے آغا خان اسپتال میں انتقال کر گئے۔

    زماں ذکی تاجی گزشتہ کئی ماہ سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے، اچانک طبعیت ناساز ہونے پر انھیں اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکے۔

    بین الاقوامی شہرت یافتہ قوال زماں ذکی تاجی کی نماز جنازہ بروز پیر بعد نماز ظہر مسجد الانا شو مارکیٹ پر ادا کی جائے گی۔

    زمان ذکی تاجی کی مشہور قوالیوں میں ہمیں تو مست کیا، یہ نظر میرے ییر کی، اور روبرو یار شامل ہیں۔ زمان ذکی پاکستان کے مشہور قوال ذکی تاجی کے بیٹے تھے، انھیں تمغاے امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • سعودی شاہی خاندان کے اہم فرد کا انتقال

    سعودی شاہی خاندان کے اہم فرد کا انتقال

    ریاض: ایوان شاہی کا کہنا ہے کہ شہزادہ فیصل بن خالد بن فہد بن ناصر بن عبدالعزیز انتقال کر گئے ہیں، وہ عمر کے تیسرے عشرے میں تھے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق شہزادہ فیصل بن خالد بن فہد بن ناصر بن عبدالعزیز انتقال کر گئے ہیں، نماز جنازہ امام ترکی بن عبداللہ جامع مسجد ریاض میں ادا کی گئی۔

    نماز جنازہ میں نائب گورنر ریاض شہزادہ محمد بن عبدالرحمٰن، مملکت کے مفتی اعلیٰ شیخ عبد العزیز آل الشیخ، شہزادہ ترکی الفیصل، شہزادہ فیصل کے والد شہزادہ خالد بن فہد بن ناصر، متوفی کے بھائی شہزادہ فہد بن خالد، شاہی خاندان کے دیگر افراد، اعلیٰ عہدیدار اور عوام کے جم غفیر نے شرکت کی۔

    شہزادہ فیصل عمر کے تیسرے عشرے میں تھے، انہوں نے متعدد ریاستی عہدوں پر کام کیا جبکہ وہ بین الاقوامی یونیورسٹی سے سند یافتہ تھے۔

  • سعودی شہزادی کا انتقال

    سعودی شہزادی کا انتقال

    ریاض: ایوان شاہی کا کہنا ہے کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز کی قریبی رشتہ دار اور شہزادی لولوۃ بنت عبدالرحمٰن بن عبدالعزیز کی والدہ سعودی شہزادی منیرۃ السدیری کا انتقال ہوگیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی شہزادی منیرۃ السدیری کی نماز جنازہ امام ترکی بن عبداللہ جامع مسجد ریاض میں جمعے کو ادا کی گئی ہے۔

    شہزادی منیرہ، شہزادی لولوۃ بنت عبدالرحمٰن بن عبد العزیز کی والدہ اور شاہ سلمان بن عبد العزیز کی قریبی رشتہ دار تھیں۔

    نائب گورنر ریاض شہزادہ محمد بن عبد الرحمٰن، مفتی اعلیٰ شیخ عبد العزیز آل الشیخ، شاہی خاندان کے افراد، اعلیٰ عہدیدار اور شہریوں کی بڑی تعداد نماز جنازہ میں شریک تھی۔

    شہزادی منیرۃ السدیری، شاہ سلمان کے بھائی شہزادہ عبد الرحمٰن بن عبد العزیز کی اہلیہ تھیں۔

  • ممتاز مستشرق اور اردو زبان و ادب کی دلدادہ این میری شمل کا تذکرہ

    ممتاز مستشرق اور اردو زبان و ادب کی دلدادہ این میری شمل کا تذکرہ

    ممتاز مستشرق، ماہرِ اقبالیات اور جرمن اسکالر ڈاکٹر این میری شمل کو برصغیر پاک و ہند میں اردو زبان سے ان کی محبّت اور شعر و ادب سے لگاؤ کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے مضمون نگاری کے ساتھ اردو زبان کے کئی ادبا اور شعرا کی تخلیقات کا جرمن میں ترجمہ کیا۔

    ڈاکٹر این میری شمل کا تعلق جرمنی سے تھا۔ وہ 1922ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ 19 سال کی عمر میں انھوں نے ‘مملوک خاندان کے مصر میں خلیفہ اور قاضی کا مقام’ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ این میری شمل نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ وہ جرمن اور انگریزی زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔

    اس جرمن مستشرق نے پاکستان کے ممتاز ادیب اور مؤرخ و محقق پیر علی محمد راشدی، پیر حسامُ الدّین راشدی، غلام ربانی آگرو اور جمال ابڑو کی تصانیف کو بھی جرمن زبان میں منتقل کیا تھا۔

    وہ کئی کتابوں‌ کی مصنّف تھیں۔ مسلم ممالک کی تاریخ اور تہذیب سے لے کر شعر و سخن تک این میری شمل کی کاوشوں سے جرمن زبان میں‌ کئی کتابیں منتقل ہوئیں اور یہ کام ان کی لگن و محنت کا نتیجہ تھا‌۔ تاہم ان پر تنقید بھی جاتی ہے جس کی وجہ اہلِ زبان نہ ہونے کے سبب ان کی تحریروں میں‌ اغلاط یا کمی بیشی ہے، اس کے باوجود ان کے کام کو اہمیت دی گئی ہے وہ پاکستان کی مقامی زبانوں‌ سے بھی واقف تھیں‌ جن میں‌ سندھی، پنجابی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ تصوف اور اسلامی تعلیمات میں ان کی دل چسپی بہت زیادہ تھی اور انھوں نے مسلمان صوفی شعرا اور علما کی کتب کا بھی مطالعہ کیا۔

    وہ متعدد بار پاکستان آئیں جہاں علمی و ادبی سرگرمیوں میں وقت گزارا۔ ڈاکٹر شمل 1992ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ انھوں نے کئی کتابیں ایسے موضوعات پر لکھیں جن پر خود مسلمان اسکالروں نے بہت زیادہ نہیں لکھا تھا۔

    ان کی زندگی کا سفر 26 جنوری 2003ء کو تمام ہوا۔ جہانِ ادب اور سرکاری سطح پر بھی علمی و ادبی کاوشوں کے اعتراف میں انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ لاہور میں ایک شاہ راہ بھی ان کے نام سے موسوم ہے۔

  • مغل شہنشاہ نصیر الدّین ہمایوں، موٹو اور اس کی بھینس!

    مغل شہنشاہ نصیر الدّین ہمایوں، موٹو اور اس کی بھینس!

    نصیر الدّین ہمایوں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدّین بابر کا بیٹا تھا۔ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد تخت پر شہنشاہِ‌ ہند کی حیثیت سے تخت نشیں ہوا۔

    وہ 1508ء میں‌ پیدا ہوا تھا۔ اس کی ماں کا نام ماہم بیگم تھا۔ ہمایوں نے ترکی، فارسی اور عربی زبانوں کی تعلیم حاصل کی۔ وہ فلسفہ، علمِ نجوم و فلکیات میں خصوصی دل چسپی رکھا تھا۔ 20 سال کی عمر میں وہ بدخشاں کا گورنر مقرر ہوا اور فوج کے ساتھ لڑائیوں میں بھی شریک رہا۔ 1530ء میں‌ وہ شہنشاہِ‌ ہند بنا، لیکن سلطنت کو سنبھال نہ سکا۔ اس کے مختلف اسباب ہیں۔ ہمایوں 1556ء میں‌ آج ہی کے دن اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگیا تھا۔

    کہتے ہیں اس کی موت سیڑھیوں سے گرنے کے سبب واقع ہوئی تھی۔ اسی مناسبت سے مشہور یورپی مؤرخ لین پول نے لکھا،“ اس نے تمام عمر ٹھوکریں کھائیں اور بالآخر ٹھوکر کھا کر مرا۔“ یہاں‌ ہم اردو کے ممتاز نقّاد اور ادیب شکیل الرّحمٰن کی نصیر الدّین ہمایوں سے متعلق ایک کہانی نقل کررہے ہیں جو دراصل بچّوں کے لیے لکھی گئی تھی۔ انھوں نے ہندوستان کے کئی بادشاہوں سے متعلق واقعات کو بچّوں کے لیے نہایت دل چسپ انداز میں رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ہندوستان کے مشہور مغل بادشاہ ہمایوں کی امّاں کا نام ماہم بیگم تھا، ہمایوں کے والد شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی رفیقۂ حیات کو شادی کے بعد ہی سے ماہم کہنا شروع کر دیا تھا یعنی ’چاند۔’ بہت ہی خوب صورت تھیں نا ہمایوں کی امّاں، اسی لیے! ننھا ہمایوں بیمار ہوتا تو لگتا امّاں بی خود بیمار ہو گئی ہیں، دن رات اپنے پیارے بیٹے کی دیکھ بھال کرتی تھیں، آگرہ کے لوگ ماہم بیگم کی بہت عزّت کرتے تھے اور سب اُنھیں پیار سے امّاں کہتے تھے۔

    امّاں ماہم بیگم بھی شہر کے لوگوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ہر تہوار پر، وہ تہوار ہندوؤں کا ہو یا مسلمانوں کا، پورے قلعے پر چراغ روشن کراتیں، مٹھائیاں تقسیم کراتیں، شہر بھر کے بچّوں کو بلاتیں تاکہ وہ ننّھے ہمایوں کے پاس آ کر کھیلیں اور خوب مٹھائیاں کھائیں۔

    اماّں ماہم بیگم کو بچّوں سے بے حد پیار تھا، قلعے میں جو بچّے آتے اُن میں ایک بہت ہی پیارا سا بچّہ تھا موٹو۔ بہت موٹا تھا اور خوب کھاتا تھا اسی لیے اس کا نام موٹو ہو گیا تھا۔ امّاں ماہم بیگم اور ہمایوں دونوں موٹو کو بہت پسند کرتے تھے۔ ننھّا موٹو اکثر آتا اور ہمایوں کے ساتھ کھیلتا، دونوں دوست بن گئے تھے۔ ہاں، ہمایوں اکثر کہتا ’’موٹو کھانا کم کھایا کر ورنہ پیٹ پھٹ جائے گا۔‘‘

    موٹو کے باپ کا نام ہیرا تھا جو دودھ فروخت کیا کرتا تھا اور اُسی سے گزارا کرتا تھا، ننھّے موٹو کی سب سے اچھی سواری بھینس تھی، وہ دن بھر بھینس کے اوپر بیٹھ کر اپنے پتا جی کی بھینسوں کو چراتا تھا، ندی پار جو کھیت تھا موٹو وہیں اپنی بھینسوں کو چراتا تھا اور ننّھا ہمایوں اور اس کی امّاں ماہم بیگم دونوں قلعے کے اوپر سے بہت دور سے اسے دیکھتے اور خوش ہوتے تھے۔ موٹو کو قلعے میں اتنا پیار ملا کہ اس کے آنے جانے کی کسی قسم کی رکاوٹ نہ تھی۔ وہ جب چاہتا ننھّے ہمایوں سے ملنے آ جاتا، امّاں ماہم بیگم اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتیں، اسی طرح کہ جس طرح اپنے بیٹے ہمایوں کو کھلاتی تھیں۔

    آہستہ آہستہ ہمایوں اور موٹو دونوں بڑے ہوتے گئے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا، ایک دن ہمایوں نے ضد کی کہ وہ موٹو کے ساتھ کھیت پر جائے گا اور موٹو کی طرح کسی بھینس پر بیٹھے گا۔ ہمایوں شہزادہ تھا۔ بہت اچھا گھڑ سوار بن رہا تھا، لیکن بھینس پر بھی بیٹھنا چاہتا تھا۔ امّاں ماہم بیگم نے اجازت دے دی، ہمایوں بہت خوش ہو گیا۔ چند سپاہیوں کی نگرانی میں کھیت پر پہنچا۔ موٹو اپنی بھینس پر لیٹا مستی مار رہا تھا۔ موٹو ہمایوں کو دیکھ کر بہت خوش ہو گیا۔ بھینس سے نیچے اتر آیا اور سپاہیوں کی مدد سے ہمایوں بھینس پر چڑھ گیا۔ اب تو اس کی خوشی مت پوچھو، اسے یہ سواری بہت اچھی لگ رہی تھی۔ موٹو دوسری بھینس پر بیٹھ گیا اور دونوں مست کھیلتے رہے۔ جب خوب کھیل چکے تو اپنی اپنی بھینسوں سے نیچے اترے۔

    ایسا ہوا بچّو کہ ہمایوں جیسے نیچے اترا ایک زہریلے سانپ نے اسے ڈس لیا اور ہمایوں کی حالت خراب ہونے لگی۔ سپاہیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ موٹو نے جب اپنے دوست کی یہ حالت دیکھی تو فوراً اپنی قمیص پھاڑ ڈالی اور ہمایوں کی ٹانگ پر زخم کے اوپر نیچے دو پٹیاں کس کر باندھ دیں تاکہ زہر نہ پھیلے۔ موٹو کی تیزی اور چستی دیکھ کر سپاہی بھی حیران رہ گئے۔

    ہمایوں کو قلعہ لایا گیا۔ موٹو بھی ساتھ ساتھ آیا۔ شاہی حکیم صاحب آئے، انھوں نے علاج کیا اور ہمایوں اچھا ہو گیا۔ شاہی حکیم صاحب نے امّاں ماہم بیگم سے کہا ’’اگر موٹو نے اس وقت ہمایوں کے پاؤں پر پٹیاں نہ باندھی ہوتیں تو زہر پورے جسم میں پھیل جاتا۔ یہ بھینس والا موٹو بہت ذہین اور ہوشیار ہے۔‘‘

    امّاں ماہم بیگم اور شہنشاہ بابر دونوں موٹو سے بہت خوش ہوئے۔ موٹو کو اپنے قلعے میں رکھ لیا، اس کی تعلیم تربیت کا انتظام کیا اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھنا شروع کیا۔

    جب شہنشاہ بابر کا انتقال ہو گیا اور ہمایوں بادشاہ بنا تو امّاں ماہم بیگم نے ہمایوں کو یاد دلایا کہ کس طرح کھیت میں ناگ نے اسے کاٹا تھا اور کس طرح موٹو نے پٹیاں باندھ کر اس کی زندگی بچائی تھی۔ ہمایوں کو واقعہ یاد تھا، وہ موٹو کو بہت پیار کرتا تھا اور اسے اپنا دوست سمجھتا تھا۔ ہمایوں نے پوچھا ’’امّاں بیگم میں موٹو کے لیے کیا کروں؟‘‘

    امّاں بیگم نے کہا، ’’موٹو کو اپنا ذاتی سپہ سالار بنا لو، وہ تمھارا سچّا دوست ہے۔‘‘

    ہمایوں نے فوراً حکم نامہ جاری کیا۔ موٹو شہنشاہ ہمایوں کا ذاتی سپہ سالار بن گیا۔ امّاں بیگم بہت خوش ہوئیں اور اپنے دونوں بیٹوں کو خوب پیار کیا۔

    ہمایوں نے موٹو سے کہا، ’’دیکھو موٹو کھانا زیادہ کھاؤ گے تو اور بھی موٹے ہو جاؤ گے، دوڑ میں سپاہی آگے نکل جائیں گے اور سپہ سالار پیچھے رہ جائے گا۔‘‘ سب ہنسنے لگے۔

    جانتے ہو بچوّ، یہی موٹو سپہ سالار بساون کے نام سے مشہور ہوا اور جانے کتنے دشمنوں کو شاہی فوج کا سردار بن کر شکست دی۔ ہمایوں اور بساون عرف موٹو کے پیار کی کہانی بھلا کون بھول سکتا ہے!