Tag: انتقال

  • پاکستان کے نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    شاکر علی پاکستان کے ممتاز مصوّر تھے جو 27 جنوری 1975ء کو اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئے۔ انھیں پاکستان میں تجریدی مصوّری کا بانی کہا جاتا ہے۔ شاکر علی خطّاطی کے فن میں جدّت اور اپنے تجربات کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

    نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے شاکر علی کا وطن رام پور تھا جہاں انھوں نے 6 مارچ 1914ء کو آنکھ کھولی۔ مصوّری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس، بمبئی سے حاصل کی اور بعد میں برطانیہ سے فن مصوّری کا تین سالہ کورس مکمل کیا۔ مصوّری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ وہ کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصوّر آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے زیرِ تربیت بھی رہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

    1951ء میں پاکستان آنے کے بعد شاکر علی لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور اپنی وفات سے دو برس قبل تک 1973ء اسی عہدے پر فائز رہے۔

    شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارنے کا جو سلسلہ شروع کیا اس سے متاثر ہوکر پاکستان کے دیگر نام ور مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور اس فن کو بامِ عروج تک پہنچایا۔

    پاکستان کے اس نام ور مصور اور خطّاط کی رفاقت میں گزرے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے ایک جگہ ڈاکٹر محمد اجمل لکھتے ہیں: ’’یہ مجھے یاد ہے کہ شاکر علی سے میری پہلی ملاقات غالباً 1949ء میں لندن میں ہوئی تھی۔ یہ بھی مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر مقبول احمد اور مسعود کے توسط سے ہوئی تھی، لیکن بہت جلدی واسطے پیچھے رہ گئے اور بلاواسطہ ہم دوست بن گئے۔

    شاکر علی کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی معصومیت اور بے تکلفی تھی، جو صرف غالباً صحیح اور فطری فن کاروں میں ہوتی ہے۔ جب وہ سلیڈ اسکول میں پڑھتے تھے تو اکثر مجھے اپنے کمرے میں لے جاتے کہ میں ان کی نئی تصویر دیکھوں۔ جب وہ مجھے تصویر دکھاتے تو ان کے چہرے پر خوشی کی ایک سرخ موج دوڑ جاتی اور آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہو جاتی۔ بعض اوقات میں تعریف کے ساتھ کوئی تنقیدی فقرہ بھی کہہ دیتا تو وہ کہتے ”یار کہتے تو تم ٹھیک ہو لیکن یہ مجھے اسی طرح اچھی لگتی ہے۔“

    ان سے پوچھتے کہ فن کیا ہوتا ہے؟ فن کار کیا ہوتا ہے تو ان کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا اور وہ کوئی جواب نہ دیتے یا یہ کہہ دیتے، ”یار مجھے نہیں معلوم۔“

    حکومتِ پاکستان نے شاکر علی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا جب کہ 1971ء میں انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔

    شاکر علی لاہور کے گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • مقبول امریکی کامیڈین کا 100 برس مکمل ہونے سے چند ہی دن قبل انتقال

    مقبول امریکی کامیڈین کا 100 برس مکمل ہونے سے چند ہی دن قبل انتقال

    لاس اینجلس: مقبول امریکی کامیڈین بیٹی وائٹ 100 برس مکمل ہونے سے چند ہی دن قبل انتقال کر گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق مشہور امریکی کامیڈین بیٹی وائٹ گزشتہ روز اپنے گھر پر صبح کے وقت انتقال کر گئیں، 17 جنوری کو ان کے سو برس مکمل ہونے والے تھے۔

    مشہور کامیڈی سٹ کامز ‘دی گولڈن گرلز’ اور ‘دی میری ٹائلر مور شو’ میں اپنی اداکاری سے ٹی وی ناظرین کو محظوظ کرنے والی کامیڈین بیٹی وائٹ کا شوبز کی تاریخ کا طویل ترین کیریئر رہا۔

    بیٹی وائٹ نے کم و بیش 7 دہائیوں تک کام کیا، انھوں نے ٹی وی کیریئر کا آغاز 1949 میں کیا تھا اور 2019 میں "ٹوائے اسٹوری 4” میں ایک کردار کے لیے اپنی آواز دی۔

    امریکی صدر جو بائیڈن نے کامیڈین بیٹی وائٹ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ‘بیٹی وائٹ امریکیوں کی نسلوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لے کر آئیں، وہ ایک ثقافتی آئیکون ہیں جن کی بہت کمی محسوس کی جائے گی۔’

    اپنی موت سے محض دو دن قبل 28 دسمبر کو بیٹی وائٹ نے اپنا آخری ٹوئٹ کیا، جس میں انھوں نے لکھا کہ مجھے یقین نہیں ہو رہا کہ میری سوویں سال گرہ آ رہی ہے، پیپلز میگزین میری سال گرہ منائے گا۔

  • محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان انتقال کر گئے

    محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان انتقال کر گئے

    راولپنڈی: ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان انتقال کر گئے، ان کی عمر 85 سال تھی اور طبیعت کافی عرصے سے ناساز تھی۔

    تفصیلات کے مطابق ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان 85 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، ڈاکٹر عبدالقدیر کو طبیعت انتہائی ناساز ہونے پر اسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا۔

    خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کی نماز جنازہ آج فیصل مسجد میں ادا کی جائے گی جبکہ ان کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق سیکٹر ایچ 8 قبرستان میں کی جائے گی۔

    خاندانی ذرائع کے مطابق ڈاکٹرعبد القدیر خان کچھ ہفتے پہلے کرونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے، وہ پہلے الشفا اسپتال اس کے بعد ملٹری اسپتال میں زیر علاج رہے۔

    ڈاکٹر قدیر کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کی گئی تھیں اور کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے کے بعد وہ گھر منتقل ہوگئے تھے۔ گزشتہ رات ڈاکٹر عبد القدیر خان کی طبیعت اچانک خراب ہوئی جس کے بعد انہیں کے آر ایل اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

    ڈاکٹر عبد القدیر خان یکم اپریل 1936 میں بھوپال میں پیدا ہوئے تھے، سنہ 1952 میں وہ خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے کراچی آگئے۔

    ڈاکٹر عبد القدیر خان نے سنہ 1976 میں ایٹمی پروگرام پر کام شروع کیا، انہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی انتھک محنت کی بدولت 28 مئی 1998 میں پاکستان نے کامیاب ایٹمی تجربہ کیا۔

    ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستان میں قومی ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں، ان کی شاندار خدمات پر انہیں نشان امتیاز اور ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

  • اختر شیرانی: شاعرِ رومان جو خرابات کی نذر ہو گیا

    اختر شیرانی: شاعرِ رومان جو خرابات کی نذر ہو گیا

    محمد داؤد خان کو جہانِ شعروسخن میں اختر شیرانی کے نام سے شہرت اور رومانوی نظموں کی بدولت بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ مولانا تاجور نجیب آبادی کے شاگرد تھے۔

    ’’اے عشق کہیں لے چل‘‘ ، ’’او دیس سے آنے والے بتا‘‘ اور ’’ اے عشق ہمیں برباد نہ کر‘‘ وہ نظمیں تھیں جنھوں نے اختر شیرانی کو شاعرِ رومان مشہور کردیا۔

    اختر شیرانی 4 مئی 1905ء کو ریاست ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہوئے۔ وہ اردو کے نام وَر محقّق اور عالم فاضل شخصیت جناب حافظ محمود خان شیرانی کے فرزند تھے۔ اختر شیرانی کی زندگی کا بیشتر حصّہ لاہور میں بسر ہوا۔ انھوں نے کئی ادبی جرائد کی ادارت کے ساتھ اپنی شاعری کی بدولت اردو ادب میں نام و مقام بنایا۔

    انھوں نے شاعری کے ساتھ نثر بھی لکھی، کئی کالم اور حکایات کے تراجم کے علاوہ اختر شیرانی نے بچّوں کا بھی ادب تخلیق کیا جس سے ان کا افادی ادب سے متعلق فکر اور رجحان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اختر شیرانی عشق اور مے نوشی کے سبب بدنام بھی بہت ہوئے۔ والد کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر معاشرے میں مقام اور کوئی باعزّت پیشہ و ملازمت اختیار کریں، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ کثرتِ شراب نوشی ہی ان کی ناگہانی موت کا باعث بنی۔ وہ کم عمری میں دنیا چھوڑ گئے۔

    اختر شیرانی کا پہلا مجموعہ کلام "پھولوں کے گیت” بچّوں کی نظموں پر مشتمل تھا۔ دوسرے مجموعہ کلام ” نغمۂ حرم” میں عورتوں اور بچّوں کے لیے نظمیں شامل ہیں۔ بڑی محنت اور تحقیق سے مختلف حکایات کو اردو کا جامہ پہنایا۔ ترکی کے ایک نگار کی کہانی کا ضحاک کے نام سے اردو ترجمہ کیا۔

    اختر شیرانی نے ہیئت میں بھی تجربات کیے۔ انھوں نے پنجابی سے ماہیا، ہندی سے گیت اور انگریزی سے سانیٹ کو اپنی شاعری میں کثرت سے برتا۔ رباعیات بھی کہیں، اور غزلیں بھی تاہم ان کی نظموں کو زیادہ پڑھا اور پسند کیا گیا۔

    رومانی نظم نگار کی حیثیت سے مشہور ہونے والے اختر شیرانی کے شعری مجموعوں میں غزلوں کی بھی کمی نہیں۔ تاہم انھیں غزل شاعر کے طور پر نہیں جانا جاتا۔

    ان کے شعری مجموعوں میں اخترستان، شعرستان، شہناز، جہاں ریحانہ رہتی ہے، صبحِ بہار، طیور آوارہ اور لالۂ طور سرِفہرست ہیں۔

    اختر شیرانی 9 ستمبر 1948ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ان کا یہ شعر خیال آفرینی کی بہترین مثال ہے۔

    چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچّھے
    بہار آ کے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

  • مغرب زدہ طبقے اور معاشرے کی اصلاح کرنے والے شاعر اکبر الٰہ آبادی کی برسی

    مغرب زدہ طبقے اور معاشرے کی اصلاح کرنے والے شاعر اکبر الٰہ آبادی کی برسی

    اکبر الٰہ ابادی اردو شاعری میں اپنے طنز و مزاح پر مبنی کلام کی بدولت ہی مشہور نہیں تھے بلکہ انھیں اپنے زمانے کا ایک مفکّر، مدبّر اور مصلح بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

    اکبر الٰہ آبادی کے دور میں نہ صرف مشرقیت پر بلکہ اسلامیت پر بھی مغربی رنگ غلبہ پا رہا تھا۔ اس دور میں قوم و ملّت کی اصلاح کی اشد ضرورت تھی، اکابرین چاہتے تھے کہ لوگ اپنی اسلامی روایات پر قائم رہتے ہوئے اپنی تہذیب اور ثقافت کو اہمیت دیں۔ انہی میں اکبر بھی شامل تھے۔ مغربیت کے اس غلبے کے خلاف اکبر الٰہ آبادی نے شاعری سے مدد لی۔

    آج اردو زبان کے اس مشہور شاعر کا یومَِ وفات ہے۔ وہ 1921ء کو آج ہی دن دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اکبر کی شاعری اخلاقی، سیاسی، تہذیبی شعور اور زندگی کا آئینہ سمجھی جاتی ہے۔ وہ واعظ بھی تھے، مصلح بھی، نقّاد بھی، نکتہ چیں بھی۔ انھیں ان کی روایت اور جدّت پسندانہ سوچ کے ساتھ ایک انقلابی اور باغی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

    اکبر کو اس دور کے خواص اور عوام دونوں نے سندِ قبولیت بخشی۔ اکبر نے اپنے کلام کے ذریعے اس دور میں‌ سبھی کی گویا خبر لی، اور کسی سے مرعوب ہوئے۔ وہ حق بات کہنے سے نہ گھبرائے اور اس معاملے میں کسی کے عہدے مرتبے کا لحاظ بھی نہ کیا۔

    یہاں ہم اکبر سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس سے اس دور میں ان کی حیثیت و مرتبے اور شہرت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اکبر الہ آبادی کی شہرت اور ان کی مقبولیت نے جہاں‌ کئی حاسد پیدا کیے، وہیں بہت سے لوگوں نے ان کی شاگردی کا دعویٰ کرکے دوسروں کی نظر میں خود کو مستند اور معتبر منوانا چاہا۔

    ایک صاحب کو دور کی سوجھی۔ انھوں نے خود کو اکبر کا استاد مشہور کر دیا۔ کسی طرح یہ بات اکبر کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ ان تک اطلاع پہنچی کہ حیدرآباد میں ان کے ایک استاد کا ظہور ہوا ہے، تو ایک روز اپنے دوستوں اور مداحوں کی محفل میں فرمایا،

    ’’ہاں مولوی صاحب کا ارشاد سچ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک مولوی صاحب الہ آباد میں تھے۔ وہ مجھے علم سکھاتے تھے اور میں انہیں عقل، مگر دونوں ناکام رہے۔ نہ مولوی صاحب کو عقل آئی اور نہ مجھ کو علم۔‘‘

    آج بھی جب ہم اکبر الٰہ آبادی کے اشعار پڑھتے ہیں تو مسکرانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اگر ان کی شاعری کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کریں تو شرمندگی بھی محسوس کرتے ہیں۔

    اکبر الہ آبادی کا اصل نام سیّد اکبر حسین تھا۔ انھوں نے 16 نومبر 1846ء کو آنکھ کھولی۔ اپنے وطن کی نسبت نام سے لاحقہ جوڑا اور اکبر الٰہ آبادی کہلائے۔ ابتدائی اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد وکالت پڑھی اور امتحان پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ مقدمات لڑے اور پھر جج کے منصب تک پہنچے۔ اس دوران انھوں نے سماج کے مختلف روپ بھی دیکھے اور ہندوستان میں‌ انگریزوں کی آمد کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول اور تہذیب و ثقافت پر مغربیت کا غلبہ تو دیکھ ہی رہے تھے۔ سو، ان کی شاعری نے اصلاح اور طنز کا انداز اپنا لیا۔

    انھوں‌ نے اپنی شاعری سے اصلاحِ معاشرہ کا وہی کام لیا جو اس دور میں سر سیّد احمد خان اور علاّمہ اقبال جیسی شخصیتوں کا شیوہ رہا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اکثر سماجی برائیوں، مغربی تہذیب اور لادینیت کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کیا اور نئی تہذیب یا مغربیت کے دلدادگان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تاہم ان کی اس طرزِ شاعری میں کوشش یہ تھی کہ لوگوں کا وقار اور انا مجروح نہ ہو اور وہ اپنا محاسبہ بھی کریں‌۔ ان کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور آج بھی ہماری اخلاقی اور معاشرتی خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اصلاح کرتے ہیں۔

    لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
    مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

    ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
    کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

    چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
    شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
    چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
    کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا

  • پاکستان کے نامور موسیقار وزیر افضل انتقال کر گئے

    پاکستان کے نامور موسیقار وزیر افضل انتقال کر گئے

    لاہور: نامور موسیقار وزیر افضل طویل علالت کے بعد آج صبح انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے نامور میوزیشن وزیر افضل 87 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے، ان کی نماز جنازہ سمن آباد، مسجد شاہ خراسان میں ادا کی گئی، اور مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

    ان کی نماز جنازہ میں میوزک انڈسٹری سے وابستہ افراد سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد نے شرکت کی۔

    موسیقار وزیر افضل طویل عرصے سے بیمار تھے، انھیں گردوں اور شوگر جیسے موذی امراض لاحق تھے۔

    وزیر افضل پاکستان کے نامور فلمی موسیقار خواجہ خورشید انور کے شاگرد تھے، انھوں نے پاکستان فلم انڈسٹری کی 73 سے زائد فلموں کے 209 گانوں کی موسیقی دی۔

    کہندے نیں نیناں، تیرے کول رہنا جیسا شاہکار گیت موسیقار وزیر افضل کے فلمی کیرئیر کا سب سے مقبول ترین گیت تھا۔ ان کے دیگر مشہور نغمات میں سیو نے میراے دل دا جانی، تو قرار میرا پیا میرے جانیا اور سات سروں کا بہتا دریا تیرے نام سر فہرست ہیں۔

    وزیر افضل نے جن فلموں کی موسیقی دی ان میں یار مستانے، دل دا جانی، جمع جنج نال، سوہنا، دو مٹیاراں، اور زمین شامل ہیں، جب کہ گلوکارہ نور جہاں نے ان کی موسیقی میں بے شمار ہٹ نغمے گائے۔ گلوکار مسعود رانا، مہدی حسن، ترنم ناز سمیت متعدد نامور گلوکاروں نے ان کی دی ہوئی موسیقی میں گانے اور غزلیں پیش کیں۔

    حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں 14 اگست 2010 کو انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔

  • طلعت اقبال کی صاحب زادی سارہ کا انتقال

    طلعت اقبال کی صاحب زادی سارہ کا انتقال

    کراچی: ٹی وی اور فلم کے معروف اداکار طلعت اقبال کی بیٹی سارہ انتقال کر گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق سارہ طلعت طویل علالت کے بعد آج انتقال کر گئیں، سارہ ماضی کی مقبول ترین اداکار جوڑی طلعت اقبال اور سنبل طلعت کی صاحب زادی تھیں۔

    یاد رہے کہ سارہ کی والدہ سنبل کا انتقال 2014 میں امریکی ریاست ٹیکساس میں ہوا تھا، انھیں کینسر کا موذی مرض لاحق تھا۔ سنبل طلعت ٹی وی پر اپنے کام کے حوالے سے مشہور تھیں۔

    سارہ کے والد طلعت اقبال نے 1968 میں شوبز میں کام شروع کیا تھا، ٹی وی ڈراموں کے ساتھ فلموں میں بھی اداکاری کی، انھوں نے اپنے وقت کی تمام اچھی اداکاراؤں روحی بانو، شبنم، بابرہ شریف، دیبا بیگم اور خالدہ ریاست کے ساتھ اداکاری کی۔

    پاکستان کی معروف اور سینیئر اداکارہ دردانہ بٹ انتقال کر گئیں

    2017 میں طلعت اقبال جب پاکستان آئے تھے تو آرٹس کونسل کراچی نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی تھی، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ آج بھی لوگ ان سے اتنا پیار کرتے ہیں۔

    طلعت اقبال نے کہا میرا دل بہت کرتا ہے کہ میں پاکستان میں رہوں اور ڈراموں میں کام کروں اس لیے میں نے لوگوں کے اصرار پر فیصلہ کیا ہے کہ کچھ عرصہ پاکستان میں رہوں گا اور اداکاری بھی کرں گا، تاہم اس کا موقع نہ مل سکا۔

  • بزرگ بلوچ رہنما سردار عطا اللہ مینگل انتقال کر گئے

    بزرگ بلوچ رہنما سردار عطا اللہ مینگل انتقال کر گئے

    کوئٹہ: بزرگ بلوچ رہنما سردار عطا اللہ مینگل انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق سردار عطا اللہ مینگل کا انتقال ہو گیا، ان کی عمر 93 سال تھی، وہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے، اور ایک نجی اسپتال میں گزشتہ کچھ دنوں سے زیر علاج تھے۔

    بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ نے قوم پرست رہنما سردار عطا اللہ مینگل کے انتقال کی تصدیق کر دی۔

    آغا حسن کے مطابق عطا اللہ مینگل کی طبیعت زیادہ بگڑنے پر انھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا تھا، ان کی حالت تشویش ناک تھی۔

    مرحوم سردار عطا اللہ مینگل کی تدفین آبائی علاقے وڈ ضلع خضدار میں کی جائے گی۔

    سردار عطااللہ مینگل 1929 کو پیدا ہوئے، 25 سال کی عمر میں مینگل قبیلے کے سردار مقررہوئے،  وہ بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے، ان کا شمار بلوچستان کی قوم پرست سیاست کے ابتدائی رہنماؤں میں ہوتا ہے، اور وہ بلوچستان کی تاریخ اور قبائلی لحاظ سے ایک اہم شخصیت تھے۔

    سردار عطا اللہ مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ بھی رہے، موجودہ سربراہ سردار اختر جان مینگل ان کے صاحب زادے ہیں۔

  • چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کے چند اوراق

    چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کے چند اوراق

    نیل آرمسٹرانگ کا نام 20 جولائی سن 1969ء کو ہمیشہ کے لیے زمین کی تاریخ میں محفوظ کر لیا گیا تھا اور مستقبل میں اگر انسان چاند پر آباد ہوا تو وہاں بھی تاریخ کے اوّلین اوراق پر اسی خلا نورد کا نام جگمگا رہا ہو گا۔

    نظامِ شمسی کے سیّارے زمین کے گرد گھومنے والے چاند کی سطح پر پہلا انسانی قدم نیل آرمسٹرانگ کا تھا۔

    یہ امریکی خلا نورد 2012ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔

    امریکی خلائی مشن اپالو گیارہ کے کمانڈر کے طور پر خلا میں ان کا سفر اور چاند پر اترنا زمین کی تاریخ کے عظیم الشّان واقعات میں سے ایک ہے۔ اس موقع پر آرمسٹرانگ نے تاریخی جملہ ادا کیا تھا کہ یہ انسان کا چھوٹا سا قدم ہے، لیکن حقیقت میں انسانیت کی ایک بہت بڑی جَست ہے۔

    نیل آرمسٹرانگ نے دل کی بیماری کے سبب 82 برس کی عمر میں دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا تھا۔ وہ 1930ء میں امریکا میں‌ اوہائیو کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ انجینئر کے طور پر کام کرنے لگے اور امریکی بحریہ کے پائلٹ بھی رہے اور تعلیم اور تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ بعد میں‌ امریکا کے خلائی مشن کا حصّہ بنے۔

    چاند پر نیل آرمسٹرانگ اور ان کے ساتھی خلا نورد ایڈوِن ایلڈرن تقریباً تین گھنٹے چہل قدمی کے بعد کام یابی سے زمین پر لوٹ آئے تھے۔

    نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کا آخری خلائی مشن اپالو گیارہ تھا اور اس کے بعد ان کو ناسا کے ایڈوانس ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعینات کر دیا گیا تھا اور انھیں دفتری امور تفویض کر دیے گئے۔ اسی عہدے کے ساتھ، ان کو ناسا کا ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا تھا۔ اس تعیناتی کے ایک سال کے بعد ہی انھوں نے یہ عہدہ چھوڑ دیا اور سنسناٹی یونیورسٹی میں پروفیسر برائے انجینئرنگ کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔

    انھیں امریکا میں قومی سطح کے اعزازات اور دنیا بھر میں مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا۔ آرمسٹرانگ سنسناٹی میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مقیم تھے اور یہیں وفات پائی۔

  • نام وَر ترقّی پسند اور انقلابی شاعر مخدوم محی الدّین کی برسی

    نام وَر ترقّی پسند اور انقلابی شاعر مخدوم محی الدّین کی برسی

    مخدوم ایک نئی دنیا اور نئے آدم کے متمنّی رہے ہیں۔ ان کی انقلابی اور اشتراکی رنگ کی نظمیں انہی مرکزی خیال کے گرد گھومتی ہیں۔ آج اس عظیم شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 25 اگست 1969ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    1908ء میں ابو سعید محمد مخدوم محی الدّین حذری نے ہندوستان کی ایک متموّل ریاست حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی۔ مخدوم نے اس دور کے رواج کے مطابق قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم گھر پر مکمل کی۔ وہ ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ بعد میں جامعہ عثمانیہ سے بی اے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1936ء میں سٹی کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے اور چند سال بعد مستعفی ہوگئے۔

    ان کا ادبی اور تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور اس زمانے میں ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں اور سیاسی ہنگامہ آرائیاں جاری تھیں، اسی ماحول میں‌ ادب میں ترقی پسند رجحانات کو فروغ ملا اور مخدوم 1940ء میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری منتخب ہوگئے۔ جولائی 1943ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی باقاعدہ تشکیل مخدوم کی راہ نمائی میں ہوئی۔

    ان کی سیاسی مصروفیات بڑھ گئی تھیں اور وہ ہندوستان میں برطانوی راج کے عام انتخابات میں آندھراپردیش اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ اس عرصے میں انھوں نے اپنی رومانوی اور انقلابی شاعری سے ہندوستان بھر میں شہرت پائی اور اصنافِ سخن میں پابند و آزاد نظموں کے علاوہ اپنے قطعات، رباعیوں اور غزلوں کے لیے مشہور ہوئے۔ ان کی مشہور تصانیف ’سرخ سویرا‘، ’گلِ تر‘ اور ’بساطِ رقص‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

    مخدوم انسان دوست اور اشتراکیت کے حامی تھے۔ انھوں نے مشرق کی زبوں حالی، معاشی ابتذال، غریبوں اور محنت کشوں کا استحصال، بھوک، افلاس، غربت کے خلاف اپنے اشعار میں‌ آواز بلند کی۔ مخدوم روس کے سرخ انقلاب سے بے حد متاثر ہوئے تھے اور اسی سے ذہنی وابستگی تادمِ آخر برقرار رکھی۔

    مخدوم کی قومی نظموں میں آزادئ وطن، جنگ آزادی، مسافر، بنگال، اور چاند تاروں کا بن قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی نظموں میں علامات، اشاروں، استعاروں اور کنایوں میں ملک اور ہندوستان بھر کے سیاسی حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ فطرت اور مناظرِ قدرت کے بڑے دلدادہ رہے ہیں۔ ان کی مناظرِ قدرت پر لکھی ہوئی نظمیں بلیغ اشارے رکھتی ہیں جن میں وہ فلسفہ اور انقلاب کی رنگ آمیزی بھی کرتے ہیں اور بے لطف نہیں ہونے دیتے۔ مخدوم کی مشہور نظموں میں شاعر، سناٹا، قلندر، لختِ جگر، نہرو، رات کے بارہ بجے، گھر، اقبال، اور ‘اقبال کی رحلت’ شامل ہیں۔

    اس انقلابی شاعر نے دہلی میں وفات پائی۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
    چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

    اس اہم ترقّی پسند شاعر کی چند غزلیں اور نظمیں بھارت کی مشہور اور مقبول فلموں ’بازار‘ اور ’ گمن‘ کے لیے نام ور گائیکوں کی آواز میں ریکارڈ کروا کے شامل کی گئی تھیں۔