Tag: انتقال

  • یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا بچّوں کے مقبول ترین ادیب کی حیثیت سے جانتی ہے۔ آپ نے بھی اپنے بچپن میں تھمبلینا، اسنو کوئن، اگلی ڈکلنگ اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری کی کہانیاں پڑھی ہوں گی۔ یہ سبق آموز اور پُرلطف کہانیاں اسی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن 1875ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگیا تھا۔

    اس عظیم لکھاری کا وطن ڈنمارک ہے جہاں اس نے دو اپریل 1805ء کو ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آج بھی ڈنمارک کے دارُالحکومت کوپن ہیگن میں اس کا مجسمہ نصب ہے جس کے ساتھ وہاں جانے والے تصویر بنوانا نہیں بھولتے۔ بچّوں کے اس محبوب مصنّف کی کہانیوں پر کئی فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اس کی کہانیاں سچّائی اور ہمّت کا سبق دیتی ہیں۔

    ابتدا میں ہانز نے ایک اوپرا میں کام کیا مگر وہاں مایوسی اس کا مقدّر بنی اور پھر وہ شاعری اور افسانہ نویسی کی طرف مائل ہوگیا۔ تاہم ایک بڑے ادیب نے تخلیقی صلاحیتوں کو بھانپ کر ہانز کو بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے کا مشورہ دیا۔ اس نے کہانیاں لکھنا شروع کیں تو بچّوں ہی نہیں بڑوں میں بھی مقبول ہوتا چلا گیا۔ اس کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1835ء میں چھپا۔

    ہانز کے والد لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتے تھے۔ غربت اور تنگ دستی کے انہی دنوں میں وہ والد کے سائے سے بھی محروم ہوگیا اور دس سال کی عمر میں معاش کی خاطر اسے گھر سے نکلنا پڑا۔

    ہانز اینڈرسن نے اسکول میں چند ہی جماعتیں پڑھی تھیں، لیکن وہ مطالعے کا شوق رکھتا تھا اور کام کے دوران جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، بہت توجہ اور انہماک سے پڑھتا اور اسی اشتیاق، ذوق و شوق اور لگن نے اسے دنیا بھر میں عزت اور پہچان دی۔

    بچّوں کے لیے مستقل مزاجی سے لکھنے کے ساتھ ہانز نے بڑوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ اس کی کہانیوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس لکھاری نے پریوں، بھوت پریت اور انجانی دنیا کو نہایت خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں پیش کیا اور یہ کہانیاں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    ہانز کے قلم کی طاقت اور جادوئی اثر رکھنے والی کہانیوں نے اسے وہ شہرت اور مقبولیت دی جس کا دنیا نے یوں اعتراف کیا کہ اب اس ادیب کے یومِ پیدائش پر بچّوں کی کتب کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

  • پاکستانی ماڈل لاریب کار حادثے میں جاں بحق

    پاکستانی ماڈل لاریب کار حادثے میں جاں بحق

    لاہور: پاکستانی ماڈل لاریب مدھوال ایک کار حادثے میں جاں بحق ہو گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ فیشن ماڈل لاریب مدھوال گزشتہ روز ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئیں۔

    ماڈل لارا کے جاں بحق ہونے کی اطلاع قریبی دوست نے سوشل میڈیا پر دی، جس کے مطابق ان کا انتقال بالا کوٹ میں پیش آنے والے کار حادثے میں ہوا، ماڈل کے انتقال کی خبر کے انٹرنیٹ پر وائرل ہونے کے فوراََ بعد ہی مداحوں، دوستوں اور مشہور شخصیات کی جانب سے نوجوان ماڈل کے اچانک انتقال پر تعزیتی پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

    واضح رہے کہ لاریب مدھوال عرف لارا ٹی وی اشتہارات میں ماڈلنگ کے علاوہ اپنے اسٹائلنگ پراجیکٹس کے حوالے سے شہرت رکھتی تھیں، لارا نے زندگی میں گھبراہٹ، ڈپریشن اور دیگر ذہنی امراض جیسے مسائل کی وجوہ کے بارے میں آگاہی کے لیے بھی اپنی آواز اٹھائی اور اہم کردار ادا کیا۔

    لارا مدھوال سوشل میڈیا پر بھی بہت زیادہ فعال تھیں، اور انسٹاگرام کے دو پیجز بھی چلاتی تھیں، ایک بطور ماڈل اور ایک بہ طور اسٹائلسٹ، جہاں وہ اپنے فالوورز کے ساتھ اپنے اسٹائل، سفر اور زندگی کے دیگر خوش گوار لمحات شیئر کرتی رہتی تھیں۔

  • یومِ وفات: معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی خوش اخلاقی اور خوش مزاجی بھی مشہور ہے

    یومِ وفات: معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی خوش اخلاقی اور خوش مزاجی بھی مشہور ہے

    اردو زبان کے ممتاز شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر 18 جولائی 1998ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ہندوستان ہی نہیں‌ وہ پاکستان میں بھی اپنی شاعری اور خوب صورت شخصیت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔

    ان کا نام کنور مہندر سنگھ بیدی اور تخلّص سحر تھا۔ 1909ء میں منٹگمری (ساہیوال) میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں کالج سے تعلیم پائی۔ تاریخ اور فارسی کے ساتھ بی اے کیا جس کے بعد سول انتظامیہ کے تحت امتحانات پاس کیے اور 1935ء کے آواخر میں ان کا تبادلہ بطور فرسٹ کلاس مجسٹریٹ، روہتک ہوگیا۔ یہ گوڑ گاؤں میں ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔ وہ ڈائریکٹر محکمہ پنچایت کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

    سکھ شعرا میں انھیں معتبر اور پُروقار شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سحرؔ ایک ہر دل عزیز شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق اور ظرافت و خوش مزاجی کے لیے بھی مشہور تھے۔ وہ محفل کو زعفران زار بنانے کا ہنر جانتے تھے اور ہر مجلس میں لوگوں کو متاثر کرلیتے تھے۔ ادیب و شاعر ہی نہیں مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ نام ور شخصیات ان سے گفتگو اور تبادلۂ خیال کرنے کو اپنے لیے باعث لطف و کرم تصور کرتتی تھیں۔

    کنور مہندرسنگھ بیدی نے کم عمری میں‌ شاعری کا آغاز کردیا تھا، انھوں نے کسی سے اصلاح نہیں‌ لی۔ انھوں نے اپنے کلیات کے علاوہ ’یادوں کا جشن‘ کے نام سے خود نوشت بھی یادگار چھوڑی ہے۔

    ان کی ایک غزل دیکھیے۔

    تیرِ نظر چلاتے ہوئے مسکرا بھی دے
    آمادہ قتل پر ہے تو بجلی گرا بھی دے

    رخ سے نقاب اٹھا کے کرشمہ دکھا بھی دے
    سورج کو چاند چاند کو سورج بنا بھی دے

    منزل ہے تیری حدِ تعیّن سے ماورا
    دیر و حرم کے نقش کو دل سے مٹا بھی دے

    سجدے ہیں لاکھ نقشِ کف پا کے منتظر
    یہ سر نہیں ہے عرش سحر آ جھکا بھی دے

  • یومِ‌ وفات: شہرۂ آفاق ادیب موپساں کی درجنوں کہانیوں کو شاہ کار قرار دیا گیا

    یومِ‌ وفات: شہرۂ آفاق ادیب موپساں کی درجنوں کہانیوں کو شاہ کار قرار دیا گیا

    آج انیسویں صدی کے مشہور مصنّف اور افسانہ نگار موپساں کا یومِ‌ وفات ہے۔ اسے جدید مختصر افسانے کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔

    ہنری رینے گایے ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5 اگست 1850ء کو فرانس میں پیدا ہوا۔ اس نے زندگی کی فقط 42 بہاریں‌ دیکھیں‌ اور چھے جولائی 1893ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔ وہ 11 سال کا تھا جب اس کے والدین میں‌ علیحدگی ہوگئی اور وہ اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا۔ وہ شعر و ادب کی دلدادہ خاتون تھی جس نے اپنے بیٹے کو لکھنا پڑھنا سکھانے اور تربیت کی غرض سے
    فلابیئر کو سونپ دیا جو مشہور اور بلند پایہ ادیب تھا، اس کی صحبت نے موپساں کو بھی بڑا تخلیق کار بنا دیا۔

    موپساں نے جدید افسانے میں حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کو متعارف کروایا۔ اس کی کہانیوں اور اسلوب کو اس کے خورد معاصرین نے بھی سراہا اور اسے باکمال قرار دیا تھا۔

    موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا۔ جنگل، دریا اور خوب صورت نظّاروں میں وقت گزارتے ہوئے اس نے تخلیق اور مشاہدے کا سفر بھی طے کیا۔ وہ سمندر کا شناور بھی تھا، اسے کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار کا شوق تھا۔ اس نے ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے گریجویشن مکمل کی اور فلابیئر کے زیرِ سایہ رہتے ہوئے ادب اور صحافت کے میدان میں کام یابیاں سمیٹیں۔ ناول اور افسانہ نویسی کی طرف آیا تو 1880ء کی دہائی میں اس کا تخلیقی سفر عروج پر تھا۔

    اس کے ناول اور کہانیوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے اور نام وری کے ساتھ اس نے دولت بھی کمائی۔ تاہم بدقسمتی سے جنسی بے راہ روی کے ہاتھوں بیماری کے بعد موت کے منہ میں‌ چلا گیا۔

    اس نے مختلف قلمی ناموں سے بھی کہانیاں لکھیں اور کئی افسانوں کے مجموعے اس کی زندگی ہی میں اشاعت پذیر ہوئے جب کہ اس کی 60 سے زائد کہانیوں کو شاہ کار تصوّر کیا جاتا ہے۔

  • یومِ وفات: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو ’گاڈ فادر‘ مشہور ہوگئے تھے

    یومِ وفات: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو ’گاڈ فادر‘ مشہور ہوگئے تھے

    ہالی وڈ کی کئی فلموں میں یادگار کردار ادا کرنے والے مارلن برانڈو کو ایک لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے جو 2004ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ 3 اپریل 1924ء کو پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 80 سال کی عمر پائی اور وفات سے تین سال قبل تک فلمی پردے پر کام کرتے رہے۔

    برانڈو نے فلموں میں اداکاری کا آغاز 1950ء میں فلم ’دی مین‘ سے کیا۔ اس فلم میں وہ ایک چھبیس سالہ مفلوج مریض کے بہروپ میں نظر آئے۔ کہتے ہیں انھوں نے اپنے پہلے کیریکٹر کو خوبی سے نبھانے کے لیے کئی دن مقامی اسپتال میں بستر پر گزارے۔

    برانڈو ان اداکاروں میں شامل ہیں‌ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد اسکرین پر نظر آئے اور خود کو اہم فن کار ثابت کیا۔ انھوں نے 40 سے زائد فلموں میں کردار نبھائے۔ ’دی وائلڈ ون‘ 1953ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی وہ فلم تھی جس میں برانڈو نے بدمعاش گروہ کے سرغنہ کا کردار ادا کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ تاہم 1972ء میں بننے والی ’دی گاڈ فادر‘ میں ان کا مافیا ڈان کا کردار ان کی وجہِ‌ شہرت بنا۔ یہ ہالی وڈ کی کلاسک فلموں میں سے ایک تھی جس پر برانڈو کو آسکر ایوارڈ دیا گیا۔ اس سے قبل ’اے اسٹریٹ کار نیمڈ ڈیزائر‘ وہ فلم تھی جس کے ایک کردار کے لیے وہ یکے بعد دیگرے چار مرتبہ آسکر کے لیے نام زد ہوئے، تاہم پہلا آسکر 1954ء میں بننے والی فلم ’آن دی واٹر فرنٹ‘ میں باکسر کا کردار ادا کرنے پر ملا۔ دوسرا آسکر ’دی گاڈ فادر‘ کے کردار پر دیا گیا۔

    ’لاسٹ ٹینگو ان پیرس‘ کے بعد برانڈو نے فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنا چھوڑ دیا تھا۔

    مارلن برانڈو اپنے فنی کیریئر کے دوران آٹھ مرتبہ فلمی دنیا کے سب سے معتبر ایوارڈ ’آسکر‘ کے لیے نام زد ہوئے اور دو مرتبہ اس کے حق دار قرار پائے۔

    ’دی وائلڈ ون‘ ’اسٹریٹ کار نیمڈ ڈزائر‘ اور ’لاسٹ ٹینگو ان پیرس‘ برانڈو کی وہ فلمیں‌ تھیں جنھوں‌ نے باکس آفس پر دھوم مچا دی اور دنیا بھر میں ان کی مقبولیت کا سبب بنیں۔

    2001ء میں اس فلمی ستارے نے ’دی اسکور‘ میں کام کیا۔ جرائم پر مبنی اس کہانی میں انگریزی فلموں کے شائقین اور مداحوں نے آخری مرتبہ مارلن برانڈو کو اسکرین پر دیکھا۔

  • معروف اداکار انور اقبال انتقال کر گئے

    معروف اداکار انور اقبال انتقال کر گئے

    کراچی: معروف اداکار انور اقبال طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان ٹیلی وژن کے سینئر ترین اداکار محمد انور اقبال بلوچ کا انتقال ہو گیا، ان کے داماد شہمرید بلوچ نے انتقال کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے مداحوں سے گزارش کی ہے کہ مرحوم کے لیے دعائیں کریں۔

    سینئر آرٹسٹ انور اقبال نے پاکستان ٹی وی انڈسٹری کے ٹاپ کلاس ڈراموں ’شمع‘ اور ’آخری چٹان‘ سے بے پناہ شہرت حاصل کی، وہ ڈراما انڈسٹری کے معروف اداکار تھے، انھوں نے اردو اور سندھی کے کئی ڈراموں میں یادگار کردار ادا کیے۔

    انور اقبال کی طبیعت کافی عرصے سے ناساز تھی، اور کراچی کے ایک اسپتال میں ان کا علاج جاری تھا، اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ گردوں کی تکلیف میں ایک عرصے سے مبتلا تھے۔

    ٹی وی کے معروف سینئر اداکار انور اقبال شدید علیل، دعائے صحت کی اپیل

    یاد رہے کہ چند دن قبل سوشل میڈیا پر اداکار انور اقبال کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ اسپتال کے بستر پر موجود ہیں، اس تصویر پر انھوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اجازت کے بغیر ان کی تصویر لی گئی۔

    انھوں نے فیس بک پوسٹ میں 26 جون کو کہا کہ اسپتال میں میری مرضی کے بغیر میری تصاویر لے کر سوشل میڈیا پر وائرل کی گئیں، جس سے میری اور میرے خاندان کی پرائیویسی متاثر ہوئی، میں میڈیا سے درخواست کرتا ہوں کہ میری پرائیویسی اور میرے اہل خانہ اور مداحوں کے جذبات کا خیال رکھیں اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

  • ماہرِ علومِ اسلامیہ و شرقیہ فؤاد سزگین کا یومِ وفات

    ماہرِ علومِ اسلامیہ و شرقیہ فؤاد سزگین کا یومِ وفات

    پروفیسر فؤاد سزگین (Fuat Sezgin) کو دنیا ایک ایسے محقق، مؤرخ اور ماہرِ‌ علومِ اسلامی کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جس کا خصوصی موضوع مسلم عہدِ وسطیٰ رہا۔پروفیسر فؤاد سزگین 30 جون 2018ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ترکی کے شہر استنبول میں وفات پانے والے پروفیسر فؤاد سزگین نے زندگی کی 94 بہاریں دیکھیں اور آخر وقت تک علمی و تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ انھیں عصرِ حاضر کا ایک اہم اسلامی اسکالر مانا جاتا ہے جن کا سب سے اہم ترین کارنامہ Geschichte des Arabischen Shrifttums (تاریخِ علومِ عربیہ و اسلامیہ) ہے۔

    فؤاد سزگین 1924ء میں ترکی کے ایک شہر میں پیدا ہوئے اور ثانوی تعلیم کی تکمیل کے بعد استنبول منتقل ہوگئے جہاں جامعۂ استنبول میں معروف جرمن مستشرق ہیلمٹ رٹر (Hellmut Ritter) کے زیرِاثر ادبیات اور علومِ اسلامیہ و شرقیہ کی تحصیل پر مائل ہوئے۔ 1951ء میں ادبیات میں گریجویشن کے بعد 1954ء میں عربی ادبیات میں اپنے مقالے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

    ڈاکٹریٹ کے بعد استنبول یونیورسٹی کے کلیۂ ادبیات میں تدریس سے منسلک ہوگئے۔ 1961ء میں ترکی میں فوجی بغاوت کے بعد جرمنی جانے پر مجبور ہو گئے جہاں 1965ء میں فرینکفرٹ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور اسی جامعہ میں پروفیسر مقرر ہوگئے۔ جرمنی میں قیام کے دوران ہی شادی کرلی، ان کی اکلوتی بیٹی اسی جرمن خاتون کے بطن سے پیدا ہوئی۔

    فؤاد سزگین کی شاہ کار تصنیف تاریخِ علومِ عربیہ و اسلامیہ دراصل جرمن محقّق، کارل بروکلمان کی اسی نام سے لکھی گئی کتاب کی تکمیل ہے۔ انھوں نے اس کتاب پر کام کا آغاز 1947ء میں کیا تھا جس کی متعدد جلدیں‌ شایع ہوئیں، وفات کے وقت پروفیسر سزگین اس کی اٹھارہویں جلد پر کام کررہے تھے۔

    یہ ان کی تصنیف اور مدّون کردہ وہ کتاب ہے جو اسلامی علمی و تہذیبی تاریخ پر عظیم سرمایہ ہے، جس میں عربی زبان و ادب، قرآنِ پاک، تفسیر، حدیث، تاریخ، فقہ، علمِ کلام، طب، علمِ حیوان، کیمیا، زراعت، نباتات، ریاضیات، علمِ فلک و نجوم، نقشے اور عربی مخطوطات کا مطالعہ اور ان پر علمی مواد شامل ہے۔

    پروفیسر فؤاد سزگین عربی، انگریزی، جرمن کے ساتھ عبرانی، سریانی اور لاطینی زبانیں جانتے تھے۔

    دینی اور سائنسی علوم و فنون کی تاریخ پروفیسر فؤاد سزگین کی تحقیق کا محور و مرکز رہا۔ انھوں نے عرب اسلامی ادوار کے سائنسی آلات، اوزار اور نقشوں کی نقلیں بھی تیار کیں جو فرینکفرٹ اور استنبول کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔ فؤاد سزگین نے احادیث پر غیر معمولی تحقیقی کام کیا، جس میں صحیح بخاری کے تحریری مآخذ کی نشان دہی ان کا عظیم کارنامہ ہے۔

    عالمِ اسلام کے اس عظیم اسکالر اور دانش ور کو ان کی علمی و تحقیقی کاوشوں پر متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں 1978ء میں کنگ فیصل انٹرنیشنل پرائز اور آرڈر آف میرٹ آف فیڈرل ریپبلک آف جرمنی شامل ہیں۔

  • یومِ وفات: نور محمد چارلی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھیں ‘ہیرو’ بنایا گیا

    یومِ وفات: نور محمد چارلی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھیں ‘ہیرو’ بنایا گیا

    نور محمد چارلی برصغیر پاک و ہند کی فلمی صنعت کے معروف مزاحیہ فن کار تھے جنھیں گزشتہ صدی میں 30 اور 40 کی دہائی میں‌ خاصی مقبولیت ملی۔ وہ 30 جون 1983ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    نور محمد چارلی کو ہندوستانی فلم نگری کا اوّلین مزاحیہ اداکار بھی کہا جاتا ہے جسے ‘ہیرو’ بننے اور فلموں میں مرکزی کردار نبھانے کا موقع ملا۔ کہا جاتا ہے کہ چارلی پہلے مزاحیہ اداکار تھے جن پر ایک گیت بھی فلمایا گیا اور خود ان کی آواز میں چند فلموں کے لیے گانے بھی ریکارڈ کیے گئے۔

    نور محمد چارلی 7 جنوری 1911ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ وہ خاموش فلموں کا دور تھا جب نور محمد نے ایک فلم ساز ادارے سے وابستہ ہوکر اداکاری کا آغاز کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں چلے آئے اور فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ تقسیمِ ہند سے قبل ان کی مشہور فلموں میں پاک دامن، رقاصہ، زرینہ، پریمی پاگل، فرزندِ ہند، ستم گر، پاگل، رنگیلا راجہ اور ڈھنڈورا شامل تھیں۔

    اس دور میں شائقین پردے پر رنگوں اور آواز کے بغیر کہانی کے مطابق فن کاروں کو اپنا کردار نبھاتا دیکھتے اور یہی ان کی سب سے بڑی تفریح تھی اور ‌آرٹسٹ اور فن کار اپنے چہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات سے شائقین کو محظوظ کرتے جو نہایت مشکل کام تھا۔ اس دور میں کسی فن کار کا ستائش اور مقبولیت حاصل کرنا اس کے کمالِ فن سے مشروط تھا۔ نور محمد چارلی نے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں اور محنت سے یہ مرحلہ طے کیا۔ انھیں تقسیم سے قبل اپنے ہم عصر مزاحیہ فن کاروں کی نسبت زیادہ شہرت اور مقبولیت ملی۔ وہ مشہورِ زمانہ کامیڈین چارلی چپلن کے بڑے مداح تھے اور اس کے بہروپ میں اکثر کردارو‌ں میں رنگ بھرتے نظر آئے۔

    چارلی کے فلمی سفر کا آغاز 1928ء میں ہوا تھا۔ اس زمانے کی ایک غیر ناطق فلم اپ ٹو ڈیٹ میں نور محمد نے کام کیا۔ ‘دی انڈین چارلی’ 1933ء کی وہ ناطق فلم تھی جس نے انھیں‌ ٹائٹل رول کی نسبت نور محمد سے نور محمد چارلی مشہور کردیا اور ‘چارلی’ کا لاحقہ ہمیشہ کے لیے ان کے نام کا حصّہ بن گیا۔

    پاکستان میں ان کی پہلی فلم مندری تھی۔ ان کی مشہور فلموں میں پلپلی صاحب، عمر ماروی، پرائی زمین، مس 56، استادوں کے استاد، اکیلی اور ستاروں کی دنیا شامل ہیں۔

    نور محمد چارلی نے اردو کے ساتھ پنجابی اور تین سندھی زبان میں‌ بننے والی فلموں میں بھی کام کیا، لیکن چند ابتدائی کام یابیوں کے بعد وہ شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ فلم نگری میں ناکامیوں سے گھبرا کر انھوں نے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا، مگر وہاں بھی مطمئن نہ ہوئے اور پاکستان لوٹ آئے جہاں بعد میں چند ہی فلموں میں کام حاصل کرسکے۔

    نور محمد چارلی کے صاحبزادے لطیف چارلی اور بہو معصومہ لطیف بھی پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔

  • مائیکل جیکسن اور پاپ میوزک گویا ایک ہی بات تھی!

    مائیکل جیکسن اور پاپ میوزک گویا ایک ہی بات تھی!

    وہ ایک ساحر تھا، دلوں کو مسخّر کرنا جانتا تھا۔ دنیا اس کی آواز کے طلسم، رقص اور اس کی اسٹیج پرفارمنس کے سحر میں‌ گرفتار رہی۔ اس کی موت کی خبر آئی تو لاکھوں پرستاروں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔

    25 جون 2009ء کو "کنگ آف پاپ” مائیکل جیکسن نے دنیا میں آخری سانس لی اور اس کے ساتھ ہی پاپ میوزک کا ایک درخشاں باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

    مائیکل جیکسن ہمہ جہت اور تخلیقی انفرادیت کا حامل فن کار تھا جس نے گلوکار اور میوزک پروڈیوسر کی حیثیت سے شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    اپنے زمانے میں کنسرٹ کے تصوّر کو یک سَر بدل کر رکھ دینے والے مائیکل جیکسن نے زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے۔ اس کے اوراقِ زیست بتاتے ہیں‌ کہ وہ کئی بار ٹوٹا، بکھرا اور ہر بار ہمّت کر کے اسٹیج پر پہنچا جہاں اس نے برقی قمقموں اور محفل کی رنگا رنگی میں خود کو گم کرلیا اور یوں اپنی زندگی کی تلخیوں‌، محرومیوں اور کرب کو کم کرنے کی کوشش کی۔

    اپنی بے مثال گائیکی اور رقص کی غیر معمولی صلاحیت کے علاوہ مائیکل جیکسن کی پُراسرار شخصیت اور اس کا طرزِ زندگی بھی دنیا بھر میں‌ مشہور ہے۔

    1982ء میں ’تھرلر‘ نامی البم نے مائیکل جیکسن کو دنیا میں متعارف کروایا اور یہ تعارف ایسا زبردست تھا کہ وہ راتوں رات پاپ اسٹار بن گیا۔ اس البم کی 41 ملین سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

    مائیکل جیکسن 19 اگست 1958 کو امریکا میں پیدا ہوا۔ بچپن ہی سے اسے موسیقی سے شغف ہوگیا تھا اور وہ اپنے چار بڑے بھائیوں کے ساتھ جیکسن فائیو نامی میوزک بینڈ کے ساتھ پرفارم کرنے لگا اور بعد میں‌ اپنا البم مارکیٹ میں‌ پیش کیا۔

    ‘تھرلر‘ سے پہلے اس گلوکار کا ایک سولو البم ’آف دا وال‘ بھی منظرِ عام پر آچکا تھا جو بہت مقبول ہوا، لیکن اس کی وجہِ شہرت ’تھرلر‘ بنا۔ اس البم کے بعد ’بیڈ‘ سامنے آیا جس کی بیس ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ پھر ’ڈینجرس‘ ریلیز ہوا جسے بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔

    مائیکل نے نوّے کی دہائی میں ایک لڑکے سے جنسی زیادتی کے الزام کا سامنا کیا اور موت سے کچھ عرصہ قبل اس پر بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ایک اور مقدمہ بھی بنا تھا جس میں وہ بری کردیا گیا۔ مائیکل جیکسن نے متعدد بار چہرے کی پلاسٹک سرجری کروائی جس کا بہت چرچا ہوا۔

    1994ء میں مائیکل جیکسن نے ماضی کے مشہور پاپ اسٹار ایلوس پریسلی کی بیٹی لیسا پریسلی سے شادی کی جو صرف دو برس قائم رہ سکی۔

    چند برسوں کے دوران مائیکل جیکسن کو تنازعات اور مالی مشکلات نے گھیر لیا تھا۔

    25 جون کو شہرہ آفاق گلوکار کو سانس لینے میں دشواری کی شکایت پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

  • ممبر آزاد کشمیر اسمبلی صغیر چغتائی اور ڈرائیور کی نعشیں مل گئیں

    ممبر آزاد کشمیر اسمبلی صغیر چغتائی اور ڈرائیور کی نعشیں مل گئیں

    اسلام آباد: رکن آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی صغیر چغتائی اور ان کے ڈرائیور کی نعشیں مل گئیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اسٹیٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ ٹیم کو تلاش کے دوران بن سکھیاں منگلا ڈیم سے صغیر چغتائی اور ان کے ڈرائیور سعید کی نعشیں مل گئی ہیں۔

    ایس ڈی ایم اے کی ٹیم کئی دنوں سے ان کی تلاش کر رہی تھی، صغیر چغتائی کی گاڑی کو 11 جون کو آزاد پتن کے مقام پر حادثہ پیش آیا تھا، ان کی گاڑی حادثے کے بعد دریائے جہلم میں جا گری تھی۔

    بن سکھیاں منگلا ڈیم سے نعشیں نکالنے کی کارروائی کے دوران بیرسٹر سلطان چوہدری بھی موجود تھے۔ خیال رہے کہ اس حادثے میں سردار صغیر چغتائی سمیت 4 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

    لاشوں کی تلاش کے لیے کئی دنوں سے جاری ریسکیو آپریشن میں پاکستان نیوی سمیت دیگر ادارے شریک تھے۔

    آزاد پتن میں حادثہ دو گاڑیوں کے ٹکرانے کے باعث پیش آیا تھا، جس کے بعد آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے رکن سردار صغیر چغتائی کی گاڑی بے قابو ہو کر دریا میں گر گئی تھی۔