Tag: انتون چیخوف

  • انتون چیخوف: عالمی شہرت یافتہ یافتہ روسی ادیب

    انتون چیخوف: عالمی شہرت یافتہ یافتہ روسی ادیب

    روسی ادیب انتون چیخوف کو اس کی کہانیوں نے نہ صرف ہم عصروں‌ میں ممتاز کیا بلکہ اس کی چند کہانیاں‌ وہ شاہ کار ثابت ہوئیں‌ جن کی بدولت چیخوف دنیا بھر میں‌ پہچانا گیا۔ افسانہ نگار انتون چیخوف کے تخلیقی جوہر اور فنی عظمت کا اعتراف بڑے بڑے ناقدین نے کیا ہے۔

    انتون چیخوف ایک افسانہ نگار ہی نہیں باکمال ڈرامہ نویس بھی تھا جس کی کئی کہانیوں کو شاہکار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے افسانوں کے تراجم دنیا کی کئی زبانوں میں‌ ہوئے اور کتابی شکل میں قارئین تک پہنچے۔ چیخوف 15 جولائی 1904ء کو چل بسا تھا۔ ایک صدی سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود آج بھی چیخوف کو نہ صرف پڑھا جاتا ہے بلکہ اس کے فن و تخلیق کو موضوع بحث بھی بنایا جاتا ہے۔

    روسی ادیب انتون چیخوف 29 جنوری 1860ء میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ سخت گیر انسان تھا جب کہ ماں ایک بہترین قصّہ گو عورت تھی۔ وہ اپنے سب بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ انتون چیخوف بچپن ہی سے ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا۔ وہ بڑا ہوا تو اسے تھیٹر کا شوق ہوگیا۔ اس نے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری بھی کی اور پھر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچان کر قلم تھام لیا۔ چیخوف کے قلم سے جو کہانیاں نکلیں وہ قارئین نے بہت پسند کیں اور روس میں اسے بہت شہرت ملی۔ بعد میں اس کے افسانے دنیا بھر میں‌ پڑھے جانے لگے۔

    چیخوف نے مالی مسائل اور غربت دیکھی تھی۔ اسے بچپن ہی میں کام کرنا پڑا اور ساتھ ہی اس نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ اس نے پرندے پکڑ کر بھی بازار میں بیچے اور روزی روٹی کمانے کی کوشش کی۔ پھر اس نے کسی کے توجہ دلانے پر اسکیچ بنانا سیکھ لیا اور ایک اخبار کے لیے بامعاوضہ یہ کام شروع کر دیا۔

    بچپن سے کہانیاں‌ سننے والے چیخوف ادب کا مطالعہ بھی کرنے لگا اور اسی مطالعہ نے اس کے اندر لکھنے کا شوق پیدا کیا۔ 1879ء میں چیخوف نے میڈیکل اسکول میں داخلہ لیا جس کی فیس دینے کے لیے اسے زیادہ محنت کرنا پڑی۔ وہ ہر اس کام کے لیے آمادہ ہوجاتا جس سے فوری آمدنی ہوسکتی تھی کیوں‌ کہ فیس کے ساتھ اسے گھر کے اخراجات بھی پورے کرنا پڑتے تھے۔ چیخوف اس دور میں بھی اسکیچز بناتا رہا اور یہ زیادہ تر طنز و مزاح کے موضوع پر ہوتے تھے۔ ان کے ذریعے وہ عوامی مسائل اور معاشرتی خامیوں‌ کو اجاگر کرتا۔ چیخوف کے ان اسکیچز نے اسے ایک پہچان دی اور وہ وقت بھی آیا جب اخبار کے مالک نے اس کے ان خاکوں‌ کی یومیہ بنیاد پر اشاعت شروع کر دی۔ چیخوف کو اچھی رقم ملنے لگی تھی اور پھر ایک بڑے پبلشر نے اسے اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس دوران وہ مختلف جرائد کے لیے کہانیاں‌ بھی لکھنے لگا تھا۔ لیکن جب اس نے تھیٹر کے لیے ڈرامہ تحریر کیا تو خاصی پذیرائی ملی اور اسے پسند کیا گیا۔ ڈرامہ نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ چیخوف اپنی تعلیم مکمل کرتے ہوئے 1884ء میں ڈاکٹر بن گیا۔

    وہ ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج شروع کر دیا۔ لیکن کچھ سال بعد یہ سلسلہ ترک کردیا اور مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا۔ چیخوف کو شہرت اور پسندیدگی تو مل چکی تھی لیکن جب اس کی کہانیاں کتابی شکل میں شایع ہوئیں تو روس کے مقبول ترین ادیبوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔ زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اور ادبی میدان میں اپنی کام یابیوں‌ سے مسرور ہوتے ہوئے اسے تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا اور اس وقت اس مرض کا مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا۔ چیخوف روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور اسی بیماری کے ہاتھوں موت کا شکار بن گیا۔

    روس میں چیخوف کی پذیرائی اور اس کی کہانیوں کی مقبولیت کی بڑی وجہ اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کی عکاسی تھا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلک اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔

    میکسم گورکی جیسا ادیب اسے روسی زبان کا معمار قرار دیتا ہے۔ وہ صرف 44 برس تک زندہ رہا۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ’’ چیخوف کا کام فطرتِ انسانی کی عکّاسی کرنا تھا۔‘‘

  • انتون چیخوف: انسانی فطرت کو کہانیوں میں بیان کرنے والا روسی ادیب

    انتون چیخوف: انسانی فطرت کو کہانیوں میں بیان کرنے والا روسی ادیب

    انتون چیخوف کی کہانیاں دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں کئی زبانوں میں اس کے افسانوں کا ترجمہ کیا گیا۔ روس کے ممتاز افسانہ نگار انتون چیخوف نے اپنی کہانیوں میں جس نئے اور نرالے طرز کو متعارف کروایا، وہ دنیا بھر میں اس کی وجہِ شہرت بن گیا۔

    انتون چیخوف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس تھا جس کی کئی کہانیوں کو شاہکار تسلیم کیا جاتا ہے اور ناقدین نے چیخوف کی تخلیقی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ اس کے افسانوں کے تراجم دیس دیس میں‌ پڑھے جاتے ہیں۔ 15 جولائی 1904ء کو روس کا یہ عظیم افسانہ نگار چل بسا تھا۔

    انتون چیخوف 29 جنوری 1860ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک ایسے گھرانے کا فرد تھا جس میں ایک سخت گیر باپ اور ایک بہترین قصّہ گو ماں موجود تھی۔ وہ اپنے سب بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ انتون چیخوف بچپن ہی سے ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا۔ وہ بڑا ہوا تو اسے تھیٹر کا شوق پیدا ہوا۔ اس نے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری بھی کی اور پھر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچان کر قلم تھام لیا۔ چیخوف کے قلم سے جو کہانیاں نکلیں وہ قارئین نے بہت پسند کیں اور روس میں اسے شہرت ملنے لگی۔

    مالی مسائل کے باعث اس کے گھرانے نے غربت اور اس سے جڑے مسائل کا سامنا کیا۔ چیخوف نے بچپن ہی میں کام کرنا شروع کردیا تھا تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔ وہ پرندے پکڑ کر انھیں‌ بازار میں فروخت کرنے لے جاتا تھا۔ اسی زمانہ میں چیخوف نے اسکیچ بنانا سیکھا اور پھر ایک اخبار کے لیے بامعاوضہ اپنی خدمات پیش کردیں۔

    وہ کہانیاں تو بچپن سے سنتا آرہا تھا، لیکن اب اس نے خود بھی ادب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ چیخوف کو اس کے مطالعہ کی عادت نے لکھنے کے قابل بنایا۔ تعلیمی اعتبار سے 1879ء میں چیخوف نے میڈیکل اسکول میں داخلہ لیا اور فیس دینے کے لیے زیادہ محنت کرنے لگا۔ وہ ہر اس کام کے لیے آمادہ ہوجاتا جس سے فوری آمدن ہوسکتی تھی تاکہ فیس کے ساتھ گھر کے اخراجات بھی پورے کرسکے۔ تعلیم کے ساتھ چیخوف نے تخلیقی کام بھی جاری رکھا اور ایسے اسکیچز بناتا رہا جو طنز و مزاح پر مبنی ہوتے تھے۔ وہ اپنی تصاویر میں معاشرے کے کسی مسئلے کی طرف قارئین کو متوجہ کرتا۔ چیخوف کو ان اسکیچز کی بدولت پہچان ملنے لگی اور وہ وقت آیا جب اخبار کے مالک نے اس کے ان خاکوں‌ کی یومیہ بنیاد پر اشاعت شروع کر دی۔ چیخوف کو اچھی رقم ملنے لگی تھی اور پھر ایک بڑے پبلشر نے اسے اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس عرصے میں وہ مختلف جرائد کے لیے لکھنے بھی لگا تھا۔ چیخوف نے تھیٹر کے لیے ایک ڈرامہ تحریر کیا اور اس میدان میں‌ بھی کام یابی اس کا مقدر بنی۔ اس کا تحریر کردہ ڈرامہ بہت پسند کیا گیا۔ ڈرامہ نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ چیخوف کی تعلیم مکمل ہوئی اور 1884ء میں وہ ڈاکٹر بن گیا۔

    وہ ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج شروع کر دیا۔ لیکن بعد کے برسوں میں اس نے علاج معالجہ ترک کر دیا تھا اور مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا تھا۔ چیخوف نے اپنی کہانیوں کو کتابی شکل میں شایع کروایا تو ہر طرف اس کا چرچا ہونے لگا۔ اسے روس کے مقبول ترین ادیبوں میں شمار کیا گیا۔ انتون چیخوف کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور اس زمانے میں‌ اس کا مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا جس کے باعث وہ روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور پھر زندگی کی بازی ہار گیا۔

    روس میں چیخوف کی پذیرائی اور اس کی کہانیوں کی مقبولیت کی بڑی وجہ اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کی عکاسی تھا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلک اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔

    میکسم گورکی جیسا ادیب اسے روسی زبان کا معمار قرار دیتا ہے۔ وہ محض 44 برس تک زندہ رہ سکا۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ’’ چیخوف کا کام فطرتِ انسانی کی عکّاسی کرنا تھا۔‘‘

  • شکاری (عالمی ادب سے انتخاب)

    شکاری (عالمی ادب سے انتخاب)

    مرطوب، حبس آلود دوپہر۔ آسمان پر بادل کی کترن تک نہیں۔ دھوپ میں پکی ہوئی گھاس تھکی ماندی، مایوس دکھائی دے رہی ہے، جیسے اگر بارش ہو بھی جائے تب بھی یہ کبھی سرسبز نہیں ہو سکے گی۔ جنگل خاموش، ساکت کھڑا ہے، جیسے درختوں کے اوپر سے کسی کی راہ تک رہا ہے، یا اسے کسی بات کی امید ہے۔

    میدان کے کنارے پر ایک لمبا تڑنگا، تنگ شانوں والا مرد، جس کی عمر 40 کے قریب ہو گی، اس نے سرخ قمیص اور پیوند لگی پتلون پہن رکھی تھی جو کسی زمانے میں کسی زمیندار کی رہی ہو گی۔ اس کے پاؤں میں لمبے بوٹ تھے اور وہ سست روی سے قدم گھسیٹتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ دائیں طرف سبزہ تھا، بائیں جانب پکی ہوئی رائی کا سنہرا سمندر جو افق تک پھیل گیا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ تھا جس سے پسینہ بہہ رہا تھا، اس کے خوبصورت بھورے سر پر سفید ٹوپی ایک ادا سے لہرا رہی تھی، جس پر گھڑ سواروں کی سی کھڑی کلغی تھی اور جو واضح طور پر کسی فراخ دل نوجوان رئیس کا تحفہ لگتی تھی۔

    اس کے کندھوں سے ایک شکاری تھیلا لٹک رہا تھا جس میں ایک سیاہ جنگلی مرغ تھا۔ آدمی نے ہاتھوں میں دو نالی بندوق تھام رکھی تھی۔ اس نے اپنے کتے کی طرف آنکھیں سکیڑیں جو اس سے آگے آگے جھاڑیاں سونگھتا چلا جا رہا تھا۔ ہر طرف سکوت تھا، کہیں کوئی آواز نہیں۔ ہر زندہ چیز گرمی سے ڈر کر چھپی ہوئی تھی۔

    ’یگور ولاسچ!‘ شکاری نے یکایک ایک نرم آواز سنی۔ وہ چونک گیا۔ گھوم کر دیکھا تو اس کی تیوری چڑھ گئی۔ اس کے قریب ہی ایک تیس سالہ سفید رو عورت درانتی ہاتھ میں تھامے کھڑی تھی جیسے یکایک زمین سے اگ آئی ہو۔ وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر شرماتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔

    ’اوہ، یہ تم ہو پیلاگیا!‘ شکاری نے رکتے ہوئے اور جان بوجھ کر بندوق کا گھوڑا چڑھاتے ہوئے کہا۔ ’ہم م م ۔۔۔ تم یہاں کیسے آئیں؟‘

    ’ہمارے گاؤں کی عورتیں یہاں کام کر رہی ہیں، میں انھی کے ساتھ آئی ہوں ۔۔۔ بطور مزدور، یگور ولاسچ۔‘

    ’اوہ ۔۔۔ یگور ولاسچ نے کہا اور آہستگی سے چلنا شروع کر دیا۔

    پیلاگیا اس کے پیچھے پیچھے چل دی۔ وہ بیس قدم خاموشی سے چلتے گئے۔

    ’تمھیں دیکھے ہوئے عرصہ ہو گیا، یگور ولاسچ۔۔۔‘ پیلاگیا نے شکاری کے ہلتے ہوئے شانوں کی طرف ملائمت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’میں نے تمھیں اس وقت سے نہیں دیکھا جب تم ایسٹر کے دن ہماری جھونپڑی میں پانی پینے آئے تھے۔۔۔ تم ایسٹر کے دن ایک لمحے کے لیے آئے اور پھر خدا جانتا ہے کیسے ۔۔۔ نشے میں ۔۔۔ تم نے مجھے ڈانٹا اور مارا پیٹا، اور پھر چل دیے ۔۔۔ میں انتظار کرتی رہی، انتظار کرتی رہی ۔۔۔ میں نے تمھاری راہ تکتے تکتے آنکھیں تھکا لیں۔ آہ، یگور ولاسچ! تم ایک بار تو آ کر دیکھ لیتے!‘

    ’میرے لیے وہاں کیا دھرا ہے؟‘

    ’تمھارے لیے وہاں بالکل کچھ نہیں دھرا ۔۔۔ لیکن پھر بھی ۔۔۔ وہاں ایک جگہ ہے جس کی دیکھ بھال کرنی ہے ۔۔۔ یہ دیکھنا ہے کہ کیا حالات ہیں ۔۔۔ تم مالک ہو ۔۔۔ میں کہتی ہوں، تم نے ایک سیاہ مرغ مارا ہے، یگور ولاسچ! تم بیٹھ کر تھوڑا آرام ہی کر لو۔‘

    یہ کہتے ہوئے پیلاگیا کسی نادان لڑکی کی طرح ہنس دی۔ اس کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ اس نے یگور کی طرف دیکھا۔

    ’بیٹھ جاؤں؟ اگر تم چاہو ۔۔۔‘ یگور نے لاپروایانہ انداز سے کہا، اور فر کے دو درختوں کے نیچے ایک جگہ منتخب کر کے بیٹھ گیا۔ ’تم کیوں کھڑی ہو؟ تم بھی بیٹھ جاؤ۔‘

    پیلاگیا تھوڑا سا ہٹ کر دھوپ میں بیٹھ گئی۔ اپنی خوشی سے شرمسار، اس نے اپنے مسکراتے ہوئے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ لیا۔ دو منٹ خاموشی سے گزر گئے۔

    ’تم ایک بار تو آ سکتے ہو،‘ پیلاگیا نے کہا۔

    ’کس لیے؟‘ یگور نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ ٹوپی اتار کر اس نے ہاتھ سے اپنا سرخ ماتھا پونچھا۔ ’میرے آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایک دو گھنٹوں کے لیے آنے سے وقت ہی ضائع ہو گا۔ اس سے تم خود بھی پریشان ہو گی، اور گاؤں میں مستقل رہنا میری روح کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گا۔۔۔ تم خود جانتی ہو کہ میں ناز پروردہ ہوں۔۔۔ مجھے سونے کے لیے بستر چاہیے، پینے کے لیے عمدہ چائے، بولنے کے لیے اچھی گفتگو کرنے والے۔۔۔ مجھے یہ ساری نفیس چیزیں چاہییں، جب کہ تم گاؤں میں غربت اور گند میں رہتی ہو۔۔۔ میں اسے ایک دن کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ فرض کرو ایسا کوئی حکم نامہ جاری ہو جائے کہ مجھے لازماً تمھارے ساتھ ہی رہنا پڑے، تو میں یا تو جھونپڑی کو آگ لگا دوں، یا خود کو کچھ کر بیٹھوں۔ لڑکپن ہی سے مجھے ایسی ہی سہولیات سے پیار تھا، اب اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔‘

    ’تم کہاں رہ رہے ہو؟‘

    ’یہاں کے زمیندار دمتری ایوانِچ کے ساتھ، بطور شکاری۔ میں اس کے کھانے کی میز کے لیے شکار مار کر لاتا ہوں، لیکن اس نے مجھے۔۔۔ کسی اور چیز سے زیادہ مجھے اپنی تفریح کے لیے رکھا ہوا ہے۔‘

    ’تم کوئی اچھا کام نہیں کر رہے، یگور ولاسچ۔۔۔ دوسرے لوگوں کے لیے شکار مشغلہ ہو گا، لیکن تمھارے لیے کام ہے۔۔۔ جیسے مزدوری۔‘

    ’تم نہیں سمجھتیں، بےوقوف،‘ یگور نے آسمان کی طرف مایوسی سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’تم کبھی سمجھیں ہی نہیں، اور جب تک تم زندہ ہو، کبھی جان نہیں سکو گی کہ میں کس قسم کا انسان ہوں۔۔۔ تم مجھے احمق سمجھتی ہو، جو برے راستے پر چل نکلا ہے، لیکن جو کوئی بھی مجھے سمجھتا ہے، وہ مجھے پورے ضلعے میں سب سے اچھا انسان مانتا ہے۔ زمیندار بھی یہی مانتے ہیں، اور انھوں نے میرے متعلق ایک رسالے میں بھی ایسی ہی خبریں چھاپ رکھی ہیں۔ بطور شکاری کوئی میری ٹکر کا نہیں۔۔۔ اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں نازپروردہ یا مغرور ہوں یا میں تمھارے گاؤں کی زندگی کو حقارت سے دیکھتا ہوں۔۔۔ تم جانتی ہو کہ بچپن ہی سے مجھے بندوقوں اور کتوں کے علاوہ کسی اور چیز کا شوق نہیں تھا۔ اگر کوئی میری بندوق مجھ سے لے لیتا تو میں مچھلی پکڑنے کا کانٹا لے کر نکل جاتا، اگر وہ کانٹا لے لیتے تو میں اپنے ہاتھوں سے چیزیں پکڑنے لگتا۔ اور میں گھوڑوں کی تجارت کرتا رہا، میرے پاس جب بھی پیسے ہوتے، میں میلوں ٹھیلوں میں چلا جاتا، اور تم جانتی ہو کہ اگر کوئی کسان شکاری یا گھوڑوں کا بیوپاری بن جائے تو پھر ہل کو خداحافظ۔ جب کسی آدمی میں آزادی کی ہوا سما جائے تو تم اسے اس کے اندر سے کبھی بھی نہیں نکال سکتیں۔ اسی طرح اگر کوئی رئیس اداکاری یا اسی طرح کی کوئی چیز شروع کر دے تو پھر وہ کبھی بھی کوئی افسر یا زمیندار نہیں رہ سکتا۔ تم عورت ہو، تم نہیں سمجھ سکتیں، لیکن تمھیں سمجھنا پڑے گا۔‘

    ’میں سمجھتی ہوں، یگور ولاسچ۔‘

    ’اگر تم نے رونا شروع کر دیا ہے تو تم نہیں سمجھیں۔۔۔‘

    ’میں رو نہیں رہی۔۔۔‘ پیلاگیا نے منھ دوسری طرف موڑتے ہوئے کہا۔ ’یہ گناہ ہے یگور ولاسچ! تم مجھ نصیبوں ماری کے ساتھ صرف ایک دن تو گزار سکتے ہو۔ میری تم سے شادی کو بارہ سال ہو گئے ہیں، اور۔۔۔ اور۔۔۔ ہمارے درمیان کبھی بھی محبت نہیں رہی!۔۔۔ میں۔۔۔ میں رو نہیں رہی۔‘

    ’محبت۔۔۔‘ یگور اپنا ہاتھ کھجاتے ہوئے بڑبڑایا۔ ’محبت ہو ہی نہیں سکتی۔ ہم صرف نام کے میاں بیوی ہیں، حقیقت میں نہیں۔ میں تمھاری نظر میں ایک وحشی انسان ہوں، اور میرے نزدیک تم ایک سادہ لوح دیہاتی عورت ہو جسے کسی چیز کی سمجھ نہیں۔ کیا ہمار جوڑ برابر ہے؟ میں ایک آزاد، نازپروردہ، عیاش آدمی ہوں۔ تم مزدور عورت ہو، جو چھال کے جوتے پہن کر چلتی ہے اور جس کی کمر ہمیشہ دہری رہتی ہے۔ میرا اپنے بارے میں خیال یہ ہے کہ میں ہر قسم کے کھیل میں اول نمبر ہوں، اور تم مجھے رحم کی نظروں سے دیکھتی ہو۔۔۔ کیا یہ کوئی جوڑ ہے؟‘

    ’لیکن ہم شادی شدہ ہیں، یگور ولاسچ،‘ پیلاگیا نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔

    ’اپنی مرضی سے شادی شدہ نہیں۔۔۔ تم بھول گئی ہو؟ نواب سرگے پائلووچ اور تم خود اس کے ذمہ دار ہو۔ صرف اس وجہ سے کہ میرا نشانہ اس سے بہتر تھا، وہ حسد کے مارے مجھے ایک مہینے تک شراب پلاتا رہا، اور جب کوئی شخص نشے میں دھت ہو تو آپ اس کا مذہب تک تبدیل کروا سکتے ہیں، شادی تو معمولی چیز ہے۔ مجھ سے بدلہ لینے کے لیے اس نے نشے کی حالت میں میری تم سے شادی کروا دی۔۔۔ شکاری کو چرواہی سے ملا دیا! تم نے دیکھ لیا تھا کہ میں نشے میں ہوں، پھر تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟ تم تو اس کی مزارع نہیں تھیں، تم انکار کر سکتی تھیں، تم نہ کر سکتی تھیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ کسی چرواہی کی شکاری سے شادی اس کی خوش قسمتی ہے، لیکن تمھیں اس کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔ ٹھیک ہے، اب غموں کی ماری بن جاؤ، روؤ۔ یہ نواب کے لیے مذاق تھا لیکن تمھارے لیے رونے کی بات ہے۔۔۔ اب دیوار سے ٹکریں مارو۔‘

    خاموشی چھا گئی۔ تین جنگلی مرغابیاں میدان کے اوپر سے گزریں۔ یگور نے نگاہوں سے ان کا پیچھا کیا، پھر وہ وہ تین بمشکل نظر آنے والوں نقطے بن کر جنگل کے پیچھے غائب ہو گئیں۔

    ’تمھاری گزر بسر کیسے ہوتی ہے؟‘ اس نے مرغابیوں سے نظریں ہٹا کر پیلاگیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’میں کام کرتی ہوں۔ سردیوں میں میں فاؤنڈلنگ ہسپتال سے ایک بچہ لے آتی ہوں اور اسے بوتل سے دودھ پلاتی ہوں۔ مجھے اس کا مہینے کا ڈیڑھ روبل مل جاتا ہے۔‘

    ’اوہ۔۔۔‘

    دوبارہ خاموشی۔ گھاس کے کٹے ہوئے قطعے سے ایک سریلے گیت کی آواز بلند ہوئی، پھر جلد ہی دم توڑ گئی۔ گرمی کی شدت گلوکاری کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔

    ’سنا ہے تم نے اکولینا کے لیے نئی جھونپڑی ڈال رکھی ہے،‘ پیلاگیا نے کہا۔

    یگور کچھ نہیں بولا۔

    ’تو وہ تمھیں زیادہ پیاری ہے۔۔۔‘

    ’یہ تمھاری قسمت ہے، یہی نصیب ہے!‘ شکاری نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔ ’تمھیں گزارا کرنا پڑے گا۔ لیکن اب خداحافظ، گپ شپ میں پہلے ہی دیر ہو گئی ہے۔۔۔ مجھے شام تک بولتوو پہنچنا ہے۔‘

    یگور اٹھا، انگڑائی لی اور بندوق کندھے پر ڈال لی۔ پیلاگیا بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔

    ’تم گاؤں کب آؤ گے؟‘ اس نے ملائمت سے کہا۔

    ’وہاں آنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، میں وہاں ہوش کی حالت میں نہیں آؤں گا، اور نشے میں تمھیں مجھ سے کچھ نہیں ملے گا، میں نشے میں بہت کمینہ بن جاتا ہوں۔ خداحافظ!‘

    ’خداحافظ، یگور ولاسچ۔‘

    یگور نے سر پر ٹوپی سیدھی کی اور کتے کو بلا کر اپنی راہ پر چل دیا۔ پیلاگیا کھڑے اسے دیکھتی رہی۔۔۔ اس نے اس کے ہلتے ہوئے کندھے دیکھے، اس کی شوخ ٹوپی، اس کی لاپروایانہ، سست چال، اور اس کی آنکھیں غم اور ملائمت سے بھر گئیں۔۔۔ اس کی نگاہیں اپنے خاوند کے لمبے اور پتلے بدن پر جمی رہیں، اسے سہلاتی، تھپکتی رہیں۔۔۔ اس نے جیسے اس کی نظریں محسوس کر لیں، وہ رکا، مڑ کر دیکھا۔۔۔ منھ سے کچھ نہیں بولا، لیکن اس کے چہرے، اس کے اچکائے ہوئے کندھوں سے پیلاگیا کو احساس ہوا کہ وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ وہ اس کی طرف بڑھی اور متلاشی نظروں سے دیکھا۔

    ’یہ لے لو،‘ وہ مڑا۔

    اس نے ایک روبل کا مڑا تڑا نوٹ اسے تھما دیا اور تیزی سے چل پڑا۔

    ’خدا حافظ یگور ولاسچ،‘ اس نے مشینی انداز میں نوٹ لیتے ہوئے کہا۔

    وہ چمڑے کی تانت کی طرح تنا ہوا چلتا رہا۔ یہ بت کی طرح زرد اور ساکت کھڑی رہی، اس کی نظریں اس کے ہر قدم کا حساب لیتی رہیں۔ پھر اس کی سرخ قمیص گہرے رنگ کی پتلون میں مدغم ہوئی، قدم نظر آنا بند ہو گئے، پھر کتا بھی اس کے جوتوں کے ساتھ مل گیا۔ اب ٹوپی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، اور۔۔۔ اچانک یگور تیزی سے میدان کی طرف مڑا اور اس کی ٹوپی سبزے میں غائب ہو گئی۔

    ’خداحافظ یگور ولاسچ،‘ پیلاگیا نے سرگوشی کی، اور اس کی سفید ٹوپی کی ایک اور جھلک دیکھنے کے لیے پنجوں کے بل کھڑی ہو گئی۔

    (روسی ادیب انتون چیخوف کی کہانی جس کا انگریزی سے ترجمہ ظفر سید نے کیا ہے)

  • معصومیت کا استحصال (غیر ملکی ادب سے انتخاب)

    معصومیت کا استحصال (غیر ملکی ادب سے انتخاب)

    چند دن پہلے کی بات ہے، میں نے اپنے بچّوں کی آیا (یولیا واسیلیونا) کو اپنے دفتر میں مدعو کیا تاکہ اس کی تنخواہ کی ادائیگی کی جا سکے۔

    میں نے یولیا واسیلیونا کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: بیٹھو، تمھیں تنخواہ دینے سے پہلے تمھارے سامنے کچھ حساب رکھنا چاہتا ہوں… تمھیں شاید پیسوں کی ضرورت ہے، لیکن دو ماہ کی میرے ذمہ واجب الادا تنخواہ تم خود مانگتے ہوئے شرماتی کیوں ہو، سنو تمھیں یاد ہے نا کہ تمھیں ملازمت دینے سے پہلے ہم نے اتفاق کیا تھا کہ میں تمھیں ماہانہ تیس روبل ادا کروں گا۔

    یولیا واسیلیونا نے منمناتے ہوئے کہا چالیس روبل…

    نہیں، تیس… یہ دیکھو میرے پاس معاہدے کی تمام دستاویزات موجود ہیں جن پر تم نے انگوٹھا ثبت کر رکھا ہے۔ چالیس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، کیونکہ میں نے خادموں کو ہمیشہ بطور ماہانہ اجرت تیس روبل ہی دیے ہیں… ٹھیک ہے، تم نے ہمارے لیے دو مہینے کام کیا ہے… یولیا واسیلیونا نے کمزور سے لہجے میں کہا دو مہینے پانچ دن۔

    نہیں ٹھیک دو مہینے، یہ دیکھو تمھارا حاضری کارڈ۔ میرے پاس ہر چیز ریکارڈ میں موجود ہے، اس طرح طے شدہ تنخواہ کے حساب سے تو تم ساٹھ روبل کی مستحق ہو۔

    ہم اس میں سے نو اتوار کی چھٹیاں کاٹ لیتے ہیں، کیونکہ اتوار کو کولیا میری بیٹی کی چھٹی ہوتی تھی تو تم اس دن اسے لکھانے پڑھانے کی بجائے صرف اس کے ساتھ صبح اور شام کی سیر کے لیے جاتی تھی۔ پھر تم نے ذاتی کام کاج کے لیے تین دن کی چھٹیاں کی تھیں۔

    یولیا واسیلیونا کا چہرہ بے بسی کے مارے زرد ہوچکا تھا، اور وہ اپنی انگلیوں سے قمیص کے کناروں کو لپیٹ رہی تھی، لیکن اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

    نو اتوار کی چھٹیاں اور تمھاری اپنی تین چھٹیاں کاٹ لیں، تو بارہ ایام کے کل بارہ روبل بنتے ہیں… کولیا چار دن سے بیمار تھی اور اس دوران اسے کوئی سبق نہیں پڑھایا گیا… تم نے صرف وریا کو پڑھایا تھا… اور تین دن تمہارے دانتوں میں درد تھا، اس لیے میری بیوی نے تمہیں اجازت دی کہ دوپہر کے کھانے کے بعد پڑھانے کی بجائے آرام کرو۔

    تو بارہ جمع سات… انیس… کو منہا کیا، بقیہ… اکتالیس ۔۔۔ روبل.. ٹھیک ہے؟ یولیا واسیلیوینا کی بائیں آنکھ سرخ ہو گئی اور آنسوؤں سے بھر گئی، اور اس کے چہرے کے عضلات سکڑ گئے۔ وہ اچانک زور سے کھانسی اور الٹے ہاتھ کی پشت سے ناک کو پونچھا، لیکن… اس نے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکالا۔

    نئے سال کی شام سے پہلے، تم نے ایک کپ اور ایک پلیٹ توڑ دی۔ اس کے لیے زیادہ نہیں میں صرف دو روبل کاٹ رہا ہوں حالانکہ کپ اس سے کہیں زیادہ مہنگا تھا، یہ وراثت میں ملا تھا، لیکن خیر خدا تمھیں معاف کرے! ہمیں ہر چیز کا معاوضہ تو دینا پڑتا ہے… ہاں، اور تمھاری لاپروائی کی وجہ سے، کولیا درخت پر چڑھ گئی اور اس کی جیکٹ پھٹ گئی۔
    قیمتی جیکٹ کے بدلے دس روبل کاٹ رہا ہوں… تمھاری غفلت کی وجہ سے نوکرانی نے وریا کا ایک جوتا چرا لیا، حالانکہ بچوں کے سامان کی حفاظت کرنا تمھارا فرض ہے جس سے تم نے کوتاہی برتی، اور تم اپنا فرض نبھانے کی ہی تنخواہ لیتی ہو۔

    اور اس طرح میں نے جوتوں کے بھی پانچ روبل کاٹ لیے۔ 10 جنوری کو تم نے مجھ سے دس روبل ادھار لیے۔ یولیا واسیلیونا نے سرگوشی کے انداز میں کمزور سا احتجاج کیا: نہیں میں نے نہیں لیے!- لیکن یہ دیکھو اس تاریخ کو میرے حساب میں لکھا ہوا ہے، تم جانتی ہو حساب کتاب میں، مَیں کتنا اصول پسند ہوں۔

    اچھا ٹھیک ہے، لیے ہوں گے ،اب؟

    اکتالیس میں سے، ستائیس کاٹے تو… باقی چودہ بچ گئے ہیں۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور اس کی لمبی، خوبصورت ناک پر پسینے کے قطروں سے موتیوں کی مالا بن گئی تھی۔

    میں غریب لڑکی ہوں! اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا: میں نے فقط ایک بار ادھار لیا… وہ بھی میں نے آپ کی بیوی سے تین روبل لیے… اس کے علاوہ میں نے اور کچھ نہیں لیا۔

    کیا واقعی؟ دیکھو، مجھے تو ان تین روبل کا علم ہی نہیں تھا، نہ ہی حساب کتاب کے گوشواروں میں ان کا ذکر ہے۔ چودہ میں سے تین کاٹتے ہیں، اور باقی بچتے ہیں گیارہ روبل… یہ رہی تمھاری تنخواہ!

    تین.. تین.. تین.. ایک.. ایک.. آؤ آگے بڑھو، اور انہیں وصول کر کے تصدیقی انگوٹھا ثبت کر دو۔ اور میں نے گیارہ روبل اس کی طرف بڑھائے تو اس نے انہیں لے کر کانپتی انگلیوں سے اپنی جیب میں ڈالا اور سرگوشی کی: شکریہ جناب!

    تو میں اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا، اور غصے نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میں نے اس سے پوچھا: کس چیز کے لیے تم شکریہ ادا کر رہی ہو؟

    یولیا واسیلیونا نے جواب دیا: تنخواہ کی ادائیگی پر…

    لیکن میں نے تمھیں لوٹ لیا، تمھارا حق جو بنتا تھا اس سے میں نے اپنی مرضی سے کٹوتی کر لی! اس واضح ناانصافی پر بھی تم میرا شکریہ ادا کر رہی ہو؟

    یولیا واسیلیونا گویا ہوئی: دراصل اس سے پہلے جس کے پاس میں ملازمہ تھی، اس نے تو مجھے کچھ بھی نہیں دیا تھا۔

    کیا کہا؟ اس نے تمھیں کسی قسم کی کوئی ادائیگی نہیں کی؟ یہ تو عجیب بات نہیں ہے؟

    یولیا واسیلیونا سنو! میں نے تمھارے ساتھ مذاق کیا ہے، میں دراصل تمھیں مشکل سبق سکھانا چاہ رہا تھا۔

    میں تمھیں تمھاری مکمل تنخواہ ادا کروں گا، پورے اسّی روبل! وہ دیکھو تمھارے لیے، تنخواہ کی رقم لفافے میں موجود ہے! لیکن کیا تم اتنی ناانصافی کے بعد بھی اپنا حق مانگنے سے قاصر ہو؟ احتجاج کیوں نہیں کرتی؟ ظلم پر خاموشی کیوں؟ کیا اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم سے لاتعلق رہے، اور جوابی وار نہ کرے؟ کیا اس حد تک سادہ لوح ہونا ممکن ہے؟

    وہ بے بسی سے مسکرائی اور اس کے چہرے پر واضح لکھا تھا: شاید!

    میں نے اسے سخت سبق سکھانے کے لیے اس سے معذرت کی اور پورے اسّی روبل اس کے حوالے کر دیے۔ اس نے بے یقینی اور حیرت کے ساتھ شرماتے ہوئے میرا شکریہ ادا کیا اور چلی گئی۔

    اس کو جاتے ہوئے دیکھ کر میں نے سوچا: واقعی، اس دنیا میں کمزوروں کو کچلنا کتنا آسان ہے!

    (مصنّف: انتون چیخوف، عربی سے اردو ترجمہ: توقیر بُھملہ)

  • فطرتِ انسانی کا عکّاس انتون چیخوف

    فطرتِ انسانی کا عکّاس انتون چیخوف

    روس کے افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس انتون چیخوف کی فنی کی عظمت کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اس کی شاہ کار تخلیقات کے تراجم دیس دیس میں‌ پڑھے جاتے ہیں۔ آج چیخوف کا یومِ وفات ہے۔ روس کے اس عظیم قلم کار نے 1904ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    29 جنوری 1860ء میں چیخوف نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں‌‌ اسے ایک سخت مزاج باپ اور ایک اچھی قصّہ گو ماں نے پالا پوسا۔ چیخوف کی ماں اپنے بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ بچپن ہی سے وہ ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا اور بعد میں‌ اسے تھیٹر کا شوق پیدا ہوا۔ انتون چیخوف نے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری بھی کی اور پھر اپنے تخلیقی صلاحیتوں کو پہچان کر قلم تھام لیا، اور اس کے افسانے شاہ کار قرار پائے۔ اپنے وقت کے کئی ادیبوں اور ماہر مترجمین نے چیخوف کی کہانیوں‌ کو اردو زبان میں‌ ڈھالا اور وہ قارئین میں مقبول ہوئیں۔

    چیخوف ابھی بچپن کی دہلیز پر تھا کہ مالی مسائل نے اس گھرانے کو جکڑ لیا اور اسے غربت اور اس سے جڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے چھوٹے موٹے کام کرنے لگا جن میں‌ پرندے پکڑ کر انھیں‌ فروخت کرنا بھی شامل تھا۔ اسی زمانہ میں چیخوف نے اسکیچ بنانا سیکھا اور پھر ایک اخبار کے لیے بامعاوضہ اپنی خدمات پیش کردیں۔

    وہ کہانیاں تو بچپن سے سنتا آرہا تھا، لیکن اب اس نے خود بھی ادب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ چیخوف کا یہ مشکل دور کسی طرح کٹ ہی گیا جس میں وہ ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے خود لکھنے کے قابل ہوچکا تھا، اسے پڑھنے کا شوق تھا اور 1879ء میں چیخوف کو میڈیکل اسکول میں داخلہ مل گیا، لیکن اس کے لیے تعلیمی اخراجات پورا کرنا آسان نہ تھا، وہ زیادہ محنت کرنے لگا اور ہر وہ کام کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتا جس سے فوری آمدن ہوسکتی تھی تاکہ گھر کے اخراجات بھی پورے کرسکے۔

    تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے چیخوف نے فن و ادب سے متعلق اپنی سرگرمیاں‌ جاری رکھیں اور ایسے اسکیچز بناتا رہا، جو طنز و مزاح پر مبنی ہوتے اور اس معاشرے کے کسی مسئلے کی طرف قارئین کو متوجہ کرتے۔ چیخوف کو ان اسکیچز کی بدولت پہچان ملنے لگی اور وہ قارئین میں‌ مقبول ہونے لگے جس پر اخبار کے مالک نے اس کے ان خاکوں‌ کی یومیہ بنیاد پر اشاعت شروع کردی۔ چیخوف کو اچھی رقم ملنے لگی تھی اور پھر ایک بڑے پبلشر نے چیخوف کو اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس عرصے میں وہ مختلف جرائد کے لیے لکھنے بھی لگا تھا۔ چیخوف نے تھیٹر کے لیے ایک ڈرامہ تحریر کیا اور اس میدان میں‌ بھی کام یابی اس کا مقدر بنی۔ اس کا تحریر کردہ ڈرامہ بہت پسند کیا گیا جس کے بعد چیخوف نے پوری توجہ لکھنے پر مرکوز کر دی۔

    ڈرامہ نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ چیخوف کی تعلیم مکمل ہوئی اور 1884ء میں وہ ڈاکٹر بن گیا۔ چیخوف ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج شروع کردیا۔ لیکن بعد کے برسوں میں اس نے یہ پیشہ ترک کردیا تھا اور مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا۔ اس نے اپنی جگہ نہ صرف علمی و ادبی حلقوں‌ میں بنا لی تھی بلکہ اس کی بڑی کام یابی عام لوگوں میں اس کی تخلیقات کی پذیرائی تھی۔ سو، چیخوف نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں شایع کروا دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ روس کے مقبول ترین ادیبوں میں شمار کیا جانے لگا۔

    چیخوف کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور اس زمانے میں‌ اس کا مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا جس کے باعث وہ روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور ایک روز زندگی کی بازی ہار گیا۔ انتون چیخوف کی تاریخِ وفات 15 جولائی ہے۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کو پیش کیا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلک اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔ چیخوف کے افسانوں اور اس کے ڈراموں کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔

    میکسم گورکی جیسا ادیب اسے روسی زبان کا معمار قرار دیتا ہے۔ وہ محض 44 برس تک زندہ رہ سکا۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ’’ چیخوف کا کام فطرتِ انسانی کی عکّاسی کرنا تھا۔‘‘

  • شاہ کار افسانوں کے خالق انتون چیخوف کی زندگی کی کہانی

    شاہ کار افسانوں کے خالق انتون چیخوف کی زندگی کی کہانی

    روسی ادب کے عظیم افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس انتون چیخوف کی تخلیقات آج بھی دنیا بھر میں ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ چیخوف نے 1904ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    روسی ادب کے اس عظیم افسانہ نگار نے 29 جنوری 1860ء میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس میں اسے ایک سخت مزاج باپ اور ایک اچھی قصّہ گو ماں نے اسے پالا پوسا۔ وہ اپنے بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ بچپن ہی سے وہ ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا اور بعد میں‌ تھیٹر کا شوقین اور کہانیوں کا رسیا بن گیا۔ اسے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری کا موقع بھی ملا اور پھر اس نے قلم تھام کر کئی شاہ کار افسانے تخلیق کیے۔

    چیخوف نے ابھی بچپن کی دہلیز پار نہیں کی تھی کہ اس گھرانے کے مالی حالات بگڑ گئے اور اس یوں اسے غربت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ انتون چیخوف کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے بہت سے کام کرنا پڑے۔ وہ ٹیوشن پڑھانے کے ساتھ پرندے پکڑ کر بیچنے لگا اور کسی طرح اسکیچ بنانا سیکھ کر اخبار کے لیے بامعاوضہ یہ کام بھی شروع کردیا۔

    اس زمانے میں چیخوف نے ادب کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ 1879ء میں اس نے ایک میڈیکل اسکول میں داخلہ لے لیا اور تب اسے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے زیادہ محنت اور مختلف کام بھی کرنے پڑے۔ وہ اپنی آمدنی سے گھر کی ضروریات بھی پوری کرتا تھا۔

    چیخوف جو اسکیچز بناتا تھا، وہ ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ کسی مسئلے کی نشان دہی کرتے تھے۔ اس کے اسکیچز کو بہت پسند کیا جانے لگا تھا اور یوں وہ یومیہ بنیاد پر اخبار کی اشاعت کا حصّہ بننے لگے تھے۔ وہ ان میں اپنے معاشرے کی کوئی نہ کوئی تصویر پیش کرتا جس کے باعث اس کی شہرت بڑھی اور ایک بڑے پبلشر نے چیخوف کو اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس عرصے میں وہ مختلف جرائد کے لیے لکھنے لگا اور تھیٹر کے لیے بھی ڈرامہ تحریر کیا۔ اس کا ڈرامہ بہت پسند کیا گیا اور عوامی سطح پر پذیرائی کے بعد اس نے پوری توجہ لکھنے پر مرکوز کردی۔

    ڈرامہ اور افسانہ نگاری کے ساتھ چیخوف تعلیمی مدارج بھی طے کرتا رہا اور 1884ء میں فزیشن بن گیا۔ وہ ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج کیا۔ تاہم بعد میں‌ مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا۔ چیخوف نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں شایع کروایا تو اسے زبردست پذیرائی ملی اور وہ روس کا مقبول ترین ادیب بن گیا۔

    اس باکمال ادیب کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور اس زمانے میں‌ مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا جس کے باعث وہ روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور اسی بیماری کے سبب ایک روز زندگی کی بازی ہار گیا۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کو پیش کیا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلکیاں اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔ چیخوف کے افسانوں اور اس کے ڈراموں کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔

  • لاٹری ٹکٹ

    لاٹری ٹکٹ

    ملک کمال صاحب ایک مڈل کلاس طبقہ کے آدمی تھے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ایک پوش علاقے میں رہتے تھے۔

    اچھی آمدنی تھی، جس پر وہ صابر و شاکر تھے۔ شام کا ہلکا پھلکا کھانا کھانے کے بعد صوفے پر اخبار پڑھنے بیٹھ گئے۔

    ‘‘میں تو آج صبح اخبار پڑھنا بھول ہی گئی۔ ’’ ان کی بیگم نے میز صاف کرتے ہوئے مخاطب کیا۔

    ‘‘دیکھو کیا قرعہ اندازی کی لسٹ آئی ہے؟’’

    ‘‘او، ہاں، لیکن کیا تمہارے ٹکٹ کا وقت ختم نہیں ہو گیا؟’’

    ‘‘نہیں، میں نے منگل ہی کو نئی لاٹری لی ہے۔’’

    ‘‘نمبر کیا ہے؟’’

    ‘‘لاٹری سیریز 9499 نمبر 26’’

    ‘‘ٹھیک ہے، دیکھتے ہیں۔ ’’

    کمال صاحب لاٹری پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اصولاً وہ لاٹری لسٹ دیکھنے پر راضی بھی نہ ہوتے لیکن اس وقت وہ بالکل فارغ تھے، اور اخبار اُن کی آنکھوں کے سامنے۔ انہوں نے نمبروں کے کالم پر اوپر سے نیچے انگلی پھیری۔ فوراً ہی جیسے ان کے شکوک وشبہات کا تمسخر اڑانے کے لئے اوپر سے دوسری لائین پر ان کی نگاہیں 9499 پر رک گئیں۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔

    اخبار ان کے گھٹنوں پر سے پھسل گیا۔ ٹکٹ کا نمبر دیکھے بغیر، جیسے انہیں کسی نے ٹھنڈے پانی کی پھوار سے نہلا دیا ہو، انہوں نے معدے میں خوشگوار سی ٹھنڈک محسوس کی، انہوں نے اپنی بیگم کو آواز دی۔
    ‘‘کلثوم!9499 تو یہا ں ہے۔’’

    یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بالکل خالی خالی تھی۔ ان کی بیگم نے ان کے حیرت زدہ اور گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھا اور سمجھ گئی کہ وہ مذاق نہیں کررہے۔ زرد پڑتے ہوئے تہ کیا ہوا میز پوش واپس میز پر گراتے ہوئے انہوں نے پوچھا،‘‘9499۔’’

    ‘‘ہاں….ہاں….واقعی….’’

    ‘‘اور ٹکٹ نمبر؟’’

    ‘‘او….ہاں….ٹکٹ کا نمبر بھی لکھا ہے۔ لیکن رکو۔ ذرا انتظار کرو۔ سیریز نمبر تو ہمارا ہی ہے۔ بہرحال….’’

    بیگم کو دیکھتے ہوئے کمال صاحب مسکرائے، اس بچے کی طرح جسے کوئی روشن چمکدار چیز مل گئی ہو۔ ان کی بیگم بھی مسکرا دیں، دونوں ٹکٹ نمبر دیکھے بغیر خوش تھے۔ مستقبل کی خوش بختی کی امید تھی ہی اتنی مزے دار اور سنسنی خیز۔

    کافی دیر خاموش رہنے کے بعد کمال صاحب نے پھر کہا ‘‘سیریز تو ہماری ہی ہے۔ اس لئے امید ہے ہم جیتے ہیں۔ یہ محض امید ہی ہے، پر ہے تو سہی۔ ’’

    ‘‘اچھا دیکھو! ’’

    ‘‘ذرا صبر کرو ۔ ناامید ہونے کے لئے کافی وقت پڑا ہے، اوپر سے دوسری لائن ہے۔ انعام پانچ کروڑ روپے ہے۔ یہ رقم نہیں، طاقت اور سرمایہ ہے۔ ایک منٹ میں لسٹ دیکھوں گا۔ پھر ….26….آہا’’

    ‘‘میں کہتا ہوں اگر ہم واقعی جیت گئے تو….’’

    دونوں میاں بیوی ہنسنے لگے اور ایک دوسرے کو خاموشی سے گھورنے لگے۔ جیتنے کی امید نے انہیں حیران و پریشان کر دیا تھا۔

    وہ نہ کہہ سکتے تھے نہ خواب دیکھ سکتے تھے کہ انہیں یہ روپے کس لئے چاہییں؟ وہ کیا خریدیں گے، وہ کہاں جائیں گے۔ وہ صرف 9499 اور پانچ کروڑ روپے کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے۔

    چشمِ تصوّر سے دیکھ رہے تھے، لیکن اس خوشی کے بارے میں نہیں سوچ رہے تھے جو ممکن ہو سکتی تھی۔

    کمال صاحب اخبار ہاتھ میں پکڑے ایک سرے سے دوسرے تک ٹہل رہے تھے۔ اور جب وہ پہلے جھٹکے سے نکلے تو انہوں نے خواب دیکھنے شروع کئے۔

    ‘‘اگر ہم جیت گئے۔ ’’ انہوں نے کہا،‘‘یہ ایک نئی زندگی ہو گی، مکمل کایا پلٹ۔ ٹکٹ تمہارا ہے، اگر یہ میرا ہوتا تو میں سب سے پہلے تین کروڑ کی جائیداد خریدتا۔ ایک کروڑ فوری اخراجات کے لئے، جیسے گھر کی نئی سجاوٹ، سیروتفریح، قرض کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ۔ باقی ایک کروڑ بنک میں رکھ دیتا اور سالانہ منافع لیتا۔ ’’

    ‘‘ہاں….جائیداد، اچھا خیال ہے۔ ’’بیگم نے ہاتھ اپنی گود میں رکھ کر صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

    ‘‘ڈیفنس، گلشن یا سی سائیڈ کسی اچھے علاقے میں کہیں….سب سے پہلی بات ہمیں بنگلہ یا فارم ہاؤس نہیں چاہیے۔ بلکہ آمدنی میں اضافہ کا سوچناچاہیے۔’’

    اس طرح کے خیالات ان کے دماغ پر چھانے لگے۔ ہر ایک پہلے سے زیادہ دلفریب اور شاعرانہ۔

    ‘‘ہاں ،جائیداد خریدنا اچھا رہے گا۔’’ بیگم کلثوم نے کہا۔ وہ بھی خواب دیکھ رہی تھی۔ ان کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ اپنے خیالات سے خوش ہے۔
    ملک کمال صاحب نے خزاں کی بارشوں کا تصور کیا۔ سرد شاموں کا اور گرمیوں کی چھٹیوں کا۔

    کمال صاحب رکے اور بیوی کو دیکھنے لگے۔ ‘‘جانتی ہو گرمیوں اور برسات کے موسم میں شمالی علاقہ جات یا بیرونِ ملک گھومنا ہی بہتر رہے گا۔’’

    انہوں نے دوبارہ سوچنا شروع کردیا کہ ایسے موسم میں شمالی علاقہ جات یا ملک سے باہر جانا، مری، گلگت، سوات یا لندن، پیرس کتنا اچھا لگے گا۔
    ‘‘میں بھی یقیناً باہر جاؤں گی۔ ’’ بیگم کلثوم بھی چہک کر بولیں، ‘‘لیکن ٹکٹ کا نمبر تو دوبارہ کنفرم کر لو۔ ’’

    ‘‘صبر، صبر۔’’

    وہ پھر کمرے میں چکر لگانے لگے، اور سوچنے لگے، اگر ان کی بیوی واقعی باہر ملک گئی تو کیا ہو گا؟

    اکیلے سفر کرنا زیادہ بہتر ہے۔ یا پھر ایسی عورت کے ساتھ جو لاپروا سی ہو، حال میں زندہ رہے نہ کہ ایسی جو سارے سفر کے دوران بچوں کے بارے میں بولتی رہے۔ ہر دھیلے کے خرچنے پر آہیں بھرے۔
    کمال صاحب نے بیوی پر نگاہ دوڑاتے ہوئے سوچا۔

    ‘‘لاٹری ٹکٹ اس کا ہے، لیکن اس کے بیرون ملک جانے کا فائدہ۔ اس نے باہر کیا کرنا ہے۔ وہ ہوٹل میں بند ہو جائے گی۔ مجھے بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دے گی۔’’

    زندگی میں پہلی بار انہوں نے سوچا کہ اب بیوی کی عمر ڈھل رہی ہے۔ وہ عام سی دکھائی دیتی ہے۔ کھانے پکانے کی بو سے بھری رہتی ہے۔ جب کہ وہ خود ابھی تک جوان تروتازہ اور صحت مند ہیں۔ دوبارہ شادی کر سکتے ہیں۔

    ‘‘بے شک یہ بیوقوفانہ سوچ ہے پر وہ ملک سے باہر جائے کیوں؟ اس نے کرنا کیا ہے؟ وہ ضرور میرے رستے میں رکاوٹ رہے گی۔ میں اس کا محتاج رہوں گا۔ مجھے معلوم ہے جونہی رقم ملے گی وہ عام عورتوں کی طرح رقم کو تالے لگا کر رکھے گی۔ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرے گی اور مجھے ہمیشہ رقم کے لئے ترسائے گی۔’’

    کمال صاحب نے اپنی بیوی کے رشتہ داروں کے بارے میں سوچا۔ کمال صاحب نے اپنے رشتہ داروں اور ان کے چہروں کو یاد کیا۔ انہیں اپنی بیوی کا چہرہ بھی قابل نفرت لگا۔ ان کے دل و دماغ غصے سے بھر گئے۔ انہوں نے کینے بھرے دل سے سوچا۔

    اسے رقم کی کچھ سوجھ بوجھ نہیں پھر کنجوس بھی ہے۔ اگر وہ جیت گئی تو مجھے سو سو روپے پر ٹرخاتی رہے گی۔ اور باقی کہیں تالا لگا کر بند کردے گی۔

    انہوں نے بیوی کی طرف دیکھا مسکراہٹ کے ساتھ نہیں بلکہ نفرت سے۔ بیوی نے بھی انہیں نفرت اور غصے سے دیکھا، اس کے اپنے خیالی پلاؤ اور پروگرام تھے۔

    ‘‘سیریز نمبر 94990 ٹکٹ نمبر چھبیس 26 …. ارے نہیں یہاں تو چھیالیس 46 ہے۔’’

    فوراً نفرت اور امید دونوں غائب ہو گئے۔ کمال صاحب نے غصہ سے اخبار کو صفحہ کو پرزہ پرزہ کر ڈالا۔

    اب دونوں میاں بیوی کو اپنے کمرے تاریک اور چھوٹے لگنے لگے اور شام کا جو کھانا کھایا تھا وہ ان کے معدے پر بوجھ ڈالنے لگا۔ شام لمبی اور تھکا دینے والی محسوس ہونے لگی۔

    ‘‘لعنت ہے،’’ کمال صاحب بدمزاجی اور چڑچڑاہٹ سے بولے۔ ‘‘جہاں قدم رکھو ہر قدم کے نیچے کاغذ کے پرزے اور کوڑے کے زرّے آتے ہیں، کمروں کو کبھی صاف نہیں کیا جاتا۔ بندہ گھر سے باہر جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ’’ یہ کہتے ہی وہ غصہ سے گھر سے باہر نکل گئے۔

    (روسی ادیب انتون چیخوف کی کہانی کا اردو ترجمہ جس میں اچانک لاٹری نکلنے کی خبر پر شوہر اور بیوی کی نفسیات دکھائی گئی ہے، مترجم نے اردو قارئین کی دل چسپی کے لیے کرداروں کو مقامی نام دے دیے ہیں)

  • یومِ وفات:‌ عظیم روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف کا تذکرہ

    یومِ وفات:‌ عظیم روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف کا تذکرہ

    نام وَر روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف نے 1904ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ اس کی تخلیقات کو نہ صرف روسی ادب کے قارئین نے سراہا بلکہ دنیا بھر میں اس کی کہانیوں کا چرچا ہوا اور چیخوف نے ناقدین سے داد پائی۔

    انتون چیخوف 29 جنوری 1860ء میں پیدا ہوا۔ چیخوف کا باپ سخت گیر آدمی تھا جب کہ ماں ایک اچھی قصّہ گو تھی اور بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سناتی تھی۔ اس ماحول میں بچپن گزارنے والے چیخوف کو بعد میں باپ کے مالی حالات بگڑ جانے پر غربت اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے اپنی تعلیم کے لیے بہت سے کام کرنا پڑے جن میں ٹیوشن پڑھانا، پرندے پکڑ کر بیچنا اور اخبارات کے لیے بامعاوضہ اسکیچ بنانا شامل ہے۔

    کام اور تعلیم کے حصول کے زمانے میں چیخوف نے ادب کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ 1879ء میں اس نے ایک میڈیکل اسکول میں داخلہ لیا اور زیادہ کام کرکے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کا خرچ بھی چلانے لگا۔ چیخوف نے یومیہ بنیاد پر اسکیچ بنانا شروع کردیا تھا جو طنز و مزاح پر مبنی ہوتے تھے۔ وہ روزمرّہ روسی زندگی کی تصویر کشی بھی کرنے لگا جس کے باعث اس کی شہرت بڑھی اور ایک بڑے پبلشر نے اسے اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کرلیا۔ چیخوف نے جرائد کے لیے بھی لکھنا شروع کردیا اور جب تھیٹر کے لیے ڈرامے تحریر کیے تو گویا اس کی شہرت ساتویں‌ آسمان سے باتیں‌ کرنے لگی۔

    وہ 1884ء میں فزیشن بھی بن گیا، لیکن درد مند اور حسّاس چیخوف نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج کیا اور ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتا رہا۔ تاہم بعد میں‌ اس نے ادب تخلیق کرنے پر زیادہ توجہ دی۔ اس نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں بھی شایع کروایا۔ اس کے مجموعوں کو زبردست پذیرائی ملی اور چیخوف نے مقبول ترین روسی ادیب کا درجہ حاصل کیا۔

    ایک وقت آیا جب انتون چیخوف کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا اور وہ لاغر ہوتا چلا گیا، اسی بیماری کے سبب ایک روز اس نے زندگی کی بازی ہار دی۔ وفات کے وقت وہ 44 برس کا تھا۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے لوگوں کی حقیقی زندگی کو پیش کیا اور معاشرتی تضاد، منافقت اور سچ جھوٹ کے ساتھ عام زندگی کو قریب سے اور نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا۔

  • گامُو کوچوان کے بیٹے کی موت (کہانی)

    گامُو کوچوان کے بیٹے کی موت (کہانی)

    شام کا جھٹپٹا پھیل رہا تھا۔ برف کے چھوٹے چھوٹے گالے سڑک کنارے لگے کھمبوں کے گرد چکر کھا کھا کر نیچے گر رہے تھے اور گھروں کی چھتوں، گھوڑوں کی پیٹھوں، لوگوں کے شانوں، ٹوپیوں اور پگڑیوں پر برف کی سفید تہ جماتے جاتے تھے۔

    اس بار مری میں ہمیشہ سے زیادہ برف باری ہوئی۔ بوڑھا گامُو کوچوان کسی بھوت کی طرح سَر تا پا سفید ہوچکا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے سے یکّے پر اس قدر دہرا ہو کر بے حس و حرکت بیٹھا تھا کہ اس سے زیادہ خود کو دہرا کرنے کی گنجائش نہ تھی۔ اس پر برف کی تہہ چڑھتی جا رہی تھی مگر وہ اس سے لاتعلق نظر آتا تھا۔ اس کی چھوٹی سی گھوڑی بھی برف پڑنے سے سفید نظر آرہی تھی اور کسی سوچ میں ڈوبی یوں ساکت و جامد کھڑی تھی گویا گھوڑے کا مومی کھلونا ہو۔ شاید دوڑتے بھاگتے لوگوں سے بھرے شہر اور شور و غل کے درمیان اسے گاؤں کے کھیتوں کی دل فریب پگڈنڈیاں بہت یاد آرہی تھیں۔

    گامُو کوچوان اپنے اڈّے سے کافی دیر کا نکلا ہوا تھا اور ابھی تک اسے کوئی سواری نہیں ملی تھی اور اب تو شام ہو رہی تھی۔ سڑکوں کے کنارے روشنی کے کھمبوں پر بجلی کے قمقمے روشن ہو رہے تھے۔

    ”یکّے والا ڈاک بنگلہ جانا مانگٹا؟“ بوڑھے گامُو نے اچانک کسی کو پکارتے سنا۔ اس نے برف سے ڈھکی پلکوں کو دھیرے سے اٹھا کر دیکھا، ایک گورا صاحب فوجی وردی میں ملبوس سر پر ہیٹ پہنے کھڑا تھا۔ ” ٹم سوٹا ہے کیا، ڈاک بنگلہ جائے گا؟“ گورے فوجی نے ڈانٹنے کے انداز سے بات دہرائی۔

    گامُو نے اپنا سکون اور سکوت توڑ کر گھوڑی کی لگام کھینچی اور برف کی قاشیں گھوڑی کے بدن سے پھسل کر نیچے جا گریں۔ گورا صاحب یکّے پر سوار ہوگیا۔ گامُو نے بگلے کی طرح گردن اٹھائی، سیدھا ہو کر اپنی سیٹ پر بیٹھا اور چابک گھمایا۔ گھوڑی نے بھی گردن اٹھائی اور بے دلی سے چلنا شروع کر دیا۔

    ” کہاں مر رہے ہو خبیث! اپنی راہ چلو!“ سڑک پر پیدل چلنے والا کوئی راہ گیر چلایا۔ ساتھ ہی صاحب بہادر بولا: ” کہاں مرٹا، بائیں جانیب چلو ٹم!“ گامُو نے خاموشی سے گھوڑی کی باگیں کھینچیں، اسی اثنا میں پہلو سے کسی اور تانگے والے نے گالیاں بکنا شروع کر دیں اور پھر کوئی دوسرا راہ گیر بڑبڑایا، جس کی قمیض سے گھوڑی کی ناک چُھوگئی تھی۔

    گامُو اپنی نشست پر بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔ ” یہ الو کا پٹا ٹم سے مقابلہ کرٹا دیکھو۔“ گورے صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔ لیکن گامُو کے دل و دماغ میں کوئی اور بات گردش کر رہی تھی۔ وہ اپنے گرد و نواح سے بے پروا تھا۔ اس نے چہرہ گھما کر ایک نظر پیچھے بیٹھے انگریز فوجی افسر کو دیکھا، کچھ کہنے کے لیے ہونٹ ہلائے لیکن کوئی بات تھی جو اس کی زبان پر آ کر پلٹ گئی۔

    ”ٹم کچھ کہنا مانگٹا؟“ صاحب بہادر نے بھنویں سکیڑ کر گامُو سے سوال کر دیا۔ گامُو کے ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ آ کر غائب ہوگئی۔ اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے بہ مشکل کہا: صاحب جی وہ اسی ہفتے میرا بیٹا مر گیا ہے جی!۔ ” ہوں کیسے مرا۔“ انگریز نے سنجیدگی سے پوچھا۔

    گامُو پیچھے کو مڑا اور انگریز کو بتانے لگا: ﷲ کو پتا جی، کیا ہوا! بخار تھا، پھر تین دن ڈاکٹر ﷲ بخش صاحب کے ہاں رکا پڑا رہا، پھر مرگیا، جو مرضی اوپر والے کی۔

    ”پیچھے ہٹو، مردود۔“ اندھیرے سے پھر ایک آواز آئی، ”پاگل ہوگئے ہو باؤلے بڈھے؟ دیکھ کے چلو!“ نجانے پھر یکہ کس پر چڑھ دوڑا تھا۔ ”راہ دیکھ کر چلو بابا، جلدی کرو، ہم کو دیر ہوجائے گا۔“ انگریز فوجی نے ہولے سے کہا اور اپنی نشست پر نیم دراز ہوگیا۔

    گامُو پھر سے سیدھا ہو بیٹھا، چابک گھمایا اور یکّہ چلانے لگا۔ کئی بار اس نے مڑ کر دیکھا اور چاہا کہ گورے صاحب سے گفت گو کا سلسلہ وہیں سے جڑ جائے جہاں سے کٹ گیا تھا لیکن صاحب بہادر آنکھیں میچے سیٹ پر نیم دراز پڑا تھا۔ گورے صاحب کو ڈاک بنگلے اتار کر گامُو نے یکّہ ایک سستے سے ہوٹل کے سامنے جا کر کھڑا کیا اور ایک بار پھر یکّے پر اسی طرح بے حسّ و حرکت بیٹھ گیا۔ اور برف نے اسے اور اس کی گھوڑی کو ایک بار پھر مومی مجسمہ بنا دیا۔

    خدا جانے کتنی دیر گزر چکی تھی جب تین مشٹنڈے نوجوان یکّے کی طرف بڑھے۔ ایک کبڑا اور ٹھگنا سا اور دو لمبے گبھرو جوان تھے جو ایک دوسرے کو بھاری بھرکم گالیاں بکتے، جوتے پٹختے غالبا ڈھابے سے نکل رہے تھے۔

    ”لاری اڈّے جاؤ گے؟“ کبڑے نے بدتمیزی سے پوچھا۔ ”ہم تین ہیں، دو روپے دیں گے۔“ گامُو نے گھوڑی کی باگ کھینچی۔ لڑکوں نے کرایہ تو بہت کم کہا تھا لیکن گامُو کے پیشِ نظر کرایہ نہیں، تین سواریاں تھیں۔ تینوں نوجوان ایک دوسرے کو دھکیلتے، گالیاں بکتے یکّے پر بیٹھ گئے۔

    ”چلو چاچا!“ اس کے پیچھے بیٹھے کبڑے نے قریب ہو کر کہا۔

    ”ارے واہ!“ کبڑا، جو پی کر زیادہ ہی بکے جا رہا تھا، بولا: ”یہ پگڑی جو تو نے پہنی ہے کوچوان چاچا، اس سے میلی پگڑی تجھے پورے مری میں نہیں ملی کیا؟“

    ”ہی ہی اجی شیخی کیا بگھاریں، غریب آدمی ہیں۔ “ گامُومصنوعی سی ہنسی ہنس کر بولا۔

    ”ہاں، شاباش۔ شیخی نہیں بگھارتے، جلدی چلاؤ یکّہ، کیا ساری راہ ایسے ہی چلو گے؟ جماؤں ایک دھول!“ کبڑا بکنے لگا۔ ” یار میرے تو سَر میں درد ہونے لگا ہے۔“ لمبا نوجوان گویا ہوا۔ ”کل میں نے اور بخشو نے ولایتی کی چار بوتلیں چڑھا لیں بھئی۔“

    ”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تو اتنی لمبی کیوں ہانکتا ہے، گنواروں کی طرح۔ “ دوسرے لمبے نوجوان نے تیوری چڑھا کر کہا: ” نئیں یار، جھوٹ نہیں بولتا مولا قسم“ پہلا جوان بولا۔ ”سچ ہے۔ بالکل ایسے جیسے کھٹمل کھانستا ہے ہاہاہا۔“ دوسرے نے کہا اور تینوں نوجوان قہقہے لگا کر ہنس پڑے اور گامُو بھی کھسیانی ہنسی ہنسا۔

    ” ابے بڈھے۔ “ کبڑا چلّایا۔ ایسے چلاتے ہیں یکّہ؟ چابک لو اور لگاؤ اس گھوڑے کے۔“ کبڑے کے ڈانٹنے کے بعد ایک بار پھر گامُو کی توجّہ یکّے کی طرف ہوئی۔ وہ اپنے پیچھے بیٹھے کبڑے کی بک بک سنتا رہا۔ راہ گیروں کے کوسنے بھی وقفے وقفے سے اسے سننے کو مل رہے تھے اور آتے جاتے لوگوں کو دیکھ کر بھی اس کی توجہ اپنی تنہائی سے ہٹی تھی۔

    اس دوران لمبے نوجوانوں نے کسی لونڈیا کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ میرا بیٹا اسی ہفتے مرا ہے۔ گامُو نے کافی انتظار کے بعد ان کی گفت گو کے ایک وقفے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا:” ہاں۔ ہم سب نے ایک دن مرنا ہے۔“ کبڑا کھانستے ہوئے بولا۔ لیکن تُو جلدی چل، جلدی!۔ دوستو! اس طرح رینگ رینگ کر چلنے سے تو ہم آج پہنچنے سے رہے۔ کبڑے نے کہا۔ ہاں اس کی ہمت بڑھاؤ ذرا۔ ایک جماؤ نا گدی پر لمبا نوجوان بولا: او بڈھی بیماری! میں سیدھا کر دوں گا تجھے۔ سن رہا ہے ناں؟ کبڑا بولا۔ گامُو خفیف سا ہنسا۔ ہاں صاحب، سنتا ہوں۔ مولا آپ کو سکھی رکھے۔

    کوچوان چاچا۔ تم شادی شدہ ہو؟ لمبے نوجوان نے پوچھا تو گامُو ہنس پڑا۔ میری شادی تو اب قبرستان میں پہنچ کر ہی ہوگی، اب دیکھو جی، میرا بیٹا مرگیا ہے اور میں زندہ ہوں۔ کیسی اڈھب سی بات ہے۔ موت کو ذرا بھی ڈھنگ نہ تھا، پہلے مجھ پر آتی۔ پھر گامُو ان نوجوانوں کی طرف گھوما تا کہ وہ انہیں اپنے بیٹے کے مرنے کا قصہ تفصیل سے سنائے لیکن اسی لمحے کبڑا بولا: لو جی۔ آ گیا لاری اڈّا۔ وہ تینوں کرائے کے دام چکا کر چلے گئے اور گامُو انہیں دیکھتا رہ گیا۔

    وہ ایک بار پھر اکیلا تھا اور جس بے چارگی کے درد سے وقتی طور پر اس کی توجہ ہٹ چکی تھی، وہ درد ایک بار پھر پوری شدّت سے جاگ اٹھا۔ گامُو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے سڑک کی دوسری جانب آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ ان میں ایسا کون تھا، کوئی ایک جو اس کی بپتا سن لیتا۔ لیکن لوگوں کا ہجوم تھا جو اس کی حالت سے بے خبر اپنے اپنے راستے پر رواں تھا۔ اس وقت اس کی بے چارگی کا یہ عالم تھا کہ اگر اس کا دل پھٹ جاتا اور درد کا سیلاب بن کر بہہ نکلتا تو گامُو کو یقین تھا کہ پورا جہان بہا لے جاتا لیکن خدا جانے کہاں ٹھہرا تھا یہ درد۔

    اسی لمحے گامُونے ایک قلی کو دیکھا جس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا تھیلا تھا۔ گامُو نے اس سے بات کرنے کا بہانہ تراشا۔ دوست، کیا وقت ہو گا ابھی؟ گامُو نے قلی سے پوچھا۔ دس بجنے والا ہو گا، تم یہاں کاہے کو کھڑا ہے، چلتا بن! قلی نے پان چباتے ہوئے کہا۔ گامُو چند قدم آگے بڑھ گیا۔ وہ ایک بار پھر تنہائی کے رحم و کرم پر تھا۔ اسے خیال آیا کہ لوگوں سے کیا کہنا۔ واپس اڈّے کو چلنا چاہیے۔ اب اسے سَر درد بھی محسوس ہونے لگا تھا۔ گامُو نے باگ پکڑی اور اڈّے کی راہ لی۔

    تانگے والوں کے اڈے پر ایک ٹین کی چھت کے نیچے ایک چولھا ہلکی آنچ پہ جل رہا تھا اور سارے کوچوان اس کے گرد چوبی بنچوں پر لیٹے بیٹھے خراٹے لے رہے تھے۔ گامُو بھی درمیان میں جگہ پا کر بیٹھ گیا۔ میں نے آج کچھ بھی کمائی نہیں کی۔ گامُو سوچنے لگا۔ کچھ اپنے کھانے کے لیے خرید سکا نہ اپنی گھوڑی کے لیے۔ شاید اداسی کی یہی وجہ ہے۔ جس شخص کے پاس اپنے کھانے کے لیے کچھ ہو، گھوڑے کے لیے بھی ہو اور اپنا کام بخوبی کر لیتا ہو، وہ سکون میں رہتا ہے۔ گامُوکے ذہن میں خیالات آنے لگے۔

    اسی لمحے ایک نوجوان کوچوان نیند سے اٹھا اور ادھ کھلی آنکھوں سے پانی کے مٹکے کی طرف بڑھا۔ پانی پیو گے؟ گامُو نے اس سے پوچھا۔ ہونھ، میرا بیٹا اسی ہفتے مرا ہے، سن رہے ہو؟ ہاں۔ اسی ہفتے، ڈاکٹر ﷲ بخش صاحب کے شفا خانے پر، نرالے کام ہیں اوپر والے کے۔ ساتھ ہی گامُو نے اس خبر کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے غور سے نوجوان کی طرف دیکھا تو وہ پانی پی کر ایک بار پھر آنکھیں بند کرچکا تھا۔ گامُو چپ ہوگیا۔ جس طرح سے اس نوجوان کو پانی کی پیاس تھی، اسی طرح گامُو کو بھی اپنی بپتا سنانے کی حسرت تھی۔ وہ تو پانی پی کر سو رہا لیکن گامُو پھر تنہا تھا۔

    اس کے لڑکے کو مرے ایک ہفتہ ہونے کو تھا اور گامُو نے کسی کو ہنوز اپنے بیٹے کی موت کے بارے میں تفصیل سے نہیں بتایا تھا۔ وہ پوری تفصیل سے کسی کو بتانا چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا بیمار کیسے پڑا، وہ کس قدر تکلیف میں تھا۔ پھر مرتے وقت اس نے کیا کہا، پھر وہ کیسے مر گیا۔

    گامُو بتانا چاہتا تھا کہ اس کی آخری رسم کیسے ادا ہوئی، پھر گامُو اپنے بیٹے کے کپڑے اٹھا لانے کے لیے کیسے ڈاکٹر ﷲ بخش کے کلینک پر گیا۔ گاؤں میں گامُو کی ایک بچّی بھی تھی، شبنم، جسے وہ شبو کہا کرتا تھا۔ وہ اس بارے میں بھی بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اس کی بات سننے والا دکھ سے یقیناً رو پڑتا اور کسی عورت سے بیان کرنا تو اور بھی بہتر تھا کہ یہ بھلی مانس مخلوق ایسی بات پر پہلا لفظ سنتے ہی رو رو کر برا حال کر لیتی ہے۔

    ذرا باہر جا کر گھوڑی کو دیکھوں، گامُو کو خیال آیا تو اس نے چادر اوڑھی اور اٹھ کر باہر چلا گیا۔ اپنی گھوڑی کے پاس آ کر وہ چارے کے بارے میں سوچنے لگا۔ موسم کے بارے میں سوچنے لگا لیکن تنہائی میں اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ نہ سوچ سکا۔ کسی دوسرے سے اس کا تذکرہ کرنا تو بوڑھے گامُو کے بس میں تھا لیکن اس کے بارے میں سوچنا اور اس کی تصویر اپنے خیالات کی تختی پر بنانا اس کے لیے ازحد درد ناک تھا۔

    تم جگالی کر رہی ہو؟ گامُو نے اپنی گھوڑی کی آنکھوں کی چمک میں جھانکتے ہوئے کہا: ہاں شاباش، دیکھو ہم نے آج کچھ نہیں کمایا۔ ہم دونوں آج گھاس کھائیں گے، دیکھو میں کافی بوڑھا ہوگیا ہوں اور یکّہ چلانے کے قابل نہیں رہا، میرا بیٹا زندہ ہوتا تو وہ میری جگہ یکّہ چلاتا، وہ اصل کوچوان تھا، اسے زندہ رہنا چاہیے تھا۔

    گامُوایک لمحے کو خاموش ہو کر پھر گویا ہوا: میرے بیٹے نے مجھے الوداع کہا اور وہ چلا گیا، کوئی بات ہی نہ تھی اور وہ چلا گیا دیکھو، تم ایک لمحے کو فرض کرو کہ تمہارا ایک بچھیرا ہوتا، تمہارا بچہ اور تم اس کی ماں ہوتیں اور پھر وہی چھوٹا بچھیرا تمہارا بچہ چلا جاتا یا مرجاتا، تم کتنا دکھی ہوتیں۔۔۔ ہوتیں ناں؟ گامُو کہے جا رہا تھا۔

    گھوڑی نے جگالی کی۔ گامُو کی بات سنی اور ایک گرم سانس اپنے مالک کے ہاتھ پر چھوڑ دی۔ پھر گامُو کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا اور اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اپنی دردِ دل کی ساری بپتا سنا ڈالی۔

    (اس کہانی کے مصنف ذکی نقوی ہیں‌ جن کی "مائے نی میں کنوں آکھاں” کے عنوان سے یہ المیہ روداد مشہور روسی ادیب چیخوف کی کہانی Misery: To whom shall i tell my grief سے ماخوذ ہے)

  • گرگٹ

    گرگٹ

    داروغہ جی نیا اوور کوٹ پہنے، ہاتھ میں ایک بنڈل اٹھائے بازار کے چوک سے خراماں خراماں گزررہے تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے ان کا ایک کانسٹیبل ہاتھ میں ایک ٹوکری لیے لپکا چلا آ رہا تھا۔ ٹوکری ضبط کیے گئے پھلوں سے اوپر تک بھری ہوئی تھی۔
    بازار میں ہر طرف خاموشی تھی۔ ایک چڑیا بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ گھروں اور دکانوں کے کھلے ہوئے دروازے بھوکے لوگوں کی طرح سڑک کو اداسی بھری نگاہوں سے تاک رہے تھے، یہاں تک کہ کوئی گاہک تو کیا ایک بھکاری بھی آس پاس دکھائی نہیں دیتا تھا۔
    اچھا! تو تُو کاٹے گا؟ شیطان کہیں کا۔ داروغہ کے کانوں میں اچانک یہ آواز آئی۔ پکڑو جانے نہ پائے۔ پھر ایک کتے کی چیخنے کی آواز سنائی دی۔ داروغہ نے مڑ کر دیکھا تو اسے نظر آیا کہ لکڑی کی ٹال میں سے ایک کتا تین ٹانگوں سے بھاگتا ہوا چلا آرہا ہے۔
    کلف دار قمیض اور بغیر بٹن کی واسکٹ پہنے، ایک آدمی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ اس کا سارا جسم آگے کی طرف جھکا ہوا تھا۔ وہ کتے کے پیچھے لپکا اور اسے پکڑنے کی کوشش میں گرتے گرتے بھی اس کی پچھلی ٹانگ پکڑ لی۔
    کتا ایک بار پھر چلاّیا اور وہی آواز دوبارہ سنائی دی۔ ‘‘مارو اسے، جانے نہ پائے۔ قانون کہتا ہے کہ کاٹنے والے کتوں کو فوراً مار دینا چاہیے۔’’
    اونگھتے ہوئے لوگ دکانوں اور گھروں سے باہر گردنیں نکال کر دیکھنے لگے، پھر بچے، بوڑھے، جوان سب ہی باہر نکل آئے اور دیکھتے دیکھتے ایک مجمع ٹال کے پاس جمع ہو گیا، گویا سب لوگ ابھی زمین پھاڑ کر اندر سے نکل آئے ہوں۔
    ‘‘جناب! معلوم پڑتا ہے کہ کچھ جھگڑا فساد ہو رہا ہے۔’’ کانسٹیبل داروغہ سے بولا۔
    داروغہ بائیں جانب مڑا اور مجمع کی طرف چل دیا۔ اس نے دیکھا کہ ٹال کے پھاٹک پر وہی آدمی کھڑا ہے۔ اس کی واسکٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ وہ اپنا داہنا ہاتھ اوپر اٹھائے، مجمع کو اپنی لہولہان انگلی دکھا رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کے خمار آلود چہرے پر صاف لکھا ہوا ہو…‘‘اس بدمعاش کتے کو میں اس کا مزہ چکھا کر رہوں گا۔’’ اور اس کی انگلی فتح کا پرچم نظر آرہی تھی۔ داروغہ نے اس شخص کو پہچان لیا۔ یہ سنار تھا۔
    چھوٹی نسل کا سفید رنگ کا کتا، جس کا منہ نکیلا تھا اور پیٹھ پر زرد داغ تھے، مجمع کے بیچوں بیچ اگلی ٹانگیں پھیلائے ملزم بنا بیٹھا اوپر سے نیچے تک کانپ رہا تھا۔ اس کی ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں میں بے بسی اور خوف کی جھلک تھی اور انداز رحم طلب تھا۔
    ‘‘یہ کیا ہنگامہ مچا رکھا ہے یہاں؟’’ داروغہ نے کندھوں سے مجمع کو چیرتے ہوئے سوال کیا۔
    ‘‘یہاں کیا کررہے ہو تم سب لوگ۔ اور تم یہ انگلی کیوں اوپر اٹھائے ہو، کون چلا رہا ہے؟’’
    داروغہ جی! میں چپ چاپ اپنی راہ چلا جا رہا تھا۔ سنار نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر، کھانستے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ‘‘بڑھئی سے مجھے لکڑی کے بارے میں کچھ کام تھا۔ یکایک، نجانے کیوں، اس بدمعاش نے میری انگلی پر کاٹ لیا۔’’
    داروغہ جی معاف کیجیے، میں ٹھہرا کام کاج والا آدمی۔ اور پھر ہمارا کام بھی بڑا نازک اور پیچیدہ ہے۔ ایک ہفتے تک تو شاید اس انگلی سے کام تک نہیں لے سکوں گا۔ اس لیے مجھے ہرجانہ دلوا دیجیے۔ اور جناب، قانون میں بھی کہیں نہیں لکھا کہ ہمیں اس طرح خطرناک جانوروں کو بھی چپ چاپ برداشت کرنا ہوگا۔ اگر ایسے ہی کاٹنے لگیں، تب تو جینا دوبھر ہو جائے گا۔’’
    اچھا۔ داروغہ نے گلا صاف کر کے، بھنویں سکیڑتے ہوئے کہا۔
    ‘‘ ٹھیک ہے۔ خیر، یہ کتا ہے کس کا؟ میں اس معاملے کو یہیں نہیں چھوڑوں گا، جو لوگ ایسے کتوں کو کُھلا چھوڑ دیتے ہیں، میں ان لوگوں کو سبق سکھاؤں گا۔ جو لوگ قاعدے قانون کے مطابق نہیں چلتے، ان کے ساتھ اب سختی سے پیش آنا پڑے گا۔ میں اچھی طرح سکھا دوں گا کہ کتوں اور ہر طرح کے مویشیوں کو ایسے کھلا چھوڑ دینے کا کیا مطلب ہے۔’’
    پھر کانسٹیبل کو مخاطب کرتے ہوئے انسپکٹر چلایا۔ ‘‘ذرا پتہ لگاؤ کہ یہ کتا ہے کس کا، اور رپورٹ تیار کرو، کتے کو بلاتاخیر ختم کردیا جائے۔ غالباً یہ پاگل ہوگا اور محلے والو میں پوچھتا ہوں کیا تم میں سے کسی کو معلوم نہیں کہ یہ کتا آخر ہے کس کا؟’’
    مجمع میں سے کسی نے کہا، ‘‘یہ کتا تو ہمارے جو نئے منسٹر صاحب آئے ہیں ان کا معلوم ہوتا ہے۔’’
    ‘‘منسٹر صاحب کا؟ کانسٹیبل، ذرا میرا کوٹ تو اتارنا۔ اف، بڑا حبس ہے۔ معلوم پڑتا ہے کہ بارش ہو گی۔ اچھا تو، ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس نے تمہیں کاٹا کیسے؟’’ داروغہ اب سنار کی جانب مڑا۔
    ‘‘یہ تمہاری انگلی تک پہنچا کیسے؟ یہ ٹھہرا چھوٹا سا اور تم ہو لحیم شحیم۔ ہو نہ ہو تم نے کسی کیل ویل سے انگلی چھیل لی ہو گی اور سوچا ہو گا کہ کتے کے سَر منڈھ کر ہرجانہ وصول کر لوں۔ میں خوب سمجھتا ہوں، تمہارے جیسے بدمعاشوں کی تو میں رگ رگ سے واقف ہوں۔’’
    ‘‘داروغہ جی! اِس نے یوں ہی مذاق میں اس کتے کے منہ پر جلتی سگریٹ لگا دی تھی، اور یہ کتا بیوقوف تو ہے نہیں، اس لیے اس نے کاٹ لیا۔ یہ شخص بڑا اوٹ پٹانگ ہے، ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی ہنگامہ مچائے رہتا ہے۔’’ مجمع میں سے ایک شخص بولا تو سنار چلا اٹھا۔
    ‘‘او، بھینگے! جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ تو نے مجھے یہ سب کچھ کرتے دیکھا ہے کیا؟ اپنی طرف سے گپ کیوں مارتا ہے؟ اور داروغہ جی تو خود سمجھ دار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو عدالت مجھ پر مقدمہ چلائے۔ یہ قانون میں لکھا ہے کہ سب آدمی برابر ہیں۔ میرا بھائی خود پولیس میں ہے، بتائے دیتا ہوں، کیا سمجھے!’’
    ‘‘ بند کرو یہ بکواس۔ نہیں، یہ منسٹر صاحب کا کتا نہیں ہے۔’’ سپاہی نے بڑے وثوق سے کہا۔
    ‘‘منسٹر صاحب کے پاس ایسا کوئی کتا ہے ہی نہیں، ان کے تو سبھی کتے شکاری نسل کے ہیں۔ یہ تو آوارہ لگتا ہے۔
    تمہیں ٹھیک طرح سے معلوم ہے؟’’ داروغہ نے اس کی طرف سوال اچھالا۔
    ‘‘ جی جناب، بالکل۔’’
    ‘‘ہمم ۔۔۔۔۔ویسے تو میں خود بھی جانتا ہوں۔ نئے منسٹر صاحب جانور پالنے کے شوقین ہیں، ان کے سب کتے اچھی نسل کے ہیں، ایک سے ایک قیمتی کتا ہے ان کے پاس اور یہ۔ ذرا دیکھو تو اسے۔ بالکل بدشکل، کھجیلا اور مریل ہے۔ بھلا منسٹر صاحب کا کتا ایسا کیوں ہونے لگا۔ تم لوگوں کا دماغ تو خراب نہیں ہوا۔ کون رکھے گا ایسا کتا؟ اگر ایسا کتا شہر کے پوش علاقوں کی سڑکوں پر دکھائی دیتا تو جانتے ہو کیا ہوتا؟ قانون کی پروا کیے بنا، ایک منٹ میں ان کا صفایا کردیا جاتا۔’’
    اب داروغہ دوبارہ سنار کی جانب مڑا اور بولا، ‘‘دیکھو! تمہیں چوٹ لگی ہے۔ تم مظلوم ہو، تم اس معاملے کو یوں ہی مت چھوڑ دینا۔ ایسے لوگوں کو سبق پڑھا کر رہنا۔ ایسے کام نہیں چلے گا۔’’
    ‘‘لیکن یہ بھی ممکن ہے، یہ منسٹر صاحب کا ہی ہو۔’’ کانسٹیبل کچھ سوچتے ہوئے بڑبڑایا۔
    ‘‘ اسے دیکھنے سے تو اندازہ نہیں ہوتا، مگر بالکل ایسا ہی کتا میں نے ایک دن منسٹر صاحب کے بنگلے کے دروازے پر دیکھا تھا اور اس کے گلے میں پٹّا بھی تو دیکھو۔ مطلب یہ پالتو ہے آوارہ نہیں۔’’
    ہاں ہاں، یہ کتا منسٹر صاحب ہی کا تو ہے۔ مجمع میں سے کسی کی آواز آئی۔
    ‘‘ہونہہ… کانسٹیبل، ذرا مجھے کوٹ تو پہنا دو۔ ابھی ہوا کا ایک جھونکا آیا تھا، مجھے سردی لگ رہی ہے۔ ایسا کرو، اس کتے کو اٹھاؤ اور منسٹر صاحب کے یہاں دریافت کرو۔ کہہ دینا کہ میں نے اِسے سڑک پر دیکھا تھا اور واپس بھجوایا ہے اور ہاں، دیکھو، یہ بھی کہہ دینا کہ اسے سڑک پر ایسے نہ نکلنے دیا کریں۔ معلوم نہیں، کتنا قیمتی کتا ہے اور اگر اس طرح کا ہر بدمعاش اس کے منہ میں سگریٹ گھسیڑتا رہا تو کتا بہت جلد ہی خراب ہو جائے گا۔’’
    ‘‘اور تُو اپنا ہاتھ نیچے کر، گدھا کہیں کا۔ اپنی گندی انگلی کیوں دکھا رہا ہے؟ سارا قصور تیرا ہی ہے۔ غضب خدا کا، بے زبان جانور پر ظلم۔ اس وقت میں نہ آگیا ہوتا تو تم اسے مارہی ڈالتے۔’’
    اتنے میں کانسٹیبل نے دور سے آتے ایک شخص کو دیکھتے ہوئے کہا۔
    ‘‘وہ دیکھو، منسٹر صاحب کا باورچی آ رہا ہے، اس سے ہی پوچھ لیا جائے۔ اے خانسامے۔ ذرا ادھر تو آنا۔ اس کتے کو دیکھنا، کہیں تمہارے یہاں کا تو نہیں ہے؟’’
    ‘‘ارے میاں! یہ بھی خوب کہی۔ ہمارے یہاں کبھی بھی ایسا کتا نہیں تھا۔’’ باورچی بولا۔
    اتنا سنتے ہی داروغہ فوراً کانسٹیبل سے بولا، “بس اب مزید تفتیش کی ضرورت نہیں۔ بیکار وقت خراب کرنا ہے۔ آوارہ کتا ہے، یہاں کھڑے کھڑے اس کے بارے میں بات کرنا وقت برباد کرنا ہے۔ تم سے کہہ دیا نا کہ آوارہ ہے تو آوارہ ہی سمجھو۔ مار ڈالو اور چھٹی کرو۔’’
    ہمارا تو نہیں ہے۔ باورچی نے بات جاری رکھی۔
    ‘‘ہاں! یہ منسٹر صاحب کے بھائی ہیں جو ان کا ہے، حال ہی میں یہاں آئے ہیں۔ ہمارے منسٹر صاحب کو چھوٹی نسل کے کتوں میں کوئی دل چسپی نہیں ہے، ان کے بھائی صاحب کو یہ نسل پسند ہے۔’’
    ‘‘کیا کہا؟ منسٹر صاحب کے بھائی آئے ہوئے ہیں؟’’ اچنبھے سے داروغہ چہک اٹھا، اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ کیا مزید کچھ دن ٹھہریں گے؟’’
    ‘‘جی ہاں۔ اسے جواب ملا۔’’
    ‘بھئی خوب کہی، میں خود کئی دنوں سے ان کے بھائی سے ملنا چاہتا تھا، ان سے کام بھی تھا مجھے۔ اچھا تو یہ ان کا کتا ہے؟ بہت خوشی کی بات ہے۔ کیسا پیارا ننھا منا سا ہے۔ بس بس، اب کانپنا بند کرو۔’’ داروغہ نے کتے کے سر پر تھپکی دی۔ کتا غرانے لگا۔
    ‘‘شیطان کہیں کا۔ غصے میں ہے اور مزاج کا ذرا گرم لگتا ہے۔ یہی تو علامت ہے اچھی نسل کے کتے کی۔ کتنا پیارا ہے یہ۔’’ اب داروغہ نے سنار کی طرف دیکھا۔
    ‘‘کیوں بے! معلوم نہیں تجھ کو جانوروں پر ظلم کرنے کے متعلق کس قدر سخت قانون ہے اور وہ بھی منسٹر صاحب کے کتے پر۔ میں اگر چاہوں تو تم کو ابھی اس جرم میں سلاخوں کے اندر ڈال دوں۔ خبردار جو آئندہ ایسی کوئی حرکت ہوئی، تجھے ٹھیک مزہ چکھاؤں گا۔’’ داروغہ نے اسے دھمکایا۔
    اور پھر داروغہ اپنا اوور کوٹ اپنے جسم پر لپیٹتے ہوئے باورچی سے بولا۔
    ‘‘لے بھئی! ذرا اٹھا تو لے اس غریب کو، چل منسٹر صاحب کے یہاں پہنچا دیں۔’’
    باورچی نے کتے کو اٹھایا اور داروغہ اسے ساتھ لے کر منسٹر صاحب کے گھر کی جانب چل پڑا۔
    پیچھے پورا مجمع سنار پر ہنس رہا تھا۔

    (روسی ادیب انتون چیخوف کی کہانی کا اردو ترجمہ. یہ کہانی اس سماج کی عکاسی کرتی ہے جس میں غریب اور امیر کے لیے قانون اور انصاف کے پیمانے الگ الگ ہوتے ہیں)