Tag: انتہا پسند ہندو

  • انتہا پسند ہندوؤں نے مندر کے پجاری کو بھی نہ بخشا

    انتہا پسند ہندوؤں نے مندر کے پجاری کو بھی نہ بخشا

    انتہا پسند ہندوؤں نے مندر کے پجاری کو بھی نہ بخشا اور اس پر قاتلانہ حملہ کر دیا پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔

    بھارت میں اقلیتیں بالخصوص مسلمان تو ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ خود ہندو مذہب کی نچلی ذات کے افراد کو بھی یہ انتہا پسند اپنی انا کی بھینٹ چڑھاتے ہیں لیکن اب یہ اتنے بے قابو ہوچکے ہیں کہ مندر کا پجاری بھی ان کی دستبرد سے محفوظ نہیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ حیدرآباد دکن کے مضافات میں چلکور بالاجی مندر میں پیش آیا، جہاں 20 سے زائد انتہا پسند ہندوؤں کے گروہ نے مندر کے ہیڈ پجاری رانگاراجن پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ پولیس نے متاثرہ پجاری کی درخواست پر مرکزی ملزم راگھو ریڈی سمیت 6 ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔

    متاثرہ پجاری رانگاراجن نے پولیس کو جو بیان دیا اس نے سب کو چونکا دیا۔ رانگاراجن کے مطابق ملزمان نے ان سے مالی مدد کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ’’رام راجیم آرمی‘‘ میں شامل اور دوسروں کو بھی اس میں شامل ہونے کی ترغیب دینے کا مطالبہ کیا۔

    مندر پجاری کے مطابق جب انہوں نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کیا تو اس گروہ نے ان پر حملہ کر دیا۔

    پولیس کے مطابق مرکزی ملزم ویر راگھوا ریڈی نے 2022 میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمس بشمول فیس بک پر "رام راجیم آرمی” کی بنیاد رکھی اور بھارت میں رام راج کے قیام کے لئے ایک تحریک شروع کی ہے اور وہ اس تحریک میں نوجوانوں کو بھرتی کررہا ہے اور ہر نوجوان کو 20ہزار روپے تنخواہ بھی ادا کررہا ہے

    چیف منسٹر ریونت ریڈی نے چلکوری بالاجی مندر کے چیف پجاری رنگا راجن پر حملے کے واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ایسے حملوں کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔ انہوں نے پولیس کو حملہ آوروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔

  • اسکول میں نماز پر تنازعہ، ٹیچر پر تشدد کی ویڈیو سامنے آگئی

    اسکول میں نماز پر تنازعہ، ٹیچر پر تشدد کی ویڈیو سامنے آگئی

    احمدآباد: گجرات کے شہر احمدآباد کے ایک خانگی اسکول میں اویرنیس پروگرام کے دوران مبینہ طور پر ہندو طالب علم کو نماز کا کہنے پر انتہا پسند ہندوؤں نے اسکول پر دھاوا بول دیا اور اسکول ٹیچر کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، انتہا پسند ہندوؤں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ واقعے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی ہے، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک اسکول ٹیچر پر تشدد کیا جارہا ہے۔

    ریاستی حکومت کی جانب سے 29 ستمبر کو اسکول میں پیش آئے واقعے کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پروگرام کا مقصد صرف طلبا کو دیگر مذاہب کے طریقہ عبادت سے متعلق آگاہی فراہم کرنا تھا۔

    اسکول انتظامیہ کے مطابق ہم نے کسی بھی طالب علم کو نماز کے لئے مجبور نہیں کیا۔ اس کے باوجود اسکول کی جانب سے معافی مانگی گئی ہے، ویڈیو میں جسے بعدازاں اسکول کے فیس بک پیج سے ہٹادیا گیا، پرائمری سیکشن کے ایک طالب علم کو نماز ادا کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

    اس کے بعد 4 طلبا ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“ پڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، اس معاملے پر اے بی وی پی‘ بجرنگ دل اور دیگر ہندو تنظیموں کی جانب سے اسکول کے احاطے میں احتجاج کیا گیا۔

    مملکتی وزیر پرائمری و سیکنڈری تعلیم کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مکمل چھان بین کی جائے گی کہ آیا اس قسم کا پروگرام کس مقصد کے تحت منعقد کرایا گیا۔ واضح رہے کہ واقع کا ابھی تک مقدمہ درج نہیں ہوسکا ہے۔

  • انتہا پسند ہندو رہنما سوارکر کا جانشین مسلم دشمنی میں دو ہاتھ آگے

    انتہا پسند ہندو رہنما سوارکر کا جانشین مسلم دشمنی میں دو ہاتھ آگے

    انتہا پسند ہندو رہنما سوارکر کا جانشین مسلم دشمنی میں دو ہاتھ آگے، وینایک دمودر سوارکر کے پوتے رنجیت سوارکر نے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا ہی مطالبہ کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق انتہا پسند ہندو رہنما سوارکر کا جانشین رنجیت سوارکر نے کہا کہ ہندوٴ صرف ہندووٴں کے ساتھ لین دین، کاروبار اور تجارت کریں، مسلمانوں کے مکمل بائیکاٹ اور خاتمے سے ہی ہندوستان وجود میں آ سکتا ہے۔

    رنجیت سوارکر نے کہا کہ بھارتی مسلمانوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں ہٹلر کے طریقے اپنانے ہوں گے، مسلمان بھارت میں صرف ہندوؤں کے غلام بن کر رہ سکتے ہیں۔

    انتہا پسند نظریات سے متاثر ہو کر وینایک دمودر سوارکر کو ہٹلر نے اپنی کتاب "میری جدوجہد” بھی تحفہ کی، 1948ء میں سوارکر کو نتھورام گوڈ سے کو مہاتما گاندھی کے قتل پر اکسانے کے جرم میں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

     یاد رہے کہ بی جے پی کے روحانی پیشوا وینایک دمودر سوارکر نے ہٹلر کے نازی نظریے سے متاثر ہو کر ہندوتوا کی بنیاد رکھی تھی۔

  • ویڈیو: انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد کے اندر امام کو تشدد کا نشانہ بنا دیا

    ویڈیو: انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد کے اندر امام کو تشدد کا نشانہ بنا دیا

    جالنہ: بھارتی ریاست مہاراشٹر میں انتہا پسند ہندوؤں نے ایک مسجد کے اندر امام کو تشدد کا نشانہ بنا دیا، اور ان کی داڑھی مونڈھ دی۔

    بھارت میں مسلمانوں کا جینا مشکل ہو گیا ہے، ماہ رمضان میں بھی ہندو انتہا پسندوں کی غنڈہ گردی جاری ہے، بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاست مہاراشٹر میں ہندو انتہا پسندوں نے مسجد کے امام کو ہندو نعرہ نہ لگانے پر تشدد کا نشانہ بنایا اور داڑھی مونڈھ دی۔

    یہ واقعہ مہاراشٹر کے شہر جالنہ میں انوا گاؤں میں پیش آیا، جس میں ایک 26 سالہ امام ذاکر سید خواجہ کو مسجد کے احاطے میں تین نامعلوم افراد نے مبینہ طور پر مارا پیٹا اور ان کی داڑھی مونڈھ دی۔

    امام نے بتایا کہ وہ اتوار کی شام کو مسجد میں اکیلے تھے اور قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے کہ اچانک تین نقاب پوشوں نے دھاوا بول دیا، انھوں نے جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا اور انکار پر پٹائی کی۔

    بعد ازاں تشدد سے زخمی ہونے والے امام مسجد کو اسپتال منتقل کر دیا گیا، اور پولیس نے روایتی کارروائی کرتے ہوئے مقدمہ درج کر لیا۔ ایف آئی آر کے مطابق ہندو حملہ آوروں نے امام مسجد کو ناک سے کپڑا لگا کر بے ہوش کیا اور پھر فرار ہو گئے۔

  • جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    ناکام غدر کے بعد جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے گھناؤنے اور پُر فریب کردار کو سمیٹ کر برطانیہ نے ہندوستان کو اپنی کالونی بنایا اور یہاں انگریز راج قائم ہوا تو مسلمان اور ہندو سیاسی و سماجی راہ نما اور اکابرین نے متحد ہوکر انگریزوں کو اپنے وطن سے نکالنے اور اپنی حکومت قائم کرنے کا خواب دیکھنا شروع کیا۔

    اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے نعرے نے زور پکڑا، لیکن اس سے قبل کئی واقعات اور سانحات رونما ہو چکے تھے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں جو اپنے مذہب، رہن سہن، روایات اور ثقافت کے اعتبار سے ہر طرح جداگانہ شناخت رکھتی ہیں اور اکٹھے نہیں‌ رہ سکتیں۔

    ہندو مسلم اتحاد کا سنہری خواب تحریکِ خلافت کے دوران ہی ادھورا نظر آنے لگا تھا اور جونہی یہ تحریکِ کم زور پڑی ہندو مسلم فسادات کا ایک طویل اور خوف ناک سلسلہ چل نکلا۔

    1920ء کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے تعلقات بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نذر ہونے لگے۔ اس کشیدگی کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1923ء میں 11، اگلے سال 18، 1925ء میں 16 اور اس کے ایک سال بعد یعنی 1926ء میں 35 اور اگلے ہی برس 37 افسوس ناک واقعات رونما ہوئے جو ہندو مسلم فسادات کا نتیجہ تھے۔ ہر سال ایسے واقعات بڑھتے رہے جب کہ چھوٹے اور معمولی نوعیت کی تکرار اور جھگڑے عام ہوتے جارہے تھے۔

    تاریخ سے ثابت ہے کہ ہندو شروع ہی سے مسلمانوں کو اپنا مطیع و حاشیہ نشیں بنا کر رکھنے کا خواب دیکھتے آئے تھے جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ جس ہندوستان میں‌ رہتے تھے، اس پر صدیوں سے مسلمان حکم رانی کررہے تھے اور دہلی میں ان کا تخت سجا رہا تھا۔

    مغل سلطنت کے کم زور پڑ جانے کے بعد اور انگریزوں کی آمد سے قبل بھی یہاں مختلف چھوٹے بڑے علاقے مسلمان حکم رانوں کے زیرِ‌نگیں تھے اور ریاستوں پر انہی کی حکم رانی تھی۔

    ہندو احساسِ محرومی کا شکار بھی تھے اور خود کو مسلمانوں کا محکوم خیال کرتے تھے جب کہ انھیں مغل دور میں مذہبی اور ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ تھیں اور وہ اپنے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے۔

    انگریزوں کی آمد کے بعد مخصوص ذہنیت اور انتہا پسندوں نے ہندو مسلم تعلقات کو خراب کرنے کی کوششیں شروع کیں اور خیال کیا کہ انگریزوں سے ساز باز اور سازشیں کرکے اقتدار حاصل کرسکیں گے۔

    ہندو مسلم تعلقات خراب کرنے کی ابتدا ہندوؤں کی جانب سے ہوئی جنھوں نے پنڈت مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے اور شردھا نند کی قیادت میں سَنگَھٹن اور شدھی تحریکیں شروع کیں۔ سَنگَھٹن کے معنی ایک ساتھ جوڑ کر مضبوطی سے باندھنا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ہندوؤں کی تعلیم و تربیت کرنا، انھیں نظم و نسق اور مختلف امور کا ماہر بنانا، اور مخالفین سے اپنا دفاع سکھانا تھا جس کے لیے ایسے اسلحہ کا استعمال بھی سکھایا جاتا جس سے فسادات کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف کام لینا مقصود تھا۔ ہندو نوجوانوں کو لاٹھیوں، اینٹوں کے ٹکڑوں اور بنوٹ کا دشمن پر استعمال سکھایا جارہا تھا۔

    دوسری طرف شدھی تحریک کا شور ہونے لگا جس کا مطلب تھا پاک کرنا۔ یعنی وہ لوگ جو اسلام کے ہمہ گیر اور آفاقی نظریات اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہندو مت ترک کر کے مسلمان ہو گئے تھے انھیں مجبور کرکے دوبارہ ہندو مت میں داخل کر لیا جائے۔

    ان حالات میں ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ محض فریب ہی تھا۔ ان دونوں تحریکوں کا مقصد ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو مٹانا تھا اور اسے بڑے بڑے ہندو راہ نماؤں کی حمایت حاصل تھی۔

    ایسی تحریکوں کے انتہا پسند ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کے بارے میں اپنی ذہنیت کا کھلم کھلا اظہار شروع کردیا تھا اور ڈاکٹر مونجے نے اودھ ہندو سبھا کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح انگلستان انگریزوں کا، فرانس فرانسیسیوں اور جرمن جرمنوں کا ملک ہے اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے۔‘‘ ہندو چاہتے تھے کہ یا تو مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے یا انھیں ہندو مت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

    جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات وسیع پیمانے پر ہونے لگے اور ان کا دائرہ پھیلتا جارہا تھا اور ہندو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے، لیکن مسلم زعما بالخصوص قائدِاعظم ان مایوس کن حالات میں بھی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ تاہم جلد ہی انھیں بھی احساس ہو گیا کہ علیحدہ وطن کا حصول ناگزیر ہے۔

    مصوّرِ پاکستان ڈاکٹر علّامہ اقبال کی بات کی جائے تو وہ برطانوی راج میں ہندوستانی آئین کے مطابق مسلمانوں کے لیے جداگانہ طرزِ‌ انتخاب سمیت علیحدہ ریاست کو اُس وقت بھی اہمیت دے رہے تھے جب قائداعظم سمیت دیگر مسلمان راہ نما ہندو مسلم اتحاد کے نعروں کے پیچھے چھپی ہندوؤں کی ذہنیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا پائے تھے۔

    علّامہ اقبال نے ایک موقع پر واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں بحثیت مسلمان زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لیے سعی و کوشش کرنی چاہیے اور ایک علیحدہ سیاسی پروگرام بنانا چاہیے۔

    بیسویں صدی كے آغاز پر جو حالات اور فسادات سمیت دیگر واقعات رونما ہوئے تو مسلمان قائدین اور اکابرین نے علیحدہ تشخص کی بات کرتے ہوئے الگ سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی کوششیں تیز کردیں اور بے شمار قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کیا۔

  • یومِ‌ وفات: مشہور مصوّر ایم ایف حسین جن کا فن پارہ خود اُن کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا

    یومِ‌ وفات: مشہور مصوّر ایم ایف حسین جن کا فن پارہ خود اُن کی زندگی کے لیے خطرہ بن گیا

    عالمی شہرت یافتہ مصوّر مقبول فدا حسین 9 جون 2011ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کی عمر 95 برس تھی۔ انھیں بھارت کا ‘پکاسو’ بھی کہا جاتا ہے۔

    وہ بھارت اور دنیا بھر میں ایم ایف حسین کے نام سے مشہور پہچانے گئے۔ ایم ایف حسین کو ان کے بعض نظریات اور بیانات کی وجہ سے قدامت پرستوں کی جانب سے تنقید اور شدید ناپسندیدگی کا سامنا بھی کرنا پڑا جب کہ ان کے بعض فن پارے بھارت میں‌ مذہبی تنازع کا باعث بنے، ان پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کا الزام لگایا گیا اور ایم ایف حسین پر مقدمات کیے گئے۔ اسی تنازع میں انھیں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے قتل کی دھمکیاں ملیں‌ اور وہ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    ایم ایف حسین 17 ستمبر سن 1915ء کو بھارت میں پندھر پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کا بیش تر حصّہ ممبئی شہر میں گزرا۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز فلموں کے بڑے بڑے بورڈ پینٹ کرنے سے کیا اور پھر وہ وقت آیا کہ ان کے فن پارے لاکھوں کروڑوں میں فروخت ہونے لگے۔ ایم ایف حسین بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ایک مشہور مصوّر بن چکے تھے۔

    سن 2008ء میں ہندو مذہبی داستانوں پر مبنی ان کا ایک فن پارہ تقریباً دو ملین ڈالر میں فروخت ہوا، جو اُس وقت تک جنوبی ایشیا میں کسی جدید فن پارے کے لیے ادا کی گئی ریکارڈ رقم تھی۔

    ایم ایف حسین نے چند فلمیں بھی بنائیں، جن میں معروف بھارتی اداکارہ مادھوری ڈکشٹ کے ساتھ بنائی گئی فلم ’گج گامنی‘ بھی شامل ہے۔ ’ایک مصوّر کی آنکھ سے‘ اُن کی پہلی فلم تھی، جو انہوں نے سن 1967ء میں بنائی تھی اس فلم نے برلن، جرمنی کے بین الاقوامی فلمی میلے میں بہترین مختصر فلم کا گولڈن بیئر اعزاز جیتا تھا۔

    ایم ایف حسین عارضۂ قلب کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ انھیں‌ علاج کی غرض‌ سے لندن کے ایک اسپتال میں‌ داخل کروایا گیا تھا، لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔

  • انتہا پسند ہندوں نے مسلمانوں کو ستانے کا نیا طریقہ اپنا لیا

    انتہا پسند ہندوں نے مسلمانوں کو ستانے کا نیا طریقہ اپنا لیا

    حیدرآباد: بھارت میں انتہاپسند ہندوؤں نے نفرت انگیز کارروائیوں کے بعد مسلمانوں کو ستانے کانیا طریقہ اپنا لیا۔ طرح طرح سے عزیت دینے والے انتہا پسند ہندو نت نئے انداز میں مسلمانوں کی تضحیک کرنے لگے۔

    تفصیلات کے مطابق خلیجی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کی جنوبی ریاست تلنگانا میں ایک ہندوں نے مسلمان ڈیلیوری بوائے سے کھانا وصول کرنے سے انکار کردیا۔

    ریاستی دارالحکومت حیدرآباد میں ایک آن لائن فوڈ کمپنی پر صارف نے اپنا آرڈر بک کروایا ، جب ڈیلیوری بوائے مطلوبہ پتہ پر کھانا لے کر پہنچا تو صارف نے صرف اس بنیاد پر کھانا لینے سے صارف انکار کر دیا کہ ڈیلیور کرنے والے لڑکا مسلمان تھا۔

    یہ بھی پڑھیں: بھارت، ہندو انتہا پسندوں کا راج، رفع حاجت کرنے پر 2 دلت بچے قتل

    ڈیلیوری بوائے مدثر نے سارا معاملہ مالک کو بتایا جس پرکمپنی نے صارف اجے کمار کے خلاف مقامی تھانے میں مقدمہ درج کروادیا۔شکایت کنندہ مدثر کی مدعیت میں درج کیے گئے مقدمے میں انڈین پینل کوڈ کے متعلقہ سیکشن کی دفعات شامل کی گئی ہیں.

    پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کی تفتیش کررہی ہے اور تمام پہلوؤں سے تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے تاہم اب تک ملزم اجے کمار کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور نہ ہی کوئی جرمانہ کیا گیا ہے۔

  • انتہا پسند ہندوﺅں کی سازشیں قبول نہیں، کشمیری عوام سڑکوں پر نکلے، حریت رہنماؤں کی اپیل

    انتہا پسند ہندوﺅں کی سازشیں قبول نہیں، کشمیری عوام سڑکوں پر نکلے، حریت رہنماؤں کی اپیل

    سرینگر : مقبوضہ کشمیرمیں مشترکہ حریت فورم نے کشمیری عوام سے اپیل کی ہے کہ ک ہوہ اپنے جائز حق اور بھارتی مظالم کیخلاف سڑکوں پر نکل کر بھرپور احتجاج کریں۔ 

    مقبوضہ کشمیر میں مشترکہ حریت فورم نے سول سوسائٹی اور وکلاء، صحافیوں، تاجروں، ٹرانسپورٹروں اور ملازمین کی انجمنوں کے اشتراک سے کشمیری قوم ، وادی کشمیر، جموں اور کارگل کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سڑکوں پر نکل کر اپنے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے لیے آواز بلند کریں۔

    کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق فورم نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کشمیری عوام پر زوردیا کہ وہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل اور متنازعہ علاقے کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی بھارت کی مذموم کارروائی کے خلاف احتجاج کریں۔

    بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مظاہروں کی کال کشمیریوں کی خواہشات کے احترام میں دی گئی ہے۔ حریت فورم نے کہا کہ کشمیری قوم انتہا پسند ہندوﺅں کی سازشوں کو ہرگز قبول نہیں کرے گی اور ہندو بنیاد پرستوں کو اپنے وطن میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گی۔

    +فورم نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ کشمیری شہداء کی قربانیوں کے ساتھ غداری نہیں کی جائے گی اور کشمیری عوام اپنی ماﺅں بہنوں اور بیٹیوں کو ہندو انتہا پسندوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

    مشترکہ حریت فورم نے کشمیری عوام سے اپیل کی کہ وہ کرفیو اور دیگر پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سڑکوں پر نکلیں۔

    بیان میں کہا گہا ہے کہ جموں و کشمیر کشمیریوں کی سرزمین ہے جو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریںگے، مشترکہ فورم نے مزید کہا کہ کشمیری بھارتی قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔

    دریں اثنا انتظامیہ نے دفعہ370کی منسوخی اور مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کے بھارتی اقدام کے خلاف احتجاج مظاہروں کو روکنے کیلئے جمعہ کو بارہویں روز بھی پوری مقبوضہ وادی میں سخت کرفیو اور دیگر پابندیوں کا نفاذ برقرار رکھا۔

    لوگوں کو گھروں میں محصور رکھنے کیلئے وادی کے اطراف ہزاروں بھارتی فوجی تعینات ہیں، انٹرنیٹ ، ٹیلیفون اور دیگر مواصلاتی ذرائع کی معطلی کی وجہ سے مقبوضہ وادی کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہے۔

  • بھارت: ہولی کے دن کرکٹ کھیلنے پر انتہا پسند ہندوؤں کا مسلمان گھرانے پر تشدد

    بھارت: ہولی کے دن کرکٹ کھیلنے پر انتہا پسند ہندوؤں کا مسلمان گھرانے پر تشدد

    نئی دہلی: پڑوسی ملک بھارت میں مسلمانوں کو ہولی کے دن کرکٹ کھیلنا مہنگا پڑ گیا، انتہا پسند ہندوؤں نے گھر میں گھس کر مسلمان گھرانے کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی مسلمان گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہے، ہولی کے دوران کرکٹ کھیلنا جرم بن گیا، مسلمان گھرانے کو انتہا پسند ہندوؤں نے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا۔

    تشدد کی ویڈیو وائرل ہوگئی، دلی کے قریب انتہا پسندوؤں نے مسلم گھرانے پر دھاوا بولا، نشے میں دھت افراد نے ڈنڈوں سے اہل خانہ کو مارا، پاکستان بھیجنے کی دھمکی بھی دی۔

    بھارت میں مسلمانوں پر بہیمانہ تشدد کا یہ واقعہ گروگرام میں پیش آیا، ہندو انتہا پسندوں نے اندھا دھند ڈنڈے برسائے، خواتین اور بچے چیختے چلاتے رہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  بھارت: گائے کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام، انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے رپورٹ جاری کردی

    میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ معاملہ اس وقت ہوا جب باہر کرکٹ کھیلنے والے مسلم نوجوانوں کے پاس ہندو انتہا پسند آئے اور ان سے کہا کہ جا کر پاکستان میں کھیلو۔

    خیال رہے کہ ہریانہ کے گروگرام میں نماز کو لے کر بھی ماضی میں تنازعات ہوئے ہیں، گزشتہ سال ستمبر میں انتہا پسند ہندوؤں کے کہنے پر میونسپل کارپوریشن نے مسجد کو سیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    ہندوؤں کا کہنا تھا کہ دن میں پانچ وقت اذان کے لیے مسجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے انھیں تکلیف ہو رہی ہے۔

  • سابق بھارتی جج مسلمانوں کو نمازِ جمعہ سے روکنے پر ہندوؤں پر برس پڑے

    سابق بھارتی جج مسلمانوں کو نمازِ جمعہ سے روکنے پر ہندوؤں پر برس پڑے

    نئی دہلی: بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کو اذیت دینے کا ایک اور بہانہ ڈھونڈ لیا، انتہا پسندوں نے اعلان کر دیا کہ کھلی جگہوں پر نمازِ جمعہ نہیں پڑھنے دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں انتہا پسند ہندو اب مسلمانوں کو کھلی جگہوں میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے روکنے لگے، سابق بھارتی جج ہندوؤں کے اس انتہا پسندانہ رویے پر برس پڑے۔

    [bs-quote quote=”مسلمانوں کو نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے روکے جانے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”سابق بھارتی جج”][/bs-quote]

    بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کٹجو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے روکے جانے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔

    مارکنڈے کٹجو کا کہنا تھا کہ اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہے تو وہ کسی کا ہاتھ یا سر تو قلم نہیں کر رہا، اس پر اعتراض کیوں ہے، مسلمانوں کو میدانوں اور پارکوں میں نماز پرھنے سے روکنا غلط ہے۔

    انھوں نے کہا کہ آر ایس ایس اور دوسری انتہا پسند تنظیموں کو بھی تو کھلے میدانوں میں جمع ہونے کی اجازت ہے، تو مسلمانوں کو مذہبی عبادات کی ادائیگی کی اجازت کیوں نہیں؟

    سابق جج نے کہا میں مذہبی آزادی کا قائل ہوں، بھارتی حکومت نے دنیا میں ہماری ناک کٹوا دی ہے، گائے کو ماتا نہیں مانتا، خود اس کا گوشت کھاتا ہوں۔


    یہ بھی پڑھیں:  انڈیا: مسلمانوں کے قتلِ عام میں ملوث 16 پولیس اہل کاروں کو 30 سال بعد سزا


    چند ماہ قبل ہریانہ کے گوڑ گاؤں میں انتہا پسند ہندوؤں نے نعرے لگاتے ہوئے با قاعدہ طور پر مسلمانوں کو نماز جمعہ سے روک دیا تھا جس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر تیزی سے وائرل ہو گئی تھی، بعد ازاں چھ انتہا پسند ہندوؤں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

    خیال رہے کہ جب بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا کیس بھارت خود عالمی عدالت برائے انصاف میں لے گیا تھا، تو اس پر بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کٹجو کا کہنا تھا کہ بھارت نے ایسا کر کے بڑی غلطی کر دی ہے۔