Tag: اندلس

  • اسلامی ہسپانیہ: تاریخِ اندلس کا ایک روشن باب

    اسلامی ہسپانیہ: تاریخِ اندلس کا ایک روشن باب

    جزیرہ نما ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ تاریخ، اسلامی تاریخ کا نہایت مہتم بالشّان باب بھی ہے اور عبرت کا نہایت اندوہ ناک مرقع بھی۔ یہ ملک ولید اوّل کے عہدِ حکومت میں طارق اور موسیٰ کے ہاتھوں مفتوح ہو کر خلافتِ دمشق کا ایک صوبہ قرار پایا تھا۔

    خلافتِ بنو امیّہ کے زوال کے بعد جب خلافتِ عباسیہ کا عروج ہوا تو عبدالرّحمٰن نامی ایک اموی شہزادہ عباسیوں کے ہاتھوں قتل سے کسی طرح بچ کر مشرق سے بھاگ کر بکمال پریشانی و سرگردانی اندلس (ہسپانیہ) پہنچ گیا اور وہاں محض اپنی مردانگی و فرزانگی سے ایک آزاد سلطنت قائم کرنے میں‌ بھی کام یاب ہوگیا۔

    عظیم الشّان تہذیب کے بطن سے یورپ کے نشاۃِ ثانیہ کی ولادت ہوئی۔ عبدالرّحمن کی اولاد میں آٹھویں تاج دار عبدالرّحمن ثالث نے خلیفہ کا لقب اختیار کیا۔ دسویں صدی ہجری میں خلافتِ اندلس کا آفتاب نصفُ النّہار پر پہنچ گیا اور اس عظیم الشّان سلطنت کا دارُالخلافہ "قرطبہ” دنیا کا ایک ‘گوہرِ آب دار’ بن گیا۔

    صدیٔ مذکورہ میں تمام یورپ اور افریقہ کی عنانِ سیاست اسی شہر کے ہاتھوں میں رہی۔ یہ حیرت انگیز سلطنت اپنے زمانے کا عجوبہ تھی اور اس کی طاقت سے تمام دنیائے مسیحی کانپ اٹھتی تھی۔ اس کا ایک ہزار سے زائد تجارتی جہازوں کا بیڑا دنیا کے تمام سمندروں پر قابضانہ تصرف رکھتا تھا اور دنیا بھر کی دولت اس ملک میں سمٹ آئی تھی۔

    خلفائے قرطبہ نے علوم و فنون کی اس فراخ دلی سے قدر دانی کی کہ خزانۂ شاہی ان کے لیے تنگ ہو گیا۔ ہر کمال را زوال کے مصداق اس سلطنت کو بھی اسی بوسیدگی نے آن دبایا جو ہر سلطنت کا حصّہ ہوا کرتی ہے۔ دولت و حشمت کی بہتات سے، کیا اہلِ دربار اور کیا عوام النّاس اپنے اخلاقِ کریمہ کو زندہ نہ رکھ سکے اور عیش پرستی و فسق و فجور میں مبتلا ہو گئے۔ یہاں تک کہ گیارہویں صدی کے ربع اوّل میں خلافتِ قرطبہ اپنی عمرِ طبعی کو پہنچ کر ختم ہو گئی۔

    خلافتِ عظمٰی کے کھنڈرات پر بے شمار چھوٹی بڑی ریاستیں قائم ہو گئیں۔ اگرچہ ان کے حکم رانوں کے دربار علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کے شان دار گہوارے تھے لیکن وہ باہمی رشک و حسد میں ایک دوسرے سے دست و گلو رہنے لگے۔ ان خانہ جنگیوں نے عیسائیوں کے مفاد کو بڑی تقویت پہنچائی اور ان کو بازیافت اندلس کا خیال پیدا ہوا۔

    اسی زمانے میں افریقہ میں المرابطین کی سلطنت قائم ہوئی۔ اس وقت یوسف بن تاشفین ان کا حکم راں تھا جس نے شہر ‘مراکش’ قائم کر کے اس کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔ اس نے اندلس آ کر زلاقہ کے مقام پر ایک فیصلہ کن معرکہ میں عیسائیوں کو فاش شکست دی جس کی وجہ سے اندلس میں مسلمانوں کا قیام بقدر چار سو سال کے بڑھ گیا۔ مگر یوسف کے مراکش واپس ہوتے ہی ملوک الطوائف پھر عیش و طرب میں پڑ گئے اور اپنے تاج و تخت کو برقرار رکھنے کے لیے یوسف کے مقابلے میں الٹا عیسائیوں کی مدد کرنے لگے۔ اس امر کو محسوس کر کے یوسف نے سلاطینِ اندلس کو معزول کر کے وہاں اپنی سلطنت قائم کر لی۔ المرابطین نے اندلس پر تقریباً پچاس سال حکومت کی لیکن یہ پورا زمانہ اندلس میں خانہ جنگیوں میں صرف ہوا۔ یہاں تک کہ افریقہ میں ایک اور سیاسی انقلاب رونما ہوا اور سلطنتِ مرابطین الموحدین کے ہاتھوں زیر و زبر ہو گئی۔

    الموحدین کے سلاطین نے بھی اندلس پر تقریباً اسی (80) سال حکومت کی۔ ان کے زمانے میں اندلس ایک نہایت مہذب و متمدن سلطنت تھی جس کے ہاتھ میں مغربی یورپ کی پالیسی تھی۔ اس خاندان کے اوّل تین سلاطین بڑے قابل فرماں روا ثابت ہوئے۔ یہ لوگ ابنِ ماجہ، ابنِ طفیل اور ابنِ رشد جیسے فلاسفہ کے مربّی تھے۔ ان کے زمانے میں اشبیلیہ کو اندلس کا دارالخلافہ بنایا گیا اور اس کو خوب صورت عمارتوں سے مزین کیا گیا تھا۔ اس شہر میں ایک حسین و جمیل مینار بطور ان کی یادگار اب تک باقی ہے۔

    (ماخوذ از تاریخِ اسلامی ہسپانیہ)

  • الحاجب المنصور: عالمِ اسلام اور اندلس کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش کردار

    الحاجب المنصور: عالمِ اسلام اور اندلس کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش کردار

    محمد بن ابی عامر نے اندلس کی حکم رانی کا خواب اُس عمر میں دیکھا تھا جس میں ان کے ساتھی گپ شپ اور تفریحی مشاغل میں مصروف رہتے تھے۔ ماہ و سال کی گردش نے جب ان کے خواب کو حقیقت میں بدلا تو وہ محمد بن ابی عامر الحاجب المنصور کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ اندلس کے بہترین منتظم جب کہ عالمِ اسلام کے بہادر اور فاتح سپاہ سالار بنے۔

    اندلس کی تاریخ کے اس فرماں روا کے بارے میں کم ہی پڑھنے کو ملتا ہے، لیکن کئی معتبر مؤرخین اور تذکرہ نویسوں کے علاوہ مشہور سیاحوں نے ان کے عہد کا مختصر احوال رقم کیا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ محمد بن ابی عامر المنصور کے حالاتِ زندگی اور تخت سے فتوحات تک تفصیل میں جائیں تو ہمیں کئی روایات اور ان سے منسوب قصائص پڑھنے کو ملیں گے جن سے ان کی سیرت و کردار اور عہدِ حکم رانی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔ آئیے حالاتِ زندگی سے انھیں جاننے کا آغاز کرتے ہیں۔

    ان کا آبائی وطن جنوبی اسپین بتایا جاتا ہے جہاں انھوں نے ایک ساحلی شہر الخضرا کے متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ مؤرخین کی اکثریت متفق ہے کہ ان کا سنِ پیدائش 937ء رہا ہوگا۔ ابن ابی عامر کے جدامجد کا نام عبدالمالک المعفری تھا جو اندلس کی پہلی فتح کے زمانے میں طارق بن زیاد کے سپاہیوں میں سے ایک تھا اور یہاں الخضرا کے قریب آباد ہوا تھا۔ اسی سپاہی کی آٹھویں نسل میں محمد بن ابی عامر پیدا ہوئے۔

    ابتدائی تعلیم آبائی علاقے میں اس دور کے دستور کے مطابق مکمل کرکے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے قرطبہ آنے والے محمد بن ابی عامر کو دورانِ تعلیم بڑا آدمی بننے کا شوق پیدا ہوا اور انھوں نے حاجبُ السّلطنت (وزیر اعظم) بننے کا خواب دیکھنا شروع کردیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ سنجیدگی سے اس کے لیے منصوبہ بندی کرنے لگے کہ اس منصب پر فائز ہوکر کیسے ملکی معاملات کو سدھار سکتے ہیں۔ جب وہ یہ باتیں اپنے دوستوں سے کرتے تو وہ ان کا مذاق اڑاتے اور انھیں بے وقوف اور دیوانہ کہتے، لیکن ان کی یہ خواہش اور جستجو ختم نہ ہوئی۔ اس حوالے سے ایک روایت مختلف انداز سے بیان کی جاتی ہے جس میں سے ایک کچھ یوں ہے: قرطبہ کی مسجد میں محمد بن ابی عامر اور ان کے ساتھی اپنے اپنے مستقبل کے بارے میں‌ بات کررہے تھے۔ ابن ابی عامر نے خود کو مستقبل میں سلطنت کا وزیرِاعظم بتایا تو دوست بے ساختہ ہنسنے لگے۔ ایک شوخ لڑکے نے طنزیہ شعر بھی چُست کر دیا۔ محمد بن ابی عامر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ انھوں نے کہا: ’’یہ تو ہو کر ہی رہے گا۔ ابھی وقت ہے، اپنے لیے جو مانگنا ہے، مانگ لو‘‘۔ یہ سن کر ایک دوست نے استہزائیہ انداز میں کہا: ’’اے ابن ابی عامر! مجھے قاضی بننے کا شوق ہے، تم مجھے میرے آبائی شہر مالقہ کا قاضی بنا دینا۔‘‘ دوسرے نے پولیس کا اعلیٰ کا عہدہ مانگا۔ تیسرے نے کہا کہ مجھے شہر کے تمام باغات کا نگران بنا دینا۔ جس لڑکے نے طنزیہ شعر پڑھا تھا، اس نے حقارت سے کہا: ’’تمہاری اگلی سات نسلوں میں بھی کوئی وزیرِ اعظم بن گیا تو میرا منہ کالا کر کے گدھے پر شہر میں گشت کرانا۔‘‘ اور پھر لڑکا پچھتایا۔

    ابن عامر نے قرطبہ سے قانون اور ادب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی شہر کی کچہری میں بطور عرضی نویس کام شروع کر دیا۔ اپنی سنجیدگی، دل جمعی، قابلیت اور نکتہ سنجی کے باعث وہ شاہی حکام کی نظروں میں آئے اور ان کے توسط سے شاہی خاندان کے ساتھ تعلق قائم ہو گیا۔ بعض تذکروں میں‌‌ آیا ہے کہ خلیفۂ وقت کو اپنے دونوں شہزادوں کے لیے اتالیق اور جائیداد کا حساب رکھنے کے لیے محرّر چاہیے تھا اور محمد بن ابی عامر اس کے لیے منتخب ہوگئے۔ قسمت ان کے خواب اور عزم و ارادے کے ساتھ تھی اور وقت نے کچھ اس تیزی سے کروٹ بدلی کہ ابنِ عامر وہ شخص بن گئے جس کے تعاون اور مدد سے خلیفہ ہشام اوّل کے انتقال کے بعد بارہ سالہ ولی عہد ہشام دوم مسندِ خلافت تک پہنچے۔ اور پھر اسی نو عمر خلیفہ نے اپنے محسن کو حاجب جیسے اہم ترین عہدے پر فائز کیا۔ ابنِ عامر کا یہ عہد چھتیس سال تک رہا جس میں انھوں نے عیسائی لشکروں سے باون جنگیں لڑیں اور ہر بار میدان سے فاتح بن کر لوٹے۔ وہ المنصور کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اس سے قبل وہ قاضی کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے

    مشہور برطانوی مؤرخ اور ماہرِ آثارِ قدیمہ اسٹینلے لین پول نے المنصور کے بارے میں لکھا: ’’عبدالرحمٰن سوئم نے جس عظیم اندلس کا خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیر المنصور کے عہد میں ہوئی‘‘۔ ابنِ ابی عامر المنصور نے اندلس میں اعلیٰ پائے کا انتظام رائج کیا اور ہر شعبے میں‌ قاعدہ مقرر کیا۔ اس عہد میں رشوت اور بدعنوانی کی سختی سے بیخ کنی کی گئی جب کہ اہلِ علم و ادب کی بڑی قدر افزائی اور ان کے لیے وظیفے مقرر کیے۔

    مشہور ہے کہ ابنِ ابی عامر نے اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل اپنے وزرا کو بتایا: ’’میں زمانۂ طالبِ علمی سے سوچتا تھا کہ اگر تقدیر مجھے اندلس کا طاقتور ترین شخص بنا دے تو میں اس سلطنت کو عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچا دوں گا کہ یہاں کے شہری ہونے پر سب فخر کریں گے۔‘‘ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ان کے عہد میں عوام خود کو بہت محفوظ خیال کرتے تھے۔ دوسری طرف وہ اسلام کے ایک بہادر سپاہی اور اپنے دین کے محافظ بھی تھے جس نے میدانِ جنگ میں عیسائیوں کو بدترین شکست دی تھی جس کی بنا پر وہ المنصور سے سخت نفرت کرتے تھے، لیکن بعد کے ادوار میں عیسائی مؤرخین نے بھی لکھا کہ اس مسلمان منتظم کے دور میں‌ اندلس کو جو عروج نصیب ہوا، وہ دوبارہ نہ مل سکا۔ انھوں نے کئی علاقوں کو فتح کے بعد مرکز کے صوبے کے طور پر اپنی سلطنت سے جوڑا اور خراج وصول کرکے اسے مالی طور پر مستحکم کیا۔

    ابنِ ابی عامر اندلس اور مسلم تاریخ کا ایک ایسا جگمگاتا کردار ہے، جس کی آب و تاب کئی سو سال گزرنے جانے کے بعد بھی ماند نہیں پڑی۔ تاریخ کی کتب میں آیا ہے کہ وہ الحاجب المنصور کے نام سے یاد کیے جاتے تھے جس میں‌ حاجب ان کا عہدہ اور المنصور ان کی غیرمعمولی فتوحات کے لیے دیا گیا نام تھا۔ 10 اگست 1002ء کو وفات پانے والے اس مشہور مسلمان منتظم اور جرنیل کی یادگار کے طور پر وسطی اسپین میں ایک پہاڑ کی سب سے بلند چوٹی کو ان سے موسوم ہے۔ اسپین میں کئی مقامات پر ان کے مجسمے نصب ہیں اور آج بھی دسویں صدی کے اس نام ور مسلمان جرنیل کی بہادری اور شان دار عہد کی یاد دلاتے ہیں۔

  • ہشام اوّل کے خلاف سلیمان کی بغاوت: امارتِ قرطبہ کا ایک ورق

    ہشام اوّل کے خلاف سلیمان کی بغاوت: امارتِ قرطبہ کا ایک ورق

    مؤرخین نے ہشام اوّل کو نرم دل، رعایا پرور اور نیک و عبادت گزار حکم راں لکھا ہے جو بہترین نظم و نسق اور اپنے حسنِ سلوک کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ وہ امارتِ قرطبہ کے بانی اور پہلے حکم ران عبدالرّحمٰن الداخل کا بیٹا تھا جو اپنے والد کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھا۔

    ہشام بن عبدالرحمٰن الداخل کا سنِ پیدائش 26 اپریل 757ء بتایا جاتا ہے جس کی زندگی کا سفر آج ہی کے دن 796ء میں ہمیشہ کے لیے تمام ہو گیا تھا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ وہ امارتِ قرطبہ کے دوسرے حکم ران کی حیثیت سے 788ء میں تخت پر بیٹھا تھا۔ ہشام ایک علم پرور، ادب دوست خلیفہ ہی مشہور نہیں بلکہ اپنے محاسن و اخلاق کی بنا پر عوام میں‌ بھی مقبول رہا۔

    وہ قرطبہ میں پیدا ہوا تھا۔ ہشّام کی کنیت ابوالولید تھی۔ اسے عبدالرحمٰن الدّاخل نے اپنی زندگی میں ہی اپنا ولی عہد مقرر کر کے بطور جانشین اس کے نام کا اعلان کر دیا تھا۔ ہشّام کے بھائی سلیمان کو والد کا یہ فیصلہ سخت گراں‌ گزرا تھا، لیکن مجال نہ تھی کہ اختلاف کرتا۔

    مؤرخین اس سے متعلق ایک واقعہ پیش کرتے ہیں جو کچھ یوں ہے: ایک مرتبہ عبدالرحمٰن الدّاخل نے اپنے ان دونوں بیٹوں کی ذہانت اور قابلیت کی آزمائش کے لیے انھیں‌ اشعار سنا کر شاعر کا نام پوچھا۔ ہشام نے شعر سن کر بتایا کہ اس کا حافظہ کہتا ہے یہ اشعار امرؤ القیس کے ہیں اور میرا گمان ہے کہ یہ اشعار اس نے ہمارے امیر ہی کی شان میں کہے ہیں۔ عبدالرحمٰن نے اسے سراہا اور اس کا جواب قبول کیا اور پھر دوسرے اشعار سلیمان کے سامنے پڑھے مگر اُس نے کہا کہ مجھے عربوں کے اشعار یاد کرنے کی فرصت نہیں، کیوں کہ مجھے اس سے زیادہ دوسرے ضروری کام کرنے ہوتے ہیں۔ عبدالرحمٰن یہ سن کر خاموش ہو گیا۔ یہ واقعہ احمد محمد المقری کی مشہور تصنیف میں موجود ہے۔

    788ء میں عبدالرحمٰن الدّاخل کا انتقال ہو گیا۔ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ: ’’جس وقت عبدالرحمٰن نے سفرِ آخرت اختیار کیا تو اُس وقت اُس کا بڑا بیٹا سلیمان طلیطلہ میں حکم رانی کر رہا تھا اور اُس کا دوسرا بیٹا ہشام ماردہ کا انتظام سنبھالے ہوئے تھا۔ عبدالرحمٰن نے اِسی کو اپنا ولی عہد بنایا تھا۔ تیسرا بیٹا عبد اللہ مسکین وفات کے وقت قرطبہ میں موجود تھا۔ اپنے باپ کے مرنے پر اپنے بھائی ہشام کی حکومت کی بیعت کر لی اور اُس کو خبر پہنچائی۔ چنانچہ ہشام ماروہ سے قرطبہ آیا اور حکم رانی کی عبا پہن کر حکم رانی کرنے لگا۔

    ہشام کی حکومت قائم ہوتے ہی اُس کے بڑے بھائی سلیمان نے بغاوت کر دی اور اپنے ہمراہ طلیطلہ کے باشندوں سمیت جنگ پر اتر آیا۔ ہشام کا چھوٹا بھائی عبد اللہ بھی پسِ پردہ سلیمان سے جا ملا اور محض غائبانہ بیعت کی آڑ میں موقع پاکر قرطبہ سے فرار ہو گیا اور سلیمان کے پاس پہنچ کر بغاوت کے منصوبے میں اُس کا شریکِ کار ہو گیا۔ ہشام نے دونوں کو پیش قدمی کرنے کا موقع نہ دِیا خود فوج لے کر روانہ ہو گیا۔ طلیطلہ شہر کا محاصرہ کرتے ہوئے وہاں مقابلہ نہ کرنے کا سوچا۔ طلیطلہ کے محاصرے کو دو مہینے گزر گئے مگر مقابلے کے لیے سلیمان کی کوئی سپاہ نہ نکلی اور ہشام واپس قرطبہ آگیا۔ عبد اللہ نے جب دیکھا کہ ہشام کی فتح مندی عروج پر ہے تو وہ سلیمان کو چھوڑ کر تمرد چلا گیا اور ہشام پر بھروسا کرتے ہوئے بغیر امان طلب کیے بغیر کسی اطلاع کے قرطبہ میں آگیا جہاں ہشام اُس سے حسنِ سلوک سے پیش آیا۔ چند روز بعد سلیمان نے مصالحت کرنی بہتر سمجھی اور ہشام نے اُسے اپنے خاندان سمیت اندلس سے چلے جانے کی اجازت دے دی۔ جہاں سے وہ مراکش میں بربر قبائل کے ساتھ سکونت پر آمادہ ہو گیا اور یوں جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔

    ہشام نے محض 39 سال کی عمر میں قرطبہ میں وفات پائی۔ اس نے اپنے بیٹے الحکم بن ہشام کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ ہشام کی تدفین قصرِ قرطبہ میں‌ کی گئی۔

  • پرتگال میں‌ پانچ سو سال بعد مسجد کی بنیاد رکھی گئی!

    پرتگال میں‌ پانچ سو سال بعد مسجد کی بنیاد رکھی گئی!

    تاریخ بتاتی ہے کہ پرتگال کا علاقہ مسلم اسپین کا حصہ تھا جسے فتح کرنے کا سہرا موسٰی بن نصیر کے سَر ہے۔

    مسلمانوں نے بڑی شان و شوکت سے اس خطے پر حکم رانی کی، لیکن بعد میں یہ علاقہ عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا اور بڑا ظلم ڈھایا گیا۔ مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور مساجد کو کلیسا میں تبدیل کر دیا گیا۔

    آج پرتگال میں مسلمان اقلیت میں‌ ہیں۔ یہ 1968 کی بات ہے جب وہاں ایک قانون سازی کے بعد مسلمانوں نے خود کو مستحکم کرنے اور اپنا وجود منوانے کی کوششیں شروع کیں۔

    اس زمانے میں 17 مسلمانوں نے مل کر وہاں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ بعد میں اسی تنظیم کے تحت مسلمانوں کی مدد کرنے اور ان کے لیے فلاحی و تعلیمی مراکز کھولنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہاں آباد مسلمانوں نے قرآن مجید کا مقامی زبان میں ترجمہ کروایا اور اس کی اشاعت ممکن بنائی۔

    29 مارچ 1985 کی ایک صبح، جمعے کے مبارک دن پرتگال میں ایک بڑی تقریب کے دوران مسجد کی بنیاد رکھی گئی جو پرتگال کی سرزمین پر پانچ صدی بعد مسلمانوں کی پہلی عبادت گاہ تھی۔