Tag: انسان

  • اب انسان اور جانور بھی آپس میں گفتگو کر سکیں گے؟

    اب انسان اور جانور بھی آپس میں گفتگو کر سکیں گے؟

    مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعہ جانوروں کی زبان کا انسانی زبان میں ترجمہ کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

    انسانوں اور جانوروں کے درمیان دوستی کے کئی قصے زبان زد عام ہیں۔ کئی واقعات میں پالتو جانوروں کے مالک اپنے جانور کے احساسات کو سمجھتے اور ان سے اشاروں کی زبان میں باتیں کرتے ہیں۔ مگر اب یہ باتیں ہوئیں پرانی کیونکہ اے آئی کے ذریعے اب جانوروں کی زبان کا انسانی زبان میں ترجمہ کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایک معروف چینی ٹیکنالوجی کمپنی بائی ڈو ایک ایسی آرٹیفیشل انٹیلیجنس ایپ تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو جانوروں کی آوازوں کا انسانوں کی زبان میں ترجمہ کر سکے۔

    رپورٹ کے مطابق بائی ڈو نے اس حوالے سے گزشتہ سال دسمبر میں ایک پیٹنٹ دائر کیا تھا، جسے چائنا نیشنل انٹلیکچوئل پراپرٹی ایڈمنسٹریشن نے گزشتہ ہفتے شائع کیا ہے۔

    چینی کمپنی کے مطابق یہ اے آئی سسٹم بنانے کے لیے جانوروں کی آواز، تاثرات، رویے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں اور دیگر حیاتیاتی علامات کو ڈیٹا میں شامل کیا جائے گا۔

    اے آئی سسٹم ڈیٹا کا تجزیہ کر کے جانوروں کے جذبات و احساسات کا تعین کرے گا اور پھر اس کا انسانی زبان میں ترجمہ کرے گا اس طرح انسان کو پالتوں جانوروں کو سمجھنے اور ان کا خیال رکھنے میں آسانی ہوگی۔

    https://urdu.arynews.tv/viral-video-both-hands-lost-candidate-solved-inter-exam-with-his-feets/

  • ویڈیو: دنیا میں ’’مکمل مصنوعی دل‘‘ کے ساتھ زندہ پہلا انسان، ابتدائی 100 دن کیسے گزرے؟

    ویڈیو: دنیا میں ’’مکمل مصنوعی دل‘‘ کے ساتھ زندہ پہلا انسان، ابتدائی 100 دن کیسے گزرے؟

    انسان کا دل کے بغیر جینا ناممکن لیکن سائنس نے اس کو ممکن بنا دیا دنیا کا پہلا انسان 100 دن سے مصنوعی دل کے ساتھ زندہ ہے۔

    دل دھڑکنا زندگی کی علامت اور اس کے بغیر جینے کا تصور ناممکن ہے لیکن سائنسی ترقی نے جیسے کئی ناممکن چیزوں کو ممکن کر دکھایا۔ ایسے ہی اب اصلی دل کے بغیر مصنوعی دل کے ذریعہ جینے کو ممکن کر دکھایا۔

    غیر ملکی میڈیا کے آسٹریلیا میں ایک شخص کو آپریشن کے ذریعہ مصنوعی دل لگایا گیا تھا اور یہ پہلی بار کسی انسان میں مکمل طور پر مصنوعی دل کا ٹرانسپلانٹ تھا۔

    رپورٹ کے مطابق اس خوش نصیب 40 سالہ شخص کے دل نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ گزشتہ سال 22 نومبر کو سڈنی کے سینٹ ونسنٹ اسپتال میں کارڈیوتھوراسک اور ٹرانسپلانٹ سرجن پال جانز کی سربراہی میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے 6 گھنٹے طویل آپریشن میں یہ ٹرانسپلانٹ کیا تھا۔

    یہ مصنوعی دل بی واکور BiVACOR کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کو ڈاکٹر ڈینیئل ٹنز نے تیار کیا۔ یہ روٹری بلڈ پمپ اور میگنیٹک لیویٹیشن magnetic levitation ٹیکنالوجی سے لیس ہے، جو قدرتی دل کی طرح خون کے بہاؤ کو برقرار رکھتا ہے اور انسانی دل کے مکمل متبادل کے طور پر کام کر سکتا ہے۔

    نیو ساؤتھ ویلز سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے رضاکارانہ طور پر خود کو اس تجربے کے لیے پیش کیا تھا اور آسٹریلیا میں مکمل مصنوعی دل حاصل کرنے والا پہلا اور دنیا کا چھٹا شخص بنا تھا۔

    اس سے قبل پہلے پانچ امپلانٹس گزشتہ برس امریکا میں ہوئے تھے اور اسپتال سے ڈسچارج ہونے سے پہلے تمام مریضوں کو عطیہ کیے گئے انسانی دل ملے تھے۔ جس میں امپلانٹ اور ٹرانسپلانٹ کے درمیان سب سے طویل وقت 27 دن تھا۔

    تاہم مذکورہ شخص نے جس نے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کیا۔ اس کو فروری میں اسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تھا اور یوں وہ مکمل طور پر مصنوعی دل لگا کر اسپتال سے باہر نکلنے والا دنیا کا پہلا شخص بن گیا ہے۔

     

    اصلی انسانی عطیہ کردہ دل ملنے تک مکمل مصنوعی دل کے ساتھ اپنی زندگی کے 100 دن خیریت سے گزار کر سائنس اور طب کی دنیا میں تاریخ رقم کر دی ہے اور جلد اس کو انسان کا عطیہ کردہ دل لگا دیا جائے گا۔

  • اس ’’پہاڑ‘‘ کو قانونی طور پر ’’انسان‘‘ کا درجہ دے دیا گیا!

    اس ’’پہاڑ‘‘ کو قانونی طور پر ’’انسان‘‘ کا درجہ دے دیا گیا!

    دنیا میں عجیب وغریب واقعات سامنے آتے رہتے ہیں ایسا ہی ایک فیصلہ یورپی ملک سے آیا ہے جس نے پہاڑ کو قانونی طور پر انسان قرار دے دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق نیوزی لینڈ حکومت نے ملکی قانون کے تحت نارتھ آئی لینڈ میں واقع دوسرے بلند ترین پہاڑ تارانکی (Taranaki) کو ’’انسان ‘‘کا خصوصی درجہ دے دیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اس پہاڑ کو انسان کا درجہ دینے کے بعد اب کوئی فرد یا کمپنی اس پہاڑ یا اس کے قیمتی قدرتی ماحول کو نقصان نہ پہنچا سکے گی۔

    نیوزی لینڈ کی حکومت نے مقامی ماری قبائل کے مطالبے پر یہ قدم اٹھایا ہے۔

    ماری قبائل کے نزدیک یہ پہاڑ مقدس اور مذہبی، ثقافتی و معاشرتی لحاظ سے بڑا اہم ہیں۔ تاہم سفید فاموں نے ان پر مظالم ڈھا کر نیوزی لینڈ پر قبضہ کیا، تو وہ تارانکی پر بھی قابض ہو گئے۔

    گزشتہ ایک عشرے سے ماری نے اپنے مقدس پہاڑ کو نوآبادیاتی شکنجے سے آزاد کرانے کی تحریک چلا رکھی تھی۔

     

    نیوزی لینڈ کی حکومت کی جانب سے اس پہاڑ کو باضابطہ انسان کا درجہ دیے جانے کے بعد آئندہ کوئی ملٹی نیشنل کمپنی یا سفید فاموں کا گروہ کسی بھی طرح تارانکی کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہوئے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

    https://urdu.arynews.tv/successful-operation-on-a-young-man-with-4-legs/

  • زمین پر موجود زندگی کو درپیش ممکنہ خطرات کیا ہیں؟

    زمین پر موجود زندگی کو درپیش ممکنہ خطرات کیا ہیں؟

    تحریر: ملک شعیب

    نظام شمسی کے 8 سیاروں میں سے، زمین ترتیب کے لحاظ سے تیسرا چٹانی سیارہ ہے اور مشاہدہ کائنات میں صرف زمین ہی واحد سیارہ ہے جہاں زندگی موجود ہے۔ زمین پر زندگی کیسے وجود میں آئی، معدنیات کیسے وجود میں آئے، پانی کہاں سے آیا، مقناطیسی میدان کیسے بنا، فضاء کیسے بنی، پہاڑ کیسے بنے، سمندر کیسے وجود میں آئے، آتش فشاں کیسے بنے، دریا کیسے بنے اور جنگلات کیسے وجود میں آئے؟ یہ سب الگ الگ موضوعات ہیں۔

    آج میں اپنے سیارے زمین کو لاحق خطرات اور اس پر پھلنے پھولنے والی زندگی پر بات کروں گا۔

    زمین کو اپنے آغاز ہی سے بہت سی سختیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اپنی ابتدا میں یہ بہت گرم تھی لیکن آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی اور پھر مختلف موسمی اور ارضیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے اس قابل ہوئی کے زندگی نے اس پر جنم لیا۔ لیکن آج انسانی آبادی میں مسلسل اضافے، سائنسی ترقی اور وسائل کے بے دریغ استعمال کے باعث زمین اپنا قدرتی وجود آہستہ آہستہ کھو رہی ہے۔ قدرت کا ایک ایسا نظام ہے جو توازن برقرار رکھتا ہے اور اس میں خلل ڈالنے والی ہر شے کو تباہ کر دیتی ہے۔

    تاہم، ہماری زمین کو اس وقت متعدد خطرات کا سامنا ہے جو درج ذیل ہیں:

    1۔ ماحولیاتی آلودگی:

    اس وقت زمین کو سب سے زیادہ نقصان ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ بنیادی طور پر فضائی آلودگی، جو مختلف گیسوں پر مشتمل ہوتی ہے، اور انسانی صحت اور ماحولیات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ یہ آلودگی زمین کی فضا میں موجود اوزون لہر کو کم زور کر رہی ہے اور زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ مزید برآں، آبی اور زمینی آلودگی بھی زمینی نظام کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔

    2۔ موسمیاتی تبدیلی:

    بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ مختلف خطوں کو سمندر کی سطح میں اضافے اور موسم کی تبدیلیوں (جیسے لا نینا اور ال نینو) کی وجہ سے بے وقت بارشوں، طوفانوں اور خشک سالی جیسے خطرات کا سامنا ہے۔

    3۔ جنگلات کی کٹائی:

    جنگلات کی بڑھتی ہوئی کٹائی اور خشک سالی آگ کا باعث بن رہی ہے۔ یہ زمین کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے اور زمین کے ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے والے جنگلی حیات اور پھول دار پودوں کے غائب ہونے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ عمل ماحولیاتی توازن کو تباہ کر رہا ہے۔

    4۔ آبادی میں اضافہ:

    زمین پر آبادی میں مسلسل اضافہ کرہ ارض کے وسائل پر دباؤ ڈال رہا ہے، جس کے نتیجے میں خوراک، پانی اور توانائی جیسے وسائل میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

    5۔ قدرتی وسائل کا استحصال:

    آبادی میں اضافے کی وجہ سے قدرتی وسائل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ پانی کا اندھا دھند استعمال زیر زمین ذخائر کو ختم کر رہا ہے، جس سے ارضیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

    6۔ بڑھتی ہوئی صنعتی اور سائنسی ترقی:

    سائنسی ترقی نے جہاں انسانیت کو فائدہ پہنچایا ہے، وہیں اس سے ماحولیات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ صنعتی آلودگی اور خلا میں بھیجے گئے مختلف خلائی مشنز کا رہ جانے والا ملبہ (جو زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے) زمین پر زندگی کے لیے اہم خطرات کا باعث ہے۔

    7۔ جوہری خطرات:

    جوہری ہتھیاروں کے مسلسل پھیلاؤ اور جوہری توانائی کا استعمال زمین پر موجود ہر طرح کی زندگی کے لیے شدید خطرہ ہے۔

    8۔ شہابیوں کا خطرہ:

    مریخ اور مشتری کے درمیان موجود سیارچوی پٹی میں موجود میٹیورائٹس، جن کا سائز ایک میٹر سے 800 کلومیٹر یا اس سے زیادہ ہے، زمین کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ شہاب ثاقب زمین کے مدار میں داخل ہو سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر کرہ ارض کو تباہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ ماضی میں الکا کے اثرات کی وجہ سے ڈائنوسار کے معدوم ہونے کا ثبوت ہے۔

    زمین پر ان بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے ہمارے سیارے پر زندگی شدید خطرے میں ہے۔ اگر حکومتوں نے ماحولیاتی اور ارضیاتی سائنس دانوں کی طرف سے اجاگر کیے گئے خطرات پر توجہ نہیں دی، تو وہ وقت دور نہیں جب زمین پر موجود زندگی سسك سسك کر ختم ہو جائے گی۔

  • 1000 سال بعد انسان کیسا دکھائی دے گا؟ سائنسدانوں کا حیرت انگیز دعویٰ

    1000 سال بعد انسان کیسا دکھائی دے گا؟ سائنسدانوں کا حیرت انگیز دعویٰ

    دنیا جیسے جیسے ترقی کر رہی ہے مستقبل کی کھوج بڑھتی جا رہی ہے سائنسدانوں نے ایک ہزار سال بعد کے انسانوں کا تصوری خاکہ پیش کیا ہے۔

    انسان کئی دہائیوں نے کائنات کے راز جاننے اور خلا تسخیر کرنے کے لیے کوشاں ہے اور جب سے مصنوعی ذہانت وجود میں آئی ہے، تب سے وہ مستقبل کی کھوج میں بھی لگ گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق سائنسدانوں اور مصنوعی ذہانت اے آئی نے اگلے ایک ہزار سال بعد دنیا میں موجود انسانوں کو تصوری خاکہ پیش کر دیا ہے جس کے مطابق وہ موجودہ حالت کے برعکس زیادہ پرکشش ہوں گے۔

    سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ آج انسان جیسا دکھائی دیتا ہے، ایک ہزار سال بعد قدرتی ارتقا کے نتیجے میں وہ آج سے زیادہ پرکشش دکھائی دے گا۔

    اس دعوے میں کہا گیا ہے کہ مردوں اور خواتین میں وہ خوبیاں شامل ہوتی جائیں گی جو انہیں ایک دوسرے کے لیے مزید جاذب نظر بنائیں گے، جیسا کہ مردوں کے چوڑے جبڑے اور متناسب چہرے جب کہ خواتین کی جلد ہموار اور چمکدار ہو جائے گی۔

    موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر یہ پیشگوئی بھی کی گئی ہے کہ زیادہ گرمی کے باعث مستقبل میں انسانوں کی جلد کا رنگ گہرا ہو جائے گا۔

    ایسے ہی کچھ ماہرین نے خوفناک پیشگوئیاں بھی کی ہیں۔ کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی پر زیادہ انحصار کے باعث انسان کے سوچنے کی صلاحیت کم اور دماغ کا سائز سکڑ سکتا ہے۔

    کچھ سائنسدانوں نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا کہ ایک ہزار سال بعد کا انسان پالتو بندروں کی طرح ہو سکتے ہیں، جو زیادہ سوچنے کے بجائے خودکار نظام پر انحصار کریں گے۔

    ایک یہ امکان بھی پیش کیا گیا ہے کہ مستقبل میں کچھ علاقوں میں انسانوں کا قد چھوٹا بھی ہو سکتا ہے جس کی وجہ ان کا جلد بالغ ہونا ہے جو انکی جسمانی نشوونما پر اثر انداز ہوگا۔

    https://urdu.arynews.tv/after-heart-attack-a-patient-worried-for-office/

  • روبوٹ نے انسان کی جان لے لی

    روبوٹ نے انسان کی جان لے لی

    حقیقی دنیا میں انسان کا مددگار کہلانے والے روبوٹ نے جنوبی کوریا میں انسان کی جان لے۔

    یہ حادثہ جنوبی کوریا کے جنوبی صوبے گوسیونگ میں اس وقت پیش آیا جب سبزیوں کے پیکیجنگ کے ایک کارخانے میں روبوٹ کے بازووں نے ایک شخص کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

    رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کا شہری کنویئر بیلٹ پر دبنے کے بعد شدید زخمی ہوگیا جس کے بعد میں اس کی موت ہو گئی، مقامی پولیس نے ہلاک ہونے والے شخص کا نام نہیں بتایا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ  ہلاک ہونے والا شخص کارخانوں میں صنعتی روبوٹ کی تنصیب کرنے والی ایک کمپنی کا ملازم تھا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ ملازم کو کارخانے میں یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا کہ آیا مشین ٹھیک سے کام کررہی ہے؟ پولیس نے بتایا کجہ یہ مشین کارخانے میں ’پک اینڈ پلیس‘ روبوٹس میں سے ایک تھی۔

    روبوٹ کے ہاتھوں پہلا قتل ہونے والا انسان کون؟

    محکمہ تفتیش کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی جدید ترین یعنی مصنوعی ذہانت سے چلنے والا روبوٹ نہیں تھا، بس ایک ایسی مشین تھی جو صرف ڈبوں کو اٹھاکر کنویئر بیلٹ پر رکھتی ہے۔

    افسر نے بتایا کہ کیمرے کے فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہلاک ہوجانے والا شخص اپنے ہاتھوں میں ایک بکس لے کر روبوٹ کے قریب پہنچا تھا، جس کی وجہ سے روبوٹ ممکنہ طورپر متحرک ہو گیا۔

    جنوبی کوریا میں حالیہ برسوں میں بھی اس طرح کا ایک اور واقعہ اس وقت پیش آیا تھا، جب ایک شخص آٹوپارٹس کے کارخانے میں ایک مشین کی جانچ کررہا تھا تو وہاں ایک مینوفیکچرنگ رو بوٹ نے اسے کچل دیا تھا جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گیا تھا۔

  • پالتو بلی سے کرونا وائرس منتقلی کا پہلا کیس رپورٹ

    پالتو بلی سے کرونا وائرس منتقلی کا پہلا کیس رپورٹ

    بنکاک: تھائی لینڈ میں پالتو بلی سے انسان میں کرونا وائرس منتقلی کا پہلا مصدقہ کیس سامنے آگیا، بلی سے متاثر ہونے والی خاتون ایک ویٹرنری ڈاکٹر ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق تھائی لینڈ میں سائنسدانوں نے ایک پالتو بلی کے ذریعے ایک ویٹرنری سرجن میں کرونا وائرس کی منتقلی کے پہلے ٹھوس ثبوت کی اطلاع دی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بلی سے انسان میں وائرس کی منتقلی کے ایسے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں، سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین نے کہا کہ نتائج قابل یقین ہیں لیکن حیران ہیں کہ اس منتقلی کو سامنے آنے میں اتنا وقت لگا۔

    یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے ابھرتے ہوئے متعدی امراض کے جریدے کے شریک مصنف سارونیو چسری کے مطابق 6 جون کو جریدے میں شائع ہونے والی یہ دریافت حادثاتی طور پر سامنے آئی۔

    اگست 2021 میں کرونا وائرس سے متاثر ایک باپ اور بیٹے کو یونیورسٹی کے اسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں منتقل کیا گیا، ان کی 10 سالہ بلی کا بھی ٹیسٹ کیا گیا جو مثبت آیا۔

    ٹیسٹ کے دوران بلی نے خاتون ویٹرنری سرجن کے چہرے پر چھینک دیا تھا جس نے ماسک اور دستانے پہن رکھے تھے لیکن آنکھوں کی حفاظت کا انتظام نہیں کیا تھا۔

    تین روز بعد ویٹرنری ڈاکٹر نے بخار اور کھانسی محسوس کی اور بعد میں ان کا کرونا ٹیسٹ مثبت آگیا، لیکن ان کے قریبی رابطوں میں آنے والوں میں سے کسی میں بھی یہ بیماری نہیں پھیلی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ کرونا سے بلی کے ذریعے متاثر ہوئیں۔

    ہانگ کانگ یونیورسٹی کے ماہر وائرولوجسٹ لیو پون کا کہنا ہے کہ تجرباتی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ کرونا سے متاثرہ بلیاں زیادہ وائرس نہیں پھیلاتیں اور یہ صرف چند روز کے لیے وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتی ہیں۔

    سارونیو چسری نے کہا کہ ایسے معاملات میں لوگوں کو اپنی بلیوں کو چھوڑ نہیں دینا چاہیئے بلکہ مزید خیال رکھنا چاہیئے۔

  • جانوروں کی بیماریاں انسانوں میں منتقل ہونے کا خدشہ: عالمی ادارہ صحت کی وارننگ

    جانوروں کی بیماریاں انسانوں میں منتقل ہونے کا خدشہ: عالمی ادارہ صحت کی وارننگ

    عالمی ادارہ صحت جہاں ایک طرف تو متعدد وباؤں کے پھیلاؤ کے حوالے سے متنبہ کرچکا ہے، وہیں اب ادارے نے ایک اور وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جانوروں کی بیماریاں اب انسانوں میں منتقل ہو رہی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم اور زمین کی بڑھتی ہوئی حدت دنیا کے سامنے سب سے بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے اور اس ساری صورتحال میں ایک طرف توخشک سالی کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں کے خوراک کے مسائل جنم لینے لگے ہیں تو وہیں جانوروں کی بیماریاں اب انسانوں میں بھی منتقل ہونے لگی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز محکمے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ریان مائک نے دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ منکی پاکس اور لاسا بخار جیسی بیماریوں کا پھیلاؤ عام ہوچکا ہے اور ان کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ موجود ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث خشک سالی بڑھتی جارہی ہے جس سے انسان اور جانور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ خوراک کی تلاش سمیت دیگر عوامل میں اپنا رویہ تبدیل کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے جانوروں میں پائی جانے والی بیماریاں تیزی سے انسانوں میں منتقل ہو رہی ہیں جو تشویش ناک ہے۔

    ڈاکٹر ریان مائک نے لاسا بخار کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں لاسا بخار کئی ممالک میں پھیل رہا ہے جو کہ دراصل افریقی خطے میں چوہوں میں پایا جانے والا وائرل بخار تھا، لیکن اب اسے انسانوں میں پھیلتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں ایبولا وائرس کے محدود حد تک پھیلنے میں بھی پانچ سال تک لگ جاتے تھے مگر اب کسی وائرل بیماری کے پھیلاؤ میں 5 ماہ کا وقفہ بھی مل جائے تو اسے خوش قسمتی سمجھا جاتا ہے۔

    اسی طرح ڈاکٹر ریان مائک نے ماضی میں بندروں میں پائی جانے والی بیماری منکی پاکس کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یقینی طور پر بیماریوں کے پھیلاؤ میں موسمیاتی تبدیلی کا دباؤ شامل ہے۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز محکمے کے سربراہ نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب صرف افریقہ میں پائی جانے والی بیماری منکی پاکس کے دنیا کے 30 ممالک میں 550 تک کیسز رپورٹ ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

  • دوبارہ زندہ ہونے کی امید پر رکھی گئی سینکڑوں لاشیں

    دوبارہ زندہ ہونے کی امید پر رکھی گئی سینکڑوں لاشیں

    انسان کو ایک زندگی، دنیا کو دریافت کرنے اور اسے تسخیر کرنے کے لیے کم لگتی ہے، چنانچہ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو پھر سے جینا چاہتے ہیں اور دوبارہ زندگی پر یقین رکھتے ہیں۔

    امریکا میں موجود ایک لیبارٹری میں 200 افراد کی لاشیں اور سر اس امید پر رکھے گئے ہیں کہ انہیں مستقبل میں دوبارہ زندہ کیا جا سکے گا۔

    الکور لائف ایکسٹینشن فاؤنڈیشن کو امید ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی اس مرحلے تک ضرور پہنچے گی، جہاں مردہ انسان کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا۔

    الکور پورے جسم کو تقریباً 2 لاکھ ڈالرز یا صرف سر اور دماغ کو 80 ہزار ڈالرز میں کرائیونکس کا عمل اپناتے ہوئے محفوظ کردیتی ہے۔

    یہ کمپنی اسکاٹس ڈیل ایریزونا میں واقع ہے، جہاں لاشوں کو کئی دہائیوں یا صدیوں تک شدید منجمد درجہ حرارت پر محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

    اس کی بنیاد سنہ 1972 میں لنڈا اور فریڈ چیمبرلین نے 1970 کے اوائل میں کرائیونکس کانفرنس میں ملنے کے بعد رکھی تھی، اس وقت وہ کالج میں تھے اور فریڈ ناسا کے انجینئر کے طور پر کام کر رہے تھے۔

    لنڈا چیمبرلین کا کہنا تھا کہ ہمارے اہداف ایک ایسی تنظیم شروع کرنا تھے جو لوگوں کی زندگیوں کو بچا سکے اور انہیں صحت اور کام کرنے کا موقع فراہم کر سکے۔

    انہوں نے کہا کہ ااگر ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ کتنا مشکل ہونے والا ہے، تو شاید ہم ایسا کرنے کی کوشش نہ کرتے۔ لیکن ایک بار جب آپ زندگی بچانے کے بارے میں کچھ شروع کر دیتے ہیں، تو آپ ہار نہیں مان سکتے۔

    الکور جسموں کے درجہ حرارت کو آہستہ آہستہ کم کرکے مائع نائٹروجن کے بڑے برتنوں میں منفی 196 ڈگری سینٹی گریڈ پر محفوظ رکھتا ہے۔

    عام لفظوں میں کہیں تو جسم کو برف میں پیک کر کے منجمد کر دیا جاتا ہے، تاہم اس سے پہلے خون کو کرائیو پروٹیکٹنٹ محلول سے تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ آئس کرسٹل کی تشکیل کو روکا جا سکے۔

    کرائیونکس کے حامیوں کا اصرار ہے کہ موت صرف دل کے کام بند کردینے کا عمل ہے، لیکن اس صنعت کو طویل عرصے سے کوئک سائنس یا یہاں تک کہ دھوکہ دہی کے طور پر مسترد کیا گیا ہے۔

    الکور کے پاس رکھی لاشوں میں سے ایک میتھرین نووارٹپونگ نامی بچی کی ہے، جسے آئنز کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ بچی 2015 میں اپنی تیسری سالگرہ سے عین قبل دماغ کے کینسر سے مر گئی تھی۔

    تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے والدین نریرت اور سہاتورن نے اپنی مرحوم بیٹی کے دماغ کو محفوظ رکھنے کا انتخاب کیا۔

    یہ حقیقت جانتے ہوئے کہ ان کی بیٹی کے ٹھیک ہونے کی کوئی امید نہیں ہے، سہاٹورن نے اپنی بیوی کو اس بات پر قائل کرنے کی امید میں کرائیونکس پر تحقیق کرنا شروع کی کہ یہ ان کی بیٹی کو مستقبل میں نئی زندگی فراہم کر سکتی ہے۔

    پہلے تو پورا خاندان اس خیال کے خلاف تھا لیکن سہاتورن نے انہیں قائل کرنے میں مہینوں گزارے۔ جوڑے نے اپنی بیٹی کے لیے ویڈیوز ریکارڈ کرنا شروع کیں، اس امید میں کہ وہ مستقبل میں یہ ویڈیوز دیکھے گی۔

    کرائیونکس کے ممکنہ حد تک کامیاب ہونے کے لیے، ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کی دھڑکن بند ہونے کے 60 سیکنڈ کے اندر منجمد کرنے کا عمل شروع کرنا بہتر ہے۔

    اس کا مطلب یہ تھا کہ آئنز کے گھر والوں نے دیکھا کہ اس کے جسم کے درجہ حرارت کو ان کے سامنے کم کر دیا گیا تھا، اس سے پہلے کہ اس کے جسم کو منجمد کر کے ایریزونا لے جایا جائے۔

    کرائیونکس کیسے کام کرتا ہے؟

    موت کے فوراً بعد ایک ٹیم ری سسیٹیٹر کے ذریعے دل اور پھپڑوں سے دماغ تک خون اور آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے، اس کے بعد مردہ جسم میں خون پتلا کرنے والا کیمیکل شامل کر کے فوری طور پر برف میں پیک کردیا جاتا ہے، تاکہ پلانٹ تک لایا جاسکے۔

    کرائیونکس پلانٹ میں جسم سے پانی کو نکالا جاتا ہے اور اسے ہیومن اینٹی فریز سے بھردیا جاتا ہے۔ پھر مردہ جسم کو ڈرائی آئس کے ایک بیڈ پر رکھا جاتا ہے تاکہ درجہ حرارت کو منفی 130 ڈگری تک لایا جاسکے۔

    لیکویڈ نائیٹروجن کے ایک ٹینک میں ایک ساتھ 6 مردہ جسم منفی 196 ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھے جاتے ہیں، اور کسی بھی لیکیج کی صورت میں سر کو بچانے کے لیے انہیں ٹینک میں الٹا ڈالا جاتا ہے۔

  • کیا انسانوں کے سر پر بھی سینگ ہوتے ہیں؟

    کیا انسانوں کے سر پر بھی سینگ ہوتے ہیں؟

    دنیا میں کئی ایسے افراد ہیں جن کے سر پر سینگ بھی ہیں، بھارت میں بھی ایک کسان ایسی ہی کچھ صورتحال کا شکار ہے۔ بھارت سمیت ایشیا کے کئی ممالک جیسے چین اور تھائی لینڈ وغیرہ میں کئی مرد و خواتین ایسے ہیں جن کے ماتھے پر سینگ ہے۔

    بھارت کا ایک کسان شیام لال یادیو بھی ان ہی میں سے ایک ہے جس کے کھیتی باڑی کرنے کے دوران سر پر چوٹ لگی اور اس کے بعد اس کے زخم سے سینگ نکل آیا۔

    شیام یادو کا کہنا ہے کہ سر پر نکلنے والی اس سینگ نما چیز کو پہلے نظر انداز کیا کیونکہ اس میں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔

    ایک مرتبہ نائی سے بال کٹوانے کے دوران شیام یادو نے اس سینگ نما چیز کو نائی سے ہی نکلوا دیا تھا جس کے بعد وہ دوبارہ نکل آیا اور پہلے سے مزید سخت اور لمبا ہو گیا جس کی وجہ سے انہیں فوری طور پر ڈاکٹر کو دکھانا پڑا۔

    ڈاکٹرز کے مطابق شیام یادو کے سر پر نکلنے والا سینگ ایک کیمیکل سے بنتا ہے جسے میڈیکل کی اصطلاح میں کیریٹن کہتے ہیں اور یہ کیریٹن ناخن اور بالوں میں بھی موجود ہوتا ہے۔

    نیورو سرجن بھاگ یودے نے شیام کے سر سے اس سینگ نما چیز کو اسٹریلائز ریزر کی مدد سے نکالا اور مریض کو 10 روز کے لیے اسپتال میں رکھا، اس دوران ان کے کچھ ضروری ٹیسٹ بھی کیے گئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ مستقبل میں انہیں دوبارہ اس بیماری کا خطرہ لاحق تو نہیں ہوگا۔

    ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اس بیماری کا نام سیبے شیس ہورن ہے، جسے ڈیول ہورن بھی کہتے ہیں اور یہ بیماری عام طور پر بہت ہی کم کسی ہوتی ہے، اب تک اس بیماری کے ہونے کی کوئی وجہ معلوم نہیں کی جا سکی مگر اس بیماری کو روشنی اور سورج کی شعاعیں مزید بگاڑ سکتی ہیں۔