Tag: انسانی جسم

  • انسانی جسم کس حد تک گرمی برداشت کرسکتا ہے؟

    انسانی جسم کس حد تک گرمی برداشت کرسکتا ہے؟

    ملک بھر کے کئی شہروں میں شدید گرمی کی لہر جاری ہے بدھ کے روز شہر کراچی میں رواں سال کا گرم ترین دن ریکارڈ ہوا جبکہ جمعرات کو گرمی 43 ڈگری تک جانے کا امکان ہے اور شہر میں ہیٹ ویو کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

    ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی جسم کتنا درجہ حرارت برداشت کر سکتا ہے؟ اگر آپ اس بات سے لاعلم ہیں تو زیرنظر مضمون میں اس کی مکمل تفصیلات بیان کی جارہی ہیں۔

    گرمی

    ماہرین صحت کے مطابق انسانی جسم کا نارمل درجہ حرارت 98.9 ڈگری فارن ہائیٹ ہے، جو آپ کے باہر کے درجہ حرارت کے 37 ڈگری سیلسیس کے برابر ہے جو 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت کو برداشت کر سکتا ہے۔

    انسانی جسم میں ایک خاص میکانزم ‘ہومیوسٹاسس’ ہوتا ہے، جو اس درجہ حرارت میں بھی انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔

    انسان 42 ڈگری درجہ حرارت میں زندہ رہ سکتا ہے لیکن اگر درجہ حرارت اس سے زیادہ ہو تو یہ انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ درجہ حرارت 40 ڈگری سے تجاوز کرنے لگ جائے تو لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    دھوپ

    اس کے علاوہ اگر درجہ حرارت 45 ڈگری تک پہنچ جائے تو لوگوں کو بے ہوشی، چکر آنا یا گھبراہٹ جیسی شکایات ہو سکتی ہیں، لو بلڈ پریشر کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ اگر آپ زیادہ دیر تک 48 سے 50 ڈگری یا اس سے زیادہ درجہ حرارت میں رہیں تو پٹھے مکمل طور پر ری ایکٹ کر سکتے ہیں جس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ انسانوں کے لیے 50 ڈگری کا درجہ حرارت برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

    نئی اور پرانی تحقیق کیا کہتی ہے؟ 

    سال 2010 میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ سامنے آیا تھا کہ زیادہ نمی والے علاقے میں 35 ڈگری سینٹی گریڈ انسانی جسم کے برداشت کی آخری حد ہے۔

    اس سے زیادہ درجہ حرارت میں انسانی جسم پسینے کو بخارات بنا کر خود کو ٹھنڈا نہیں رکھ پاتا اور جسمانی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے جس سے ہیٹ اسٹروک کا خطرہ بڑھتا ہے۔

     احتیاطی تدابیر

    جبکہ حالیہ نئی تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ درجہ حرارت اور نمی کا امتزاج صحت مند افراد کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ جب درجہ حرارت اور نمی کے امتزاج سے جسمانی درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے تو اسے آخری حد کہا جاتا ہے اور حد عبور ہونے کے بعد وہ ایسا کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے اور مختلف مسائل کا خطرہ رہتا ہے۔

  • آئرن جسم کے لیے ضروری، لیکن اس کی زیادتی کیا مسائل پیدا کرسکتی ہے؟

    آئرن جسم کے لیے ضروری، لیکن اس کی زیادتی کیا مسائل پیدا کرسکتی ہے؟

    آئرن ہمارے جسم کے لیے بے حد ضروری ہے لیکن اس کی زیادتی جمس کو بیمار بھی کرسکتی ہے۔

    ہیمو کروماٹوسیس کا عارضہ دراصل ایک جینیاتی نقص ہے جس میں کھانا ہضم کرنے کے دوران آنتیں زیادہ مقدار میں آئرن جذب کرلیتی ہیں۔

    آئرن خون کا ایک اہم جزو ہے اور یہ ہیموگلوبین کے ایک مرکب کے طور پر پورے جسم میں آکسیجن پہنچانے کی ذمہ داری پوری کرتا ہے لیکن آئرن کی زیادہ مقدار نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

    عام طور پر ہم روزانہ جو خوراک کھاتے ہیں ان سے تقریباً ایک یا دو ملی گرام آئرن جذب کرتے ہیں، یہ مقدار ہمارے جسم کی مطلوبہ ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس کچھ افراد، اس مقدار سے چار گنا زیادہ آئرن جذب کرتے ہیں اور ہر گزرتے سال کے ساتھ آئرن کی اس مقدار میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

    اس طرح اس قسم کے افراد کے جسم میں ادھیڑ عمری تک 20 گرام تک آئرن جمع ہو سکتا ہے جبکہ زیادہ تر ادھیڑ عمر لوگوں میں آئرن کی مقدار صرف 4 گرام ہوسکتی ہے۔

    اگرچہ جسم آئرن کی کچھ مقدار جلدی خلیات کے جھڑنے اور خواتین ماہانہ ایام کی صورت میں ضائع کرتی ہیں لیکن اس طرح جسم سے اتنی مقدار میں اضافی آئرن خارج نہیں ہوتا جتنی ضرورت ہوتی ہے۔

    جسم میں اضافی آئرن کے جمع ہونے سے پورے جسم پر اس کے وسیع تر مضر اثرات پڑتے ہیں۔ جو لوگ ہیموکروٹوماسیس میں مبتلا ہیں، ان میں سے تین چوتھائی کمزوری اور تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔

    اس سے جگر کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور جلد کی رنگت جگہ جگہ سے تبدیل ہوسکتی ہے۔

    جسم میں زیادہ آئرن رکھنے والے افراد میں صنفی خواہشات کم ہو سکتی ہیں، قوت مردمی میں کمی کی شکایت عام ہوتی ہے اور 45 فیصد مریض ان صنفی مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ آئرن کی زیادتی سے لبلبے کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کے نتیجے میں آدھے افراد ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    اس کی وجہ سے دل کے پٹھوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور جوڑوں میں بھی درد ہو سکتا ہے، خون میں آئرن کی زیادتی سے اس قسم کی سنگین نوعیت کی پیچیدگیاں سامنے آسکتی ہیں، لیکن خوش قسمتی سے اس کا علاج بہت آسان ہے۔

  • انسانی جسم کا نیا حصہ دریافت

    انسانی جسم کا نیا حصہ دریافت

    سائنس دانوں نے انسانی جسم کا ایک نیا حصہ دریافت کر لیا ہے، جس نے اکیسویں صدی میں لوگوں کو حیران کر دیا، یہ کارنامہ سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے انجام دیا ہے۔

    اس وقت جب کہ ناسا نے آج ہی اربوں میل دور کائناتی اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے 10 بلین ڈالرز لاگت کی ایک نئی خلائی دوربین لانچ کر دی ہے، ہم ابھی تک انسانی جسم کا مکمل پتا لگانے سے بہت دور ہیں، اور اس کا ایک بڑا ثبوت سائنس دانوں کی جانب سے یہ نئی دریافت ہے۔

    طبی جریدے اینلز آف اناٹومی کے مطابق طبی سائنس دانوں نے انسانی جلد کے نیچے ایک نیا حصہ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ نچلے جبڑے میں موجود مسلز کی ایک تہہ ہے جو چبانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، نیسلٹڈ ڈیپ نامی یہ مسل (پٹھا) جبڑوں کے مسلز کا حصہ ہے جو گالوں اور نچلے جبڑے کے عقب میں ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق 2017 تک یہ مانا جاتا تھا کہ انسانی جسم میں 78 اعضا ہیں مگر پھر میسینٹری (آنتوں کو معدے کے بیرونی حصے سے جوڑنے والی جھلی) کا اضافہ ہوا، جس کے بعد یہ تعداد 79 ہوگئی جب کہ 2018 اور 2019 میں بھی 2 نئے حصے دریافت کرنے کے دعوے سامنے آئے۔

    نئے دریافت شدہ مسل کو کوئی چیز چبانے کے دوران گالوں کے پیچھے انگلیاں رکھ کر محسوس بھی کیا جا سکتا ہے، اس سے قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ 2 تہوں پر مبنی مسل ہے، مگر کچھ ماہرین نے ایک تیسری اور زیادہ پراسرار تہہ کا خیال ظاہر کیا تھا۔

    سوئٹزرلینڈ کے یونیورسٹی سینٹر فار ڈینٹل میڈیسین باسل کے محققین نے بتایا کہ متضاد خیالات کو دیکھتے ہوئے ہم نے جبڑے کے اس مسل کی ساخت کی منظم جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا، اور اس طرح جبڑے کے مسل کی اس تیسری تہہ کو آخر کار دریافت کر لیا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ masseter مسلز (عضلات) کی گہرائی میں موجود ایک تیسری تہہ واضح طور پر افعال کے باعث دیگر 2 تہوں سے الگ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی جسم کا یہ نیا مسل نچلے جبڑے کو مستحکم رکھنے میں کردار ادا کرتا ہے، تاہم اس حوالے سے مزید تحقیق بھی کی جائے گی۔

    ماہرین نے اس نئے حصے کا نام Musculus masseter pars coronidea کا نام تجویز کیا ہے۔

  • ایسا کپڑا جو جسم کو گرمی سے بچائے

    ایسا کپڑا جو جسم کو گرمی سے بچائے

    چینی سائنس دانوں نے ایک ایسا کپڑا تیار کیا ہے جو جسم کے درجہ حرارت کو 5 درجہ سینٹی گریڈ تک کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یوں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے نمٹنے میں لوگوں کی مدد کر سکتا ہے۔

    میٹا فیبرک بظاہر عام ٹی شرٹ کا کپڑا لگتا ہے لیکن یہ ایسی ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے جو مڈ انفرا ریڈ ریڈی ایشن کو خارج کرتی ہے اور یوں پہننے والے کا درجہ حرارت گھٹاتی ہے۔

    جریدے سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ٹیسٹ میں ظاہر ہوا کہ عام سوتی کپڑے پہننے والے شخص کے مقابلے میں میٹا فیبرک پہننے والا شخص اپنے درجہ حرارت کو 4.8 فیصد تک کم کر سکتا ہے۔ محققین کے مطابق میٹا فیبرک کی کم لاگت اور اعلیٰ کارکردگی اسے ملبوسات اور کولنگ ایپلی کیشنز کے لیے کارآمد بناتی ہے۔

    انسانی جلد ایم آئی آر خارج کرتی ہے، جو دوسری انفرا ریڈ تابکاری کی طرح آنکھوں سے نظر نہیں آتی لیکن گرمی کی صورت میں محسوس ہوتی ہے۔ گو کہ جلد کا عام درجہ حرارت تقریباً 37 درجہ سینٹی گریڈ ہوتا ہے، لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ میٹا فیبرک پہننے سے یہ 31 سے 32 ڈگری تک ہو سکتا ہے۔

    انہوں نے ایسا کپڑا ایجاد کیا ہے جسے مختلف رنگوں میں پیش کیا جا سکتا ہے، تاکہ دنیا بھر میں لوگوں کو ایسے وقت میں اپنے جسم کا درجہ حرارت کم رکھنے میں مدد ملے جس میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں۔

    یہ ہواچونگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ووہان ٹیکسٹائل انڈسٹری، چنگ ڈاؤ کے انٹیلی جنٹ ویئریبل انجینئرنگ ریسرچ سینٹر اور بیجنگ کے چائنا ٹیکنالوجی اکیڈمی کے محققین کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

  • کیا ہمارا جسم کچھ عرصے بعد بالکل نیا ہوجاتا ہے؟

    کیا ہمارا جسم کچھ عرصے بعد بالکل نیا ہوجاتا ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں ہمارے جسم کے تمام خلیات کچھ عرصے بعد تحلیل ہو کر نئے سرے سے بننا شروع ہوجاتے ہیں؟

    ہمارا جسم آج سے 10 سال قبل جیسا تھا آج اس سے بالکل مختلف ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم کے تمام اعضا کے خلیات ایک خود کار نظام کے تحت پرانے ہو کر ٹوٹتے جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے خلیات لیتے جاتے ہیں۔

    آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہمارے جسم کا کون سا حصہ کتنے عرصے بعد بالکل نیا ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: انسانی جسم سے متعلق حیران کن معلومات

    بال

    ہمارے سر کے بال 2 سے 7 سال کے اندر ٹوٹتے جاتے ہیں اور ان کی جگہ بالکل نئے بال آجاتے ہیں۔

    ناخن

    ہمارے پاتھ پاؤں کے ناخنوں کی عمر 6 ماہ ہے۔ 6 ماہ بعد نئے ناخن پرانے ناخنوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔

    خون کے سرخ خلیات

    ہمارے خون کے سرخ خلیات ہر 4 ماہ بعد نئے خلیوں سے تبدیل ہوجاتے ہیں۔

    ہڈی

    ہمارے جسم کی ہر ہڈی 10 سال بعد تبدیل ہو کر نئی بن جاتی ہے۔

    ڈھانچے کے عضلات

    ہمارے ڈھانچے کے تمام عضلات ہر 15 سال بعد نئے ہوچکے ہوتے ہیں۔

    خلیہ

    جسم میں موجود خلیے بذات خود نئے سرے سے تشکیل پانے میں 2 سے 4 ہفتے کا وقت لیتے ہیں۔

    دماغی نیورونز

    ہمارے دماغی نیورونز کبھی تبدیل نہیں ہوتے اور پیدائش سے لے کے موت تک یکساں رہتے ہیں۔

  • کلائی پر ابھری ہوئی اس رگ کا کیا مقصد ہے؟

    کلائی پر ابھری ہوئی اس رگ کا کیا مقصد ہے؟

    آپ نے غور کیا ہوگا کہ اکثر آپ کے ہاتھ کی ایک مخصوص حرکت سے کلائی پر ایک رگ ابھر آتی ہے، کیا آپ جانتے ہیں یہ رگ کس کام کے لیے ہے؟

    آپ کے ہاتھ میں یہ رگ موجود ہے یا نہیں، یہ جاننے کے لیے کسی ہموار سطح پر اپنی ہتھیلی کو پشت کے بل رکھیں۔

    اب اس ہاتھ کے انگوٹھے اور چھوٹی انگلی کو ملا دیں، آپ کی کلائی پر یہ رگ ابھر آئے گی۔

    اس رگ کو پیلمیرس لونگس کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائی کا یہ حصہ ہمارے اجداد کے لیے بے حد فائدہ مند تھا جو انہیں درختوں پر چڑھنے میں مدد دیتا تھا۔

    نسلوں کے ارتقا کے بعد اب بھی اجداد کی یہ نشانی ہمارے جسم میں موجود ہے باوجود اس کے، کہ اس کا استعمال ختم ہوگیا ہے۔

    اور ہاں، اگر آپ کی کلائی پر یہ رگ موجود نہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ دنیا کے 14 فیصد افراد میں اب یہ حصہ موجود نہیں ہوتا، گویا آہستہ آہستہ تمام جدید انسان اس رگ سے محروم ہوجائیں گے۔

  • ہمارے جسم کے مختلف حصے مائیکرو اسکوپ میں کیسے دکھائی دیتے ہیں؟

    ہمارے جسم کے مختلف حصے مائیکرو اسکوپ میں کیسے دکھائی دیتے ہیں؟

    انسانی جسم خدا کا بنایا ہوا ایک عجوبہ ہے جو دیکھنے والوں کو حیران پریشان کردیتا ہے۔ گو کہ انسانی جسم پر لاتعداد بار تحقیق کی جاچکی ہے اور اس کے ہر ہر حصے کو اچھی طرح جانچا جا چکا ہے تاہم اب بھی اس کے کچھ پہلو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں۔

    کیا آپ جانتے ہیں ہمارے جسم کے مختلف اعضا مائیکرو اسکوپ میں کیسے دکھائی دیتے ہیں؟

    ہزاروں لاکھوں خلیات سے بنے جسم کے ہر حصے کی ساخت نہایت مختلف اور منفرد ہوتی ہے۔ آئیں آج ہم اپنے جسم کے مختلف حصوں کو مائیکرو اسکوپ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

    ہڈی

    جلد

    چھوٹی آنت

    خون

    دانت

    ناخن

    زبان

    صحت مند پھیپھڑا

    کینسر زدہ پھیپھڑا

  • انسانی جسم سے روح‌ پرواز ہونے کی رفتار کتنی ہوتی ہے؟‌ ماہرین کو جواب مل گیا

    انسانی جسم سے روح‌ پرواز ہونے کی رفتار کتنی ہوتی ہے؟‌ ماہرین کو جواب مل گیا

    انسانی جسم سے روح کس رفتار سے قبض ہوتی ہے یا موت کتنی تیزی کے ساتھ انسانی جسم میں سرایت کرتی ہے؟ اس بات کو تلاش کرنے کے لیے امریکا کے ماہرین نے تحقیق کی۔

    طبی ماہرین اور محققین نے مختلف تحقیقات کر کے نتائج اخذ کرنے کی کوشش بھی کی اسی طرح امریکا کے ماہرین نے ایک اور مطالعاتی تجزیہ کیا جس میں روح قبض ہونے کی رفتار کو دیکھا گیا۔

    امریکا کی سٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ موت کے کچھ عرصے بعد تک انسان کے بال اور ناخن بڑھے رہتے ہیں جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ جسم کے تمام خلیات بیک وقت مردار نہیں ہوتے بلکہ موت انسانی جسم میں آہستہ آہستہ سفر طے کرتی ہے۔

    مزید پڑھیں: انسان کا دماغ مرنے کے بعد بھی کام کرتا ہے، تحقیق

    ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ انسانی جسم میں موت کے پھیلاؤ کی رفتار ریکارڈ کرنے اور اس کا مشاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ محققین کا کہنا ہے کہ موت تقریباً دو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے انسانی جسم میں سفر کرتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ہمارے جسم کے خلیات (سیلز) کے درمیان ایک سینٹی میٹر کا فاصلہ ہے، انسان کو مکمل مرنے میں تقریباً پانچ گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے۔

    امریکی جریدے ’سائنس اینڈ ہیلتھ‘ میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ روح قبض ہونے کی رفتار کو کمپیوٹیشنل ماڈل کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا، یہ انتہائی پیچیدہ عمل تھا جس میں کئی بار ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    یہ بھی پڑھیں: نیند کی حالت میں ہمارے جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

    ماہرین کے مطابق انسانی جسم کے خلیات میں موت کے سفر کو شعبہ طب کی زبان میں ’ایپوپٹوسس‘ کہتے ہیں جس کا عملی مشاہدہ پہلی بار جدید لیب میں کیا گیا۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں ماہرین نے موت کے بعد انسانی دماغ کے کام کرنے کے حوالے سے تحقیق کی تھی جس کی بنیاد پر ماہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ’انسان کو اپنی موت کا خود بھی احساس ہوتا ہے کیونکہ اس وقت دماغ کام کررہا ہوتا ہے‘۔

    ماہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ طویل عرصے ’بعد از موت‘ کے حوالے سے جاری تحقیق کے حتمی نتیجے پر پہنچ چکے۔

  • انسانی جسم سے متعلق حیران کن معلومات

    انسانی جسم سے متعلق حیران کن معلومات

    انسانی جسم حیرت انگیز معلومات و صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جس کے بارے میں آپ جتنا زیادہ جانیں گے، اتنے ہی حیران ہوتے جائیں گے۔

    آج ہم آپ کو انسانی جسم سے متعلق ایسے ہی کچھ حیران کن حقائق سے آگاہ کرنے جارہے ہیں جن سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔


    جلد

    کیا آپ جانتے ہیں آپ کے بستر کے نیچے جمع زیادہ تر مٹی، آپ کی مردہ جلد ہوتی ہے جو سونے کے دوران جھڑتی ہے۔


    ہڈیاں

    ایک ننھے بچے میں عام انسان کی نسبت 60 ہڈیاں زیادہ موجود ہوتی ہیں یعنی کل 350 ہڈیاں۔ نشونما کے دوران کچھ ہڈیاں آپس میں جڑتی چلی جاتی ہیں جس کے بعد بلوغت کی عمر تک پہنچنے تک انسان میں 206 ہڈیاں باقی رہ جاتی ہیں۔


    پلکیں

    ہماری پلکوں میں نہایت ننھے ننھے کیڑے یا لیکھیں موجود ہوتی ہیں۔


    دانت

    دانت ہمارے جسم کا وہ واحد حصہ ہے جو کسی نقصان کی صورت میں خود سے ٹھیک نہیں ہوسکتا۔


    دماغ

    جب ہم نیند سے جاگتے ہیں تو ہمارے دماغ کی توانائی سے ایک ننھا سا لائٹ بلب باآسانی روشن کیا جاسکتا ہے۔


    ڈی این اے

    اگر ہمارے جسم کے اندر موجود ڈی این اے کو کھول کر سیدھا کیا جائے تو یہ 10 ارب میل کے فاصلے پر محیط ہوگا، یعنی اس کی لمبائی زمین سے سیارہ زحل تک اور پھر واپس زمین جتنی ہوگی۔


    سانس لینا

    انسان وہ واحد ممالیہ جانور ہے جو بیک وقت سانس لینے اور نگلنے کا کام نہیں کرسکتا۔


    ڈائٹنگ

    ڈائٹنگ کرنے والے افراد کا دماغ غذا کی کمی کے باعث اپنے آپ کو کھانا شروع کردیتا ہے۔


    موت

    انسانی جسم کی موت کے 3 دن بعد وہ انزائم جو زندگی میں آپ کا کھانا ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں، وہی انزائم مردہ جسم کو کھانا شروع کردیتے ہیں۔


    مزید پڑھیں: جان بچانے کے بارے میں 7 غلط تصورات

    مزید پڑھیں: طبی طور پر فائدہ پہنچانے والی عام عادات

    کیسی لگیں آپ کو یہ حیران کن معلومات؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔