Tag: انسانی حقوق

  • بھارت مقبوضہ کشمیرمیں بلا روک ٹوک انسانی حقوق پامال کررہا ہے‘ ملیحہ لودھی

    بھارت مقبوضہ کشمیرمیں بلا روک ٹوک انسانی حقوق پامال کررہا ہے‘ ملیحہ لودھی

    نیویارک : اقوامِ متحدہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیرکے حل کے لیے عالمی برادری ٹھوس، بامعنی اقدامات کرے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت سے کشمیرسمیت تمام تنازعات کا مذاکرات سے حل چاہتا ہے۔

    پاکستانی سفیر نے کہا کہ بھارت ہمیشہ تنازعات کے خاتمے کے لیے بات چیت کےعمل سے کترایا۔

    انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کونسل ایجنڈے پرکشمیرسب سے پرانا تصفیہ طلب مسئلہ ہے، مقبوضہ کشمیر پراقوام متحدہ کی قراردادوں پرتاحال عمل نہ ہونا افسوس ناک ہے۔

    ملیحہ لودھی نے کہا کہ ہائی کمشنررپورٹ نے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی مظالم کو بےنقاب کیا۔

    پاکستانی سفیر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں منظم اندازمیں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، بھارت مقبوضہ کشمیرمیں بلا روک ٹوک انسانی حقوق پامال کررہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کوحل کرنا ضروری ہے جبکہ طویل غیرحل شدہ تنازعات، لاقانونیت جیسےعوامل کا خاتمہ کیا جائے۔

    ملیحہ لودھی نے مزید کہا کہ پاک فوج نے اپنی سرزمین کودہشت گرد گروپوں سے پاک کیا۔

    مقبوضہ کشمیرمیں حق خودارادیت ختم کرنے کی کوشش ہورہی ہے‘ ملیحہ لودھی

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ عالمی امن اور سیکیورٹی کے لیے مسئلہ کشمیراورفلسطین کا حال ضروری ہے۔

  • الزامات بے بنیاد ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ مسترد کرتے ہیں، ترجمان برما

    الزامات بے بنیاد ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ مسترد کرتے ہیں، ترجمان برما

    نیپی داؤ : برمی حکومت نے اقوام متحدہ کے ادارے ’فیکٹ فائنڈنگ مشن برائے میانمار‘ کی مرتب کردہ رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ برما میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جاتی، رپورٹ میں عائد الزامات بے بنیاد ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے ’فیکٹ فائنڈنگ مشن برائے میانمار‘ کی مسلم اکثریتی ریاستوں میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور خواتین کے جنسی استحصال سے متعلق مرتب کردہ رپورٹ کو برمی حکومت نے یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا ہے کہ رپورٹ میں میانمار حکومت پر عائد کیے جانے والے الزامات من گھڑت ہیں۔

    برمی حکومت کے ترجمان زاؤ طے کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے ’فیکٹ فائنڈنگ مشن برائے میانمار‘ کو برمی حکومت کی جانب سے مملکت میں داخلے کی اجازت ہی نہیں تھی لہذا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کی قرار کو رد کرتے ہیں اور ایسی کسی بھی قرار داد سے متفق نہیں ہیں۔

    برمی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ میانمار میں کسی قسم کی انسانی حقوق کی پامالی ممکن نہیں کیوں ملک میں انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے ذمہ دارانہ نظام موجود ہے۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائی پر 27 اگست کو جاری تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برما کی فوج نے مسلم اکثریتی والے علاقے رخائن میں روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں جو عالمی قوانین کی نظر میں جرم ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارے ’فیکٹ فائنڈنگ مشن برائے میانمار‘ نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ ریاست رخائن میں میانمار کی فوج نے سیکڑوں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا، مذکورہ اقدامات جنگی جرائم اور نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں ادارے نے برما کی فوج کے چیف مین اونگ لینگ سمیت 6 اعلیٰ فوجی افسران کے نام شائع کیے ہیں جنہیں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور انسانیت سوز مظالم کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے مقدمہ چلانے کی سفارش کی گئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ’فیکٹ فائنڈنگ مشن برائے میانمار‘ کی سربراہ کا کہنا تھا کہ برما میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے سیکڑوں متاثرہ افراد، ان کے اہل خانہ اور عینی شاہدین سے انٹرویوز اور سیٹیلائٹ تصاویر کی بنیاد پر رپورٹ تیار کی گئی ہے۔

    اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برمی حکومت اور فوج کی جانب سے مسلم اکثریتی علاقے رخائن میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے نام پر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، جس کے باعث گزشتہ 12 ماہ کے دوران میانمار میں تقریباً 7 لاکھ روہنگیا مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

  • سعودی کینیڈا تنازعہ: انسانی حقوق کی جنگ یا سعودی سیاسی خود مختاری پر مغربی وار

    سعودی کینیڈا تنازعہ: انسانی حقوق کی جنگ یا سعودی سیاسی خود مختاری پر مغربی وار

    دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تنازعے نے اس وقت جنم لیا جب کینیڈا کی خاتون وزیرِ خارجہ کرسٹیا فری لینڈ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سعودی عرب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے قید کارکنوں کو رہا کر دے، اس مطالبے پر سعودی عرب نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا۔ سلطنت نے کینیڈا کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات توڑتے ہوئے کینیڈین سفیر کو ناپسندیدہ قرار دے کر اسے ملک بدر کر دیا اور اپنا سفیر واپس بلا لیا۔

    کرسٹیا فری لینڈ نے ٹویٹ میں کہا ’رائف بداوی کی بہن ثمر بداوی کے بارے میں یہ جان کر کہ اسے سعودی عرب نے جیل میں ڈال دیا ہے، ہمیں بہت تشویش ہوئی ہے۔ کینیڈا اس مشکل وقت میں بداوی خاندان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم رائف اور اس کی بہن کی رہائی کا مضبوط مطالبہ دہراتے ہیں۔‘ خیال رہے کہ کینیڈا کی وزارتِ خارجہ کے آفیشل اکاؤنٹ سے اس سلسلے میں الگ ٹویٹ کیا گیا ہے۔

    سعودی عرب نے گزشتہ ہفتے ثمر بداوی نامی خاتون ایکٹوسٹ سمیت کئی خواتین کو گرفتار کیا تھا جو پہلے سے گرفتار باغی رائف بداوی کی بہن ہے۔ دیگر خواتین میں نسیمہ الصدا اور امل الحربی شامل ہیں۔ یہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین ہیں جو عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ سعودی وزیر عادل بن احمد الجبیر کے مطابق زیرِ حراست افراد کے غیر ملکی اداروں کے ساتھ تعلقات تھے۔ تاہم ان کے خلاف ابھی تک الزامات کی نوعیت واضح نہیں ہوئی ہے کیوں کہ انھیں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ سعودی وزیر کے مطابق یہ معاملہ انسانی حقوق کا نہیں بلکہ قومی سلامتی کا ہے۔

    ثمر بداوی، جو کئی بار گرفتار ہوئی

    ثمر بداوی کو 2012 اور 2015 میں سعودی عرب میں عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے پر بین الاقوامی ایوارڈز دیے جا چکے ہیں۔ دسمبر 2014 میں ثمر پر سعودی حکومت نے برسلز میں ہونے والے یورپی این جی او فورم میں شرکت کرنے پر پابندی لگادی تھی۔ یہ اس واقعے کا نتیجہ تھا جس میں بداوی نے جنیوا میں یو این ہیومن رائٹس کونسل کو بتایا تھا کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ثمر بداوی نے اپنے سابقہ شوہر ولید ابو الخیر کے حوالے سے بھی بات چیت کی تھی جو اس وقت مملکت میں پندرہ سالہ قید کاٹ رہا ہے۔ 2016 اور اگلے برس بھی ثمر کو کئی گھنٹے کے لیے حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی گئی۔

    کینیڈا کی وزیرِ خارجہ کی طرف سے ٹویٹر پر پے در پے ٹویٹس سے شروع ہونے والی اس سفارتی جنگ میں کینیڈا کا روایتی قریبی دوست امریکا دورلاتعلق کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ کینیڈا کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنا بلاشبہ سعودی عرب کی طرف سے پاور پلے کا مظاہرہ ہے، یہ بتانے کے لیے کہ وہ اپنی سیاسی خود مختاری پر مغربی مطالبوں کو ہرگز نظر انداز نہیں کرے گا، یہ مملکت کے نسبتاً جوان رہنما کے ملکی استحکام کے لیے کیے جانے والے اہم اقدامات کا بھی عکس ہے۔

    کینیڈین وزیرِ خارجہ کے ٹویٹ کے بعد سعودی عرب نے کینیڈا میں سعودی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی اور طبی پروگرامز بھی ختم کرنے کا اعلان کیا جب کہ کینیڈا میں زیرِ تعلیم ہزاروں سعودی طلبہ اور زیرِ علاج مریضوں کو منتقل کرنے کا بھی منصوبہ بنایا۔ سعودی ایئرلائن نے ٹورنٹو کے لیے تمام پروازیں بھی فی الحال بند کر دی ہیں۔ خیال رہے کہ دونوں ممالک میں ہتھیاروں کی خریداری کی ڈیل بھی ہوئی ہے، جس کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ تاہم سعودی عرب میں کینیڈین سرمایہ کاری تا حال جاری ہے۔

    ثمر بداوی ہیلری کلنٹن اور مشل اوباما سے ایوارڈ وصول کرنے کے موقع پر

    سعودی عرب نے کینیڈا کے ساتھ اسکالر شپ پرواگرامز سمیت تمام معاہدے بھی منسوخ کردیے ہیں، گندم اور چاول کی خریداری پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی گہرائی کو سمجھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے اگر کینیڈا سے تمام معاہدے ختم کردیے تو کینیڈا کو ایک بڑے معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    کینیڈا کو اپنی غلطیاں درست کرنے کی ضرورت ہے: سعودی عرب

    سعودی عرب نے اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے، اس سلسلے میں دو روز قبل سعودی کابینہ کا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیرِ صدارت اجلاس بھی منعقد ہوا، اجلاس میں سعودی ولی عہد شہزاد ہ محمد بن سلمان بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں سلطنت کی خارجہ پالیسی اور کینیڈا کے ساتھ تنازعے کے تمام عواقب پر گہرائی کے ساتھ غور کیا گیا۔ سعودی حکومت نے اس سلسلے میں واضح اور دو ٹوک مؤقف اپنانے کا فیصلہ کیا۔

    دوسری طرف کینیڈین حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ جاری سفارتی تعلقات میں تنازعے کے حل کے لیے متحدہ عرب امارات اور برطانوی حکومت سے بھی رابطہ کیا، تاکہ وہ سعودی عرب کے ساتھ جاری سفارتی تنازعے کو دوستی میں بدلنے کے لیے کردار ادا کریں۔ اگرچہ کینیڈا تنازعے کے حل کا خواہاں ہے لیکن خواتین کے حقوق کے سلسلے میں اپنے اصولی مؤقف سے ہٹنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔

    کینیڈا کا سعودی عرب سے معافی مانگنے سے انکار

    آج بھی اس سلسلے میں کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاری پرتشویش کا اظہار کرنے پرمعافی مانگنے سے انکار کردیا ہے۔ کشیدگی کم کرنے کے لیے وزارتِ خارجہ کی سطح پر رابطے بھی کیے جا رہے ہیں لیکن کینیڈا اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ کرسٹیا فری لینڈ کہہ چکی ہیں کہ وہ اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ کینیڈین وزیرِ خا رجہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے مطالبے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین کے حقوق انسانی حقوق ہیں اور کینیڈا انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتا رہے گا۔

    سعودی مؤقف ہے کہ کینیڈا نے اس کے داخلی معاملات جو کہ سلطنت کی سلامتی سے تعلق رکھتے ہیں، میں مداخلت کرکے ایک بڑی غلطی کی ہے۔ اس غلطی کو کینیڈا نے سدھارنا ہے، دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ واضح رہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ مزید آگے بڑھتا ہے تو سعودی حکومت کینیڈا پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کی طرف بھی جا سکتی ہے۔ یہ کینیڈا کے لیے نقصان دہ ہوگا کیوں کہ متعدد ممالک سعودی مؤقف کی حمایت میں اپنا بیان دے چکے ہیں۔ خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔

  • مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کی جائیں‘ ملیحہ لودھی

    مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کی جائیں‘ ملیحہ لودھی

    نیویارک : اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ بھارت بلا روک ٹوک کشمیرمیں انسانی حقوق پامال کررہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی کی کال پراوآئی سی رابطہ گروپ کے نمائندوں کا اجلاس اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرزمیں منعقد ہوا۔

    اجلاس میں ملیحہ لودھی کی جانب سے شرکا کومقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی صورت حال پربریفنگ دی گئی جس پر شرکا نے تشویش کا اظہارکیا۔

    پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ بھارت بلا روک ٹوک کشمیرمیں انسانی حقوق پامال کررہا ہے، یواین ہائی کمشنررپورٹ کی روشنی میں تحقیقات کی جائیں۔

    ملیحہ لودھی کے مطابق بھارتی فوج کی ایل اوسی پرسیزفائرخلاف ورزیاں جاری ہیں جس کے باعث ایل اوسی پرخطرناک صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔

    پاکستانی سفیرملیحہ لودھی کا مزید کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کی جائیں۔

    مقبوضہ کشمیر میں قابض فورسز بچوں کو گرفتار کر رہی ہے‘ملیحہ لودھی

    خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں قابض فورسز 18 سال سے کم عمر بچوں کو گرفتار اور قید کر کے تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔

    واضح رہے کہ رواں سال 7 اپریل کو اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستانی مشن اقوام متحدہ میں کشمیریوں کی آواز ہے، پاکستان اقوام متحدہ میں کشمیریوں کا مقدمہ اخلاقی اور قانونی بنیاد پرلڑرہا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • غیر قانونی قید خانوں میں افغان خواتین کی دردناک حالت زار

    غیر قانونی قید خانوں میں افغان خواتین کی دردناک حالت زار

    افغانستان جیسے ملک میں جہاں شاید خواتین سانس بھی اپنے مردوں سے پوچھ کر لیتی ہوں گی، کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ وہاں خواتین جرائم میں بھی ملوث ہوسکتی ہیں؟ اور آپ کے خیال میں ایسی خواتین کو کیا سزا دی جاتی ہے؟

    افغانستان میں کسی بھی قسم کے جرم میں ملوث خاتون کو بطور سزا کسی قبائلی سردار کے گھر بھیج دیا جاتا ہے، جہاں وہ اس کے گھر والوں کی بلا معاوضہ خدمت کرتی ہے۔ یہی نہیں، گھر کے مردوں کی جانب سے کیا جانے والا جنسی و جسمانی تشدد بھی ان کی ’سزا‘ کا حصہ ہوتا ہے۔

    ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں مجرم قرار دی جانے والی 95 فیصد لڑکیاں اور 50 فیصد خواتین اخلاقی جرائم میں ملوث ہوتی ہیں۔ خواتین کے بنیادی حقوق سلب کرنے والے ان ’اخلاقی جرائم‘ کی کیا تعریف پیش کرتے ہیں؟ آئیے آپ بھی جانیں۔

    وہ خواتین جو گھر سے بھاگ جائیں، جو زنا میں ملوث پائی جائیں، یا جو شادی شدہ ہوتے ہوئے کسی دوسرے مرد سے تعلقات رکھیں، اخلاقی مجرم قرار پاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    ان ہی اخلاقی جرائم میں ملوث ایک عورت فوزیہ بھی ہے جس نے اپنے نگرانوں کو رسوائی سے بچانے کے لیے اپنا نام غلط بتایا۔

    افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیکا کی رہائشی فوزیہ کو گھر سے بھاگنے اور زنا میں ملوث پائے جانے کے جرم میں سزا یافتہ قرار دیا گیا ہے۔ اسے مقامی عدالت نے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔

    مگر بہت جلد اسے علم ہوا کہ اسے حکومت کی جانب سے طے کردہ 18 ماہ کی سزا نہیں ملے گی، نہ ہی اسے سرکاری جیل میں بھیجا جائے گا۔ اس کے برعکس اسے ایک قبائلی سردار کے گھر بھیجا جائے گا جہاں اس کی حیثیت ایک غلام جیسی ہوگی۔

    قید کا آغاز ہونے کے بعد فوزیہ کی زندگی کا ایک درد ناک سفر شروع ہوا۔ فوزیہ کے لیے منتخب کیے گئے قبائلی سردار نے اسے اپنے گھر سے متصل ایک جھونپڑی میں قید کردیا۔ روز صبح اس قید خانے کا دروازہ کھولا جاتا ہے جس کے بعد فوزیہ سردار کے گھر کے کام کرتی ہے، صفائی کرتی ہے، اور کپڑے دھوتی ہے۔

    سورج غروب ہونے کے بعد اسے واپس اس کے قید خانے میں بھیج دیا جاتا ہے۔

    دبیز پردے سے اپنے چہرے کو چھپائے فوزیہ شاید خوف کے مارے یہ تو نہ بتا سکی کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے یا نہیں، تاہم وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کا راز کھول گئی۔

    مزید پڑھیں: داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر

    وہ بتاتی ہے، ’مجھے جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے اور مجھ سے زرخرید غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے‘۔

    وہ کہتی ہے، ’میری دعا ہے کہ جو کچھ میں نے قید کے دوران سہا ہے اور سہہ رہی ہوں، وہ کبھی کوئی اور عورت نہ سہے‘۔

    اسے سب سے زیادہ دکھ اپنے خاندان سے جدائی کا ہے، ’یہ کوئی عام قید خانہ نہیں جہاں کبھی کبھار آپ کی والدہ یا بہن آپ سے ملنے آسکیں، یا وہ آپ کے لیے کچھ لے کر آئیں۔ مجھے یہاں نہ صرف اپنے گھر والوں بلکہ ساری دنیا سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے اور یہ میرے لیے بہت وحشت ناک بات ہے‘۔

    فوزیہ کا کیس صوبائی عدالت میں زیر سماعت ہے، اور اس سے قبل بھی انہیں جیل بھیجے جانے کا فیصلہ سنایا جا چکا ہے، اس کے باوجود انہیں قبائلی سردار بھیجنے کی وجہ کیا ہے؟


    سزا کے لیے ’غیر معمولی‘ قید خانے کیوں؟

    افغانستان کے طول و عرض پر واقع جیلیں گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہیں جو عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پہلے کی تنقید کی زد میں ہیں۔

    افغانستان کے ڈائریکٹر برائے جیل خانہ جات عالم کوہستانی کے مطابق حکومت کی جانب سے قائم باقاعدہ جیلوں میں صرف 850 کے قریب خواتین موجود ہیں جو اخلاقی جرائم، منشیات کے استعمال یا قتل میں ملوث ہیں۔

    ان میں وہ خواتین شامل نہیں جو غیر قانونی طریقہ سے قیدی بنائی گئی ہیں۔ ان میں ہزاروں خواتین شامل ہیں جو ملک بھر میں مختلف مقامات پر قید ہیں۔

    afghan-2

    دراصل افغان حکومت کی جانب سے طے کردہ قوانین اور سزائیں عموماً خواتین پر لاگو نہیں کی جاتیں، اور مقامی کونسلوں یا گاؤں کے سربراہ ہی مجرم خواتین کی سزا کا تعین کرتے ہیں۔ البتہ حکومت اپنے قوانین اور عدالتی نظام کو قبائلی علاقوں میں بھی نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

    امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان کا رسمی قانونی نظام دیہی اور قبائلی علاقوں میں غیر مؤثر ہے اور یہاں یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

    یہاں ہونے والے تنازعوں کو نمٹانے کے لیے علاقہ کے معززین بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے ایسی سزائیں ایجاد کرلی ہیں جو افغانستان کے قوانین سے بالکل علیحدہ اور بعض اوقات متصادم ہیں۔

    پکتیکا میں کام کرنے والی ایک سماجی کارکن زلمے خروٹ کا کہنا ہے کہ قید کی جانے والی ان خواتین کو بدترین جنسی و جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان سے غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ دراصل ان کی حیثیت گھر کے سربراہ کی جائیداد جیسی ہے۔

    دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں صرف خواتین کے لیے مخصوص جیلیں یا قید خانے کم ہیں۔ افغان صوبہ پکتیکا میں جس کی سرحدیں پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھی ملتی ہیں، خواتین کو رکھنے کے لیے کوئی جیل یا مناسب قید خانہ موجود نہیں۔

    مزید پڑھیں: مہاجر شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

    افغانستان کے صوبائی محکمہ برائے امور خواتین کی سربراہ بی بی حوا خوشیوال نے اس بارے میں بتایا کہ وہ کئی خواتین مجرموں کو قبائلی سرداروں یا خواتین پولیس اہلکاروں کے گھر بھیجتے ہیں۔ ’ہم مانتے ہیں کہ یہ قانونی نہیں، لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے ہم مجبور ہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ انہیں قبائلی سرداروں کی جانب سے خطوط بھیجے جاتے ہیں کہ وہ ان مجرم خواتین کو ان کے گھر بھیجیں۔ وہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ ان کے گھر میں خواتین سے کوئی ظالمانہ سلوک نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اکثر سردار اپنی بات سے پھر جاتے ہیں اور ان کے گھر جانے والی خواتین کا بری طرح استحصال ہوتا ہے۔

    بی بی حوا کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس صرف 16 خواتین مجرموں کے کیس مقامی و صوبائی عدالتوں میں بھیجے گئے۔ ان کے علاوہ ایسے درجنوں مقدمات، جو خواتین کے خلاف قائم کیے گئے، قبائلی سرداروں نے بالا ہی بالا خود ہی طے کر لیے۔ ان مقدمات میں خواتین مرکزی ملزم تھیں یا بطور سہولت کار ملوث تھیں۔

    اس بارے میں افغان ڈائریکٹر برائے جیل خانہ جات عالم کوہستانی کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی پوری کوشش کرتی ہے کہ ایسی خواتین جو کسی قسم کے مقدمات میں قبائلی سرداروں کے گھر قید ہیں، انہیں قانونی معاونت فراہم کی جائے۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ خواتین کے مقدمات کی وقت پر سماعت کی جائے (اگر ان کے سرپرست اس کی اجازت دیں)، اور سزا ملنے کی صورت میں ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہونے دی جائے۔


    کیا تمام خواتین اس صورتحال کا شکار ہیں؟

    افغانستان میں غیر قانونی طور پر قید کی گئی تمام خواتین کو اس صورتحال کا سامنا نہیں۔ کچھ خواتین کو قانونی معاونت بھی میسر آجاتی ہے، تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین کی تعداد بہت کم ہیں۔

    خواتین قیدیوں کی اکثریت ایسی ہے جو دوران قید بری طرح استحصال کا شکار ہوتی ہیں اور بعض دفعہ ان کی قید کی مدت مقرر کردہ مدت سے بھی تجاوز کردی جاتی ہے۔


    قبائلی سرداروں کا کیا کہنا ہے؟

    اس بارے میں جب ایک قبائلی سردار خلیل زردان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اسے اپنے قبیلے کے لیے ایک قابل فخر عمل قرار دیا۔ اپنی رائفل سے کھیلتے ہوئے اس نے کہا، ’میرا نہیں خیال کہ خواتین قیدیوں کو اپنے گھر میں رکھنے میں کوئی قباحت ہے۔ میرے گھر میں کبھی کسی خاتون قیدی کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا گیا‘۔

    سردار زردان کے گھر میں خواتین کے لیے باقاعدہ جیل قائم ہے اور اس کی دوسری بیوی اس کے گھر میں چلائی جانے والی جیل کی نگران ہے۔ سردار کا کہنا تھا، ’جب کسی عورت کو سزا یافتہ قرار دیا جاتا ہے تو پولیس چیف مجھے فون کر کے کہتا ہے کہ اگر میرے گھر میں جگہ ہے تو میں اس عورت کو اپنے گھر میں رکھ لوں‘۔ ’یہ کام میں اپنے قبیلے کی عزت کے لیے کرتا ہوں، میرے قبیلے کو جب اور جتنی ضرورت ہوگی، میں اتنی عورتیں اپنے گھر میں رکھ سکتا ہوں‘۔

    افغانستان میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں اور اداروں کا مشترکہ مشن یہ ہے کہ یہاں سب سے پہلے خواتین کو ان کے بنیادی حقوق واپس دلوائے جائیں۔ دیگر سہولیات کی بات بعد میں آتی ہے۔

    افغانستان کی فٹبال کی پہلی خواتین ٹیم کی کپتان خالدہ پوپل زئی اس بارے میں کہتی ہیں، ’افغانستان سے طالبان کا کنٹرول ختم ہوگیا ہے لیکن ان کی سوچ لوگوں میں سرائیت کر چکی ہے۔ یہ سوچ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق بھی دینے سے روک دیتی ہے اور لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خواتین کو جانور سے بھی بدتر کوئی مخلوق سمجھیں‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی پرعالمی برادری کوخاموشی توڑنا ہوگی‘ پاکستانی ہائی کمشنر

    کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی پرعالمی برادری کوخاموشی توڑنا ہوگی‘ پاکستانی ہائی کمشنر

    لندن : پاکستانی ہائی کمشنر سید ابن عباس کا کہنا ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پرعالمی برادری کو خاموشی توڑنا ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق لندن میں پاکستانی نژاد برطانوی بلدیاتی نمائندون کا اجلاس پاکستان ہائی کمیشن میں ہوا۔

    اجلا س سے خطاب میں پاکستانی ہائی کمشنرسید ابن عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں، جس کے لئےنوجوانوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے۔

    پاکستانی ہائی کمشنر نے کہا کہ چین اقتصادی راہداری منصوبے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔

    سید ابن عباس نے کہا کہ کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت اورمقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہورہی ہے، کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پرعالمی برادری کو خاموشی توڑنا ہوگی۔


    بھارتی فوج کی پربلااشتعال فائرنگ، ایک شہری شہید ،3 زخمی


    خیال رہے کہ گزشتہ روز بھارتی فوج کی تھرتی نار گاؤں پر بلااشتعال فائرنگ سے ایک شہری شہیداور 3 زخمی ہو ہوگئے تھے۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے بتایا تھا کہ سال 2017 میں بھارت نے 1137 بار سرحدوں پربلا اشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 47 شہری جاں بحق جبکہ 159 افراد زخمی ہوئے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عالمی سطح پر بھارتی وزیر اعظم مودی کا اصل چہرہ بے نقاب

    عالمی سطح پر بھارتی وزیر اعظم مودی کا اصل چہرہ بے نقاب

    کراچی: عالمی سطح پر مودی کے کرتوتوں کا پردہ تو کئی مرتبہ چاک ہوا ہے لیکن خود معروف بھارتی مصنفہ اور انسانی حقوق کی علم بردار ارون دھتی رائے نے کئی مرتبہ گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام کا براہ راست زمہ دار نریںدرمودی کو ٹھہرایا ۔

    ایک تقریب سے خطاب میں معروف بھارتی مصنفہ اور انسانی حقوق کی علم بردار ارون دھتی رائے کا کہنا تھا کہ سال 2002 میں جب نریندر مودی چیف منسٹر تھے تو ایودھیا مسجد کی تباہی سے زائرین کی ایک ٹرین واپس آرہی تھی جو متنازع تھی، اس ٹرین کو آگ لگ گئی اور کسی کو نہیں پتا چلا کس نے لگائی تاہم حادثے کے نتیجے میں 57 زائرین ہلاک ہوگئے تھے۔

    اس کے ردعمل میں مودی کی زیر نگرانی گجرات میں ہندو شدت پسند پاگل ہوگئے احسان جعفری نامی ایک اسمبلی کا ممبر تھا جس نے مودی کے خلاف الیکشن میں کھڑے ہونے کی گستاخی کی تھی جس کے بعد اس کا گھر بیس ہزار لوگوں نے گھیر لیا، اس نے مدد کے لیے دوسو کے قریب فون کالز کیں، پولیس کی گاڑیاں آئیں اور کچھ کیے بغیر واپس چلی گئیں، ہجوم نے گھر کا گھیراؤ کیا ہوا تھا۔


    The real face of Modi exposed in international… by arynews

    بعد ازاں احسان جعفری باہر آیا اور کہا کہ اس کے گھر میں بہت لوگ پناہ لیے ہوئے تھے وہ جو کہنا ہے مجھے کہو ، عورتوں اور پناہ گزینوں کو کچھ نہ کہو۔

    ہندوؤں نے اس کے ہاتھ اور ٹانگیں کاٹ دیں، اس کے جسم کو سارے علاقے میں گھسیٹا اور اندر تمام لوگوں کو قتل کردیا، انہوں نے عورتوں کا ریپ کرکے انہیں زندہ جلادیا اور مودی بولا جب عمل ہوگا تو ردعمل تو ہوگا۔

  • دمشق: شام کے شہر ادلب میں جنگی طیاروں کی بمباری،نو افراد ہلاک

    دمشق: شام کے شہر ادلب میں جنگی طیاروں کی بمباری،نو افراد ہلاک

    دمشق: شامی شہر ادلب میں جنگی طیاروں کی بمباری کےنتیجےمیں کم از کم نو افرادجان کی بازی ہار گئے اوردرجنوں زخمی ہوگئے.

    تفصیلات کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہےکہ بمباری میں جاں بحق ہونےوالوں میں ایک بچہ بھی شامل ہے،انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق بمباری میں کم ازکم نو افرد جان کی بازی ہار گئے.

    شامی شہر ادلب میں جنگی طیاروں کی بمباری کے نیتجے میں قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے،مقامی افراد کا کہنا ہے کہ روسی اورشامی حکومت کےجنگی طیاروں نے قصبے میں بارہ حملےکیے تاہم شامی حکومت کی جانب سےابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے.

    یاد رہے رواں ماہ انسانی حقوق کی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شام کے شمالی شہر حلب میں عسکریت پسندوں کے خلاف حکومتی فورسز کے آپریشن کے دوران جھڑپوں میں ستر فوجی اور عسکریت پسندجاں بحق ہوگئے.

    واضح رہے کہ شام میں 2011 سے جاری کشیدگی اور بغاوت کے باعث دو لاکھ اسی ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں شامی اپنے گھر بار چھوڑ کر اطراف کے ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں آباد ہیں.

  • انسانی حقوق کی وکیل امل کلونی یزیدی خواتین کا کیس لڑیں گی

    انسانی حقوق کی وکیل امل کلونی یزیدی خواتین کا کیس لڑیں گی

    انسانی حقوق کی وکیل اور معروف ہالی وڈ اداکار جارج کلونی کی اہلیہ امل کلونی شام کی یزیدی خواتین کا کیس لڑیں گی۔ یہ خواتین عراق میں دہشت گرد تنظیم داعش کے جنگجؤوں کی جانب سے جنسی غلامی، اجتماعی زیادتی اور نسل کشی کا نشانہ بنیں۔

    امل کلونی کی لا فرم کے مطابق امل عالمی عدالت برائے جرائم میں داعش کے  یزیدی خواتین پر مظالم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گی۔

    مزید پڑھیں: داعش نے 19 یزیدی خواتین کو زندہ جلا دیا

    امل کا کہنا ہے کہ داعش کی جانب سے ہزاروں یزیدیوں کو قتل کیا گیا جبکہ ہزاروں یزیدی خواتین کو غلام بنا لیا گیا۔ ان خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات بھی پیش آئے جبکہ یہ واقعات تاحال جاری ہیں لیکن مجرموں کے خلاف کوئی کچھ نہیں کر سکا۔

    amal-2

    داعش نے عراق کے یزیدی قبیلے کو کافر قرار دے کر 2014 میں ان کے شہر پر حملہ کیا اور ہزاروں یزیدیوں کو قتل کردیا۔ داعش کے جنگجو سینکڑوں ہزاروں یزیدی خواتین کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے جہاں ان کے ساتھ نہ صرف اجتماعی زیادتی کی گئی بلکہ وہاں ان کی حیثیت ان جنگجؤوں کے لیے جنسی غلام کی ہے۔ داعش کے خوف کی وجہ سے اب تک 4 لاکھ سے زائد یزیدی اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔

    isis-2

    یزیدیوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والی سماجی کارکن نادیہ مراد طحہٰ ایک عرصے سے ان مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

    طحہٰ خود بھی یزیدی ہیں اور داعش کے ان کے گاؤں پر حملے کے دوران انہیں بھی اغوا کرلیا گیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ داعشی جنگجو انہیں عراق کے شہر موصل لے گئے جہاں داعش کا قبضہ ہے۔ وہاں انہیں کئی بار زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ان پر جسمانی تشدد بھی کیا گیا۔ طحہٰ 3 ماہ داعش کی قید میں رہنے کے بعد کسی طرح وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئیں۔

    طحہٰ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے سامنے عالمی اداروں سے ان مظالم کے خلاف اقدامات کرنے کی اپیل بھی کر چکی ہیں۔

    nadia

    اقوام متحدہ کے مطابق داعش نے اب تک 7 ہزار خواتین کو اغوا کر کے انہیں غلام بنایا ہے جن میں سے زیادہ تر یزیدی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔

    چند روز قبل داعش نے موصل میں 19 یزیدی خواتین کو زندہ جلا دیا تھا۔ ان خواتین نے داعشی جنگجوؤں سے جنسی تعلق قائم کرنے سے انکار کیا تھا جس پر جنگجوؤں نے انہیں لوہے کے پنجروں میں بند کر کے زندہ جلا دیا۔

  • پانامہ پیپرز میں فوج کو کوئی کردار نہیں ، عاصمہ جہانگیر

    پانامہ پیپرز میں فوج کو کوئی کردار نہیں ، عاصمہ جہانگیر

    واشنگٹن: پاکستان کی معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ پانامہ پیپرز میں فوج کا کوئی کردار نہیں جبکہ آف شور کمپنی کے حوالے سے عمران خان کے بیانات مضحکہ خیز ہیں۔

    واشنگٹن کے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کی دعوت پر عاصمہ جہانگیر نے پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بات چیت کی۔

    عاصمہ جہانگیر کے مطابق پاکستانی سیاست دان معاملات کو احسن طریقے سے چلانے میں ناکام نظر آتے ہیں جبکہ پانامہ پیپرز میں فوج کا کوئی کردار نہیں۔

    عمران خان کی آف شور کمپنی پر عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ پاکستان کے سیاسی معاملات پر وہ خود الجھن کا شکار رہتی ہیں، انہوں نے پاکستان میں کرپشن کی تحقیقات کرنے والے اداروں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کا مطالبہ کیا ۔

    عاصمہ جہانگیر کے خیال میں پاکستان کی لوکل عدالتیں اس وقت بہت زیادہ دباؤ میں بہترین کام کر رہی ہیں جبکہ سپریم کورٹ نے بھی مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے حالیہ دنوں میں اہم فیصلے کئے۔