Tag: انسانی دماغ

  • موت کے بعد انسانی دماغ کتنے عرصے تک محفوظ رہتا ہے؟ حیرت انگیز انکشاف

    موت کے بعد انسانی دماغ کتنے عرصے تک محفوظ رہتا ہے؟ حیرت انگیز انکشاف

    انسان کے جسم کا سب سے اہم حصہ دماغ ہے موت کے بعد یہ کتنے عرصہ محفوظ رکھا جا سکتا ہے اس حوالے سے نئی تحقیقات میں حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے۔

    انسان کے جسم کا سب سے اہم حصہ دماغ ہے جو زندگی پر پورے جسم کو کنٹرول کرتا اور ہدایات بھیجتا ہے جس کے نتیجے میں انسانی اعضا کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موت کے بعد سب سے زیادہ عرصہ دماغ ہی فعال رہتا ہے۔

    تاہم انسان کی موت کے بعد دماغ کو قدرتی طور پر کتنا عرصہ محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک تحقیق میں حیرت انگیز انکشاف سامنے آیا ہے۔

    ایک سائنسی ویب سائٹ کے مطابق انسانی دماغ کو بعض مخصوص حالات میں ہزاروں سال تک قدرتی طور پر محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

    یہ تحقیق آکسفورڈ یونیورسٹی کی محققہ الیگزینڈرا مورٹن ہیورڈ کی قیادت میں کی گئی۔ اس تحقیق میں دنیا بھر سے 4,400 سے زائد محفوظ شدہ انسانی دماغوں کا ریکارڈ مرتب کیا گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ان میں 1300 سے زیادہ کیسز میں صرف دماغ محفوظ رہا جبکہ باقی تمام نرم بافتیں ختم ہوچکی تھی۔ ان میں سے کچھ دماغ 12,000 سال سے زیادہ پرانے ہیں۔

    12,000 سال یا اس سے زیادہ پرانے انسانی دماغ غیر متوقع جگہوں جیسے جہاز کے ملبے اور پانی بھری قبروں سے ملے ہیں، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں کس چیز نے محفوظ کیا ہے۔

    سائنسدانوں نے اس تحقیق سے جو نتیجہ اخذ کیا اس میں نشاندہی کی گئی کہ دماغ کی اس غیر معمولی حفاظت کے پیچھے ممکنہ عوامل میں شامل ہو سکتے ہیں۔

    1۔ پروٹینز اور لپڈز کا آپس میں جُڑ جانا، دماغی بافتوں کو مستحکم بناتا ہے۔

    2۔ آئرن یا کاپر جیسے دھاتوں کی موجودگی میں کیمیائی تعاملات تحفظ میں مدد دیتے ہیں۔

    3۔ گیلی، آکسیجن سے محروم، یا انتہائی سرد جگہیں جہاں بیکٹیریا کی سرگرمی محدود ہوتی ہے۔

  • ذہانت کو بہتر بنانے کے 5 رہنما اصول

    ذہانت کو بہتر بنانے کے 5 رہنما اصول

    انسانی دماغ جسم کا سب سے پیچیدہ عضو ہے، جس کا کام جسم کے کئی افعال کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے، یہ یادداشت اور تخیل کا مرکز بھی ہے۔

    ذہانت کو روایتی طور پر معیاری ٹیسٹوں اور تعلیمی کامیابیوں کے ذریعے ماپا جاتا ہے تاہم ماہرین کے نزدیک ذہانت غیر روایتی طریقوں سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔

    ہم اکثر یہ بات نوٹ کرتے ہیں کہ کوئی چیز بازار سے خریدنے نکلے تو وہاں جاکر یہ بھول گئے کہ کیا لینے آئے تھے۔ مکمل تیاری کے بعد امتحان دیتے ہوئے کچھ ذہن میں نہیں آتا کہ پڑھا کیا تھا، اور تو اور تھوڑے عرصے بعد ملنے والے دوستوں کا نام ہی ذہن میں نہیں رہتا۔

    ذہانت

    اس کے علاوہ ایک کمرے سے اٹھ کر کسی کام کے لیے دوسرے کمرے میں گئے لیکن وہاں پہنچنے کے بعد بھول گئے کہ کس کام کے لیے آئے تھے۔

    سائنسدان گزشتہ کئی دہائیوں سے یادداشت کو بہتر بنانے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں، حالیہ تحقیق میں کچھ باتوں کا انکشاف ہوا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ان نسخوں کو آزما کر ہم اپنی یادداشت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

    ماضی کو یاد کریں

    یہ کہاوت مشہور ہے کہ پرانی باتوں کو بھول کر آگے بڑھیں لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پرانی باتوں کو دہرانے سے ہماری یاداشت مزید بہتر ہوتی ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی کئی تحقیقات یہ اشارے دیتی ہیں کہ جب ہم پرانے تجربوں کو اپنے ذہن میں دہراتے ہیں تو ان کی یادیں مضبوطی سے ہمارے ذہن میں رجسٹر ہو جاتی ہیں تو آپ بھی یاد رکھیں کہ آگے کی سوچ رکھنے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی پیچھے مڑ کر بھی دیکھیں۔

    تصاویر بنائیں

    گھر کا سودا سلف لانے کیلیے آپ سامان کی ایک فہرست مرتب کرتے ہیں لیکن اگر آپ اپنی یادداشت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو اس سامان کا نام لکھنے کے بجائے ان کی تصاویر بنائیں۔

    جو لوگ یہ کرتے ہیں، ان کی یاداشت کی طاقت میں بہتری دیکھنے میں آتی ہے۔ یہاں تک کہ ڈیمینشیا جیسی بیماری کے مریضوں کو بھی اس سے فائدہ ہوتا ہے۔

    باقاعدگی سے ورزش

    یہ متعدد بار ثابت ہوا ہے کہ باقاعدگی سے ورزش کرنے یا واک کرنے سے یاد داشت بہتر ہوتی ہے، تاہم اب محققین کہتے ہیں کہ اس کے لیے صحیح وقت کا ہونا ضروری ہے۔ تاہم یہ وقت کیا ہونا چاہیے سائنسدان ابھی تک اس پر تحقیق کر رہے ہیں۔

    ذہین افراد

    دماغ کو بھی آرام دیں

    ہیریٹ واٹ یونیورسٹی کی مائکیلا ڈیور نے اس پر ایک تحقیق کی، انھوں نے پایا کہ اگر صحت مند افراد کسی چیز کو یاد رکھنے کے فوراً بعد وقفہ لیتے ہیں تو انہیں وہ چیزیں زیادہ یاد رہ جاتی ہیں۔

    لہٰذا، آپ بھی کوشش کریں کہ کچھ پڑھنے اور تحریر کرنے کے بعد ذہن کو کچھ وقت کے لیے خاموش چھوڑیں، کچھ نہ کریں۔ یہ آپ کی یاد داشت کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

    کم دورانیے کی نیند

    اگر آپ کو اپنی یاداشت کو بہتر بنانے کے لیے یہ چار نسخے بھاری لگتے ہیں تو یہ نسخہ بھی آزمائیں یعنی تھوڑی دیر کے لیے سو جائیں۔

    مختلف تحقیقات سے یہ ثابت ہے کہ جھپکی لینے سے ہماری یاد داشت مضبوط ہوتی ہے لیکن اس کی ایک شرط ہے۔ دراصل وہی لوگ اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو باقاعدگی سے یہ کام کرتے ہیں۔

  • انسانی دماغ کی صلاحیت کے بارے میں ایک اور حیران کن انکشاف

    انسانی دماغ کی صلاحیت کے بارے میں ایک اور حیران کن انکشاف

    انسانی دماغ ایک عجوبہ ہے جس کے بارے میں تاحال نئی نئی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، حال ہی میں دماغ کے بارے میں ایک اور نیا انکشاف ہوا ہے۔

    ہماری آنکھیں مسلسل سامنے آنے والے مناظر کی بہت زیادہ تفصیلات حاصل کرتی رہتی ہیں اور دماغ کے لیے ان کا تجزیہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔

    ایک طرف ہماری آنکھوں کے سامنے مسلسل تبدیلیاں ہوتی ہیں جس کی وجہ روشنی اور دیگر عناصر ہوتے ہیں، دوسری جانب ہماری بینائی کے اندر بھی مسلسل تبدیلیاں آتی ہیں جس کی وجہ پلک چھپکنا، آںکھوں اور جسم کا متحرک ہونا ہوتا ہے۔

    اس کا ایک اندازہ لگانے کے لیے ایک فون کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں اور چلتے پھرتے اور دیکھتے ہوئے لائیو ویڈیو ریکارڈ کریں۔

    اس کا رزلٹ آپ کو عندیہ دے گا کہ ہمارا دماغ کسی طرح ہماری ہر نظر کے تجربے سے نمٹتا ہے۔

    ایسا اس ویڈیو میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں سفید سرکل آنکھوں کی حرکات کا عندیہ دیتا ہے جبکہ دھندلا حصہ ہر حرکت کے ساتھ بینائی کے اندرونی افعال کے بارے میں بتاتا ہے۔

    تو دماغ اس کے لیے ایک منفرد میکنزم کو استعمال کرتا ہے جو ہماری بینائی کے استحکام کی وضاحت بھی کرتا ہے۔

    اس میکنزم کا انکشاف ایک نئی تحقیق میں ہوا جس کے مطابق ہمارا دماغ خودکار طور پر ہماری بینائی کو مستحکم رکھتا ہے اور یہ چونکا دینے والا طریقہ ہوتا ہے۔

    درحقیقت ہم جو کچھ بھی دیکھتے ہیں وہ اوسطاً 15 سیکنڈ پہلے کا ہوتا ہے اس طرح دماغ تمام حصوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے تاکہ ہمیں محسوس ہو کہ بینائی ایک مستحکم ماحول میں کام کررہی ہے۔

    ماضی میں رہنے سے یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ کسی وجہ سے اکثر ہم وقت کے ساتھ اپنے ماحول میں آنے والی تبدیلیوں پر توجہ مرکوز نہیں کرپاتے۔

    آسان الفاظ میں ہمارا دماغ ایک ٹائم مشین کی طرح کام کرتا ہے جو ہمیں چند سیکنڈ پہلے کے وقت میں واپس بھیجتا ہے تاکہ روزمرہ کی سرگرمیاں ہمارے لیے مسائل نہ بن سکیں۔

    اس کے برعکس اگر دماغ ریئل ٹائم میں سب کچھ اپ ڈیٹ کرے تو دنیا ہماری نظروں کے لیے ایک افراتفری کا مقام ہوگی جس میں روشنی، سائے اور حرکت کا مسلسل تحرک ہوگا، جو ہمارے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔

    امریکا کی کیلی فورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہمارے دماغ کو ارگرد کے مناظر کے حوالے سے بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے تو وہ ماضی سے چپکا رہتا ہے کیونکہ وہ حال کا عندیہ دیتا ہے، اس طرح وہ تفصیلات کو ری سائیکل کرتا ہے جو زیادہ برق رفتار، زیادہ بہتر ہوتا ہے اور اسے کم کام کرنا پڑتا ہے۔

  • پیدائش سے قبل ہی جدید علمی قابلیت پیدا کرنے والے انٹرنیورانز سے متعلق سائنس دانوں کا بڑا انکشاف

    پیدائش سے قبل ہی جدید علمی قابلیت پیدا کرنے والے انٹرنیورانز سے متعلق سائنس دانوں کا بڑا انکشاف

    بیجنگ: پیدائش سے قبل ہی بچے میں جدید علمی قابلیت پیدا کرنے والے انٹرنیورانز سے متعلق سائنس دانوں نے اہم انکشاف کیا ہے، چینی اور برطانوی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے انسانوں میں انٹرنیورانز کی نشوونما کا پتا چلا لیا۔

    تفصیلات کے مطابق چین اور برطانیہ کے سائنس دانوں نے اس بات کا پتا چلایا ہے کہ انسانی انٹر نیوران (جو جدید انسانی سرگرمیوں کی اہلیت پیدا کرنے والا ایک اہم قسم کا نیوران ہے، اور جو بچپن میں نشوونما پاتا ہے) کس طرح سے ذہنی اور جسمانی نشوونما کے مسائل کے حل میں رہنمائی کرتا ہے۔

    جریدے سائنس میں جمعہ کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں جدید انسان کے انٹرنیوران کی 2 اقسام کے بارے میں بتایا گیا ہے جن کی خصوصیات چوہوں کے ساتھ مشترکہ نہیں ہیں۔

    تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح سے انسانی دماغ نے متنوع انٹرنیورانز تیار کیے جو انسان کو اس کی منفرد جدید علمی قابلیت فراہم کرتے ہیں۔

    انسانی دماغ کے سیریبرل کارٹکس میں دماغی خلیوں کے 2 اہم گروہ ہیں؛ ایک انسان کو کسی کام پر اکساتا اور دوسرا اسے کسی کام سے روکتا ہے۔

    کسی کام سے ممانعت کے انٹرنیورانز جی اے بی اے نامی نیورو ٹرانسمیٹر پیدا کرتے ہیں جو دماغ کو ضرورت سے زیادہ پرجوش ہونے سے روکتے ہیں، اگر اس نیورو ٹرانسمیٹر (جی اے بی اے) میں کسی قسم کی بے ضابطگی آ جائے تو یہ آٹزم، ڈپریشن، سکیزوفرینیا یا مرگی کا باعث بن جاتا ہے۔

    چین کی اکیڈمی آف سائنسز کے ماتحت ادارے، انسٹیٹیوٹ آف بائیو فزکس، بیجنگ نارمل یونیورسٹی اور کنگز کالج لندن کے محققین نے انسانی جنین کے پہلی سے دوسری سہ ماہی کے ابتدائی دور میں انٹرنیورانز کی تفصیلی میسنجر آر این اے معلومات حاصل کرنے کے لیے سنگل سیل سیکوینسنگ ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کی۔

    محققین نے معلوم کیا کہ انسانوں کی پیدائش متنوع انٹرنیورانز کے ساتھ ہوئی ہے، جو انسان کے بھرپور جذبات اور خود شناسی کی بنیاد رکھتے ہیں۔

    مطالعے کے مطابق، یہ صلاحیتیں انسان کے دماغ میں راسخ ہیں، جس کی وجہ دماغ کے گینگلیونک ایمیننس حصے کا ایک متنوع مالیکیولر ریگولیشن میکانزم ہے جہاں انٹرنیوران تعداد میں بڑھتے رہتے ہیں۔

    ژیجیانگ یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن کے پروفیسر دوآن شومین، جو اس تحقیق سے وابستہ نہیں ہیں، کا کہنا ہے کہ انسانی جنین کے دور میں انٹرنیوران کی نشوونما کے مرحلہ وار مطالعے نے سکیزوفرینیا اور دیگر دماغی بیماریوں کی تحقیق، تشخیص اور علاج کا ایک نیا راستہ کھول دیا ہے۔

  • انسانی دماغ کا ٹکڑا پہلی بار جسم سے باہر زندہ رکھنے کا کامیاب تجربہ

    انسانی دماغ کا ٹکڑا پہلی بار جسم سے باہر زندہ رکھنے کا کامیاب تجربہ

    کوپن ہیگن: ڈنمارک میں سائنس دان انسانی دماغ کے ایک ٹکڑے کو پہلی بار جسم سے باہر زندہ رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق تاریخ میں پہلی بار سائنس دانوں نے انسان کے دماغ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو جسم سے باہر ایک پیٹری ڈش میں 12 گھنٹے زندہ رکھ کر بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔

    انسانی دماغ اتنا حساس ہے کہ اس کا ایک حصہ بھی الگ ہوکر فوری طور پر مر جاتا ہے، اور اس میں کسی قسم کی کوئی حیاتیاتی سرگرمی نہیں رہتی، لیکن ماہرین نے دماغ کے ایک سینٹی میٹر حصے کو بارہ گھنٹوں تک زندہ رکھا۔

    کوپن ہیگن یونیورسٹی کی ڈاکٹر ایما لیوس لوتھ کی سربراہی میں سائنس دانوں کے ایک گروپ نے ایک مریض کے کارٹیکس سے دماغ کے ٹشو کا ایک ٹکڑا نکالا اور اس کے زندہ رہنے کو یقینی بنانے کے لیے تیزی سے ایک نیا عمل شروع کیا۔

    ٹیم نے پہلے اس ٹشو کو ٹھنڈا کیا، اسے آکسیجن سے بھرا رکھا تاکہ خلیات زندہ رہیں، اور پھر اس چھوٹے سے ٹکڑے کو آئنز (برقی چارج والے مالیکیول) اور معدنیات کے ایک مرکب میں رکھ دیا، یہ وہی اجزا ہیں جو دماغی ریڑھ کی ہڈی کے مائع جات میں پائے جاتے ہیں۔

    ڈاکٹر ایما لوئس لوتھ

    ڈاکٹر لوتھ نے اس سلسلے میں جانوروں پر ہونے والے تجربات کے حوالے سے دل چسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی دوسری ریسرچ سے اس سلسلے میں مدد لینا (یعنی چوہوں پر تحقیق بمقابلہ انسانوں پر تحقیق) ایسا تھا جیسے کوئی آئی فون کو ٹھیک کرتے ہوئے نوکیا 3310 کو دیکھے، ان کے بنیادی افعال تو ایک جیسے ہیں لیکن انسانی دماغ میں اس سے کہیں زیادہ پیچیدگی ہے۔

    انھوں نے کہا ہم یہاں تک جانتے ہیں کہ خلیات کی اقسام اور بعض ریسیپٹرز کے اظہار میں بھی فرق ہے، لہٰذا انسانی ٹشو کو براہ راست ٹیسٹ کرنے کے قابل ہونا ایک منفرد موقع تھا۔

    اپنی نوعیت کی اس پہلی تحقیق میں انسانوں اور چوہوں کے نیورانز کے درمیان (ڈوپامائن کے ذریعے بڑھائے گئے) رابطوں پر توجہ مرکوز کی گئی، جس میں دیکھا گیا کہ انعام سے وابستہ نیورو ٹرانسمیٹر انسانی دماغ میں نیورانز کے درمیان رابطوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ڈوپامن ایک قسم کا نیوروٹرانسمیٹر ہے جو اعصابی خلیوں کے درمیان پیغام رسانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور ہماری خوشی محسوس کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    لوتھ کا کہنا تھا کہ یہ جاننا علاج کے نئے مواقع کا باعث بن سکتا ہے، مثال کے طور پر فالج کے بعد بحالی کے سلسلے میں یا شدید دماغی نقصان کی دوسری اقسام، جہاں مریض کے دماغ کے نیورونز میں رابطہ ختم ہو جاتا ہے اور نئے کنیکشنز پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے یہ دیکھا کہ ڈوپامِن انسانوں اور چوہوں میں مختلف کردار ادا کرتی ہے، اس تجربے سے انسانی بافتوں پر ادویات کی براہ راست جانچ کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔

    واضح رہے کہ اس ٹکڑے میں اعصابی خلیات زندہ تھے اور ان سے برقی سگنل بھی پھوٹ رہے تھے، اس اہم صورت حال میں ماہرین کئی طرح کے تجربات کو بالکل نئے انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔ محققین کا یہ گروپ فی الحال ایک ایسے طریقے پر کام کر رہا ہے جس سے دماغ کے چھوٹے ٹکڑوں کو 10 دن تک زندہ رکھا جا سکے۔

    خیال رہے کہ اس تجربے کے لیے انسانی دماغ کے ٹکڑے کو استعمال کیا گیا، جس پر سوالات اٹھ سکتے ہیں، ڈاکٹر لوتھ نے بتایا کہ پہلی بات تو یہ کہ اس سے درد محسوس نہیں ہوتا، اور ہر قسم کے جذبات یا خیالات دماغ کے کئی حصوں سے گزرتے ہیں، ہم نے جس ٹکڑے پر کام کیا، وہ انسانی انگوٹھے کے سب سے بیرونی حصے کے سائز جتنا تھا، اور یہ دماغ کے دوسرے حصوں سے منسلک نہیں ہے، میں لوگوں کی اس حیرانی کو سمجھ سکتی ہوں کہ پیٹری ڈش میں جو نیوران موجود ہے، کیا اس میں یادداشت ہے، لیکن میں یہ بتاؤں کہ یہ ممکن نہیں ہے۔

  • انسانی دماغ میں مقناطیسی لہروں کی سمت معلوم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، رپورٹ

    انسانی دماغ میں مقناطیسی لہروں کی سمت معلوم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، رپورٹ

    نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسانی دماغ اپنی چھٹی حِس کے ذریعے زمین نکلنے والی مقناطیسی لہروں کا اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی و جاپانی سائنس دانوں کی جانب سے حالیہ تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانی دماغ اور اس کے علاوہ پرندے، مچھلیاں اور کچھ دیگر جانور مقناطیسی قوتوں کا اندازہ لگاکر انہیں راستوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    سانئسی جریدے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سانئس دان طویل عرصے سے حیرت میں مبتلا تھے کہ انسان کس طرح مقناطیسی لہروں یا قوتوں کا اندازہ لگاتا ہے۔

    سانئس دانوں کو ایک لیب میں کیے گئے تجربے کے دوران معلوم ہوا کہ انسان زمینی طاقت سے مختلف سمتوں میں پھیلنے والی مقناطیسی لہروں یا قوتوں کو پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    چینی ماہر حیاتیاتی طبعیات کین ژی کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین نہیں آرہا‘ یہ نیا ثبوت ہے کہ ہم ایک قدم مقناطیسی لہروں کی پہنچان کرنے میں ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں اور شاید انسان کے مقناطیسی احساس کےلیے بڑا قدم ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’میں امید کرسکتا ہوں کہ مستقبل قریب میں مزید تحقیقات دیکھینے کو ملیں گی‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اس تجربے میں 26 افراد نے حصّہ لیا تھا اور ہر شخص نے اپنے آنکھیں اندھیرے میں بند کرکے خاموش کمرے میں داخل ہوگئے جو برقی کوائل سے جڑا ہوا تھا اور برقی کوائل مقناطیسی قوتوں کو پیدا کررہی تھی۔

    سائنس دانوں نے شریک افراد کے سروں پر ایک ای ای جی کیپ رکھا جو دماغ کی برقی سرگرمیوں کو ریکارڈ کررہا تھا جب ارگرد مقناطیسی لہریں گھوم رہی تھیں۔

  • انسان کے دماغی خلیات ملنے کے بعد چوہوں‌ میں‌ کیا تبدیلی آئی؟

    انسان کے دماغی خلیات ملنے کے بعد چوہوں‌ میں‌ کیا تبدیلی آئی؟

    نیویارک: امریکی ماہرین نے انسان کے چند خلیے چوہوں کے دماغ میں ڈالنے کا تجربہ کیا جس کے بعد حیران کُن تبدیلی دیکھنے میں آئی۔

    انسان کے علاوہ کوئی بھی جاندار ذی فہم نہیں اور نہ ہی وہ فیصلہ سازی کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم امریکی سائنس دانوں نے انسانی دماغ کے خلیے چوہوں میں ٹرانسپلانٹ کرنے کا تجربہ کیا۔

    امریکی ماہرین کے مطابق جن چوہوں میں انسانی دماغ کے خلیات ڈالے گئے وہ پہلے سے بہت زیادہ ہوشیار ہوئے اور اُن کی یادداشت عام چوہوں کی نسبت کئی گنا زیادہ بھی ہوئی۔

    مزید پڑھیں: پیسے چوری کرنے والے چوہے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل

    ماہرین کا کہنا تھا کہ چوہوں میں چالاکی کے ساتھ سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔

    امریکی ماہرین نے چوہوں کے دماغ میں جو خلیے داخل کیے وہ نیوران نہیں بلکہ ’گلیا‘ تھے جو برقی سگنلز کی ترسیل کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ انسان میں سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔

    تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ انسانی دماغ کو معلومات ملنے کا طریقہ کار برقی سگنلز کے حامل نیوران سے بھی آگے تک کے خلیوں میں پھیلا ہوا ہے جن پر کوئی برقی چارج نہیں ہوتا۔

    یہ بھی پڑھیں: ضبط کی گئی ہزاروں لیٹر شراب چوہے پی گئے، پولیس کا دعویٰ

    چوہوں سے متعلق مزید: بارودی سرنگیں ہٹانے والے ہیرو چوہے

    ماہرین کو تحقیق میں ’گلیا‘ خلیوں کے افعال کو سمجھنا تھا جس کا انہوں نے تجربہ چوہوں پر کیا۔

    تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ گولڈمین کا کہنا تھا کہ ’اس تجربے سے ہم نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ انسان کے علاوہ کسی بھی جانور میں سمجھنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے‘۔

    گولڈمین کے مطابق یہ تجربہ اُن کی ٹیم کے لیے دنگ کردینے والا تھا کیونکہ وہ نہیں سمجھتے تھے کہ ٹرانسپلانٹ کے بعد چوہوں میں کوئی تبدیلی رونما ہوگی۔

  • انسانی دماغ کے بارے میں دلچسپ معلومات

    انسانی دماغ کے بارے میں دلچسپ معلومات

    ہمارا جسم ایک عجوبہ ہے۔ اس کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ انسانی جسم پر تحقیق کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ہر بار اس میں نئے انکشافات ہوتے ہیں۔

    ہمارے دماغ کو ہی لے لیجیئے۔ اسی دماغ کی بدولت حضرت انسان نے کیا کیا کارنامے دکھائے۔ ذہانت و عقلمندی سے لے کر بدحواسی اور کند ذہنی کے ایسے ایسے مظاہرے تاریخ میں درج ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی شکل کا دماغ آخر کس کس طرح اپنی کرامات دکھا سکتا ہے۔

    آئیے اپنے دماغ کے بارے میں کچھ حیرت انگیز معلومات جانتے ہیں جن کا شاید اس سے پہلے آپ کو علم نہیں ہوگا۔

    انسانی دماغ ٹھوس نہیں ہوتا۔ یہ نرم اور لچکدار ہوتا ہے۔

    ہمارا دماغ ہمارے جسم کے کل وزن کا صرف 2 فیصد حصہ ہوتا ہے لیکن یہ جسم کی پیدا کردہ 20 فیصد توانائی خرچ کرتا ہے۔

    دوران حمل ماں کے پیٹ میں موجود بچہ میں ہر منٹ میں ڈھائی لاکھ دماغی خلیات بنتے ہیں۔

    brain-2

    ایک بالغ شخص کے دماغ میں 100 بلین دماغی خلیات ہوتے ہیں اور یہ 10 ہزار علیحدہ اقسام پر مشتمل ہوتے ہیں۔

    ہر دماغی خلیہ 40 ہزار سائنسوپسس سے جڑا ہوتا ہے۔ سائنوپسس کے ذریعہ پورے عصبی نظام میں معلومات کی ترسیل ہوتی ہے۔

    ہمارے دماغ کی معلومات کو جانچنے اور اسے منتقل کرنے کی رفتار 432 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ رفتار دنیا کی تیز ترین فارمولا ون کار ریس سے بھی زیادہ ہے جس کا اب تک کا سب سے زیادہ فاصلہ 386 کلو میٹر فی گھنٹہ رہا ہے۔

    ایک انسانی دماغ 12 سے 25 واٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے۔ اس بجلی سے ایک ایل ای ڈی لائٹ روشن ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق پچھلے 10 سے 20 ہزار سال میں ہمارے دماغ چھوٹے ہوگئے ہیں اور پہلے کے انسان کے مقابلے میں اب ہمارے دماغ کا حجم صرف ایک ٹینس بال جتنا رہ گیا ہے۔

    کیسی لگیں آپ کو یہ معلومات؟