Tag: انسانی صحت

  • سورج کی روشنی کے انسانی صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟

    سورج کی روشنی کے انسانی صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟

    اسلام آباد (26 اگست 2025): سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اجلاس میں سورج کی روشنی کے انسانی صحت پر اثرات پر بریفنگ دی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین کامل علی آغا کی زیر صدارت ہوا۔ جس میں سورج کی روشنی کے انسانی صحت پر اثرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر بھی بریفنگ دی گئی۔

    سیکریٹری وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے اجلاس کے شرکا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سورج سے زیادہ مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا ہے جو تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری طرزِ زندگی نے ماحولیاتی تبدیلیوں میں اضافہ کیا ہے۔

    انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ موحولیاتی تبدیلی کے ساتھ بھارت میں بھی بارشوں کے دوران ڈیم بھرنے کے بعد پانی چھوڑنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔

    جوائنٹ سیکریٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں گرمی اور بارش کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔

    اس موقع پر کمیٹی کے رکن ناصر بٹ نے استفسار کیا کہ بادل پھٹنے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ جس پر جس پر ماہرین نے وضاحت کی کہ بادل پھٹنے کا مطلب ایک ہی جگہ پر مسلسل اور تیز بارش ہونا ہے۔

    اجلاس میں ریکٹر کامسیٹس نے بھی شرکت کی اور بتایا کہ موسم کی تبدیلی بھی بادل پھٹنے کی وجہ ہے۔ زمین سے پانی کے بخارات اوپر جا کر بادل بناتے ہیں۔ بخارات کا عمل Evaporation اور بادل کی تشکیل Cloud Formation کہلاتا ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/chairman-ndma-inam-haider-breifing-about-flood-in-punjab/

  • موسمیاتی تبدیلی ہماری صحت پر کیا اثرات مرتب کررہی ہے؟

    موسمیاتی تبدیلی ہماری صحت پر کیا اثرات مرتب کررہی ہے؟

    آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحولیاتی تحفظ دنیا کے مستقبل کو تشکیل دینے والے دو اہم ستون ہیں، موسمیاتی تبدیلی سے مراد عالمی آب و ہوا میں اہم، طویل مدتی تبدیلیاں ہیں۔

    دنیا بھر میں ماحول سورج، زمین اور سمندروں، ہوا، بارش اور صحراؤں میں تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے اثر یہ ہے کہ بحرالکاہل کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ایسے طوفانوں کو جنم دے رہا ہے جو زیادہ زیادہ بارشیں برساتے اور نقصان پہنچاتے ہیں۔

    حالیہ برسوں میں پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے تلخ حقائق سے نمٹ رہا ہے، اسے متعدد ماحولیاتی چیلنجوں کا سامنا ہے جو اس کے ماحولیاتی نظام، معیشت اور معاشرتی تانے بانے کے لیے خطرہ ہیں۔

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں اگر گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو ملک قوم کو مزید خطرات درپیش ہوں گے۔

    ماحولیاتی تبدیلی انسانی صحت کو مختلف طریقوں سے متاثر کرسکتی ہے جس کی وجہ سے مندرجہ ذیل مسائل جنم لیتے ہیں۔

    حشرات الارض کی پیداوار

    ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت اور فضا میں نمی کے تناسب میں اضافہ مچھروں اور دیگر حشرات کی افزائش نسل کے لئے بہتر ماحول فراہم کرتا ہے، اس وجہ سے ان کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریاں

    درجہ حرارت اور بارشوں میں اضافہ خصوصاً گرمیوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے آلودہ پانی کے ذریعے دیگر انفیکشن کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    سانس کی بیماریاں

    اکثر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار ہے جو ہوا کے ذریعے پھیپڑوں میں داخل ہو کر سانس کی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی کی وجہ سے دمہ، پھیپڑوں اور دل کے امراض میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ

    ماحولیاتی تبدیلی حیران کن طور پر ذہنی صحت سے وابستہ مسائل میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے، ایک تحقیق کے مطابق پانچ برس میں درجہ حرارت میں صرف ایک ڈگری اضافے سے ذہنی امراض میں 2 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 2050 تک درجہ حرارت میں اضافہ 14ہزار افراد کی خودکشی کی وجہ ہو گا۔

  • کیا آپ بھی پلاسٹک کی بوتل میں پانی پیتے ہیں؟ جانیے یہ کتنا خطرناک ہے

    کیا آپ بھی پلاسٹک کی بوتل میں پانی پیتے ہیں؟ جانیے یہ کتنا خطرناک ہے

    پلاسٹک سے بنی اشیاء کو دنیا بھر میں انسانی صحت کے لیے خطرناک تصور کیا جاتا ہے تاہم اب ماہرین نے پلاسٹک کی بوتل میں پانی پینے والوں کو خبردار کردیا۔

    دنیا بھر میں لوگوں کی بڑی تعداد پلاسٹک کی بوتل کا استعمال کی جاتی ہے، خواہ وہ اسکول جانے والے بچے ہوں یا آفس میں کام کرنے والے ہر عمر کے لوگ پلاسٹک کی بوتل میں ہی پانی پیتے ہیں۔

    اب ماہرین کا بتانا ہے کہ پلاسٹک کی بوتل میں موجود پانی میں آپ کی توقع سے بھی سو گنا زیادہ پلاسٹک کے ذرات موجود ہوتے ہیں۔

    پروسیڈینگ آف دا نیشنل اکیڈمی آف سائنسزنامی تحقیقی جرنل کی حالیہ رپورٹ  میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ماضی میں لگائے جانے والے اندازے سے کہیں بڑھ کر پلاسٹک کی بوتل میں مائیکرو پلاسٹک موجود ہوتے ہیں۔

    پلاسٹک کی بوتل میں انتہائی چھوٹے اور باریک پلاسٹک کے ٹکڑوں کے حوالے سے تحقیق کی گئی، تحقیق کے مطابق ایک لیٹر والی پانی کی بوتل میں اوسطاً 2 لاکھ 40 ہزار پلاسٹک کے ٹکڑے ہوتے ہیں، محققین کے مطابق ان میں سے بہت سے ٹکڑوں کا پتہ نہیں چلتا۔

    محققین کے مطابق ان پلاسٹک کے ذرات کی لمبائی ایک مائیکرو میٹر سے کم یا چوڑائی انسانوں کے بال کے سترہویں حصے جتنی ہوتی ہے، پلاسٹک کے یہ انتہائی چھوٹے ذرات انسانی صحت کے لیے زیادہ خطرہ ہیں کیونکہ یہ انسانی خلیوں میں گھس سکتے، خون میں داخل ہو سکتے اور اعضاء کو متاثر کر سکتے ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق یہ انتہائی خطرناک چھوٹے ذرات ماں کے پیٹ میں موجود بچوں کے جسم میں بھی جا سکتے ہیں، رپورٹ مین بتایا گیا کہ سائنسدانوں کو طویل عرصے سے پلاسٹک کی بوتل کے پانی میں ان ذرات کی موجودگی کا شبہ تھا لیکن ان کا پتہ لگانے کے لیے ٹیکنالوجی کی کمی ہے۔

    پلاسٹک کے اندھادھند استعمال نے نہ صرف زمین بلکہ سمندروں، دریاؤں، ندی نالوں، اور فضا کو بھی آلودہ کردیا ہے، پلاسٹک کے انتہائی باریک ذرات جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہاجاتا ہے وہ فضا کے اندر بھی موجودد ہے جبکہ سمندر کی گہرائیوں کی اندر بھی پلاسٹک کے ذرات ملے ہیں۔

  • وہ عادت جو کئی بیماریوں‌ کی وجہ بن رہی ہے!

    وہ عادت جو کئی بیماریوں‌ کی وجہ بن رہی ہے!

    کیا یہ بات تعجب خیز اور نہایت قابلِ‌ غور نہیں‌ کہ کل تک جب دنیا آج کی طرح ترقّی یافتہ اور انسان سہولیات اور آسائشوں‌ کے عادی نہ تھے، تب بھی لوگوں نے کئی ایسے کارنامے انجام دیے اور ایجادات کیں جو حیران کُن اور ناقابلِ یقین ہیں۔ وہ خوب توانا، چاق و چوبند اور صحت مند ہوا کرتے تھے۔

    آج کا انسان ایک ایسی عادت کا شکار ہے جس نے اسے ذہنی اور جسمانی طور پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن وہ خود کو اس عادت کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں‌ کر پارہا۔

    قدیم دور کے انسانوں نے اپنی دماغی قوّت، ذہنی صلاحیت کی بدولت اور صرف اُن دو ہاتھوں‌ کے ہنر اور کمال سے وہ سب کیا جو شان دار اور ہمارے لیے بھی حیرت انگیز ہے۔ آج بھی اگرچہ دنیا محنت کشوں کی بدولت چل رہی ہے اور بڑے بڑے سخت کام انسان اپنے ہاتھوں سے انجام دے رہا ہے۔ لیکن اس میں مشینوں کا عمل دخل بڑھ چکا ہے۔ اسی انسان نے ہزار ہا سال کے دوران بڑی بڑی چٹانوں کا سینہ چیر کر اپنے رہنے کے لیے جگہیں بنائیں، اور دشمن سے اپنے دفاع اور جانوروں کے شکار کے لیے ڈھالیں اور ہتھیار بھی بنائے۔ انسان نے اپنی قوّتِ بازو سے کام لے کر گہرے کنویں کھودے اور اپنے لیے پانی کا بندوبست کیا اور نجانے کیسے کیسے کٹھن کام انتہائی محنت اور مشقت سے کیے۔ اسی ذہانت، طاقت اور شعور کی بدولت آج انسان نے ایسی ایسی مشینیں ایجاد کر لی ہیں جن سے وہی کام جو کبھی انسان اپنے ہاتھوں سے کرتا تھا، اب باآسانی انجام پارہے ہیں۔

    دنیا بھر میں قدیم دور کے محلّات، قلعے اور پھر شہروں کی آباد کاری اور انتظام سے لے کر نہری نظام تک انسان نے اپنے رہنے بسنے، جینے کا خوب سامان کیا اور رفتہ رفتہ انسانی قوّت کی جگہ مشین نے لے لی۔ جو کام دس آدمی کرتے تھے وہی کام ایک مشین کی مدد سے کیا جانے لگا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب انسان وہ سب کام ہاتھوں سے کررہے تھے تو ماحول یوں‌ برباد نہیں‌ ہو رہا تھا اور خود انسانی صحت اچھی تھی اور لوگ طویل عمر پاتے تھے۔ انھیں بیماریاں اور طرح طرح کے امراض کا سامنا نہیں‌ تھا جیسا کہ آج ہے۔ مشینیں‌ بری نہیں‌ ہیں، لیکن انسان کا مشینوں پر انحصار کرنا اور سہل پسند ہوجانا ضرور برا ہے۔ سہل پسندی اور تن آسانی کے بطن سے پھوٹنے والی کاہلی ہی وہ عادت ہے جو کئی مسائل کو جنم دے رہی ہے اور ہم اس پر توجہ نہیں‌ دے رہے۔

    کیا یہ درست نہیں‌ کہ آج کا انسان مشینوں کی وجہ سے تن آسانی اور کاہلی کا شکار ہوگیا ہے؟ کبھی مشقت اور جسمانی طاقت کا استعمال انسان کی پہچان تھا، لیکن آج وہ محنت کے بنیادی تصوّر یا اس اصول کو فراموش کرچکا ہے جس میں تپتی دھوپ، تیز ہواؤں اور یخ بستہ موسموں میں کام سرانجام دینے سے جسم ہی نہیں‌ روح کو بھی طاقت اور قرار نصیب ہوتا تھا۔

    دنیا میں آج بیماریوں کا بول بالا ہے۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ کسی نہ کسی بیماری یا جسمانی کم زوری کی وجہ سے اسپتال میں زیرِ‌علاج رہتا ہے۔ دوائیں مختلف صورتوں میں اس کے جسم میں داخل کی جارہی ہیں اورترقی یافتہ دنیا مصنوعی طریقے سے جسم کو زندہ رہنے کے قابل بنائے ہوئے ہے۔

    پاکستان میں‌ ذیابیطس (شوگر) وہ مرض ہے جو نوجوانوں‌ میں‌ بھی عام ہو رہا ہے۔ یہ کئی دوسرے جسمانی امراض اور طبّی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح مٹاپا اکثر لوگوں کے لیے وبال بن چکا ہے۔ ذیابیطس اور کئی دوسری بیماریوں کی ایک وجہ اہم وجہ سہل پسندی اور وہ طرزِ زندگی ہے جس میں انسان نے اپنے آپ کو ایک موبائل فون تک محدود کرلیا ہے۔ یہ درست ہے کہ دنیا میں‌ کام کاج کے جدید طریقے اور ملازمتوں کی نوعیت بھی مختلف ہوچکی ہے جس میں‌ مخصوص کمروں‌ میں‌ کمپیوٹروں اور دیگر مشینوں پر کام کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے آج کا انسان کھلی فضا میں‌ چہل قدمی، مختلف قسم کی ورزش، ضرورت کے مطابق دھوپ میں رہنے، پیدل چلنے اور جسمانی طور پر خود کو متحرک رکھنے کے بجائے بیٹھے بیٹھے سب کام انجام دینے کا عادی ہوچکا ہے۔ انسان آسائشوں کا ایسا عادی ہوچکا ہے کہ اپنے تمام امور گھر کی چار دیواری میں ہی بھگتانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ رہی سہی کسر آن لائن خرید و فروخت نے پوری کر دی ہے۔

    طبّی ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں‌ اس بات کی ضرورت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے کہ ہم جسمانی طور پر خود کو کسی قدر مشقت کا عادی بنائیں اور کوئی ایسی مصروفیت نکالیں جس میں ہمیں‌ پیدل اور مختلف مواقع پر قوّتِ بدنی کو استعمال کرنا پڑے۔ گاڑیوں‌ میں‌ سفر کو مجبوری نہیں‌ بنایا جائے بلکہ اسے ضرورت تک محدود کرنا ہوگا۔ ہمیں کھانے پینے اور سونے جاگنے کے اوقات کو اہمیت دیتے ہوئے سادہ غذا اور طرزِ زندگی اپنانے کی ضرورت ہے۔

    یاد رکھیے، سہل پسندی اور تن آسانی ہماری پیاری اور خوشیوں‌ بھری زندگی میں بیماری، معاشی مسائل اور اس کے نتیجے میں‌ مالی، جسمانی معذوری اور محتاجی کو گھسنے کا موقع دے سکتی ہے۔ اس سے بچنا ہے تو آج ہی کوئی قدم اٹھانا ہو گا۔

    (صاعقہ علیم اللہ کا انتخاب)

  • دار چینی اور الائچی کے حیران کن فوائد

    دار چینی اور الائچی کے حیران کن فوائد

    دار چینی اور الائچی انسانی صحت کے لیے بے شمار فوائد کی حامل اشیا ہیں، معمولی مقدار میں ان کا باقاعدہ استعمال جسم کو بہت سے فوائد پہنچا سکتا ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے مارننگ شو گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر بلقیس، ڈاکٹر ام راحیل، ڈاکٹر بتول اور رانی آپا نے شرکت کی اور دار چینی اور الائچی کے فائدے بتائے۔

    دار چینی اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی فنگل ہے۔ موسم گرما میں ہیٹ اسٹروک سے بچانے کے لیے دار چینی بہترین ہے۔

    رانی آپا نے بتایا کہ جلد پر داد و خارش ہونے کی صورت میں دار چینی پاؤڈر کو شہد میں ملا کر دن میں 2 دفع جلد پر لگائیں، 3 دن کے اندر داد ختم ہوجائے گی۔

    اسی طرح دار چینی کا پانی انسولین کو کنٹرول میں رکھتا ہے اور وزن کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

    الائچی بلڈ پریشر کو کم کرتی ہے، علاوہ ازیں تیزابیت ختم کرنے کے لیے اگر چھوٹی الائچی کا استعمال کیا جائے تو تیزابیت میں فوراً کمی واقع ہوجاتی ہے۔

  • انواع و اقسام کی غذا استعمال کریں، طبی تحقیق

    انواع و اقسام کی غذا استعمال کریں، طبی تحقیق

    طبی ماہرین کے مطابق انسانی معدے میں اربوں کھربوں مائکروبز موجود ہوتے ہیں جو جسم کے لیے مفید اور بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    یہ معدے کے نظام کے لیے ضروری اور بعض مقوی غذاؤں کو ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

    انسان کے جسم میں موجود مختلف جراثیم الگ الگ کام انجام دیتے ہیں اور انھیں طبی سائنس نے مختلف گروہوں اور خانوں میں ان کی افادیت اور کارکردگی کی بنیاد پر تقسیم کیا ہے۔ طبی محققین کے مطابق انواع و اقسام کی غذائیں استعمال کرنا انسانوں کی اچھی صحت کے لیے ضروری ہے۔

    کیوں کہ ان مائکروبز کا ہر گروہ مختلف قسم کے کھانوں پر زیادہ پھلتا پھولتا ہے اور اس کا ہماری جسمانی صحت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔

    طبی محققین کے مطابق ہمارے جسم سے فاسد مادوں کے اخراج کے ساتھ بہت سے ایسے بیکٹیریا بھی نکل جاتے ہیں جو درحقیقت انسانی جسم کے لیے مفید ہوتے ہیں۔ اسے بہتر بنانے اور صحت و توانائی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مختلف اقسام کی غذا کھائیں۔ یہ طریقہ ہمارے معدے میں پلنے والے بیکٹریا کو بھی پھلنے پھولنے میں مدد دے گا اور وہ مختلف النوع ہوں گے جس کا ہماری صحت پر اچھا اثر پڑے گا۔

    ایک طبی تحقیق کے مطابق کوئی فرد جب اپنی نیند کے اوقات تبدیل کرتا ہے تو اس سے بھی معدے کا وہ نظام متأثر ہوتا ہے جو جراثیم سے متعلق ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم میں موجود مائکروبز یا مفید جراثیم کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے غذائی چارٹ یا کسی ماہرِ غذائیت سے مدد لی جائے تو بہتر ہے۔

  • ملاوٹ مافیا کوانسانی صحت سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے‘ عثمان بزدار

    ملاوٹ مافیا کوانسانی صحت سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے‘ عثمان بزدار

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ انسانی صحت سے کھیلنے والے ملاوٹ مافیا کی سرکوبی ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہورمیں وزیراعلیٰ پنجاب سے وزیرخوراک سمیع اللہ اورڈی جی پنجا ب فوڈ اتھارٹی نے ملاقات کی۔

    وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار نے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارکردگی رپورٹ کی تعریف کرتے ہوئے ملاوٹ مافیا اورغیرمعیاری اشیا فروخت کرنے والوں کے خلاف مہم تیزکرنے کی ہدایت کی۔

    اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف اتھارٹی نے مؤثراقدامات کیے ہیں، حفظان صحت کے مطابق خوراک مہیا کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔

    سردارعثمان بزدار کا کہنا تھا کہ پنجاب فوڈاتھارٹی ملاوٹ مافیا کے خلاف بلا امتیازکارروائی جاری رکھے، ملاوٹ مافیا کو انسانی صحت سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب کا مزید کہنا تھا کہ انسانی صحت سے کھیلنے والے ملاوٹ مافیا کی سرکوبی ضروری ہے، حکومت پنجاب فوڈ اتھارٹی کو ہرممکن سپورٹ فراہم کرے گی۔

    پنجاب فوڈ اتھارٹی : ہوٹلوں کی چیکنگ سال میں تین بار کی جائے گی، شیڈول جاری

    یاد رہے کہ رواں ماہ 7 جنوری کو پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اعلان کیا تھا کہ ہوٹلوں میں استعمال ہونے والی اشیاء خوردو نوش کی سال میں تین بار چیکنگ کی جائے گی، اس سلسلے میں مخصوص ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔

  • ڈپریشن کی بڑی وجہ سامنے آگئی

    ڈپریشن کی بڑی وجہ سامنے آگئی

    ڈبلن: آئرلینڈ کے ماہرین نے کہا ہے کہ عمر رسیدہ افراد ’وٹامن ڈی‘ کی کمی کے باعث ذہنی تناؤ (ڈپریشن) کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آئرلینڈ کے ماہرین نے ذہنی تناؤ کے حوالے سے تحقیق کی جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بالخصوص عمر رسیدہ افراد میں ڈپریشن کی وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے دوران 75 فیصد ڈپریشن کے مریضوں میں وٹامن ڈی کی کمی پائی گئی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وٹامنز کی کمی ہی ذہنی تناؤ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    چار سالہ تحقیق اور سروے ی رپورٹ میں ماہرین نے یہ بھی مشورہ دیا کہ عمر رسیدہ افراد معمولی اختیاط کر کے ذہنی تناؤ سے محفوظ رہ سکتے ہیں، اسی طرح نوجوان بھی وٹامنز کی مقدار کو یقینی بنائیں تو مستقبل میں بھی ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔

    مزید پڑھیں: وٹامن ڈی بریسٹ کینسر کی شدت میں کمی کے لیے معاون

    ماہرین کے مطابق درمیانی عمر یا پچاس سال کی عمر کے بعد ڈپریشن کی وجہ سے معیار زندگی اس قدر دشوار بنادیتا ہے کہ قبل از وقت انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

    وٹامن ڈی کیا ہے؟

    ہمارے جسم میں موجود کروڑوں خلیات کو چوبیس گھنٹے غذائیت سے بھرپور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، ان ہی سے وٹامنز پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو توانائی اور جسم کو فعال رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کی کمی انسانی جسم کو نڈھال اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    وٹامنز کیمیائی مرکبات ور اہم غذائی ضرورت ہیں جو کسی بھی خلیے کی بنیادی ضرورت کو پورا کرتے ہوئے انسان کو متحرک رکھتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: وٹامن ڈی کی کمی کے باعث ہونے والی بیماریاں

    قدرتی طور پر انسانی جسم میں کئی اقسام کے وٹامنز پائے جاتے ہیں جن میں وٹامن اے، بی، بی 6 ، بی 12، وٹامن سی، ڈی، ای اور سمیت دیگر شامل ہیں، تمام وٹامنز اہم خدمات انجام دیتے ہیں۔

    وٹامن ڈی کی اہمیت

    جسم کو درکار وٹامنز میں وٹامن ڈی سب سے اہم وٹامن ہے جو جسم کے عضلات، پٹھوں ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوط بناتا ہے اور جسم کے اہم اعضاء جیسے دل، گردے، پھیپھڑے اور جگر کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    انسانی جسم جذبات خوشی، غمی، عزم، حوصلے کو کنٹرول کرنے والے نیورو ٹرانسمیٹرز ڈوپامن، سیروٹونن اور ایڈرینانن کے تناسب میں کمی سے انسان خودکشی کی طرف راغب ہوتا ہے، نیورو ٹرانسمیٹرز کی خرابی وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

  • نیند کی کمی انسانی اور جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے، تحقیق

    نیند کی کمی انسانی اور جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے، تحقیق

    لندن: ماہرین نے بہت دیر تک جاگنے والوں کو متنبہ کیا ہے کہ کم سونے سے دماغ کی کام کرنے کی صلاحیت بہت بری طریقے سے متاثر ہوتی ہے اور اس سے بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیند کی کمی سے متعلق برطانوی ماہرین نے تحقیق کی جس کے دوران یہ نتیجہ سامنے آیا کہ روزانہ 7 گھنٹے سے کم نیند جسمانی اور ذہنی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کم سونے والے افراد کا مدافعتی نظام بری طریقے سے متاثر ہوتا ہے جس کے بعد وہ اکثر بیمار رہتے ہیں اور اُن کے دماغ کے کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: سوشل میڈیا پرسکون نیند کا دشمن قرار

    تحقیقاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ مسلسل 20 گھنٹے تک جاگتے رہتے ہیں وہ کچھ وقت کے بعد سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے  محروم ہوجاتے ہیں اور اُن کا دماغ ماؤف ہوجاتا ہے۔

    طبی ماہرین  کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شخص نیند کی کمی کا شکار  اُس وقت ہوتا ہے جب اعصابی طور پر وہ پرسکون نہ ہو اور اُسے پریشانیوں کا سامنا ہو۔

    ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ اعصاب کو پرسکون بنانے کے لیے چند دماغی و جسمانی ورزشیں کی جاسکتی ہیں علاوہ ازیں ہلکی غذائیں استعمال کرنا بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

    اسے بھی پڑھیں: مکمل نیند کامیاب اور خوشحال زندگی کا راز

    اسی سے متعلق: پرسکون نیند کے لیے 5 غذائیں

    طبی ماہرین کے مطابق اگر تجویز کردہ غذائیں شام یا رات سونے سے قبل استعمال کرلی جائیں تو آپ اچھی اور بھرپور نیند سو سکتے ہیں۔

    قبل ازیں برطانیہ کے طبی ماہرین نے متنبہ کیا تھا کہ ماؤں کی کم یا کچی نیند بچوں پر اثر انداز ہوتی ہے جس کے باعث اُن کی نشوونما بری طریقے سے متاثر ہوتی ہے اور وہ معاشرے میں عام لوگوں کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

    اسے بھی پڑھیں: ماؤں کی کم نیند بچوں کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے، تحقیق

    برطانوی ماہرین نے حالیہ تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف تھا کہ جو مائیں بے خوابی کا شکار ہوتی ہیں اُن کے بچوں کی نشوونما اور دماغی صحت بری طریقے سے متاثر ہوتی ہے۔  تحقیق کے دوران ماہرین نے کم نیند کی بیماری میں مبتلا ماؤں اور اُن کے بچوں کی صحت کا جائزہ لیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ بچوں کے سونے کا معاملہ خاندانی نظام کے تحت چلتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چاند گرہن کے بارے میں حیران کن معلومات

    چاند گرہن کے بارے میں حیران کن معلومات

    رواں سال کا دوسرا چاند گرہن آج شب ہوگا جو پاکستان میں جزوی طور پر دیکھا جاسکے گا۔

    چاند گرہن کا آغاز پاکستانی وقت کے مطابق 8 بج کر 50 منٹ پر جبکہ اختتام 1 بج کر 51 منٹ پر ہوگا۔ پاکستان میں یہ رات 10 بج کر 23 منٹ سے 12 بج کر 18 منٹ تک قابل مشاہدہ ہوگا۔

    اس دوران چاند کی روشنی خاصی کم ہو جائے گی۔

    یہ چاند گرہن پاکستان سمیت، کئی ایشیائی ممالک، یورپ، انٹارکٹیکا، افریقہ اور آسٹریلیا میں دیکھا جاسکے گا۔


    چاند گرہن کیوں ہوتا ہے؟

    زمین کی اپنے محور کے گرد گردش کے دوران اگر یہ چاند اور سورج کے درمیان آجائے اور زمین کا سایہ چاند پر پڑنے لگے، تو چاند کا وہ حصہ تاریک ہوجاتا ہے۔ یوں زمین پر دکھائی دینے والا چاند اندھیرے میں چلا جاتا ہے۔


    چاند گرہن کے بارے میں توہمات

    قدیم زمانے سے چاند اور سورج گرہن کو برا سمجھا جاتا ہے اور اس سے مختلف قسم کے توہمات و روایات وابستہ ہیں۔

    چاند گرہن کے خصوصاً حاملہ خواتین پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ انسانی صحت پر بھی کئی برے اثرات مرتب کرتا ہے۔

    جدید سائنس کے تحت کی جانے والی تحقیقوں میں ان اثرات کی جزوی طور پر تصدیق تو کی گئی تاہم سائنسدان یہ جاننے میں ناکام رہے کہ وہ کیا وجہ ہے جس کی وجہ سے چاند کی سمت انسانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے۔


    چاند گرہن کے انسانی صحت پر اثرات

    قدیم روایات کے مطابق حاملہ خواتین کو چاند گرہن کے موقع پر گھر کے اندر رہنا چاہیئے اور کھلی فضا میں نکلنے سے گریز کرنا چاہیئے۔

    ان روایات کے مطابق اندھیرا چاند حاملہ خواتین کے پیٹ پر اثر انداز ہوتا ہے جو بچے کو جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار بھی بنا سکتا ہے۔

    چاند گرہن دل کے امراض، سانس کے امراض، کھانسی، ٹھنڈ لگنا، بلند فشار خون اور نیند میں خلل جیسے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔

    ایک قدیم روایت کے مطابق مطابق چاند گرہن خواتین میں ماں بننے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔

    گرہن انسانوں کو نفسیاتی و دماغی طور بھی متاثر کرسکتا ہے۔ یہ رویوں میں منفی تبدیلیاں لانے کا سبب بن سکتا ہے اور اس سے متاثر شخص میں بے چینی، خوف اور خود کو غیر محفوظ تصور کرنے کا خیال پیدا ہوسکتا ہے۔

    دماغی مریضوں کے مرض کی شدت میں چاند گرہن کے موقع پر اضافہ ہوسکتا ہے۔


    ماہرین علم نجوم کے مطابق چاند کی درست سمت کسی انسان کی خوش قسمتی، دولت، صحت اور روحانی قوت میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے برعکس چاند کی غلط پوزیشن کسی انسان کی زندگی اور وقت پر برے اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

    ایک جدید تحقیق کے مطابق چاند گرہن ساحلی علاقوں میں مچھروں کی افزائش میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے برعکس پورا چاند مچھروں کی تعداد میں کمی کرتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔