Tag: انسان

  • بارہ سنگھے کی آنکھ وہ دیکھ سکتی ہے جو انسانی آنکھ بھی نہیں دیکھ سکتی

    بارہ سنگھے کی آنکھ وہ دیکھ سکتی ہے جو انسانی آنکھ بھی نہیں دیکھ سکتی

    بارہ سنگھا یورپ و امریکا کے میدانی و برفانی علاقوں میں رہنے والا ایسا جانور ہے جس میں چند ایسی خصوصیات موجود ہوتی ہیں جو کسی اور ممالیہ جاندار میں موجود نہیں ہوتیں۔

    اپنی ان خصوصیات کی وجہ سے بارہ سنگھا تمام ممالیہ جانوروں میں منفرد حیثیت رکھتا ہے، آئیں دیکھتے ہیں وہ کیا خصوصیات ہیں۔

    برطانیہ کی بائیو ٹیکنالوجی اینڈ بائیولوجیکل سائنس ریسرچ کونسل (بی بی ایس آر سی) کی ایک تحقیق کے مطابق برفانی بارہ سنگھے تابکار شعاعیں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بارہ سنگھے کے علاوہ کسی اور ممالیہ جانور حتیٰ کہ انسانی آنکھ بھی اس نوع کی نہیں ہوتی جن سے تابکار شعاعیں گزر سکیں۔

    ان شعاعوں کو دیکھنے کی وجہ سے بارہ سنگھے برف میں ان چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں جو برف میں کیمو فلاج ہوجاتی ہیں، اس طرح سے انہیں اپنے شکاریوں سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

    اسی خصوصیت کی وجہ سے بارہ سنگھے بجلی کے پولز اور پاور لائنز سے بھی دور رہتے ہیں جن سے نکلتی شعاعیں وہ دیکھ لیتے ہیں۔

    تابکار شعاعیں دیکھ لینے کے باعث بارہ سنگھوں کی آنکھوں کا رنگ بھی ہر موسم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

    برفانی علاقوں کی تاریک راتوں اور سرمئی دنوں میں، بارہ سنگھوں کی آنکھیں قدرتی طور پر نیلے رنگ کی ہوجاتی ہیں جس سے انہیں زیادہ اندھیرے میں دیکھنے میں مدد مل سکے۔

    اسی طرح موسم گرما کی چمکیلی دوپہروں میں چیزوں کو بہتر طور پر دیکھنے کے لیے علیحدہ قسم کی بینائی کی ضرورت ہے جس کے لیے بارہ سنگھوں کی آنکھیں ایک بار پھر اپنا رنگ تبدیل کر کے سنہری رنگ کی ہوجاتی ہیں۔

    دراصل ہر طرح کی روشنی کے لیے آنکھوں کی حساسیت کی سطح مختلف ہوتی ہے اور بارہ سنگھے کی آنکھیں اس سطح کے لیے قدرتی طور پر ایڈجسٹ ہوتی رہتی ہیں۔

    بارہ سنگھے کی آنکھوں کی یہ خصوصیات کسی اور ممالیہ جاندار میں نہیں پائی جاتی۔

  • کتنے انسان مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں؟

    کتنے انسان مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں؟

    مریخ پر انسانی آبادی بسائے جانے کے حوالے سے مختلف ریسرچز اور تجربات پر کام جاری ہے، حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا کہ مریخ پر انسانی آبادی شروع کرنے کے لیے 110 انسان درکار ہوں گے۔

    فرانس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولی ٹیکنیک میں کیے گئے مطالعے میں دستیاب وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا گیا کہ کم از کم کتنے انسان مریخ پر زیادہ سے زیادہ زندگی گزار سکتے ہیں۔

    تحقیق سے علم ہوا کہ کم از کم 110 انسان ان محدود وسائل کے اندر مریخ پر انسانی تہذیب کا آغاز کرسکتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق یہ افراد ایک کالونی بنا کر رہیں گے اور ان کی کالونی آکسیجن سے بھری ایک گنبد نما جگہ ہوگی۔ ان افراد کو اپنی زراعت خود کرنی ہوگی۔

    اس تحقیق میں ایک میتھامیٹیکل ماڈل استعمال کیا گیا جس سے کسی دوسرے سیارے میں زندگی کے امکانات پر روشنی ڈالی گئی، تحقیق میں کہا گیا کہ اس کالونی میں اہم ترین عوامل میں سے ایک، ایک دوسرے سے اشتراک یا شیئرنگ کرنا ہوگا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اگر اس آبادی کا کسی وجہ سے (متوقع طور پر کسی جنگ کی صورت میں) زمین سے رابطہ منقطع ہوگیا یا مریخ پر رہنے والوں نے خود ہی اپنی خود مختار حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا تو 110 افراد کی آبادی محدود وسائل میں آسانی سے مریخ پر زندگی گزار سکتی ہے۔

    خیال رہے کہ زمین کو خطرناک ماحولیاتی خطرات سے دو چار کرنے کے بعد اب انسانوں کو زمین اپنے لیے ناقابل رہائش لگنے لگی ہے اور اس حوالے سے دیگر سیاروں پر زندگی کے امکانات تلاش کیے جارہے ہیں جن میں مریخ سرفہرست ہے۔

    امریکی ارب پتی ایلن مسک کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اسپیس ایکس پروگرام پر اس امید پر لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں کہ جلد مریخ پر ایک انسانی آبادی آباد ہوجائے گی۔

  • انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم انسانوں کی دم کیوں نہیں ہوتی؟

    ہم نے اب تک زمین پر ارتقا کے بارے میں جو کچھ پڑھا ہے اس کے مطابق ہمارے اجداد، ہم سے ملتے جلتے کچھ جانور تھے جیسے بندر۔ ہم ان کی جدید ترین شکل ہیں۔

    زمین پر موجود زیادہ تر جانداروں کے پاس دم ہے، جیسے مچھلیاں، پرندے اور رینگنے والے جانور۔ بندروں کی کچھ اقسام بھی دم رکھتی ہے۔ لیکن انسانوں کی دم نہیں، تو اس کی کیا وجہ ہے؟

    دم دراصل 50 کروڑ سال قبل مختلف جانداروں میں منظر عام پر آنا شروع ہوئی۔ تب سے اب تک یہ کئی کاموں کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ جیسے چھپکلی کی ایک قسم گیکوس دم میں چربی محفوظ کرتی ہے۔

    پرندے ہوا کے درمیان سے گزرنے کے لیے دم کا استعمال کرتے ہیں جبکہ سانپ کی ایک قسم ریٹل اسنیک اپنی دم سے شکاریوں کو ڈراتے ہیں۔ دوسری طرف ممالیہ جانوروں کی دم کا سب سے بڑا مقصد ان کا جسمانی توازن برقرار رکھنا ہے۔

    اگر آپ زمین پر زندگی کے ارتقا کے بارے میں مطالعہ کریں تو آپ صرف انسان ہی نہیں، بلکہ انسانوں سے ملتے جلتے، اور ارتقائی طور پر انسان کے قریب جانوروں میں بھی دم غائب پائیں گے۔ جیسے گوریلا، چمپینزی یا بن مانس۔

    اور یہ دم کسی کے پاس کیوں ہے اور کسی کے پاس کیوں نہیں، یہ جاننے کے لیے آپ کو مختلف جانداروں کے چلنے پر غور کرنا ہوگا۔

    زمین پر موجود کچھ جاندار 4 پیروں پر چلتے ہیں، کچھ اکڑوں چلتے ہیں جبکہ کچھ، بشمول انسان بالکل سیدھا چلتے ہیں۔

    4 پیروں پر چلنے والے جانداروں کو ہر قدم پر اپنی توانائی صرف کرنی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس 2 پیروں پر چلنے والے جاندار، 4 پیروں والے جاندار کی نسبت چلنے پر 25 فیصد کم توانائی کم خرچ کرتے ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ 2 پیروں پر چلنے والے زمین کی کشش ثقل کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 2 پیروں والے جانداروں کو قدم اٹھانے میں تو توانائی خرچ کرنی پڑتی ہے، تاہم قدم رکھنے میں ان کی کوئی توانائی نہیں صرف ہوتی اور وہ کشش ثقل کی وجہ سے خودبخود بغیر کسی توانائی کے زمین پر پڑتا ہے۔

    اب جب چلنے میں اس قدر آسانی ہو، تو چلتے ہوئے توازن برقرار رکھنے کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے اور دم کی ضرورت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔

    حالانکہ انسانی سر 5 کلو گرام کا وزن رکھتا ہے اور چلتے ہوئے ایک اتنی وزنی شے کو سنبھالنے کے لیے کوئی سہارا درکار ہے۔ تاہم انسانوں اور دیگر 2 پیروں والے جانداروں کو یہ فائدہ ہے کہ ان کا سر چلتے ہوئے، سیدھا اوپر ٹکا رہتا ہے۔

    اس کے برعکس 4 پیروں والے جانوروں کا سر آگے کی طرف ہوتا ہے اور اس کا توازن برقرار رکھنے کے لیے دم معاون ترین ثابت ہوتی ہے۔

    ویسے ہمارے جسم میں اب بھی ناپید شدہ دم کی نشانی موجود ہے۔ ہماری ریڑھ کی ہڈی کا آخری سرا جسے ٹیل بون یا دمچی کہا جاتا ہے، اس کی ساخت ایسی ہے کہ موافق تبدیلیوں کے بعد یہاں سے دم نکل سکتی ہے۔

    دم کے ساتھ پیدا ہونے والے بچے کی حقیقت

    اکثر اوقات ایسی خبریں سامنے آتی ہیں جن کے مطابق کسی بچے نے دم کے ساتھ جنم لیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانوں میں اب دم کا کوئی تصور نہیں۔

    اس طرح کے کیس میں دم کی طرح دکھنے والا جسم کا حصہ کوئی ٹیومر یا سسٹ ہوسکتا ہے، حتیٰ کہ یہ مکمل نشونما نہ پا سکنے والا جڑواں جسم بھی ہوسکتا ہے۔

    قوی امکان ہے کہ یہ ریڑھ کی ہڈی کا اضافی حصہ ہو جو زیادہ نشونما پا کر باہر نکل آیا ہو تاہم یہ صرف چربی اور ٹشوز کا بنا ہوا ہوتا ہے اور اس میں ہڈی نہیں ہوتی۔

    یہ ریڑھ کی ہڈی کی خرابی ہے جسے طبی زبان میں اسپائنا بفیڈا کہا جاتا ہے، ڈاکٹرز سرجری کے ذریعے بچے کو بغیر کسی نقصان کے اسے باآسانی جسم سے الگ کرسکتے ہیں۔

  • کسی شخص پر آسمانی بجلی گر پڑے تو کیا ہوگا؟

    کسی شخص پر آسمانی بجلی گر پڑے تو کیا ہوگا؟

    ملک بھر میں مون سون کا موسم جاری ہے اور مختلف شہروں میں گرج چمک کے ساتھ بارشیں ہورہی ہیں، ایسے موسم میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات بھی پیش آتے ہیں جس میں کئی افراد زخمی یا ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    یہ بات حیران کن لگتی ہے کہ محض چند لمحوں کے لیے کڑکنے والی آسمانی بجلی میں ایسا کیا ہے جو لوگوں اور جانوروں کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے اور درختوں کو تباہ کرسکتی ہے، آج ہم نے یہی جاننے کی کوشش کی ہے۔

    امریکا میں ہر سال آسمانی بجلی گرنے سے جنگلات میں آگ لگنے کے 75 ہزار واقعات پیش آتے ہیں، امریکا میں ہی ہر سال 47 افراد آسمانی بجلی گرنے کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں، تاہم اس کا شکار 90 فیصد افراد زندہ بچ جاتے ہیں۔

    چند لمحوں کی آسمانی بجلی ایک مضبوط کھڑے درخت کو ایک لمحے میں دو ٹکڑوں میں تقسیم کرسکتی ہے، لہٰذا یہ بات خوفزدہ کردینے والی ہے کہ انسانی جسم کے اندر یہ کیا نقصانات کرتی ہوگی۔ موت کے علاوہ یہ بجلی انسانی جسم کو شدید اور دیرپا نقصانات پہنچا سکتی ہے۔

    آسمانی بجلی میں 1 سے 10 ارب جول توانائی ہوسکتی ہے، یہ اتنی توانائی ہے کہ اس سے 100 واٹ کا بلب مستقل 3 ماہ تک جلایا جاسکتا ہے۔

    جب یہ بجلی انسانی جسم کے اندر جاتی ہے تو جسم میں موجود ان چھوٹے الیکٹرک سگنلز کو شارٹ سرکٹ کرتی ہے جو ہمارے دل، پھیپھڑوں اور اعصابی نظام کو چلاتے ہیں، نتیجتاً آسمانی بجلی کا شکار شخص کو مندرجہ ذیل کیفیات میں سے کسی ایک یا تمام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    دل کا درہ

    مرگی کا دورہ

    شدید دماغی چوٹ

    ریڑھ کی ہڈی کو نقصان

    یاداشت چلے جانا

    اور یہی نہیں، آسمانی بجلی میں موجود توانائی سے پہنچنے والا نقصان تو کچھ بھی نہیں، اصل نقصان اس میں موجود حرارت سے ہوتا ہے۔

    جب آسمانی بجلی کڑکتی ہے تو یہ ایک لمحے میں اپنے ارد گرد کے ماحول کو سورج کی سطح سے 5 گنا زیادہ گرم کر دیتی ہے یعنی 53 ہزار فارن ہائیٹ۔ اس سے ہوا اچانک بہت تیزی سے پھیلتی ہے جس سے ایک زور دار شاک ویو پیدا ہوتی ہے، بجلی گرجنے کی آواز یہی شاک ویو ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آسمانی بجلی زمین پر گرتی ہے تو اس کے آس پاس 30 فٹ کے دائرے میں کھڑا شخص ایک بم دھماکے جتنا جھٹکا محسوس کرسکتا ہے اور اڑ کر دور گر سکتا ہے۔

    یہ حرارت، روشنی اور بجلی آپ کی آنکھوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس سے آپ کے پردہ چشم میں سوراخ ہوسکتا ہے اور کچھ ہفتوں بعد آنکھ میں لازمی موتیا اتر سکتا ہے۔ آسمانی بجلی مردوں کی جنسی قوت کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔

    یہ بجلی جسم میں اندر جانے اور نقصان کرنے کے بعد باہر نکلتی ہے تو مزید نقصان کرتی ہے، جسم سے باہر نکلتے ہوئے یہ خون کے سرخ خلیات پر دباؤ ڈالتی ہےجس سے وہ رگوں سے باہر جلد کی طرف نکلتے ہیں۔ اس سے جلد پر کچھ اس طرح کے نشانات بن جاتے ہیں جنہیں لچٹنبرگ فگرز کہا جاتا ہے۔

    آسمانی بجلی میں موجود حرارت جسم پر موجود دھاتی اشیا جیسے گھڑی یا زیورات کو بھی بے تحاشہ گرم کردیتی ہے جس سے تھرڈ ڈگری برن ہوسکتا ہے۔

    علاوہ ازیں یہ جسم پر موجود بارش کے قطروں یا پسینے کو فوری طور پر بھاپ بنا کر دھماکے سے اڑا سکتی ہے اور اس دھماکے سے بجلی کا شکار شخص کے کپڑے بھی پھٹ سکتے ہیں۔

    آسمانی بجلی سے کیسے بچا جائے؟

    آسمانی بجلی سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ بارشوں کے موسم میں گھر سے نکلتے ہوئے موسم کی صورتحال دیکھی جائے۔ طوفان کے پیش نظر گھر پر ہی رہا جائے۔

    اگر آپ گھر سے باہر ہیں تو درختوں، کھمبوں کے نیچے کھڑے ہونے اور کھلی جگہوں پر جانے سے گریز کریں۔

    آسمانی بجلی سے بچنے کے لیے محفوط ترین پناہ گاہ کوئی عمارت یا موٹے دھات سے بنی گاڑی ہے جس کے اندر رہا جائے۔

    مزید پڑھیں: طیارے سے آسمانی بجلی ٹکرا جانے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟

  • اگر وہیل کسی انسان کو نگل لے تو اس شخص کے ساتھ کیا ہوگا؟

    اگر وہیل کسی انسان کو نگل لے تو اس شخص کے ساتھ کیا ہوگا؟

    سمندر میں جانے والے غوطہ خوروں کو اکثر اوقات شارک اور وہیلز کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی سمندری جانور کسی انسان کو نگل لے اور وہ زندہ سلامت اس کے منہ سے واپس آجائے۔

    سمندر میں خوف کی علامت شارک انسان کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتی ہے لیکن اس کے برعکس وہیل ایسا کوئی شوق نہیں رکھتی، وہ جارح بھی نہیں ہوتی اور حملہ کرنے کے بجائے صرف اپنا بڑا سا منہ کھول دیتی ہے جس سے ڈھیر سارے جانور اس کے منہ کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔

    کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر کوئی وہیل کسی انسان کو نگل لے تو اس انسان کے ساتھ کیا ہوگا؟ آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

    انسان کے مقابلے میں وہیل بہت بڑی ہوتی ہے اور وہ بیک وقت کئی انسانوں کو نگل سکتی ہے۔ بلیو وہیل کو زمین پر موجود سب سے بڑا جانور قرار دیا جاتا ہے۔ بلیو وہیل کی صرف زبان کا وزن ہاتھی کے برابر ہوتا ہے جبکہ اس کے منہ میں بیک وقت 400 سے 500 افراد سما سکتے ہیں۔

    البتہ بلیو وہیل کا جسمانی نظام انہیں اس قدر بڑا جاندار (انسان) نگلنے کی اجازت نہیں دیتا، تاہم اس کے خاندان کی دیگر وہیلز جیسے اسپرم وہیل باآسانی انسان کو نگل سکتی ہے۔

    سنہ 1981 میں کچھ رپورٹس سامنے آئیں کہ سمندر میں سفر کرنے والے جیمز برٹلے نامی شخص کو وہیل نے نگل لیا ہے۔ جیمز کی کشتی پر وہیل نے حملہ کیا تھا اور اسے نگل لیا، اگلے دن کشتی کے دیگر عملے نے وہیل کو مار ڈالا۔

    وہ اسے کھینچ کر خشکی پر لائے اور اس کا پیٹ چیرا تو اندر سے جیمز بے ہوش لیکن زندہ حالت میں ملا، وہیل کے معدے میں موجود تیزاب کی وجہ سے جیمز کا چہرہ اور بازو سفید ہوگئے تھے جبکہ وہ اندھا بھی ہوچکا تھا۔

    کچھ عرصے بعد لوگوں نے سوال اٹھانا شروع کیا کہ آیا واقعی جیمز کو وہیل نے نگلا تھا یا نہیں، اگر ہاں تو ان کے خیال میں وہیل کا تیزاب اس سے کہیں زیادہ جیمز کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔ جدید دور میں سائنس نے اس سوال کا مفصل جواب دے دیا ہے۔

    فرض کیا کہ کسی انسان کو وہیل نے زندہ نگل لیا، سب سے پہلے اس کا سامنا وہیل کے خطرناک دانتوں سے ہوگا۔ اسپرم وہیل کے منہ میں موجود دانت نہایت تیز دھار ہوتے ہیں اور ہر دانت 20 سینٹی میٹرز طویل ہوتا ہے۔

    یہ دانت ایسا ہوتا ہے جیسے کسی شیف کے زیر استعمال تیز دھار چھری، وہیل کے منہ میں ایسے 40 سے 50 دانت موجود ہوتے ہیں اور وہیل کے نگلتے ہی یہ دانت کسی بھی شے کو کاٹ کر ٹکڑوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔

    فرض کیا کہ کوئی خوش قسمت شخص ان دانتوں سے بچ کر وہیل کے حلق میں پھسل گیا، اب یہاں اندھیرا ہوگا اور آکسیجن کی کمی اور میتھین کی زیادتی کی وجہ سے اسے سانس لینے میں بے حد مشکل ہوگی۔

    وہیل کے منہ میں موجود سلائیوا انسان کو نیچے دھکیلتا جائے گا۔ اب وہاں موجود ہائیڈرو کلورک تیزاب سے اس شخص کو اپنی جلد پگھلتی محسوس ہوگی۔

    اس کے بعد یہ شخص وہیل کے پہلے اور سب سے بڑی معدے میں گرے گا، یہاں اس کے استقبال کو وہ ننھے سمندری جانور موجود ہوں گے جن سے روشنی پھوٹتی ہے اور انہی وہیل بہت شوق سے کھاتی ہے۔ جب بھی معدے میں کوئی شے پہنچتی ہے تو یہ جانور اسے دیکھنے آتے ہیں کہ آیا وہ اسے کھا سکتے ہیں یا نہیں۔

    ان جانوروں کے فیصلے سے قبل معدے میں موجود مائع انسان کو دوسرے، اور پھر تیسرے معدے میں دھکیل دے گا۔ اس دوران تیزاب سے اس کی پوری جلد پگھل چکی ہوگی اور صرف ہڈیاں باقی رہ گئی ہوں گی جو کسی بھی لمحے وہیل کے فضلے کے ساتھ اس کے جسم سے خارج ہوجائیں گی۔

    اس ساری تحقیق سے ثابت ہوا کہ وہیل کے نگلے جانے کے بعد کوئی شخص اس حالت میں نہیں رہ سکتا کہ واپس لوٹ کر اپنے اس سفر کی کہانیاں سنا سکے، ایسا دعویٰ کرنے والے جیمز کو بھی سائنس نے جھوٹا قرار دے دیا۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ وہیل مچھلیاں انسانوں کو نگلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں، البتہ آپ کو کبھی زیر آب جانے کا اتفاق ہو اور آپ کی مڈبھیڑ وہیل سے ہوجائے تو اس سے فاصلے پر رہیں کہ کہیں پانی کا دباؤ آپ کو اس کے کھلے منہ میں نہ پہنچا دے۔

  • تھری ڈی پرنٹ شدہ پھول جو انسانوں کی بقا کے لیے ضروری ہیں

    تھری ڈی پرنٹ شدہ پھول جو انسانوں کی بقا کے لیے ضروری ہیں

    شہد کی مکھیاں اور دیگر کیڑے مکوڑے اس دنیا میں ہمارے وجود کی ضمانت ہیں، اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ شہد کی مکھیوں کا مرہون منت ہے۔ دراصل شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتی ہیں۔

    اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں اور ہمیں غذا فراہم کرتے ہیں۔ تاہم گزشتہ دو دہائیوں میں ان مکھیوں کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے جس نے ماہرین کو تشوش میں مبتلا کردیا ہے۔

    اسی مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے نیدر لینڈز کی ایک طالبہ نے تھری ڈی پرنٹ شدہ پھولوں کو شہروں کے اندر اصل پھولوں کے ساتھ اور درختوں پر نصب کرنے کا کام شروع کیا ہے۔

    یہ پھول بارش کے پانی کو جمع کرتے ہیں اور اپنے اندر پہلے سے موجود چینی کے ساتھ اسے مکس کر کے مکھیوں کی غذائی ضرورت پورا کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ مکھیوں کے لیے اس لیے ضروری ہے کیونکہ شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس جمع کرنے کے لیے دور دور نکل جاتی ہیں اور بعض دفعہ وہ تھکن کا شکار ہو کر واپس اپنے چھتے تک نہیں پہنچ پاتیں۔

    ایسے میں ایمرجنسی فوڈ فلاورز کا نام دیے جانے والے ان پھولوں میں موجود چینی، ان مکھیوں کی توانائی بحال کر کے واپس انہیں ان کے گھر تک پہنچنے میں مدد دے سکتی ہے۔

    ایسی ہی ایک تجویز کچھ عرصہ قبل معروف محقق اور ماہر ماحولیات سر ڈیوڈ ایٹنبرو نے بھی دی تھی جب انہوں نے کہا کہ گھر کے لان یا کھلی جگہ میں ایک چمچے میں ایک قطرہ پانی اور چینی کی تھوڑی سی مقدار ملا کر ان مکھیوں کے لیے رکھ دی جائے، تاہم بعد ازاں ان کی یہ فیس بک پوسٹ جعلی ثابت ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 5 برسوں میں شہد کی مکھیوں کی ایک تہائی آبادی ختم ہوچکی ہے۔ اگر شہد کی مکھیاں نہ رہیں تو ہم انسان صرف 4 برس مزید زندہ رہ سکیں گے۔

  • زمین سے بلیاں ختم ہوگئیں، تو کیا انسانی اموات میں اضافہ ہوجائے گا؟

    زمین سے بلیاں ختم ہوگئیں، تو کیا انسانی اموات میں اضافہ ہوجائے گا؟

    ذرا تصور کیجیے، اگر زمین سے تمام بلیاں یک دم ختم ہوجائیں، تو کیا ہوگا؟ کیا اس سے انسانی زندگی پر کوئی فرق پڑے گا؟

    شاید آپ اس کا جواب نفی میں دیں. یہ سوچا جاسکتا ہے کہ بلیاں ختم ہونے سے دنیا پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، زندگی کا سفر یوں ہی رواں دواں رہے گا، کاروبار حیات جاری رہے گا، مگر ٹھہرے، یہ سچ نہیں.

    زمین سے بلیوں‌ کا خاتمہ انتہائی مہلک اثرات مرتب کرسکتا ہے، اس کے نتیجے میں‌ بڑی تعداد میں انسانوں کی اموات ہوسکتی ہیں، اس جانور کے ہمارے نظام زندگی سے اخراج کی صورت میں‌ قحط کا خطرہ بھی پیدا ہوسکتا ہے.

    سیارہ زمین میں‌ ہر زندگی کسی نے کسی انداز میں‌ دوسری زندگی سے جڑی ہوئی ہے، انسان، چرند، پرند، پودے، سب ایک لڑی میں‌ پروے ہوئے ہیں.

    اس لڑی سے کسی نوع کے اخراج کی صورت میں‌ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ زندگی ختم ہوجائے گی، مگر اس پر گہرے اثرات ضرور مرتب ہوں گے.

    انسانوں کی شہری آبادیوں میں جو جانور سہولت سے جگہ بنا لیتا ہے، ان میں‌ بلیاں سر فہرست ہیں. یہ عام طور سے بارہ سے سولہ گھنٹے سوتی ہیں، باقی وقت یہ شکار میں‌ صرف کرتی ہیں.

    یہ امر حیرت انگیز ہے کہ بلیاں 32 فی صد معاملات میں اپنے شکار کو گرفت کرنے میں کامیابی رہتی ہیں، یہ تعداد ببر شیر کی کامیابی کی شرح سے زیادہ ہے.

    بلیوں کا اصل شکار چوہے ہوتے ہیں. بلیاں‌ ہر سال کروڑوں چوہوں‌ کا خاتمہ کرتی ہیں. یہ چوہوں‌ کی ہلاکتوں کا سب سے بڑا سبب ہیں.

    اگر بلیاں نہ تو ہوں، تو چوہوں کی افزائش میں اس تیزی سے اضافہ ہو کہ چند ہی برس میں ان سے جان چھڑانا مشکل ہوجائے. یہ زمین پر ہر طرف پھیل جائیں.

    چوہوں کے جسم میں ایسے کئی جراثیم ہوتے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں، یہ طاعون جیسی وبا کو جنم دے سکتے ہیں، اس لیے ان کی تعداد کا ایک حد میں رکھنا ضروری ہے. اس ضمن میں بلیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں.

    چوہے غذائی اجزا کو بھی خراب کرسکتے ہیں، اگر زرعی فارمز پر بلیاں نہ پالی جائیں، تو چوہے گوداموں میں پڑے مال کو تباہ و برباد کر دیں.

    مذکورہ عوامل کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہمارے سیارے سے بلیاں ختم ہوئیں، تو بہت جلد انسانی اموات میں اضافہ ہوجائے گا، جس کا ایک سبب بیماریاں ہوں گی اور  دوسرا قحط.

  • مریخ پر جوہری بم گرائیں تاکہ وہاں انسان بسائے جائیں، ایلون مسک

    مریخ پر جوہری بم گرائیں تاکہ وہاں انسان بسائے جائیں، ایلون مسک

    واشنگٹن : چیف ایگزیکٹو ٹیسلا کمپنی نے مشورہ دیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی تیز ترین ترکیب بھی یہی ہے کہ مریخ پر جوہری بم گرا دیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسپیس ایکس اور ٹیسلا کمپنی کے چیف ایگزیکٹو اور معروف سائنسی و سماجی شخصیت ایلون مسک نے مشورہ دیا ہے کہ مریخ کو انسانوں کی رہائش کے قابل سیارہ بنانے کیلئے اس پر ایٹم بم گرانا ہوں گے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کاکہنا تھا کہ سائنس میگزین کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ایلون مسک نے یہ مشورہ دیا ہو، اس سے قبل 2015ءمیں بھی وہ اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق ایلون مسک سمجھتے ہیں کہ مریخ پر جوہری بم گرانے سے سرخ سیارے کے قطبین پر موجود برف پگھل جائے گی جس سے برف میں قید کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس سیارے کے کرہ ہوائی (ایٹماسفیئر) میں پھیل جائے گی جس سے پیدا ہونے والا گرین ہاﺅس گیس افیکٹ سیارے کا درجہ حرارت اور ہوا کا دباﺅ بڑھا دے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) کی تیز ترین ترکیب ہے،نیو اسپیس جریدے میں بھی انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں انسان 10 لاکھ افراد پر مشتمل ایک کالونی مریخ پر بسا سکتا ہے۔

  • اربوں سال میں تخلیق شدہ زمین انسانی ترقی کی زد پر

    اربوں سال میں تخلیق شدہ زمین انسانی ترقی کی زد پر

    ہم کئی نسلوں سے اس زمین پر آباد ہیں، ہم روز بروز ہوتی ترقی کی بدولت اپنے پڑوسی سیاروں اور اپنے نظام شمسی سے باہر کے حالات بھی کچھ نہ کچھ جانتے رہتے ہیں لیکن ان پر غور کرنے کا وقت ہمیں بہت کم ملتا ہے۔

    آئیں آج ہم اپنے اس گھر یعنی زمین اور کائنات کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ہماری کائنات ایک بہت بڑے دھماکے جسے بگ بینگ کہا جاتا ہے، کے نتیجے میں 13 ارب 80 کروڑ سال قبل وجود میں آئی۔ کائنات ابتدا میں بہت سادہ تھی۔ یہاں کچھ ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیسیں موجود تھیں جبکہ بہت ساری توانائی بھی موجود تھی۔

    اس وقت کائنات میں ستارے، کہکہشائیں اور سیارے موجود نہیں تھے جبکہ کسی جاندار کا بھی وجود نہیں تھا۔

    کچھ وقت بعد کائنات میں کچھ پیچیدہ اجسام ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ کائنات میں پہلی بار ستارے اور کہکہشاں بگ بینگ کے 20 کروڑ سال بعد نمودار ہوئے۔

    کچھ بڑے ستارے بنے اور پھر ختم ہوگئے، یہ دھماکے سے پھٹے اور اس دھماکے سے نئے اجسام وجود میں آئے۔ ان اجسام نے مزید نئے عناصر کو جنم دیا جیسے مٹی، برف، پتھر اور معدنیات۔ پھر ان عناصر سے سیارے بننا شروع ہوئے۔

    ہمارا سورج اور نظام شمسی ساڑھے 4 ارب سال قبل نمودار ہوا۔

    4 ارب سال قبل زمین پر زندگی نے جنم لیا۔ اس زندگی کا ارتقا ہونا شروع ہوا مگر تب بھی زیادہ تر جاندار بہت چھوٹے اور یک خلیائی (ایک خلیے پر مشتمل) تھے۔ 1 ارب سال قبل پہلی بار کثیر خلیائی (بہت سارے خلیوں پر مشتمل) زندگی نے جنم لیا۔

    50 کروڑ سال قبل زمین پر بڑے اجسام عام ہوگئے تھے جیسے درخت یا ٹائرنا سارس۔ ان سب میں انسان جدید ترین مخلوق ہے۔ انسان کا ظہور صرف 2 لاکھ سال قبل اس زمین ہوا۔

    انسان کی آمد اس زمین پر ایک اہم واقعہ تھی، کیونکہ انسان اس سے قبل آنے والی تمام مخلوق سے منفرد اور بہتر تھا۔ انسان نے اپنے آس پاس کی معلومات اور اپنے خیالات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا شروع کیا جس سے آنے والی نسلیں پرمغز ہونا شروع ہوئیں۔

    اب، صرف چند سو سال میں انسان نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ پورے کرہ ارض اور اس میں بسنے والے تمام جانداروں کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

    بے تحاشہ ترقی، ٹیکنالوجی اور دولت سے انسان موسموں کا رنگ، دریاؤں اور ہواؤں کا رخ تک بدلنے پر قادر ہوگیا ہے اور اس جنون میں اپنے ہی گھر کو نقصان پہنچانا شروع ہوگیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صرف اگلے چند سال میں انسان کی ترقی اس بات کا تعین کرلے گی کہ آیا یہ کرہ ارض اور اس پر موجود جاندار صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے یا اگلے کئی لاکھ سال تک موجود رہیں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اربوں سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تمام سیارے کی مخلوق کی بقا، ایک مخلوق (انسان) کی مرہون منت ہے۔ اس بقا کی جنگ لڑنا ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ چیلنج 4 ارب سال میں ایک ہی بار درپیش ہے۔

  • انسانی جسم کے دفاعی نظام میں موجود آٹھ ہتھیار

    انسانی جسم کے دفاعی نظام میں موجود آٹھ ہتھیار

    کیا آپ جانتے ہیں کہ انگڑائی لینا یا آنکھوں سے آنسوؤں کا جاری ہونا بے مقصد نہیں ہے بلکہ ان جیسے کئی افعال انسانی جسم کو نقصان سے بچانے کے لیے ازخود رونما ہوتے ہیں۔

    انسانی جسم کو قدرت نے اس قدر پرپیچ انداز میں ڈیزائن کیا ہے کہ سائنسداں آج بھی اس کے بہت سے افعال سمجھنے سے قاصر ہیں، جیسے جیسے ریسرچ آگے بڑھ رہی ہے ، جسم  کے ہر فعل  کا ایک نیا مقصد سامنے آرہا ہے۔

    میڈیکل سائنس جیسے جیسے ترقی کررہی ہے ، انسانی جسم کی ایک ایک حرکت کی وضاحت کرتی جارہی ہے اور ذیل میں ہم انسانی جسم کے آٹھ ایسے افعال  اور ان کے پیچھے پوشیدہ مقاصد آپ کے سامنے بیان کررہے ہیں ، جنہیں جان کر بے اختیار آپ سبحان اللہ کہہ اٹھیں گے۔

    مندرجہ ذیل آٹھ افعال انسانی جسم کے دفاعی نظام کا حصہ ہیں جن کا مقصد جسم کو پہنچنے والے انتہائی بڑے نقصان کے خلاف مدافعت کرنا ہے۔

    چھینک

    ناک سانس کی آمد و رفت کا بنیادی ذریعہ ہے اور آپ کو چھینک اس وقت آتی ہے جب ناک  میں ہوا کی گزرگاہ کسی چیز سے الرجی کا شکار ہو یا اس میں  کچرا بھر گیا ہو، درحقیقت یہ اس کچرے کو باہر نکالنے  اور ہوا کی گزر گاہ کو صاف رکھنے کے لیے انسانی جسم کا خود کار ذریعہ ہے۔

    انگڑائی لینا

    عموماً انگڑائی لینے کے عمل کو برا سمجھا جاتا ہے لیکن صبح اٹھتے ہی اکثرافراد انگڑائی لیتے ہیں، ایسا کرنے سے طویل وقت تک لیٹنے رہنے کے سبب سست پڑجانے والے نظامِ خون  کو  اٹھنے  کے بعد  بحال کرنا ہوتا ہے اوراس سے  جسم کےمسلز کام کے لیے تیارہوجاتے ہیں۔

    جمائی لینا

    جمائی کو عام طور پر سستی کی نشانی تصور کیا جات  ہے اوراس کے بارے میں متعدد خیالات موجود ہیں، لیکن طبی طورپراس کا بنیادی مقصد دماغ کو بہت زیادہ گرم ہونے سے بچانا ہے۔

    رونگٹے کھڑے ہونا

    ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے جسم کے رونگٹے خوف کی حالت میں کھڑےہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ جب موسم ٹھنڈا ہوتا ہے تو جسم رونگٹے کھڑے کرکے جسم سے حرارت کے اخراج کی شرح کو کم کرتا ہے، اس طرح سرد موسم میں گرم رہنا آسان ہوجاتا ہے۔

    یاداشت کھونا

    کئی باراس وقت لوگ یاداشت سے عارضی طور پر محروم ہوجاتے ہیں جب وہ کسی ناخوشگوار واقعے سے گزرتے ہیں، یہ دماغ کی جانب سے آپ کو ٹراما سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔

    آنسو

    آنسوؤں کے 2 مقاصد ہوتے ہیں، یہ آنکھوں کو بیرونی اشیاءسے تحفظ فراہم کرتے ہیں جبکہ یہ جذباتی دفاعی ڈھال بھی ثابت ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انسان اس وقت روتے ہیں جب وہ اپ سیٹ ہوتے ہیں تاکہ خود کو جذباتی تکلیف سے بچاسکیں۔

    ہاتھوں میں جھریاں

    جب ہم کسی نم ماحول ہوتے ہیں تو  ایسے وقت  میں انسانی ہاتھوں پر جھریاں نمودار ہوجاتی ہیں، جس کی وجہ یہ  ہے کہ جسم پھسلنے والے ماحول سے مطابقت پیدا کرسکے، یہ جھریاں ہاتھوں کی گرفت بہتر کرتی ہے اور گرنے یا چوٹ لگنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    ہچکیاں

    اگر آپ کو ہچکیاں آرہی ہیں تو ضروری نہیں کہ کوئی آپ کو یاد کررہا ہے ۔ہچکیاں اس وقت آتی ہیں جب لوگ بہت تیزی سے کچھ کھالیں، اس عمل سے جسم آپ کو تیزی سے کھانے سے روکتا ہے تاکہ غذا ہضم کرنا آسان ہوجائے۔