Tag: انسان

  • برف کا پراسرارپہیہ، جس نے برطانیہ کو حیرت میں‌ مبتلا کر دیا

    برف کا پراسرارپہیہ، جس نے برطانیہ کو حیرت میں‌ مبتلا کر دیا

    لندن: کیا آپ نے کبھی برف سے بنا ایسا پہیہ دیکھا ہے، جسے  کسی انسان نے نہ بنایا ہو، بلکہ وہ خود بہ خود تشکیل پا گیا ہو۔

    بہ ظاہر یہ ناممکن ہے، مگر یہ حقیقت ہے، سیارہ زمین پر ایک ایسا پراسرار عمل بھی جاری ہے، جس کے ذریعے برف زاروں میں اچانک پہیے نما اشکال ظاہر ہو جاتی ہیں۔

    ان پہیوں کے پیچھے طویل لکیر یں نظر آتی ہیں، یہ وہ راستہ ہے، جس پر پہیہ سفر کرتے ہوئے وہاں تک پہنچا، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ نہ تو کوئی اسے تشکیل دیتا ہے، نہ ہی کوئی اس پہیے یا گانٹھ کو حرکت دیتا ہے۔ یہ فطرت کے عجیب و غریب اصولوں کے تحت خود بہ خود حرکت کرتا ہے۔

    برف کی بڑی بڑی گانٹھیں بالکل قدرتی ہیں اور حالیہ دنوں میں یہ جنوبی انگلینڈ میں محکمہ جنگلات کے ایک اہل کار کو دکھائی دیں، جس نے ان کی فوری تصاویر بنا لیں۔

    سائنس دانوں کے مطابق ان کی تشکیل کے لیے مخصوص فطرتی حالات درکار ہوتے ہیں، ان میں پہلی شے تو برف ہی ہے، سخت برف پر گرنے والی نرم برف اسے تشکیل دیتی ہے، ایک ہموار بغیر سبزے والی پہاڑی پر اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    ٹھوس برف پر نرم برف  موجود ہوتی ہے، جو مناسب درجہ حرارت، نمی کے تناسب اور ہوا کی رفتار کے وسیلے دھیرے دھیرے حرکت کرنے لگتی ہے اور آخر ایک حیران کن پہیے کی شکل اختیار کر جاتی ہے، جسے عجوبہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

  • کیا واقعی مشینیں انسانوں کی ملازمتیں ختم کردیں گی؟

    کیا واقعی مشینیں انسانوں کی ملازمتیں ختم کردیں گی؟

    جیسے جیسے ہماری دنیا ترقی یافتہ اور جدید ہوتی جارہی ہے، ویسے ویسے انسانوں کی محنت اور مشقت کم ہوتی جارہی ہے۔ جو کام پہلے کئی سالوں میں ہوتا تھا اب وہ صرف چند ماہ میں مشینوں کی مدد سے اور کئی گنا کم انسانی محنت سے ہوسکتا ہے۔

    کئی شعبوں میں ایسی مشینیں تیار کرلی گئی ہیں جنہوں نے انسانی محنت کو کم کردیا ہے نتیجتاً انسانوں کی ضرورت ختم ہوتی جارہی ہے۔

    اس وقت کئی شعبے ایسے ہیں جہاں انسانوں کی جگہ روبوٹک کام سر انجام دیا جارہا ہے، جیسے اسپتالوں میں علاج کرنا اور سیکیورٹی کے لیے روبوٹک سسٹم وغیرہ۔

    یہ سب ایک طرف تو انسان کے جدید اور ترقی یافتہ ہونے کی نشانی ہے، لیکن دوسری طرف یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر انسان جیسی صلاحیتوں کے حامل مشینیں بنانے میں جدت آتی گئی تو دنیا کے لاکھوں کروڑوں انسان بے روزگار ہوسکتے ہیں۔

    رائل بینک آف کینیڈا کے سربراہ ڈیو مک کے نے عالمی اقتصادی فورم کے ایک اجلاس میں اس بارے میں تفصیل سے بات کی۔

    انہوں نے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکا، برطانیہ اور چین کے دوروں کے دوران جب بھی نوجوانوں سے ان کی ملاقات ہوئی، تو ان سے یہی سوال پوچھا گیا کہ کیا واقعی مشینیں اس قابل ہوسکتی ہیں کہ انسانوں کی جگہ لے لیں اور مختلف شعبوں کو کام کرنے کے لیے انسانوں کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

    ڈیو مک کے کا کہنا ہے، ’میرا خیال ہے کہ مشینیں چاہے کتنی ہی جدید کیوں نہ ہو جائیں، یہ انسانوں کی جگہ کبھی نہیں لے سکتیں۔ یہ صرف انسانوں کی مدد کرسکتی ہیں اور ان کا کام آسان کرسکتی ہیں، ایک مرحلہ ایسا ضرور آتا ہے جہاں صرف انسانی صلاحیتوں پر ہی انحصار کیا جاسکتا ہے‘۔

    دوسری جانب رائل بینک آف کینیڈا ہی کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ملازمتوں کا کمی کا امکان تو ہے، تاہم اسی ٹیکنالوجی کی بدولت نئی ملازمتیں بھی وجود میں آئی ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے باعث کچھ روایتی ملازمتیں ختم ہوگئیں، البتہ کچھ نئی ملازمتیں متعارف کروائی گئیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ کچھ ملازمتیں ایسی ہیں جن پر صرف انسان ہی اپنی خدمات سر انجام دے سکتے ہیں۔

    ان ملازمتوں میں پالیسی میکنگ، گفتگو کرنا، منصوبوں پر تنقیدی زاویے سے سوچنا، اور مارکیٹ کی مانیٹرنگ کرنا ایسے کام ہیں جو صرف انسان ہی بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔

    رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے باعث روایتی استادوں کا تصور بھی ختم ہوجائے گا البتہ ان کی جگہ ایسے استاد لے لیں گے جو جدت کے اس علم کو نئی نسلوں میں منتقل کرسکیں۔

    رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ ٹیکنالوجی سے مطابقت کرنا حکومتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوسکتا ہے، اور انفرادی طور پر نئی صلاحیتیں اور ٹیکنالوجی سیکھنے والے ہی اس دوڑ میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔

  • کیا بھیڑ اپنے ساتھیوں کو پہچان سکتی ہے؟

    کیا بھیڑ اپنے ساتھیوں کو پہچان سکتی ہے؟

    بھیڑوں میں انسانی چہروں کو شناخت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن کیا بھیڑیں اپنے ساتھیوں کو بھی شناخت کرسکتی ہیں؟

    اس حقیقت کو جاننے کے لیے ماہرین نے ایک تجربہ کیا۔ ماہرین نے ایک گلے کی 2 بھیڑوں کی تصاویر کھینچیں اور جاننے کی کوشش کی کہ کیا ان کی ساتھی بھیڑیں انہیں پہچان سکتی ہیں۔

    اس تصویر کو ایک جگہ اصل حالت میں رکھا گیا جبکہ دوسری تصویر میں تبدیلی کر کے ان بھیڑوں کے منہ کی جگہ دوسری بھیڑوں کا منہ لگا دیا گیا۔ اب دوسری تصویر میں بظاہر اجنبی بھیڑیں موجود تھیں۔

    گلے کی بقیہ بھیڑیں جب اس مقام پر داخل ہوئیں تو وہ اپنی ساتھی بھیڑوں کی تصویر کے پاس رک گئیں، اس جگہ بھیڑیں معمول کے مطابق چرتی اور ممیاتی رہیں۔

    اس کے برعکس جب وہ اجنبی بھیڑوں کی تصویر کے پاس پہنچیں تو انہوں نے اجنبی بھیڑوں کے قریب جانے سےگریز کیا۔ یہی نہیں ان کے ممیانے کی آواز بھی بلند ہوگئی جیسے اپنے بچوں کو کسی خطرے سے آگاہ کر رہی ہوں۔

    دوسری جانب کیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق بھیڑ انسانوں کے چہرے اور تاثرات پہچاننے کی غیر معمولی صلاحیت کی حامل ہوتی ہیں۔

    بھیڑیں اپنے نگہ بانوں کو نہ صرف پہچان سکتی ہیں بلکہ ان کے چہرے کے تاثرات کو بھی سمجھتی ہیں۔

  • انسان کی وجہ سے صرف 50 سال میں زمین کی بے تحاشہ تباہی

    انسان کی وجہ سے صرف 50 سال میں زمین کی بے تحاشہ تباہی

    انسان کو یوں تو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے تاہم یہ اشرف المخلوقات دیگر جانداروں کے لیے کس قدر نقصانات کا باعث بن رہا ہے اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق انسان نے صرف 50 سال کے اندر زمین اور اس پر رہنے والے جانداروں کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صرف 50 سال کے اندر زمین پر رہنے والے 60 فیصد جنگلی حیات، دنیا بھر کے گہرے سمندروں میں پائی جانے والی نصف مونگے کی چٹانیں، اور دنیا کے سب سے بڑے برساتی جنگل ایمیزون کا پانچواں حصہ ختم ہوچکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس تمام نقصان کی سب سے بڑی وجہ آبی و فضائی آلودگی، موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور جنگلی حیات کی رہائش گاہوں کی بربادی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ 1970 سے 2014 کے درمیان 4 ہزار اقسام کی جنگلی حیات اور جنوبی اور وسطی امریکا میں ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے 89 فیصد جاندار ختم ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    اس کی وجہ ان جانوروں کی پناہ گاہوں یعنی جنگلوں کی بے تحاشہ کٹائی تھی تاکہ وہاں بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زراعت کی جاسکے۔

    ماہرین کے مطابق انسان اس زمین پر چھٹی عظیم معدومی کا آغاز کر چکا ہے۔

    یاد رہے کہ زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اگلے 50 سال تک جانوروں کا شکار کرنا، آلودگی پھیلانا اور جنگلات کی کٹائی بند کردیں تب بھی زمین کو اپنی اصل حالت میں واپس لوٹنے کے لیے 30 سے 50 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔

  • فلپائن میں قدیم ترین انسانوں کی موجودگی کا انکشاف

    فلپائن میں قدیم ترین انسانوں کی موجودگی کا انکشاف

    جنوب مشرقی ایشیائی ملک فلپائن میں انسان کی لاکھوں سال قبل موجودگی کا ثبوت ملا ہے جس نے مذکورہ علاقے میں انسانوں کی موجودگی کے بارے میں اب تک کے نظریات کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔

    فلپائن کے شمالی جزیرے سے ملنے والی رکازیات سے اندازہ لگایا گیا کہ اس خطے میں انسانوں کی اولین آبادیاں اب سے 7 لاکھ 9 ہزار سال قبل موجود تھیں۔

    اس سے قبل تصور کیا جاتا تھا کہ فلپائن میں انسانوں کی قدیم ترین آبادی کی عمر صرف 67 ہزار سال ہے۔

    تحقیق کی بنیاد اس علاقے سے ملنے والے رائنو سارس کے رکازیات اور نوکدار پتھروں پر رکھی گئی۔

    مزید پڑھیں: انگلینڈ میں انسانوں کے قدیم اجداد کی باقیات دریافت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ برآمد ہونے والے رائنو سارس کے ڈھانچے میں اسے ذبح کیے جانے کے واضح نشانات موجود ہیں جو صرف قدیم دور کے انسان ہی کرسکتے ہیں۔

    ان کے مطابق رائنو سارس کی ہڈیوں، پسلیوں اور رانوں پر ایسے نشانات تھے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں توڑنے کے لیے نوکدار پتھر استعمال کیے گئے۔

    اس مقام پر ہاتھی سے ملتی جلتی نسل کے ایک اور جانور، فلپائن میں پائے جانے والے بھورے ہرن اور میٹھے پانی کے کچھوے کی رکازیات بھی دریافت ہوئیں جن کی ہڈیوں پر بالکل رائنو سارس جیسے ہی نشانات تھے۔

    ان رکازیات کی عمر 7 لاکھ 77 ہزار سے 6 لاکھ 31 ہزار سال کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

    اس علاقے میں انسانوں کی موجودگی کا اندازہ لگانے کے لیے مختلف اقسام کی تکنیکوں کا استعمال کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: صحرا سے 90 ہزار سال قدیم انسانی انگلی دریافت

    ماہرین کے مطابق ان جانوروں کو تقریباً 7 لاکھ سال قبل ذبح کیا گیا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ پہلے کی گئی تحقیق سے انسانوں کی موجودگی کے ثبوت اور حالیہ تحقیق سے ملنے والے ثبوت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطہ انسانی آبادی کے تنوع کے لحاظ سے خاصا اہمیت کا حامل ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ تحقیق انسانوں کی موجودگی کے بارے میں تجربات کو مزید وسعت دے گی۔

  • خبردار! پریشان لوگوں سے دور رہیں

    خبردار! پریشان لوگوں سے دور رہیں

    کیا انسانی جسم دوسرے افراد اور بیرونی عوامل کے اثرات کو جذب کرتا ہے؟

    ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی صحبت بعض دفعہ ہمارے موڈ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر ہم اداس، پریشان اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوں گے تو ہنسنے ہنسانے والے لوگوں سے ملاقات آدھے گھنٹے میں ہمارا موڈ تبدیل کرسکتی ہے۔

    اسی طرح اگر کوئی خوش باش شخص تھوڑی دیر کسی پریشان اور اداس شخص کے پاس بیٹھ جائے تو وہ خود بھی اپنے اندر وہی کیفیات محسوس کرنے لگتا ہے۔

    تو کیا اس کا مطلب ہے کہ ہمارا جسم بیرونی اثرات کو جذب کرتا ہے؟ سائنس نے اس کا جواب مثبت دیا ہے۔

    اس بارے میں جاننے کے لیے کی جانے والی تحقیق میں سائنسدانوں نے الجی پودے کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ الجی سورج سے توانائی لینے کے ساتھ ساتھ اپنے قریب موجود الجی سے بھی توانائی حاصل کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم ایک ’اسفنج‘ کی طرح ہے جو چیزوں کو جذب کرلیتا ہے۔

    ان کے مطابق جب ہم کسی ایسی جگہ ہوں جہاں مختلف کیفیات اور احساسات رکھنے والے بہت سارے لوگ ہوں تو ہم بہت غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں کیونکہ بیک وقت بہت سارے جذبات اور خیالات ہم پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق مختلف احساسات کی لہریں دماغ اور جسم کے متعلقہ حصوں کی کارکردگی کو تیز کرتی ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کسی پریشان شخص کی صحبت میں بیٹھے ہیں تو وہ پریشانی آپ کے دماغ کے ان خلیوں کو متحرک کر دے گی جو آپ کے اندر بھی پریشانی اور تناؤ پیدا کردیں گے۔

    اسی طرح خوش مزاج افراد کی صحبت ہمارے دماغ میں خوشی پیدا کرنے والے خلیوں کو متحرک کرے گی۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ انسانوں کو فطرت کے قریب بھی وقت گزارنا چاہیئے تاکہ وہ ان کے اثرات کو جذب کرسکیں۔

    مثلاً سبزہ، درخت اور تازہ ہوا انسانی دل و دماغ پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے اور جسمانی صحت کے لیے مفید ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • انسان میں کتے کے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت ہے، تحقیق

    انسان میں کتے کے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت ہے، تحقیق

    نیویارک: امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ انسان میں پالتو جانوروں خصوصاً کتے کے مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جانوروں پر انسانی رویے کے اثرات اور اُن پر عمل درآمد سے متعلق امریکی یونیورسٹی اوریجن اسٹیٹ یونیورسٹی میں تحقیق ہوئی جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کسی بھی زخمی جانور کی زندگی کو محفوظ کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا  بلکہ اصل معاملہ اُس کی تنہائی کو دور کرنا ہے۔

    تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ خصوصاً کتے پالنے والے افراد کے اندر ایسی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مذکورہ جانور کے مسئلے کو ڈاکٹر کے پاس جائے بغیر حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر انسانوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے۔

    یونیورسٹی کی پروفیسر لورین بروبکر کا کہنا تھا کہ ہم سوچتے ہیں ایسا ممکن نہیں کہ کوئی انسان جانور کے مسائل یا پریشانی کو سمجھ سکے مگر تحقیق میں ایسے نتائج سامنے آئے جو ہم سب کے لیے حیران کن تھے۔

    تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مالکان اپنے کتوں کی ذہانت کو بڑھانے کے لیے انہیں تربیت دیتے ہیں تاکہ وہ چاک و چوپند رہیں اور اسی طرح 31 جانور ایسے ہیں جو انسان کی توجہ بہت زیادہ حاصل کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کتے انسانوں کی طرح الفاظ اور موسیقی سمجھنے کے اہل

    لورین بروبکر کا کہنا تھا کہ عام اور پالتو کتوں میں تربیت کا فرق واضح ہوتا ہے انہیں مالکان کی جانب سے مختلف ٹریننگ دی جاتی ہے جبکہ گلی اور شاہراؤں پر گھومنے والے کتے انسانی رویے کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

    پروفیسر لورین نے مزید کہا کہ گھروں میں پالے جانے والے کتوں کو کمروں میں اٹھنے بیٹھنے کی تمیز ہوتی ہے جبکہ انہیں یہ بات بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ اگر کھانا کھایا جارہا ہے تو اُس میں منہ نہ ڈالیں اسی طرح پڑھائی یا کام کے دوران کسی فرد کو تنگ نہ کریں۔

    تحقیق کے دوران دیگر جانوروں کی مالکان کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی کو بھی دیکھا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ جب کوئی مالک ہاتھ پھیلا کر اپنے پالتو کتے مخاطب کرتا ہے تو وہ بھاگ کر اس کے پاس آجاتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کتے انسانوں کی طرح الفاظ اور موسیقی سمجھنے کے اہل

    کتے انسانوں کی طرح الفاظ اور موسیقی سمجھنے کے اہل

    کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ کچھ بولتے ہیں یا کوئی گانا سنتے ہیں تو آپ کا کتا بھی انہیں ایسے ہی سمجھتا ہے جیسے آپ سمجھتے ہیں؟

    ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ کی ایٹووس یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کتے الفاظ اور موسیقی کو سمجھنے کے لیے دماغ کے انہی حصوں کو استعمال کرتے ہیں جو انسان استعمال کرتے ہیں۔

    dog-2

    انسان الفاظ کو سمجھنے کے لیے دماغ کے بائیں اور موسیقی کو سمجھنے کے لیے دائیں حصہ کا استعمال کرتے ہیں۔

    یہ تحقیق کتوں کے دماغی اسکین کی بنیاد پر کی گئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ نہ صرف بولے جانے والے الفاظ کا تجزیہ کرتا ہے بلکہ بسا اوقات وہ ان کے پس پردہ معنی کو بھی سمجھتا ہے یعنی دماغ بیک وقت دو کام سر انجام دیتا ہے۔

    بالکل یہی کام اسی طریقہ کار کے ذریعہ کتوں کا دماغ بھی انجام دیتا ہے۔

    dogs-3

    ماہرین کے مطابق کتوں کا دماغ ہمدردانہ اور مانوس الفاظ پر بھی ویسا ہی ردعمل ظاہر کرتا ہے جیسے انسان کرتے ہیں۔ گھر، کھانا اور محبت و شفقت کے الفاظ کتوں کے دماغ میں مثبت لہریں پیدا کرتے ہیں جو ان کے جسم کو پرسکون رکھتی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق انسانوں اور کتوں کے درمیان گفتگو اور ہمدردی کے تعلق کو مضبوط کرنے میں مدد دے گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • انسان کے چہرے کی ساخت مینڈک کے جیسی

    انسان کے چہرے کی ساخت مینڈک کے جیسی

    کیا آپ جانتے ہیں؟ ہمارے منہ کی ساخت کس جانور کی طرح ہے؟

    شاید آپ کا جواب ہو کہ بن مانس یا بندر، لیکن حال ہی میں ماہرین نے ایک دنگ کردینے والی تحقیق کی ہے جس کے مطابق ہمارے منہ کی ساخت بالکل ایسی ہے جیسی مینڈک کے منہ کی ہے۔

    نیشنل جیوگرافک کے مطابق سائنسدانوں نے ایک تحقیق کی جس میں انہیں پتہ چلا کہ مینڈک اور انسان کے منہ کے بافت یا ٹشو تقریباً یکساں ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ماں کے رحم میں بچے کی تخلیق ہوتی ہے تب سر کے پچھلے حصے سے خلیات حرکت کرتے ہوئے آگے آتے ہیں جو بچے کا چہرہ اور آنکھوں سمیت چہرے کے دیگر حصے تشکیل دیتے ہیں۔

    مینڈک کا چہرہ بھی بالکل اسی طرح سے تشکیل پاتا ہے۔

    گو کہ یہ تحقیق دلچسپ تو ہے، مگر بہت عجیب بھی ہے، تو پھر غور سے دیکھنا شروع کریں، ہوسکتا ہے کہیں آپ کو اپنا ہم شکل مینڈک بھی دکھائی دے جائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟

    عظیم اور قوی الجثہ جانوروں کی معدومی کے بارے میں سنتے اور پڑھتے ہوئے کیا آپ کو کبھی یہ خیال آیا ہے کہ ہم انسان بھی معدوم ہوسکتے ہیں؟

    یقیناً یہ خیال ہمیں کبھی نہیں آیا، کیونکہ ہم زمین کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوسکتا ہے لیکن انسان نہیں، اور اگر انسان ختم ہوگیا تو یہ اس زمین کا بھی آخری دن ہوگا۔

    تو پھر آئیں آج اس غلط فہمی کو دور کرلیتے ہیں۔

    اگر کبھی ایسا ہو، کہ زمین پر موجود تمام انسان اچانک غائب ہوجائیں اور ایک بھی انسان باقی نہ رہے تو سب سے پہلے زمین کو جلاتی برقی روشنیاں بجھ جائیں گی اور زمین کا زیادہ تر حصہ اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔

    اس کے ساتھ ہی سینکڑوں سالوں میں تعمیر کی گئی ہماری یہ بلند و بالا دنیا آہستہ آہستہ تباہی کی طرف بڑھنا شروع ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: قیامت کے آنے میں کتنے سال باقی

    امریکی شہر نیویارک کا سب وے اسٹیشن انسانوں کے خاتمے کے بعد صرف 2 دن قائم رہے گا، اس کے بعد یہ زیر آب آجائے گا۔

    انسانوں کے قائم کیے گئے ایٹمی و جوہری بجلی گھروں کو ٹھنڈا رکھنے والے جنریٹرز بند ہوجائیں گے جس کے بعد تمام بجلی گھروں میں آگ بھڑک اٹھے گی اور آہستہ آہستہ یہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

    تپش اور تابکاری کا یہ طوفان کم از کم چند ہزار سال تک زمین کو اپنے گھیرے میں لیے رہے گا جس کے بعد آہستہ آہستہ زمین سرد ہونا شروع ہوجائے گی۔

    اس دوران گھر اور عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں گی اور ان پر خود رو پودے اور بیلیں اگ آئیں گی۔

    پھل اور پھول اپنی پہلے والی جنگلی ساخت پر واپس آجائیں گے جنہیں انسان مصنوعی طریقوں سے مزیدار اور خوش رنگ بنا چکے ہیں۔

    انسانوں کے ختم ہوتے ہی جنگلی حیات کی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    ہمارے خاتمے کے 300 سال بعد بڑے بڑے پل ٹوٹ جائیں گے۔

    سمندر کنارے آباد شہر ڈوب کر سمندر ہی کا حصہ بن جائیں گے۔

    بڑے بڑے شہروں میں درخت اگ آئیں گے اور صرف 500 سال بعد ہمارے بنائے ہوئے شہروں کی جگہ جنگل موجود ہوں گے۔

    صرف ایک لاکھ سال کے بعد زمین کا درجہ حرارت اس سطح پر آجائے گا جو انسانوں سے قبل ہوا کرتا تھا، نہ تو اس میں زہریلی گیسیں شامل ہوں گی اور نہ ہی گاڑیوں اور فیکٹریوں کا آلودہ دھواں۔

    گویا ہماری زمین ہمارے ختم ہوجانے کے بعد بھی قائم رہے گی، یعنی زمین کو ہماری کوئی ضروت نہیں۔ البتہ ہمیں زمین کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہمارے پاس اس کے علاوہ رہنے کو اور کوئی گھر موجود نہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔