Tag: انسولین

  • بیٹی کیلیے انسولین خریدنے کے پیسے نہیں! مجبور باپ نے زندگی کا خاتمہ کرلیا

    بیٹی کیلیے انسولین خریدنے کے پیسے نہیں! مجبور باپ نے زندگی کا خاتمہ کرلیا

    بھارتی ریاست اتر پردیش میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا، مجبور باپ نے بیٹی کے علاج کے لیے رقم نہ ہونے پر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

    بھارتی میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ افسوسناک واقعہ اترپردیش کے شہر لکھنؤ میں پیش آیا جہاں قرض میں ڈوبے باپ نے فیس بک لائیو آکر بیٹی کے لیے انسولین خریدنے کے لیے مالی مدد مانگی۔

    رپورٹس کے مطابق پولیس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مذکورہ شخص ریئل اسٹیٹ کا کام کیا کرتا تھا اور کئی لوگوں کا مقروض تھا اور قرض چکانے کے لیے رقم نہ تھی۔

    پولیس کے مطابق مذکورہ شخص کی بیٹی ذیابیطس (شوگر) کی مریضہ تھی اور اس کے پاس بیٹی کے لیے انسولین خریدنے تک کے پیسے نہیں تھے۔

    مذکورہ شخص ویڈیو میں مسلسل روتا رہا۔ اس نے کہا کہ وہ قرض کے بوجھ اور مالی ذمہ داریوں سے ٹوٹ چکا ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق مذکورہ شخص کے اہل خانہ نے پولیس سے رابطہ کیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ اس ویڈیو بیان کے بعد وہ خودکشی کرسکتے ہیں۔

    بچوں کو قتل کر کے ماں باپ نے بھی زندگی کا خاتمہ کر لیا

    پولیس کے پہنچنے سے قبل ہی مذکورہ شخص نے فیس بک پر مالی مدد کی اپیل کے فوری بعد دفتر میں سیکیورٹی گارڈ کی بندوق سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق پولیس نے تاحال خودکشی کرنے والے شخص کا نام ظاہر نہیں کیا ہے۔

  • کرم میں ذیابیطس کے مریضوں کی بڑی مشکل حل

    کرم میں ذیابیطس کے مریضوں کی بڑی مشکل حل

    پشاور: کرم میں ذیابطیس کے مریضوں کے لیے انسولین کا عطیہ محکمہ صحت کے حوالے کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق فارماسیوٹیکل کمپنی نے 4.2 ملین مالیت کی انسولین محکمہ صحت کے حوالے کر دی ہیں، یہ عطیہ کرم کے شوگر کے مریضوں کو پہنچایا جائے گا۔

    سیکریٹری ہیلتھ عدیل شاہ نے بتایا کہ یہ ادویات کل ہیلی کاپٹر کے ذریعے کُرم پہنچا دی جائیں گی، کُرم کے لیے ڈونرز کی جانب سے مزید ادویات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ پروجیکیٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ عطیہ 5 ہزار انسولین وائلز پر مشتمل ہے جو کرم کے مستحقین کے لیے ہے۔

    واضح رہے کہ ڈھائی ماہ سے مرکزی شاہراہ کی بندش کی وجہ سے ضلع کُرم کے عوام کو اشیائے خورونوش اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے، اس مسئلے کے حل کے لیے صوبائی حکومت نے فضائی سروس کا آغاز کیا ہے، ہیلی کاپٹر کے ذریعے جہاں مقامی آبادی کے لیے خوردنی اشیا اور ادویات فراہم کی جا رہی ہے، وہاں بیمار اور بیرون ملک جانے والے شہریوں کو ریسکیو کر کے پشاور بھی پہنچایا جا رہا ہے۔

    صوبائی حکومت کے ترجمان کے مطابق اب تک 613 افراد کو ایئر ٹرانسپورٹ کے ذریعے متاثرہ علاقے سے نکالا جا چکا ہے، وزیر اعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ جب تک شاہراہ بند ہے ہیلی کاپٹر سروس جاری رکھیں گے۔

    دوسری طرف کرم میں قیام امن کے لیے گرینڈ جرگے میں فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے، سڑکوں اور راستوں کو کھلوانے پر ڈیڈ لاک برقرار ہے، جب کہ 6 قبائل رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ وہ اپیکس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق معاہدے پر دستخط کے لیے تیار ہیں۔

  • ذیابیطس کے مریضوں کے لیے یہ اشیاء زہر قاتل ہیں، بُھول کر بھی نہ کھائیں

    ذیابیطس کے مریضوں کے لیے یہ اشیاء زہر قاتل ہیں، بُھول کر بھی نہ کھائیں

    شوگر یا ذیابیطس مرتے دم تک ساتھ رہنے والا مرض ہے جو ہر سال لاکھوں افراد کی جان لے لیتا ہے اور اس کا شکار کسی بھی عمر کا انسان ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے دل کے دورے، فالج، نابینا پن، گردے ناکارہ ہونے اور پاؤں اور ٹانگیں کٹنے کا خطرے سے لے کر الزائمر جیسی مہلک بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔

    ذیابیطس میں مریض کے جسم میں بلڈ شوگر (گلوکوز) کی سطح زیادہ ہوتی ہے، اس کی دو وجوہات ہوتی ہیں پہلی یہ کہ جسم میں زیادہ انسولین پیدا نہیں ہوتی ہے دوسری وجہ یہ کہ جسم کے خلیے انسولین کو مناسب طریقے سے تیار نہیں کرپاتے۔

    یہ ایک میٹابولک عارضہ ہے جسم میں شوگر لیول بڑھنے کے باعث خون کی شریانیں خراب ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بہت سے اعضاء کو بھی متاثر کرتا ہے، اسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ شوگر کے مریضوں کو کھانے پینے کے معاملے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر پھلوں میں کیلا آم اور انگور جیسے پھلوں سے اجتناب برتنا چاہیے۔

    اس حوالے سے ماہرین صحت بتاتے ہیں کہ دراصل کیلے، آم اور انگور جیسے پھلوں میں شوگر اور کاربوہائیڈریٹ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ان پھلوں کو کھانے سے بلڈ شوگر کی سطح تیزی سے بڑھ سکتی ہے۔

    اس کے ساتھ ذیابیطس کے مریضوں کو بھی پھلوں کا صحیح وقت پر استعمال کرنا چاہیے۔ صبح 10سے 11 بجے تک کا وقت پھل کھانے کے لیے اچھا سمجھا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ رات کو پھل کھانے سے جسم میں پانی کی کمی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    این سی بی آئی کے مطابق کیلے میں کاربوہائیڈریٹ ہوتے ہیں، جو خون میں شکر کی سطح کو بڑھاتے ہیں۔ اگر آپ کو ذیابیطس ہے، تو یہ ضروری ہے کہ آپ اپنی خوراک میں کاربوہائیڈریٹ کی مقدار سے آگاہ رہیں۔

    ایک درمیانے سائز کے کیلے میں 29 گرام کاربوہائیڈریٹ اور 112 کیلوریز ہوتی ہیں۔ کاربوہائیڈریٹ چینی، نشاستہ اور فائبر کی شکل میں ہوتے ہیں۔ ایک درمیانی سائز کے کیلے میں تقریباً 15 گرام چینی ہوتی ہے جو شوگر کے مریض کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ کاربوہائیڈریٹ آپ کے خون میں شکر کی سطح کو دیگر غذائی اجزاء کے مقابلے میں زیادہ بڑھاتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ آپ کے خون میں شکر کی سطح کو بہت زیادہ متاثر کر سکتے ہیں۔

    این سی بی آئی کے مطابق ذیابیطس کے مریض محدود مقدار میں آم کھا سکتے ہیں لیکن انہیں ہوشیار رہنا ہوگا، کیونکہ آم خون میں شوگر کی سطح کو بڑھا سکتا ہے۔ درحقیقت آم میں شوگر کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو خون میں شوگر کی سطح کو بڑھا سکتی ہے۔ تاہم آم میں فائبر اور اینٹی آکسیڈنٹس بھی ہوتے ہیں جو خون میں شکر کی سطح کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

    اس کے ساتھ ساتھ آم کا گلیسیمک انڈیکس (جی آئی) 51 ہے جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے کم اور محفوظ سمجھا جاتا ہے لیکن خیال رہے کہ آم کھانے سے پہلے اپنے بلڈ شوگر لیول کو چیک کریں اور اپنے معالج سے مشورہ بھی لازمی لیں۔

  • کون سا گوشت کھانا ذیابیطس کے خطرے کا سبب ہے؟

    کون سا گوشت کھانا ذیابیطس کے خطرے کا سبب ہے؟

    جب ہمارا جسم خون میں موجود شوگر کی مقدار کو جذب کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تو یہ کیفیت ذیابیطس نامی مرض کو جنم دیتی ہے اس کی دوسری قسم ٹائپ ٹو ذیابیطس ہے جس میں جسم مناسب انسولین پیدا نہیں کرپاتا۔

    ذیابیطس کا شمار دائمی بیماریوں میں کیا جاتا ہے، جو اگر لاحق ہو جائے تو پھر یہ زندگی بھر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ہر سال تقریباً پندرہ لاکھ لوگ اس بیماری کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    یہ بیماری اس وقت لاحق ہوتی ہے جب جسم گلوکوز (شکر) کو حل کر کے خون میں شامل نہیں کر پاتا، جس کی وجہ سے فالج، دل کے دورے، نابینا پن اور گردے ناکارے ہونے سمیت مختلف بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

    اس حوالے سے ایک نئی تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پروسیس شدہ اور سرخ گوشت کھانے سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    sugar

    انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسروں نے 20 ممالک میں 31 مطالعات کے 1.97 ملین لوگوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جن میں 18 غیر شائع شدہ مطالعات بھی شامل تھے۔ محققین نے شرکاء کی عمر، جنس، صحت سے متعلق عادات، توانائی کی مقدار اور جسمانی حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیق کی۔

    اس تحقیق میں محققین نے پایا کہ روزانہ 50 گرام پروسیس شدہ گوشت کھانے سے اگلے دس سالوں میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا 15 فیصد سے زیادہ خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ روزانہ 100 گرام غیر پروسیس شدہ سرخ گوشت (جیسے کہ ایک چھوٹا اسٹیک) کے ساتھ یہ خطرہ 10 فیصد زیادہ تھا، اسی طرح 100 گرام مرغی کے روزانہ استعمال کے ساتھ یہ خطرہ 8 فیصدزیادہ تھا۔

    تحقیق کی سینئر مصنف نِتا فوروہی، جو کیمبرج یونیورسٹی میں میڈیکل ریسرچ کونسل ایپیڈیمولوجی یونٹ سے وابستہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق پروسیس شدہ اور غیر پروسیس شدہ سرخ گوشت کھانے اور ٹائپ 2 ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے درمیان سب سے جامع ثبوت فراہم کرتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ یہ تحقیق پروسیس شدہ گوشت اور غیر پروسیس شدہ سرخ گوشت کی مقدار کو کم کرنے کی حمایت کرتی ہے تاکہ ٹائپ 2 ذیابیطس کے کیسز کو کم کیا جا سکے۔

    فوروہی نے کہا کہ مرغی کے استعمال اور ٹائپ 2 ذیابیطس کے درمیان تعلق ابھی تک غیر یقینی ہے اور اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    ٹائپ 2 ذیابیطس اس وقت ہوتا ہے جب جسم مناسب مقدار میں انسولین پیدا نہیں کرتا یا انسولین کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتا۔ امریکا میں 38 ملین سے زیادہ افراد تقریباً 10 میں سے 1 فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے، جو ملک میں موت کی آٹھویں سب سے بڑی وجہ ہے۔

    پہلے کی جانے والی تحقیق کے مطابق روزانہ ایک سے زیادہ بار سرخ گوشت کا استعمال ٹائپ 2 ذیابیطس کے 62 فیصد سے زیادہ خطرے میں اضافہ کر سکتا ہے۔

    تاہم امریکا کے محکمہ زراعت نے روزانہ گوشت، مرغی اور انڈے کی کھپت کو 4 اونس تک محدود کرنے کی تجویز دی ہے کہ پروسیس شدہ گوشت کو ہفتے میں ایک بار سے زیادہ نہیں کھانا چاہیے۔

  • ملک میں ایک بار پھر جان بچانے والی دواؤں کی قلت

    ملک میں ایک بار پھر جان بچانے والی دواؤں کی قلت

    کراچی: ملک میں ایک بار پھر جان بچانے والی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی سمیت ملک بھر میں ایک بار پھر مختلف اقسام کی انسولین سمیت دیگر دوائیں مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے، دواؤں کی قلت کے باعث مختلف امراض میں مبتلا مریضوں کو  مشکلات کا سامنا ہے۔

    ڈرگ انسپکٹرز نے انکشاف کیا کہ کراچی میں انسولین سمیت 27 دوائیں اسٹورز پر دستیاب نہیں، جس کے بعد سندھ کے ڈرگ انسپکٹرز کو عدم دستیاب ادویات کا سروے کرنے کا حکم دے دیا گیا۔

    سیکرٹری صوبائی ڈرگ کوالٹی کنٹرول بورڈ سندھ سید عدنان رضوی نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کو خط لکھا ہے جس میں کراچی میں ہونے والی دواؤں کی قلت سے متعلق آگاہ کیا ہے۔

    حکام کا اس حوالے سے مزید کہنا ہے کہ اسلام آباد اور گرد و نواح میں بھی 30 اہم دوائیں مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے جس میں اینٹی بائیوٹکس، نفسیاتی و دماغی امراض، دمے کی دوائیں شامل ہیں، جبکہ ٹیٹنس کے انجکشن اور مختلف اقسام کے انہیلرز کی شدید قلت ہے۔

    دوسری جانب ڈریپ حکام نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں دواؤں کی کوئی قلت نہیں ہے سپلائی چین کے ایشوز ہو سکتے ہیں، ہفتہ وار بنیاد پر دواؤں کی موجودگی کا سروے کراتے ہیں، انسولین وافر مقدار میں موجود ہے اور دستیاب ہے۔

  • ماہ رمضان میں ذیابیطس کیسے کنٹرول کی جائے ؟

    ماہ رمضان میں ذیابیطس کیسے کنٹرول کی جائے ؟

    ہر سال کی طرح ماہ رمضان کی آمد کا انتظار اس بار بھی مذہبی جوش جذبے کے تحت کیا جارہا ہے تاکہ فرزندان توحید اپنے روزے اور عبادات رب کے حضور پیش کرسکیں۔

    اس مبارک مہینے میں ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مکمل روزے رکھے تاہم ذیابیطس کے مریض اس سلسلے میں پریشانی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو رمضان میں اضافی احتیاط برتنی چاہیے اور اپنے خون میں شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب خوراک لینی چاہیے ورنہ ان کی شوگر کا لیول کبھی ہائی تو کبھی لو رہتا ہے۔

    ذیابیطس کے ماہر معالج اپنے تجربے کے پیش نظر بتاتے ہیں کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی سب ذیادہ جس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ذیابیطس کے مریض روزے رکھ سکتے ہیں؟

    اگر آپ بھی اس سوال کا جواب جاننا چاہتا ہے تو یہ مضمبون آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

    معالجین کا کہنا ہے ذیابیطس میں جسم میں شوگر کی مقدار زیادہ یا کم ہو جاتی ہے، یہ ایسا مرض ہے جسے ختم تو نہیں کیا جاسکتا البتہ کنٹرول ضرور کیا جاسکتا ہے اور اسے قابو کرنے کے لیے ادویات کا سہارا لیا جاتا ہے،عمومی طور پر ان دواؤں کا ساتھ ساری عمر کے لیے ہوتا ہے۔

    ذیابیطس کے شکار افراد کی بڑی تعداد اپنے ڈاکٹر کی نصیحت کے برعکس رمضان میں روزہ رکھتی ہے جبکہ ایسے افراد کے لیے انتہائی اہم ہے کہ وہ اپنی بیماری کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری اقدامات کریں تاکہ جتنا محفوظ ممکن ہوسکے روزہ رکھ سکیں۔

    ذیابیطس کے مریض اپنے معالج کے مشورے، شوگر لیول کی مسلسل نگرانی اور دواؤں کی مقدار میں معمولی ردّوبدل کے بعد روزہ رکھ سکتے ہیں تاہم کچھ ضروری معلومات کا جان لینا نہایت ضروری ہے۔

    کیا ذیابیطس کے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں؟

    ایسے مریض جو انسولین پر نہ ہوں اور ذیابیطس نے ابھی ان کے دیگر اہم جسم اعضاء کو نقصان نہ پہنچایا ہو، معمولی احتیاط اور دواؤں کی مقدار میں معمولی رددوبدل کے بعد روزہ رکھ سکتے ہیں۔

    تاہم ایسے مریض جو انسولین پر ہوں اورذیابیطس نے اُن کے کسی اہم جسمانی اعضاء کو بھی نقصان پہنچایا ہو تو ایسے مریض معالج کی خصوصی نگرانی، شوگر لیول کی سختی سے جانچ پڑتال اور انسولین کے یونٹس میں رددوبدل کے ساتھ روزہ رکھ سکتے ہیں۔

    ایک عام غلطی

    زیابیطس کے مریض رمضان کے مہینے میں اپنی دواؤں کے وقت اور مقدار میں ایک سنگین غلطی کرتے ہیں جس کے باعث روزے کے دوران شوگر لیول خطرناک حد تک کم ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔

    عمومی طور پر شوگر کم کرنے والی دواؤں کی زیادہ مقدار ناشتے سے قبل لی جاتی ہے کیوں کہ اس کے بعد صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا شام کی چائے اور رات کا کھان کھانا ہوتا ہے جب کہ رات کے کھانے سے قبل دوا کی کم مقدار لی جاتی ہے کیوں کہ اس کے بعد صرف رات کا کھانا ہوتا ہے اور سونے کے دوران شوگر ویسے ہی کم ہوتی ہے۔

    رمضان میں مریض یہ غلطی کرتے ہیں کہ ناشتے سے قبل والی دوا کی مقدار سحری میں اور رات والی دوا کی مقدار افطاری میں لے لیتے ہیں اور یوں لو شوگر لیول کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    روزہ کے دوران دوا کی ترتیب

    انسولین یا گولیوں کی وہ مقدار جو عام دنوں میں ناشتے سے قبل لی جاتی ہو وہ رمضان میں افطار کے وقت لی جائے اور جو مقدار عام دنوں میں رات کے کھانے سے قبل لی جاتی ہے وہ سحری کے اوقات میں لے لی جائے تو شوگر لیول کم ہونے کے خدشات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

  • شوگر کے مریضوں کو انسولین فراہم کرنے والی نئی ڈیوائس تیار

    شوگر کے مریضوں کو انسولین فراہم کرنے والی نئی ڈیوائس تیار

    ذیابیطس تاحیات ساتھ رہنے والے ایسی طبی حالت ہے جو ہر سال لاکھوں افراد کو اپنا شکار بناتی ہے اور یہ کسی کو بھی لاحق ہو سکتی ہے۔پاکستان کی اگر بات کی جائے لاکھوں افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق سائنس دانوں نے ذیابیطس کے مریضوں کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک نئی ڈیوائس بنائی ہے جو ٹائپ 1 ذیا بیطس میں مبتلا افراد کے زیر استعمال انسولین انجیکشن کی جگہ لے لے گی۔

    امریکا کے میسا چوسیٹس اِنسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے محققین کی جانب سے یہ کارنامہ سر انجام دیا گیا ہے، انہوں نے چیونگ گم کے سائز کی ایک ڈیوائس تیار کی ہے، جو شوگر کے مریضوں کے جسم میں انسولین بنانے والے خلیے داخل کرنے کے ساتھ اس عمل کے لیے ضروری آکسیجن کو لامحدود مقدار میں فراہم کرسکتی ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق یہ ڈیوائس (جس کی آزمائس جلد ہی انسان پر کیے جانے کا منصوبہ ہے) مطلوبہ پروٹین کی فراہمی کے ذریعے دیگر بیماریوں کے علاج کے طور پر بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔

    اس ڈیوائس کو سب سے پہلے چوہوں پر آزمایا گیا تھا، جس کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ یہ ڈیوائس ذیا بیطس کے مریضوں کو ان کے بلڈ شوگر کی مقدار اور انسولین کا انجیکشن لگانے کی مجبوری ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    ڈاکٹر ڈینیئل کے مطابق اس کو ایک زندہ میڈیکل آلے کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے جو انسانی خلیوں سے بنا ہے اور انسولین خارج کرتا ہے ساتھ ہی اس میں ایک برقی لائف سپورٹ سسٹم بھی ہے۔اس کے سبب شوگر کے مریضوں کو بڑی سہولت مل جائے گی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ عوام کی اکثریت انسولین پر انحصار کرتی ہے اور انسولین کے انجیکشن لگاتے ہیں لیکن ان کی بلڈ شوگر سطح صحت مند نہیں ہوتی۔ اگر ان کے بلڈ شوگر مقدار کو دیکھا جائے (ان کے بھی جو بہت احتیاط برتتے ہیں) تو انسولین وہ کام نہیں کرسکتی جو فعال پتہ کر سکتا ہے۔

    ماہرین کو انسولین پیدا کرنے والے ٹرانسپلانٹڈ خلیوں کو مناسب آکسیجن کے ساتھ سپلائی کرنے کے حوالے سے مشکلات درپیش تھیں، تاہم اس مسئلے کو ایم آئی ٹی کے سائنس دانوں نے جسم میں آبی بخارات کو اس کے اجزا (ہائڈروجن اور آکسیجن) میں توڑنے کا سراغ لگا کر حل کیا۔

  • ملک بھر میں انسولین کا بحران، انفلوئنزا ویکسین بھی غائب

    ملک بھر میں انسولین کا بحران، انفلوئنزا ویکسین بھی غائب

    کراچی: ملک بھر میں انسولین کا بحران پیدا ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے شوگر کے مریض پریشان ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق شوگر کے مریضوں کے لیے انسولین کا اسٹاک ختم ہونے کے باعث کراچی سمیت ملک بھر میں لاکھوں مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے، موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انفلوئنزا ویکسین بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔

    ماہرین صحت کہتے ہیں کہ شوگر کے مریضوں کے لیے ادویات اور ویکسین کی بروقت فراہمی لازمی ہے، ان کا تسلسل ٹوٹنے سے مریض کے لیے صحت کے سنگین مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

    مارکیٹ میں اس وقت (M.N) اور 70-30 رینج کی انسولین صرف بلیک میں فروخت کی جا رہی ہے، انسولین 70-30 بنانے والی کمپنی نے اپنا نظام دوسرے ادارے کو دے دیا ہے، جس کے وجہ سے نظام متاثر ہوا اور شارٹ فال پیدا ہوا، اور ہر بار کی طرح شارٹ فال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے موقع پرستوں نے قیمتیں بڑھا دی ہیں۔

    انفلوئنزا ویکسین بھی مارکیٹ سے غائب کر دی گئی ہے، شہر کے مختلف میڈیکل اسٹورز پر بھی مطلوبہ اسٹاک نہ ہونے کے سبب مریضوں کو متبادل ویکسین فراہم کرنے کی تجویز دی جاتی ہے، تاہم مریض متبادل ویکسین استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں۔

    واضح رہے کہ ڈالر کی قیمت کنٹرول نہ ہونے کے سبب کم و بیش 40 کثیر القومی کمپنیاں اپنا کاروبار بند کر چکی ہیں، جس کی وجہ سے ویکسین سمیت دیگر ادویات کی کمی کا سامنا ہے۔

    ادھر سی ای او ڈریپ عاصم رؤف نے کہا ہے کہ سرنج سے لگانے والی انسولین 70-30 کی قلت آئی ہے، جب کہ انسولین کارٹیلیج دستیاب ہے، سرنج سے لگائی جانے والی انسولین 70-30 امریکا سے امپورٹ کی جاتی ہے، ادویات کی قیمتوں میں 107 فی صد اضافہ سی پی آئی کا حصہ ہے، لیکن اگر کوئی دکان دار اضافی پیسے لیتا ہے تو ہماری ٹاسک فورس ٹیم اس کی شکایت پر ایکشن لیتی ہے۔

  • ایک غلط ٹویٹ نے انسولین کی ہوشربا قیمت پر بحث کو جنم دے دیا

    ایک غلط ٹویٹ نے انسولین کی ہوشربا قیمت پر بحث کو جنم دے دیا

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جعلی اکاؤنٹس کو بلیو ٹک مارک جاری ہونے کے بعد ایک جعلی اکاؤنٹ نے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے انسولین کے حوالے سے غلط ٹویٹ کیا، اور اس ٹویٹ نے انسولین کی ہوشربا قیمتوں پر بحث کو جنم دے دیا۔

    اردو نیوز کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جعلی اکاؤنٹس کو بلیو ٹک مارک جاری ہونے سے نہ صرف امریکی دوا ساز کمپنی کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا، بلکہ اس کے ساتھ ہی انسولین کی زیادہ قیمت کی جانچ پڑتال بھی شروع ہوگئی۔

    ٹویٹر کی جانب سے بلیو ٹک مارک حاصل کرنے کے لیے 8 ڈالر کی سبسکرپشن کے آغاز اور تصدیق شدہ جعلی اکاؤنٹس کے بے تحاشہ اضافے کے بعد امریکی دوا ساز کمپنی ایلی للی کے حصص کی قیمت انتہائی کم ہوگئی۔

    کمپنی ایلی للی کے تصدیق شدہ جعلی اکاؤنٹ سے غلط معلومات پر مبنی ایک ٹویٹ کی گئی جس میں کہا گیا کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے استعمال ہونے والی انسولین مفت فراہم ہوگی۔

    اس ٹویٹ کے بعد کمپنی نے صارفین سے معافی مانگتے ہوئے وضاحتی بیان جاری کیا کہ گمراہ کن پیغام للی کے جعلی اکاؤنٹ سے جاری ہوا تھا، لیکن جعلی اکاؤنٹ سے ہونے والی اس غلط ٹویٹ نے انسولین کی اضافی قیمتوں سے متعلق ایک اور بحث کو جنم دیا ہے۔

    قاسم رشید نامی امریکی وکیل نے ٹویٹ کی کہ کمپنی کو اصل میں جان بچانے والی انسولین کی قیمت زیادہ کرنے پر معافی مانگنی چاہیئے۔

    پبلک سٹیزن نامی سماجی تنظیم سے منسلک پیٹر میبردوک نے کہا کہ ایلی للی کے اصلی اکاؤنٹ کے بجائے نقلی اکاؤنٹ سے جاری ہونے والی معلومات شاید حقیقت کے قریب ترین ہیں۔

    امریکا میں گزشتہ دہائیوں کے دوران انسولین کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، جبکہ 32 زیادہ آمدنی والے ممالک کے مقابلے میں انسولین کی قیمت امریکا میں 8 گنا زیادہ ہے۔

    اکتوبر میں جاری ہونے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ذیابیطس کا شکار ہر چار جواب دہندگان میں سے ایک ایسا تھا جسے مالی مشکلات کے باعث انسولین کے استعمال میں وقفہ دینا پڑتا ہے۔

    14 نومبر کو ذیابیطس کے عالمی دن کے موقع پر سماجی تنظیم پبلک سٹیزن نے امریکی کانگریس کو ایک خط بھی لکھا جس میں انسولین کی قیمت کم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

    ادویات کی قیمتوں پر نظر رکھنے والے پیٹر میبردوک کا کہنا ہے کہ بہت عرصے سے اس کی اشد ضرورت تھی کہ انسولین سب کو فراہم کی جائے اور یقیناً یہ مفت ہونی چاہیئے۔

    جعلی اکاؤنٹ سے غلط معلومات پھیلنے کے بعد ایلی للی نے ٹویٹر کے نمائندوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ اکاؤنٹ کو ہٹایا جائے تاہم کئی گھنٹوں تک ٹوئٹر سے رابطہ ہی نہیں ہو سکا۔

    جمعے کو ایلی للی نے احکامات جاری کیے کہ ٹویٹر پر کوئی اشتہارات نہ لگائے جائیں۔

    اس کے علاوہ دفاعی ساز و سامان بنانے والی بڑی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن سمیت دیگر کے تصدیق شدہ نقلی ٹویٹر اکاؤنٹس بننے کے بعد کمپنیوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، جمعے کو ٹویٹر نے تصدیق شدہ اکاؤنٹس کو بلیو ٹک مارک جاری کرنے کے لیے 8 ڈالر کا سبسکریشن پلان عارضی طور پر روک دیا تھا۔

  • پاکستان نے انسولین یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کر دیا

    پاکستان نے انسولین یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کر دیا

    اسلام آباد: پاکستان نے انسولین کی دریافت کے سو سال پورے ہونے پر ڈاک ٹکٹ جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز نے انسولین دریافت کی 100 ویں سال گرہ پر یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔

    وزارت صحت کا کہنا ہے کہ یہ ڈاک ٹکٹ وزارت صحت، مواصلات اور پاکستان پوسٹ نے مشترکہ طور پر جاری کیا ہے، ڈاک ٹکٹ میں بینٹنگ اور چارلس کی تصاویر شامل ہیں۔

    وزارت صحت کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے بارے میں مناسب آگاہی نہیں ہے، یادگاری ڈاک ٹکٹ عوام میں شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ انسولین کی دریافت اہم ترین طبی پیش رفت میں سے ایک ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2019 میں 463 ملین افراد ذیابیطس میں مبتلا تھے، اور 2030 تک یہ تعداد 578 ملین تک پہنچ جائے گی۔

    ذیابیطس کے شکار افراد کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے، پاکستان میں 4 افراد میں سے 1 فرد ذیابیطس میں مبتلا ہے، بہت سے افراد ذیابیطس کی تشخیص کے وقت پہلے ہی پیچیدگیوں کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔

    وزارت صحت کے مطابق ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد تشویش ناک شرح سے بڑھتی جا رہی ہے، ذیابیطس کے باعث خاندان اور معاشروں پر بوجھ پڑتا ہے۔