Tag: انشائیہ

  • تیرے دیوانے یہاں تک پہنچے​!

    تیرے دیوانے یہاں تک پہنچے​!

    بستیاں سوالوں کے انبوہ میں گھری ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی وہ مسئلے ہیں جن سے ساری دنیا دوچار ہے۔ ہر مسئلہ اپنے سے بڑے مسئلے کا حل چاہتا ہے اور یہ دائرہ پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ اگر ہماری آںکھوں پر پٹی بندھی ہوئی، زبان گل نہیں گئی ہے اور عقل کو جنون نہیں ہو گیا ہے تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم زندگی کی ان تیز و تند حقیقتوں سے بھاگ کر اپنے اندر پناہ لینا چاہیں؟

    مشاہیرِ ادب کی تحریریں پڑھنے کے لیے لنک کھولیں
    مسئلوں کے اس ہجوم میں انسانیت کے کھوے چھل گئے ہیں۔ تم ذرا دیکھو تو انسانیت کی جواں ہمتی پر کس قدر بوجھ ڈال دیا ہے، پَر انسانیت کا یہ قافلہ افتاں و خیزاں برابر آگے بڑھ رہا ہے جانتے نہ جانتے اور سب کچھ جان کر انجان بننے کے درمیاں ایک جنگ ہے جو صدیوں سے جاری ہے۔ آج بھی سچائی کو جھٹلایا جاتا ہے پر ایسا ہے کہ لہجے کی کھوٹ اور کپٹ اب چھپائے نہیں چھپتی۔ انسان کی تمام بد بختیوں نے نادانی اور ناحق کوشی کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ جھگڑا بس یہ ہے بعض مسخرے اس کرۂ ارض پر سر کے بل چلنا چاہتے ہیں۔ ہم نے انھیں ٹوکا اور برابر ٹوکتے رہیں گے۔ یہ ملکوں اور قوموں کا جھگڑا نہیں ہے قدروں کا جھگڑا ہے۔

    انسانیت ایک خاندان ہے، نہ اس میں کوئی امتیاز ہے اور نہ تفریق۔ جو تفریق پیدا کرتے ہیں وہ اس مقدس خاندان میں شامل نہیں۔ لکھنے والوں اور بولنے والوں کا جتنا بھی مقدور ہو اس کے مطابق عالمگیر سماج کے قیام کی کوشش کرنا ان کا سب سے پہلا فرض ہے۔ یہ وہ مقصد ہے جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ جب ہم امریکا یا انگلستان کو برا کہتے تو وہاں کے شریف عوام اور دانشور مراد نہیں ہوتے وہ ہمارے خاندان کے محترم رکن ہیں۔

    انسانیت دشمن چاہے پاکستان کے رہنے والے ہوں یا امریکا اور انگلستان کے وہ ہماری نفرت کے یکساں طور پر مستحق ہیں۔ دنیا میں صرف دو عقیدے پائے جاتے ہیں۔ انسانیت اور انسانیت دشمن اور صرف دو قومیں رہتی ہیں انسان اور انسان دشمن۔ یہ دنیا کے ہر حصے میں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں۔ یہ شاید ایک اتفاق ہے کہ ہمیں ایک ایسے دور میں اپنے انسانی فرض کی بجا آوری کا موقع ملا ہے۔ جن انسانیت کے دشمنوں نے مغرب کو اپنا مرکز قرار دیا ہے اگر یہ مرکزیت مشرق کو حاصل ہو جائے تو پھر ہماری تمام سخت کلامیوں کا ہدف مشرق قرار پائے گا۔

    پیشہ ور مجرموں کے اس عالمی جتھے سے خبردار رہو جو نہ مغرب کا دوست ہے اور نہ مشرق کا۔ تمہاری تمام مصیبتوں اور محرمیوں کے ذمے دار یہی لوگ ہیں۔ یہ اور ان کے خیرخواہ انساںوں کو بہلانے اور بہکانے کے ہنر میں طاق ہیں۔ دیکھو صرف اچھی باتوں ہی کو اپنا مداوا نہ سمجھو۔ صرف باتوں سے بدن پر گوشت نہیں چڑھتا۔ ان جھوٹے اور باتونی چارہ گروں کی باتوں میں نہ آنا۔ یہ تمہیں محض خوش آیند لفظوں پر قانع رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر زندہ رہنا ہے تو ایسی قناعت سے پناہ مانگو۔ اور ہاں عالمی اُخوت کے جعلی نعروں کا فریب کبھی نہ کھانا۔ کچھ لوگ ہیں جو اس باب میں بہت عجیب باتیں کرتے ہیں۔ یہ اپنے سرپرستوں سے کچھ کم نہیں ہیں۔

    لو انھیں پہچانو! یہ گروہ اپنے ذاتی عقیدے کو دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ انھیں اس کی کوئی فکر نہیں کہ ایک شخص فاقے کی آگ میں جل رہا ہے۔ انھیں اس بات سے سروکار ہے کہ وہ ان کا عقیدہ تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ یہ حضرات زمین اور اس کے معاملوں سے بہت بلند ہیں۔ انھوں نے تو آسمانوں کو گویا پہن لیا ہے۔ ان کے مقدس عقیدے کا نہ کوئی وطن ہے اور نہ کوئی زبان۔ یہ بستیوں کو، اُمنگوں کو بجھا دینا چاہتے ہیں۔ عالمی سماج کا نظریہ تمھیں وطن دشمنی اور اپنی تہذیب سے غداری کرنے کی تعلیم نہیں دیتا۔ مگر جس عالمی اُخوت کا نعرہ یہ لوگ بلند کرتے ہیں اس کا حاصل یہ ہے کہ تم اپنی آزادی استحکام حبِ وطن سماجی سالیمت اور اپنی تخلیقی انا سے یکسر دستبردار ہو جاؤ۔ اچھا فرض کرو کہ ان کا مطلب یہ نہیں ہے اور ہم بہتان تراشی سے کام لے رہے ہیں، پر یہ سوچو کہ اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں اور تم اپنی زبان تہذیب اور اپنے وطن سے یکسر بیگانہ ہو جاؤ تو اس کا فائدہ کون اٹھائے گا، تم یا تمہارے دشمن؟

    یقین کر لو اس کا فائدہ تمہارے دشمن اٹھائیں گے جو خود ان حضرات کے دوست نہیں ہیں۔

    کچھ لوگ ہیں جو اس ملک کو برا کہہ کر ہی سکون پاتے ہیں۔ ایسے لوگ صرف یہیں پائے جاتے ہیں۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو ایسے لوگوں کو اپنے درمیان پائے اور انھیں برداشت کرتی رہے۔ جنھیں اس قوم پہ غصہ آتا ہے، ان کا احترام کرو، ان کے سامنے محبت اور عقیدت سے گردنیں جھکاؤ مگر جو صرف برائی کرنا اور پاکستان کی تحریک کو طعنے دینا جانتے ہیں، انھیں نمک حرام اور غدار جانو کہ بروں کو برا کہنا اور سمجھنا بھی بڑی نیکی ہے۔

    (مقبول شاعر اور نثر نگار جون ایلیا کی ادبی پرچے انشاء کے جنوری 1963 کے شمارے میں شایع ہونے والی فکر انگیز تحریر)​

  • دستر خوان:‌ عزیز ترین ثقافتی ورثے سے عزیزانِ مصر کا سا سلوک (انشائیہ)

    دستر خوان:‌ عزیز ترین ثقافتی ورثے سے عزیزانِ مصر کا سا سلوک (انشائیہ)

    ایک زمانہ تھا کہ اہلِ وطن فرش پر دستر خوان بچھاتے، آلتی پالتی مار کر بیٹھتے اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھانا کھاتے۔ پھر جو زمانہ بدلا تو ان کے نیچے کرسیاں اور سامنے میز بچھ گئی جس پر کھانا چُن دیا جاتا۔ پہلے وہ سَر جوڑ کر کھاتے تھے اب سَروں کے درمیان فاصلہ نمودار ہوا اور روبرو بیٹھا ہوا شخص مدّ مقابل نظر آنے لگا۔

    مگر زمانہ کبھی ایک حالت میں قیام نہیں کرتا۔ چنانچہ اب کی بار جو اس نے کروٹ لی تو سب سے پہلے پلیٹ کو ہتھیلی پر سجا کر اور سرو قد کھڑے ہو کر طعام سے ہم کلام ہونے کی روایت قائم ہوئی۔ پھر ٹہل ٹہل کر اس پر طبع آزمائی ہونے لگی۔ انسان اور جنگل کی مخلوق میں جو ایک واضح فرق پیدا ہو گیا تھا کہ انسان ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا تھا جب کہ جنگلی مخلوق چراگاہوں میں چرتی پھرتی تھی اور پرندے دانے دُنکے کی تلاش میں پورے کھیت کو تختۂ مشق بناتے تھے، اب باقی نہ رہا اور مدتوں کے بچھڑے ہوئے سینہ چاکانِ چمن ایک بار پھر اپنے عزیزوں سے آ ملے۔

    اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کیا ہماری تہذیب کا گراف نیچے سے اوپر کی طرف گیا ہے تو میں کہوں گا کہ بے شک ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے، کیونکہ ہم نے فرش پر چوکڑی مار کر بیٹھنے کی روایت کو ترک کر کے کھڑے ہو کر اور پھر چل کر کھانا کھانے کے وطیرے کو اپنا لیا ہے جو چرنے یا دانہ دنکا چگنے ہی کا ایک جدید روپ ہے۔ کسی بھی قوم کے اوپر جانے یا نیچے آنے کا منظر دیکھنا مقصود ہو تو یہ نہ دیکھیے کہ اس کے قبضۂ قدرت میں کتنے علاقے اور خزانے آئے یا چلے گئے۔ فقط یہ دیکھیے کہ اس نے طعام اور شرکائے طعام کے ساتھ کیا سلوک کیا!

    بچپن کی بات ہے۔ ہمارے گاؤں میں ہر سال کپڑا بیچنے والے پٹھانوں کی ایک ٹولی وارو ہوتی تھی۔ یہ لوگ سارا دن گاؤں گاؤں پھر کر اُدھار پر کپڑا بیچنے کے بعد شام کو مسجد کے حجرے میں جمع ہوتے اور پھر ماحضر تناول فرماتے۔ وہ زمین پر کپڑا بچھا کر دائرے کے انداز میں بیٹھ جاتے۔ درمیان میں شوربے سے بھری ہوئی پرات بحرُ الکاہل کا منظر دکھاتی، جس میں بڑے گوشت کی بوٹیاں ننھے منے جزیروں کی طرح ابھری ہوئی دکھائی دیتیں۔ وہ ان بوٹیوں کو احتیاط سے نکال کر ایک جگہ ڈھیر کر دیتے اور شوربے میں روٹیوں کے ٹکڑے بھگو کر ان کا ملیدہ سا بنانے لگتے جب ملیدہ تیار ہو جاتا تو شرکائے طعام پوری دیانت داری کے ساتھ آپس میں بوٹیاں تقسیم کرتے اور پھر اللّٰہ کا پاک نام لے کر کھانے کا آغاز کر دیتے۔ وہ کھانا رُک رُک کر، ٹھہر ٹھہر کر کھاتے، مگر پشتو بغیر رُکے بے تکان بولتے۔ مجھے ان کے کھانا کھانے کا انداز بہت اچھا لگتا تھا۔ چنانچہ میں ہر شام حجرے کے دروازے میں آکھڑا ہوتا، انھیں کھانا کھاتے ہوئے دیکھتا اور خوش ہوتا۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر خوش ہوتے اور کبھی کبھی برادرانہ اخوّت میں لتھڑا ہوا ایک آدھ لقمہ یا گوشت کا ٹکڑا میری طرف بھی بڑھا دیتے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ان پٹھانوں کی پیش کش کو اگر کوئی مسترد کر دے تو اس کی جان کی خیر نہیں۔ اس لیے میں بادلِ نخواستہ ان کے عطا کردہ لقمۂ تر کو کلّے میں دبا کر آہستہ آہستہ جگالی کرتا اور تا دیر انھیں کھانا کھاتے دیکھتا رہتا۔ عجیب منظر ہوتا۔ وہ کھانے کے دوران میں کمال سیر چشمی کا مظاہرہ کرتے۔ ان میں سے جب ایک شخص لقمہ مرتب کر لیتا تو پہلے اپنے قریبی ساتھیوں کو پیش کرتا اور ادھر سے جزاکَ اللّٰہ کے الفاظ وصول کرنے کے بعد اسے اپنے منہ میں ڈالتا۔ اخوّت، محبت اور بھائی چارے کا ایک ایسا لازوال منظر آنکھوں کے سامنے ابھرتا کہ میں حیرت زدہ ہو کر انھیں بس دیکھتا ہی چلا جاتا اور تب میں دستر خوان پر کھانا کھانے کے اس عمل کا اپنے گھر والوں کے طرزِ عمل سے موازانہ کرتا تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی، کیونکہ ہمارے گھر میں صبح و شام ہانڈی تقسیم کرنے والی بڑی خالہ کے گردا گرد بچّوں کا ایک ہجوم جمع ہو جاتا۔ مجھے یاد ہے جب بڑی خالہ کھانا تقسیم کر رہی ہوتیں تو ہماری حریص آنکھیں ہانڈی میں ڈوئی کے غوطہ لگانے اور پھر وہاں سے برآمد ہو کر ہمارے کسی سنگی ساتھی کی رکابی میں اترنے کے عمل کو ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھتیں۔ اگر کسی رکابی میں نسبتاً بڑی بوٹی چلی جاتی تو بس قیامت ہی آ جاتی۔ ایسی صورت میں خالہ کی گرج دار آواز کی پروا نہ کرتے ہوئے ہم بڑی بوٹی والے کی تکا بوٹی کرنے پر تیار ہو جاتے اور چھینا جھپٹی کی اس روایت کا ایک ننھا سا منظر دکھاتے جو نئے زمانے کے تحت اب عام ہونے لگی تھی۔

    سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی روایت ہمارا عزیز ترین ثقافتی ورثہ تھا جس کے ساتھ ہم نے عزیزانِ مصر کا سا سلوک کیا اور اب یہ روایت اوّل تو کہیں نظر ہی نہیں آتی اور کہیں نظر آجائے تو مارے شرمندگی کے فی الفور خود میں سمٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس میں شرمندہ ہونے کی قطعاً کوئی بات نہیں۔ بلکہ میں کہوں گا کہ دستر خوان پر بیٹھنا ایک تہذیبی اقدام ہے جب کہ کھڑے ہو کر کھانا ایک نیم وحشی عمل ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو دائیں بائیں یا سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے آپ کے برادرانہ مراسم فی الفور استوار ہو جاتے ہیں۔ آپ محسوس کرتے ہیں جیسے چند ساعتوں کے لیے آپ دونوں ایک دوسرے کی خوشیوں، غموں اور بوٹیوں میں شریک ہو گئے ہیں۔ چنانچہ جب آپ کے سامنے بیٹھا ہوا آپ کا کرم فرما کمال دریا دلی اور مروت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پلیٹ کا شامی کباب آپ کی رکابی میں رکھ دیتا ہے تو جواب آں غزل کے طور پر آپ بھی اپنی پلیٹ سے مرغ کی ٹانگ نکال کر اسے پیش کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کھانا کھانے کے دوران لین دین کی وہ خوش گوار فضا از خود قائم ہو جاتی ہے جو ہماری ہزار رہا برس کی تہذیبی یافت کی مظہر ہے۔ ایک لحظہ کے لیے بھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوتا کہ سامنے بیٹھا ہوا شخص آپ کا مدّ مقابل ہے اور اگر آپ نے ذرا بھی آنکھ جھپکی تو وہ آپ کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کر جائے گا۔

    دستر خوان کی یہ خوبی ہے کہ اس پر بیٹھتے ہی اعتماد کی فضا بحال ہو جاتی ہے اور آپ کو اپنا شریکِ طعام حد درجہ معتبر، شریف اور نیک نام دکھائی دینے لگتا ہے۔ دوسری طرف کسی بھی بوفے ضیافت کا تصور کیجیے تو آپ کو نفسا نفسی خود غرضی اور چھینا جھپٹی کی فضا کا احساس ہو گا اور ڈارون کا جہدُ البقا کا نظریہ آپ کو بالکل سچا اور برحق نظر آنے لگے گا۔

    دستر خوان کی ایک اور خوبی اس کی خود کفالت ہے۔ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ آپ کی جملہ ضروریات کو بے طلب پورا کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ سامنے دستر خوان پر ضرورت کی ہر چیز موجود ہے حتیٰ کہ اچار چٹنی اور پانی کے علاوہ خلال تک مہیا کر دیے گئے ہیں۔ دستر خوان پر بیٹھنے کے بعد اگر آپ کسی کو مدد کے لیے بلانے پر مجبور ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو میزبان نے حقِ میزبانی ادا نہیں کیا یا مہمان نے اپنے منصب کو نہیں پہچانا۔

    سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر پوری دل جمعی سے بیٹھ کر کھانا کھانے اور بوفے ضیافت میں انتہائی سراسیمگی کے عالم میں کھانا زہر مار کرنے میں وہی فرق ہے جو محبت اور ہوس میں ہے، خوش بُو اور بد بُو میں ہے، صبح کی چہل قدمی اور سو گز کی دوڑ میں ہے!

    (ممتاز اردو نقّاد، انشائیہ نگار، اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیے بعنوان دستر خوان سے اقتباسات)

  • سمجھوتے کی چادر

    سمجھوتے کی چادر

    شکوک کے تمام مراحل بخوشی طے کیے شمع یوں مطمئن اور سرشار بیٹھی تھیں گویا کسی بہت ہی اہم فریضے سے سبک دوش ہو گئی ہوں، مگر ایسا ہرگز نہیں تھا۔
    اس سکون کے اندر ٹھاٹھیں مارتا سمندر اُنھیں اکسا رہا تھا اُس کارروائی کے لیے جس کا آغاز ان کی بدگمانی کی صورت میں ہو چکا تھا اور اب شمع سانپ کی طرح پھن پھیلائے اپنے شکار کو ڈسنے کی تیاری کر رہی تھیں جس نے اُن کا جینا عذاب کر رکھا تھا۔
    شمع کی عادت تھی کہ جب بھی کسی سے انتقام لینے کا تہیہ کر لیتیں پہلے اُسے مشکوک نظروں سے دیکھتیں اور پھر نگاہ کے تازیانے سے گھائل کر کے لسانی حربہ استعمال کرتیں۔ اُن کی حتّی الامکان کوشش یہی ہوتی کہ اپنے بے بنیاد شک کو یقین کی سرحد پر لاکھڑا کریں اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وہ اپنی اس کاوش میں کام یاب بھی ہو جاتیں۔کیسے؟ یہ جاننے کی خواہش تو مجھے بھی بہت شدت سے تھی مگر چونکہ میں اُن کی زبان درازی سے خائف بلکہ تائب بھی تھی اس لیے میرا تجسّس اپنی موت آپ مرجاتا۔ کئی بار میرے دل سے آواز آئی، دماغ نے دہائی دی کہ تم بہت بزدل ہو مگر میں ہر بار نفی میں گردن ہلا دیتی…. نہیں ایسا ہرگز نہیں، پھر کیا بات ہے؟ میں اپنے آپ سے سوال کرتی بلکہ لڑتی بھی تھی کہ اگر یہ کم ہمّتی نہیں تو اور کیا ہے؟ شاید یہ اپنی عزت کی پاس داری ہے۔
    چند اچھے لفظوں کا سہارا لے کر گویا میں خود کو محفوظ کر لیتی لیکن یہی تو میری بھول تھی۔ اُن کی نظر کا ایک صر ف ایک تیر میرے حوصلے پست کر کے مجھے عدم تحفظ کا احساس دلا دیتا تب میں بے بسی سے ہاتھ مل کے رہ جاتی۔ حتیٰ کہ اس ضمن میں میری سوچ بچار بھی لاحاصل ہوتی۔ پھر یوں ہُوا کہ میں نے اُن کے بارے میں سوچنا ہی ترک کر دیا کہ نہ اُن کا خیال آئے گا نہ ہی تکرار کا یہ لامتناہی سلسلہ مجھے اپنی گرفت میں لے کر پریشان کرے گا۔ جب کوئی تعلق ہی نہیں تو پھر وہ کیسے مجھے اپنا ہدف بنائیں گی؟ دل کو تسلی دے کر اپنے تئیں میں مطمئن ہو گئی تھی مگر یہی تو میری خام خیالی تھی۔
    میں جو اپنی دانست میں یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ میرا اُن سے کوئی واسطہ نہیں۔ نہیں جانتی تھی کہ میری بے خبری میں اُنہوں نے تیر چلایا تھا اور مجھ سے اپنے تعلق کی ڈور بہت مضبوط کر لی تھی۔ مگر کب اور کیسے؟ میں نے خود سے سوال کیا۔ اپنے سوال کا جواب تو مجھے نہ مل سکا ہاں یہ انکشاف ضرور ہو گیا کہ شمع نے مجھ سے وہ ناتا جوڑ لیا جو بے اطمینانی کی فضا میں سانس لیتا ہے اور رفتہ رفتہ انتقام کی آگ میں جل کر ایک دن شعلہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے۔ جی ہاں اُنہوں نے مجھ سے حسد کا رشتہ استوار کر لیا تھا۔ مگر کیوں؟
    تحقیق کرنے پر معلوم ہُوا کہ میرا اطمینان اُن کی نظروں میں خار بن کر کھٹکتا ہے، میری درگزر کی عادت انہیں پسند نہیں اور میں جو سمجھوتہ کرنے کی عادی ہوں اور اس وجہ سے نہ صرف خود پُرسکون رہتی ہوں بلکہ اوروں کو بھی شکایت کا موقع نہیں دیتی، انجانے میں اپنی اس عادت کی وجہ سے اُن کے لیے باعثِ تشویش بن گئی۔ کچھ اس طور کہ مجھ سے حسد کے عارضے میں مبتلا ہو کر انہوں نے مجھے اپنا شکار بنا لیا۔ اب وہ کسی بھی وقت اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر خود تو سکھ چین کا سانس لیں گی لیکن میرا تمام سکھ چین اپنی منتقم مزاجی کی نذر کر دیں گی۔
    اس خیال ہی نے میری نیندیں اُڑا دی تھیں۔ چونکہ میں اس امر سے بخوبی واقف تھی کہ شمع اپنے انتقام کی آگ میں لوگوں کو بھسم کر کے رکھ دیتی ہیں اور اب تو شاید میری راکھ بھی کسی کو نہ ملے۔ اس سے پہلے کہ میرے حواس معطل ہوجاتے ایک نکتہ اندھیرے میں روشنی کی کرن بن کر نمودار ہوا کہ ”اگر میں اُن کی سوچ کا رخ موڑ دوں تو؟ شاید اس طرح نہ صرف میرا بلکہ میرے طفیل بہت سوں کا بھلا ہو جائے گا۔“ مگر کسی کے مزاج کی تبدیلی کوئی آسان بات نہیں۔ اپنے ہی خیال کی تردید کر کے میں نے بے بسی سے سر تھام لیا، لیکن یوں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے بات نہیں بنے گی، وہ بھی اس صورت میں جب کئی بار میں خود کو یقین دلا چکی ہوں کہ میں بزدل نہیں، اگر یہ بزدلی نہیں تو اور کیا ہے؟ قدرے جھنجھلا کر میں نے اپنے آپ کو سرزنش کی۔
    اور پھر ہُوا یہ کہ جو کام ہفتوں بہت غور و فکر کے بعد بھی میں نہ کر پائی تھی وہ محض ایک پَل میں ہو گیا اور اگلی ہی ساعت میں حیرت انگیز مسرت اور نم آنکھوں سے شمع کو دیکھے گئی کہ اُن کے مزاج میں یہ تبدیلی آئی کیسے؟ ”اب تم گٹھلیاں کھانے نہ بیٹھ جاؤ بس آم سے لُطف اندوز ہو۔“ میرے دل نے مجھے بے نیازی کی ایک نئی راہ دکھائی تو میں بھی اس راہ پر چل نکلی مگر اس اعتراف کے ساتھ کہ بیشک
    تقدیر بدلتی ہے دعاؤں کے اثر سے
    بظاہر بات بہت معمولی سی تھی لیکن یہی شمع کے ستم گزیدوں کے لیے وجہِ رحمت بن گئی۔ نیلو کے گھر ہونے والی ون ڈش پارٹی میں شمع سرخ ٹیشو کی بھڑک دار ساڑھی باندھ کر گئی تھیں، اُنہیں دیکھ کر رانی کی دیورانی رفیعہ تمسخر سے مسکرائیں تب شمع نے حسبِ عادت اُن پر مشکوک نظر ڈالی تو اُنہیں بھی اپنی جانب متوجہ پایا اب عالم یہ تھا کہ دونوں ایک دوسرے پر مشکوک نگاہی کے تیر برسا رہی تھیں۔ رانی کی ساس تو پہلے ہی چھوٹی بہو کو حرفوں کی بنی کہتی ہیں اور اس گھڑی تو واقعی اُن کی رائے درست ثابت ہو گئی جب اُن کی حرافہ بہو نے سرِ محفل ایک مستند اور ماہر منتقم مزاج کے انتقام کی آگ سرد کر دی۔ محض ا تنا کہہ کر کہ ”بہن ایسی آگ برساتی کینہ توز، انتقامی اور مشکوک نظروں کی مار مجھے نہ مارو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ برق تم پر گر کے تمہیں راکھ ہی نہ کر ڈالے کہ مجھے لوگوں کا کچا چٹھا کھولنے میں مہارت ہے اور میں…“ ابھی رفیعہ کی بات نامکمل ہی تھی کہ شمع نے اُن کے آگے ہاتھ جوڑ کر ملتجی نظروں سے اُنہیں دیکھا تو وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔ جاتے جاتے شمع کا دف بھی مار گئیں کیونکہ اس روز تمام اہلِ محفل کے لیے یہ بہت حیرت انگیز بات تھی کہ شمع کی آنکھوں سے شک اور انتقام کی چنگاریاں ایک مرتبہ بھی نہیں پھوٹی تھیں۔
    بس اسی دن سے شمع کے انتقام کی آگ سرد پڑ گئی اور اُن کے شک سے مزین رویے اب اُن کے احباب کی اذیت کا باعث بھی نہیں بنتے۔ یہ خوش آئند بات سہی لیکن مجھ سمیت کئی لوگ جاننا چاہتے تھے کہ آخر وہ کون سی بات تھی جس نے شمع کو یوں بدل کر رکھ دیا تھا اور اس کا سراغ کوئی لگا ہی نہیں پا رہا تھا۔ شومئی قسمت کہ ایک روز سرِ راہ رفیعہ سے ملاقات ہوگئی۔ میں نے اُن ہی سے معلوم کیا کہ اُس روز نیلو کے گھر آپ نے شمع سے کیا کہا تھا کہ اُن کی بولتی بند کر کے کئی خواتین کی عزّت محفوظ کر لی۔“ رفیعہ نے بے ساختہ قہقہے برساتے ہوئے اطلاع دی کہ شمع کی ایک کمزوری میرے ہاتھ لگ گئی تھی بس اسی سے میں نے فائدہ اٹھا لیا۔ ایک ملاقات میں شمع کے منہ سے نکل گیا کہ ”رشک، حسد اور انتقام کی آگ میں جلتے رہنے کی عادت کی وجہ سے اب اکثر میری ہانڈی جل جاتی ہے جس کے نتیجے میں مجھے اپنے میاں کی جلی کٹی سُننی پڑتی ہیں اور آج تو اُنہوں نے صاف کہ دیا ہے کہ اگر اب مجھے جلی ہانڈی ملی تو تمہارے حق میں بہتر نہ ہوگا، ایسا نہ ہو کہ جلی ہانڈی کھلانے کے نتیجے میں تمہیں ہجر کی آگ میں جلنا پڑے۔“ یہی وہ ہتھیار تھا جو میں نے شمع پر آزمایا تھا۔ چوٹ بھی تازہ تھی اسی لیے اُنہوں نے ہتھیار ڈال دیے، کیونکہ شمع کی زبانی یہی سنتے تھے نا کہ اُن کے میاں اُنہیں سَر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، اور اُنہوں نے معدے کی راہ سے اُن کے دل میں اس طرح جگہ بنائی ہے کہ اب اور کسی خاتون کا کوئی بھی نسوانی حربہ اُن کے میاں جی کو زیر نہ کر سکے گا، اور یوں بھی طبعاً وہ بہت قانع ہیں، خاص کر کھانے کے معاملے میں کوئی نخرہ نہیں، جیسا کھلا دو ہنسی خوشی بغیر کہے سنے کھالیں گے۔“
    قصہ مختصر شمع کو خدشہ تھا کہ میں جو کہتی ہوں کرنے میں وقت بھی نہیں لگاتی۔ اور اگر اُن کے کہے الفاظ دہرا کر اپنا ہنر اُن پر آزما لیتی تو سرِ بزم اُن کی جو بھد اُڑتی تو وہ کبھی فخر سے سر نہ اُٹھا سکیں گی۔
    رفیعہ کی بات سن کر میں بے اختیار ہنستی چلی گئی۔ جی نہیں قارئین میں باؤلی ہرگز نہیں ہوئی تھی۔ میری ہنسی کا سبب تو صرف یہ تھا کہ میری جس عادت سے حسد کی بنا پر خاتون مجھے انتقام کا نشانہ بنانا چاہ رہی تھیں اب وہی عادت اُنہیں جبراً اختیار کرنی پڑ رہی تھی۔ درست سمجھے آپ قارئین! شمع نے اپنی ایک بھول کی سزا سمجھوتے کی صورت جھیلی تھی مگر مجھے اس خوف سے نجات دلا دی تھی جو تلوار کی طرح ہر دم میرے سر پر لٹکا رہتا تھا کہ جانے کب اور کیسے میرے سمجھوتے کی عادت سے حسد کی بنا پر خاتون بھری محفل میں میری تذلیل کر دیں گی۔ اب تو خود ہر پل اُن کے سَر پر سمجھوتے کی تلوار لٹکی رہتی ہے کیونکہ یہ تو وہ جانتی ہی ہیں کہ اگر شمع سیر ہیں تو رفیعہ سوا سیر۔ اور اُن کا یہی بھاری پلڑا اب شمع کو ہاتھ ہلکا رکھنے پر مجبور کر رہا تھا۔
  • کرشن چندر کی خیالی بینچ

    کرشن چندر کی خیالی بینچ

    انسان کے دل میں ایک شہر ہوتا ہے۔ اس کی گلیاں اور بازار ہوتے ہیں، جہاں یادوں اور مُرادوں کا ایک ہجوم رہتا ہے۔ اس کی دکانوں میں ہزاروں طرح کی تمنائیں بکتی ہیں، خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔

    اس کے کارخانوں میں محنت سانس لیتی ہے۔ اور اس کے باغوں میں کبھی کبھی چاند چمکتا ہے۔ اور پھول مہکتے ہیں اور آہستہ خرام جوڑے ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے خاموش نگاہوں سے محبّت کا پیام دیتے ہیں۔

    دل کا شہر بھی انسان کے شہر کی طرح بستا ہے۔ محنت کرتا ہے۔ کام کرتا ہے۔ ہنستا ہے اور روتا ہے۔ کبھی کبھی ایسے دن آتے ہیں جب ہر لمحہ عید ہوتا ہے۔ ہر یاد اک نیا جوڑا پہن کر نکلتی ہے۔ ہر تمنّا بنی سنوری ہتھلیوں میں حِنا کی منقش تصویریں سجائے، ہر اُمنگ ننھے ننھّے بچّوں کی طرح خوشی سے ہنستی ہوئی، کلکاریاں مارتی ہوئی ہر آرزو جوان اور بلند مستقبل کی خوشبو سے مہکتی ہوئی دل کی گلیوں اور بازاروں میں نکل آتی ہے۔ اور خوشیوں کے میلے میں اور مسرتوں کے ازدحام میں کھو جاتی ہے۔

    مگر آج اس شہر میں کیسا سناٹا ہے؟ آج دل کی پُر پیچ گلیوں اور بازاروں اور سڑکوں پر اندھیرا ہے۔ آج کہیں پر روشنی نہیں ہے۔ آج کوئی مراد نہیں چلتی، کوئی آرزو نہیں بکتی، کوئی اُمنگ نہیں ہنستی۔ آج سارے دریچے بند ہیں اور سارے دروازے مقفّل ہیں اور سارے بازار خالی ہیں۔ صرف کہیں کہیں نکڑ پر چند بوڑھی یادیں گزرے ہوئے ایّام کا سیاہ لبادہ اوڑھے ہوئے ایک دوسرے سے سرگوشی کر رہی ہیں۔

    آج سارا شہر خالی ہے۔ آج سڑکوں پر روشنی نہیں۔ باغوں میں چاند نہیں، پیڑوں میں پھول نہیں۔ آج وہ بینچ بھی خالی ہے جہاں ہم یادوں کی محفل سجایا کرتے تھے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آج کے بعد یہ بینچ ہمیشہ خالی رہے گا۔

    انسان کا دل بھی ایک عجیب شے ہے۔ وہ کسی یاد کو تو ایک خوشبو میں بدل دیتا ہے۔ جو زندگی بھر ایک ہی چوکٹھے میں جڑی، ایک ہی دیوار پر ٹنگی ایک ہی زاویے سے دکھائی دیتی چلی جاتی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے آج کے بعد میں اس باغ میں کبھی نہیں جا پاؤں گا۔ جہاں میں اپنے محبوب کے ساتھ خیالوں میں گھومنے جایا کرتا تھا۔ اس خیالی بینچ پر کبھی نہ بیٹھ پاؤں گا جہاں میرے ہاتھ خود بخود محبوب کے ہاتھوں میں آجاتے تھے۔

    نہیں، وہ خیالی بینچ آج کے بعد ہمیشہ خالی رہے گا۔

    (کرشن چندر کے ناول ‘باون پتّے’ سے مقتبس)

  • یہ ایک خط کا جواب ہے!

    یہ ایک خط کا جواب ہے!

    یہ ایک خط کا جواب ہے جو بلیماران دلّی کے کسی نسیم صاحب نے لکھا ہے۔ اپنے خط میں نسیم صاحب مجھ پر بہت برسے ہیں، خوب گالیاں دی ہیں، ایسی گالیاں جنہیں کھا کر میں بہت بدمزہ ہوا اور باتوں کے علاوہ مجھے انہوں نے گرہ کٹ کا بھائی چور کہا ہے۔

    صرف گالیوں پر اکتفا ہوتا تو شاید میں برداشت کر جاتا، لیکن انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر میں کبھی ان کے ہتھے چڑھ گیا تو میری ہڈی پسلی ایک کر دیں گے۔

    نسیم صاحب نے اپنے خط میں بڑے بھاری بھرکم الفاظ استعمال کئے ہیں۔ کچھ اس وزن کے الفاظ جو عبادت بریلوی صاحب اپنے تنقیدی مضامین میں کیا کرتے ہیں۔ ان کے وزن دار الفاظ سے مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ پہلوان قسم کے آدمی ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ایسے آدمی کے دل میں میرے لئے پرخاش کا خیال رہے، اس لئے میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے یہ خط لکھ رہا ہوں۔

    میرا خط پڑھنے سے پہلے نسیم صاحب کی ناراضگی کا پس منظر دیکھ لیجئے۔

    کچھ مہینے پہلے مرزا عبدالودود کے مزاحیہ مضامین کا پہلا مجموعہ "گٹھلیوں کے دام” شائع ہوا تھا۔ مرزا اپنی کتاب میرے پاس لائے تھے کہ میں اس پر تبصرہ کردوں۔ وہ تبصرہ دلّی کے رسالہ”گھامڑ” میں شائع ہوگیا، نسیم صاحب نے وہ تبصرہ پڑھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ "گٹھلیوں کے دام” مزاحیہ ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے، چنانچہ بیس روپے میں انہوں نے یہ کتاب خریدی اور جب کتاب پڑھی تو انہیں احساس ہوا کہ وہ ٹھگ لئے گئے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ کتاب پڑھ کر انہیں یوں لگا جیسے کسی نے ان کی جیب کاٹ لی ہو، جس میں بیس روپے تھے۔ اور چونکہ انہوں نے یہ کتاب میرے تبصرہ کی بناء پر خریدی تھی اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ میں اس جیب کترے کا رشتہ دار ہوں۔

    نسیم صاحب! آپ کے خط کو پڑھنے سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ کو کتاب پڑھنے کی تمیز تو شاید ہے۔ تبصرہ پڑھنے کی ہرگز نہیں ہے۔ میں نے ہرگز یہ نہیں لکھا کہ یہ کتاب مزاحیہ ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔ میں جانتا ہوں میں نے یہ بھی نہیں لکھا کہ مرزا عبدالودود کی کتاب بالکل واہیات چیز ہے۔ لیکن اگر میں اس طرح لکھتا تو مرزا اسی طرح میرے خون کے پیاسے ہوتے جیسے آج آپ ہیں، اور ماشاء اللہ ان کی صحت آپ کی صحت سے کسی لحاظ سے کم نہیں۔

    آئیے میں آپ کو تبصرہ پڑھنا سکھاؤں۔ میں نے لکھا تھا کہ "مرزا عبدالودود نے بہت ہی قلیل مدت میں مزاح نگاروں کی صف میں اپنی جگہ بنالی ہے۔”

    آپ سمجھے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مرزا جب مزاح کے میدان میں داخل ہوئے تو وہاں پہلے سے موجود مزاح نگاروں نے اپنی اپنی نشست چھوڑ کر ان کی خدمت میں گزارش کی کہ حضور یہ کرسیاں دراصل آپ ہی کے لائق ہیں۔ تشریف رکھئے۔ نسیم صاحب میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ میں نے تو تبصرے کی زبان میں یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ مرزا نے مزاح نگاروں کی صف میں بالکل ایسے جگہ بنائی ہے جیسے ریل کے ایک بہت ہی بھرے ہوئے تھرڈ کلاس کے ڈبے میں ایک نیا مسافر اپنی جگہ بناتا ہے یعنی دروازہ بند پاکر پہلے انہوں نے کھڑکی سے بستر اور صندوق پھینکا پھر اسی رستے خود کود پڑے، بستر کسی کے سر پر پڑا، صندوق نے کسی اور کو زخمی کیا۔ ایک دو مسافر ان کے بوجھ کے نیچے دب گئے۔ ایسا بھونچال آنے پر لوگ خود ہی ادھر ادھر سرک گئے اور اس طرح مرزا نے اپنی جگہ بنالی۔

    میں نے لکھا تھا کہ "مرزا نے ابھی ابھی اس دشت میں قدم رکھا ہے، اس دشت کی سیاحی کے لئے تو عمر پڑی ہے۔”

    آپ سمجھے میں کہہ رہا ہوں کہ ان کا قدم پڑتے ہی اس دشت میں پھول اگ آئے ہیں۔ جب وہ پوری عمر اس دشت میں قدم رکھے رہیں گے تو یہ دشت نشاط باغ بن جائے گا۔ حضور میرا مطلب یہ نہیں تھا، میں تو مرزا صاحب کو بڑے پیار سے مشورہ دے رہا تھا کہ بھیا اس دشت کی سیاحی کے لئے عمر پڑی ہے ابھی سے اس میں کیوں کود رہے ہو ۔ بیس پچیس سال اور صبر کرو ، جب کوئی اردو پڑھنے والا نہیں رہے گا تو آپ شوق سے اس دشت کی سیاحی پر اترنا تاکہ کوئی آپ کی اس بے راہ روی پر اعتراض نہ کرسکے۔

    میں نے لکھا ہے کہ "مرزا کا لکھنے کا انداز ریسی (RACY) ہے۔”

    آپ نے سمجھ لیا کہ ان کے انداز بیان میں وہی روانی ہے جو ریس کے گھوڑوں میں ہوتی ہے۔ یعنی ایک خوبصورت ایک ادائے بے نیازی کے ساتھ تیزی سے منزل تک پہنچنے کی آرزو۔ نہیں صاحب! میرا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا۔ ریسی (RACY) سے میرا مطلب گھڑ دوڑ سے ضرور تھا لیکن ان گھوڑوں کی دوڑ سے نہیں جو بمبئی کے مہا لکشمی میدان میں دوڑتے ہیں، بلکہ ان گھوڑوں سے تھا جو تانگوں کے آگے جتے ہیں اور جو سڑکوں پر پیدل اور سائیکل سوار لوگوں کو روندتے ہوئے چلے جاتے ہیں، اور اگر اڑ جائیں تو ایسے اڑتے ہیں کہ کوچوان کا چابک بھی انہیں اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا۔

    میں نے لکھا تھا کہ ’’کتاب کے تمام جملے مصنّف کی محنت کے آئینہ دار ہیں۔”

    آپ سمجھے میرا مطلب یہ ہے کہ مصنف نے ایک ایک جملے پر وہ محنت کی ہے جو ایک ذہین لڑکا اپنے امتحان کی تیاری میں کرتا ہے تاکہ وہ کلاس میں اوّل آسکے۔ نہیں صاحب! میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ میرا اشارہ اس محنت کی طرف تھا جو ایک دھوبی ایک گندے کھیس میں سے میل نکالنے کی کوشش میں کرتا ہے ۔ یعنی پتھر پر مار مار کر اتنے زور سے مارنے کے باوجود کھیس پھٹ جاتا ہے، پر میل نہیں نکلتا۔

    میں نے لکھا تھا کہ "مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔”

    آپ نے سمجھا کہ یہ کتاب یوں بکے گی جیسے متھرا کے پیڑے یا ناگپور کے سنگترے یا بمبئی کی بھیل پوری۔ نسیم صاحب! میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ پہلی بات تو آپ یہ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ اردو کی کوئی کتاب ان معنوں میں ہاتھوں ہاتھ نہیں لی جاتی۔ یہ ہمیشہ ہاتھوں ہاتھ دی جاتی ہے ۔ یعنی کتاب کو آپ خود شائع کرتے ہیں اور پھر اسے آپ دوسرے ادیبوں کو ہاتھوں ہاتھ بانٹتے ہیں۔ وہ بھی کچھ اس طرح کہ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ یعنی وہ بھی آپ کو اپنی کتابیں اسی طرح پیش کریں۔

    جہاں تک مرزا کی کتاب "گٹھلیوں کے دام” کا تعلق ہے، میرا مطلب یہ بھی نہیں تھا!

    جب میں نے لکھا کہ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی تو میرا مطلب تھا کہ پبلشر سے یہ کتاب سیدھے ردی والے لے جائیں گے، وہاں سے یہ کتاب حلوائی کے ہاتھ پہنچنے گی اور پھر گاہکوں کے پاس جائے گی۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ اتنی سی بات کو سمجھ نہیں پائے۔ خیر بیس روپے خر چ کرنے کے بعد تو سمجھ ہی گئے ہوں گے۔

    آپ نے لکھا ہے کہ میں نے تبصرے میں مرزا کے مضامین میں سے کچھ ایسے فقرے نقل کئے ہیں جو بہت خوب صورت اور معنی خیز ہیں۔ ان سے آپ کو دھوکہ ہوا کہ شاید ساری کتاب ہی خوب صورت ہوگی۔

    ایسے کتنے فقرے میں نے نقل کئے تھے؟ کُل چار۔ اور یہ میں ہی جانتا ہوں کہ ان کو کتاب میں سے ڈھونڈنے میں مجھے کتنی ریاضت کرنی پڑی۔ تقریباً پوری رات میں کتاب کو کھنگالتا رہا تب کہیں جاکر یہ فقرے ہاتھ لگے۔ ویسے ایک گزارش کر دوں کہ دو صفحے کی کتاب میں دو چار جملے اچھے نکل آتے ہیں۔ بھائی جان وہ گھڑی جو کئی سال سے بند پڑی ہو وہ بھی دن میں دو بار صحیح وقت بتا سکتی ہے۔

    آپ کی شکایت ہے کہ میں نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ "میں تمام اردو داں حضرات کو اس کتاب کے مطالعے کی پُر زور سفارش کروں گا۔”

    جی میں نے ضرور لکھا ہے لیکن آپ کو یہ تو دیکھنا چاہیے تھا کہ سفارش کرنے والے کی اپنی حیثیت کیا ہے۔ میں تو دن میں سیکڑوں لوگوں کو سفارشی خط دیتا رہتا ہوں، کبھی وزیر نشر و اشاعت کے نام، کبھی وزیرِ تعلیم کے نام، کبھی شہر کے میئر کے نام کہ اس کو ریڈیو اسٹیشن کا ڈائریکٹر بنا دو۔ اس کو کالج کا پرنسپل بنا دو، اس محلے میں پانی کا نل لگوا دو۔ لیکن آج تک میرے سفارشی خط والے لوگوں کو کسی نے سرکاری دفتر کے قریب نہیں گھسنے دیا۔ میری سفارش پر لگے ہوئے نل سے کسی نے پانی نہیں پیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ نے میری سفارش کیوں مان لی۔

    تبصرہ کو جلدی ختم کرتے ہوئے میں نے لکھا کہ "میں مصنّف اور قاری کے درمیان کھڑا نہیں رہنا چاہتا۔”

    نسیم صاحب! آپ اس کا مطلب یہ سمجھے کہ کتاب اتنی دل چسپ ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ قاری جلد سے جلد اس کا مطالعہ شروع کر دے اور اس سے لطف اندوز ہو۔ نہیں جناب میرا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا۔ میں جانتا تھا کہ جو قاری بھی اس کتاب کو پڑھے گا مصنّف کی گردن پر ہاتھ ڈالنا چاہے گا، اس لئے میں جلد از جلد راستے سے ہٹ جانا چاہتا تھا۔

    اب صرف اتنی سی بات رہ گئی کہ تبصرے اس طرح کیوں لکھے جاتے ہیں کہ آپ جیسا سیدھا سادا قاری ان کا مطلب نہ سمجھ سکے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ تبصرے کا یہی اصول ہے اور یہ اصول میں نے نہیں بنایا۔ ایک عرض اور کر دوں کہ جب مرزا صاحب اپنی کتاب میرے پاس تبصرے کے لئے لائے تھے تو ساتھ ہی برفی کا ایک ڈبہ بھی لائے تھے۔ برفی بڑی عمدہ قسم کی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی خوشبو نے کتاب کے بارے میں میری رائے میں مداخلت کی ہو۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ اچھے جہیز کے ساتھ ایک معمولی لڑکی ایک اچھی دلہن بن جاتی ہے اور ساس سسر کے علاوہ دولھے میاں کو بھی خوب صورت لگنے لگتی ہے۔ تبصرہ نگاری میں اگر مجھ سے کچھ غلطی ہوئی ہے تو محض برفی کی وجہ سے۔

    امید ہے اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ تبصرہ کس طرح پڑھاجاتا ہے۔ یقین مانیے بیس روپے میں یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ پھر بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی تو بندہ معافی کا خواستگار ہے۔

    آپ کا خیر اندیش

    (یہ معروف ہندوستانی مزاح نگار دلیپ سنگھ کا مشہور انشائیہ ہے جس پر انھیں‌ کئی نام ور ادیبوں‌ اور اہلِ‌ قلم نے خاص طور پر سراہا تھا۔ دلیپ سنگھ 1994 میں انتقال کرگئے تھے۔ انھوں نے اپنے اس انشائیہ کو "معذرت نامہ” کا عنوان دیا تھا)

  • "خالہ گرم مسالہ کا ہر انداز نرالا”

    "خالہ گرم مسالہ کا ہر انداز نرالا”

    خالہ گرم مسالہ کا اصل نام تو حسینہ خاتون ہے۔ وہ محلہ بھر میں گھوم پھر کر اِدھر کی خبریں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر اس برق رفتاری سے پہنچاتی ہیں کہ بسا اوقات لوگوں کو بھی اپنے گھر کی باتیں محلّے والوں کی زبانی معلوم ہوتیں۔ اور وہ حیران رہ جاتے کہ جن باتوں کا علم گھر کے تمام افراد کو نہیں خالہ گرم مسالہ تک اُن کی رسائی کیسے ہوئی اور اُس کی محلّے میں دھوم کیسے مچ گئی؟

    سادہ سی خبروں میں نمک مرچ لگا کر گرم مسالہ کا تڑکا لگانا بھی خوب جانتی ہیں۔حسینہ خاتون کے اسی ہنر کو دیکھتے ہوئے محلے کے ایک بچّے نے آپ کو ”خالہ گرم مسالہ“ کا نام دیا جس نے اصل نام سے زیادہ شہرت پائی۔

    یہی نہیں اور بھی کئی ہنر ایسے ہیں جن میں خالہ گرم مسالہ طاق ہیں۔ مثلاً خالہ گرم مسالہ کو سُنانے کا بہت ہوکا ہے۔ خواہ وہ گیت ہو یا ریت، حکایتیں ہوں یا شکایتیں، باتیں ہو یا داستانیں۔ کھری کھری ہوں یا بے بھاؤ کی جب بھی سناتی ہیں جی بھر کر سناتی ہیں۔ جبریہ سننے والوں کی تو کیا کہیے کبھی کبھی تو شوقیہ سننے والے بھی سُن کر جی بھر کر بدمزہ ہو جاتے ہیں۔

    اپنے ان تمام ”ہوکوں“ کے توسط سے خالہ گرم مسالہ اپنی ہر سنانے والی بات حسبِ ضرورت اپنے مخاطبین کو سناتی ہیں۔ بالخصوص شکوؤں شکایتوں کا ہوکا تو وہ کسی ہُڑکے کی طرح کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بڑے سلیقے سے اپنی اہمیت بھی منوانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس ضمن میں اُن کا سب سے بڑا شکوہ ”مجھے بھول گئیں ناں“ ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کیوں ایک دن بیٹھے بٹھائے خالہ گرم مسالہ کو خیال آیا کہ لوگ مجھے بھولتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ محض اُن کا وہم تھا۔

    لو بھلا بتاؤ؟ کیا وہ ایسی شے ہیں جنہیں بھلا دیا جائے؟ ہر گز نہیں۔ جس کو دیکھو اُس کی زبان پر خالہ گرم مسالہ کا نام ہے۔ وہ دن اور آج کا دن خالہ گرم مسالہ کا ”مجھے بھول گئیں ناں“ کا ”ہوکا“ عروج پر ہے۔ جہاں خالہ گرم مسالہ اپنے طور اپنی موجودگی لازمی سمجھتی ہیں وہاں وہاں اپنی عدم موجودگی کا گلہ ضرور کرتی ہیں اور یہ گلہ محض ”مجھے بھول گئیں ناں“ تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ اپنے مخاطبین کو اس حشر برپا موقع پر ماضی کے حوالے دے کر کچھ اس طور سناتی ہیں کہ سننے والے سننے کی ہر خواہش سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ کتنا ہی خالہ گرم مسالہ کو یقین دلائیں کہ آپ کو بھولا کوئی نہیں، بات صرف اتنی سی ہے کہ ہر جگہ اور ہر مقام پر آپ کی شمولیت ضروری نہیں لیکن خالہ گرم مسالہ مان کر ہی نہیں دیتیں۔ ہر دلیل رد کر دیتی ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ اُن کا حق بلکہ پیدائشی حق ہے کہ جس ہنر میں اُنہیں معمولی سی بھی دسترس ہے، اس حساب سے نہ صرف اُنہیں یاد رکھا جائے بلکہ پیش پیش بھی رکھا جائے۔ اور جاننے والے بھی جانتے ہیں کہ اُن کی شمولیت اور عدم شمولیت کہاں ضروری ہے سو وہ اسی حساب سے اُنہیں مدعو اور نظر انداز کرتے ہیں۔

    بعض تجسس کی ماری خواتین تو اوروں کے گھروں کی سُن گن لینے کے لیے خالہ گرم مسالہ کی خدمات حاصل کرتی ہیں اور خالہ گرم مسالہ یہ ”فلاحی کام“ بلا معاوضہ بڑی لگن اور محنت سے کسی مشن کی طرح یوں کرتی ہیں گویا پیشہ ور سماجی کارکن ہیں۔

    ایک روز تو حد کر دی۔ ہُوا یوں کہ فیروزہ خالہ کی منجھلی بیٹی درخشاں کے رشتے کی بات اپنوں میں چل رہی ہے یا غیروں میں اور یہ بھی کہ لڑکا کیا کرتا ہے؟ جاننے کی خواہش میں بمشکل گھنٹہ بھر سوئیں اور شب بھر جاگ کر اپنے اس مشن میں کامیابی کے لیے دعائیں کرتی رہیں۔ ساتھ ہی اپنے منصوبہ بند ذہن کو بھی متحرک رکھا کہ جانے کب کہاں سے کون سا سرا ہاتھ لگ جائے۔ لیکن عقدہ تھا کہ حل ہو کے ہی نہیں دے رہا تھا، پھر یہ بھی ہے کہ خالہ گرم مسالہ اس امر سے بھی تو بخوبی واقف تھیں کہ یہاں دال گلنی بہت مشکل ہے کہ خالہ فیروزہ کے گھر کے ہر فرد کا پیٹ کسی گہرے کنوئیں کی مانند ہے جہاں سے بات نکلوانا کارِ محال ہے۔لیکن خالہ گرم مسالہ بھی خالہ گرم مسالہ ہیں۔ شب بھر دماغ لڑاتی رہیں۔ بالآخر کامیاب ہو ہی گئیں۔ اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ کنواں جتنا گہرا ہے ڈول بھی اتنا ہی بڑا ڈالا جائے لیکن احتیاط سے۔

    صبح سویرے ہی وہ اپنے مشن پر نکل کھڑی ہوئیں اور حیرت انگیز طور پر دس فیصد معلومات حاصل کر لیں جس پر وہ بہت نازاں تھیں کہ جہاں سے ایک فیصد بات اُگلوانا بھی ناممکن ہے، وہاں سے اُن کی ناممکن کی جستجو نے ممکنہ فتح حاصل کر لی۔ وہ جان گئی تھیں کہ درخشاں کے رشتے کی بات چیت اُس کی امی کی خالہ زاد بہن کے نواسے سے چل رہی ہے جو ایک سرکاری ادارے میں آفیسر ہے۔ اتنا بھید بھی خالہ گرم مسالہ کی سیماب صفت اور تجسس پسند فطرت کے لیے کافی تھا۔ جہاں وہ اپنی اس غیر متوقع کامیابی پر بہت مسرور تھیں وہاں ”لڑکے“ کی سرکاری آفیسر والی اطلاع اُنہیں تشویش میں مبتلا کر گئی کہ سرکار کی تو خود حالت بہت پتلی اور غیر ہے۔ جس کی اپنی ترقی خطرے میں ہو، جو خود اپنی خیر خواہ نہ ہو، ایسی سرکار سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟

    اور پھر خالہ گرم مسالہ نے اس خبر کو بارہ مسالوں سے آراستہ کیا اور جہاں تک ممکن ہو سکا یہ خبر سماعتوں کی نذر کر دی۔ چونکہ خالہ گرم مسالہ خود سیراب نہ ہو سکیں تھیں۔ اس لیے اوروں کو مطمئن کرنا اُن کے لیے خاصی بڑی آزمائش تھی۔ کہ لوگ اس نامکمل معلومات میں دل چسپی نہیں لے رہے تھے۔ لیکن خالہ گرم مسالہ کی سنانے کی ہوس تھی کہ ختم ہو کر ہی نہیں دے رہی تھی۔

    اور پھر یوں ہُوا کہ خالہ گرم مسالہ کے برس ہا برس کے تجربات سے مستفیض ہونے کے لیے ایک ادارے نے اُن سے رابطہ کر لیا۔ بے شک سیاسی بصیرت اُن میں نام کو نہیں لیکن خالہ گرم مسالہ اپنی زباں دانی کے جوہر اور لفظوں کے ہیر پھیر سے سیاسی مبصرین کو باہمی جھگڑوں میں الجھا کر مات دینے کا ہنر خوب جانتی ہیں۔ ابھی خالہ گرم مسالہ کو پیشکش ملے گھنٹہ بھر بھی نہ ہوا تھا کہ آپ نے محلے بھر میں الم نشرح کر دیا۔ محلّے والوں نے خوشی کا بھر پور اظہار کیا اور خالہ گرم مسالہ کو جلد از جلد یہ پیشکش قبول کرنے کی تاکید بھی کی۔ خالہ گرم مسالہ خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھیں کہ خالو ببلو بیچارے (خالہ گرم مسالہ کے میاں) نے یکایک بے چارگی کا لبادہ اُتار پھینکا اور اپنی ازدواجی زندگی کے پچاس سالہ عرصے میں پہلی مرتبہ جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خالہ گرم مسالہ پر قدغن لگا کر اُنہیں اس فعل سے باز رکھا جو وہ اگر اختیار کر لیتیں تو جہنم کے دروازے اُن کے لیے کھل جاتے۔ ابھی بھی وہ محلّے بھر میں کون سا کارِ خیر کر رہی تھیں لیکن شر کی جو تاریخ وہ رقم کرنے جا رہی تھیں اس کا کفارہ بہت مشکل تھا اور جب یہ خبر عمران تک پہنچی جس نے خالہ گرم مسالہ کے میاں کو خالو ببلو بیچارے کے خطاب سے نوازا تھا، ببانگِ دہل اعلان کرتا پھر رہا تھا کہ ”خالو ببلو بیچارے بنے انگارے۔“ لیکن نہ جانے خالو ببلو نے خالہ گرم مسالہ کے کانوں میں کیا صور پھونکا تھا کہ وہ اس خواہش سے تائب ہو گئیں تھیں اور چینل والوں کے بے حد اصرار پر بھی راضی ہو کر ہی نہیں دے رہی تھیں۔

    خالہ گرم مسالہ کے قطعی انکار سے عمران سخت آزردہ تھا۔ اُس نے سب سے زیادہ کوشش کی کہ خالہ گرم مسالہ کو بھڑکا کر راضی کر سکے تاکہ خالہ گرم مسالہ کے توسط سے وہ بھی سوشل ورکر بننے کا اپنا برسوں پرانا خواب پورا کر سکے۔ اور اب خالو ببلو بیچارے خالو خسارے بنے اُس کی راہ کی دیوار بن رہے تھے۔ جب خالہ گرم مسالہ عمران کے پے در پے سوالوں سے زچ آگئیں تو اُنہوں نے بڑے سبھاؤ اور تدبر سے کہا کہ ”سر اور دستارکی سلامتی اسی میں ہے کہ اس جھنجھٹ سے دور رہا جائے۔“ عمران ہونق بنا اُن کی شکل دیکھے گیا اور جب کچھ دیر بعد اُس کاسکتہ ٹوٹا تو اُس نے صرف اتنا ہی کہا ”کاش خالو ببلو بیچارے، بیچارے ہی بنے رہتے۔ کر دیا نا اُنہوں نے آپ کا کباڑا، بن گئے نا خالو مرچ مسالہ۔آج تک کسی نے آپ کو کچھ کہا؟ کس شان سے سر اُٹھا کر جی رہی ہیں۔“

    ” عمران بیٹا! بے شک شان سے ہی نہیں آن سے بھی جی رہی ہوں۔ لیکن اس لیے کہ اپنوں کے درمیان ہوں۔ اپنا مارے گا تو پھر چھاؤں میں بٹھائے گا۔ وہ کون سے میرے اپنے ہیں جو میرا مان رکھیں گے۔“

    اور عمران! خالہ گرم مسالہ کے اپنے پرائے کے فلسفے میں الجھا سوچ رہا تھا۔خالہ گرم مسالہ کا اپنوں پہ یہ کیسا مان ہے جس نے اُن کو شہرت کی خواہش سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر دیا۔ کیا واقعی اپنائیت کا احساس ایسا طاقتور ہوتا ہے جو خالہ گرم مسالہ کو خالہ نرم دو شالہ بننے پر آمادہ کر دے؟

    (شائستہ زریں کے قلم سے)

  • کوئلے کی کمائی کالک کے سوا اور کیا ہے؟

    کوئلے کی کمائی کالک کے سوا اور کیا ہے؟

    راستی، راستائی اور راستینی تلاش کرنے والوں کے لیے یہ ایک پُر آشوب زمانہ ہے۔ دلوں میں تاریکی پھیلی ہوئی ہے۔ دلیلوں پر درہمی کی اُفتاد پڑی ہے اور دانش پر دیوانگی کے دورے پڑ رہے ہیں۔

    نیکی اور بدی اس طرح کبھی خلط ملط نہ ہوئی تھیں۔ اِدھر یا اُدھر، جدھر بھی دیکھو، ایک ہی سا حال ہے۔ تیرہ درونی نے اپنی دستاویز درست کی ہے اور کجی، کج رائی اور کج روی کا دستور جاری کیا گیا ہے۔ جو سمجھانے والے تھے، وہ اپنے افادات کی مجلسوں میں بُرائی سمجھا رہے ہیں۔ بُرائی سوچی جا رہی ہے اور بُرا چاہا جا رہا ہے۔ خیال اور مقال کی فضا اس قدر زہر ناک کبھی نہ ہوئی تھی۔ انسانی رشتے اتنے کم زور کبھی نہ پڑے تھے۔

    ایک اور فتنہ برپا ہوا ہے، وہ ادھوری سچائیوں کا فتنہ ہے۔ اس نے انسانیت کی صورت بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ ایک آنکھ، ایک کان، اور ایک ٹانگ کی انسانیت زندگی کے حُسنِ تناسب کا نادر نمونہ ٹھہری ہے۔ یہی وہ انسانیت ہے جس کے باعث اس دور میں ہماری تاریخ کے سب سے بدترین واقعات ظہور میں آئے ہیں۔

    گمان گزرتا ہے کہ یہ انسانوں کی نہیں، نسناسوں کی دنیا ہے اور ہم سب نسناس ہیں، جسے دیکھو وہ غیر انسانی لہجے میں بولتا ہوا سُنائی دیتا ہے۔

    سماعتوں پر شیطانی شطحیات نے قبضہ جما لیا ہے۔ یہاں جو بھی کان دھر کر سُن رہا ہے، وہ کانوں کے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ سو، چاہیے کہ ایسے میں نیک سماعتیں اعتزال اختیار کریں۔ اپنی نیتوں کی نیکی پر سختی سے قائم رہو اور اس کی ہر حال میں حفاظت کرو کہ تمہارے پاس یہی ایک متاع باقی رہ گئی ہے اور یہی تمہاری سب سے قیمتی متاع بھی ہے۔

    نفرتوں کی گرم بازاری اور محبتوں کی قحط سالی میں دکھی انسانیت کے دکھ اور بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس بیمار کے تیمار داروں اور غم گساروں کی تعداد آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اچھائی اور برائی میں ایک عجیب معاملت ہوئی ہے۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے اپنے ناموں کا آپس میں تبادلہ کر لیا ہے۔ اب ہر چیز اپنی ضد نظر آتی ہے۔ علم، جہل پر ریجھ گیا تھا اور جہل، علم کے خطاب پر بُری طرح لوٹ پوٹ تھا۔ سو، دونوں ہی نے ایثار سے کام لیا۔

    انسان کو اس دور میں وہ وہ منفعتیں حاصل ہوئی ہیں جن پر ہر دور کا انسان رشک کرے۔ پر اس دور کا خسارہ بھی اس قدر ہی شدید ہے اور وہ یہ کہ انسانوں کے اس انبوہ میں خود انسان ناپید ہوگیا ہے۔ جس مزاج اور جس قماش کی دنیا میں ہم رہتے ہیں، اس کا حال تو یہی ہے اور یہی ہونا بھی تھا۔

    کوئلے کی کمائی کالک کے سوا اور کیا ہے؟ اندرائن کے پیڑ سے کیا کبھی انگور کے خوشے بھی توڑے گئے ہیں؟

    (انشائیہ، از جون ایلیا)

  • اردو کے رسائل اور مسائل (انشائیہ از جون ایلیا)

    اردو کے رسائل اور مسائل (انشائیہ از جون ایلیا)

    افلاطون نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف "جمہوریہ” میں ایک نظامِ تعلیم و تربیت مرتّب کیا تھا جس کی رُو سے تین سال سے لے کر چھ سال تک کی عمر کے بچوں کو قصّوں اور حکایتوں کے ذریعہ تعلیم دی جانا چاہیے۔

    اردو کے مدیرانِ رسائل قابلِ داد ہیں جنہوں نے یہ نصاب اپنے قارئین کے لیے تجویز کیا ہے چنانچہ صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارا ادب، ہمارا ادبی شعور ہماری ادبی صحافت سب نابالغ ہیں۔

    جدھر دیکھیے دیوانَ داغ اور فسانۂ عجائب کی نسل پروان چڑھتی نظر آ رہی ہے۔ میر تقی بیچارے ایسے کون سے بڑے شاعر تھے لیکن آج ان کے اعزاز میں ہر رسالہ غزلوں پر غزلیں چھاپ کر گویا غزل کا عرس برپا کر رہا ہے۔ ادبی جرائد کا پورا ادب غزل اور تنقید غزل میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کسی بھی سنجیدہ، بالغ النّظر اور اور ارتقا پذیر سماج کے لیے یہ بات باعث تشویش ہے۔

    آخر ہم کس عہد میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ اس عہد میں زندگی بسرکرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ کیا کوئی قوم صرف افسانوں غزلوں اور نام نہاد تنقیدی مقالوں کے سہارے زندہ رہ سکتی ہے؟ کیا بیسویں صدی میں کوئی معاشرہ اپنی ادبی صحافت کی اس سطح پر قانع ہو سکتا ہے؟

    یہی نہیں کہ ہماری ادبی صحافت ادبی اور علمی اعتبار سے قطعاً بے مایہ اور مفلس ہے بلکہ علم دشمن بھی ہے۔ اگر کوئی رسالہ نفسیاتی، تاریخی، فلسفی اور سائنسی مباحث و مسائل اور ادبِ عالی کے موضوعات پر مضامین شائع کر دے تو اسے ادبی رسالہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ادبی رسالہ کی علامت صرف یہ ہے کہ اس کا نصف حصّہ غزلوں سے مخصوص ہو باقی نصف میں کچھ نظمیں ہوں، کچھ افسانے ہوں اور پانچ چھ صفحے کا ایک ادبی مضمون جسے بڑے ہی اعتماد کے ساتھ "مقالہ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیجیے اردو کا "ادبی، علمی اور تہذیبی مجلہ” مرتب ہو گیا۔

    مدیر کا یہ فرض ہرگز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے اداریہ بھی لکھے۔ اسی لیے اب "مدیر” کے بجائے احتياطاً "مرتب” کی اصطلاح اپنا لی گئی ہے۔ مرتب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اردو کے عظیم فن کاروں کی طرف سے تو ادبی مناظرے بھی کر لیتا ہو لیکن خود اردو سے اسے کوئی دل چسپی نہ ہو، مرعوب اسی وقت ہوتا ہے جب مغربی نقادوں کے چند نام گنوائے جائیں۔

    بہرحال یہ ہے ہمارے اکثر رسائل اور ان کے ایڈیٹروں کا حال۔ یہ لوگ سائنسی حقائق اور سماجی مسائل کی اس سیل گاہ میں بالکل از کارِ رفتہ ہو چکے ہیں۔ نہ انہیں معاملات کا شعور ہے اور نہ اپنے فرائض کا احساس، ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ جن قدروں پر ان کا ادب آج تک زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے اب ان کا حشر کیا ہوگا۔ چلیے یہ تو دور کی بات ہے آخر وہ یہ کیوں نہیں غور کرتے کہ اردو رسائل کس لیے نامقبول ہیں؟

    یہ صحیح ہے کہ قوم کی معاشی تقدیر انگریزی سے وابستہ ہے اور اسی صورت حال کا اثر اردو زبان سے تعلق رکھنے والے ہر شعبہ اور ہر شخص پر پڑتا ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ اگرچہ بےحد اہم، بے حد اہم رخ سہی، لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ اسی غریب زبان اردو کے روزناموں نے انہی ناسازگار حالات میں انگریزی روزناموں کو بری طرح شکست دے دی ہے اور انقلاب کے بعد تو اردو روزناموں کی رفتارِ ترقی اور بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دو تین سال کے اندر ہمارے بعض روزنامے ایک لاکھ کی اشاعت تک پہونچ جائیں گے۔

    ماہ ناموں کو غور کرنا چاہیے کہ آخر یہ کیا بات ہے؟ بات یہ ہے کہ اردو کی ماہ نامہ صحافت نے ابھی تک نئے عہد کو نہیں سمجھا ہے۔ وہ اب تک بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ انگریزی کے دو تین نقّادوں اور فرانس کے نفسیاتی مریضوں کے نام رسالوں کو فروخت کرا دیں گے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب چند یونانی مفکروں اور مغربی ادیبوں اور ناقدوں کے نام لے کرمرعوب کر لیا جاتا تھا، یہ زمانہ فکر و نظر کی رصانت و ریاضت کا زمانہ ہے۔ آج کے قاری کو مسائل سے ناواقف و بے گانہ خیال کرنا حماقت ہے۔

    قارئین دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ لوگ جو صرف جنسی جاسوسی اور فلمی تحریروں سے بہل سکتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو مذہبی، تاریخی، سیاسی، سماجی، نفسیاتی، معلوماتی، ادبی اور علمی مضامین پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں مختلف سطح کے افراد شامل ہیں۔ ادبی اور علمی رسائل کا تعلق انہی لوگوں سے ہے۔

    عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پہلی قسم کے قارئین کی تعداد زیادہ ہے، لیکن یہ غلط ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو اردو کے فلمی رسالے لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوا کرتے، درآں حالیکہ ان کا حال بہت ابتر ہے۔

    بات یہ ہے کہ عمر کے ایک خاص حصے ہی میں جنسی اور فلمی موضوعات میں دل چسپی لی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں اس قبیل کے مواد کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہوا کہ یہاں ابھی ایک ڈیڑھ سال پہلے تک پوری قوم سیاسی بے یقینی، نفسیاتی پیچیدگی، سماجی بے ضمیری، ذہنی انتشار اور اخلاقی بدحالی میں مبتلا تھی۔ اس کا رد عمل یہی ہو سکتا تھا کہ سنجیدہ مسائل کی طرف سے توجہ ہٹ جائے۔ انقلاب کے بعد اس صورت حال میں نمایاں فرق ہوا ہے۔

    (اردو کے مقبول ترین شاعر اور نثر نگار جون ایلیا کے انشائیے سے چند پارے جو ماہنامہ "انشاء” کراچی(1959ء) میں شایع ہوا تھا)

  • "آپ کے اندر ایک خلا ہے!”

    "آپ کے اندر ایک خلا ہے!”

    آپ کا جسم ایک مجموعہ ہے۔ آپ کا کچھ حصہ آپ کی ماں کی طرف سے آیا ہے، کچھ حصہ باپ کی طرف سے اور باقی سب کچھ کھانے پینے سے۔ یہ آپ کا کُل جسم ہے۔

    تلاش کریں کہ دماغ میں تو کوئی ذات نہیں ہے؟ اگر آپ بہت گہرائی میں چلے جائیں تو دیکھیں گے کہ آپ کی پہچان ایک پیاز کی طرح ہے۔ آپ ایک چھلکا اتاریے تو دوسرا آجائے گا۔ دوسرا اتاریے، تیسرا آجائے گا۔ اور آخر کار کچھ بھی نہیں بچے گا۔

    تمام چھلکے اتار دیجیے، اندر سے کچھ بر آمد نہیں ہوگا۔ جسم اور دماغ پیاز کے مانند ہیں۔ آپ دونوں کو چھیلتے جائیے تو اندر سے کچھ نہیں نکلے گا۔ سوائے ایک مہیب اور لا محدود خلا کے۔ جس کو بدھا نے ”شنیہ“ یعنی صفر کہا ہے۔

    اس صفر کو، اس مہیب خلا کو فتح کرنا خوف کو جنم دیتا ہے۔ خوف اصل میں یہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم استغراقی سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں باتیں ضرورت کرتے ہیں، لیکن اس سمت میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے۔

    آپ کو پکا یقین ہے کہ وہاں ایک لا محدود خلیج ہے، مگر اس خوف سے چھٹکارا نہیں پاتے۔ آپ جو چاہیں کرلیں، خوف باقی رہے گا، جب تک آپ اس پر قابو نہیں پالیتے۔ بس ایک یہی طریقہ ہے۔

    اگر ایک بار آپ اپنے عدم کو فتح کرلیں۔ جب ایک بار آپ کو علم ہوجائے کہ آپ کے اندر ایک خلا ہے، ایک صفر ہے۔ تب آپ کو کوئی خوف نہیں رہے گا۔

    اس کے بعد خوف باقی نہیں رہ سکتا۔ کیوں کہ یہ صفر، یہ خلا تباہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ خلیج پاٹی نہیں جاسکتی۔ وہ جس کو موت آسکتی تھی اب باقی نہیں، اس کی حیثیت پیاز کے چھلکے جیسی تھی۔

    (گرو رجنیشں، ”مخزنِ راز“ سے انتخاب)

  • فرد اور معاشرے کا تصادم

    فرد اور معاشرے کا تصادم

    فرد اور معاشرے کا تصادم، درخت کی نئی اور پرانی چھال کا تصادم ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تصادم کوئی نہیں ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ زندگی مائل بہ ارتقا ہے۔

    وہ ہر سال اپنی پرانی کینچلی اتار کر ایک نئی کینچلی پہن لیتی ہے۔ ہمارا واہمہ ہے کہ ہمیں پرانی اور نئی کینچلی کے رشتے میں فرد اور معاشرے کا تصادم نظر آتا ہے۔

    زندگی کا اصل مقصد، تسلسل ہے اور یہ تسلسل زیر و بم کے اس انداز کے تابع ہے، جو ساری کائنات میں جاری و ساری ہے، یعنی آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کا عمل، جس کے تسلسل اور تواتر میں کبھی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔

    جب زندگی آگے بڑھتی ہے تو اس کام کے لیے فرد کو بروئے کار لاتی ہے۔ جب وہ پیچھے ہٹتی ہے، تاکہ نئی فتح یا نئے قدم کے آثار بہرہ اندوز ہوسکیں تو سوسائٹی کی قدروں سے کام لیتی ہے۔

    مطلب یہ ہے کہ پچھلے برس کی چھال ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کا ایک حصہ، روایت کی صورت میں زندگی کے تنے سے چپک جاتا ہے اور اس کی جسامت میں اضافہ کردیتا ہے، جیسے درخت کی نئی اور پرانی چھال میں لپکنے اور سمٹنے کا عمل جاری رہتا ہے، لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ درخت کے اندر سے ایک تخلیقی جہت وجود میں آتی ہے، جو درخت کی نسل ہی کو بدل دیتی ہے۔

    فرد اور سوسائٹی کے رشتے میں بھی یہ بات عام ہے۔ کبھی کبھی کوئی ایسا فرد پیدا ہوجاتا ہے، جو سوسائٹی کو اٹھا کر ایک نئی سطح اور ایک نئے مدار میں لے آتا ہے اور یہ بات ایک تخلیقی جست کے تابع ہے۔

    (ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ”فرد، معاشرے اور تخلیقی جست“ سے محسن علی کا انتخاب)