Tag: انشائیہ

  • دماغ ماﺅف ہیں…….

    دماغ ماﺅف ہیں…….

    یہ اُن بیماروں کی بستی ہے جو یہ نہ جان سکیں کہ ان کا ہرج مرج کیا ہے؟ ایک سرسامی کیفیت ہے جس میں بولنے والے صرف بڑبڑا رہے ہیں۔

    یہ وہ گونگے ہیں جو اب بولنے پر آئے ہیں تو نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ بولیں تو کیا بولیں۔ سو، انھوں نے زبان سے وہ سب کچھ اُگلنا شروع کردیا ہے جو حلق، نرخرے اور ہونٹوں کی سکت میں ہے۔

    یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ لوگوں نے اپنے دکھوں کو لاعلاج بنا رکھا ہے۔ تمام عمر ٹیڑھے راستے پر چلتے رہے اور جب سیدھے راستے پر پڑنے لگے تو یہی بھول گئے کہ جانا کہاں تھا؟ ہَت تمھاری کی، تم نے جب بھی کی، آزار شعاری اور بد ہنجاری کی۔

    یہ کیسی اُفتاد ہے کہ اُونچے اٹھے تو نیچے چھلانگ لگانے کے لیے۔ زمانے سے مہلت پائی تو اپنے ہی خلاف سازش اور آپس ہی میں دَر اندازی کے لیے۔ یہ کیسی کشایش ہے جس سے دم گھٹا جارہا ہے اور یہ کیسی کشود ہے جس نے گرہوں پر گرہیں ڈال دی ہیں۔

    جو کچھ بھی سوچا گیا ہے، وہ بری طرح سوچا گیا ہے۔ جو ہو رہا ہے، وہ بہت بُرا ہو رہا ہے۔ سَر دھروں نے اپنے چھوٹوں کی چارہ جوئی کے ٹالنے پر ایکا کر لیا ہے۔ اب تو شاید یہ بھی نہیں سوچا جارہا کہ سوچنا کیا تھا۔

    ثروت مندوں کو مژدہ ہوکہ حاجت مندوں نے بھنگ پی رکھی ہے اور اب انھیں کسی چیز کی حاجت نہیں رہی۔ محتاجی نے قابلِ رشک استغنا سیکھ لیا ہے۔ منعموں کو نوید دی جائے کہ فاقہ کشی نے روزہ رکھ لیا ہے۔ دراصل بھوکوں کو بہکا دیا گیا تھا۔ اب انھوں نے سَر جھکاکر سوچ بچار کیا تو معلوم ہوا کہ بھوک لگ ہی نہیں رہی تھی۔ یہ روایت ہی غلط تھی کہ لوگ محرومی میں مبتلا ہیں کہ خود محروموں نے اس کی تردید کر دی ہے۔

    کیا ان بستیوں نے اس لیے آسمان سَر پر اٹھایا تھا کہ اوندھے منہ زمین پر آرہیں۔ جس بندوبست کے خلاف بڑی چنچناہٹ تھی، اب کس طرح سہارا جارہا ہے۔ کیا اب یہ سوچنے کی فرصت باقی رہی کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے کس کا بھلا ہوگا؟

    دیاروں کے مدبروں اور شہروں کے شہرت مداروں پر وَجد وحال کی کیفیت طاری ہے۔ کچھ معلوم نہیں کہ کون کس کے حق میں بول رہا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کو کس سے شکایت کرنا چاہیے۔

    یہ تمیز مشکل ہے کہ اِس گُھپ اندھیرے میں کس کا گریبان کس کے ہاتھ میں ہے۔ دماغ ماﺅف ہیں، اس لیے کہ اصل غایت کو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ بھلا دیا گیا ہے، ان جھنجلاہٹوں کی سَرنوشت کیا ہوگی جن میں رعایت دی گئی ہے تو غصب کرنے والوں کو۔ اس پَرخاش اور پیکار کا انجام کیا ہوگا جس میں پناہ دی گئی ہے تو غبن کرنے والوں کو۔

    جون ایلیا کے انشائیے سے انتخاب

  • وہ لمحہ جب اقوامِ متحدہ کا جنرل سیکریٹری اپنی ماں‌ سے ملا

    وہ لمحہ جب اقوامِ متحدہ کا جنرل سیکریٹری اپنی ماں‌ سے ملا

    اوتھانٹ، اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری، لاہور آئے۔

    ان کا استقبال کرنے والوں میں‌،میں بھی شامل تھا۔ انھوں نے وی آئی پی روم میں کچھ دیر توقف کیا۔

    اخباری نمائندے بھی یہاں تھے۔ وہ سوال پوچھتے رہے۔ اوتھانٹ ٹالتے رہے۔ میں دیکھتا اور سنتا رہا۔

    یہ انٹرویو مایوس کن تھا۔ بے معنی جملے جو بے ایمانی سے قریب اور حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔ بے وزن باتیں جنھیں سفارتی آداب کہتے ہیں۔ بے وجہ چشم پوشی اور جان بوجھ کر پہلو تہی۔

    ناحق اس عہدے دار کو دنیا کا غیر رسمی وزیر اعظم کہتے ہیں۔ یہ شخص تو دنیا بھر سے خائف رہتا ہے اور ہماری طرح سیدھی بات بھی نہیں ‌کر سکتا۔ آٹو گراف بُک جیب میں ‌ہی پڑی رہی اور دوسرے دن ان کا جہاز جاپان کے شہر ناگوما چلا گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی اور ایک مدت گزر گئی۔

    میں جاپان کے اسی شہر میں ٹھہرا ہوا تھا۔ میں نے انگریزی اخبار اور رسالہ خریدا۔ میں نے جب اسے کھولا تو اس میں ‌اوتھانٹ کی تصویر تھی۔

    وہ برما گئے اور وہاں اپنی والدہ سے ملے۔ یہ تصویر اس ملاقات کے متعلق تھی۔ تصویر میں ‌ایک دبلی پتلی سی بڑھیا اونچی کرسی پر ننگے پاؤں بیٹھی ہے۔ معمولی لباس اور اس پر بہت سی شکنیں۔ سادہ سی صورت اور اس پر بہت سی جھریاں۔ چہرہ البتہ مسرت سے دمک رہا ہے۔

    اس کے قدموں میں اوتھانٹ ایک نفیس سوٹ پہنے بیٹھا ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کو بھول چکا ہوں اور اب ایک سعادت مند بیٹے کی تلاش میں ہوں‌ تاکہ وہ میری آٹو گراف بُک پر اپنے دستخط کر دے۔

    (مختار مسعود کی کتاب آواز دوست سے انتخاب)