Tag: انشا پرداز

  • اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    ایک واقعۂ دلچسپ اہلِ ذوق کی ضیافتِ طبع کے لیے لکھتا ہوں۔ لاہور میں پہلی دفعہ جب ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ ہوا تو پروفیسر آزاد (محمد حسین آزاد) زندہ تھے، گو دماغ کسی حد تک متاثر ہو چکا تھا۔

    نذیر احمد ملنے کے لیے گئے، حالی اور غالباً شبلی بھی ساتھ تھے، نذیر احمد کا لیکچر ہونے والا تھا جو چھپا ہوا ان کے ہاتھ میں تھا۔ آزاد رسالہ کی طرف متوجہ ہوئے تو نذیر احمد نے یہ کہہ کر آگے بڑھا دیا کہ ایک نظر دیکھ لیجیے، کانفرنس میں پیش کرنا ہے۔

    آزاد فوراً قلم سنبھال کر بیٹھ گئے اور کانٹ چھانٹ شروع کر دی۔ نذیر احمد، آزاد کی اس بے تکلفی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جوشِ محبت سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ ان کو قدرتی طور پر یہ خیال آیا کہ ابھی ان کے دائرہ میں ایک شخص ایسا موجود ہے جو ایک ’’بوڑھے‘‘ بچہ کی مشقِ سخن پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔

    حالیؔ بھی آزاد کی استادی کا لوہا مانتے تھے، ان کی مخلصانہ عقیدت کیشی کے لیے وہ تقریظ و تنقید دیکھیے جو آبِ حیات اور نیرنگِ خیال پر حالی نے لکھی ہے اور جس پر ضمناً یہ طے کردیا ہے کہ نیچرل شاعری دراصل آزاد کی صنعتِ فکر کا نقشِ اوّلین اور ان کی اوّلیات میں محسوب ہونے کے لائق ہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں،

    ’’نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ یعنی لٹریچر کے رقبہ کا طول و عرض بڑھ گیا ہے، لیکن اس کا ارتفاع جہاں تھا وہیں رہا۔ یعنی اخلاقی سطح بہت اونچی نہیں ہوئی لیکن آزاد کی پاکیزہ خیالی اور خوش بیانی نے یہ کمی پوری کر دی۔ ’نیرنگِ خیال‘ کی بہت کچھ داد دی ہے، کیوں کہ آزاد کے قلم نے پہلے پہل جذباتِ انسانی کی تجسیم و تشخیص کی اور معقولات کی تصویریں محسوسات کی شکلوں میں کھینچی ہیں اور خصائلِ انسانی کے فطری خواص ایسے مؤثر اور دل کش پیرایہ میں بیان کیے ہیں، جن سے اردو لٹریچر اب تک خالی تھا۔‘‘

    شبلی بھی آزاد کا ادب کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے آزاد اردوئے معلیٰ کا ہیرو ہے، اس کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں، وہ اصلی معنوں میں ایک زبردست انشا پرداز ہے۔

    (نام وَر انشا پرداز اور مضمون نگار مہدی افادی کی تحریر بعنوان ‘ملک میں تاریخ کا معلّمِ اوّل’ سے ایک پارہ)

  • ٹرین کا سفر اور جالندھر کی مٹی کا کوزہ!

    ٹرین کا سفر اور جالندھر کی مٹی کا کوزہ!

    غلام رسول مہرؔ نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ اردو ادب میں انھیں ایک انشا پرداز، جید صحافی، ادیب، شاعر، نقاد، مترجم، مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    غلام رسول مہر کو بسلسلۂ روزگار چند برس حیدر آباد دکن میں گزارنے کا موقع بھی ملا۔ وہ وہاں محکمۂ تعلیم میں ملازم ہوگئے تھے۔ دورانِ ملازمت مہرؔ چھٹیاں لے کر اپنے گھر والوں سے ملنے آبائی علاقے پھول پور (جالندھر) آتے جاتے رہتے تھے۔

    انھوں نے اپنی کتابوں میں حیدر آباد دکن میں اپنے قیام اور وہاں کی چند علمی اور ادبی شخصیات سے اپنی ملاقاتوں کا احوال تحریر کیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے ٹرین کے سفر کی یادیں بھی رقم کی ہیں۔ ان کے قلم سے رقم ہوا یہ واقعہ گھر سے دوری کا کرب اور اپنے وطن کی مٹی سے محبت اور اس حوالے سے حساسیت کا اظہار ہے۔ وہ لکھتے ہیں

    1917 میں حیدرآباد دکن جا رہا تھا جہاں کچھ عرصہ پائیگاہ وقارُ الامرا میں انسپکٹر آف اسکولز کی حیثیت سے کام کیا۔ لمبا سفر تھا۔

    جالندھر سے دہلی، دہلی سے منماڑ اور وہاں سے چھوٹی لائن پر حیدرآباد جاتے تھے۔ چاندنی رات تھی اور میری ٹرین پورنا ندی سے گزر رہی تھی۔ میرے پاس مٹی کا ایک کوزہ تھا جس میں گھر والوں نے گاجر کا حلوا بناکر رکھ دیا تھا کہ کسی وقت کھانا حسبِ خواہش نہ ملے تو کھا لوں یا ناشتے میں کام دے سکے۔

    کوزہ حلوے سے خالی ہوچکا تھا، میں نے اسے کھڑکی سے نیچے پھینکنے کا ارادہ کیا اور کوزے والا ہاتھ کھڑکی سے باہر نکال کر پھینکنا چاہتا تھا، مگر پھینکا نہ گیا۔

    خیال آیا کہ یہ کوزہ جالندھر کی مٹی سے بنا اور میری وجہ سے بارہ، تیرہ سو میل دور پھینکا جائے گا اور اس کا کوئی ذرہ پھر اپنے وطن نہ پہنچ سکے گا۔ چناں چہ میں نے کوزہ رکھ لیا اور ایک نظم شروع ہو گئی۔ نظم کا عنوان کوزۂ سفال تھا۔