Tag: انقلابِ فرانس

  • انسان آزاد پیدا ہوا لیکن وہ زنجیروں میں جکڑا نظر آتا ہے

    انسان آزاد پیدا ہوا لیکن وہ زنجیروں میں جکڑا نظر آتا ہے

    آج انقلابِ فرانس کے لیے ذہنی فصل تیار کرنے والے فلسفی ژاں ژاک روسو کا یوم پیدائش ہے، روسو کے خیالات پرآج کی جدید دنیا کا سماجی نظام قائم ہے، جمہوریت بھی اسی کے نظریات کی مرہون ِ منت ہے۔

    انسانی مساوات کا مبلغ یہ عظیم جینوا کا ایک فلسفی اور انشا پرداز، جس کی تحریریں فرانس میں انقلاب برپا کرنے کا سبب بنیں، وہ 28 جولائی 1712 جینوا میں پیدا ہوا ،جوانی میں وطن کو خیر باد کہہ کہا اور آوارہ گردی اختیار کی۔ یورپ کے کئی ملکوں میں سفر کرتا ہوا فرانس پہنچا اور ایک معزز خاتون مادام وارنس کی سرپرستی میں موسیقی، فلسفے اور سیاسیات کی تعلیم حاصل کی ۔

    پیرس میں 1745 میں اس کی ملاقات تریزے نام کی خاتون سے ہوئی اور پھر کچھ عرصہ بعد انہوں نے شادی کرلی ۔ ان کے ہاں پانچ بچے ہوئے لیکن ان سب کو یتیم خانہ میں داخل کرادیا گیا۔

    سنہ 1760ء میں ایک مضمون سائنس اور آرٹ کا اثر اخلاق پر لکھا یہ مضمون بہت مشہور ہوا، دوسرے سال ناول ایملی لکھا جس میں تعلیم کے اصولوں اور طریقوں پر بحث کی 1762ء میں معاہدہ عمرانی لکھی جس میں حکومت اور معاشرے کے اصولوں پر تبصرہ کیا۔ وہ کہتا ہے کہ انسان فطری طور پر آزاد اور نیک پیدا ہوا ہے لیکن معاشرہ اسے بدی میں مبتلا کر دیتا ہے اسے رومانیت کا بانی بھی سمجھا جاتا ہے۔

    اس نے آزاد خیالی اور عام لوگوں کے حقوق کے بارے میں بہت کچھ لکھا۔ اس کے نظریات نے انقلاب فرانس کے رہنماؤں کو بہت متاثر کیا ۔روسو کے نظریات میں انسانی برابری کے لیے بہت شدت پائی جاتی ہے اس کے خیال میں معاشرے کا ڈھانچہ انسانی برابری کے غیر موزوں ہے۔ اس کے خیال میں ’’انسان آزاد پیدا ہوا تھا لیکن ہر طرف وہ زنجیروں ميں جکڑا ہوا نظر آتا ہے‘‘۔

    سوشل کانٹریکٹ The Social Contract، فرانسیسی فلسفی ژاں ژاک روسو کی سیاسی حکومت میں انسانی حقوق سے متعلق کتاب ہے۔ اس کتاب میں اس نے نظریہ معاہدہِ عمرانی پر بحث کی، اس کتاب کا شمار ان کتب میں ہوتا ہے جنہوں نے انسانی معاشرے کو بدل دیا۔،

    معاہدہ عمرانی کا پہلا جملہ ہزاروں بار دہرایا جاتا ہے:

    [bs-quote quote=”انسان آزاد پیدا ہوا لیکن وہ زنجیروں میں جکڑا نظر آتا ہے” style=”style-17″ align=”center”][/bs-quote]

    اسی کتاب میں روسو کہتا ہے کہ انسان کو آزاد ہونے پر مجبور کیا سکتا ہے اس کتاب کو اکثر ماہرین نے کبھی سیاسی فلسفہ نہیں مانا مگر اس کے اثرات کو ہر ایک نے قبول کیا ہے اور اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ بہت جلد ہی اس کتاب میں پیش کردہ خیالات سیاسی نظریے میں جانے پہچانے اصول بن گئے۔

    روسو کے کتاب سے اقتباسات

    مسئلہ یہ ہے کہ اجتماع کی کوئی ایسی شکل پیدا کی جائے جس میں تمام قوت اجتماعی کے ذریعے ہر شہری کی جان ومال کی حفاظت ہو سکے اور جس کی بنا پر گو ہر شخص کل میں شریک ہو، تاہم وہ خود صرف اپنی تابعداری کر سکے اور اس کی وہی آزادی برقرار رہے جو اسے پہلے حاصل تھی۔،

    ژاں ژاک روسوکی تصانیف نے اہل فرانس کو آزادی کی اہمیت کا احساس دلایا۔ زوال پذیر جاگیردارانہ،سیاسی نظام اور سماجی نظام کو تبدیل کرنے کی ترغیب دی۔ بہت سے ناقدین تسلیم کرتے ہیں کہ روسو نے عوام کو انقلاب فرانس کیلئے دوسروں سے زیادہ تخلیقی تحریک دی ۔

    روسو کے نظریے کی رو سے ہر وہ حکومت ناجائز ہے جو آمرانہ مزاج رکھتی ہو اور عوام کی مرضی کے بغیر وجود میں آئے۔

    زندگی کے آخری دنوں میں فرانس کا یہ عظیم فلسفی تنہائی کا شکار تھا۔ کم وبیش سبھی دوستوں سے اس کے رابطے ٹوٹ چکے تھے لوگ اس کے شکی مزاج اور جھگڑالو پن کے سبب اس سے دور رہنے لگے تھے ،تنہای اور پریشانی کے ان دنوں میں بھی روسو نے لمبی لمبی سیریں جاری رکھیں اور اپنی زندگی کے آخری ایام اس نے پیرس کے مضافاتی قصبے میں گزارے -قصبے میں آنے کے چند روز بعد روسو کے وہم شدید ہ ونے لگے تھے ، وہ محسوس کرتا تھا کہ اسے بندی خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔

    بالاخر 2 جولائی 1778 کو اچانک سب کچھ ختم ہوگیا۔ فلسفی جان کی بازی ہارگیا، موت سبب کیا تھا ؟، یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ڈاکٹرزکہتے ہیں کہ روسو کی موت دماغ کی شریان پھٹنے سے ہوئی۔

    اس کے انتقال کے محض دس مہینے بعد فرانس میں انقلاب کے پہلے دور کا آغاز ہوگیا، وہ انقلاب جس کی فصل روسو نے کاشت کی تھی ، افسوس کے اسے دیکھنے کے لیے زندہ نہ تھا، لیکن اس کا شمار انقلاب کے بانیوں میں سے ہوتا ہے۔

  • بھوکوں کو کیک کھانے کا مشورہ دینے والی ملکہ کے زیورات نیلام

    بھوکوں کو کیک کھانے کا مشورہ دینے والی ملکہ کے زیورات نیلام

    جنیوا: انقلاب ِ فرانس میں عوامی غضب کا نشانہ بننے والی ملکہ میری انتونیت کے قیمتی موتی اور ہیرے جڑے ہار کی نیلامی ہوئی، ہار اور دیگر جواہرات تین کروڑ ڈالر میں خرید لیے گئے جو کہ کسی بھی فروخت ہونے والے موتی کے لیے عالمی ریکارڈ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اس بدنصیب ملکہ کے زیورات پچھلے دو سو سال سے منظرِ عام پر نہیں آئے تھے اور ان میں موتی اور ہیرے جڑے ہار، بالیاں اور دوسرے زیورات شامل تھے۔ یہ زیورات اٹلی کے بوربن پارما ہاؤس کی جانب سے فروخت کے لیے پیش گئے تھے۔

    سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں سدبیز نیلام گھر نے ملکہ میری انتونیت کے زیورات کا تخمینہ 20 لاکھ ڈالر لگایا گیا تھا۔ اس موتی کی فروخت سے قبل عالمی ریکارڈ معروف اداکارہ ڈیم الزبتھ ٹیلر کے جواہرات کا تھا جب ان کا جڑاؤ ہار 2011 میں ایک کروڑ ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔

    سدبیز نے ملکہ میری انتونیت کے جواہرات کی نیلامی پر کہا کہ یہ ‘جوہرات اہم ترین شاہی خاندان کے خزانے میں سے ایک ہیں جو فروخت کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔’

    سدبیز کی ڈپٹی چئیر ڈینیئلا مسکیٹی نے اس پر کہا کہ ‘یہ زبردست جواہرات ہمیں صدیوں پرانے اُس خاندان کے طرز زندگی کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے۔ یہ جواہرات انتہائی خوبصورت ہیں اور ان پر بہترین کام کیا گیا ہے۔’

    دریں اثنا ء ملکہ میری انتونیت کے جواہرات کے علاوہ شاہ چارلس پنجم، آسٹریا کے حکمران آرچ ڈیوکس اور ڈیوکس آف پارما کے جواہرات بھی اس نیلامی کا حصہ تھے۔نیلامی میں فروخت ہونے والے تمام جواہرات کی کل قیمت چھ کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھی۔

    یاد رہے کہ میری انتونیت کا تعلق آسٹریا سے تھا اور انھوں نے فرانس کے بادشاہ لوئی شازدہم سے شادی کی تھی۔ ملک میں انقلاب کے بعد انھوں نے اپنے زیورات آسٹریا منتقل کر دیے تھے ، اور خود بھی ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن اپنے خاوند اور بچوں سمیت پکڑی گئیں۔ سنہ 1793 میں 37 سال کی عمر میں گلوٹین کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

    تاریخی ماخذات کے مطابق اس شاہی خاندان نے اس قدر پرتعیش زندگی گزاری تھی کہ عوام کو روٹی بھی بمشکل نصیب ہورہی تھی ، کہا جاتا ہے کہ ایسے ہی ایک احتجاج کا مذاق اڑاتے ہوئے ملکہ نے کہا تھا کہ ’اگر ان کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے تو یہ کیک کیوں نہیں کھاتے‘۔ ملکہ کے اس فقرے نے جلتی پر چنگاری کا کام کیا اور پورے ملک میں انقلاب کی لہر دوڑ گئی تھی۔