Tag: انقلابی شاعری

  • نوعمر ترقّی پسندوں کے چار مشغلے

    نوعمر ترقّی پسندوں کے چار مشغلے

    جب میں 1938ء میں دہلی سے لکھنؤ آیا تو مجاز وہاں پہلے سے موجود تھے۔ ان کے والد نے ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد لکھنؤ میں گھر بنایا تھا، مجاز کے چھوٹے بھائی انصار ہاروانی جو اب پارلیمنٹ کے ممبر ہیں، نیشنل ہیرالڈ میں کام کرتے تھے، وہاں کئی اور بھی احباب تھے، انور جمال قدوائی، سبط حسن، فرحت اللہ انصاری، علی جواد زیدی وغیرہ۔ حیات اللہ انصاری ہفتہ وار ہندوستان کے ایڈیٹر تھے۔ یش پال ہندی اور اردو میں الگ الگ اپنا رسالہ وپلو شائع کرتے تھے۔

    روز بروز ترقی پسندوں کا حلقہ وسیع ہوتا جاتا تھا۔ ڈاکٹر علیم اور احمد علی لکھنؤ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ ڈاکٹر رشید جہاں جنہیں ہم سب پیار سے رشید آپا کہتے تھے، ڈاکٹری کرتی تھیں، افسانے لکھتی تھیں، اور تمام نوعمر ادیبوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتی تھیں۔

    کبھی کبھی الٰہ آباد سے سجاد ظہیر، ڈاکٹر اشرف اور ڈاکٹر احمد آ جاتے تھے، جو پنڈت نہرو کی سرپرستی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے آفس میں کام کر رہے تھے۔ کان پور میں دو ایک انگریز ترقی پسند پروفیسر تھے۔ وہ بھی لکھنؤ کے چکّر لگاتے رہتے تھے۔
    اسی سال ڈاکٹر ملک راج آنند ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے (جس کا افتتاح ٹیگور نے کیا) انگلستان سے آئے تھے، ان کی زبان پر اسپین کا ذکر تھا، جس کے انقلابی کارنامے پہلے ہی ہم تک پہنچ چکے تھے۔

    لاپشناریا اور لور کے نام فضاؤں میں گونج رہے تھے، ایک سال بعد 1939ء میں جذبی بھی لکھنؤ آئے اور جوش ملیح آبادی بھی۔ ان کا رسالہ ’’کلیم‘‘ اب نیا ادب میں ضم ہو گیا اور وہ ایک طرح سے ہمارے ادبی سرپرست بن گئے۔ (اسی زمانے میں سکندر علی وجد بھی لکھنؤ آ گئے۔ وہ نظام سرکار کا سول سروس کا امتحان دے کر ٹریننگ لینے لکھنؤ آئے تھے۔ اس لیے آوارہ گردوں اور چاک گریبانوں میں شامل ہوئے، ویسے جذباتی طور سے وہ بھی ہمارے قریب تھے۔)

    نوعمر ترقّی پسندوں کی ٹولی عجیب و غریب زندگی بسر کر رہی تھی۔ کچھ تو ابھی تک کالج اور یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے لیکن سارے ہندوستان میں مشہور ہو چکے تھے، کچھ ابھی ابھی تعلیم سے فارغ ہوئے تھے۔ ہمارے چار مشغلے تھے۔ تعلیم، ادب، سیاست اور آوارہ گردی۔ اس اعتبار سے ہم مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر پائے جاتے تھے۔

    ایک سرے پر فرنگی محل تھا، جس کے روشن خیال اور خوش اخلاق علما کے ساتھ نہایت ادب سے انتہائی بے باک بحثیں کی جاتی تھیں، اور دوسرے سرے پر ریڈیو کی مشہور گانے والی گوہر سلطان کا وہ گھر تھا جسے ہم خرابات کہتے تھے۔

    ان دونوں سروں کے درمیان نیشنل ہیرالڈ، پانیر، ہندوستان، وپلو اور نیا ادب کے دفاتر، یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ حبیب اللہ صاحب کا گھر، پروفیسر ڈی پی مکھر جی کا کتب خانہ، وائی، ڈبلو، سی، اے کا خوب صورت ہال جہاں مایا سرکار شمعِ محفل ہوا کرتی تھیں۔ یونیورسٹی کی لڑکیوں کا کیلاش ہاسٹل جہاں ہرسال ہولی کھیلنے پر جرمانہ ہوتا تھا اور نہ جانے کتنے کافی ہاؤس، ریستوراں اور مے خانے تھے اور یہ ساری گزرگاہیں کوچہ پار سے ہوتی ہوئی زندانوں کی طرف جارہی تھیں، جن کی دیواروں کے پیچھے آزادی کی خوب صورت صبح کا اجالا دھندلا دھندلا نظر آ رہا تھا اور اس کی دل فریبی ہماری نگاہوں کو دعوتِ نظّارہ دے رہی تھی۔

    (ہندوستان پر انگریز راج سے بیزار، آزادی اور انقلاب کا خواب دیکھنے والے ہم مجلس نوجوان ادبا اور شعرا کے بارے میں ترقی پسند شاعر اور نقّاد علی سردار جعفری کے مضمون ” لکھنؤ کی پانچ راتیں” سے اقتباس)

  • شاعرِ انقلاب حبیب جالب کی للکار آج بھی زندہ ہے

    شاعرِ انقلاب حبیب جالب کی للکار آج بھی زندہ ہے

    سیاسی جبر، بدنیتی پر مبنی سماجی بندشوں اور انسانوں سے امتیازی سلوک کے خلاف انقلابی شاعری کے لیے مشہور حبیب جالب کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ 12 مارچ 1993 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا کو چھوڑ گئے تھے۔

    حبیب جالب نے جو لکھا زبان زدِ عام ہو گیا۔ ظلم اور زیادتی کے خلاف ان کی شاعری نے جہاں عوام میں بیداری اور جوش و ولولہ پیدا کیا، وہیں حکم رانوں کی من مانی، جبر اور عوام دشمن فیصلوں کو بھی للکارا۔

    غربت، تنگ دستی اور نامساعد حالات میں بھی وہ غریب اور پسے ہوئے طبقے کے حق میں آواز بلند کرتے رہے اور اس کے لیے سڑکوں پر احتجاج کیا، تحریر و تقریر پر ریاستی جبر اور زنداں کی صعوبت سے نہ گھبرائے۔

    بے خوف اور نڈر حبیب جالب کی توانا فکر نے جہاں اردو شاعری کو انقلاب آفریں نغمات سے سجایا، وہیں ان کے رومانوی گیت بھی قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن وہ اپنی عوامی شاعری کی وجہ سے زیادہ مقبول ہیں۔

    سیاسی جبر اور جنونی حکم رانوں کے بدنیتی پر مبنی، مکروہ اور تاریک فیصلوں کے خلاف حبیب جالب کی مشہور نظم دستور کی گونج بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کے دوران بھی سنائی دی اور جب بھی ظلم، زیادتی اور ناانصافی ہو گی حبیب جالب کے اشعار اور ان کے انقلابی ترانے مجبور اور بے کس انسانوں کا لہو گرمائیں گے اور انھیں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے پر آمادہ کریں گے۔

  • کیفی اعظمی: رومان پرور گیتوں‌ سے انقلابی نظموں‌ تک

    کیفی اعظمی: رومان پرور گیتوں‌ سے انقلابی نظموں‌ تک

    مشہور شاعر کیفی اعظمی کے سریلے گیتوں، غزلوں‌ اور لطیف جذبات سے آراستہ نظموں کے دیوانے آج ان کا یومِ پیدائش منا رہے ہیں۔

    سید اطہر حسین رضوی ان کا اصل نام تھا۔ وجہِ شہرت شاعری اور قلمی نام کیفی اعظمی سے معروف ہیں۔

      1919 کو بھارت کے شہر اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے کیفی اعظمی نے 11 برس کی عمر ہی میں شاعری شروع کر دی تھی۔ زندگی کا پہلا مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا تو سبھی کی توجہ حاصل کر لی۔ اس دور میں‌ یہ شعر ان کی شناخت بنا۔

    مدت کے بعد اس نے جو الفت سے نظر کی
    جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

    غور و فکر کی عادت اور مطالعے کے شوق نے انھیں دنیا بھر کا ادب پڑھنے، مختلف نظریات اور تحریکوں سے آگاہی کا موقع دیا اور انھوں نے بامقصد تخلیق کو اہمیت دی۔ جلد ہی اشتراکیت اور کارل مارکس سے شناسائی ہو گئی۔ وہ ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔

    کیفی اعظمی کی غزلیں اور نظمیں جہاں انھیں اردو زبان کے ایک رومان پرور شاعر کے طور پر متعارف کرواتی ہیں، وہیں ان کی شاعری میں انسان دوستی کا رنگ بھی ہے اور ان کے کلام سے ان کی انقلابی فکر کا اظہار بھی ہوتا ہے۔

    وہ ظلم و جبر کے خلاف اپنی تخلیقات ہی کے ذریعے آواز نہیں اٹھاتے رہے بلکہ میدانِ عمل میں بھی پیش پیش رہے۔ کیفی اعظمی مزدور تحریک کا حصہ بنے، کمیونسٹ پارٹی کے رکن کے طور پر سرگرم رہے اور صحافت بھی کی۔

    فلم کے لیے گیت نگاری کے علاوہ صحافت بھی کیفی اعظمی کا ایک حوالہ ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کی مقبولیت کی اصل وجہ جذبات کی فراوانی کے ساتھ خوب صورت الفاظ کا انتخاب اور منفرد لہجہ ہے جس میں انقلابی فکر اور باغیانہ ترنگ بھی شامل ہے۔ کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے کلام سے چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔

    تم  اتنا  جو مسکرا  رہے  ہو
    کیا غم ہے جس کو چھپارہے ہو
    آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر
    کیا حال ہے، کیا  دکھا رہے ہو
    بن جائیں گے زہر پیتے پیتے
    یہ  اشک جو پیتے  جا رہے ہو
    ریکھاؤں  کا  کھیل  ہے  مقدر
    ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

    یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
    دبا دبا سا  سہی دل میں پیار  ہے کہ نہیں
    تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا
    مری طرح ترا دل بے قرار  ہے کہ نہیں
    وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے
    اُس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں