Tag: انور کمال پاشا

  • انور کمال پاشا کی منٹو سے ملاقات (دل چسپ واقعہ)

    انور کمال پاشا کی منٹو سے ملاقات (دل چسپ واقعہ)

    اگر کسی اسٹوڈیو میں آپ کو کسی مرد کی بلند آواز سنائی دے، اگر آپ سے کوئی بار بار ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے بڑے اونچے سُروں میں بات کرے، یا کسی محفل میں کوئی اس انداز سے بول رہے ہوں جیسے وہ سانڈے کا تیل بیچ رہے ہیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ حکیم احمد شجاع صاحب کے فرزندِ نیک اختر مسٹر انور کمال پاشا ہیں۔

    انور کمال پاشا کی شخصیت منفرد ہے۔ گو انور پاشا کی آنکھوں کا بھیڑیا پن نہیں تو ان میں ایک ہلکی سی چمک ضرور ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ وہ دوسروں پر چھا جانے کی قوت رکھتے ہیں۔ جسمانی قوّت تو خیر ان میں اسی قدر ہوگی جتنی میرے جسمِ ناتواں میں ہے مگر وہ میری طرح دھونس جما کر اس کمی کو پورا کر ہی لیتے ہیں۔ فلمی دنیا میں دراصل بلند بانگ دعوے ہی بااثر ثابت ہوتے ہیں۔ ایک محاورہ ہے ’’پدرم سلطان بود‘‘ لیکن اس کے برعکس انور کمال پاشا ہمیشہ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ میرا باپ سلطان نہیں گڈریا تھا، سلطان تو میں ہوں۔

    اس میں شعبدہ بازی کے جراثیم موجود ہیں۔ جس طرح مداری اپنے منہ سے فٹ بال کی جسامت کے بڑے بڑے گولے نکالتا ہے اسی طرح وہ بھی کوئی اس قسم کا اسٹنٹ کر سکتا ہے۔ لیکن مجھے حیرت ہے اور یہ حیرت اس لیے کہ وہ چالاک نہیں، عیار نہیں، دغا باز نہیں لیکن پھر بھی جب لوگ اس کے منہ سے فٹ بال جتنے گولے باہر نکلتے دیکھتے ہیں تو کچھ عرصے کے لیے اس کی ساحری سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔

    ہو سکتا ہے، بعد میں وہ اپنی حماقت پر افسوس کریں کہ یہ تو محض فریبِ نظر تھا، یا گولے نکالنے میں کوئی خاص ترکیب استعمال کی گئی مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ انور کمال پاشا اس دوران میں کوئی اور شعبدہ ایجاد کر لیتا ہے۔ اس وقت اپنا دوسرا فلم بنانے کے لیے سرمایہ داروں سے، بہت ممکن ہے یہ کہہ رہا ہو کہ میں اب کے ایسا فلم بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں جو ہالی ووڈ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس میں کوئی ایکٹر ہو گا نہ ایکٹریس۔ صرف کٹھ پتلیاں ہوں گی جو بولیں گی۔ گانا گائیں گی اور ناچیں گی بھی۔ اور کلائمکس اس کا یہ ہوگا کہ وہ گوشت پوست کی بن جائیں گی۔

    انور کمال پاشا پڑھا لکھا ہے۔ ایم اے ہے۔ انگریزی ادب سے اسے کافی شغف رہا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اپنے فلموں کی کہانی اسی سے مستعار لیتا ہے اور حسبِ ضرورت یا حسبِ لیاقت اردو زبان میں ڈھال دیتا ہے۔ اس کے فلموں کے کردار ہمیشہ ڈرامائی انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ خود ڈرامائی انداز میں گفتگو کرنے کا عادی ہے۔ اس کی وجہ ایک اور بھی ہے کہ اس کے والد محترم جناب حکیم احمد شجاع صاحب کسی زمانے میں اچھے خاصے ڈرامہ نگار تھے۔ ان کا لکھا ہوا ڈرامہ’’باپ کا گناہ‘‘ بہت مشہور ہے۔

    انور کمال پاشا بہرحال بڑی دل چسپ شخصیت کا مالک ہے۔ وہ اتنا بولتا، اتنا بولتا ہے کہ اس کے مقابلے میں اور کوئی نہیں بول سکتا۔ اصل میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ اپنی آواز خود سننا چاہتا ہے اور دل ہی دل میں داد دیتا ہے کہ انور کمال پاشا تُو نے آج کمال کر دیا۔ تیرے مقابلے میں اور کوئی اتنا زبردست مقرر نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ نفسیات کے متعلق کچھ جانتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بعض انسانوں کو یہ مرض ہوتا ہے کہ وہ ریکارڈ بن جائیں اور اسے گرامو فون کی سوئی تلے رکھ کر ہر وقت سنتے رہیں۔ انور کمال پاشا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

    اس کے پاس اپنی گفتگوؤں کے کئی ریکارڈ ہیں جو اپنی زبان کی سوئی کے نیچے رکھ کر بجانا شروع کر دیتا ہے اور جب سارے ریکارڈ بج چکتے ہیں تو وہ ریڈیو کے فرمائشی پروگرام سننے والے بچوں کے مانند خوش ہو کر محفل سے چلا جاتا ہے۔

    اس نے اب تک مندرجہ ذیل فلم بنائے ہیں جن میں سے کچھ کامیاب رہے اور کچھ ناکام۔

    ’دو آنسو‘، ’دلبر‘، ’غلام‘، ’گھبرو‘، ’گمنام‘۔ اگر آپ نے یہ فلم دیکھے ہیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ان میں کتنے فلموں میں دریا آتا ہے جس میں کہانیوں کے کردار گرے ہیں لیکن وہ موت کا قائل نہیں۔ وہ ان کو دریا میں گراتا ضرور ہے مگر بعد میں بتاتا ہے کہ وہ ڈوبا نہیں تھا یعنی مر نہیں گیا تھا، کسی نہ کسی ذریعے سے ( انور کمال پاشا کے اپنے دماغ کی عجیب و غریب تخلیق ہوتا ہے) زندہ رہا تھا۔

    معلوم نہیں، میں کہاں تک صحیح ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انور کمال پاشا کی زندگی بھی شاید ڈوب ڈوب کر زندہ رہنے سے دوچار رہی ہے۔

    اس نے اپنی زندگی میں کئی ندیاں پار کی ہیں۔ ایک تو وہ تھی جو سہرے جلوے کی بیاہی ہوئی تھی۔ اس کو پار کرنے میں تو خیر اس کو کوئی دقّت محسوس نہ ہوئی ہوگی مگر جب اس کے سامنے وہ ندی جس کا نام شمیم تھا، بمبئی سے بہتی ہوئی لاہور آئی تو اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ماہر تیراک کے مانند اسے بھی پار کر گیا۔ اس کو بہت دیر سے فلم بینی کا شوق تھا۔ بعد میں یہ شوق اس دھن میں تبدیل ہوگیا کہ وہ ایک فلم بنائے۔ جب شمیم سے اس کی راہ و رسم ہوئی تو اس نے اس سے فائدہ اٹھایا اور لاؤڈ اسپیکر بن کر ہر طرف گونجنے لگا کہ ’’آؤ میں فلم بنانا چاہتا ہوں۔ ہے کوئی سخی ایسا جو مجھے سرمایہ دے۔‘‘

    اس کی مسلسل صدا پر آخر کار اسے سرمایہ مل گیا۔ شمیم بمبئی میں ایک ایسی ندی تھی جس کا پانی بہت صاف ستھرا تھا۔ اس میں کئی غواص تیر چکے تھے لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ پانی پتھر کی طرح ٹھہر گیا اس لیے کہ تیراکوں کے لیے وہ دل چسپی کا سامان نہ رہی۔ یہی وجہ ہے اسے اپنے وطن لاہور میں واپس آنا پڑا۔ خیر اس قصے کو چھوڑیے۔ یہ کوئی اصول اور لگا بندھا قاعدہ تو نہیں لیکن عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ فلم ڈائریکٹر، عورت کے ذریعے ہی سے آگے بڑھتے ہیں اور پیچھے بھی اس کی وجہ سے ہٹتے ہیں اور ایسے ہٹتے ہیں یا ہٹائے جاتے ہیں کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔

    پاشا نے تھوڑی دیر کے بعد شمیم سے شادی کر لی جو اپنا تنگ ماتھا، چوڑا کرنے کے لیے قریب قریب ہر روز اپنے بال موچنے سے نوچتی رہتی تھی۔ پاشا نے اس کی خوشنودی کی خاطر ضرور مصنوعی طور پر اپنے سارے پر و بال نوچ کے اس کے سامنے پلیٹ میں ڈال کر رکھ دیے ہوں گے۔ میں اب لمبے مضمون کو مختصر کرنا چاہتا ہوں اس لیے کہ میں انور کمال پاشا کی طرح طوالت پسند ہونا نہیں چاہتا۔ وہ بہت دل چسپ شخصیت کا مالک ہے اور اس شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ ہٹ دھرم بھی ہے اور تلون مزاج بھی، بکواسی بھی اور بعض اوقات سنجیدہ مزاج بھی۔

    میں آپ کو اختتامی طور پر ایک واقعہ سناتا ہوں۔ میں آج سے کچھ عرصہ پہلے شاہ نور اسٹوڈیو میں تھا، جہاں انور کمال پاشا اپنے فلم ’’گمنام‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھا۔ سردیوں کا موسم تھا، میں اپنے کمرے کے باہر کرسی پر بیٹھا ٹائپ رائٹر میزپر رکھے کچھ سوچ رہا تھا کہ پاشا اپنی کار سے اترا اور میرے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ علیک سلیک ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے مجھ سے کہا:

    ’’منٹو صاحب! میں ایک سخت الجھن میں گرفتار ہوں۔‘‘

    میں نے اپنے خیالات جھٹک کر پوچھا، ’’کیا الجھن ہے آپ کو؟‘‘

    اس نے کہا، ’’یہ فلم جو میں بنا رہا ہوں، اس میں ایک مقام پر اٹک گیا ہوں، آپ کی رائے لینا چاہتا ہوں، ممکن ہے آپ مشکل کشائی کرسکیں۔‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’میں حاضر ہوں فرمائیے! آپ کہاں اٹکے ہوئے ہیں؟‘‘ اس نے مجھے اپنے فلم کی کہانی سنانا شروع کردی۔ دو سین تفصیل سے اس انداز میں سنائے جیسے پولیس جیپ میں بیٹھی لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے راہ چلتے لوگوں کو ہدایت کررہی ہے کہ انہیں بائیں ہاتھ چلنا چاہیے۔ میں اپنی زندگی میں ہمیشہ الٹے ہاتھ چلا ہوں اس لیے میں نے پاشا سے کہا، ’’آپ کو ساری کہانی سنانے کی ضرورت نہیں۔ میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کس گڑھے میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘ پاشا نے حیرت آمیز لہجے میں مجھ سے پوچھا،’’آپ کیسے سمجھ گئے؟‘‘ میں نے اس کوسمجھا دیا اور اس کی مشکل کا حل بھی بتا دیا۔ جب اس نے میری تجویز سنی تو اٹھ کر ادھر ادھر ٹہلنا شروع کر دیا اور اس کے بعد کہا،’’ہاں کچھ ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    میں ذرا چڑ سا گیا، ’’حضرت! اس سے بہتر حل آپ کو اور کوئی پیش نہیں کر سکتا۔ مصیبت یہ ہے کہ میں فوری طور پر سوچنے کا عادی ہوں۔ اگر میں نے یہی حل آپ کو دس بارہ روز کے بعد پیش کیا ہوتا تو آپ نے کہا ہوتا سبحان اللہ۔ مگر اب کہ میں نے چند منٹوں میں آپ کی مشکل حل کر دی ہے تو آپ کہتے ہیں ہاں کچھ ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔ آپ کو شاید اس مشورے کی قیمت معلوم نہیں۔‘‘ پاشا نے فوراً اپنے پروڈکشن منیجر کو بلایا۔ اس سے چیک بک لی اور اس پر کچھ لکھا۔ چیک پھاڑ کر بڑے خلوص سے مجھے دیا، ’’آپ یہ قبول فرمائیں۔‘‘ اس کے اصرار پر میں نے یہ چیک لے لیا جو پانچ سو روپے کا تھا۔ یہ میری زیادتی تھی۔ اگر میں آسودہ حال ہوتا تو یقیناً میں نے یہ چیک پھاڑ دیا ہوتا لیکن انسان بھی کتنا ذلیل ہے یا اس کے حالات زندگی کتنے افسوس ناک ہیں کہ وہ گراوٹ پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔۔!

    (فلم انڈسٹری کے بے مثل ہدایت کار، اور فلم ساز انور کمال پاشا کے شخصی خاکے سے اقتباسات جس کے مصنّف سعادت حسن منٹو ہیں اور یہ خاکہ مصنّف کی 1955ء میں شائع ہونے والی کتاب میں شامل ہے)

  • انور کمال پاشا: پاکستانی فلم انڈسٹری کا باکمال ہدایت کار

    انور کمال پاشا: پاکستانی فلم انڈسٹری کا باکمال ہدایت کار

    ایک دور تھا جب پاکستانی فلم انڈسٹری میں انور کمال پاشا جیسے تعلیم یافتہ، قابل و باصلاحیت لوگ موجود تھے جنھوں نے بطور فلم ساز اور ہدایت کار یادگار کام کیا اور اپنی شناخت بنائی۔ ان کا اندازِ گفتگو، مخصوص چال اور دانش مندی بھی فلمی دنیا میں ان کی وجہِ شہرت رہی۔ آج انور کمال پاشا کا یومِ وفات ہے۔

    انور کمال پاشا 23 فروری 1925ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ باکمال شاعر اور مشہور ادیب حکیم احمد شجاع کے بیٹے تھے۔ انھوں نے ایف سی کالج لاہور سے گریجویشن کی اور بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے ڈبل ایم اے کیا۔ شروع میں فلم ”شاہدہ‘‘ میں انھوں نے بطور معاون ہدایت کار کام کیا۔ بعد میں انور کمال پاشا اسکرپٹ رائٹر، فلم ساز اور ہدایت کار کی حیثیت سے آگے بڑھے اور نام و مقام بنایا۔ فلم انڈسٹری میں ان کا طرۂ امتیاز سماجی موضوعات پر وہ فلمیں تھیں جن میں اصلاحی پہلو بھی نمایاں ہوتا تھا۔ افلاس، محبت، اخلاقی انحطاط، سماجی رویے اور عورت ان کی فلموں کے موضوعات تھے۔ انور کمال پاشا نے کئی اداکاروں کی تربیت کی اور بہت سے نئے چہرے متعارف کرائے۔ ان فن کاروں میں صبیحہ خانم، مسرت نذیر، اسلم پرویز، نیّر سلطانہ اور بہار بیگم شامل ہیں۔ انور کمال پاشا نے موسیقار ماسٹر عنایت حسین اور ماسٹر عبداللہ کو بھی فلمی صنعت میں متعارف کرایا۔ ان کی فلموں کے اسکرپٹ ان کے والد حکیم احمد شجاع کے زورِ قلم کا نتیجہ ہوتے تھے۔

    سعادت حسن منٹو بھی انور کمال پاشا کی شخصیت اور فن پر ایک مضمون میں لکھتے ہیں، انور کمال پاشا پڑھا لکھا ہے، ایم اے ہے۔ انگریزی ادب سے اسے کافی شغف رہا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اپنے فلموں کی کہانی اسی سے مستعار لیتا ہے اور حسبِ ضرورت یا حسبِ لیاقت اردو زبان میں ڈھال دیتا ہے۔ اس کے فلموں کے کردار ہمیشہ ڈرامائی انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ خود ڈرامائی انداز میں گفتگو کرنے کا عادی ہے۔ اس کی وجہ ایک اور بھی ہے کہ اس کے والد محترم جناب حکیم احمد شجاع صاحب کسی زمانے میں اچھے خاصے ڈرامہ نگار تھے۔

    انور کمال پاشا نے مجموعی طور پر 24 فلمیں بنائیں۔ جن فلموں نے زیادہ شہرت حاصل کی ان میں ”شاہدہ، دو آنسو، گمنام، انتقام، دلُاّ بھٹی، چن ماہی، سرفروش، انارکلی، گمراہ، عشق پر زور نہیں‘‘ شامل ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ”عشق پر زور نہیں‘‘ کی ہدایات شریف نیر نے دی تھیں لیکن نگرانی انور کمال پاشا نے کی تھی۔ ان کی فلم ”دو آنسو‘‘ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم تھی جو 7 اپریل 1950ء کو ریلیز ہوئی۔ صبیحہ اور سنتوش کمار کی جوڑی کو شہرت سے ہمکنار کرانے میں انور کمال پاشا کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ان کی فلموں کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ ان کی موسیقی نغمات اور مکالمے بہت جاندار ہوتے تھے۔

    انور کمال پاشا نے دو شادیاں کی تھیں۔ ان کی دوسری اہلیہ اپنے وقت کی معروف اداکارہ شمیم بانو تھیں جنھوں نے شمیم کے فلمی نام سے شہرت حاصل کی تھی۔ پاشا صاحب کی فلموں میں مستقل کام کرنے والوں کو ”پاشا کیمپ‘‘ کے لوگ کہا جاتا تھا۔ 1987ء میں انور کمال پاشا 62 برس کی عمر میں عالم جاوداں کو سدھار گئے۔ پاشا صاحب کو خدمات پاکستانی فلمی صنعت کا محسن کہا جاتا ہے۔

  • پاکستانی فلم صنعت کے باکمال ہدایت کار انور کمال پاشا کی برسی

    پاکستانی فلم صنعت کے باکمال ہدایت کار انور کمال پاشا کی برسی

    پاکستان کے نام وَر فلمی ہدایت کار انور کمال پاشا 1987ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ وہ ایک ادیب اور مترجم بھی جس نے فلم نگری سے مکالمے لکھ کر اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

    انور کمال پاشا کا تعلق لاہور کے ایک علمی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد حکیم محمد شجاع کا شمار اردو کے مشہور ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی کئی کہانیوں پر برصغیر کے باکمال ہدایت کاروں نے فلمیں بنائیں۔

    انور کمال پاشا کو اپنے والد کی وجہ سے شروع ہی سے اردو زبان و ادب کا بھی شوق رہا۔ انھوں نے مشہور ناول گڈ ارتھ کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

    وہ سرکاری ملازمت چھوڑ کر فلمی دنیا میں آئے تھے اور یہاں فلم ’’شاہدہ‘‘ کے مکالمے لکھ کر انڈسٹری سے وابستہ ہوئے، اس کے بعد بطور ہدایت کار انور کمال پاشا نے اپنے والد کے ناول ’’باپ کا گناہ‘‘ پر ’’دو آنسو‘‘ نامی فلم بنائی۔ یہ 1950ء میں ریلیز ہوئی اور کام یاب ثابت ہوئی۔

    بعد میں انور کمال پاشا نے غلام، قاتل، سرفروش، چن ماہی اور انار کلی جیسی فلمیں بنائیں جنھیں زبردست کام یابی نصیب ہوئی۔ ان کی دیگر فلموں میں دلبر، رات کی بات، انتقام، گمراہ، لیلیٰ مجنوں شامل ہیں۔

    فلم انڈسٹری کے اس ہدایت کار کو ان کی فلم ’’وطن‘‘ کی کہانی کے لیے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1981ء میں انور کمال پاشا کو ان کی تیس سالہ فلمی خدمات پر خصوصی نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت کار انور کمال پاشا کی برسی

    فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت کار انور کمال پاشا کی برسی

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کے نام ور ہدایت کار انور کمال پاشا کی برسی ہے۔ وہ 13 اکتوبر 1987ء کو وفات پاگئے تھے۔

    انور کمال پاشا کا تعلق لاہور کے ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد حکیم محمد شجاع اردو کے مشہور ادیب تھے جن کی کہانیوں کو سنیما پر پیش کیا گیا۔

    انور کمال پاشا نے ہدایت کار لقمان کی فلم ’’شاہدہ‘‘ کے مکالمے لکھ کر فلمی صنعت میں اپنا سفر شروع کیا اور بعد میں بطور ہدایت کار اپنے والد کے ناول ’’باپ کا گناہ‘‘ پر فلم ’’دو آنسو‘‘ بنائی۔ یہ فلم 1950ء کو ریلیز ہوئی جس میں صبیحہ، سنتوش کمار، شمیم بانو، ہمالیہ والا، شاہنواز، گلشن آرا، اجمل، علاءُ الدین اور آصف جاہ نے کردار ادا کیے تھے۔ انور کمال پاشا نے فلمی دنیا کو متعدد کام یاب فلمیں دیں جن میں غلام، قاتل، سرفروش، چن ماہی اور انار کلی کے نام سرِفہرست ہیں۔

    انور کمال پاشا ایک ادیب اور اچھے مترجم بھی تھے۔ پرل ایس بک کے مشہور ناول گڈ ارتھ کو انھوں نے اردو کے قالب میں ڈھالا تھا۔

    اس ہدایت کار کو فلم ’’وطن‘‘ کی کہانی پر نگار ایوارڈ دیا گیا جب کہ 1981ء میں فلم نگری کے لیے ان کی تیس سالہ خدمات پر انھیں خصوصی نگار ایوارڈ دیا گیا تھا۔

  • لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    اردو ادب کے عظیم فقیر منش شاعر ساغر صدیقی کو دنیا سے رخصت ہوئے 45 برس بیت گئے لیکن ان کا کلام آج بھی زندہ ہے‘ ساغر 19 جولائی 1974 کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
    منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
    منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

    اردوزبان کو لطافت بخشنے والے عظیم شاعر ساغر صدیقی کو اہل ذوق آج ان کی رحلت کے چالیس سال بعد بھی یاد کررہے ہیں ۔ ساغر صدیقی سنہ 1928میں بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔

    ان کا اصل نام محمد اختر تھا اورآپ چودہ برس کی عمر میں ہی شعر کہنے لگے تھے، ابتدا میں ’ناصر حجازی‘کے تخلص سے غزلیں کہیں بعد ازاں ’ساغر صدیقی‘ کے نام سے خود کو منوایا۔

    ساغر بقدرِ ظرف لٹاتا ہوں نقد ِ ہوش
    ساقی سے میں ادھار کا قائل نہیں ہوں دوست

    Related image

    ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں بڑے پیمانے پر ایک مشاعرے کے انعقاد کا اعلان ہوا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ ’’لڑکا‘‘ (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔

    مجھ کو خزاں کی ایک لٹی رات سے ہے پیار
    میں موسمِ بہار کا قائل نہیں ہوں دوست

    اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں ساغرکی مانگ بڑھ‍ گئی۔ مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی یافت ہو جاتی تھی کہ انہیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ و دو کی ضرورت نہ رہی۔ کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔

    یہ جو دیوانے سے دوچار نظر آتے ہیں
    ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

    سنہ 1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ ‍ لیا۔ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ فلم بنانے والوں نے ان سے گیتوں کی فرمائش کی اور اس میں انہیں بے مثال کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔

    اس زمانے میں ان کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساغرسے لکھوائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    وہ ایک درویش صفت شاعر تھے۔عشق مجازی عشق حقیقی ،جدوجہد، لگن اور آوارگی ساغر صدیقی کی شاعری کا موضوع بنے‘ ساغر کی آواز میں سوز اور کلام میں آفاقی پیغام تھا‘ دنیا سے متعدد بار دھوکے اٹھانے کے بعد ساغرنے نشے میں چھپنا چاہا ‘ جس کے سبب وہ ہر شے سے بے خبر ہوکر سڑکوں پر آبیٹھے۔

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    غربت اور نشے کی لت نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور وہ شراب کے بعد بھنگ اور مارفین جیسے گھٹیا اقسام کے نشے بھی استعمال کرنے لگے جس کے سبب ان کی صحت دن بدن جواب دیتی چلی گئی‘ اس دور میں بھی ان کی شاعری کمال کی تھی۔ ساغر کوا ن کے اپنے دوستوں نے لوٹا اور ایک چرس کی سگریٹ کے عوض ان سے فلمی گیت اور غزلیں لکھوائیں اور اپنے نام سے شائع کرائیں۔

    کچھ حال کے اندھے ساتھی تھے‘ کچھ ماضی کے عیار سجن
    احباب کی چاہت کیا کہیے ‘ کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

    جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
    اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

    ساغر نشے کی آغوش میں جانے سے قبل ایک نامور شاعر تھے اسی سبب ان کا کلام ناشروں نے ان کے نام سے چھاپا اور یہ گوہرِ نایاب ضائع ہونے سے بچ گیا‘ وفات تک ان کے کل چھ مجموعے غم بہار‘ زہر آرزو (1946ء)‘ لوح جنوں (1971ء)‘ سبز گنبد اور شبِ آگہی منظرِ عام پر آچکے تھے۔ ساغر نے غزل ‘ نظم‘ قطعہ‘ رباعی ‘ نعت ‘ گیت الغرض ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کا مجموعہ کلام کلیاتِ ساغر کے نام سے شائع ہوچکا ہے

    آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    انیس جولائی انیس سو چوہتر کی صبح جب لوگ بیدار ہوئے تودیکھا کہ سڑک کنارے ایک سیاہ گٹھری سی پڑی ہے ‘ قریب آئے تو معلوم ہوا کہ اپنے وقت کا نابغہ ٔ روزگار شاعر’ساغر صدیقی ‘ اس جہان فانی سے رخصت ہوچکا ہے ، آپ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں‘ ہر سال آپ کے مزار پر عرس کا انعقاد ہوتا ہے، انہیں درویش یا فقیر منش شاعر اور ولی تصور کیا جاتا ہے ، ان کی لوح مزار پر ان کا ایک لقب سراغ رسانِ اولیا ء بھی درج ہے۔

    محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
    ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

    چلو تم بھی سفر اچھا رہے گا
    ذرااجڑے دیاروں تک چلیں گے