Tag: انٹارکٹیکا

  • انٹارکٹیکا، برطانوی شخص کی باقیات 66 سال بعد گلیشیئرز سے مل گئیں

    انٹارکٹیکا، برطانوی شخص کی باقیات 66 سال بعد گلیشیئرز سے مل گئیں

    انٹارکٹیکا میں حادثے کا شکار ہونے والے برطانوی شخص کی باقیات 66 سال بعد انٹارکٹیکا کے گلیشیئرز سے برآمد کرلی گئیں۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق 25 سالہ ڈینس ٹنک بیل نامی برطانوی شہری 1959 میں انٹارکٹیکا گلیشیئرز پر تحقیقی کام کے دوران برف کی گہری دراڑ میں گر کر اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔

    برطانوی میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ برطانوی شخص کی باقیات جنوری میں انٹارکٹیکا گلیشیئرز پر کام کرتی پولینڈ کی تحقیقاتی ٹیم کو ملیں۔

    رپورٹس کے مطابق پگھلے ہوئے گلیشیئر سے باقیات کے ساتھ ایک گھڑی، ریڈیو پرزہ جات اور دیگر کچھ اور چیزیں بھی برآمد کی گئیں۔

    ڈینس فاک لینڈ حادثے کے وقت جزائر کے انحصار سروے کے لیے ماہر موسمیات کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔ باقیات کی شناخت ڈینس کے بہن بھائیوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے کی گئی۔

    اس سے قبل گریٹر مانچسٹر پولیس نے 12 سال قبل سیلفورڈ میں قتل ہونے والی 25 سالہ خاتون رانیہ کی باقیات برآمد کرلی تھیں۔

    رانیہ کو 12 سال قبل اس کے شوہر نے قتل کر کے لاش کو گم کر دیا تھا، رانیہ 25 سال کی تھی، جب اس کے شوہر احمد الخطیب نے اسے جون 2013 میں سیلفورڈ مانچسٹر کے ایک فلیٹ میں قتل کر دیا تھا۔

    گریٹر مانچسٹر پولیس نے یارکشائر کے ویرانے میں جاسوس کتوں کی مدد سے مدفون لاش تلاش کی اور اسے لیبارٹری میں بھیج دیا تھا۔

    اب پولیس نے کنفرم کیا ہے کہ یہ لاش مقتولہ رانیہ الید ہی کی ہے، اس حوالے سے پولیس نے لواحقین کو تمام معلومات فراہم کر دیں ہیں۔

    ویڈیو : ہانگ کانگ میں پہلے دیو قامت ڈائنو سار کے باقیات کی حیرت انگیز نمائش

    رانیہ کے بیٹے بازان نے اپنے خاندان کی طرف بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک دھائی سے زائد عرصہ کے بعد والدہ کی باقیات کی دریافت میرے خاندان کے لیے حیرت انگیز بات ہے۔

    مقتولہ کے شوہر کو جرم ثابت ہونے پر مانچسٹر کراؤن کورٹ نے 20 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ الخطیب نے جرم کا اعتراف کر لیا تھا تاہم اس کا کہنا تھا کہ وہ ذہنی طور پر بیمار تھا۔

  • ویڈیو: دنیا کے سب سے بڑے آئس برگ کے ٹوٹنے کے بعد شاندار نظارہ

    ویڈیو: دنیا کے سب سے بڑے آئس برگ کے ٹوٹنے کے بعد شاندار نظارہ

    دنیا کے سب سے بڑے آئس برگ کے ٹوٹنے کے بعد کا ایک شاندار نظارہ دیکھنے میں آیا ہے جب ایک فوٹوگرافر نے اس کی ویڈیو ریکارڈ کی۔

    اپنے ماحول کو تبدیل کرنے کی فطرت کی ناقابل یقین قوتیں بہت ہی مہیب ہیں، اور یہ سلسلہ جانے کب سے چلتا چلا آ رہا ہے، 1986 میں انٹارکٹک ساحل سے الگ ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے آئس برگ نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی تھی، جسے A23a نام دیا گیا۔

    دنیا کا یہ سب سے بڑا آئس برگ انٹارکٹک کے آئس شیلف سے علحیدہ ہونے کے بعد بحیرہ ویڈل میں جا گرا اور سمندر کی تہہ میں پھنسنے کی وجہ سے ٹھہر گیا، اور یوں ایک برف کا جزیرہ بن گیا۔ آئس شیلف سے ٹوٹنے سے قبل برف کے اس عظیم الشان ٹکڑے پر کبھی سوویت ریسرچ اسٹیشن ہوا کرتا تھا۔

    تاہم گزشتہ نومبر میں سیٹلائٹ کی چند تازہ تصاویر سے پتا چلا کہ تقریباً ایک ٹریلین میٹرک ٹن وزنی یہ ٹکڑا تیزی سے ایک بار پھر حرکت میں آ گیا ہے اور انٹارکٹک جزیرہ نما کے شمالی سرے سے گزر رہا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 4 ہزار مربع کلو میٹر پر محیط آئس برگ کو علحیدہ ہونے میں 35 برس لگے، اس کی بلند ترین سطح 400 میٹر اونچی ہے، محققین کا کہنا ہے کہ آئس برگ ٹوٹنے کا یہ واقعہ متوقع تھا اور اس کا موسمیاتی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    ابھی چند دن قبل اس کی ایک شاندار ویڈیو سامنے آئی ہے، جو ایک نیچر فوٹوگرافر نے اتوار 14 جنوری کو انٹارکٹک سمندر میں سفر کے دوران بنائی، یہ ٹکڑا نیویارک سٹی کے سائز سے تقریباً 3 گنا بڑا ہے، جسے ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔

  • انٹارکٹیکا میں بڑا برفانی تودہ 2 دن میں اچانک غائب

    انٹارکٹیکا میں بڑا برفانی تودہ 2 دن میں اچانک غائب

    زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ مختلف خطوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے اور برفانی خطوں پر بھی اس کے شدید اثرات دکھائی دے رہے ہیں، حال ہی میں انٹارکٹیکا سے ایک بڑا برفانی تودہ پگھل کر سمندر میں شامل ہوگیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انٹار کٹیکا میں اسلام آباد سے بھی بڑے رقبے پر پھیلی آئس شیلف کے ڈرامائی اختتام کا مشاہدہ سیٹلائٹ تصاویر میں کیا گیا ہے۔

    مشرقی انٹار کٹیکا کے ساحل پر کونگر آئس شیلف 15 مارچ کو مکمل طور پر منہدم ہوگئی، اس آئس شیلف کا رقبہ 1200 اسکوائر کلومیٹر تھا اور اگر آپ کو علم نہ ہو تو اسلام آباد کا رقبہ 906 کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے۔

    ووڈز ہول اوشینو گرافک انسٹی ٹوٹ ناسا کی ماہرین کیتھرین والکر نے سیٹلائٹ تصاویر کو 24 مارچ کو ٹویٹر پر شیئر کیا۔

    اس ٹویٹ میں موجود جی آئی ایف میں دکھایا گیا کہ 14 مارچ سے آئس شیلف غائب ہونا شروع ہوئی اور 16 مارچ کی تصویر میں بالکل غائب ہوگئی۔

    آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کے ماہر اینڈریو میکینٹوش نے بتایا کہ کونگر آئس شیلف وہاں موجود تھی اور اچانک غائب ہوگئی۔

    آئس شیٹس اس برطانوی براعظم کے سمندر میں برف کے بہاؤ کو روکے رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں اور اینڈریو میکنٹوش نے بتایا کہ اگر وہ منہدم ہوجائیں تو برف کے بہاؤ کی رفتار بڑھ جائے گی جس کا نتیجہ سمندروں کی سطح میں اضافے کی شکل میں نکلے گا۔

    انٹار کٹیکا کو حال ہی میں غیر معمولی شدید درجہ حرارت کا سامنا ہوا ہے۔

    مشرقی انٹار کٹیکا میں موجود کنکورڈیا اسٹیشن کے مطابق اس خطے میں درجہ حرارت مارچ کے وسط میں منفی 11.8 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا جو کہ سال کے اس حصے کی اوسط سے 30 ڈگری زیادہ تھا۔

    یہ درجہ حرارت اس خطے میں چلنے والی گرم ہوا کا نتیجہ تھا۔

    یہ جاننا تو بہت مشکل ہے کہ زیادہ درجہ حرارت اس آئس شیلف کے منہدم ہونے کا باعث بنی مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کونگر کے ارگرد کا ماحول کس حد تک بدل گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مشرقی انٹارکٹیکا میں میں گرم موسم نے برف کے پگھلنے پر کس حد تک اثر کیا ہے۔

    اس سے قبل جولائی 2017 میں انٹارکٹیکا کے برفانی خطے لارسن سی سے 5800 اسکوائر کلومیٹر بڑا تودہ الگ ہوا تھا جس وزن ایک کھرب ٹن تھا۔

    اس برفانی تودے کے الگ ہونے سے کئی سال پہلے ہی ایک بہت بڑی دراڑ نمودار ہونے لگی تھی مگر مئی 2017 کے آخر میں یہ دراڑ 17 کلو میٹر تک پھیل گئی تھی جبکہ جون کے آخر میں اس کی رفتار تیز ہوگئی اور روزانہ دس میٹر سے زائد تک پہنچ گئی تھی۔

    سائنسدانوں کے پاس انٹارکٹیکا میں موسم کی صورتحال کے حوالے سے مستقبل کی معلومات موجود نہیں جس نے انہیں زیادہ فکر مند کیا ہوا ہے۔

    کمپیوٹر کی پیشگوئی سے عندیہ ملتا ہے کہ اگر اسی شرح سے زہریلی گیسوں کا فضا میں اخراج جاری رہا تو دنیا بھر کا موسم زیادہ گرم ہوگا جس کے نتیجے میں برفانی براعظم کے مختلف حصے تیزی سے پگھل جائیں گے جس سے اس صدی کے آخر تک سمندری سطح میں چھ فٹ یا اس سے زائد کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق کسی تحقیق کے نتائج سامنے آنے میں کئی برس لگ جائیں گے مگر سمندری سطح کی رفتار بڑھنے کے حوالے سے فوری تفصیلات جاننا ضروری ہے۔

    ابھی سائنسدانوں کو معلوم نہیں کہ انٹارکٹیکا کے مختلف حصے کب تک پگھل کر سمندر کا حصہ بن جائیں گے مگر کچھ بدترین پیشگوئیاں یہ ہیں کہ ایسا رواں صدی کے وسط میں ہوسکتا ہے۔

  • لندن کے رقبے سے بڑا برفانی تودا پگھل گیا

    لندن کے رقبے سے بڑا برفانی تودا پگھل گیا

    برفانی خطے انٹارکٹیکا میں برطانوی دارالحکومت لندن کے رقبے سے 3 گنا بڑا برفانی تودا پگھل کر سمندر میں شامل ہوگیا جس سے 152 ارب ٹن میٹھا پانی سمندر برد ہوگیا۔

    اس بات کا انکشاف برطانیہ کے انٹارکٹک سروے اور مرکز برائے پولر آبزرویشن اینڈ موڈلنگ کی جانب سے ہونے والی تحقیق کے بعد ہوا۔

    اس تحقیق میں سائنس دانوں نے زمین کے مدار میں موجود 5 سیٹلائٹس کی مدد سے لندن سے ساڑھے تین گنا بڑے اے 68 اے کے نام سے جانے والے بر فانی تودے کو ٹریک کیا۔

    سیٹلائیٹس سے حاصل ہونے والی معلومات سے سائنس دانوں کو یہ جاننے میں مدد ملی کہ اس تودے نے کب پگھلنا شروع کیا اور اس کا اختتام کب ہوا۔

    اس حوالے سے ریسرچرز کا کہنا ہے کہ اس آئس برگ کی آخری بڑی سل سے گزشتہ سال جنوبی جارجیا کے قریب تازہ پانی خارج ہو کر سمندر میں مل گیا تھا۔

    ماہرین کے مطابق اس آئس برگ کے پگھلنے سے سمندر میں شامل ہونے والے میٹھے پانی سے اولمپک سائز کے 61 ملین سوئمنگ پولز کو بھرا جاسکتا تھا۔

    تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس کے پگھلنے کا عمل اس وقت شروع ہوا جب یہ جنوبی جارجیا کے سب انٹارکٹک جزیرے میں داخل ہوا اورصرف 2020 اور 2021 کے تین ماہ میں یہ مکمل طور پر پگھل کر سمندر میں شامل ہوگیا۔

    اس برفانی تودے کا سفر جولائی 2017 میں اس وقت شروع ہوا تھا جب یہ 2500 میل رقبے پر محیط انٹارکٹک پینی سولا سے ٹوٹ کر الگ ہوا، اس وقت اسے زمین پر دنیا کا سب سے بڑا آئس برگ قرار دیا گیا تھا۔

  • انٹارکٹیکا میں برطانوی بیس کے قریب لندن جتنا بڑا برف کا ٹکڑا ٹوٹ کر علیحدہ (ویڈیو)

    انٹارکٹیکا میں برطانوی بیس کے قریب لندن جتنا بڑا برف کا ٹکڑا ٹوٹ کر علیحدہ (ویڈیو)

    لندن: انٹارکٹیکا میں برطانوی بیس کے قریب تقریباً لندن کے سائز جتنا بڑا آئس برگ ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق انٹارکٹیکا میں برطانوی ریسرچ سینٹر کے قریب نیویارک شہر کے رقبے سے بھی بڑا برفانی تودہ ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا۔

    اس آئس برگ کی جسامت اکثر یورپی شہروں سے بڑی ہے، آئس برگ کی پیمائش 1270 مربع کلو میٹر (490 اسکوائر میل) ہے، اور یہ 150 میٹر موٹی کالوِنگ نامی ’برنٹ آئس شیلف‘ سے ٹوٹا ہے۔

    سائنس دانوں نے 10 سال قبل اس مقام پر دراڑ پڑنے سے متعلق آگاہ کیا تھا، اور انھیں توقع تھی کہ یہاں سے برف کا ایک بہت بڑا ٹکڑا ٹوٹ کر الگ ہوگا۔

    برطانوی انٹارکٹک سروے کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈَیم جَین فرانسس کا کہنا تھا کہ بَیس میں ہماری ٹیمیں برسوں سے برنٹ آئس شیلف سے برف کے ٹکڑے کے ٹوٹنے کے لیے تیار تھی، اور گزشتہ برس نومبر میں یہاں ایک بڑے حصہ ٹوٹنا شروع ہو گیا تھا۔

    بَیس کے آپریشنز ڈائریکٹر سائمن گیرڈ کا کہنا تھا کہ حفاظتی وجوہ پر تحقیقاتی اسٹیشن 4 سال قبل ہی اندرون ملک منتقل کر دیا گیا تھا، اور یہ ایک دانش مندانہ فیصلہ تھا۔

    واضح رہے کہ انٹارکٹیکا سے آئس برگز قدرتی طور پر ٹوٹ کر سمندر میں گرتے رہتے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ عمل تیز ہو گیا ہے، تاہم سائنس دانوں نے کہا ہے کہ اس کیس میں وجہ موسمیاتی تبدیلیاں نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹکڑا آئندہ ہفتوں یا مہینوں میں حرکت کر کے اپنے مقام سے دور ہو سکتا ہے، یا آس پاس سرکتا ہوا یہیں پر برنٹ آئس شیلف کے قریب ہی رہے گا۔

  • وہ علاقہ جہاں 20 لاکھ سال سے بارشیں نہیں ہوئیں

    وہ علاقہ جہاں 20 لاکھ سال سے بارشیں نہیں ہوئیں

    اگر آپ سے پوچھا جائے کہ زمین پر خشک ترین مقام کون سا ہے تو ہوسکتا ہے آپ جواب میں کسی صحرا کا نام لیں، ہوسکتا ہے آپ کا جواب ہو افریقہ کا صحرائے صحارا یا پھر چین کا صحرائے گوبی، لیکن آپ کا جواب غلط ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کا سب سے خشک علاقہ برفانی خطے انٹارکٹیکا میں موجود ہے جسے مک مورڈو ڈرائی ویلیز کہا جاتا ہے۔

    سلسلہ وار وادیوں پر مشتمل یہ علاقہ برف سے عاری ہے اور یہاں فضا میں نمی نہ ہونے کے برابر ہے، یہ پورا علاقہ پہاڑوں سے گھرا ہے، اور یہ پہاڑ بقیہ انٹارکٹیکا کی برف کو یہاں پھسلنے سے روک دیتے ہیں۔

    اس علاقے میں نمی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی جاندار یہاں پر زندہ نہیں رہ پاتا سوائے ایک بیکٹریا کے جو اس علاقے کے گرد موجود پہاڑوں میں پایا جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں گزشتہ 20 لاکھ سال سے کبھی بارشیں نہیں ہوئیں۔ ناسا کی جانب سے کیے گئے ایک ٹیسٹ کے مطابق اس علاقے کے جغرافیائی حالات اور ماحول مریخ سے ملتے جلتے ہیں۔

    کیا انٹارکٹیکا بھی ایک صحرا ہے؟

    صحرا عام طور پر ایک ایسے مقام کو سمجھا جاتا ہے جہاں میلوں دور تک ریت پھیلی ہو، تیز گرم دھوپ جسم کو جھلسا رہی ہو، چاروں طرف کیکر کے پودے ہوں، اونٹ ہوں اور دور کسی نظر کے دھوکے جیسا نخلستان ہو جہاں پانی اور کھجور کے درخت ہوتے ہیں۔

    تاہم ماہرین کے نزدیک صحرا کی تعریف کچھ اور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرا ایک ایسا علاقہ ہے جو خشک ہو، جہاں پانی، درخت، پھول پودے نہ ہوں اور وہاں بارشیں نہ ہوتی ہوں۔

    اس لحاظ سے زمین کا سب سے بڑا صحرا قطب شمالی یعنی انٹارکٹیکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق انٹارکٹیکا کے 98 فیصد حصے پر برف کی مستقل تہہ جمی ہوئی ہے، صرف 2 فیصد علاقہ اس برف سے عاری ہے اور یہیں تمام برفانی حیات موجود ہے.

    بقیہ 98 فیصد حصے پر کسی قسم کی زندگی موجود نہیں جبکہ یہاں بارشیں بھی بہت کم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ تمام جغرافیائی حالات اسے ایک صحرا بنا دیتے ہیں اور اگر اس کا رقبہ دیکھا جائے تو یہ زمین کا سب سے بڑا صحرا ہے۔

  • گلیشیئر کا بڑا ٹکڑا ٹوٹ کر الگ  ، ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی

    گلیشیئر کا بڑا ٹکڑا ٹوٹ کر الگ ، ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجادی

    انٹارکٹیکا: پائن آئی لینڈگلیشیئر سے ایک اور ٹکرا ٹوٹ کر الگ ہوگیا ہے، یہ برفانی تودہ تین سو کلومیٹر وسیع رقبے پر پھیلاہواتھا، عالمی موسمیاتی تنظیم کا کہنا ہے صدی کےاختتام تک سمندرکی سطح میں تین میٹر یادس فٹ تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت ماحولیات کے حوالے سے دنیا بھر کیلئے پریشانی کا سبب بن رہا ہے، انٹارکٹیکا میں پائن آئی لینڈگلیشیئر کا وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ایک اور ٹکڑا ٹوٹ کرالگ ہوگیا۔

    یورپین اسپیس ایجنسی کی جاری کردہ سٹیلائٹ تصاویر میں پائن آئن لینڈ گلیشئیرسےایک بڑے ٹکڑے کو ٹوٹتےہوئےدیکھا جاسکتاہے۔

    ای ایس اے کی سوشل میڈیا پر جاری کردہ رپورٹ کہ مطابق یہ برفانی تودہ تین سو کلومیٹر وسیع رقبے پر پھیلاہوا تھا، جو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔

    عالمی موسمیاتی تنظیم کا کہنا ہےکہ انٹارکٹیکا میں درجہ حرارت بتدریج بڑھ رہاہے،صدی کےاختتام تک سمندرکی سطح میں تین میٹر یادس فٹ تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

    یاد رہے چند روز قبل ماہرین کا کہنا تھا دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودہ انٹارکٹیکا سے علیحدہ ہونے کے بعد بحر ہند کی جانب روانہ ہوگیا ہے، جس کا رقبہ برطانوی دارالحکومت لندن سے بھی چار گناہ بڑا ہے۔

    مزید پڑھیں : دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودہ بحر ہند کی طرف روانہ! کیا تباہی لائے گا؟

    ماہرین کے مطابق برفانی تودہ جسے اے 68 کہا جاتا ہے، اس کا رقبہ 2300 مربع میل (6 ہزار کلومیٹر) ہے اور ایک کھرب ٹن وزنی ہے، جو انٹارکٹیکا سے 2017 میں ٹوٹ کر علیحدہ ہوا تھا اور اب مستقل شمال کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق آئس برگ اے 68 جیسے ہی کھلے سمندر میں آئے گا پانی کے تیز بہاؤ کے باعث کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا۔

    خیال رہے پانی اور ہوا کا درجہ حرارت انٹارکٹیکا اور گرین لینڈ کے ساحل پر عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے اور گلوبل وارمننگ کا بھی سبب ہے جس کی وجہ سے برف بگھلنے میں تیزی آرہی ہے۔

    واضح رہے 2017 میں براعظم انٹارکٹیکا میں 6 ہزار مربع کلومیٹر برفانی تودہ شگاف پڑ جانے کے باعث ٹوٹ کر خطے سے علیحدہ ہوگیا تھا ، یونیورسٹی آف سوائنسے کے سائنسدانوں نے بتایا تھا کہ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے برفانی تودہ خطے سے الگ ہوا ہے اور گزشتہ 30 برسوں میں ٹوٹنے والا یہ برف کا سب سے بڑا تودہ ہے۔

    ماہرین کے اندازوں کے مطابق یہ انتہائی بڑا تودہ ہے اور اس کو پگھلنے کے لیے بھی کم از کم دو سے تین برس لگ سکتے ہیں تاہم اس کی نگرانی ضروری ہے۔

  • پینگوئن کی کالونی کا تقریباً خاتمہ

    پینگوئن کی کالونی کا تقریباً خاتمہ

    برفانی علاقوں میں پائے جانے والے معصوم پرندے پینگوئن کی ایک قسم ایمپیرر پینگوئن کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔

    ایمپیرر پینگوئن طویل مسافت طے کرنے کی خاصیت رکھتا ہے اور اپنی اس خصوصیت کے باعث یہ تیر کر ہزاروں کلو میٹر دور پہنچ جاتا ہے۔ پینگوئن کی یہ قسم جسامت میں بہت بڑی نہیں ہوتی البتہ پینگوئن کی تمام اقسام میں یہ بڑی قسم جسامت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔

    یہ پینگوئن براعظم انٹارکٹیکا میں پائے جاتے ہیں اور ماہرین کے مطابق ایک مخصوص علاقے میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران اس کی نسل میں شدید کمی دیکھی گئی ہے۔

    پینگوئن کو ایک طرف سمندری درجہ حرارت میں تبدیلی کا سامنا ہے تو دوسری جانب یہ برفانی بلیوں (سیل) کی پسندیدہ خوراک ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے براعظم انٹارکٹیکا میں ان کے مسکن تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔

    برطانوی انٹار کٹیکا سروے (بی اے ایس) کے ماہرین کے مطابق انٹارکٹیکا کا مذکورہ علاقہ ایمپیرر پینگوئن سے تقریباً خالی ہوچکا ہے۔ دوسری جانب نزدیکی علاقے ڈاسن یسمٹن میں اسی نسل کی پینگوئن کی کالونی میں اضافہ دیکھا جارہا ہے جس کا سبب وہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے کم اثر کی وجہ سے موسم کا سرد ہونا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اس پینگوئن کی آبادی کو اس وقت شدید دھچکہ پہنچا جب سنہ 2016 میں ایک غیر متوقع واقعے کے باعث تمام ننھے پینگوئن ہلاک ہوگئے۔ سنہ 2016 میں غیر معمولی طور پر گرم اور طوفانی موسم کے باعث سمندری برف کی وہ سطح ٹوٹ گئی تھی جس پر ایمپیرر پینگوئن اپنے بچوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔

    اس سطح کے ٹوٹنے کے باعث اس پر موجود ایمپیرر پینگوئن کے تمام بچے ہلاک ہوگئے۔ یہی صورتحال سنہ 2017 اور 2018 میں بھی سامنے آئی تھی۔

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2060 تک پینگوئنز کی آبادی میں 20 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے جبکہ اس صدی کے آخر تک یہ معصوم پرندہ اپنے گھر کے چھن جانے کے باعث مکمل طور پر معدوم ہوسکتا ہے۔

  • پہلی پاکستانی خاتون قطب شمالی کے سفر پر

    پہلی پاکستانی خاتون قطب شمالی کے سفر پر

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر طیبہ ظفر وہ پہلی پاکستانی خاتون بن گئی ہیں جو قطب شمالی پر کیے جانے والے ایک ریسرچ پروگرام کے لیے منتخب ہوئیں۔

    ڈاکٹر طیبہ ماہر فلکیات ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وہ ہوم وارڈ باؤنڈ پروگرام کے لیے منتخب ہوئیں جس کے تحت انہیں 3 ہفتے انٹارکٹیکا میں گزارنے تھے۔

    اس پروگرام کا مقصد سائنس، ٹیکنالوجی، ریاضی، انجینیئرنگ اور طب کے شعبے سے منسلک دنیا بھر کی خواتین کی صلاحیتوں اور ان کے تجربات میں اضافہ کرنا تھا۔ 26 ممالک سے تعلق رکھنے والی 80 خواتین کی ٹیم میں وہ واحد پاکستانی خاتون تھیں۔

    اپنے پروگرام کے دوران انہوں نے ان مقامات کا دورہ کیا جو موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے متاثر ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر طیبہ نے پینگوئن کی کالونیاں، وہیل اور گلیشیئرز کا بھی مشاہدہ کیا جبکہ برف پر کشتی کا سفر بھی کیا۔

    ڈاکٹر طیبہ کہتی ہیں کہ یہ سفر ان کے لیے ایک خوشگوار تجربہ تھا جس نے ان کی صلاحیت اور کام کرنے کی لگن میں اضافہ کیا۔

    وہ بتاتی ہیں کہ انٹارکٹیکا میں قیام کے دوران ہم بیمار بھی ہوئے، ’چونکہ ہم اس ماحول کے عادی نہیں تھے لہٰذا ہمیں اس سے مطابقت کرنے میں تھوڑی مشکل پیش آئی‘۔

    ڈاکٹر طیبہ فزکس میں ماسٹرز کرچکی ہیں جبکہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتی بھی رہی ہیں۔ سنہ 2007 میں انہیں کوپن ہیگن نیل بوہر انسٹیٹیوٹ کے ڈارک کوسمولوجی سینٹر میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ ملا۔

    وہ بتاتی ہیں کہ انہیں بچپن سے فلکیات کا شوق تھا تاہم اسکول میں اس سے متعلق کوئی مضمون نہیں تھا، انہوں نے فلکیات اور ستارہ شناسی کے بارے میں بے شمار کتابیں خرید کر اپنے علم میں اضافہ کیا۔

    ڈاکٹر طیبہ کہتی ہیں کہ ملک میں سائنس کے شعبے میں لڑکیوں کی تعداد نہایت کم ہے اور فلکیات میں تو بالکل نہیں، ’یہاں کی لڑکیاں بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن ثقافتی و سماجی پابندیاں ان کے آڑے آجاتی ہیں‘۔

    خود انہیں بھی اپنے پی ایچ ڈی کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت بہت مشکل سے ملی تھی۔

    ڈاکٹر طیبہ کا عزم ہے کہ وہ اس شعبے میں مزید کامیابیاں حاصل کریں تاکہ اپنے ملک کا نام روشن کرسکیں۔

  • دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟

    دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا صحرا کون سا ہے؟ یہ سوال سن کر شاید آپ کے ذہن میں افریقہ کے صحرائے صحارا کا تصور آجاتا ہو، یا پھر چین کے صحرائے گوبی کا، لیکن آپ کا جواب غلط ہوسکتا ہے۔

    صحرا کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک لق و دق ویران مقام آجاتا ہے جہاں میلوں دور تک ریت پھیلی ہو، تیز گرم دھوپ جسم کو جھلسا رہی ہو، چاروں طرف کیکر کے پودے ہوں، اونٹ ہوں اور دور کسی نظر کے دھوکے جیسا نخلستان ہو جہاں پانی اور کھجور کے درخت ہوتے ہیں۔

    تاہم ماہرین کے نزدیک صحرا کی تعریف کچھ اور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرا ایک ایسا علاقہ ہوتا ہے جو خشک ہو، جہاں پانی، درخت، پھول پودے نہ ہوں اور وہاں بارشیں نہ ہوتی ہوں۔

    اس لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا صحرا قطب شمالی یعنی انٹارکٹیکا ہے۔ جی ہاں، ماہرین کے مطابق ضروری نہیں کہ صحرا صرف گرم ہی ہو، صحرا جیسے حالات رکھنے والا ہر علاقہ اس کیٹگری میں آتا ہے اور انٹارکٹیکا بھی برف کا صحرا ہے۔

    ماہرین کے مطابق انٹارکٹیکا کے 98 فیصد حصے پر برف کی مستقل تہہ جمی ہوئی ہے، صرف 2 فیصد علاقہ اس برف سے عاری ہے اور یہیں تمام برفانی حیات موجود ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر صحراؤں کی طرح یہاں بھی کوئی مستقل آبادی نہیں ہے۔

    یہ برفانی صحرا 54 لاکھ اسکوائر میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے برعکس صحرائے صحارا کا رقبہ 35 لاکھ اسکوائر میل ہے۔ انٹارکٹیکا زمین کا سب سے بڑا صحرا ہے جبکہ صحارا دنیا کا سب سے بڑا گرم صحرا ہے۔