Tag: انٹرویو

  • کالعدم تنظیموں پر پابندی اور گرفتاریاں جنوری کے فیصلوں کاتسلسل ہے: فوادچوہدری

    کالعدم تنظیموں پر پابندی اور گرفتاریاں جنوری کے فیصلوں کاتسلسل ہے: فوادچوہدری

    اسلام آباد: وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں پر پابندی اور گرفتاریاں قومی سلامتی کمیٹی کی جنوری میں ہونے والے اجلاس کے فیصلوں کا تسلسل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کا بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ملک میں قومی سلامتی کمیٹی کی جنوری میں ہونے والے اجلاس کے فیصلوں پر عمل درآمد ہورہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر 2014 میں تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیا جارہا ہے، پاکستان خطے میں امن اور علاقائی تعاون کا فروغ چاہتا ہے۔

    فوادچوہدری کا کہنا تھا کہ علاقائی تعاون سب سے اہم اور خطے کی ضرورت ہے، پاکستان اپنے اندرونی مسائل سے آگاہ اور ان کے حل کے لیے کوشاں ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بھارت اپنے مسائل کی طرف دیکھ تک نہیں رہا، بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا کر رہی ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری تشدد کی پالیسی بدلے۔

    جنگی جنون کے جواب میں پاکستان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا: فواد چوہدری

    وزیراطلاعات نے کہا کہ ہم کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضے کا خاتمہ چاہتے ہیں، بھارت ایک عرصے سے الزامات ہی لگا رہا ہے ثبوت کبھی نہیں دیے گئے۔

    ان مزید کہنا تھا کہ بھارت کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن کے لیے ٹھوس ثبوت فراہم کرے۔

  • مقصد کے ساتھ جینا ہی اصل جینا ہے: معروف موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ کا خصوصی انٹرویو

    مقصد کے ساتھ جینا ہی اصل جینا ہے: معروف موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ کا خصوصی انٹرویو

    پاکستان ایک زرخیز خطہ ہے، جس نے ہمیشہ ہی ایسے ہیروز پیدا کیے، جنھوں‌ نے ہزاروں زندگیاں تبدیل کیں، عبدالستار  ایدھی اور ادیب رضوی ایسی ہی شخصیات ہیں، ڈاکٹر رتھ فاؤ نے بھی جرمنی سے آ کر  یہی نیک کام کیا.

    ممتاز ٹرینر، پبلک اسپیکر اور مصنف جناب قاسم علی شاہ بھی ایسی ہی شخصیت ہیں، جو اپنی اساس میں ایک استاد ہیں، جنھوں نے ہزاروں زندگیوں کو اپنے الفاظ سے بہتر بنایا.

    قاسم علی شاہ قدرت اللہ شہاب کی کتاب اور شخصیت کو اپنے لیے رول ماڈل تصور کرتے ہیں، بانو قدسیہ کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ نے انھیں بہت متاثر کیا، اشفاق احمد کی صحبت سے فیض یاب ہوئے. ان کے مطابق اشفاق صاحب ایک گھنے اور پھل دار درخت تھے، وہ ایک مقناطیس تھے.

    قاسم علی شاہ کا کہنا ہے کہ اگر اللہ سو زندگیاں دے، تب بھی استاد بنیں گے، ان کے مطابق ہر قصبہ، ہر شہر میں ایک ہیرو کی ضرورت ہوتی ہے، مقصد کے ساتھ جینا اصل جینا ہے.

    سوشل میڈیا کو وہ ایک بڑا ہتھیار سمجھتے ہیں، جو انقلاب لاسکتے ہیں، یقین رکھتے ہیں کہ اس کی مزید افادیت سامنے آئے گی.

    ان کے نزدیک کامیاب ہونا آسان ہے، کامیاب رہنا مشکل ہے اور اوپر اٹھنا ہے، تو انسان کو جھکنا پڑتا ہے.

    ان کا مکمل انٹرویوز لنک میں ملاحظہ فرمائیں:

    https://www.facebook.com/arynewsud/videos/1971234006518651/

  • مستقبل میں پاکستان سعودی عرب کے درمیان مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جائے گا: وزیر اطلاعات

    مستقبل میں پاکستان سعودی عرب کے درمیان مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جائے گا: وزیر اطلاعات

    اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ مستقبل میں پاکستان سعودی عرب کے درمیان مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کے دوروں سے مضبوط تعلقات کو مزید وسعت ملی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سعودی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا۔ اپنے انٹرویو میں وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی تعلقات ہیں، سعودی عرب سے تعلقات اقتصادی روابط اور اخوت میں بندھے ہیں۔

    وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ شاہ فیصل مسجد دونوں ممالک میں مضبوط رشتے کی عکاسی کرتی ہے، وزیر اعظم عمران خان کے دوروں سے مضبوط تعلقات کو مزید وسعت ملی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ تعلقات کو تذویراتی شراکت داری میں بدل دیں، میڈیا حقیقت حال کی عکاسی کرتا ہے صورتحال مثبت ہے تو مثبت تاثر دے گا۔ پاک سعودی عرب میں مثبت صورتحال ہے جس کی عکاسی ہو رہی ہے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سعودی وزارت اطلاعات کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں، سعودی شہریوں کے لیے ویزہ کی مخصوص سہولتیں فراہم کی ہیں۔

    سیاحت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بے شمارسیاحتی مقامات ہیں جنہیں دیکھ کر لوگ سوئٹزر لینڈ بھول جاتے ہیں، پاکستان میں دنیا کی بلند ترین برفانی چوٹیاں اور قدرتی مناظر موجود ہیں۔ ’چاہتے ہیں کہ عرب ممالک کے لوگ یورپ کے بجائے پاکستان کا رخ کریں‘۔

    وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ایک جامع مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے جائیں گے، سیاحت اور سیر و تفریح سے متعلق ایک مشترکہ کمیٹی بھی قائم کی ہے۔ پاکستانی عوام شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن کی تائید اور حمایت کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ سعودی وزارت اطلاعات کے ساتھ تعاون سے اسلامی رواداری کو فروغ دیں گے، وزیر اعظم کا وژن ہے پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر بنایا جائے، رسول اللہ ﷺ نے بھی رواداری، اسلامی اخوت، داد رسی پر مبنی بنیاد ڈالی تھی۔ درحقیقت شہزادہ محمد بن سلمان کے خیالات بھی ان ہی اقدار پر مبنی ہیں۔

    فواد چوہدری نے مزید کہا کہ سعودی فلسفہ عالم اسلام کی ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے، مستقبل میں پاکستان سعودی عرب کے درمیان مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جائے گا۔

  • پاکستان کو آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں ،  وزیرخزانہ اسدعمر

    پاکستان کو آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں ، وزیرخزانہ اسدعمر

    اسلام آباد : وزیرخزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں، سخت فیصلے پہلے سو دن میں ہی کر لیے  ہیں، معیشت درست سمت میں ہے اور آئندہ آئی ایم ایف کے پاس جانا نہیں پڑے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرخزانہ اسدعمر نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا پی ٹی آئی حکومت کے بارے میں غلط تاثرپیش کیاجاتاہے، عوام کی بڑی تعدادسمجھتی ہے، پاکستان درست سمت پرگامزن ہے، لوگوں کومزید بہتری کی امیدہے۔

    وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ جب حکومت میں آئےتوپتہ چلامالیاتی بیل آوٹ پیکج کی ضرورت ہے اس آئی ایم ایف پروگرام کوآخری بنانےکے لئےحکمت عملی طےکرلی، درآمدات پرمبنی پالیسوں کےباعث قرض کےبوجھ میں اضافہ ہوا، مقامی طورپرتیارمصنوعات اوربرآمدسےمعیشت کوفائدہ پہنچاسکتےہیں۔

    [bs-quote quote=” معیشت درست سمت میں ہے اور آئندہ آئی ایم ایف کے پاس جانا نہیں پڑے گا” style=”style-6″ align=”left” author_name=”اسد عمر "][/bs-quote]

    اسدعمر نے کہا حکومت نےپہلے100دن اس بارےمیں ہی کام کیاہے، ہم نےدوست ممالک سےمدداورآئی ایم ایف پلان پرمذاکرات بیک وقت کیے، ہم نےآئی ایم ایف کی شرائط کاانتظارنہیں کیا۔

    پاکستان کو آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں، سخت فیصلے پہلے سو دن میں ہی کرلیے ہیں، معیشت درست سمت میں ہے اور آئندہ آئی ایم ایف کے پاس جانا نہیں پڑے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ پہلے100دنوں میں گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا، سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہونے پر خوشی ہے، چین کی بیشترسرمایہ کاری نجی پاور پلانٹس کے لئے آئی جوشفاف ہے۔

    مزید پڑھیں : معاشی بحران ٹل چکا ہے ، خدارا لوگوں کو کاروبار کرنے دیں،وزیر خزانہ اسد عمر

    وزیرخزانہ نے کہا چین سےسب سے زیادہ قرضہ امریکا نے لیاہوا ہے، پاکستان کے بیرونی قرضوں میں سے 10 فیصد چین سے لیاگیا ہے، بلوچستان میں دہشت گردی میں بیرونی عناصربھی شامل ہیں۔

    اسدعمر کا کہنا تھا کہ ایسےامیر جوٹیکس نہیں دیتے ان کے خلاف کارروائی کا آغازہوگیا ہے، حکومت عدالتی احکامات کااحترام کرتی ہے۔

    یاد رہے چند روز قبل وزیرخزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ معاشی بحران ٹل چکاہے ، خدارا لوگوں کوکاروبارکرنےدیں، رواں مالی سال کے لئے درکار رقم کا انتظام ہوچکا ہے اور روپے کی قدر میں کمی کے بنیادی مسائل اب حل ہونا شروع ہو گئے ہیں، برآمدات بڑھ رہی ہیں اور جاری کھاتوں کا خسارہ نصف ہوگیا ہے، ابھی تو صرف سمت ملی ہے بہت کام کرنا باقی ہے۔

  • امریکا اب مزید پاکستان کے کندھوں پر رکھ کر بندوق نہ چلائے: وزیر اعظم

    امریکا اب مزید پاکستان کے کندھوں پر رکھ کر بندوق نہ چلائے: وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ امریکا اب مزید پاکستان کے کندھوں پر رکھ کر بندوق نہ چلائے، پاکستان امریکا کی جنگ بہت لڑ چکا۔ اب ہم وہ کریں گے جو ہمارے عوام اور ملک کے مفاد میں ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے، افغانستان میں امن کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی کچھ شرائط عوام کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ پاکستان کے عام عوام کے لیے فکر مند ہوں۔ پاکستان کو فلاحی ملک اور انصاف پر مبنی معاشرہ بنانا چاہتا ہوں۔

    اپنے انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکا اب پاکستان کے کندھوں پر رکھ کر بندوق نہ چلائے، ٹرمپ سے ٹویٹر پیغامات ٹویٹر وار نہیں تھا۔ یہ صرف ریکارڈ کی درستگی کے لیے تھا۔ ’صدر ٹرمپ کو تاریخی حقائق سے آگاہ کرنے کی ضرورت تھی‘۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان امریکا کی جنگ بہت لڑ چکا۔ اب ہم وہ کریں گے جو ہمارے عوام اور ملک کے مفاد میں ہوگا۔ پاکستان میں طالبان کے ٹھکانے نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ امریکا پاکستان کو بطور ہتھیار استعمال کرے، ایسے تعلقات نہیں چاہتے۔ ڈرون حملوں کے کون خلاف نہیں ہوگا۔ ایک دہشت گرد کے ساتھ 10 دوست اور پڑوسی مارے جاتے ہیں۔ ایسے میں کون اپنے ملک میں ڈرون حملوں کی اجازت دے گا۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ چین جیسے تعلقات امریکا سے بھی چاہتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے قتل کے معاملے میں امریکا نے اپنے اتحادی پر اعتماد نہیں کیا، امریکا کو پاکستان کو مطلع کرنا چاہیئے تھا، ’ہمیں پتہ نہیں چلا ہم دوست تھے کہ دشمن۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں زرمبادلہ ذخائر بڑھانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے کچھ مدد ملی ہے۔ رقم کی تفصیلات حکومتیں راز رکھنا چاہتی ہیں۔

    وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ گزشتہ 30 برس میں ہم نے آئی ایم ایف کے 16 پروگرام لیے، اگر آئی ایم ایف کے پاس گئے تو یقینی بنائیں گے یہ آخری بار ہو۔

    وزیر اعظم نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا کہ ممبئی حملوں کا کیس جلد ہونا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ممبئی حملہ دہشت گردی تھی۔ ہم نے سکھوں کے لیے کرتار پور میں ویزا فری امن راہداری کھولی۔ ’توقع ہے بھارت الیکشن کے بعد مذاکرات کا دوبارہ آغاز کرے گا‘۔

  • ناول دھماکا نہیں کرتا، بلکہ آہستہ آہستہ قاری میں سرایت کر جاتا ہے: مستنصر حسین تارڑ

    ناول دھماکا نہیں کرتا، بلکہ آہستہ آہستہ قاری میں سرایت کر جاتا ہے: مستنصر حسین تارڑ

    وہاں سیکڑوں پنچھی تھے، جو  ٹیلے کی سمت کھنچے چلے آئے تھے کہ اُنھیں خبر ملی تھی کہ وہ فسوں گر  ادھر  موجود ہے۔ فسوں گر، جس کی بانسری کی دھن نے انھیں گرویدہ بنا لیا ہے.

    وہ شخص ادھر موجود ہے، جس کے الفاظ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ ہیں، جس کی کہانیاں ان کی رگوں میں دوڑتی ہیں۔

    تو وہ آرٹس کونسل آف پاکستان کی سمت آتے تھے، جہاں گیارہویں عالمی اردو کانفرنس جاری تھی۔

    [bs-quote quote=”فکشن بے یقینی کو معلق کرنے کا نام ہے، آپ کہتے ہیں کہ یہ ناقابل یقین ہے، مگر اس کی طاقت اسے معلق کر دیتی ہے، یہ اسی وقت ہوتا ہے، جب آپ بھٹکنے کو تیار ہوں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    یہ مستنصر حسین تارڑ کا ذکر ہے۔ تارڑ، جو ایک امکان کا نام ہے۔ امکان کہ ادیب کو بھی عالم گیر محبت مل سکتی ہے،امکان کہ اب بھی الفاظ جاود جگا سکتے ہیں،  امکان کہ لکھاری کو بھی دیوانہ وار چاہا جاسکتا ہے۔

    لازوال ادیب گیبرئیل گارسیا مارکیز نے اساطیری شہرت کے حامل چے گویرا سے متعلق کہا تھا،’’میں اس کے بارے میں سیکڑوں برس تک لاکھوں صفحات لکھ سکتا ہوں۔‘‘ البتہ تارڑ صاحب سے متعلق ایسا کوئی بھی دعویٰ مناسب نہیں کہ ہمیں سیکڑوں برس میسر نہیں۔ البتہ اس بے بدل ادیب کے اس خصوصی انٹرویو سے قبل، جو ان کے تازہ ناول ’’منطق الطیر، جدید‘‘ کے گرد گھومتا ہے، تعارف ضروری ہے، چاہے وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو۔

    وہ، جو جھنڈے کی طرح ممتاز ہے


    تارڑ صاحب آپ اپنا تعارف ہیں۔ 1939 لاہور میں آنکھ کھولی۔ گجرات کے ایک کاشت کار گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ اس قلم کار نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جو اِن سے پہلے گزرے، اُن میں سے بیش تر کی یاد ذہن سے محو ہوئی، اورجو بعد میں آئے، اُن میں سے اکثر کے سر احتراماً جھک گئے۔

    آپ کی کئی جہتیں ہیں۔ سفرنامہ نویس، فکشن نگار، اداکار، اسکرپٹ رائٹر، ٹی وی میزبان، اور ہر شعبے میں اپنی مثال آپ۔ کہا جاسکتا ہے کہ تارڑ صاحب نے جس شے کو ہاتھ لگایا، اسے سونا بنا دیا۔

    چار سو ڈراموں میں لیڈ، مقبول ترین مارننگ شو کی میزبانی، مگر شوبز کی کہانی کے لیے ایک الگ نشست درکار، سو اپنی توجہ ادب پر مرکوز رکھتے ہیں۔

    ستر سے زاید کتب آپ کے قلم نکلیں، جو اپنے میدان میں مقبول ترین ٹھہریں۔ ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ نے اردو سفر نامے میں نئی جہت متعارف کروائی، ’’پیار کا پہلا شہر‘‘ اردو ناول کی صنف میں بیسٹ سیلر ٹھہرا، اور ناول ”بہاﺅ “ نے اردو فکشن کو اوج پرپہنچا دیا، جسے پڑھ کر ایک ہندوستانی نقاد پروفیسر خالد اشرف نے کہا تھا:’’اردو کا مستقبل اب لاہور سے وابستہ ہے، جہاں تارڑ رہتا ہے۔‘‘ ادبی جریدے ”ذہن جدید“ کے سروے میں یہ اردو کے دس بہترین ناولز کا حصہ بنا، اور بی بی سی نے اس کا موازنہ مارکیز کے ”تنہائی کے سو سال“ سے کیا۔

    [bs-quote quote=”’’منطق الطیر جدید‘‘ ایک مشکل کام تھا۔ ’’بہاؤ ‘‘کے بعد اگر کسی ناول پر یکسوئی سے کام کیا، تو  اسی پر کیا” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    ان کے ایک اہم ناول ’’اے غزال شب‘‘ کا ”لینن فور سیل“ کے عنوان سے انگریزی میں ترجمہ ہوا، جو عالمی ادب کے قارئین کویہ خبر پہنچتا ہے کہ اردو فکشن کا بہاﺅ اورگہرائی کیا ہے۔ حساس موضوعات کو منظر کرتے ناول ”راکھ“ نے 1999 میں وزیراعظم ادبی ایوارڈ اپنے نام کیا۔ اسے ایک جرمن ریسرچ نے برصغیر کا نمایندہ ناول قرار دیا۔

    ان کی کتب گذشتہ تیس برس سے شعبہ اردو، ماسکو یونیورسٹی میں پڑھائی جارہی ہیں، جہاں کے طلبا یہ کہتے ہیں کہ وہ اردو ادب کو فیض اور تارڑ کی وجہ سے جانتے ہیں۔

    تارڑ صاحب کو دوحہ قطر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا،انھیں تمغہ برائے حسن کارکردگی پیش کیا گیا، ستارہ امتیاز پیش ہوا، مگر اصل اعزاز وہ عالم گیر محبت ہے، جو ان کے حصے میں آئی۔

    سوال و جواب کی دنیا


    سوال: فرید الدین عطار نے صدیوں، نسلوں کو گرویدہ بنایا، مولانا روم بھی ان سے متاثر تھے، آپ بھی انھیں مرشد کہتے ہیں، ایسے تخلیق کار کی تخلیق کردہ کائنات سے مماثل یا مشابہہ کائنات تخلیق کرنا کتنا بڑا چیلینج تھا؟

    تارڑ: فکشن نگار بنیادی طور پر اس خواہش میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ  بھی چھوٹا سا تخلیق کار بن جائے، تاکہ وہ اپنے تخلیق کار (خدا) کو بتا سکے کہ وہ بھی کسی حد تک قادر ہے۔ فرید الدین عطار کا کلاسیک منطق الطیر گذشتہ پچاس برس سے میرے مطالعے ہے، میری بیش تر کتابوں میں اس کے پرندوں کا تذکرہ آتا ہے، میرے ناول ’’خس و خاشاک‘‘ کا ایک کردار دریا کے کنارے بیٹھا ہوا ہے، اور اچانک پرندہ بن کر اڑ جاتا ہے، میری کتابوں ’’فاختہ‘‘ اور ’’پکھیرو‘‘ میں بھی پرندے ہیں۔

    [bs-quote quote=”جو محدود ذہن رکھتے ہیں، وہ عام طور کتابیں پڑھتے  ہی نہیں ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    اب سوال یہ ہے کہ یہ پرندے کیوں مجھے اپنی جانب کھینچتے ہیں؟ جیسے میں نے اردو کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم بھی عطار کی طرح سچ کے تلاش میں ہیں، سچ ملے نہ ملے، یہ الگ بات ہے، تو میرا ناول ’’منطق الطیر جدید‘‘ فرید الدین عطار کو ٹریبوٹ ہے، ساتھ یہ کہنے کی بھی ہے کہ ہم جو آپ سے متاثر ہوئے ہیں، ہم بھی ایک چھوٹے سے تخلیق کار ہیں، آپ ہی نقش قدم پر چل کر اپنے پرندوں کے ساتھ اپنے سچ کی جستجو میں ہیں۔

    سوال: آپ کی کتابوں میں پرندے تو ابتدا سے ساتھ ہیں، لیکن یہ فیصلہ کب ہوا کہ انھیں ناول کی شکل دی جائے، کیا اس کے لیے ٹلہ جوگیاں کا سفر کیا گیا؟

    تارڑ: دراصل پچاس برس میں ہر شے بدل جاتی ہے، معاشرتی اور اخلاقی اقدار بدل جاتی ہیں، سوچ بدل جاتی ہے، فیشن تو بدل ہی جاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں خدا حافظ کہا جاتا تھا، اب اللہ حافظ آگیا، اس وقت لڑکیاں اگر ’’یار‘‘ کا لفظ استعمال کریں، تو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا، اب یہ عام ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ اخلاق تباہ ہوا ہے، بلکہ  اقدار تبدیل ہوگئیں۔ تو اسی طرح سچ کا تصور بھی بدلا ہے۔ تو ہر فرد یہ جاننے کا خواہش مند ہوتا ہے کہ میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں جاؤں گا؟ یعنی ہر شخص کو ان ہی سوالوں کی جستجو ہوتی ہے۔ اگر وہ خوش قسمت ہو، تو ایک آدھ کا جواب مل جاتا ہے، اور نہیں بھی ملتا، تو وہ جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ تو یہ ایک ایسی ہی کاوش ہے۔

    ’’منطق الطیر جدید‘‘ ایک مشکل کام تھا۔ ’’بہاؤ ‘‘کے بعد اگر کسی ناول پر یکسوئی سے کام کیا، تو  اسی پر کیا۔ کسی نے کہا  کہ اس میں عام طرز کے برعکس واقعات نگاری نہیں۔ تو میں نے جواب دیا کہ یہ اسی لیے مشکل ہے کہ کوئی واقعہ نہیں، ایک مسلسل کیفیت، ایک مسلسل واقعہ ہے۔ میں نے ٹلہ جوگیاں سے متعلق مطالعہ کیا، ویڈیوز دیکھیں، البتہ کوشش کے باوجود وہاں جا نہیں سکا، تو اپنے تخیل میں ایک ٹلہ جوگیاں بنا لیا، مگر احتیاط کی کہ کوئی ایسی شے نہ ہو، جو متصادم ثابت ہو۔ بعد میں ایک دوست نے ٹلہ جوگیاں چلنے کے لیے کہا، مگر تب میں نے منع کر دیا کہ اب مناسب نہیں۔ پھر ضروری نہیں کہ تخلیق کار وہاں جائے، جس جگہ کو اس نے موضوع بنایا ہو۔

    سوال: آپ نے ایک حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، ادیان اور عشق، مردوں کے نمائندہ پرندے، عورتوں کے نمائندہ پرندے، ان کا سنجوگ؟

    تارڑ: مجھے اس میں فرید الدین عطار کی سپورٹ حاصل تھی۔ میں نے لکھتے ہوئے ان حوالوں، سہاروں کو پیش نظر رکھا، جیسے منصور حلاج، قرۃ العین طاہرہ۔ پھر اپنا نظریہ شامل کیا۔ پھر اس میں تاریخی حوالے بھی ہیں۔ خوش قسمتی سے، جو محدود ذہن رکھتے ہیں، وہ عام طور کتابیں پڑھتے  ہی نہیں ہیں۔

    سوال: ناول ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ آپ کے دیگر ناولز سے نہ صرف ضخیم ہے، بلکہ اس کا کینوس بھی وسیع ہے، ہندوستانی فکشن نگار مشرف عالم ذوقی نے اسے کلاسیکی ناول سے میلوں آگے کی چیز قرار دیا، البتہ توقعات کے برعکس وہ زیادہ زیربحث نہیں آیا؟

    تارڑ: دراصل ضخیم ناول لوگ پڑھنے سے گھبراتے ہیں۔ جب جب میرے تین بہترین ناولز کا انتخاب کیا گیا، تو ہر شخص نے اپنی پسند کے مطابق چناؤ کیا۔ آج کل میرے ناول ’’ڈاکیا اور جولاہا‘‘ پر بات ہو رہی ہے، گو اسے چھپے ہوئے دس برس ہوگئے۔ تو ناول نظم یا غزل کی طرح دھماکا نہیں کرتا، وہ آہستہ آہستہ اپنی جگہ بناتا ہے، آہستہ آہستہ قارئین میں سرایت کرتا جاتا ہے۔ اگر سکت ہوتی ہے، تو باقی رہتا ہے، ورنہ نہیں رہتا۔

    [bs-quote quote=”لٹریچر میں واضح منزل سے انحراف کے حیران کن نتائج برآمد ہوتے ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    سوال: ’’منطق الطیر جدید‘‘ کی تکنیک پر بات کرتے ہوئے ممتاز نقاد اور دانش ور شمیم حنفی نے اس ضمن میں ’’یولیسس‘‘ کا حوالہ دیا تھا؟

    تارڑ: ہاں، اس میں جیمز جوائس کے یولیسس کی طرح کوئی باقاعدہ واقعہ نہیں ہے، اس تناظر میں کہہ سکتے ہیں۔

    سوال: آپ کے لکھنے کا ڈھب کیا ہے؟ ٹائپ کرتے ہیں، ہاتھ سے لکھتے ہیں؟

    جواب: نہیں میں ٹائپ نہیں کرتا، انگریزی میں جب کالم لکھتا تھا، تو ٹائپ رائٹر پر لکھتا تھا، ورنہ میز پر قلم کے ساتھ لکھتا ہوں، جب تک قلم سے نہیں لکھتا، بات نہیں بنتی۔ قلم سے بھی کچھ برآمد ہوتا ہے۔ ساڑھے سات بجے اسٹڈی میں چلا جاتا ہوں، ساڑھے دس گیارہ بجے تک وہاں رہتا ہوں۔

    سوال: آپ نے اپنی فکشن نگار ی سے متعلق ایک بار کہا تھا کہ آپ سفر سے قبل منزل سامنے رکھتے ہیں، مگر پھر نامعلوم کی سمت چلے جاتے ہیں؟

    جواب: کئی برس پہلے کی بات ہے، اسلام آباد کی ایک ادبی تقریب میں ممتاز مفتی میرے پاس آئے، اور کہا کہ ’’ٹی وی کی شہرت تمھیں کھا جائے گی، تم میں بڑا ادیب بنے کی صلاحیت ہے۔‘‘ میں نے کہا،’’مفتی صاحب، میں اس شہرت کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔‘‘ کہنے لگے،’’نہیں، ٹی وی چھوڑو، ورنہ میں تم سے بات نہیں کروں گا۔‘‘ خیر، بعد میں انھوں نے خط لکھا اور  تسلیم کیا کہ ان کا اندازہ  غلط تھا۔

    کچھ عرصے بعد پروفیسر رفیق اختر کے گھر ایک ملاقات ہوئی، وہاں ممتاز مفتی کے علاوہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ بھی موجود تھے۔ تو وہاں ممتاز مفتی نے اچانک کہا، ’’تارڑ، یہ جو تم لکھتے لکھتے اچانک نئی سمت چلے جاتے ہو، یہ تکنیک پروفیسر رفیق اختر سے مستعار لی؟‘‘ میں نے کہا کہ میں پروفیسر رفیق اختر کی قادر الکلامی اور تفسیر کا بڑا قائل ہوں، مگر یہ میرا اپنا طریقہ ہے۔

    ابتدا میں لکھنے والا بڑا محتاط ہوتا ہے، مگر بعد میں وہ نامعلوم کی سمت، اندھیری گلی کی سمت بھی چلا جاتا ہے۔ جس زمانے میں میں یورپ میں hitchhiking کرتا تھا، تو یوں ہوتا کہ کہیں اور جانا ہے، مگر جس شخص سے لفٹ لی، وہ کسی اور قصبے کی سمت جارہا ہے، تو اس سمت چل دیے، کیوں کہ اس کا اپنا چارم اور رومانس ہوتا ہے، یہی چیز لٹریچر میں ہوتی ہے کہ آپ جس واضح منزل کی سمت جارہے ہیں، اسے انحراف کر کے اس سمت چلے جاتے ہیں، جس کی آپ کو خبر نہیں، اور اس سے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ فکشن بے یقینی کو معلق کرنے کا نام ہے، آپ کہتے ہیں کہ یہ ناقابل یقین ہے، مگر اس کی طاقت اسے معلق کر دیتی ہے، یہ اسی وقت ہوتا ہے، جب آپ بھٹکنے کو تیار ہوں۔

    سوال: ’’اے غزال شب‘‘ کے بعد ایک طویل وقفہ تھا، ناول کی سمت آپ بارہ برس بعد آئے، تو اب پھر ایک وقفہ ہے، یا کسی ناول پر کام کر رہے ہیں؟

    تارڑ: ’’اے غزال شپ‘‘ کے بعد میرا نہیں خیال تھا کہ پھر فکشن لکھوں گا، مگر پھر یہ (منطق الطیر جدید) سامنے آگیا، مگر فی الحال کوئی ناول ذہن میں نہیں ہے، ممکن ہے، یہ آخری ہو۔

  • پاکستان اور ترکی نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں، عارف علوی

    پاکستان اور ترکی نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں، عارف علوی

    استنبول : صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے کہا ہے کہ پاکستان اور ترکی نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں، ہمارے گہرے برادرانہ اور تاریخی تعلقات ہیں۔

    یہ بات انہوں نیوز ایجنسی اور مقامی  روزنامہ کے نمائندوں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی، صدر مملکت نے کہا کہ ترکی مسلم دنیا کا اہم ترین ملک ہے، پاک ترک عوام کے گہرے برادرانہ اور تاریخی تعلقات ہیں۔

    امن اور استحکام کیلئے دونوں ملکوں نے بےپناہ کاوشیں کیں، پاکستان کو دہشت گردی کے ناسور نے بہت نقصان پہنچایا، دہشت گردی کے باعث70ہزار انسانی جانوں، اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔

    صدر نے مزید کہا کہ پاکستان اور ترکی نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بےپناہ قربانیاں دیں، دنیا کو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے دونوں ممالک کی کوششوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔

    ڈاکٹرعارف علوی نے بتایا کہ حکومت کم آمدنی والے طبقے کیلئے50لاکھ گھروں کے منصوبے پرکام کررہی ہے اس سلسلے میں ہم ہاؤسنگ کے شعبے میں ترک تجربات سے استفادہ چاہتے ہیں، پاکستان دنیا بھر کے ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے، پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔

  • شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرنے والی خواتین کو معاشرہ تسلیم نہیں کرتا، اداکارہ تبو

    شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرنے والی خواتین کو معاشرہ تسلیم نہیں کرتا، اداکارہ تبو

    لاہور : بالی ووڈ کی معروف ادکارہ تبو نے کہا ہے کہ تمام عمر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرکے ساری زندگی تنہا بتانے والی خواتین کو معاشرہ نہ تو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی انہیں عزت کے لائق سمجھتا ہے۔

    ان کا خیالات کا اظہار انہوں نے ایک فیشن میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا، ماضی کی معروف پیروئن کا کہنا تھا کہ شوبز کے شعبے کو عمومی طور پر آزاد خیال اور بولڈ سمجھتا جاتا ہے لیکن اس شعبے میں بھی ایسے لوگ ہیں جو غیر شادی شدہ اور خود پر انحصار کرنے والی خواتین کو دل سے قبول نہیں کرتے.

    اداکارہ تبسم فاطمہ جو بالی وڈ میں تبو کے نام سے جانی جانتی ہیں اور ان کے منفرد کردار آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور وہ اپنے کرداروں سے اتنی متعارف ہوچکی ہیں کہ ان کے مداح کسی اور کردار میں ان کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے، کردار کو یہ جاودانی بخشنا انہی کا کمال تھا۔

    خیال رہے کہ 46 سالہ تبسم فاطمہ ہاشمی المعروف تبو تاحال غیر شادی شدہ ہیں اور مستقبل قریب میں بھی وہ اس بندھن سے منسلک ہوتی نظر نہیں‌ آتی ہیں،اُن کا کہنا ہے کہ کوئی خاتون اپنی مرضی یا پسند سے تنہا رہنے کا فیصلہ کر سکتی ہے لیکن یہ معاشرہ ایسا کرنے نہیں دیتا تاہم مردوں کے معاشرے میں اس طرح کی سوچ کو اب بدلنے کی ضرورت ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عالمی دنیا میں پاکستان کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں، بلاول بھٹو

    عالمی دنیا میں پاکستان کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں، بلاول بھٹو

    واشنگٹن: چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ دنیا اپنی کمزوریاں چھپانے کے لیے پاکستان پر الزامات لگا رہی ہے، عالمی دنیا میں پاکستان کے خلاف سازشیں سب کے سامنے ہیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا، بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ صرف پیپلز پارٹی پاکستان کو موجودہ بحران سے نکال سکتی ہے، گزشتہ چار سال میں عالمی معاملات سے متعلق ہمارا موقف پیش نہیں کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ امریکا، نیٹو فورسز افغانستان میں ناکام ہوچکی ہے، افغانستان میں ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر عائد نہیں کی جاسکتی، اب پاکستان کو دفاع کا موقع ملنا چاہیے جبکہ عالمی کمیونٹی کو پاکستان سے تعاون کی ضرورت ہے۔

    بلاول بھٹو کا مقبوضہ کشمیر میں کیمیائی اسلحے،پیلٹ گنزکی تحقیقات کا مطالبہ

    سربراہ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کررہا ہے، پاکستان شدت پسندی کے خلاف لڑنےکو ہمیشہ تیار ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ پاناما کا رونا دھونا ختم کریں اور ملک کی بات کریں، آئندہ الیکشن میں کامیاب ہوئے تو قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔

    امریکیوں سےزیادہ پاکستانیوں نےدہشت گردی کےخلاف قربانیاں دیں‘ بلاول بھٹو

    خیال رہے گذشتہ روز بلاول بھٹو زرداری نے امریکی ٹی وی کو ہی انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان مخالف ٹویٹ شاید کچھ امریکیوں کی خواہش ہو، امریکی صدر کے ٹویٹ سے پاکستانیوں کو دکھ پہنچا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹویٹ میرے لیے زیادہ تکلیف دہ تھا۔

    یاد رہے کہ رواں برس یکم جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کو ہمیشہ دھوکہ دیتا آیا ہے، پاکستان نے امداد کے بدلے امریکہ کو بے وقوف بنانے کے بجائے کچھ نہیں کیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • افغان مسئلے کے سیاسی حل کی ضرورت ہے: خواجہ آصف

    افغان مسئلے کے سیاسی حل کی ضرورت ہے: خواجہ آصف

    وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے لیے سیاسی حل کی ضرورت ہے فوجی نہیں۔ فوجی حل پہلے ہی ناکام ہوچکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ طالبان افغانستان کے 40 فیصد سے زائد علاقے میں موجود ہیں۔ انہیں پاکستان میں محفوظ ٹھکانوں کی ضرورت نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج جو کامیابی حاصل کرنا چاہتے تھے نہیں ہوئی۔

    خواجہ آصف نے کہا کہ یہ ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس کا مستقبل قریب میں ختم ہونے کا امکان نہیں۔ افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہیئے۔ فوجی حل ناکام ہوچکا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد بڑھانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔