Tag: انڈیا

  • پاناما لیکس کا تہلکہ، بھارتی اداروں نے بھی اربوں کے اثاثوں کا پتا لگا لیا

    پاناما لیکس کا تہلکہ، بھارتی اداروں نے بھی اربوں کے اثاثوں کا پتا لگا لیا

    نئی دہلی: بھارتی ٹیکس حکام نے 2 سو ارب سے زائد غیر ظاہر اثاثہ جات کا سراغ لگا لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاناما پیپرز میں بھارتیوں کی کرپشن کی ان گنت کہانیاں بھی سامنے آ گئی ہیں، ٹیکس چرانے کے لیے بھارتیوں نے بھی اربوں کے بے نامی اثاثے بنائے اور چھپائے۔

    بھارتی ٹیکس اتھارٹیز 200 ارب روپے کے بے نامی اثاثہ جات تک پہنچ گئیں، 2016 سے اب تک سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز نے تحقیقات کر کے بھارت اور بیرون ملک اربوں کے بے نامی اثاثہ جات کا پتا لگایا۔

    بھارت میں بلیک منی اور انکم ٹیکس ایکٹ پر 46 مقدمے دائر کیے جا چکے ہیں، بھارتی ٹیکس اتھارٹیز نے ان مقدمات میں 142 کروڑ کی ریکوری کر لی ہے، جب کہ مزید 83 کیسز میں سرچ اور سروے مکمل کر لیا گیا ہے۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ مزید کیسز کے مقدمات دائر ہونے پر مزید کروڑوں روپے کی ریکوری کا امکان ہے۔

    واضح رہے کہ عالمی سطح پر پاناما پیپرز نے پانچ سال کا ہندسہ عبور کر لیا ہے، آئی سی آئی جے نے اندازہ لگایا ہے کہ مجموعی طور پر دنیا بھر میں ٹیکس حکام نے ٹیکسوں اور جرمانوں کی مد میں 1.36 بلین ڈالرز سے زیادہ کی ریکوری کی ہے، جب کہ سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے اعداد و شمار برطانیہ، جرمنی، اسپین، فرانس اور آسٹریا کے تھے۔

    2016 میں اپریل میں بحر اوقیانوس کے کنارے پر واقع ملک پاناما کی صحافتی تنظیم آئی سی آئی جے نے ایک قانونی فرم موزاک فونسیکا سے غیر قانونی اثاثہ جات کی ڈیڑھ لاکھ دستاویزات لے کر پامانہ پیپرز کے نام سے شائع کی تھیں، جس کے باعث کئی ممالک کی حکومتیں ہل گئی تھیں۔

    پاناما دستاویزات میں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سمیت دیگر 400 سے زائد افراد کے نام سامنے آئے تھے، شریف خاندان کی آفشور کمپنیاں منظر عام پر آنے کے بعد نواز شریف نے قوم سے خطاب کر کے مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔

  • لاہور میں بھارتی اسمگلنگ کے خلاف سب سے بڑی کارروائی

    لاہور میں بھارتی اسمگلنگ کے خلاف سب سے بڑی کارروائی

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھارتی اسمگلنگ کی سب سے بڑی کھیپ برآمد کرلی گئی، برآمد شدہ سامان ایکسپائر کاسمیٹکس تھی جس کی مالیت 32 کروڑ روپے ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کسٹم انٹیلی جنس نے لاہور میں بھارتی اسمگلنگ کے خلاف سب سے بڑی کارروائی کرتے ہوئے سگیاں کے علاقہ میں گودام پر چھاپہ مارا، جہاں سے 32 کروڑ روپے مالیت کی ایکسپائر انڈین کاسمیٹکس کا سامان برآمد ہوا۔

    ڈائریکٹر کسٹمز اسد رضوی کا کہنا ہے کہ کسٹم انٹیلی جینس نے فیصل آباد سے لاہور آنے والی ٹرک کی ریکی کی، ٹرک کو فالو کر کے کسٹم ٹیم گودام تک پہنچی۔

    اسد رضوی کے مطابق گودام سے ایکسپائر انڈین کاسمیٹکس کا سامان برآمد کیا گیا، برآمد شدہ سامان کی مالیت 32 کروڑ روپے ہے۔

    کسٹم انٹیلی جنس نے گودام کے مالک کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا ہے۔

    ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ کسٹم اینٹی اسمگلنگ نے گزشتہ سال 5.5 ارب کی ریکوری کی، کسٹمز لاہور کی نفری کم ہونے کی وجہ سے انٹیلی جنس آپریشن کرتے ہیں، ایئرپورٹ پر گزشتہ سال کروڑوں روپے کی ریکوری کر چکے ہیں۔

  • بھارت: قرض سے پریشان شخص نے خاندان سمیت خودکشی کرلی

    بھارت: قرض سے پریشان شخص نے خاندان سمیت خودکشی کرلی

    نئی دہلی: بھارت میں قرض کی ادائیگی سے پریشان شخص نے پورے خاندان سمیت تالاب میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی، مرنے والوں میں کمسن بچے بھی شامل ہیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست کرناٹک کے ضلع یادگیر کے ایک گاؤں میں ایک خاندان نے قرض کی ادائیگی سے پریشان ہو کر تالاب میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔

    خودکشی کرنے والوں کی شناخت 45 سالہ بھمیا، 36 سالہ شانتما، 12 سالہ سری دیوی، 13 سالہ سمترا، 6 سالہ شیوراج اور 4 سالہ لکشمی کے طور پر ہوئی ہے۔ فائر فائٹرز کے عملے اور گاؤں کے ہنرمند تیراکوں کی مدد سے لاشوں کو تالاب سے باہر نکالا گیا۔

    پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر تمام لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے مقامی اسپتال روانہ کردیا۔ پولیس نے مقدمہ بھی درج کرلیا ہے اور واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔

    اندوہناک واقعے کے بعد گاؤں والے غم اور صدمے کی کیفیت میں ہیں۔

  • بھارت: کرونا ویکسین سے خوفزدہ شخص درخت پر چڑھ گیا

    بھارت: کرونا ویکسین سے خوفزدہ شخص درخت پر چڑھ گیا

    بھارت سمیت دنیا بھر میں کرونا ویکسین کے حوالے سے لوگوں میں بے اعتمادی اور خوف پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ویکسی نیشن تاخیر کا شکار ہورہی ہے، بھارت میں بھی ایسے ہی ایک خوفزدہ شخص نے عجیب و غریب حرکت کر ڈالی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں میں کرونا ویکسی نیشن کا کیمپ لگایا گیا جہاں گاؤں والوں کی ویکسی نیشن کی جارہی تھی۔

    وہاں موجود ایک شخص پہلے تو کیمپ میں کھڑا ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتا رہا پھر اچانک وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔

    مذکورہ شخص نے ویکسین لگوانے سے صاف انکار کردیا، یہی نہیں وہ اپنی بیوی کا راشن کارڈ بھی اپنے پاس رکھ کے بیٹھ گیا تاکہ اسے بھی ویکسین نہ لگائی جاسکے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق مذکورہ شخص کی بیوی ویکسی نیشن کروانا چاہتی تھی لیکن تصدیقی دستاویز نہ ہونے کے سبب وہ ویکسی نیشن نہ کروا سکی۔ مذکورہ شخص شام تک درخت پر چڑھا رہا جب تک میڈیکل ٹیم اپنا سامان سمیٹ کر وہاں سے رخصت نہ ہوگئی۔

    یہ خبر جب میڈیا پر آئی تو مقامی میڈیکل افسر ڈاکٹر راجیو نے اس گاؤں کا دورہ کیا اور اس شخص سے ملاقات کی، انہوں نے اس شخص کو ویکسی نیشن کے لیے قائل کیا اور اس حوالے سے اس کے خدشات دور کیے۔

    ڈاکٹر راجیو کے مطابق مذکورہ شخص نے ویکسی نیشن کے لیے حامی بھر لی ہے اور چند دن بعد جب ایک قریبی گاؤں میں ویکسی نیشن کیمپ لگے گا تو اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اہلیہ کے ساتھ وہاں جا کر ویکسین لگوائے گا۔

  • بھارت: دلہا اخبار نہ پڑھ سکا، دلہن نے شادی سے انکار کردیا

    بھارت: دلہا اخبار نہ پڑھ سکا، دلہن نے شادی سے انکار کردیا

    نئی دہلی: بھارت میں ایک دلہن نے شادی کی تقریب میں دلہا کو ہندی اخبار پڑھنے کے لیے کہا جس کے نہ پڑھ پانے پر دلہن نے شادی سے انکار کردیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست اتر پردیش میں حیرت انگیز واقعہ پیش آیا جہاں دلہا کے ہندی اخبار نہ پڑھ سکنے پر شادی منسوخ ہوگئی۔

    دراصل دلہا ناخواندہ نہیں تھا، بلکہ اس کی بصارت کمزور تھی جس کی وجہ سے وہ اخبار نہیں پڑھ پایا۔

    شادی کی تقریب میں جب دلہا چشمہ پہن کر آیا تو دلہن اور اس کے گھر والوں کو یہ بات عجیب لگی، انہوں نے کسی سے سنا کہ چشمے کے بغیر دلہا کو کچھ دکھائی نہیں دیتا جس پر دلہن نے اسے آزمانے کا سوچا۔

    اس نے دلہا کو ایک ہندی اخبار دے کر کہا کہ اسے بغیر چشمے کے پڑھو، جس میں دلہا بری طرح ناکام ہوگیا، جس کے بعد لڑکی والوں نے شادی کینسل کردی۔

    دلہن کے والد کا کہنا تھا کہ رشتہ طے ہونے سے قبل انہوں نے لڑکے کو چشمہ لگائے دیکھا تھا اور انہیں خیال گزرا کہ شاید وہ اسٹائل کے لیے چشمہ پہنے ہوئے ہو، لیکن جب وہ شادی کی تقریب میں بھی عینک پہن آیا تو ہمیں شک ہوا۔

    ان کی جانب سے دلہے کو موٹر سائیکل اور نقد رقم بھی دی گئی تھی جو واپس لے لی گئی۔

    یہی نہیں دلہن کے گھر والوں کی جانب سے دلہا اور اس کے گھر والوں کے خلاف دھوکا دہی کا مقدمہ بھی درج کروا دیا۔

  • بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کن قسم مزید تبدیل ہورہی ہے

    بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کن قسم مزید تبدیل ہورہی ہے

    نئی دہلی: بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کن قسم ڈیلٹا کی ایک اور ذیلی قسم سامنے آگئی جسے کے 417 این کا نام دیا گیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق بھارت میں تیزی سے پھیلنے والے کورونا وائرس کے ڈیلٹا قسم کے 40 کے لگ بھگ کیسز سامنے آنے کے بعد مرکزی حکومت نے ریاستوں سے کہا ہے کہ شہریوں کے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کروائے جائیں۔

    کرونا وائرس کی تبدیل شدہ شکل رکھنے والی یہ قسم نہایت تیزی سے پھیلتی ہے اور اس کو انڈیا میں ڈیلٹا پلس کا نام دیا گیا ہے، اس کا پہلا کیس رواں ماہ کی 11 تاریخ کو پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے رپورٹ کیا تھا۔

    کرونا وائرس کی اس تبدیل شدہ قسم کو ڈیلٹا ویرینٹ کی ذیلی نسب سمجھا جاتا ہے جو سب سے پہلے انڈیا میں سامنے آئی اور پروٹین میوٹیشن کے تحت صورت بدلی اس کو کے 417 این کا نام دیا گیا۔

    اس تبدیل شدہ وائرس کا بِیٹا ویرینٹ پہلی بار جنوبی افریقا میں بھی سامنے آیا تھا۔

    بعض سائنسدان اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ وائرس کی میوٹیشن ڈیلٹا ویرینٹ کے دیگر موجود فیچرز کے ساتھ مل کر اس کو زیادہ تیزی سے پھیلنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

    انڈیا کے محکمہ صحت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کے 417 این وائرس کی نوعیت ریسرچ میں دلچسپی کا باعث ہے کیونکہ یہ بِیٹا ویرینٹ میں بھی موجود ہے جو قوت مدافعت سے متلق پہلے ہی رپورٹ ہو چکا ہے۔

    انڈیا کے ایک نمایاں وائرولوجسٹ شاہد جمیل نے بتایا کہ یہ تبدیل شدہ شکل کا وائرس اینٹی باڈیز کے مؤثر ہونے میں کمی لانے کے لیے جانا جاتا ہے۔

    ڈیلٹا ویریئنٹ کرونا وائرس کے 16 جون تک کم از کم 197 کیسز سامنے آچکے ہیں جو دنیا کے 11 ملکوں میں رپورٹ کیے گئے، ان ممالک میں برطانیہ، کینیڈا، انڈیا، جاپان، نیپال، پولینڈ، پرتگال، روس، سوئٹزرلینڈ، ترکی اور امریکا شامل ہیں۔

    بدھ کو بھارتی حکام نے بتایا کہ اس ویرینٹ کے 40 کیسز تین ریاستوں مہاراشٹر، کیرالہ اور مدھیہ پردیش میں سامنے آئے تاہم ان کے تیزی سے پھیلاؤ کے حوالے سے کوئی حقائق سامنے نہیں آئے۔

    برطانیہ نے کہا ہے کہ اس تبدیل شدہ وائرس کے پانچ کیسز 26 اپریل کو رپورٹ کیے گئے تھے اور یہ افراد ایسے لوگوں سے ملے تھے جنہوں نے نیپال اور ترکی کا سفر کیا تھا۔

    برطانیہ اور بھارت میں تبدیل شدہ شکل والے وائرس سے تاحال کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں کی گئی۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ وہ اس ویرینٹ کو ڈیلٹا ویرینٹ کے ایک حصے کے طور پر ٹریک کر رہا ہے اور اس کے ساتھ وائرس کے دیگر ویرینٹس پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے جن کی میوٹیشن ہوئی ہے۔

  • کرونا وائرس کی بھارتی قسم ڈیلٹا دنیا بھر کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے؟

    کرونا وائرس کی بھارتی قسم ڈیلٹا دنیا بھر کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے؟

    بھارت میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا نے خوفناک تباہی مچائی ہے اور اب یہ دنیا بھر کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے، ماہرین اس قسم پر مسلسل تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی بہت زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا جسے بی 1617.2 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دسمبر 2020 میں بھارت میں دریافت ہوئی تھی۔

    اب یہ قسم بھارت اور برطانیہ میں سب سے زیادہ کیسز کا باعث بننے والی قسم ہے جبکہ امریکا میں امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہاں بھی جلد اس کا غلبہ ہوگا۔ ڈیلٹا قسم 6 ماہ کے دوران 80 ممالک تک پہنچ چکی ہے اور متعدد ممالک میں کیسز میں اضافے کے بعد سفری پابندیوں کا باعث بی ہے۔

    اس نئی قسم کے پھیلاؤ کی زیادہ رفتار اور ویکسینز کی افادیت میں ممکنہ کمی کے باعث اس کے اثرات کے بارے میں جاننا اب بہت اہم ہوچکا ہے۔ اب تک ہم اس کے بارے میں جو جان چکے ہیں وہ درج ذیل ہے۔

    یہ بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے

    جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ یہ اب تک 80 ممالک تک پہنچ چکی ہے اور برطانیہ میں یہ کیسز کی تعداد کے حوالے سے ایلفا قسم کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔

    حالانکہ ایلفا قسم بھی بہت زیادہ متعدی ہے مگر ڈیلٹا قسم کے بارے میں اب تک کے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ کرونا کی سابقہ اقسام سے 43 سے 90 فیصد تک زیادہ متعدی ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ ایلفا کے مقابلے میں ڈیلٹا قسم کے پھیلاؤ کی رفتار 30 سے 100 فیصد زیادہ ہوسکتی ہے۔

    محققین ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ یہ نئی قسم دیگر کے مقابلے میں اتنی زیادہ متعدی کیوں ہے، ان کے خیال میں اس قسم کے پروٹین میں آنے والی تبدیلیوں نے اس کے لیے انسانی خلیات میں داخلہ آسان بنادیا ہے۔

    ایک ابتدائی تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ اس قسم میں ایک ایسی میوٹیشن ہوئی ہے جس سے ایک بار انسانی خلیات سے منسلک ہونے کے بعد وہ زیادہ بہتر طریقے سے مدغم ہوجاتی ہے۔ اگر یہ حقیقی معنوں میں خلیات سے آسانی سے مدغم ہوسکتی ہے تو یہ زیادہ سے زیادہ خلیات کو متاثر کرسکتی ہے اور مدافعتی نظام کو بے بس کرسکتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی چیف سائنسدان ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن کے مطابق ڈیلٹا قسم جلد دنیا بھر میں کرونا کی بالادست قسم بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ قسم ایلفا کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

    کم عمر افراد کو زیادہ متاثر کرتی نظر آتی ہے

    برطانیہ میں تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ 50 سال سے کم عمر افراد اس نئی قسم سے ڈھائی گنا زیادہ بیمار ہورہے ہیں۔

    علامات کی شدت زیادہ سنگین ہے

    ڈیلٹا سے بیمار ہونے والے افراد میں ہسپتال میں داخلے کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملا ہے کہ ایلفا کے مقابلے میں ڈیلٹا سے متاثر ہونے والے افراد میں اسپتال کے داخلے کا خطرہ دگنا زیادہ ہوتا ہے۔

    چین میں ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ ڈیلٹا سے متاثر افراد وبا کے آغاز میں کووڈ کا شکار ہونے والے افراد کے مقابلے میں زیادہ بیمار ہوتے ہیں، جبکہ ان کی حالت زیادہ تیزی سے بگڑتی ہے۔

    بھارت بھر میں مریضوں کا علاج کرنے والے 6 ڈاکٹروں کے مطابق معدے میں درد، قے، متلی، کھانے کی اشتہا ختم ہونا، سننے کی حس سے محرومی اور جوڑوں میں درد کووڈ کی اس قسم کے مریضوں کو درپیش چند مسائل ہیں۔

    بھارت میں اس قسم سے متاثر افراد میں بلیگ فنگس کے کیسز بھی بڑھ چکے ہیں جو اب تک 8 ہزار 800 کووڈ 19 کے مریضوں یا ان کو شکست دینے والے میں سامنے آئے ہیں۔

    علامات بھی مختلف

    برطانیہ کی زوئی کووڈ 19 سیمپم اسٹڈی ایپ کے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں ڈیلٹا کے شکار مریضوں کی عام علامات بھی دیگر اقسام سے مختلف ہیں۔ اس ایپ کے ڈیٹا کے مطابق ڈیلٹا کے شکار افراد میں سر درد، گلے کی سوجن، ناک بہنا اور بخار سب سے عام علامات ہیں۔

    کھانسی ان مریضوں میں زیادہ عام علامت نہیں جبکہ سونگھنے کی حس سے محرومی سرفہرست 10 عام علامات میں شامل ہی نہیں۔

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈیلٹا کی علامات کو بگڑے ہوئے نزلے کی علامات سمجھا جاسکتا ہے اور لوگوں کی جانب سے کوئی احتیاط نہیں کی جائے گی، جس سے اس کے پھیلاؤ میں مزید مدد ملے گی۔

    خود کو کیسے بچائیں؟

    ایسا خیال کیا جارہا ہے کہ یہ نئی قسم ویکسی نیشن سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہے۔ مگر ابتدائی تحقیق کے مطابق فائر ویکسین کی 2 خوراکوں کے استعمال سے ڈیلٹا قسم سے 79 فیصد تک تحفظ مل سکتا ہے اور بیمار ہونے پر علامات سے تحفظ کی شرح 88 فیصد تک ہوسکتی ہے۔

    ایسٹرازینیکا ویکسین کی 2 خوراکوں سے ڈیلٹا سے بیمار ہوکر ہسپتال پہنچنے کا خطرہ 92 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ اب تک ویکسنیشن والے کسی فرد میں اس نئی قسم سے ہلاکت کو رپورٹ نہیں کیا گیا۔

  • گرین فنگس کیا ہے؟ وجوہات اور علامات

    گرین فنگس کیا ہے؟ وجوہات اور علامات

    نئی دہلی: بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں 34 سالہ شخص میں گرین فنگس نامی بیماری کا انکشاف ہوا ہے، یہ شخص گزشتہ 2 ماہ سے کووڈ 19 کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔

    یہ گرین فنگس کیا ہے؟ اور اس نایاب انفیکشن کے خطرے سے کون متاثر ہوسکتے ہیں؟ آئیں جانتے ہیں۔

    گرین فنگس یا Aspergillosis دراصل ایک فنگل انفیکشن ہے، جو زیادہ تر پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ عام پھپھوندی سے ہوتا ہے۔ عام طور پر لوگ اس پھپھوندی کے خورد بینی اجسام کے سانس میں داخل ہونے سے متاثر ہوتے ہیں۔

    امریکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق زیادہ تر لوگ ان سے بیمار نہیں ہوتے لیکن جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو یا وہ پہلے سے پھیپھڑوں کے امراض کا شکار ہوں، ان کے اس انفیکشن سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    جیسا کہ حال ہی میں کووِڈ سے صحت یاب ہونے والے مریض ہیں، یا پھر وہ جنہیں پہلے سے پھیپھڑوں کا کوئی مرض مثلاً دمہ یا تپ دق وغیرہ۔

    اس انفیکشن سے متاثرہ افراد کو سانس میں خرخراہٹ محسوس ہوتی ہے، ان کا سانس جلد پھولتا ہے اور کھانسی اور کبھی کبھار بخار بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ناک بند ہونا اور بہنا، سر میں درد اور سونگھنے کی صلاحیت محدود ہو جانا بھی اس کی علامات میں شامل ہے۔

    اگر یہ دائمی صورت اختیار کر جائے تو وزن گھٹ جانے، کھانسی میں خون آنے اور تھکاوٹ محسوس ہونے کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہے۔ بہت ہی شدید صورت اختیار کر جائے تو پھیپھڑوں سے انفیکشن جسم کے دوسرے حصوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق یہ گنگس ایک سے دوسرے شخص کو منتقل نہیں ہو سکتا یعنی یہ متعدی نہیں ہے۔

    گرین، بلیک، وائٹ اور یلو فنگس جیسے امراض نئے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ محض کرونا وائرس سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن یہ کووِڈ 19 کے ساتھ مل کر خوب قیامت ڈھا رہے ہیں۔

    بھارت میں گزشتہ ماہ بلیک فنگس کے بہت سے مریض سامنے آئے تھے۔ یہ بھی بہت خطرناک مرض ہے جو آنکھوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے، اس کی علامات میں آنکھوں کا رنگ بدل جانا، نظر دھندلا جانا، سینے میں درد اور سانس میں تکلیف شامل ہیں۔ اگر یہ شدت اختیار کر جائے تو ڈاکٹروں کو ایک یا دونوں آنکھیں یا جبڑے کا کوئی حصہ نکالنا پڑتا ہے تاکہ انفیکشن مزید نہ پھیلے۔

    ڈاکٹرز کے مطابق ذیابیطس کے شکار اور کمزور مدافعتی نظام رکھنے والے افراد خاص طور پر اس انفیکشن کی زد پر ہیں، ان کے خیال میں کووِڈ 19 کے علاج کے لیے اسٹیرائیڈز کے استعمال نے بھی اس فنگس کے پھیلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

  • بھارت: لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیوہ خاتون اور بچے 10 دن بھوکے رہے

    بھارت: لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیوہ خاتون اور بچے 10 دن بھوکے رہے

    کرونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ کردیا ہے، وہیں پہلے سے غریب ممالک کے شہریوں کو بھی سخت معاشی بحران سے دو چار کردیا ہے، بھارت میں ایسا ہی ایک خاندان بے روزگار ہونے کی وجہ سے کئی روز تک بھوکا رہا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق علیگڑھ میں ایک بیوہ خاتون اور ان کے بچے کرونا وبا کے بحران سے بے حد متاثر ہوئے، وبا نے اس خاندان کا روزگار چھین لیا اور 8 سے 10 دن تک 6 افراد دانے دانے کو محتاج ہو گئے۔

    بھوک سے تڑپتے خاندان کی اطلاع ایک شخص نے ایک تنظیم کو دی تو ان سب کو اسپتال میں داخل کروایا گیا ہے، بھوک سے یہ خاندان اس قدر نڈھال تھا کہ کئی کا جسم ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہو چکا تھا۔

    تنظیم سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ جب وہ مذکورہ خاندان کے گھر پہنچے تو وہ شدید دکھ میں مبتلا ہوگئے جہاں بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔

    تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر سنیل کا کہنا ہے کہ بچوں کو فوری طور پر اسپتال میں داخل کروایا گیا، تنظیم کی جانب سے خاندان کے لیے کپڑے اور کھانے وغیرہ کا انتظام کیا گیا ہے۔

    بچوں کی بیوہ ماں نے بتایا کہ گھر کی واحد کفیل وہی تھیں اور ایک ایکسپورٹ کمپنی میں ملازمت کرتی تھیں، کرونا کی پہلی لہر میں لگے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کا کام وہاں رک گیا جس کی وجہ سے کنبہ مالی بحران سے دو چار ہونے لگا۔

    ان کے مطابق بڑا بیٹا مزدوری کر کے گھر والوں کا پیٹ پال رہا تھا لیکن دوسرے لاک ڈاؤن میں اس کی ملازمت بھی چلی گئی، روزگار نہ ہونے کی وجہ سے راشن کی قلت تھی۔ انہوں نے بتایا کہ پانچوں بچوں نے 15 دن سے کچھ نہیں کھایا۔

  • ایسے قبائلی جو جدید دنیا سے رابطے پر خفا ہیں، اور وہاں آنے والوں کو قتل کردیتے ہیں

    ایسے قبائلی جو جدید دنیا سے رابطے پر خفا ہیں، اور وہاں آنے والوں کو قتل کردیتے ہیں

    کیا آپ کو معلوم ہے کہ خلیج بنگال میں یعنی دنیا کی گنجان ترین آبادیوں کے عین درمیان میں ایک علاقہ ایسا ہے جہاں تہذیب آج تک نہیں پہنچی اور جہاں جدید دنیا کا شائبہ تک نہیں ہے۔

    آپ نے ضرور جزائر انڈمان کا نام سنا ہوگا وہی جہاں کالا پانی جیسی بدنام زمانہ جیل تھی، جسے برطانیہ سیاسی قیدیوں کو جلا وطن کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ یہ اور ملحقہ جزیرے خلیج بنگال میں ہیں واقع جو برطانیہ سے آزادی کے بعد وراثت میں بھارت کو ملے تھے۔ ان جزائر میں سے ایک جزیرہ شمالی سینٹی نیل ہے۔

    یہاں کے رہنے والے لوگوں کو سینٹی نیلی کہا جاتا ہے اور یہ اس علاقے کے دیگر چھ قبائل میں سے ایک ہے جن میں انڈمانی، جراوا، اونگے، شومپن اور نکوباری شامل ہیں۔ ان میں سے صرف سینٹی نیلی ہی ایسے ہیں، جو باقی دنیا سے بالکل نہیں ملنا چاہتے بلکہ جس نے بھی ایسی کوشش کی ہے، اکثر و بیشتر اسے ان کی جانب سے انتہائی جارحانہ ردعمل دیکھنا پڑا بلکہ کچھ لوگ تو ان کے ہاتھوں مارے بھی گئے ہیں۔

    جزیرے کے لوگ آج اس جدید دور میں بھی گویا پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں، ان کا طرزِ زندگی آج بھی ویسا ہے، جیسا انسان کا آج سے ہزاروں سال پہلے ہوگا۔

    ماہرینِ بشریات خطرہ لاحق ہے کہ ان سے رابطہ کرنے یا میل جول بڑھانے کے نتیجے میں انہیں عام انسانوں کی وہ بیماریاں لگ سکتی ہیں، جن کے خلاف ان کے جسم میں مدافعت نہیں پائی جاتی۔ اس لیے اس جزیرے میں داخل ہونے پر اب پابندی عائد ہے اور اس کے گرد 5 بحری میل کے علاقے میں کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔

    کہنے کو تو یہ جزیرہ بھارت میں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا اور اگر کوئی شخص جزیرے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے مارا جاتا ہے تو بھی حکومت اس قبیلے کے افراد پر کوئی مقدمہ نہیں چلائے گی۔ یہ جزیرہ تقریباً 60 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور یہاں کی آبادی کے بارے میں جو اندازے لگائے گئے ہیں، وہ 100 سے 150 کے درمیان ہے۔

    یہاں کے باسیوں کا گزر بسر شکار پر ہوتا ہے، یہ تیر کمان کا استعمال کر کے مختلف جنگلی حیات کا شکار کرتے ہیں اور سمندر سے مچھلیاں اور کیکڑے بھی پکڑتے ہیں۔ یہ زراعت سے واقف نہیں کیونکہ جزیرے پر کوئی زرعی علاقہ نہیں دیکھا گیا البتہ دھاتوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور دھاتوں کو استعمال کر کے ہتھیار بناتے ہیں۔

    تاریخ میں اس جزیرے کا ذکر پہلی بار 1771 میں ملتا ہے جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک جہاز اس کے قریب سے رات کے وقت گزرا تھا، سنہ 1867 میں ایک ہندوستانی جہاز نینوہ اس جزیرے کے قریب پھنس گیا تھا۔ مسافر اور عملہ بحفاظت ساحل تک پہنچ گیا اور وہاں تیسرے روز مقامی قبائلی افراد نے ان پر تیروں سے حملہ کر دیا۔

    کپتان ایک کشتی کے ذریعے یہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوگیا اور کئی روز بعد اسے دوسرے بحری جہاز نے سمندر سے نکالا، باقی تمام مسافروں کی جزیرے پر موجودگی کی اطلاع ملنے پر برطانوی بحریہ نے یہاں کا رخ کیا اور دیکھا کہ مسافروں نے ڈنڈوں اور پتھروں سے مقابلہ کر کے قبائلیوں کو بھگا دیا تھا اور پھر وہ دوبارہ ان کی طرف نہیں آئے۔

    اس جزیرے پر جانے کی پہلی باقاعدہ کوشش سنہ 1880 میں برطانوی بحریہ کے ایک افسر مورس وڈال پورٹ مین نے کی تھی، انہوں نے چند مسلح اہلکاروں کے ساتھ اس جزیرے پر قدم رکھا اور انہیں آتا دیکھ کر قبائلی گھروں سے بھاگ گئے تھے۔ کئی روز کی تلاش کے بعد انہیں چند گاؤں ملے۔

    انہوں نے مجموعی طور پر 6 قبائلی افراد کو پکڑا جس میں ایک بزرگ جوڑا اور 4 بچے شامل تھے، انہیں جزائر کے مرکزی شہر پورٹ بلیئر لایا گیا جہاں دونوں بزرگ تو بیمار ہونے کے بعد چل بسے۔ بچے مرے تو نہیں لیکن وہ بھیبیمار ضرور پڑ گئے جس پر انہیں جلد بازی میں واپس جزیرے پر لایا گیا اور بہت سے تحفے تحائف کے ساتھ چھوڑ دیا گیا۔

    ماہرین سمجھتے ہیں کہ ان بچوں کی واپسی کے بعد جو امراض مقامی قبائلیوں کو لاحق ہوئے ہوں گے، غالباً انہی کی وجہ سے اس جزیرے کے باسی بیرونی دنیا سے رابطے نہیں رکھنا چاہتے۔

    سنہ 1896 میں ایک قیدی انڈمان جزیرے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا اور ایک کشتی بنا کر اس جزیرے کے ساحل تک پہنچ گیا۔ تلاش کے دوران اس کی لاش اس جزیرے کے ساحل سے ملی تھی، اس کے جسم میں کئی تیر گھسے ہوئے تھے اور گلا کٹا ہوا تھا۔

    بعد میں ان سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، 1974 میں کئی ماہرین نے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے لیے ایک دستاویزی فلم مین ان سرچ آف مین بنانے کے لیے اس جزیرے کا رخ کیا۔ اس دوران تین دن تک قبائلی افراد سے رابطہ کرنے کی کوششیں کی گئیں، یہاں تک کہ ان کی کشتی خراب ہو گئی اور اس حادثے کے کچھ ہی دیر بعد مقامی افراد جنگل سے نکل آئے اور تیروں سے ان پر حملہ کر دیا۔

    ایک تیر ڈائریکٹر کی ٹانگ پر لگا، بہرحال وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس دورے میں سینٹی نیل قبائلیوں کی اولین تصاویر ضرور کھینچی گئیں۔ رگوبھیر سنگھ کی کھینچی گئی تصویریں جولائی 1945 میں نیشنل جیوگرافک میگزین میں شائع ہوئیں۔

    سنہ 2004 کے آخر میں بحرِ ہند میں آنے والے سونامی نے سینٹی نیل جزیرے پر بھی تباہی مچائی۔ بھارت کی افواج نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پورے جزیرے کا جائزہ لیا کہ کہیں قبیلے کو مدد کی ضرورت تو نہیں لیکن ان کا رویہ بہت جارحانہ نظر آیا۔

    اس مہم کے دوران 32 افراد گنے گئے، جو تین مقامات پر پھیلے ہوئے تھے اور لاش کوئی نہیں تھی۔ ان کی ہیلی کاپٹر پر تیر اندازی کے بعد اس مہم کو ختم کر دیا گیا کیونکہ یہ یقین ہو گیا تھا کہ قبائلی بڑی حد تک سونامی کی تباہ کاریوں سے بچ گئے ہیں۔

    جس واقعے نے اس جزیرے اور یہاں کے مقامی باشندوں کو دنیا بھر میں شہرت دی، وہ نومبر 2018 میں پیش آیا جب ایک 26 سالہ امریکی جون ایلن چاؤ مسیحی مذہب کی تبلیغ کے لیے اس جزیرے پر پہنچا تھا۔

    اس کی خواہش تھی کہ وہ ان قبائلی افراد کے ساتھ رہے اور انہیں تہذیب اور مذہب سے روشناس کروائے، کیونکہ جزیرے پر کسی کو جانے کی اجازت نہیں، اس لیے وہ مقامی ماہی گیروں کو پیسے دے کر غیر قانونی طور پر جزیرے پر پہنچا۔

    چاؤ کے خطوط کے مطابق وہ جانتا تھا کہ اسے موت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے اور اس کا دورہ غیر قانونی ہے، لیکن اس کا کہنا تھا کہ یہ جزیرہ شیطان کا آخری گڑھ ہے، جہاں کسی نے کبھی خدا کا نام تک نہیں سنا۔ ان لوگوں کو یہ پیغام پہنچانا ضروری ہے۔ اگر وہ مجھے قتل بھی کر دیں تو مجھ سے ناراض مت ہوں۔ میری لاش نکالنے کی بھی ضرورت نہیں۔

    15 نومبر 2018 کو چاؤ نے جزیرے پر اترنے کی پہلی کوشش کی، اس کی کشتی جیسے ہی جزیرے کے قریب پہنچی، اسے مقامی افراد کے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا جس پر وہ واپس چلے گئے۔

    چاؤ کے خطوط کے مطابق دوسری بار جب وہ وہاں پہنچے تو مقامی افراد نے حیرت، خوشی اور غصے کا ملا جلا رجحان دکھایا۔ اس موقع پر ان کے لیے مذہبی گانے بھی گائے گئے۔ چاؤ کے مطابق یہ لوگ اونچی آواز میں اور اشاروں کے ساتھ بھی بات کرتے۔ آخری خط میں چاؤ نے بتایا کہ میں نے انہیں مچھلیاں تحفے میں دیں تو ایک لڑکے نے مجھے تیر مار جو میری بائبل میں گھس گیا، جو میں نے سینے پر رکھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ واپس آگئے۔

    ایک روز چھوڑ کر 17 نومبر کو چاؤ نے ماہی گیروں سے کہا کہ وہ اسے جزیرے پر چھوڑ دیں، انہوں نے بعد میں دیکھا کہ مقامی افراد اس کی لاش لے جا رہے ہیں اور اگلے روز اس کی لاش ساحل پر پڑی دیکھی گئی۔

    پولیس نے چاؤ کی مدد کرنے پر 7 افراد کو گرفتار کیا کہ وہ اسے جزیرے پر کیوں لے گئے، جبکہ نامعلوم افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج کیا گیا لیکن ان کے خلاف کار وائی نہیں ہوئی۔ خود امریکی حکومت نے کہا کہ وہ بھارتی حکومت پر دباؤ نہیں ڈالے گی کہ وہ قبائلی افراد کے خلاف اقدامات کرے۔ چاؤ کی لاش واپس لینے کی کوششیں بھی روک دی گئیں۔

    بلاشبہ یہاں جدید دنیا کے کچھ نہ کچھ آثار تو اس قبیلے کو نظر آتے ہی ہوں گے، آسمان پر ہوائی جہاز اور سمندر میں بحری جہاز یہاں سے گزرتے ہیں۔ اتنی مہمات جو ان کے جزیرے کی طرف گئی ہیں، ان سے بھی انہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ باہر بھی ایک دنیا ہے جو ان سے مختلف ہے۔ لیکن بیرونی دنیا کے خلاف اتنی مزاحمت غالباً تاریخ میں کسی نے نہیں کی۔