Tag: انڈین سنیما

  • بامقصد تفریح کے قائل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا بھی ذریعہ سمجھتے تھے

    بامقصد تفریح کے قائل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا بھی ذریعہ سمجھتے تھے

    مراٹھی اور ہندی سنیما کی تاریخ میں شانتا رام کا نام ایک ایسے فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر محفوظ ہے جس نے اپنے کام سے ایک عہد کو متأثر کیا۔ وہ تھیٹر سے فلم کی دنیا میں آئے تھے اور ان کی فلمیں‌ ہندوستانی سنیما کا بیش قیمت اثاثہ ہیں۔

    شانتا رام نے 1901ء میں ہندوستان کے شہر کولہا پور کے ایک مراٹھی خاندان میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ ان کا اصل نام شانتا رام راجا رام ونیکدرے تھا۔ شانتا رام 30 اکتوبر 1990ء کو چل بسے تھے۔ انھوں نے تین شادیاں کی تھیں۔ بیس برس کی عمر میں‌ جب وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تو ویملا بائی ان کی پہلی شریکِ حیات تھیں اور شادی کے وقت ان کی عمر 12 برس تھی۔ ان کے بطن سے چار بچّے پیدا ہوئے۔ 1941ء میں وی شانتا رام نے اپنے وقت کی معروف اداکارہ جے شری سے دوسری شادی کرلی اور تین بچّوں کے باپ بنے۔ 1956ء میں سندھیا نامی ایک کام یاب اداکارہ ان کی تیسری بیوی بنی، لیکن وہ بے اولاد رہی۔

    اس فلم ساز اور پروڈیوسر نے بابو راؤ پینٹر کی مہاراشٹر فلم کمپنی میں بحیثیت اسسٹنٹ کام شروع کیا تھا اور بعد فلم سازی اور اداکاری بھی کی، ان کی بنائی ہوئی فلمیں مراٹھی تھیٹر کے زیرِ اثر ہیں۔ یہ 1929ء کی بات ہے جب شانتا رام نے اپنے تین ساتھیوں کی مدد سے اپنے شہر کولہا پور میں پربھات فلم کمپنی شروع کی تھی۔ اس بینر تلے ان کی فلم ایودھیا کا راجا 1931ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ یہ پربھات کمپنی کی پہلی ناطق فلم ہی نہیں ہندوستان کی وہ پہلی فلم بھی تھی جسے دو زبانوں یعنی ہندی اور مراٹھی میں بنایا گیا تھا۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شانتا رام کی اس فلم سے چند روز قبل ہی مراٹھی زبان میں پہلی فلم ریلیز ہوچکی تھی، ورنہ ایودھیا کا راجا ہی مراٹھی زبان کی پہلی فلم کہلاتی۔

    فلم ساز شانتا رام کی پربھات فلم کمپنی نے ایودھیا کا راجا کے بعد اگنی کنگن اور مایا مچھندرا جیسی قابلِ ذکر فلمیں بنائیں۔ ان کی فلمیں‌ سماجی جبر کے خلاف ہوتی تھیں۔ وہ فرسودہ رسم و رواج کو اپنی فلموں میں نشانہ بناتے اور اس میڈیم کے ذریعے انسان دوستی کا پرچار کرتے تھے۔ فلم بینوں کو یہ موضوعات بہت متاثر کرتے تھے۔ شانتا رام فلمی دنیا میں‌ بھی اپنے صبر و تحمل، برداشت اور عدم تشدد کے فلسفہ کے لیے مشہور رہے۔ 1933ء میں ان کی پہلی رنگین فلم ریلیز ہوئی جس کا نام نام سائراندھری (Sairandhri) تھا، مگر باکس آفس پر یہ کام یاب فلم ثابت نہ ہوئی۔ پربھات فلم کمپنی کو مالکان نے کولہا پور سے پونے منتقل کردیا جہاں اس بینر تلے 1936ء‌ میں‌ امرت منتھن اور 1939ء میں‌ امر جیوتی جیسی فلمیں ریلیز کی گئیں جو بہت کام یاب رہیں۔ فلم امرت منتھن نے سلور جوبلی بھی مکمل کی۔ یہ بودھ دور کی کہانی تھی۔ اس کے بعد شانتا رام نے ایک مراٹھی ناول پر مبنی سنجیدہ فلم دنیا نہ مانے کے نام سے بنائی تھی۔ اس فلم کے بعد وہ سماجی موضوعات کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ کہتے ہیں دیو داس جیسی فلم کو انھوں نے اس کی کہانی کے سبب ناپسند کیا تھا اور اسے نوجوانوں میں مایوس کُن جذبات پروان چڑھانے کا موجب کہا تھا۔ وہ خود ترقی پسند خیالات اور امید افزا کہانیاں‌ سنیما کو دینے میں مصروف رہے۔ وہ ایک اختراع کار اور ایسے آرٹسٹوں میں سے تھے جن کی فلموں‌ میں سے سب پہلے ہندوستانی عورت کی زندگی کو بھی نمایاں کیا گیا۔

    1937ء میں شانتا رام نے دنیا نہ مانے کے نام سے فلم بنائی اور 1941ء میں پڑوسی ریلیز کی جس میں انھوں نے مذہبی کشاکش دکھائی تھی۔ اس کے مرکزی کردار دو ایسے ہمسایہ تھے جن میں ایک ہندو اور ایک مسلمان تھا۔ یہ دونوں دوست بھی تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلق نفرت اور پھر دشمنی میں بدل جاتا ہے۔ اس فلم کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ وی شانتا رام نے فلم میں ہندو کا کردار ایک مسلمان اداکار کو سونپا تھا جب کہ مسلمان کا کردار نبھانے کے لیے ایک ہندو اداکار کا انتخاب کیا تھا۔ یہ پربھات فلم کمپنی کے ساتھ ان کی آخری فلم تھی کیوں کہ وی شانتا رام اِسی فلم کی ایک اداکارہ جے شری کی محبّت میں گرفتار ہوگئے تھے اور ان کے کاروباری ساتھیوں کو اس پر سخت اعتراض تھا۔

    وی شانتا رام نے تیسری شادی کے بعد ممبئی منتقل ہوگئے جہاں راج کمل کلامندر (Rajkamal Kalamandir) نامی اسٹوڈیو شروع کیا اور شکنتلا کے نام سے فلم بنائی جو ایک ہٹ فلم تھی۔ اِس کے بعد ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی (Dr. Kotnis Ki Amar Kahani) سنیما کو دی اور یہ بھی ہِٹ ثابت ہوئی۔ یہ دونوں اس زمانے میں امریکہ میں بھی دیکھی گئیں۔ شکنتلا ان کی وہ فلم تھی جس پر لائف میگزین میں آرٹیکل بھی شایع ہوا۔ ان کی بنائی ہوئی متعدد فلموں‌ کو ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا، لیکن پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی زیادہ تر فلمیں مقبول ہوئیں اور آج بھی فلمی ناقدین اور تبصرہ نگار اس دہائی میں شانتا رام کی فلموں کا ذکر کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتے۔

    اس دور کی کام یاب ترین فلم دھیج (جہیز) تھی۔ اس وقت راج کمل اسٹوڈیو کو ایک نئی ہیروئن سندھیا مل گئی تھی جس کے ساتھ 1953ء میں‌ شانتا رام نے فلم تین بتی چار راستہ بنائی تھی جو ہٹ ثابت ہوئی اور پھر اسی اداکارہ کو انھوں‌ نے اپنی رنگین فلم جھنک جھنک پائل باجے میں کام دیا۔ شانتا رام نے 1958ء میں‌ فلم دو آنکھیں بارہ ہاتھ بنائی تھی جو ان کی سب سے یادگار فلم ہے۔ یہ ایک سچّی کہانی پہ مبنی فلم تھی اور اسے سینما کی تاریخ‌ کا ماسٹر پیس قرار دیا جاتا ہے۔

    اس فلم کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ آزادی سے قبل ایک ریاست میں ایک جیلر کو اپنے قید خانے چلانے کی اجازت دی جاتی ہے اور یہ جیلر کئی سنگین جرائم میں‌ ملوث اور پیشہ ور مجرموں کو قید خانے میں‌ رکھ کر ایک ذمہ دار اور مفید شہری بناتا ہے۔ جیلر کا کردار فلم ساز اور پروڈیوسر شانتا رام نے خود ادا کیا تھا۔ ان کو اس فلم پر کئی ایوارڈ دیے گئے جن میں برلن کے فلمی میلے کا گولڈن بیر اور ہالی وڈ پریس ایسوسی ایشن کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    وی شانتا رام کا عروج 1950ء کی دہائی کے بعد ختم ہوتا چلا گیا جس کی ایک وجہ ان کا بدلتے ہوئے رجحانات کا ساتھ نہ دینا اور جدید تقاضوں‌ کو پورا نہ کرنا بھی تھا۔ وہ خود کو بدلتی ہوئی فلم انڈسٹری میں اجنبی محسوس کرنے لگے اور اپنے اصولوں پر سمجھوتا کرنے کو تیّار نہ ہوئے۔ دراصل وی شانتا رام فلم کو سماجی خدمت کا ایک میڈیم سمجھتے تھے اور بامقصد تفریح‌ کے قائل تھے۔

    پچاس کی دہائی میں وی شانتا رام کی جو فلمیں مقبول ہوئی تھیں، آج بھی دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرلیتی ہیں۔ ان کی فلموں کے کئی گیت بھی ہندوستانی سنیما کے سنہرے دور کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔

  • وجینتی مالا: فلمی دنیا کی ایک ساحرہ

    وجینتی مالا: فلمی دنیا کی ایک ساحرہ

    وِجینتی مالا کی آنکھیں بہت بڑی بڑی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے اسے قدرت نے نہیں، جیمنی رائے نے بنایا ہو۔ وہ کسی حد تک کانوں کی طرف کھنچی ہوئی ہیں۔ انھیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ سامنے دیکھتی ہوئی پیچھے بھی دیکھ رہی ہوں گی۔

    ایسی آنکھیں پورے جلال میں آجانے پر کیا ہوتا ہوگا؟ ان میں سے برستا نور میں نے ڈرامائی مناظر میں دیکھا ہے، جہاں ان آنکھوں کی وجہ سے مکالمے لکھنے اور بولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

    مجھے وجینتی مالا کے ساتھ چار فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا ہے: دیوداس، مدھومتی، آس کا پنچھی اور رنگولی میں۔

    ”دیو داس“ میں وجینتی مالا نے ایک طوائف کا رول کیا تھا، جو کسی طرح بھی ہیروئن کا رول نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن جنھوں نے شرت چندر کا ناول ”دیو داس“ پڑھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ چندر مکھی کا رول چھوٹا ہونے کے باوجود اپنے آپ میں اتنا ہی تیکھا ہے کہ اس کی بات ہیروئن ’پارو‘ کو میسّر نہیں آتی۔

    ان دنوں وجینتی مالا مدراس کی ایک دو ہندی فلموں میں کام کرچکی تھی۔ جب وہ ہمارے سامنے آئی، تو ہم اسے ایسی گڑیا سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے، جو چابی دینے سے ہاتھ پانو چلانے لگتی ہے۔ اس کے سامنے ہیروئن کے رول میں مشہور بنگالی اداکارہ سچترا سین تھی، جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اعلا درجے کی فن کار بھی تھی۔ ان ہی دنوں اسے ایک بین الاقوامی ایواڈ بھی ملا تھا۔ اس کے سامنے وجینتی مالا کا ٹکنا بہت مشکل تھا۔ اور پھر اس کے رول میں اتنی گہرائی تھی کہ اس کی تہوں کو پانا کسی ایرے غیرے کے بس کی بات نہ تھی۔

    طوائف چندر مکھی، دیو داس سے اس باعث محبت کرتی ہے کہ وہ پہلا مرد تھا، جس نے اس سے نفرت کی۔ اس نفرت نے چندر مکھی کی ’بری‘ عورت کو سدا کے لیے فنا کر دیا اور وہ اپنا پیشہ چھوڑ کر جسم کی بجائے صرف روح بن گئی۔ وجینتی مالا نے کچھ اداس سی اداؤں اور بہکی بہکی نظروں سے اس بے حد مشکل رول کو بہت عمدہ ڈھنگ سے نبھایا۔ اس کا رقص تفریح کا ذریعہ تھا، تو اس کی اداکاری روح کی غذا تھی۔

    شاید اسی لیے بمل رائے نے وجینتی مالا کو اپنی اگلی فلم ”مدھو متی“ میں ہندی فلموں کے سب سے بڑے اداکار، دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے کے لیے منتخب کیا۔ ”مدھو متی“ میں کئی ایسے منظر آتے ہیں جن میں دلیپ کمار سراسر حسن بن جاتا ہے اور وجینتی مالا خالصتاً محبت۔ وجینتی مالا نے دیکھنے والوں کے سامنے محبت کی وہ تصویر پیش کی کہ وہ اسے پانے کے لیے آئندہ جنموں کی مصیبتیں سہنے کو بھی تیار تھے۔ اگر وہ دوسرے جنموں کا سلسلہ نہ ہوتا، تو میں اس فلم کو کیسے لکھتا؟

    ”آس کا پنچھی“ میں وجینتی مالا کا ایک عام سا رول تھا اور اس کا کینواس بھی، ہیرو کے مقابلے، بہت چھوٹا تھا۔ لیکن رول چھوٹا ہونے کے باوجود وجینتی مالا نے اعلا فن کا ثبوت دیا۔ ”رنگولی“ میں نے خود لکھی اور بنائی تھی۔ تب وجینتی مالا سے میرا براہِ راست واسطہ پڑا، جس میں تلخ تجربے بھی ہوئے اور میٹھے بھی۔ لیکن ایک بات جو وجینتی مالا کے حق میں جا سکتی ہے، وہ یہ کہ ایک بار ”کال شیٹ“ منظور کر لینے کے بعد، دیگر اداکاروں کے مقابلے، وہ اس میں کم ہی ادل بدل کرتی ہے اور سیٹ پر اس کا سلوک بہت اچھا ہوتا ہے۔

    ”رنگولی“ کے آغاز میں، پہلے ہی دن اسے طویل مکالموں پر مبنی ایک ڈرامائی سین دیا گیا تھا۔ ہماراخیال تھا کہ مادری زبان تامل ہونے کی وجہ سے وہ ہندی لب و لہجہ آسانی سے نہ اپنا سکے گی۔ سین ایک روز پہلے، شام کے وقت، اس کے گھر بھیج دیا گیا تھا۔ اگلی صبح جب وہ سیٹ پر آئی تو اسے نہ صرف سین کا ایک ایک لفظ یاد تھا، بلکہ اس کا لہجہ اور ادائیگی بھی دیکھنے لائق تھی۔

    (ہندوستانی فلموں کی معروف اداکارہ پر راجندر سنگھ بیدی کے مضمون سے اقتباسات)

  • الف سے ایکسٹرا

    الف سے ایکسٹرا

    الف سے ایکسٹرا ہوتا ہے اور ہوتی بھی ہے۔ یعنی ایکسٹرا مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی۔

    فلم میں جب کسی گلی محلے یا بازار کا سین دکھایا جاتا ہے تو اس میں چلنے پھرنے والے لوگوں کی اکثریت ایکسٹرا ہوتی ہے۔ وہ پان بیچنے والا ایکسٹرا ہے اور وہ جو دکان پر کھڑا ہو کر "ایک پونا کالا کانڈی” پان کی فرمائش کر رہا ہے وہ بھی ایکسٹرا ہے۔

    بادشاہ کے درباری ایکسٹرا ہوتے ہیں۔ وہ دربان جو لال رنگ کا چوغا پہنے سنہرے رنگ کی موٹھ والی چھتری ہاتھ میں لیے بادشاہ کے آگے چل رہا ہے اور بلند بانگ لہجے میں چلا رہا ہے: "باادب باملاحظہ ہوشیار” وہ بھی ایکسٹرا ہے۔

    کبھی کبھی بادشاہ بھی ایکسٹرا ہوتے ہیں۔ جیسے وہ آج کل اکثر ملکوں میں ہوتے ہیں۔ یعنی سنہری وردی پہنے تخت پر بیٹھے ہیں۔ مگر مجال نہیں کہ اپنی مرضی سے اپنے جوتے کا تسمہ بھی کھول سکیں۔

    مجھے آج کل کے بادشاہوں اور فلم کے ایکسٹرا لوگوں کو دیکھ کر بڑی ہم دردی ہوتی ہے مگر دراصل یہ لوگ کسی ہم دردی کے محتاج نہیں ہیں۔

    فلم کے ایکسٹرا فلمی دنیا میں سب سے کم کماتے ہیں۔ مہینے میں کسی کو پانچ دن تو کسی کو دس دن کام ملتا ہے۔ باقی دن یہ مانگے تانگے سے کس طرح چلاتے ہیں، بھگوان ہی بہتر جانتا ہے مگر پھر بھی یہ فلمی دنیا سے الگ نہیں ہو سکتے۔ کسی قیمت پر الگ نہیں ہو سکتے۔ اگر یقین نہ آئے تو کسی فلمی ایکسٹرا کو جو مہینے میں بڑی مشکل سے پچیس روپے کماتا ہے، پچاس روپے کی دربانی پیش کر کے دیکھ لیجیے۔ وہ ٹھوکر مار دے گا۔ کام کو بھی اور آپ کو بھی۔

    اسے فلمی دنیا میں پانچ دن کام کر کے باقی پچیس دن بھوکا مرنا منظور ہے، مگر وہ کوئی اور کام نہیں کر سکتا۔

    دراصل یہ ایکسٹرا وہ لوگ ہوتے ہیں، جو ہیرو یا ہیروئین بننے کی خواہش میں ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھر چھوڑ کر اپنے ماں باپ، بھائی بہن، خاوند، بیوی بچے سب چھوڑ کر بمبئی چلے آتے ہیں اور بھیڑوں کی طرح ایک سیٹ سے دوسرے سیٹ پر دھکیلے جاتے ہیں۔

    ان میں سے ہر مرد یا عورت کی آنکھوں میں ایک خواب بستا ہے۔ کبھی وہ ہیرو یا ہیروئین بن جائیں گے۔ اور بدقسمتی سے فلمی دنیا میں چند ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کبھی ایک ایکسٹرا دو سال تک ایکسٹرا رہا پھر اچانک ہیرو بن گیا۔ ایک لڑکی جو پانچ سال تک ایکسٹرا رہی اچانک ہیروئین بن گئی۔ اور امپالا میں بیٹھ گئی۔ اس لیے یہ خواب کسی ایکسٹرا کی آنکھوں سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔

    (ممتاز ادیب اور افسانہ نگار کرشن چندر کے مضمون الف سے ایکٹر، ایکٹریس، اشتہار: فلمی قاعدہ سے انتخاب)

  • ایک سیکرٹ ایجنٹ کی کہانی جو مکمل نہیں ہوسکی

    ایک سیکرٹ ایجنٹ کی کہانی جو مکمل نہیں ہوسکی

    ہندوستانی سنیما میں فن کاروں اور دیگر آرٹسٹوں کے مابین چپقلش، رنجشیں، فلم سازوں کے مابین لڑائی جھگڑے اور مختلف معاملات پر مختلف نوعیت کے تنازعات کوئی نئی بات نہیں۔ اسی طرح بھاری بجٹ کے ساتھ فن کاروں سے معاہدہ کرکے معاوضہ طے کرنے اور خوب سوچ بچار کرنے کے بعد کسی فلم کی عکس بندی شروع کرنے والے فلم ساز اچانک ہی کام بھی سمیٹ لیتے ہیں اور اکثر اس کی کوئی وجہ بھی سامنے نہیں لائی جاتی۔

    ہم ایک ایسی ہی فلم کی بات کررہے ہیں جس کی شوٹنگ ہفتے بھر بعد ہی روک دی گئی تھی۔ یہ مشہور ہدایت کار اور اداکار ٹینو آنند کی فلم تھی۔

    1988 میں ٹینو آنند نے اپنی نئی فلم ”شناخت“ کی شوٹنگ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ فلم ساز نے اس کا اعلان کرتے ہوئے اخبار نویسوں کو بتایا کہ اس میں مرکزی کردار بڑے پردے کے مشہور ہیرو امیتابھ بچن اور مقبول ترین اداکارہ مادھوری ڈکشٹ ادا کریں گے۔

    ٹینو آنند نے فلم کی کہانی کے بارے میں بتایا کہ یہ ایک ایسے سیکرٹ ایجنٹ کے گرد گھومتی ہے جو ایک مشن کے دوران اپنی یادداشت کھو بیٹھتا ہے۔ یہ کردار امیتابھ بچن ادا کر رہے تھے۔

    شناخت کی شوٹنگ شروع کر دی گئی اور ایک ہفتے تک یہ سلسلہ جاری رہا، مگر ٹینو آنند نے اچانک مزید کام روک دیا۔

    اس پر سوال کیا گیا تو انھوں نے بتای کہ کسی نے توجہ دلائی ہے کہ یہ فلم گنگا جمنا سرسوتی کا چربہ ہے جو اس دور کی ایک کام یاب ترین فلم تھی۔