Tag: انڈین فلمیں

  • اندو رانی اور سروجنی کی کہانی جنھیں مقروض باپ نے فلم میں کام کرنے کی اجازت دی

    اندو رانی اور سروجنی کی کہانی جنھیں مقروض باپ نے فلم میں کام کرنے کی اجازت دی

    متحدہ ہندوستان میں پہلی بولتی فلم بنانے والے اردشیر ایرانی تھے اور اس کی فلم کا نام تھا عالم آراء۔ یہ مارچ 1931 کی بات ہے اور پھر بمبئی، کلکتہ اور لاہور کے فلمی مراکز میں بولتی فلمیں بنانے کا گویا ایک مقابلہ شروع ہوگیا۔ اس دور میں کئی نئے چہرے بھی پردۂ سیمیں پر جلوہ گر ہوئے اور کام یابیاں سمیٹیں۔ ان میں دو بہنیں اندو رانی اور سروجنی بھی شامل تھیں۔

    اُس دور میں انگریزی کلچر سے متأثر گھرانوں‌ کو چھوڑ کر اکثریت خواہ مسلمان ہوں، ہندو یا سکھ اور عیسائی فلم میں‌ کام کرنے کو معیوب سمجھتے تھے۔ عشرت جہاں اور اس کی بڑی بہن روشن جہاں‌ اسی ہندوستانی معاشرے کا حصّہ تھیں جس میں‌ لڑکوں‌ کا بھی فلمی دنیا میں قدم رکھنا آسان نہیں تھا، اور ان حالات میں عام اور روایتی گھرانوں کی لڑکیاں تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ لیکن ان کی والدہ منور جہاں ایک ایسے گھرانے کی عورت تھیں جہاں انھیں لڑکی ہونے کے باوجود تعلیم بھی دلوائی گئی اور انھوں نے ملازمت بھی کی۔ اس کے باوجود ان کی بیٹیوں کا فلم میں کام کرنا اتنا آسان نہیں‌ تھا۔ یہ اُس وقت ہوا جب والد شیخ امام الدّین کو مالی مشکلات نے گھیر لیا اور وہ مقروض ہوگئے۔ تب وہ اپنی بیٹیوں کو فلم میں کام دلوانے کی غرض سے خود پُونا لے گئے۔

    شیخ صاحب کی سات اولادیں تھیں۔ وہ دہلی کے ایک متوسط گھرانے کے فرد تھے جس میں‌ عشرت جہاں نے 1922ء میں‌ آنکھ کھولی۔ روشن جہاں اس سے بڑی تھی۔ ان دونوں کی والدہ منوّر جہاں ہندوستان کے مشہور حاذق طبیب اور علمی شخصیت حکیم اجمل خان کے اسکول کی اوّلین طالبات میں سے ایک تھیں۔ وہ ایک معالج کی حیثیت سے دو شاہی ریاستوں میں کام کرکے اپنے کنبے کی کفالت کرتی رہیں۔ جب کہ شیخ امام الدّین کو جوا کھیلنے کا شوق منہگا پڑ گیا۔ وہ مقروض ہوگئے تھے۔

    ایک روز انھیں معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی روشن جہاں نے ایک فلم اسٹوڈیو‌ سے خط کتابت کی ہے اور انھیں مثبت جواب ملا ہے۔ ان کی بیٹی روشن جہاں نے فلم میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے سرسوتی فلم اسٹوڈیو کو اپنے مکتوب کے ساتھ اپنی ایک تصویر بھیجی تھی۔ وہاں سے انھیں 300 روپے ماہانہ کی نوکری کی پیشکش کی گئی۔ والد نے پہلے تو اپنی بیٹی کو اس جرأت پر خوب مارا اور بڑی درگت بنائی۔ مگر پھر خیال آیا کہ بیٹیوں کی کمائی سے وہ قرض سے نجات پاسکتے ہیں۔

    وہ عشرت جہاں اور روشن جہاں کے ساتھ پونا پہنچ گئے جہاں فلم ساز ایسے خوب صورت چہروں کی تلاش میں رہتے تھے جو اردو یا ہندی روانی سے بول سکتے تھے۔ ان بہنوں کو دادا صاحب ٹورن کی کمپنی بنام سرسوتی سینیٹون میں کام مل گیا اور عشرت جہاں کو اندو رانی جب کہ اس کی بہن روشن جہاں کو سروجنی کے نام سے بڑے پردے پر متعارف کروایا گیا۔ ان کو حسبِ وعدہ ماہانہ 300 روپے تنخواہ ملنے لگی۔ والد نے کمپنی سے تین ماہ کی پیشگی رقم لی اور دہلی لوٹ گئے۔ اندو رانی اور سروجنی کو اس نئے شہر میں ان کی نانی کا سہارے چھوڑا گیا تھا۔ پونا میں قیام کے دوران ان بہنوں کے ایک فلمی اداکار وسنت راؤ پہلوان کے ساتھ اچھے مراسم ہو گئے۔ وہ اسے ’’چاچا جی‘‘ کہتی تھیں۔

    بطور اداکارہ اندو رانی نے پونا میں‌ رہتے ہوئے سب سے پہلے ساوتری نامی مراٹھی فلم میں ایک چھوٹی بہن کا معمولی کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے یہ مراٹھی فلم فلاپ ہوگئی اور دادا صاحب تورنے کا اسٹوڈیو بند ہوگیا۔ اب ان بہنوں نے بمبئی شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔

    وسنت راؤ پہلوان کے مشورے سے انھوں نے بمبئی میں ایک ہندو کالونی میں فلیٹ کرایہ پر لیا اور یہاں 30 کی دہائی میں اندو رانی نے فدا وطن، پرتیما، بلڈاگ اور انصاف جیسی فلموں میں کام کیا۔ اسی زمانے میں اندو رانی کو ساتھی اداکار پریم ادیب سے محبت ہوگئی۔ لیکن وہ شادی کے لیے اپنے خاندان کی مخالفت مول لینے کی ہمّت نہ کرسکا تو اداکارہ نے اس سے دوری اختیار کرلی۔ بمبئی میں قیام کے دوران کئی پروڈیوسر ان بہنوں کے پاس آئے جن میں وی شانتا رام بھی شامل تھے۔ وی شانتا رام نے اندو رانی کو 300 روپے ماہانہ پر نوکری دینے کو کہا تو اداکارہ نے اپنی بہن یعنی سروجنی اور اپنے چاچا جی کے لیے بھی کام مانگا۔ شانتا رام نے اس کی بہن سروجنی کے لیے تو رضامندی ظاہر کی لیکن وسنت راؤ پہلوان کو قبول نہ کیا۔ اس لیے یہ سلسلہ آگے نہیں‌ بڑھ سکا۔ پہلوان اس کے فوراً بعد بمبئی سے چلے گئے۔ ایک روز نام ور فلم ساز سہراب مودی اور کیکی مودی ان کے گھر آئے۔ سہراب مودی نے اندو رانی اور اس کی بہن سروجنی کو 450 روپے ماہانہ تنخواہ دینے کا وعدہ کیا اور یوں وہ ان کے اسٹوڈیو پہنچ گئیں جس کا نام منروا مووی ٹون تھا۔ ابھی یہ سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ موہن پکچرز کے رمنک لال شاہ اور ان کے دوست نانا بھائی بھٹ نے بھی ان اداکاراؤں سے رابطہ کیا۔ رمنک لال سے معاملہ 500 روپے تنخواہ پر طے پایا اور اس طرح 1938ء سے دونوں بہنیں رمنک لال شاہ کے ساتھ کام کرنے لگیں۔ سروجنی نے لگ بھگ دو درجن فلموں‌ میں کام کیا۔ اس کی چھوٹی بہن اندو رانی نے بھی مرکزی اور سائڈ ہیروئن کے رول بہت عمدگی سے نبھائے۔

    1939ء میں اندو رانی نے رمنک لال شاہ سے خفیہ شادی کرلی تھی۔ وہ 17 برس کی تھی۔ جب کہ سروجنی نے موہن پکچرز کے مرکزی ہدایت کار نانو بھائی وکیل سے شادی کر کے اپنا گھر بسا لیا۔ 1943ء کے بعد ان کا فلمی سفر جیسے تھم گیا تھا۔ 1949ء میں ان کی آخری فلم ریلیز ہوئی اور پھر ان بہنوں کو مزید کام نہیں ملا۔ لیکن جب تک وہ فلموں سے خاصا پیسا بنا چکی تھیں۔

    اندو رانی اور سروجنی نے تین فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا، اور یہ جادوئی کنگن (1940)، حاتم طائی کی بیٹی اور تاج محل تھیں۔ اندو رانی نے اپنے دور کے کئی مشہور ہیروز کے ساتھ کام کیا، جن میں پریم ادیب، جینت، جیون، یعقوب، مبارک، سشیل کمار، یوسف آفندی، نذیر وغیرہ شامل ہیں۔

    رمنک لال شاہ اور اندو رانی دونوں بہت فیاض اور تعاون کرنے والے انسان تھے۔ ان کے چھے بچّے تھے۔ رمنک لال شاہ کا انتقال 1973 میں ہوا۔ اندو رانی امریکا منتقل ہو گئیں اور وہیں اپنے بیٹوں کے ساتھ باقی عمر کاٹ دی۔ اندو رانی 17 فروری 2012 کو انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی تدفین کیلیفورنیا کے ایک قصبے میں کی گئی۔

    (تلخیص و ترجمہ)

  • مزاحیہ اداکار اور مشہور فلمیں

    مزاحیہ اداکار اور مشہور فلمیں

    پاکستان اور ہندوستان کی فلمی دنیا میں کئی اداکار ایسے ہیں جنھوں نے بڑے پردے کے شائقین کو اپنے مخصوص حلیے، لب و لہجے، برجستہ مکالموں اور دل چسپ حرکتوں سے ہنسنے ہنسانے کا خوب موقع دیا اور بطور کامیڈین مشہور ہوئے۔ پاکستانی فلمی صنعت میں اے شاہ، منور ظریف، نذر، لہری، علی اعجاز، نرالا، رنگیلا اور کئی نام لیے جاسکتے ہیں جنھیں سنیما بینوں نے مزاحیہ کرداروں میں بہت پسند کیا۔ اسی طرح ہندوستانی فلموں کے کئی نام بہت مقبول ہوئے۔

    یہ ہندوستانی فلموں کے مزاحیہ اداکاروں سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ پر شایع ہونے تحریر سے چند اقتباسات ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ہندوستانی فلموں کے سو سالہ سفر پر اگر سرسری نظر بھی ڈالیں تو کامیڈی کا میدان انتہائی شوخ، دل چسپ اور سر سبز نظر آتا ہے۔ یہاں ہمیں ہر طرح کی کامیڈی بیک وقت نظر آتی ہے مگر ان میں رومانوی کامیڈی کا ہر دور میں تسلط رہا ہے۔

    ہندوستانی سنیما ایک ایسے سماج کا عکاس ہے جس میں ہر طرح کے ماحول میں تقریبات، تفریحات اور نشاط کا عنصر تلاش کر لیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ ہندوستان میں پہلی فلم بنانے والی شخصیت اور سرکردہ ہدایت کار دادا صاحب پھالکے اور دھیرندر ناتھ گنگولی کی فلموں میں کامیڈی کے عناصر کافی نظر آتے تھے۔ بطور ہدایت کار گانگولی کی پہلی ہی فلم ’لیڈی ٹیچر‘ موضوع کے اعتبار سے ہی ہنسانے کے لیے کافی ہے۔ ان کی چند فلمیں ’دا میرج ٹانک‘، ’چنتا منی‘، ’نائٹ بر‘، ’ایکسکیوز می سر‘، اور ’کارٹو‘ اپنے نام سے ہی مزاحیہ ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔

    کامیڈین گوپ اور یعقوب تو اپنے زمانے میں فلموں کی جان ہوتے تھے۔ گوپ نے فلم ’انسان یا شیطان‘ سے اپنی اداکاری شروع اور دلیپ کمار اور مدھو بالا کی فلم ترانہ میں منفی کردار کو بھی مزاحیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ کراچی میں پیدا ہونے والے گوپ کی فلموں میں ’ہندوستان ہمارا‘، ’پتنگا‘، ’مرزا صاحبان‘ اور ’چوری چوری‘ جیسی مقبول ترین فلم شامل ہے۔

    پہلی گویا فلم ’عالم آرا‘ کے بعد کے زمانے میں نور محمد چارلی اپنی برش جیسی مونچھوں کے ساتھ بھارت کے چارلی چیپلن سمجھے جاتے تھے۔ ان کی مشہور فلموں میں ’پریمی پاگل‘، ’طوفان میل‘، ’کالج گرل‘، ’رات کی رانی‘ اور ’سیکرٹری‘ وغیرہ شامل ہیں۔

    ہندوستانی سنیما میں کامیڈی کی خوبی یہ ہے کہ ہیرو ہیروئن والی اصل کہانی کے ساتھ ساتھ کامیڈینز کی اپنی کہانی بھی متوازی چلتی رہتی ہے۔ ان میں کیریکٹر ایكٹر یا کامیڈین ایسے ہوتے ہیں جو عام طور پر دیکھنے میں ہی عجیب الخلقت ہوتے ہیں۔

    ایسے ہی انتہائی مقبول لوگوں میں سے ایک بدرالدين جمال الدین قاضی یعنی جانی واکر ہیں جنہوں نے گرو دت کی بہت سی فلموں جیسے ’آر پار‘، ’مسٹر اور مسز 55‘ میں کامیڈین کا کردار ادا کیا ہے اسی طرح ’پیاسا‘ اور ’کاغذ کے پھول‘ جیسی سنجیدہ فلموں میں بھی وہ کافی مقبول رہے۔ انھوں نے دلیپ کمار جیسے سنجیدہ اداکار کو کنٹراسٹ پیدا کر کے مزید سنجیدگی عطا کی اور ان پر محمد رفیع جیسے بڑے گلوکار کی آواز میں گیت بھی فلمائے گئے۔

    دیگر مزاحیہ اداکاروں میں آئی ایس جوہر شامل ہیں جو کہ بین الاقوامی فلموں کے کام کرنے والے بھارت کے چند پہلے اداکاروں میں سے ہیں۔ اسی طرح بہت چھوٹے قد کے مقری ہیں جو کہ فلموں میں پٹائی کھانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ محمود، جگدیپ، اسرانی اور کیشٹو مکھرجی کا اپنا ایک دور رہا ہے۔ محمود نے بہت سی فلموں میں لیڈ رول کیا ہے اور ان کی فلموں میں ’پڑوسن‘، ’دو پھول‘، ’جنی اور جانی‘ وغیرہ شامل ہیں۔

    کامیڈینز کے علاوہ اہم اداکاروں نے بھی مزاحیہ کردار نبھانے کی کوشش کی ہے اور ان میں سے ایک راج کپور ہیں جنہوں نے چارلی چیپلن کے ہی انداز میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ انھوں نے ’میرا نام جوکر‘، ’اناڑی‘، جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ جیسی فلمیں کیں۔

    ہندوستانی فلم کی تاریخ میں کشور کمار زبردست صلاحیت کے مالک ہیں وہ اپنے گیتوں میں ہر قسم کے جذبات کو پیش کرنے کی صلاحیت تو رکھتے ہی تھے لیکن جب وہ اداکاری کرتے تھے تو عام طور پر مزاحیہ کردار ادا کر رہے ہوتے تھے۔ ان کی فلمیں چلتی کا نام گاڑی‘ اور ’پڑوسن‘ ہندی سنیما کی چند سب سے مزاحیہ فلموں میں شامل ہیں۔ وہ مختلف قسموں کے ہنسی مذاق، دھونگ، سوانگ، ٹھگی، بھانڈ، سب طرح کے کردار ادا کر سکتے تھے اور اپنی حاضر جوابی اور نغمگی سے لیس مزاح کے لیے کافی مشہور ہوئے۔

    ٹریجڈی کنگ دلیپ کمار نے فلم ’رام اور شیام‘ میں اپنی مزاحیہ اداکاری سے سب کو حیران کر دیا، ان میں یہ جوہر فلم ’آزاد‘، ’گوپی‘، ’کوہ نور‘ میں بھی نظر آتا ہے۔ امیتابھ بچن نے بھی اچھی مزاحیہ اداکاری کی ہے اور ان فلموں میں ’امر اکبر اینتھونی‘، ’مسٹر نٹور لال‘، ’قلی‘، ’نمک ہلال‘، ’ستے پہ ستا‘ وغیرہ شامل ہیں۔

    1990 اور 2000 کی دہائیوں کے سب سے مقبول مزاحیہ اداكاروں میں گوندا آتے ہیں وہ ہر قسم کی تفریح کا سامان بہم پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گووندا کے کردار کو اکثر قادر خان کے مکالموں اور برجستہ جملوں کا سہارا ملتا رہا ہے۔

    آج بہت سارے ایکشن ہيرو بھی کامیڈی کی جانب كام يابی کے ساتھ آئے ہیں ان میں اکشے کمار بھی شامل ہیں۔ سلمان خان کو بنیادی طور پر ایک ایکشن ہیرو کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن 1994 ء میں آنے والی فلم ’انداز اپنا اپنا‘ میں انہوں نے کامیڈی کی ہے۔ ان کی فلموں میں ایكشن، رومانس کے ساتھ ساتھ کامیڈی بھی ہوتی ہے جن میں ’دبنگ‘ شامل ہے اور وہ باکس آفس پر کافی كام ياب ہیں۔ اس کے علاوہ شاہ رخ خان کی زیادہ تر ہٹ فلمیں رومانوی کامیڈی کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں۔

  • مشہور اداکارہ مینا کماری اور مسٹر راز دان

    مشہور اداکارہ مینا کماری اور مسٹر راز دان

    مشہور اداکارہ مینا کماری نے اپنے ایک مضمون میں اردو کے فلمی اخبار نویسوں کے بارے میں اپنے خیالات اور تجربات بڑے دل چسپ انداز میں بیان کیے تھے۔

    ویکلی ’فلم آرٹ‘ دلّی اور ماہنامہ ’شمع‘ کے بمبئی میں مقیم خصوصی نمائندے مسٹر راز دان ایم اے، کے بارے میں اس نے لکھا کہ وہ ایک گھریلو قسم کے شریف انسان ہیں جو دورانِ گفتگو اِس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ بیگانگی کا احساس تک نہیں رہتا، عام فلم جرنلسٹ جن کم زوریوں کا شکار ہیں وہ اُن سے بہت دور ہیں۔

    راز دان صاحب نے مینا کماری سے ہفت روزہ ’فلم آرٹ ‘ کے لیے ایک مضمون لکھنے کی فرمائش کی تو مینا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس عنوان سے، کس نوعیت کا مضمون تحریر کرے۔

    بہرحال اس نے ایک مضمون ’’اور سپنا پورا ہو گیا‘‘ سپردِ قلم کیا اور راز دان کے حوالے کر دیا۔

    مضمون شائع ہوا تو قارئین نے اُسے بہت پسند کیا اور بڑی تعداد میں تعریفی خطوط مینا کماری کے پاس پہنچے جن سے حوصلہ پا کر اُس نے بعد میں اردو میں کئی مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں اشاعت کی غرض سے بھیجے۔

    (وشو ناتھ طاؤس کے قلم سے)

  • فلم ڈائریکٹر نے مشہور اداکار راج کپور کو تھپڑ کیوں مارا؟

    فلم ڈائریکٹر نے مشہور اداکار راج کپور کو تھپڑ کیوں مارا؟

    ’بامبے ٹاکیز‘ نے بیسویں صدی کے 30 ویں عشرے میں ہندوستان کے فلم سازوں اور شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اس بینر تلے بننے والی فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ اسی فلم اسٹوڈیو سے دلیپ کمار، مدھوبالا، راج کپور، دیوآنند جیسے فن کاروں کی شہرت کا سفر بھی شروع ہوا۔

    ہندوستانی سنیما کے مشہور اداکار راج کپور نے اسی اسٹوڈیو میں ڈانٹ سنی اور انھیں ایک روز تھپڑ بھی پڑا۔

    فلم ’جوار بھاٹا‘ کی شوٹنگ کی جارہی تھی جس میں راج کپور کا بھی ایک کردار تھا۔ فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کیدار شرما تھے۔

    ایک سین کی عکس بندی کے لیے جب وہ شوٹنگ شروع کرنے کو کہتے تو راج کپور کیمرے کے سامنے آتے اور اپنے بال ٹھیک کرنے لگتے۔ ایسا دو تین بار ہوا اور جب بار بار راج کپور نے یہی حرکت کی تو کیدار شرما برداشت نہ کرسکے اور آگے بڑھ کر انھیں ایک تھپڑ لگا دیا۔

    ڈائریکٹر کی جھڑکیاں اور وہ تھپڑ راج کپور کے کام آیا اور ہندی سنیما کے شائقین نے انھیں بے حد سراہا اور ان کے کام کو پسند کیا، بعد کے برسوں میں راج کپور اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے باکمال فن کاروں کی صف میں‌ کھڑے ہوئے اور ان کی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔

    (ہندوستانی سنیما سے متعلق راج نارائن کی یادداشتوں سے ایک ورق)