Tag: انگریز

  • جب سرسیّد نے انگریز مسافر سے چندہ طلب کیا!

    جب سرسیّد نے انگریز مسافر سے چندہ طلب کیا!

    شمسُ العلما مولانا نذیر احمد کی نسبت ایک ناواقف آدمی نے ان (سرسیّد) کے سامنے گویا شکایت کرتے ہوئے کہا کہ باوجود مقدور ہونے کے انہوں نے قومی تعلیم میں کچھ مدد نہیں دی۔

    سر سید نے بدمزہ ہو کر ان کے چندوں کی تفصیل بیان کی جو وہ ابتدا سے مدرسے کو دیتے رہے اور جو مقبولیت اور رونق ان کے لیکچروں سے ایجوکیشنل کانفرنس کو ہوئی، اس کا ذکر کر کے کہا۔ یہ شخص ہماری قوم کے لیے باعثِ فخر ہے، اس کی نسبت پھر ایسا لفظ زبان سے نہ نکالنا۔

    الطاف حسین حالی نے اپنی کتاب میں علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کی کوششوں کے حوالے سے ایک اور واقعہ رقم کیا ہے۔

    دوستوں کے علاوہ اجنبی اور انجان آدمی، جن سے کچھ وصولی کی امید ہوتی تھی، شاید پہلی ایک آدھ ملاقات میں ان کی باری نہ آتی ہو، ورنہ اکثر صاحبِ سلامت ہوتے ہی سوال ڈالا جاتا تھا اور اس میں کچھ مسلمان ہونے ہی کی تخصیص نہ تھی، بلکہ انگریزوں سے بھی بعض اوقات یہی برتاؤ ہوتا تھا۔

    ایک بار سر سید نے ایک اجنبی مسافر انگریز سے، جو ڈاک بنگلہ میں ٹھہرا تھا، چندہ طلب کیا۔ اس نے بہت روکھے پن سے جواب دیا۔ آپ کو اس کام کے لیے صرف اپنی قوم سے مانگنا چاہیے۔ سر سید نے کہا۔
    بے شک ہمیں قوم کی پست ہمتی سے غیروں کے سامنے ہاتھ پسارنا پڑتا ہے، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ اگر یہ انسٹیٹیوشن بغیر انگریزوں کی اعانت کے قائم ہو گیا تو ان کے لیے اس سے زیادہ ذلت کی بات نہ ہو گی کہ ہندوستان کی حکومت سے بے انتہا فائدہ اٹھاتے ہیں، مگر ہندوستانیوں کی بھلائی کے کاموں میں مطلق شریک نہیں ہوتے۔
    وہ انگریز یہ سن کر شرمندہ ہوا اور بیس روپے سر سیّد کو بطور چندہ دے دیا۔

  • جرمن نواب کا انگریزوں‌ سے انوکھا انتقام

    جرمن نواب کا انگریزوں‌ سے انوکھا انتقام

    جرمن ہمیشہ سے ایک خاص احساسِ برتری میں مبتلا رہے ہیں۔ انھیں اقوامِ عالم میں خود پر سب سے زیادہ فخر کرنے والی قوم سمجھا جاتا ہے جس کی مختلف وجوہ اور اسباب ہیں۔ تاہم جو واقعہ آپ پڑھنے جارہے ہیں، اس سے کم از کم یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ جرمن ذہین ہوتے ہیں۔

    یہ کئی دہائیوں پہلے کی بات ہے جب ڈربن کے نواح میں ایک نئی بستی تعمیر کی جارہی تھی۔ علاقے کا ایک نواب یہاں بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی زمین کا مالک تھا۔ وہ جرمن باشندہ تھا جب کہ اس علاقے میں انگریز خاصی تعداد میں بستے تھے۔ بستی کی تعمیر کے ساتھ اس کی مختلف گلیوں اور سڑکوں کا نام بھی رکھنا تھا۔

    یہ اختیار نواب کو دیا گیا۔ اس شخص نے جرمن زبان میں پیچیدہ نام رکھنے شروع کر دیے۔ اس پر متعلقہ افراد نے سمجھایا کہ یہ انگریزوں کی آبادی ہے، اس لیے ان کی خوشی کو مقدم رکھنا چاہیے۔ لوگوں کا کہنا تھاکہ انگریزی نام زیادہ مناسب رہیں گے۔ نواب نے کچھ دن کی مہلت طلب کی اور پھر نئے ناموں کی ایک فہرست سب کے سامنے رکھ دی۔ سبھی خوش ہوگئے کیوں کہ یہ سب حقیقی انگریزی نام تھے۔

    کئی سال بعد بستی کے ایک مکین کو سڑکوں کے ناموں سے کچھ شناسائی کا احساس ہوا۔ اس کے جذبۂ تجسس نے اسے تحقیق پر اُکسایا۔ تب یہ عقدہ کھلا کہ اس جرمن نواب نے بیش تر سڑکوں کو برطانوی بحریہ کے ان جنگی جہازوں کا نام دیا گیا تھا جنھیں دوسری جنگِ عظیم میں جرمنوں نے غرق کیا تھا۔

  • ٹیپو سلطان کا یومِ پیدائش: اس مجاہد کی سونے کی انگوٹھی اور تلوار کہاں ہے؟

    ٹیپو سلطان کا یومِ پیدائش: اس مجاہد کی سونے کی انگوٹھی اور تلوار کہاں ہے؟

    ریاست میسور کے حکم راں سلطان فتح علی کو ٹیپو سلطان کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    ٹیپو سلطان ہندوستان کی جنگِ آزادی کے عظیم مجاہد اور انگریزوں کے بڑے مخالفین میں سے ایک تھے۔ فنونِ سپہ گری میں ماہر ٹیپو سلطان کو ایک مدبر اور بہترین منتظم بھی کہا جاتا ہے جس نے اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق پر توجہ دی اور اپنی فوج کے ساتھ ہر محاذ پر انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ اس حکم راں کے نوادر اور اس کے زیرِ استعمال اشیا سے متعلق معلومات آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔

    اس حکم راں کی ریاست دنیا بھر میں سلطنتِ خداداد کے نام سے پہچانی جاتی تھی جس کی نشانی شیر تھا۔
    ٹیپو سلطان کا یہ قول مشہور ہے؛ ‘‘شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔’’
    ٹیپو سلطان کی ہر تلوار کا دستہ بیش قیمت جواہر سے مرصع ہوتا تھا۔
    2015 میں شہید ٹیپو کی ایسی ہی ایک تلوار 21 کروڑ روپے میں نیلام ہوئی۔ اس تلوار پر شیر بھی بنا ہوا ہے۔
    میسور کے اس فرماں روا اور مجاہد کی خالص سونے سے تیار کی گئی ایک انگوٹھی 2014 میں نیلام کی گئی۔

    یہ انگوٹھی 41 گرام وزنی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیپو کی شہادت کے بعد اسے ایک انگریز فوجی افسر نے انگلی سے اتار لیا تھا۔
    دل چسپ بات یہ ہے کہ انگوٹھی ایک لاکھ 45 ہزار پاؤنڈ پر نیلام ہوئی اور یہ بولی ماہرین کی توقع سے دس گنا زائد تھی۔
    لندن کے ایک میوزیم میں ٹیپو کا اسلحہ بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ اس میں وہ راکٹ شامل ہیں جو انگریزوں پر حملے میں استعمال ہوئے۔ اس کے علاوہ بندوقیں اور ایک توپ بھی میوزیم کے عجائبات میں شامل ہے۔