Tag: انگریزی ادب

  • ایملی ڈکنسن: موت کے بعد شہرت اور مقبولیت پانے والی شاعرہ

    ایملی ڈکنسن: موت کے بعد شہرت اور مقبولیت پانے والی شاعرہ

    ایملی ڈکنسن کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ انیسویں میں اس شاعرہ نے جس طرح موضوعات کے برتاؤ کے ساتھ ہیئت کے تجربات کیے وہ اس کی شاعری کو اگلی صدی کی شاعری بناتی ہے۔ ایملی ڈکنسن کی نظموں‌ میں یاسیت کا گہرا رنگ نظر آتا ہے جب کہ وہ خود بھی تنہائی پسند اور اپنی ذات میں گم رہنے والی لڑکی تھی۔

    امریکہ کی اس عظیم شاعرہ کو مقامی لوگ اس کی خلوت پسندی اور عام میل جول نہ رکھنے کی وجہ سے سنکی عورت کہتے تھے۔ بظاہر ایملی کی تنہائی پسندی غیرمعمولی یا پریشان کُن تو نہیں‌ تھی، لیکن وہ اپنے پڑوسیوں یا رشتے داروں سے بھی بات چیت نہیں کرتی تھی بلکہ ان کا سامنا کرنے سے کتراتی تھی۔ ایملی ڈکنسن جواں عمری میں موت کو اپنے اور دوسرے انسانوں کے لیے ایک بڑا عفریت تصوّر کرنے لگی تھی۔ اس کی یہ ذہنی حالت دوسروں پر اُس وقت کھلی جب ایک قریبی عزیز کی موت کے بعد انھوں نے ایملی کو شدید صدمے سے دوچار پایا۔

    ایملی ڈکنسن کی شاعری نے اس کے عہد ہی نہیں، اگلی صدی میں‌ بھی اس کے قارئین کے ذہنوں پر اپنا اثر چھوڑا۔ لیکن ایملی ڈکنسن کی شہرت اور دنیا بھر میں پہچان کا سفر اس کی موت کے بعد شروع ہوا۔ 10 دسمبر 1830ء میں ایملی ڈکنسن امریکی ریاست میساچوسسٹس کے شہر ایمہرسٹ میں‌ پیدا ہوئی تھی۔ اس کے والد ڈیوڈ ڈکنسن پیشے کے اعتبار سے وکیل اور ایمہرسٹ کالج کے ٹرسٹی تھے، اور شہر کی نمایاں شخصیت تھے اگرچہ یہ خاندان مالی طور پر مستحکم نہیں تھا، اس کے باوجود اس کے والد اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہوئے انھیں کارآمد اور مفید شہری بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ وہ ایک مہذّب اور اصولوں کی پاس داری کرنے والے انسان تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی ایملی ڈکنسن کو پرائمری کی تعلیم کے لیے قریبی اسکول میں داخل کروایا اور بعد میں اسے ایمہرسٹ کی اکیڈمی میں بھیجا جہاں 7 برس کے دوران ایملی ڈکنسن نے دیگر مضامین کے ساتھ کلاسیکی ادب بھی پڑھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی اور پیانو بجانے میں‌ دل چسپی لینے لگی تھی جب کہ ایک طالبہ کی حیثیت سے ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ شاعری کی جانب متوجہ ہوئی اور نظمیں لکھنے لگی مگر ایک عرصہ تک اس کے قریبی لوگ بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک تخلیق کار ہے۔ ایملی ڈکنسن کو مکتوب نگاری کا بھی شوق تھا اور شاید یہ سب لکھنے لکھانے میں دل چسپی اور قلم سے محبت کی وجہ سے تھا۔ بہرحال، اس نے قلمی دوستیاں کیں اور خط کتابت کے ذریعے علمی و ادبی شخصیات سے رابطہ رکھا۔ اس کے باوجود زندگی میں ایملی ڈکنسن کو بطور شاعرہ بہت کم لوگ جان سکے۔ 1850ء کے اواخر میں سموئیل بولس نامی ایک صحافی اور جریدے کے مدیر سے اس کا رابطہ ہوا اور اس طرح ایملی ڈکنسن کی چند نظمیں قارئین تک پہنچیں جس نے ایملی ڈکنسن کو خوشی اور حوصلہ دیا۔ بعد میں سموئیل اپنی اہلیہ کے ساتھ ایملی ڈکنسن سے ملنے کئی مرتبہ اس کے گھر بھی آیا۔ ایملی ڈکنسن نے اسے تین درجن سے زائد خطوط بھی لکھے تھے اور لگ بھگ پچاس نظمیں‌ ارسال کی تھیں۔ ایملی ڈکسنن کی متعدد نظمیں بھی اس دور کے چند ادبی پرچوں کی زینت بنی تھیں، تاہم ان کی تعداد قابلِ‌ ذکر نہیں‌۔ 15 مئی 1886ء میں ایملی ڈکنسن کا انتقال ہوگیا اور تب اس کی بہن نے نظموں کو اکٹھا کر کے کتابی شکل میں شایع کروایا تو ایملی ڈکنسن امریکہ بھر میں پہچانی گئی۔ یہ 1890 کی بات ہے۔

    ایملی ڈکنسن کی اکثر نظمیں موت اور ابدیت کے موضوع پر ہیں جب کہ اپنے ارسال کردہ خطوط میں ان موضوعات کے علاوہ ایملی ڈکنسن نے جمالیات، فطرت، روحانیت اور سماجی معاملات پر اظہارِ‌ خیال کیا ہے۔

    ایملی ڈکنسن نے شادی نہیں‌ کی تھی۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس شہرۂ آفاق امریکی شاعرہ کی صرف ایک ہی تصویر دست یاب تھی جو کئی سال تک ادبی رسائل میں اس شاعرہ سے متعلق مضامین کے ساتھ شایع ہوتی رہی، لیکن 1995ء میں‌ کہیں نیلامی کے دوران ایک تصویر میں‌ کسی مداح نے ایملی ڈکنسن کو پہچان کر وہ تصویر خرید لی۔ لیکن دس سال تک اسے منظرِ عام پر نہیں لایا۔ بعد میں‌ تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ ایملی ڈکنسن ہی کی تصویر ہے جس میں وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ موجود ہے۔ یہ تصویر اس وقت بنائی گئی جب ایملی ڈکنسن 17 برس کی تھی۔ یوں اب امریکہ میں انگریزی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ کہلانے والی ایملی ڈکنسن دو تصویریں دست یاب ہیں۔ دوسری تصویر 1859ء میں کھینچی گئی تھی۔

  • وہ مقبول ناول جو افغانستان میں جنگ کے پس منظر میں‌ لکھے گئے

    وہ مقبول ناول جو افغانستان میں جنگ کے پس منظر میں‌ لکھے گئے

    دنیا کی مختلف زبانوں اور بالخصوص انگریزی زبان میں افسانوی اور غیرافسانوی ادب پر مبنی کتابوں میں افغانستان بھی موضوع بنا ہے۔

    بدقسمتی سے افغانستان قبائلی تنازعات، خانہ جنگی کے علاوہ پچھلی صدی میں روس اور رواں صدی کی دونوں دہائیوں میں امریکا اور اس کے اتحادیوں سے جنگ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور بربادی دیکھتا آرہا ہے۔ اب طالبان کی حکم رانی میں افغانستان کو عالمی سطح پر کئی پابندیوں اور ملک کے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ انگریزی ادب میں افغانستان کے پس منظر میں ایک صدی سے زائد عرصہ پہلے بھی تخلیقات سامنے آتی رہی ہیں اور آج بھی ناول نگار افغانستان کو موضوع بنارہے ہیں۔

    ہم اگر دیکھیں تو ‘اے اسٹڈی ان اسکارلیٹ’ ایک اچھی مثال ہے اس موضوع پر ناول نگاری کی، جو سنہ 1887 میں شایع ہوا تھا۔ ‘اے اسٹڈی ان اسکارلیٹ’ وہ ناول تھا جس میں پہلی بار مشہور سراغ رساں کردار شرلاک ہومز کی افغان جنگ سے لوٹنے والے ڈاکٹر جان واٹسن سے ملاقات دکھائی گئی۔ ڈاکٹر واٹسن دوسری افغان جنگ کے بعد حال ہی میں افغانستان سے واپس آئے تھے۔ اسی کردار کی زبانی مصنّف سر آرتھر کونن ڈوئل نے متعدد کہانیاں اور ناولوں کو واقعات کی مالا سے مکمل کیا تھا۔ افغانستان کے پس منظر میں انگریزی ادب کو رڈیارڈ کپلنگ سے لے کر جان ماسٹرز اور پھر خالد حسینی تک کئی ناول نگاروں نے کہانیاں دی ہیں‌ جو مقبول بھی ہوئیں۔

    اب ان ناولوں کی طرف چلتے ہیں جن کی کہانیاں افغانستان کے گرد گھومتی ہیں اور انھیں قارئین نے پسند بھی کیا۔

    رڈیارڈ کپلنگ کا ناول دی مین ہو وڈ بی کنگ سنہ 1888 میں شائع ہوا تھا جس کی کہانی دو انگریز باشندوں‌ کے گرد گھومتی ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے اور یہاں‌ کی معاشرت سے ایک ہندوستانی کی طرح خوب واقف تھے۔ ان کے ناول کے یہ دونوں کردار افغانستان میں واقع کافرستان نامی علاقے میں پہنچ کر وہاں کا بادشاہ بننے کی ٹھان لیتے ہیں۔ یہ انگریز باشندے اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کامیابی کی ایک بڑی وجہ مقامی افراد کا ان کے مادّی اسباب، ان کی بندوقوں اور دنیا کے بارے میں ان دونوں کی معلومات سے متاثر ہونا تھا۔ وہ دونوں ایک پسماندہ اور ناخواندہ معاشرے میں لوگوں کو اپنی باتوں سے آسانی سے بیوقوف بنا لیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ان دونوں کو ‘خدا’ تسلیم کر لیتے ہیں۔ لیکن ایک معمولی غلطی ان سے یہ بادشاہت اور ان کا مقام و مرتبہ چھین لیتی ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ نے 1901 میں ‘کِم’ نامی ناول بھی دوسری افغان جنگ کے پس منظر میں لکھا تھا، لیکن اس کے واقعات ہندوستان میں پیش آئے تھے۔

    دی لوٹس اینڈ دی ونڈ برطانوی ناول نگار جان ماسٹرز کا 1953 میں شائع ہونے والا ناول ہے۔ یہ ناول ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتا ہے جو ایک انجان افغان کے قتل کی چشم دید گواہ ہے اور جس کی کڑیاں ‘دی گریٹ گیم’ جو کہ برطانیہ اور روس میں متعدد جنگوں کی وجہ بنا، اس سے ملتی ہیں۔مصنّف نے اس ناول میں این نامی لڑکی کی ملاقات برطانوی فوجی روبن سیوج سے دکھائی ہے جس کی تعیناتی افغانستان میں ہوئی ہے لیکن اسے جنگ سے کوئی خاص دل چسپی نہیں ہے۔ یہ ناول ایک افسوس ناک واقعے کے بعد دو زندگیوں کے متاثر ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔

    سنہ 1978 میں دی فار پویلینز قارئین تک پہنچا جس کی برطانوی مصنّف ایم ایم تھیں‌۔ وہ ہندوستان میں پیدا ہوئی تھیں اور دس برس تک اسی معاشرے کا حصّہ رہیں۔ ان کے ناول کی کہانی میں مرکزی کردار ایشٹن نامی نوجوان ہے جو اپنے انگریز والدین کی موت اور 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد مقامی شناخت اور نام کے ساتھ یعنی اشوک بن کر اپنی آیا سیتا کے ساتھ رہنے لگتا ہے۔ ناول میں ایک ہندوستانی شہزادی کا کردار ہے۔ اس انگریز لڑکے کو شہزادی سے محبّت ہو جاتی ہے۔ پہلے وہ اس کے گھر میں نوکر ہوتا ہے اور پھر ایک انگریز بن کر شہزادی کا دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔

    لڑکا جو اپنے انگریز ہونے سے لاعلم ہوتا ہے جب اس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ ہندوستانی نہیں بلکہ انگریز ہے، تب وہ اپنی شناخت کی تلاش میں کبھی افغانستان، کبھی انگلستان اور کبھی ہندوستان میں جا نکلتا ہے۔ یہ واقعات اس ناول میں دل چسپی اور قارئین کا تجسس بڑھاتے ہیں۔ ایشٹن کو افغانستان میں دو حصّوں میں وقت گزارتے دکھایا گیا ہے۔اسے دوسری افغان جنگ سے قبل انگریز فوج کے لیے بطور جاسوس افغانستان بھیجا جاتا ہے۔

    ٹو اسٹیپس فرام ہیون روسی ناول نگار اور پینٹر میخائل ایوسٹافیوو کا ناول ہے جس میں روس اور افغانستان کی جنگ کی منظر کشی کی گئی ہے۔ یہ ناول 1997 میں شائع ہوا تھا اور اس کی کہانی 80 کی دہائی کی اس جنگ کے گرد گھومتی ہے جس مجاہدین اور روسی فوج آمنے سامنے تھیں اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔

  • انسان اور شیطان سے مکالمہ کرنے والا جان ملٹن

    انگریزی ادب میں جان ملٹن کو ان کی شاعری کی وجہ سے بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہوا۔ نقاد کہتے ہیں کہ دنیا کے دس بڑے شعرا کی فہرست ملٹن کے نام کے بغیر نامکمل سمجھی جائے گی۔

    ملٹن نے جس فضا میں پرورش پائی وہ علمی اور فنی شوق اور تہذیبی نفاستوں کی فضا تھی جو حق پرستی اور حریّت پسندی کے جذبے سے بھی معمور تھی۔ گھر کے ماحول نے جان ملٹن کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں‌ بڑا کردار ادا کیا، ملنٹن نے ایک مثبت اور نہایت تعمیری فضا میں پرورش پائی۔ اس کے والد کو لوگ ایک راست گو، دیانت دار اور نہایت سمجھ دار شخص مانتے تھے اور والدہ کی شہرت ایک سخی اور دردمند عورت کے طور پر تھی۔ اپنے علم و ادب اور شعور و آگاہی کے سفر کی بابت خود ملٹن کا کہنا تھا کہ یہ سب اس کے باپ کی بدولت ممکن ہوا جس نے اس کے رجحان اور صلاحیتوں کو پہچان کر نہ صرف اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی بلکہ اسے ہر سہولت بھی فراہم کی۔

    جان ملٹن نے لکھا کہ مجھے علم کا ایسا ہوکا تھا کہ بارہ سال کی عمر سے میں مشکل ہی سے کبھی آدھی رات سے پہلے مطالعہ چھوڑ کر بستر پر گیا ہوں گا۔

    انگریزی ادب کا یہ نام ور شاعر عمر کے ایک حصّے میں‌ اپنی بینائی سے محروم ہوگیا تھا۔ اس بابت وہ لکھتا ہے کہ شروع ہی سے میری آنکھیں‌ کم زور تھیں اور میں اکثر دردِ سَر میں‌ مبتلا رہتا تھا، لیکن اس کے باوجود میں نے ہرگز مطالعے کا شوق، تحقیق کی لگن اور غور و فکر کی عادت کو ترک نہیں کیا۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں ملٹن اپنی علمی فضیلت، وسعتِ مطالعہ اور اچھوتے خیالات کی وجہ سے ہم جماعتوں‌ میں‌ نمایاں‌ رہا۔ کالج کے دور مین ملٹن کو خجان دا اور مذہب سے متعلق اپنے خیالات، عقائد اور بعض نظریات کی وجہ سے ناپسندیدگی کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن اس نے اپنا سفر جاری رکھا اور ڈگری لینے میں کام یاب رہا۔ اس وقت تک وہ شاعری کا سلسلہ شروع کرچکا تھا جب کہ متعدد زبانوں پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔

    جان ملٹن کو اس کے افکار اور شاعری نے انگریزی ادب میں لازوال شہرت دی اور وہ انگلستان بھر میں‌ سترھویں صدی کا نمایاں شاعر بنا۔ اس کی نظم "فردوسِ گم گشتہ” اور "فردوسِ باز یافتہ” دنیا بھر میں مقبول ہیں اور متعدد زبانوں میں ان کے تراجم کیے جاچکے ہیں جن میں اردو بھی شامل ہے۔ ملٹن کی یہ رزمیہ شاعری انگریزی ادب کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔ اس نظم میں ملٹن انسان کی نافرمانی اور جنت سے نکالے جانے کا احوال بیان کرتا ہے۔ اس نظم میں اس نے خدا، انسان اور شیطان سے مکالمہ کیا ہے۔

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی ملٹن کی نظم فردوسِ گم گشتہ سے بے حد متاثر تھے اور انھوں نے اسی طرز پر رزمیہ نظم لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس بابت وہ اپنے ایک مکتوب بنام منشی سراج الدین میں لکھتے ہیں کہ: ‘‘ملٹن کی تقلید میں لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے۔ اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔ پانچ چھے سال سے اس آرزو کی دل میں پرورش کر رہا ہوں، مگر جتنی خوہش آج کل محسوس کر رہا ہوں اس قدر کبھی نہ ہوئی۔ مگر روزگار سے نجات ملتی ہے تو اس کام کو باقاعدہ شروع کروں گا۔’’

    جان ملٹن 9 دسمبر 1608ء کو لندن میں پیدا ہوا تھا۔ وہ انگریزی اور لاطینی زبانوں کا ماہر تھا۔ ذخیرۂ الفاظ سے مالا مال جس کا شاعری میں مخصوص طرزِ بیان، جذبات اور اچھوتے خیالات کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ سترھویں صدی کی غنائیہ نظموں میں شاید ہی کسی نے ایسا انگریزی ادب تخلیق کیا ہو۔ اُس نے شیکسپیئر کی رومانی مثنوی، ڈرامائی عناصر اور طنز و مزاح کا گہرا مطالعہ کیا اور وہ ادبی ماحول پیدا کیا جو اسی سے منسوب ہے۔

    ملٹن کی 1646ء میں جب کتاب شائع ہوئی تو وہ 38 سال کا تھا۔ کئی جلدوں پر مشتمل اپنی رزمیہ شاعری میں ملٹن نے قدیم داستانوں، روایت اور مافوق الفطرت کے کارناموں کا جو تذکرہ ہے، اس میں مذہبی عقائد اور روزِ ازل سے متعلق تصورات کو اس نے موثر اور دل کش پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ملٹن نے انگریزی کے علاوہ لاطینی زبان میں بھی نظمیں تخلیق کیں۔

    وہ ایک مصلح اور سیاست کار بھی تھا جس نے مختلف اصولوں، ضابطوں کو نام نہاد اور فرسودہ قرار دیتے ہوئے فرد کی آزادی کو سلب کرنے والے قوانین کے خلاف بھی لکھا۔ اس نے نثر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بیک وقت مذہبی اور سیاسی انقلابات پر لکھا۔

    جان ملٹن نے 1674 میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

  • جیفری چاسر اور ‘پکچر گیلری’ کا تذکرہ

    جیفری چاسر اور ‘پکچر گیلری’ کا تذکرہ

    جیفری چاسر کو انگریزی زبان کا پہلا شاعر تصور کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے عہد کی ممتاز برطانوی شخصیات میں سے ایک تھا۔ انگلستان میں ادب، سیاست اور سماج میں چاسر نے اپنی لیاقت اور فن کی بدولت بڑا مقام و مرتبہ پایا۔

    چاسر کے حالاتِ زندگی اور اس کی شخصیت کے بارے میں بہت کم معلومات دست یاب ہیں۔ مؤرخین نے اس کا سنہ پیدائش 1340ء لکھا ہے۔ چاسر کا انتقال 25 اکتوبر 1400ء میں ہوا تھا۔ یہ تاریخِ‌ وفات جیفری چاسر کے مدفن پر نصب کتبہ پر پڑھی جاسکتی ہے۔ جیفری چاسر کو فادر آف انگلش پوئٹری بھی کہا جاتا ہے۔

    جیفری چاسر جہاں اپنی متاثر کن شاعری کی وجہ سے ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوا، وہیں اپنی قابلیت کی بنیاد پر شاہی دربار میں بھی جگہ بنائی۔ اس دور کی بعض کتابیں اور مختلف تذکروں سے جیفری چاسر کے بارے میں جو خاکہ بن سکا ہے وہ اسے ایک معمولی تاجر کا بیٹا ثابت کرتے ہیں۔ یہ 1349ء کی بات ہے جب برطانیہ میں طاعون کی وبا پھیلی اور چاسر کا قریبی عزیز اس کا نوالہ بنا۔ اس کا فائدہ چاسر کے باپ کو پہنچا اور اسے ترکہ میں خاصی جائیداد یا پھر بڑی رقم مل گئی اور یوں یہ خاندان بیٹھے بٹھائے امیر ہوگیا، اسی دولت نے نوعمر چاسر کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ وہ ایک قابل اور ذہین لڑکا ثابت ہوا اور اپنے باپ کی طرح خرید و فروخت کے جھیملے میں‌‌ پڑ کر معمولی منافع حاصل کرنے کے بجائے سرکاری نوکری اختیار کرنے کو ترجیح دی اور ایک روز شاہی دربار تک پہنچنے میں کام یاب ہوگیا۔ اب چاسر درباری ملازم تھا۔ جیفری چاسر اپنی ذہانت اور لیاقت کے بل بوتے پر دربار میں نمایاں ہوتا گیا اور ترقی کرتے ہوئے شاہ ایڈورڈ سوم کے عہد کا ایک بااثر درباری بن گیا۔ دراصل وہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا اور اسے انگریزی کے علاوہ فرانسیسی، اطالوی اور لاطینی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ اسی قابلیت کی بناء پر چاسر کو دو مرتبہ اٹلی میں سفارت کار کے طور پر بھی بھیجا گیا۔ بعد میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشہورِ زمانہ ‘سو سالہ جنگ’ لڑی گئی تو جیفری چاسر نے اس میں بحیثیت سپاہی بھی خدمات انجام دیں۔

    مؤرخین کا خیال ہے کہ سفارت کار کے طور پر اٹلی میں قیام کے دوران جیفری چاسر اُس زمانے کے مشہور اور اٹلی کے قومی شاعر کا درجہ رکھنے والے بوکیچیو سے ملا تھا۔ وہ اس شاعر کے افکار اور اس کی نظموں سے بہت متاثر ہوا۔ چاسر تخلیقی صلاحیتوں کا مالک تھا اور انگلستان لوٹنے کے بعد اُس نے شاعری میں طبع آزمائی کی۔ اس کی نظموں کی خاص بات اپنے عہد سے مطابقت ہے۔ چاسر کی ایک مشہورِ زمانہ نظم کو نقادوں نے حقیقی معنوں میں چودھویں صدی عیسوی کے برطانیہ کی عکاس قرار دیا۔ چاسر کی یہ نظم ‘پکچر گیلری’ کے عنوان سے بھی مشہور ہے۔ بطور شاعر جیفری چاسر کی نظم کو وسعتِ بیان اور گہرائی کے اعتبار سے ایسی تخلیق مانا جاتا ہے کہ کوئی چودھویں صدی تاریخ پڑھنا چاہتا ہے تو چاسر کی یہ نظم ہی اس کے لیے کافی ہو گی۔ اس نظم میں چاسر نے انتیس کرداروں کے ساتھ اس دور کی نہایت پُراثر منظر کشی کی ہے اور یہ اس وقت کے لندن کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ جیفری چاسر کی اس نظم کی انفرادیت تمام نمایاں‌ شعبہ ہائے حیات سے وابستہ افراد میں سے کم سے کم ایک اور مختلف سماجی گروہوں کی نمائندگی ہے جن کے ذریعے شاعر نے اپنے عہد کی حقیقی تصویر پیش کی ہے۔

    جیفری چاسر کی 74 نظموں میں سے ایک اور مشہور نظم پارلیمنٹ آف فاؤلز بھی ہے جو سات سو مصرعوں پر مشتمل ہے۔ چاسر کی شاعری انگلستان میں بے حد مقبول ہوئی اور شاہی دربار میں بھی اسی بنیاد پر چاسر کی بڑی پذیرائی کی گئی۔ 1374ء میں انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ سوم نے چاسر کو تاحیات وظیفہ دینے کا اعلان کیا۔

    انگلستان کے اس مشہور شاعر نے صرف ایک درباری کی حیثیت سے داد و ستائش سمیٹتے ہوئے وقت نہیں گزارا بلکہ وہ سیاست کے میدان میں بھی سرگرم رہا اور 1386ء میں اس دور کی پارلیمان کا رکن بنا۔ 1366ء میں شادی کرنے والے چاسر کو خدا نے چار بچّوں سے نوازا تھا۔

    جیفری چاسر کی تدفین لندن کے مشہور قبرستان ویسٹ منسٹر ایبے میں کی گئی جہاں کئی دوسرے معروف انگریز اہلِ قلم بھی آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکنز کا انتقام (ایک دل چسپ کہانی)

    پاکنز کا انتقام (ایک دل چسپ کہانی)

    آپ لوگوں نے شاید ہیپلے کا نام سن رکھا ہو جو علم حیاتیات میں کیڑوں کا مطالعہ کرنے والا سب سے مشہور سائنس دان تھا۔ اگر آپ نے اس کا نام سن رکھا ہے تو یقیناً آپ ہیپلے اور پروفیسر پاکنز کے درمیان ہونے والے مشہور جھگڑے سے بھی واقف ہوں گے۔ لیکن شاید آپ یہ نہ جانتے ہوں کہ اس جھگڑے کا انجام کیا ہوا؟

    اس جھگڑے کا آغاز برسوں پہلے ہوا جب پاکنز نے ”مائیکرولیپا ڈوپٹرا“ (اس کا مطلب راقم الحروف کو خود بھی نہیں معلوم) پر ایک سائنسی مضمون لکھا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ ایک نئی قسم کا کیڑا جو ہیپلے اپنی دریافت بتاتا ہے، وہ کوئی نئی قسم ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ کیڑا ویسا ہی ہے جیسے اور ”مائیکرولیپا ڈوپٹر“ ہوتے ہیں۔ ہیپلے جو ویسے ہی تیز مزاج تھا، اس مضمون کی اشاعت پر بہت سیخ پا ہوا اور اس نے اپنی دریافت کا دفاع کرنے کے لیے نہایت سخت الفاظ میں جواب دیا۔ پاکنز نے اس جواب کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہیپلے کا مطالعہ و مشاہدہ اتنا ہی ناقص ہے جتنا اس کا مائیکرو اسکوپ!

    ہیپلے نے جوابی حملہ کرتے ہوئے ”آپ جیسے اناڑی سائنس دان“، اور ”آپ کے بے ڈھنگے آلات“ جیسے الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا۔ سرد جنگ چھڑ چکی تھی۔
    اس دن کے بعد سے مستقل بنیادوں پر دونوں سائنس دانوں میں ہر موضوع اور ہر موقعے پر بحث ہونے لگی۔ میرا خیال ہے کہ عام طور پر پاکنز، ہیپلے کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہوتا تھا لیکن ہیپلے کو اپنا موقف کہنے کا ڈھنگ زیادہ بہتر طریقے سے آتا تھا۔ اس کے پاس اپنے مخالف کو احمق ثابت کرنے کے درجنوں دلائل موجود ہوتے تھے۔

    دوسری طرف پاکنز کو اپنی بات منوانے کا سلیقہ نہیں آتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی ساکھ اس حوالے سے بھی خراب تھی کہ وہ طالب علموں کو پاس کرنے کے لیے پیسے طلب کرتا تھا۔ لہٰذا نوجوانوں کی اکثریت ہیپلے کے ساتھ تھی۔ یہ سرد جنگ کئی برس تک جاری رہی اور دونوں سائنس دانوں کے درمیان نفرت اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

    1891ء میں پاکنز (جس کی صحت اب بہت خراب رہنے لگی تھی) نے ڈیتھ ہیڈ نامی کیڑے کے بارے میں ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون میں بے شمار غلطیاں قابلِ گرفت تھیں اور ہیپلے نے اس مضمون کے خلاف لکھتے ہوئے ان ہی غلطیوں کا حوالہ دیا۔ یہ مضمون بہت بے رحمی سے لکھا گیا تھا جس میں ہر ایک غلطی کی نشان دہی بڑی تفصیل سے کی گئی تھی اور پاکنز کو مکمل طور پر احمق ثابت کیا گیا تھا۔ پاکنز نے ان اعتراضات کا جواب دیا لیکن اس کے دلائل بودے تھے اور لکھنے کا طریقہ بھی کمزور تھا۔ البتہ اس میں نفرت کا پہلو بہت نمایاں تھا۔ وہ ہیپلے کو تکلیف پہنچانا چاہتا تھا لیکن اس پر قادر نہیں تھا۔ وہ بہت بیمار رہنے لگا تھا۔
    اس کامیاب حملے کے بعد ہیپلے نے اپنے دشمن کو فیصلہ کن شکست دینے کی ٹھان لی۔ اس نے ایک تفصیلی مضمون لکھا جو بظاہر تو کیڑوں کے متعلق ایک عام مضمون تھا لیکن درحقیقت اس میں پاکنز کی تمام تحقیقات کو رد کیا گیا تھا۔ اس مضمون کی زبان بہت جارحانہ تھی لیکن اس میں دیے گئے دلائل بہت مضبوط تھے جنھوں نے پاکنز کو شرمندہ ہونے پر مجبور کر دیا۔

    اب تمام سائنس دان پاکنز کی طرف سے جوابی حملے کے منتظر تھے۔ لیکن ان ہی دنوں پاکنز شدید بیماری کے باعث انتقال کر گیا۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ شاید اس کی وفات ہی اس کی طرف سے ہیپلے کو دیا جانے والا بہترین جواب تھا۔ کیوں کہ اس کے بعد لوگوں نے ہیپلے کی حمایت کرنا چھوڑ دیا۔ وہ لوگ جو اس لڑائی میں ہیپلے کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، اب بہت سنجیدگی سے پاکنز کی وفات پر افسردگی کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کو یقین تھا کہ ہار جانے کی ذلّت ہی پاکنز کی موت کا اصل سبب تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنسی بحث و تکرار کی بھی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں۔ اتفاق سے ہیپلے کا لکھا ہوا ایک تنقیدی مضمون جو اس نے کچھ ہفتے قبل لکھا تھا، عین اس دن ایک میگزین میں شائع ہو گیا جس دن پاکنز کی تدفین تھی۔ اس مضمون کی اشاعت نے لوگوں کو ہیپلے کے خلاف کر دیا۔ عوامی ہمدردیاں اب پاکنز کے ساتھ تھیں اور وہ اس کے لکھے گئے تمام مضامین بھول گئے جو مرحوم نے ہیپلے کے خلاف لکھے تھے۔ یہاں تک کہ اخبارات تک نے ہیپلے کے اس مضمون کی مذمت کی جو پاکنز کی وفات کے بعد شائع ہوا تھا۔

    سچ تو یہ تھا کہ اس طرح مر جانے پر ہیپلے، پاکنز کو کبھی معاف نہیں کر سکتا تھا۔ کیوں کہ اوّل تو یہ فیصلہ کن شکست سے بچ نکلنے کا بہت بزدلانہ طریقہ تھا اور دوسرا یہ کہ اب ہیپلے کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے پاس کوئی کام کرنے کو بچا ہی نہیں ہے۔ گزشتہ بیس برسوں سے وہ اپنی ساری توانائیاں صرف پاکنز کی ساکھ برباد کرنے میں صرف کرتا چلا آیا تھا جس کے نتیجے میں اس کی اپنی ساکھ ہمیشہ بہتر ہوتی چلی گئی تھی۔

    یہ سچ تھا کہ ان کے آخری قلمی جھگڑے نے پاکنز کی جان لے لی تھی۔ لیکن اس واقعے نے ہیپلے کی زندگی کو بھی بہت متاثر کیا تھا۔ اس کے ڈاکٹر نے اسے کچھ عرصہ مکمل آرام تجویز کیا تھا۔ لہٰذا ہیپلے ایک پُرفضا مقام پر چھٹیاں گزارنے چلا گیا۔ لیکن یہاں بھی وہ دن، رات پاکنز کے خلاف ان تمام دلائل کے بارے میں سوچتا رہا جو اب نہیں دیے جا سکتے تھے۔
    ٭٭٭

    آخرکار ہیپلے نے اس حقیقت کا ادراک کر ہی لیا کہ پاکنز کے متعلق مستقل سوچتے رہنا اسے ذہنی طور پر بیمار کر سکتا ہے۔ اس نے پاکنز کو اپنے دماغ سے نکالنے کی شعوری کوششیں شروع کر دیں۔ وہ بہت ساری کتابیں خرید کے لایا لیکن جب بھی وہ کوئی کتاب اٹھا کے پڑھنے کی کوشش کرتا تو اسے کتاب کے ہر صفحے پر پاکنز کا سفید چہرہ نظر آ رہا ہوتا۔ وہ اسے تقریر کرتے ہوئے دیکھتا، ایک ایسی تقریر جس میں سے ہیپلے بیسیوں غلطیاں نکال سکتا تھا۔

    پھر ہیپلے نے شطرنج کھیلنا شروع کی۔ وہ جلد ہی اس کھیل میں ماہر ہو گیا اور اپنے مخالف کو باآسانی شکست دینے لگا۔ تاہم جب شطرنج میں اس کے مخالف کھلاڑی کی شکل پاکنز سے ملنے لگی تو اس نے اس کھیل کو بھی خیرباد کہہ دیا۔
    آرام کی سب سے بہترین شکل یہ تھی کہ وہ کسی نئی قسم کے کام میں مصروف ہو جائے۔ اس نے پانی میں اُگنے والے پودوں کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ اس کام میں مشغول ہونے کے بعد تیسرا دن تھا جب اس نے ایک نئی قسم کے کیڑے کو دیکھا۔ وہ رات کا وقت تھا اور کمرے میں روشنی کا واحد ذریعہ ایک ننھا سا لیمپ تھا۔ اس کی ایک آنکھ اپنے مائیکرو اسکوپ پر مرکوز تھی جب کہ دوسری آنکھ سے وہ میز پوش کو دیکھ سکتا تھا۔ کپڑے کی زمین سرمئی تھی اور اس پر شوخ سرخ، سنہرے اور نیلے رنگ سے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ اس نے اچانک کپڑے میں ایک جگہ حرکت محسوس کی اور اپنا سر اُٹھا کر دونوں آنکھوں سے کپڑے کا جائزہ لیا۔ اس کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ میز پوش کا یہ رنگین حصہ باقاعدہ حرکت کر رہا تھا۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ کمرے کی ساری کھڑکیاں اور دروازہ بند تھے تو یہ کیڑا اندر کہاں سے آ گیا؟ یہ بھی حیرت کی بات تھی کہ اس نے یہ کیڑا کہیں سے اُڑ کے آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس کیڑے کا میز پوش کے رنگوں سے ہم آہنگ ہونا بھی عجیب تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہیپلے جو کیڑوں کے علم کا سب سے بڑا ماہر تھا، وہ اس کیڑے کا نام بھی نہیں جانتا تھا۔

    کیڑا آہستہ آہستہ لیمپ کی طرف رینگ رہا تھا۔ ”ایک نئی قسم کا کیڑا!“ ہیپلے کا فطری تجسس بیدار ہو گیا۔ اسے اچانک پاکنز کا خیال آ گیا: ”اگر پاکنز کو پتا چل جائے کہ میں نے ایک بالکل انوکھی قسم کا کیڑا دریافت کیا ہے تو جلن کے مارے اس کا برا حال ہو جائے۔ لیکن پاکنز تو مر چکا ہے!“

    اس نے سوچا، ”مجھے اس کیڑے کو پکڑنا چاہیے۔“

    اب اس نے اردگرد کسی ایسی چیز کی تلاش شروع کی جس کی مدد سے وہ اس کیڑے کو پکڑ سکے۔ وہ بہت آہستہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اچانک کیڑا ہوا میں بلند ہوا اور لیمپ سے ٹکرایا۔ لیمپ ایک طرف لڑھک کر بجھ گیا۔ اب کمرے میں مکمل تاریکی تھی۔ ہیپلے نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کے لیمپ کو سیدھا کیا اور کمرے میں دوبارہ روشنی ہو گئی۔ لیکن کیڑا اب میز پر موجود نہیں تھا۔ ہیپلے نے کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ اسے وہ کیڑا دروازے کے قریب دیوار پر بیٹھا دکھائی دیا۔ ہاتھ میں لیمپ شیڈ پکڑ کر وہ کیڑے کو اس میں قید کرنے کے لیے آگے بڑھا لیکن کیڑا اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اُڑ گیا۔ اب ہیپلے اس کیڑے کے تعاقب میں کمرے میں ناچتا پِھر رہا تھا۔ ایک بار اس کا لیمپ شیڈ والا ہاتھ لیمپ سے ٹکرا گیا اور وہ لڑھک کر میز کے نیچے جا گرا۔ کمرے میں ایک بار پھر تاریکی کا راج ہو گیا۔ ہیپلے کمرے کے بیچوں بیچ کھڑا سخت بھنا رہا تھا۔ ایک بار کیڑا اس کے منہ سے آ کر ٹکرایا بھی لیکن اس کے ہاتھ لگانے سے پہلے ہی اُڑ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ اگر وہ کمرے کا دروازہ کھولتا ہے تو کیڑا اُڑ کے باہر چلا جائے گا اور پھر شاید وہ اسے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکے۔

    اندھیرے میں اس نے اچانک پاکنز کا چہرہ دیکھا۔ وہ زور زور سے اس پر ہنس رہا تھا۔ ہیپلے نے غصے سے مٹھیاں بھینچیں اور اتنی زور سے پاؤں پٹخے کہ کمرہ اس کے جوتوں کی آواز سے گونج اٹھا۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور کسی نے باہر سے دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔
    ٭٭٭

    مالک مکان خاتون کے خوف زدہ چہرے نے دروازے کی جھری سے جھانکا۔ ”کیا بات ہے؟ یہ شور کی آواز کیسی ہے؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ اسی وقت باہر سے آنے والی روشنی میں ہیپلے کو وہ کیڑا ادھ کھلے دروازے سے بالکل قریب نظر آیا۔

    ”دروازہ بند کر دو!“ہیپلے پوری قوت سے چلایا اور دروازے کی طرف دوڑا۔ مالک مکان اس کے چہرے کے تاثرات سے سمجھی کہ وہ شاید اسے مارنے دوڑا ہے۔ اس نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور اوپری منزل پر پہنچ کر اپنے کمرے کا دروازہ بھی بند کر لیا۔ وہ ہیپلے کے اس عجیب و غریب رویّے سے بہت سہم گئی تھی۔ ہیپلے کے کمرے میں اب پھر گھپ اندھیرا تھا۔ ہیپلے کو اندازہ تھا کہ اس کا رویہ پراسرار اور خوف زدہ کر دینے والا ہے۔

    ہیپلے اندھوں کی طرح ٹٹولتے ہوئے الماری کی طرف بڑھا اور ماچس تلاش کرنے لگا۔ اس تلاش کے دوران اس کا ہاتھ شیشے کے ایک گلدان سے ٹکرا گیا جو چھناکے سے ٹوٹ گیا تاہم اس کے بعد ہیپلے ماچس ڈھونڈنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ اس نے ایک موم بتی جلا کے اس کی روشنی میں کیڑے کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہاں کیڑے کا نام ونشان بھی نظر نہ آیا۔ ہیپلے اب بری طرح تھک چکا تھا۔ اس نے سو جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن وہ پرسکون نیند نہ سو سکا۔ رات بھر خواب میں اسے وہ کیڑا اور پاکنز نظر آتے رہے۔ رات میں دو بار اُٹھ کر اس نے اپنے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالا۔

    ایک بات تو طے تھی، وہ مالک مکان خاتون کو اپنے عجیب و غریب رویے کی کوئی وضاحت نہیں دے سکتا تھا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ وہ کیڑا پکڑنے میں ناکام رہا تھا۔ صبح اٹھ کر اس نے طے کیا کہ وہ رات کے واقعات کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا۔ وہ ناشتے کے بعد چہل قدمی کرنے نکل گیا۔ چہل قدمی کے دوران تمام تر کوشش کے باوجود وہ کیڑے کو اپنے دماغ سے نہیں نکال سکا۔ ایک دفعہ تو اس نے بڑے واضح طور پر کیڑے کو باغ کی پتھریلی دیوار پر بیٹھے دیکھا لیکن جب وہ بھاگ کر وہاں پہنچا تو وہ کیڑے کے بجائے محض پتھر کا قدرتی رنگ اور ڈیزائن نکلا۔

    دوپہر میں ہیپلے پادری صاحب سے ملنے گیا۔ وہ گرجے کے باغ میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ہیپلے نے اچانک کہا: ”آپ وہ کیڑا دیکھ رہے ہیں؟“

    ”کہاں؟“ پادری صاحب نے حیران ہو کر کہا۔

    ”کیا آپ کو اس بینچ کے کونے پر کیڑا بیٹھا ہوا نہیں نظر آ رہا؟“ ہیپلے نے اس سے بھی زیادہ حیران ہو کر کہا۔

    ”نہیں تو!“ پادری صاحب نے نفی میں سر ہلایا اور ہیپلے حیران، پریشان نظر آنے لگا۔ پادری صاحب اسے گھور رہے تھے۔

    اس رات ہیپلے نے کیڑے کو اپنے بستر پر رینگتے ہوئے دیکھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور دل ہی دل میں یہ فیصلہ کرنے لگا کہ کیا یہ اس کا وہم ہے یا حقیقت میں کیڑا اس کے بستر پر رینگ رہا ہے۔ اسے لگا جیسے وہ پاگل ہو جائے گا۔ اس نے اس پاگل پن سے اسی طرح لڑنے کی کوشش کی جیسے وہ اپنے سابق حریف پاکنز سے لڑتا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ اب پاکنز سے لڑتے رہنے کا عادی ہو چکا تھا۔ وہ انسانی نفسیات بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ دماغ جب تھکا ہوا ہو تو وہ طرح طرح کی ایسی چیزیں اختراع کرنے لگتا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ لیکن وہ کیڑے کو محض دیکھ ہی نہیں رہا تھا، اس نے رات کی تاریکی میں کیڑے کو دو بار اپنے چہرے سے ٹکراتے ہوئے بھی محسوس کیا۔ اس نے موم بتی کی روشنی میں غور سے دیکھا۔ وہ کیڑا مجسم حقیقت تھا۔ اس نے کیڑے کا بالوں سے بھرا جسم دیکھا، اس کے پر دیکھے، اس کی باریک ٹانگیں دیکھیں اور ایک لمحے کے لیے اسے خود پر شدید غصہ آیا کہ وہ ایسے ننھے منے کیڑے سے کیسے ڈر سکتا ہے!
    ٭٭٭

    مالک مکان خاتون نے اس رات اپنی ملازمہ کو کمرے میں بلا لیا تھا کیوں کہ اسے اکیلے سوتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا۔ اس نے کمرہ بند کر کے دروازے کے ساتھ ایک بھاری میز بھی لگا دی تھی۔ رات گیارہ بجے کے قریب انھوں نے کرائے دار کے کمرے میں بھاری قدموں کی آواز سنی۔ ایک کرسی گرنے کی آواز آئی پھر ایک دیوار پر زبردست مکا مارا گیا۔ اس کے بعد شیشے کی کوئی چیز چھناکے سے ٹوٹ گئی۔ اچانک کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور پھر ہیپلے سیڑھیاں اترتے ہوئے محسوس ہوا۔ دونوں خواتین نے ڈر کے مارے ایک دوسرے کو پکڑ لیا۔ قدموں کی آواز بار بار سنائی دے رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بار بار سیڑھیاں چڑھ اور اُتر رہا تھا۔ آخرکار گھر کا مرکزی دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ شاید وہ گھر سے باہر جا رہا تھا۔ وہ بھاگ کر کھڑکی کے پاس گئیں اور پردہ ہٹا کر تاروں کی ملگجی روشنی میں ہیپلے کو جاتے دیکھا۔ وہ نہ صرف سڑک پر دیوانوں کی طرح دوڑ رہا تھا بلکہ بار بار ہوا میں اس طرح ہاتھ چلا رہا تھا جیسے کچھ پکڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔ تاہم ان دونوں کو ہیپلے کے سوا اس وقت سڑک پر کوئی ذی روح نظر نہیں آ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ دوڑتے ہوئے سڑک کے کنارے جنگل میں غائب ہو گیا۔

    ابھی وہ دونوں آپس میں اس بات کا فیصلہ کر ہی نہ پائی تھیں کہ نیچے جا کر دروازہ کون بند کرے کہ ہیپلے گھر واپس لوٹ آیا۔ اس نے خاموشی سے دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اس کے بعد گہرا سناٹا چھا گیا۔

    ”مسز کولول! مجھے امید ہے کہ میں نے کل رات آپ کو خوف زدہ نہیں کیا ہو گا۔“ ہیپلے نے اگلی صبح مالک مکان سے کہا۔ مالک مکان نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    ”دراصل مجھے نیند میں چلنے کی بیماری ہے۔ میں نے گزشتہ دو راتوں سے نیند کی دوا نہیں لی تھی، اس لیے ایسا ہوا۔ آپ کو خوف زدہ ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کو میرے رویے سے پریشانی ہوئی تو میں اس کے لیے بہت معذرت خواہ ہوں۔ میں آج کیمسٹ سے اپنی نیند کی دوا خرید لاؤں گا۔ بلکہ مجھے یہ کام کل ہی کر لینا چاہیے تھا۔ بہت معذرت!“ ہیپلے نے جلدی، جلدی کہا۔
    لیکن کیمسٹ کی دکان جاتے ہوئے ہیپلے کو وہ کیڑا دوبارہ نظر آ گیا۔ وہ بار بار اس کے چہرے سے ٹکرا رہا تھا اور ہیپلے کو اسے ہاتھ ہلا کر بھگانا پڑ رہا تھا۔

    اچانک اسے اپنے اندر وہی غصہ ابھرتا ہوا محسوس ہوا جو وہ پاکنز کے لیے محسوس کرتا تھا۔ اس نے غصے میں مٹھیاں بھینچ کر کیڑے پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی اور کسی چیز پر سے پھسل کر گر پڑا۔

    جب وہ کوشش کر کے اُٹھا تو اسے پتا چلا کہ وہ ایک کھائی کے اندر جا گرا ہے اور اس کی ٹانگیں اس کے بوجھ تلے مڑ گئی ہیں۔ عجیب و غریب کیڑا اس وقت بھی اس کے سر پر منڈلا رہا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر کیڑے کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن حسب سابق ناکام رہا۔ اسی اثنا میں اس نے دو مردوں کو سامنے سے آتا دیکھا۔ ان میں سے ایک قصبے کا ڈاکٹر تھا۔ ہیپلے نے ان کے آنے کو اپنی خوش قسمتی خیال کیا کیوں کہ اسے باہر نکلنے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت تھی۔ تاہم اسے یہ بھی یقین تھا کہ دونوں اشخاص اس کے سر پر منڈلاتا کیڑا نہیں دیکھ پائیں گے۔ لہٰذا اس نے طے کیا کہ وہ اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا۔
    ٭٭٭

    رات تک اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کا درد تو خاصا کم ہو چکا تھا لیکن اسے ہلکا سا بخار ہو گیا تھا۔ بستر پر لیٹے لیٹے اس نے کمرے کا جائزہ لیا۔ پہلے پہل اس نے فیصلہ کیا کہ کمرے میں کیڑے کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ لیکن اسے خودبخود وہ کیڑا بستر کے سرہانے رکھے لیمپ پر بیٹھا ہوا نظر آ گیا۔ اس کو اچانک شدید غصہ آنے لگا اور اس نے کیڑے کو مارنے کے لیے زور سے اپنا ہاتھ گھمایا۔ لیمپ الٹ گیا اور سامنے کرسی پر بیٹھی نرس جو تقریباً سو چکی تھی، گھبرا کر اٹھ گئی۔

    ”وہ کیڑا! نہیں…میرا مطلب ہے کہ مجھے اپنے تصور میں یہاں ایک کیڑا نظر آ رہا ہے اور کوئی بات نہیں۔“

    ہیپلے نے جلدی جلدی کہا۔ اسے وہ کیڑا کمرے میں اڑتا ہوا بالکل صاف نظر آ رہا تھا۔ لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ نرس اسے نہیں دیکھ سکتی۔ اس نے خود پر کنٹرول رکھنے کی کوشش کی لیکن جیسے جیسے رات گزرتی گئی، اس کے بخار میں شدت آتی گئی اور کیڑے کو نہ دیکھنے کی ناکام کوشش میں اس کا سر درد سے پھٹنے لگا۔ اس نے بستر سے اٹھ کر کیڑے کو پکڑنے کی کوشش کی مگر اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ چل نہ سکا۔ نرس نے بڑی مشکل سے اسے اس ارادے سے باز رکھا۔ لیکن وہ ہر دس منٹ بعد اٹھنے کی کوشش کرتا۔ مجبوراً اس کے ہاتھ پاؤں بستر کے ساتھ باندھ دیے گئے۔ اسے بندھا دیکھ کر کیڑے کی جرات میں اضافہ ہو گیا۔ اب وہ کبھی اس کے بالوں پر آ بیٹھتا کبھی بازو پر اور کبھی اس کے چہرے پر چہل قدمی شروع کر دیتا۔ ہیپلے کبھی غصے سے چلاتا، برا بھلا کہتا اور کبھی رو دیتا۔ وہ نرسنگ اسٹاف سے درخواست کرتا کہ اس کے اوپر سے کیڑے کو ہٹا دیا جائے لیکن یہ سب کرنا بے سود ہی رہا۔

    اس کا ڈاکٹر شاید انسانی نفسیات کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، لہٰذا وہ محض یہ کہہ دیتا کہ کمرے میں کوئی کیڑا نہیں ہے۔ اگر اس میں ذرا سی بھی عقل ہوتی تو وہ ہیپلے کو اس اذیت سے بچا سکتا تھا۔ وہ یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ کیڑا وہاں موجود ہے، ہیپلے کو منہ ڈھانکنے کے لیے کوئی رومال دے سکتا تھا تاکہ کیڑا اس کے منہ پر نہ بیٹھ سکے۔ لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کیا اور ہیپلے اپنی ٹانگ کے صحت یاب ہو جانے تک بستر سے بندھا رہا۔ اس سارے عرصے میں کیڑا اسے کسی عفریت کی طرح ڈراتا رہا جسے وہ سوتے جاگتے اپنے اردگرد پاتا تھا۔

    ہیپلے اب اپنی باقی ماندہ زندگی ایک پاگل خانے میں ایک ایسے کیڑے سے خوف زدہ ہو کر گزار رہا ہے جو کسی اور کو نظر نہیں آتا۔ پاگل خانے کے معالج کا کہنا تھا کہ یہ کیڑا ہیپلے کے دماغ کی اختراع ہے۔ لیکن ہیپلے جب اپنے ہوش و حواس میں ہوتا تھا تو لوگوں کو بتاتا کہ یہ کیڑا پاکنز کی روح ہے لہٰذا اس کو پکڑنا سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔

    (مصنّف: ایچ جی ویلز، مترجم: گل رعنا صدیقی)

  • جان ملٹن: انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ

    جان ملٹن: انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ

    سترھویں صدی کا جان ملٹن اپنی شاعری کے سبب انگریزی ادب میں ممتاز اور دنیا بھر میں اپنے افکار اور تخلیقات کی وجہ سے پہچانا گیا۔ تنقید نگار تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کے دس بڑے شعرا کی فہرست بنائی جائے اور اس میں ملٹن کا نام شامل نہ ہو تو اسے نامکمل سمجھا جائے گا۔

    ملٹن نے جس فضا میں پرورش پائی وہ علمی اور فنی شوق اور تہذیبی نفاستوں کی فضا تھی جو حق پرستی اور حریّت پسندی کے جذبے سے بھی معمور تھی۔ اُس کے گھر کا ماحول اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں‌ معاون ثابت ہوا اور ایک مثبت اور نہایت تعمیری فضا میں ملٹن کی پرورش ہوئی۔ اس کے والد کو لوگ ایک راست گو، دیانت دار اور نہایت سمجھ دار شخص مانتے تھے اور والدہ کی شہرت ایک سخی اور دردمند عورت کے طور پر تھی۔ اپنے علم و ادب اور شعور و آگاہی کے سفر کی بابت خود ملٹن کا کہنا تھا کہ یہ سب اس کے باپ کی بدولت ممکن ہوا جس نے اس کے رجحان اور صلاحیتوں کو پہچان کر نہ صرف اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی بلکہ اسے ہر سہولت بھی فراہم کی۔

    جان ملٹن لکھتا ہے کہ مجھے علم کا ایسا ہوکا تھا کہ بارہ سال کی عمر سے میں مشکل ہی سے کبھی آدھی رات سے پہلے مطالعہ چھوڑ کر بستر پر گیا ہوں گا۔

    جان ملٹن عمر کے ایک حصّے میں‌ اپنی بینائی سے محروم ہوگیا تھا۔ اس بابت وہ لکھتا ہے کہ شروع ہی سے میری آنکھیں‌ کم زور تھیں اور میں اکثر دردِ سَر میں‌ مبتلا رہتا تھا، لیکن اس کے باوجود میں نے ہرگز مطالعے کا شوق، تحقیق کی لگن اور غور و فکر کی عادت کو ترک نہیں کیا۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں ملٹن اپنی علمی فضیلت، وسعتِ مطالعہ اور اچھوتے خیالات کی وجہ سے ہم جماعتوں‌ میں‌ نمایاں‌ رہا۔ کالج کے دور مین ملٹن کو خدا اور مذہب سے متعلق اپنے خیالات، عقائد اور بعض نظریات کی وجہ سے ناپسندیدگی کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن اس نے اپنا سفر جاری رکھا اور ڈگری لینے میں کام یاب رہا۔ اس وقت تک وہ شاعری کا سلسلہ شروع کرچکا تھا جب کہ متعدد زبانوں پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔

    اسے انگریزی زبان کا عظیم شاعر مانا گیا اور وہ انگلستان میں ادب کا روشن ستارہ بن کر ابھرا۔ 17 ویں صدی کے اس مشہور شاعر کی نظم "فردوسِ گم گشتہ” اور "فردوسِ باز یافتہ” دنیا بھر میں مقبول ہیں اور متعدد زبانوں میں ان کے تراجم کیے جاچکے ہیں۔

    اس کی یہ رزمیہ شاعری انگریزی ادب کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔اس نظم میں ملٹن انسان کی نافرمانی اور جنت سے نکالے جانے کا احوال بیان کرتا ہے۔ اس نظم میں اس نے خدا، انسان اور شیطان سے مکالمہ کیا ہے۔

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی ملٹن کی نظم فردوسِ گم گشتہ سے بے حد متاثر تھے اور انھوں نے اسی طرز پر رزمیہ نظم لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس بابت وہ اپنے ایک مکتوب بنام منشی سراج الدین میں لکھتے ہیں کہ: ‘‘ملٹن کی تقلید میں لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے۔ اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔ پانچ چھے سال سے اس آرزو کی دل میں پرورش کر رہا ہوں، مگر جتنی خوہش آج کل محسوس کر رہا ہوں اس قدر کبھی نہ ہوئی۔ مگر روزگار سے نجات ملتی ہے تو اس کام کو باقاعدہ شروع کروں گا۔’’

    جان ملٹن 9 دسمبر 1608ء کو لندن میں پیدا ہوا۔ وہ انگریزی اور لاطینی زبانوں کا ماہر تھا۔ ذخیرۂ الفاظ سے مالا مال جس کا شاعری میں مخصوص طرزِ بیان، جذبات اور اچھوتے خیالات کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ سترھویں صدی کی غنائیہ نظموں میں شاید ہی کسی نے ایسا انگریزی ادب تخلیق کیا ہو۔ اُس نے شیکسپیئر کی رومانی مثنوی، ڈرامائی عناصر اور طنز و مزاح کا گہرا مطالعہ کیا اور وہ ادبی ماحول پیدا کیا جو اسی سے منسوب ہے۔

    ملٹن کی 1646ء میں جب کتاب شائع ہوئی تو وہ 38 سال کا تھا۔ کئی جلدوں پر مشتمل اپنی رزمیہ شاعری میں ملٹن نے قدیم داستانوں، روایت اور مافوق الفطرت کے کارناموں کا جو تذکرہ ہے، اس میں مذہبی عقائد اور روزِ ازل سے متعلق تصورات کو اس نے موثر اور دل کش پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ملٹن نے انگریزی کے علاوہ لاطینی زبان میں بھی نظمیں تخلیق کیں۔

    وہ ایک مصلح اور سیاست کار بھی تھا جس نے مختلف اصولوں، ضابطوں کو نام نہاد اور فرسودہ قرار دیتے ہوئے فرد کی آزادی کو سلب کرنے والے قوانین کے خلاف بھی لکھا۔ اس نے نثر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بیک وقت مذہبی اور سیاسی انقلابات پر لکھا۔

    جان ملٹن نے 1674 میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

  • پچپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    ’’یہ تو بہ ظاہر پتھر دکھائی دے رہا ہے، چٹان حرکت نہیں کرتی، یہ کوئی زندہ مخلوق ہے۔‘‘ دانیال نے بیگ سے کیمرہ نکالتے ہوئے ایک نئی بات کہہ دی۔ ’’جب ہم لنچ کر رہے تھے تو میں نے دو آدمیوں کو ہولڈوفوک کے متعلق باتیں کرتے سنا تھا۔‘‘

    فیونا چونک اٹھی: ’’ہولڈوفوک؟ کیا میں پوچھنے کی جرأت کر سکتی ہوں کہ یہ کس قسم کی مخلوق ہے؟‘‘

    ’’ہولڈوفوک چٹانوں کے درمیان رہتی ہے اور چٹانوں کی طرح دکھائی دیتی ہے اور یہ لوگوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘ دانیال نے ان کی معلومات میں اضافہ کیا اور کیمرے کا فلیش دبا دیا۔ ’’آؤ، میں ذرا قریب سے اس کی تصویر کھینچ لوں۔‘‘

    ’’کیا یہ دن میں بھی نکل آتی ہے یا صرف رات کو نکلتی ہے؟‘‘ جبران کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔

    ’’دن ہو یا رات، اس کی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ہاں انھیں براہ راست سورج کی روشنی پسند نہیں۔‘‘ دانیال نے جواب دیا۔

    انھوں نے ’پتھر‘ کو غور سے دیکھا۔ ’’یہ تو حرکت نہیں کر رہا، ہم خوامخواہ کچھ کا کچھ تصور کر لیتے ہیں۔ یہاں کوئی ایسی ویسی مخلوق نہیں ہے۔ اور ٹرال کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ محض تصوراتی مخلوق ہے۔‘‘ فیونا نے دونوں کی طرف گھور کر دیکھا۔

    ’’ہاں تم نے ٹھیک کہا، نہ ہونے کو تو ماربل عفریت بھی کوئی چیز نہیں جو سانپ کے سروں والی مخلوق ہے لیکن پھر بھی ہم نے دیکھ لی تھی۔‘‘ دانیال نے اس پر طنز کیا۔ ’’پتا ہے اس جزیرے پر تو بہت ساری پریاں، بالشتیے اور لمبے کانوں والی پری نما مخلوق بھی رہتی ہے۔‘‘

    ’’تو پھر ٹھیک ہے، آؤ انھیں قریب سے دیکھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے قائل ہو کر کہا اور کوٹ کی جیب سے کیمرا نکال لیا۔ اس دوران دانیال کئی تصاویر بنا چکا تھا۔ وہ تینوں دل ہی دل میں ڈر رہے تھے لیکن اس مخلوق کو قریب سے دیکھنا بھی چاہتے تھے۔

    ’’اوہو، تم بھی کیمرہ لائی ہو۔‘‘ جبران چہکا۔ عین اسی وقت ان کے سامنے کوئی چیز چمکی، جیسے اچانک کوئی شعلہ بھڑکا ہو۔ ’’ارے یہ کیا تھا … کیا یہ ٹرال مخلوق تھی؟‘‘ جبران اچھل پڑا۔

    ’’میں جانتا ہوں یہ کیا ہے۔‘‘ دانیال پرجوش ہو کر بولا اور تیزی سے روشنی کی طرف بڑھا۔ ’’یہ روشنی پری ہے۔ یہ دراصل ٹرال ہی کے متعلق باتیں کر رہی تھی۔ یہ پریاں بالکل پیٹر پان کی ٹِنکر بیل جیسی ہوتی ہیں۔ جب یہ اڑتی ہیں تو اپنے پیچھے روشنی کی لکیر چھوڑ جاتی ہیں۔ اور پتا ہے یہ کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتیں۔ اگر ایک بوتل مل جائے تو میں کسی ایک کو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ گھر بھی لے کر جاؤں۔‘‘

    ’’پتا نہیں، ہم کیسی عجیب و غریب جگہ پر آ گئے ہیں، ہمیں آگے کیا کچھ دیکھنے کو مل جائے، میں تو واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘ جبران اچانک خوف زدہ ہونے لگا تھا۔ فیونا نے اسے تسلی دی: ’’کچھ نہیں ہوگا، ڈرو مت، ہم تقریباً پہنچ ہی گئے ہیں، بس ذرا ہی آگے لاوا غار ہے، اور احتیاط سے چلو سب، یہ زمین نوک دار ہے۔‘‘
    فیونا نے چلتے چلتے مڑ کر دانیال کی طرف دیکھا اور پکارا: ’’واپس آ جاؤ، چھوڑیوں پریوں کو… آہ… میرے ٹخنے پر چوٹ لگ گئی!‘‘

    (جاری ہے)

  • چون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    دانیال نے چوں کہ پمفلٹ بہت اچھی طرح پڑھ لیا تھا اس لیے اسے یہ ساری معلومات یاد تھیں۔ جبران کو اس کی بات پر یقینی نہیں آیا اور بولا: ’’قزاق اور آئس لینڈ میں؟‘‘

    ’’جی ہاں، یہ 1627 کا ایک سچا قصہ ہے۔ قزاقوں نے انھیں افریقہ لے جا کر غلاموں کی طرح فروخت کر دیا تھا۔ انھوں نے بہت سارے مردوں کو جان سے بھی مار دیا تھا۔‘‘

    ’’کک … کیا اب بھی قزاق یہاں آ سکتے ہیں؟‘‘ جبران گھبرا گیا۔

    فیونا ہنس پڑی: ’’بے وقوف، وہ چار سو سال پرانی بات ہے، اب یہاں بحری قزاق نہیں ہیں۔‘‘

    تقریباً تین گھنٹے کے سفر کے بعد آخر کار کشتی ساحل پر لنگر انداز ہو گئی۔ کشتی پانی میں ڈول رہی تھی۔ وہ تینوں لڑکھڑاتے ہوئے ساحل پر اترے۔ جبران کو چکر آنے لگے تھے اور وہ آگے پیچھے ڈول رہا تھا جیسے ابھی تک کشتی ہی میں سوار ہو۔

    ’’پریشان مت ہو، کچھ دیر میں تمھاری طبیعت سنبھل جائے گی۔‘‘ فیونا نے اسے تسلی دی۔ اس کی اور دانیال کی طبیعت اب درست تھی، ان دونوں کی بھوک خوب چمک اٹھی تھی۔ فیونا نے کہا: ’’سب سے پہلے کھانا!‘‘

    ’’میرا جی نہیں کر رہا ہے، ہاں تم دونوں جا کر کھا سکتے ہو۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا اسے سمجھانے لگی کہ کھانا اس لیے ضروری ہے کیوں کہ آگے کا کچھ پتا نہیں کہ کیا ہو، اور دن کس طرح گزرے، اور کھانے کا موقع ملے گا بھی یا نہیں۔ تینوں ایک کیفے کی طرف بڑھے اور وہاں ایک میز کے گرد بیٹھ گئے۔ مینو پر نظر ڈال کر فیونا کا منھ بن گیا: ’’لو، یہاں تو کیلے اور پپرونی پیزا دستیاب ہیں۔ یہاں بھی وہی ڈشیں ہیں۔ دودھ میں پفن اور گھوڑے کا گوشت، کچی مچھلیاں … اوع … یہ کون کھائے گا۔‘‘

    ’’مت کرو ان چیزوں کا ذکر۔‘‘ جبران نے سر پکڑ لیا۔ ’’میں تو یہاں مزید نہیں بیٹھ سکتا۔ کھانوں کی بو سے میری طبیعت مزید خراب ہو ری ہے۔ میں باہر جا کر تم دونوں کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔

    دونوں نے مجبوراً کیلے اور پپرونی کے پیزا کا آرڈر دے دیا۔ ڈشیں آگئیں تو جلدی جلدی کھا کر اور باہر نکل آئے۔

    ’’کچھ بہتر محسوس کر رہے ہو اب؟ چہرے کی رونق تو لوٹ آئی ہے۔‘‘ فیونا نے پوچھا۔ جبران نے مسکرا کر سر ہلایا۔ دانیال نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’اچھا، اب کیا کریں، کھانا بھی کھا چکے۔ یہاں وقت تیزی سے گزر رہا ہے، ذرا سوچو، اگر کوئی شخص 1200 میں یہاں آ کر قیمتی پتھر چھپاتا ہے، تو اب تک تو وہ اس لاوے میں کہیں دفن ہو چکا ہوگا۔‘‘

    فیونا بولی: ’’مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اسے کچھ زیادہ دیر تک تلاش کرنا پڑے گا، اسے ڈھونڈ نکالنا کچھ زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’لیکن ہم ان پتھریلی پہاڑیوں میں قیمتی پتھر کو کہاں کہاں تلاش کریں گے؟‘‘ جبران بولا۔

    ’’میں بتاتی ہوں۔‘‘ فیونا نے جلدی سے کہا: ’’مرجان ہمیں ایک لاوا غار میں ملے گا۔‘‘

    ’’اور اب یہ لاوا غار کیا شے ہے؟‘‘ دانیال پوچھ بیٹھا۔

    فیونا بتانے لگی: ’’لاوا غار اس وقت وجود میں آتا ہے جب اوپر کی سطح کا گرم بہتا لاوا ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، تاہم اس کے نیچے گرم لاوا بہتا رہتا ہے اور اس طرح ایک ٹیوب بن جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ لاوا سخت ہونے لگتا ہے اور ایک غار کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ مرجان کسی ٹنوں لاوے کے نیچے نہیں چھپا ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کسی غار میں ہے، یہ جزیرہ کچھ زیادہ بڑا نہیں ہے۔ چلو اسے ڈھونڈنے کا آغاز کرتے ہیں۔ ہاں، ایک بات یاد رکھنا کہ لاوا بہت کاٹ دار ہوتا ہے، اگر ہم نے احتیاط نہیں برتی تو یہ ہمیں لمحوں میں کئی ٹکڑوں میں بدل دے گا۔‘‘

    قیمتی پتھر کی جستجو میں تینوں لاوے کی زمین کی طرف بڑھنے لگے۔ دانیال بولا: ’’یہ زمین ناہموار ہے لیکن اچھی لگ رہی ہے۔‘‘

    وہاں جگہ جگہ پتھر پڑے ہوئے تھے اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر گھاس کی چادریں تنی ہوئی تھیں۔ جبران کو کچھ نظر آیا تو اس نے کہا: ’’ارے وہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے دیکھا کہ وہاں کوئی چیز حرکت کر رہی تھی۔ جبران نے کہا: ’’اوہ یہ تو چٹان ہے جو حرکت کر رہی ہے۔‘‘

    (جاری ہے)

  • انچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’اچھا اب تولیے واپس رکھ دو اور نیچے چل کر معلومات حاصل کرتے ہیں۔‘‘ فیونا نے تولیہ واپس ریک پر ڈال دیا، اور دروازے کی طرف بڑھی۔ تینوں لفٹ کے ذریعے نیچے چلے گئے۔ فیونا استقبالیہ پر موجود شخص کی طرف بڑھی۔ ’’جناب، کیا یہاں قریب میں کوئی آتش فشاں پایا جاتا ہے؟‘‘

    استقبالیہ پر موجود شخص مسکرایااور میز پر ذرا آگے کی طرف جھک کر انھیں پوری طرح دیکھ کر بولا: ’’یہ پورا ملک ہی آتش فشاں ہے، ہاں اگر یہ جاننا ہو کہ حالیہ آتش فشاں کہاں پھٹا ہے تو بتا دیتا ہوں کہ ویسٹمین جزائر کا ایک آتش فشاں ہے جسے ہیمے کہتے ہیں، اور یہ 1973 میں پھٹا تھا۔‘‘

    ’’ہاں بالکل یہی، ہم وہاں کیسے جا سکتے ہیں؟‘‘ فیونا نے جلدی سے پوچھا۔ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے تھوڑی سی دیر کر دی، کیوں کہ سہ پہر کو آخری کشتی بھی کچھ دیر قبل ہی نکلی ہے، اب اگلی صبح کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس نے کہا کہ ناشتہ کر کے میرے پاس آنا تو میں راستہ سمجھا دوں گا۔ اس نے انھیں چند پمفلٹس بھی دیے اور ہدایت کی کہ انھیں غور سے پڑھ لیں۔ استقبالیہ پر موجود شخص نے آخر میں اپنا نام بھی بتایا: ’’میرا نام میگنس میگنسن ہے، لیکن تم لوگ مجھے صرف میگنس پکار سکتے ہو، اور آپ کی تعریف؟‘‘

    ’’میں فیونا، یہ جبران اور یہ دانیال۔‘‘ فیونا نے تعارف کرایا: ’’دراصل ہمارے والدین جلد ہی یہاں پہنچیں گے۔ انھوں نے ہمیں پہلے ہی یہاں بھیج دیا ہے اس لیے ہم اپنے طور پر گھوم پھرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا ٹھیک ہے اب تم لوگ رکجاوک کی شام سے لطف اندوز ہو۔

    فیونا نے دونوں کی طرف مڑ کر کہا: ’’ہمیں میگنس کی بات پر عمل کرنا چاہیے، باہر چل کر رکجاوک کی شام کا لطف اٹھاتے ہیں اور پھر واپس آ کر رات کا کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ تینوں ہوٹل سے نکل کر سڑک پر آ گئے اور پمفلٹس کھول کر یہاں کے بارے میں درج معلومات پڑھنے لگے۔ جبران نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا اور حیران ہو کر کہا: ‘‘ابھی ساڑھے چار ہی بجے ہیں اور اندھیرا چھانے لگا ہے، گرمیوں کے موسم میں یہاں سورج غروب ہی نہیں ہوتا اور ساری رات سورج کی روشنی رہتی ہے۔‘‘

    ’’پمفلٹ میں لکھا ہے کہ اب یہاں خزاں کا موسم ہے، اسی لیے سردی بھی کوئی خاص نہیں ہے اور برف باری بھی۔‘‘ دانیال بتانے لگا، وہ اب جادو کی وجہ سے انگریزی بول ہی نہیں بلکہ اچھے سے پڑھ بھی سکتا تھا۔ جبران نے اندھیرا ہوتے دیکھ کر کہا: ’’ہمیں اب ہوٹل جانا چاہیے، اجنبی مقام پر رات کو گھومنا محفوظ نہیں۔‘‘

    ’’کسی میوزیم یا پھر کوئی لائبریری دیکھنے چلتے ہیں۔‘‘ دانیال بولا۔ فیونا نے جبران کی حمایت کی: ’’نہیں دانی، ہم یہ سب جگہیں پھر بھی دیکھ سکتے ہیں، ویسے مجھے بھوک بھی لگی ہے۔‘‘ دانیال نے کہا کہ کل تو ہم بہت مصروف ہوں گے، کچھ شاپنگ ہی کر لیتے ہیں، خواہ ایک ہی دکان میں جائیں۔ جبران اور فیونا نے اس کی ضد کے آگے ہار مان لی۔ جبران نے کہا میں تو مچھلیوں والے کی دکان میں جانا چاہوں گا، جہاں ماہی گیری کا سامان فروخت ہوتا ہو، اپنے پاپا کے لیے کچھ خریدوں گا۔ لیکن دانیال نے منھ بنا کر کہا کہ یہ چیزیں تو گیل ٹے میں بھی بہ آسانی مل جاتی ہیں۔ ایسے میں فیونا نے سامنے کی ایک دکان کی طرف اشارہ کیا کہ چلو اس میں چلتے ہیں۔ فیونا نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، یہ دست کاری، فن اور اونی اشیا کی دکان تھی۔ دانیال سڑک ہی پر کھڑا رہ گیا، اس نے کہا: ’’نہیں بھئی، یہاں لڑکیوں کی چیزیں ہی ملتی ہیں۔‘‘

    فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے، تم اپنی مرضی کی دکان ڈھونڈ لو، ہم دونوں یہاں جاتے ہیں، لیکن آدھے گھنٹے بعد یہیں پر واپس آنا۔‘‘

    آدھے گھنٹے بعد جب دونوں دکان سے نکلے تو دانیال کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ انھوں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر رفتہ رفتہ ان کی پریشانی بڑھتی گئی۔

    (جاری ہے)

  • ورجینا وولف کی خود کُشی اور آخری خط

    ورجینا وولف کی خود کُشی اور آخری خط

    ’’اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے مجھ سے ہمیشہ کی۔‘‘

    یہ سطور ورجینا وولف کی آخری تحریر سے لی گئی ہیں جو انھوں نے اپنے شوہر کے نام چھوڑی تھی۔ ایک ادیب، مضمون نویس اور نقّاد کی حیثیت سے آج بھی انھیں‌ ادب کی دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔ ورجینا وولف نے 1914ء میں آج ہی کے دن خود کُشی کر لی تھی۔ انھوں نے ایک ندی میں‌ چھلانگ لگا دی تھی اور پانی نے ان کی یہ کوشش قبول کرلی۔

    ورجینا وولف 25 جنوری 1882ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا مکمل نام ایڈلن ورجینا وولف تھا۔ وہ ایک متمول گھرانے کی فرد تھیں اور یہ کنبہ فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں فعال اور تخلیقی کاموں کے لیے مشہور تھا۔ یہ آٹھ بہن بھائی تھے جن میں ورجینا وولف کو دنیا میں‌ بھی پہچان ملی۔ ان کے والد قلم کار، مؤرخ اور نقّاد، والدہ ماڈل جب کہ ایک بہن مصورہ اور ڈیزائنر تھیں۔

    ورجینا وولف نے دستور کے مطابق اسکول کی بجائے گھر پر تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے، ادب پڑھا، گھر میں کتابیں موجود تھیں اور علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو بھی سننے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اور پھر وہ وقت آیا جب انھوں نے خود مضمون نویسی اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

    ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کنگز کالج میں داخلہ لیا اور اس عرصے میں تاریخ اور ادب کے گہرا مطالعہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا باعث بنا، اسی دوران عورتوں کے حقوق اور مسائل سے بھی آگاہی حاصل کی جس نے ورجینا وولف کی فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجالا اور والد نے حوصلہ افزائی کی تو باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اسی سفر کے آغاز پر انھیں والد کی جدائی کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس سے قبل والدہ داغ مفارقت دے چکی تھیں۔ ورجینا وولف کی زندگی میں ایسی تبدیلیاں اور رنج و غم کے مواقع آئے جنھوں نے ان کے ذہن پر گہرا اثر کیا۔ وہ ایک نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوگئیں، جس میں مریض اپنی جان لینے کی کوشش کرتا ہے۔ ورجینا وولف موت سے پہلے بھی خود کُشی کی متعدد کوششیں کرچکی تھیں۔

    اس برطانوی مصنّفہ کا پہلا ناول’’دا ووئیج آؤٹ‘‘ تھا۔ 1925ء میں ’’مسز ڈالووے‘‘ اور 1927ء میں ’’ٹو دا لائٹ ہاؤس‘‘اور 1928ء میں ’’اورلینڈو‘‘ کے عنوان سے ان کے ناول منظرِ‌عام پر آئے جو ان کی پہچان ہیں۔ ان کے ایک مضمون بعنوان ’’اپنا ایک خاص کمرہ‘‘ دنیا بھر میں‌ قارئین تک پہنچا اور اسے بے حد پسند کیا گیا۔

    ورجینا وولف کی تخلیقات کا پچاس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان کی تحریر کردہ کہانیوں کو تھیٹر اور ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا۔ ’’مسز ڈالووے‘‘ ان کا وہ ناول ہے جس پر فلم بنائی گئی تھی۔

    موت کو گلے لگانے سے قبل ورجینا نے اپنے شوہر کے نام جو پیغام لکھا، وہ یہ ہے:

    پیارے…
    مجھے لگتا ہے کہ میں دوبارہ پاگل پن کی طرف لوٹ رہی ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم دوبارہ اس بھیانک کرب سے نہیں گزر پائیں گے۔ میں دوبارہ اس تکلیف سے اَب ابھر نہیں پاؤں گی۔ مجھے پھر سے آوازیں سنائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے میں کسی چیز پہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پا رہی ۔ میں وہ کرنے جا رہی ہوں…… جو بظاہر ان حالات میں کرنا بہتر ہے۔

    تم نے مجھے زندگی کی ہر ممکنہ خوشی دی۔ تم میرے ساتھ ہر طرح کے حالات میں ساتھ ساتھ رہے، جتنا کوئی کسی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ نہ میں سمجھ ہی سکتی ہوں کہ دو انسان اس قدر اکٹھے خوش رہ سکتے ہیں، جیسے ہم رہ رہے تھے، جب تک کہ اس اذیت ناک بیماری نے مجھے شکار نہ کرلیا۔

    اب میں مزید اس بیماری سے نہیں لڑ سکتی۔ میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ میری وجہ سے تمہاری زندگی بھی تباہ ہو رہی ہے، جو میرے بغیر شاید کچھ پُرسکون ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

    بس میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ میری ساری زندگی کی خوشی تم سے منسوب رہی ہے۔ تم ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھے اور پُرسکون رہے ہو، اور میں کہنا چاہتی ہوں کہ یہ حقیقت سب ہی جانتے ہیں۔ اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے میرے ساتھ ہمیشہ کی۔

    میں ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ میری بیماری کی وجہ سے تمہاری زندگی مزید تباہ ہو۔ میں ایسا مزید نہیں کرسکتی۔ میں نہیں سمجھتی کہ دنیا میں دو انسان ایک ساتھ اتنا خوش رہے ہوں…… جتنا ہم!