Tag: انگریزی ادب

  • وہ ادیب جسے اپنی ماں کے کفن دفن کے لیے ہفتے بھر میں ناشر کو ناول لکھ کر دینا پڑا

    وہ ادیب جسے اپنی ماں کے کفن دفن کے لیے ہفتے بھر میں ناشر کو ناول لکھ کر دینا پڑا

    مشہور ہے کہ جونسن نے ’’تواریخِ راسلس‘‘ صرف ایک ہفتے میں قلم برداشتہ لکھا۔ اس ناول کی تخلیق کا پس منظر توجہ طلب اور غم آگیں‌ بھی ہے۔ کہتے ہیں یہ ناول اس نے اپنی ماں کے کفن دفن اور چھوٹے موٹے قرضے اتارنے کے لیے لکھا تھا۔

    سیموئل جونسن ایک انگریز ادیب اور لغت نویس تھا جسے ادب میں اس کی تنقیدی بصیرت اور نکتہ سنجی کے لیے بھی پہچانا جاتا ہے، لیکن وہ ایسا ناول نگار تھا جو افسانوی تخیل سے دور رہا۔ یہاں‌ ہم جونسن کے جس ناول کا ذکر کررہے ہیں وہ افسانوی رنگ نہ ہونے کے سبب بالخصوص ناول نگار کے افکار اور حقائق پر مبنی مباحث کی وجہ سے بظاہر روکھا پھیکا نظر آتا ہے۔ اس پر تنقید بھی کی گئی ہے، لیکن ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تواریخِ راسلس کا پلاٹ خوب گٹھا ہوا ہے۔ اس کی نثر متانت آمیز ہے اور اس میں افکار کی صراحت قابلِ توجہ ہے۔

    ہفتے بھر میں‌ ایک ناول لکھ کر ناشر کے حوالے کر دینے سے متعلق انگریزی ادب کے ناقدین قیاس کرتے ہیں کہ کہانی کا پلاٹ یا اس کا کوئی ہیولا ضرور جونسن کے ذہن میں پہلے سے رہا ہو گا۔

    ناول کی کہانی
    اس ناول کا مرکزی کردار حبشہ کا ایک شہزادہ ہے۔ وہ اور اس کے دیگر بہن بھائی عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے، لیکن ایک وقت آیا جب راسلس اس عیش و عشرت اور تن آسانی کی زندگی سے بیزار ہو گیا۔ شہزادے کا معلّم اس سے افسردگی کا سبب دریافت کرتا ہے اور اُسے سمجھاتا ہے کہ تم اس خوش حالی اور عیش و عشرت سے محض اس لیے اکتا گئے ہو کہ تم نے دنیا کے رنج اور مصائب نہیں دیکھے، ورنہ تمھیں اس عیش کی قدر ہوتی۔ تب، شہزادہ دنیا کے رنج اور مصیبتیں دیکھنے کے لیے سب کچھ چھوڑ کر سیر کے لیے نکل جاتا ہے۔ ناول میں‌ بتایا گیا ہے کہ کیسے یہ شہزادہ اپنی سیاحت کے دوران لوگوں سے باہمی میل جول رکھتا ہے اور لوگوں سے تبادلۂ خیال کرتے ہوئے زندگی کے مختلف پہلوؤں اور مسائل کو سمجھتا ہے اور اپنے خیالات اور مشاہدات کو بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ متعدد لوگوں سے ملتا ہے۔ بادشاہوں، امیروں، غریبوں اور مختلف پیشہ ور افراد سے ملاقات کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ امیر ہو یا غریب، شاہ ہو یا گدا، کوئی بھی اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہے۔ دراصل اس کردار کے ذریعے جونسن نے ناول میں زندگی اور مسائل پر اپنے افکار کا اظہار کیا ہے۔ ناول میں اس طرح کے مباحث کئی مقام پر آتے ہیں، جس سے یہ روکھا پھیکا معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ جونسن کی اُفتادِ طبع کی عکاسی کرتا ہے جس میں‌ وہ نکتہ سنج اور صاحبِ فکر نظر آتا ہے۔ ناول نگار نے افسانہ طرازی سے دور رہتے ہوئے معلومات اور حقائق کو اہمیت دی ہے۔

    ناول کی تخلیق کا درد انگیز پس منظر
    کہتے ہیں ناول نگار نے اپنی ماں کی وفات کے بعد اس کی تجہیز و تکفین اور زندگی میں ان پر واجبُ الادا رقم چکانے کے لیے ایک ناشر سے رجوع کیا اور سو پاؤنڈ کے عوض صرف ایک ہفتے میں ”تواریخِ راسلس” لکھ کر کے اس کے سپرد کر دیا۔ یہ ناول غیرمعمولی طور پر بہت مقبول ہوا اور اس کے فرانسیسی، جرمن، اطالوی اور ڈچ زبان میں تراجم شایع ہوئے۔

    جونسن کے حالاتِ زندگی اور علمی و ادبی کارنامے
    سیموئل جانسن وسطی انگلستان کے ایک چھوٹے سے قصبے لیچفیلڈ میں 1709ء کو پیدا ہوا۔ ابتدائی عمر میں اس کے والدین کو معلوم ہوا کہ ان کی اولاد کی بینائی کم زور ہے۔ اس کا باپ ایک تاجر تھا، تاہم اس کا خاندانی رتبہ اونچا نہ تھا اور حسب نسب میں وہ جونسن کی ماں سے کم تھا۔ اُس نے پڑھ لکھ کر ایک دکان کھول لی تھی جس میں وہ کتابیں اور دوائیں فروخت کرتا تھا۔ جونسن کی ماں اپنے خاندان اور نام و نسب پر فخر کرتی تھی اور اپنے شوہر کو ہمیشہ حقیر اور خود سے کم تر جانتی تھی۔ اسی باعث ان کی آپس میں نہیں‌ بنتی تھی۔

    جونسن کی یادداشت بچپن سے ہی قابلِ رشک تھی جس کا اظہار وہ اکثر اس خوبی سے کرتا کہ سامنے والا دنگ رہ جاتا۔ اپنی اس غیرمعمولی ذہانت کی وجہ سے وہ اپنے علاقے میں بہت مشہور ہوا اور اسے دعوتوں میں بلایا جانے لگا۔ اسٹیشنری کے سامان اور دکان پر موجود کتابوں سے وہ شروع ہی خاصا مانوس تھا۔ والد کا انتقال ہوا تو کچھ عرصے ایک اسکول میں بہ طور مدرس خدمات انجام دیں، لیکن پھر اس کا دل نہ لگا اور اس نے ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس کی پہلی کتاب ایک پرتگیزی پادری کے فرانسیسی سفرنامے کا انگریزی ترجمہ تھا۔ اس ترجمے کا اُسے پانچ گنا معاوضہ ملا۔ بعد میں وہ تلاشِ معاش کی غرض سے لندن پہنچا اور وہاں ایک رسالے ”جنٹل مینز میگزین” میں معاون مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ اس کی آمد کے بعد رسالے کی مانگ اور مقبولیت تو بڑھ گئی لیکن وہ رسالے کے مالک اور مدیر کی خصاصت کی وجہ سے مالی طور پر آسودہ نہ ہوسکا۔

    ”جامع انگریزی لغت” جانسن کا نمایاں علمی کام ہے۔ اس کی مرتب کردہ لغت کے لیے اسے بڑے ناشروں نے تین سال کی مدت کے لیے ایک ہزار پانچ سو پچھتّر پاؤنڈ معاوضہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم یہ کام طوالت کے باعث آٹھ سال میں‌ مکمل ہوسکا اور زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ جونسن کی اس لغت سے پہلے اس پائے کی لغت انگریزی زبان میں موجود نہ تھی۔ یہاں سے جونسن کی شہرت کا صحیح معنوں میں آغاز ہوا۔ یہ اعلیٰ درجے کا علمی کام تھا جس پر آکسفورڈ نے جونسن کو سند بھی دی تھی۔

    والدہ سے جدائی کے 19 برس اور وفات
    1759ء میں جونسن کو جب اپنی ماں کی شدید علالت کی اطلاع ملی تھی تو وہ غربت اور تنگ دستی سے لڑرہا تھا۔ پچھلے انیس برس میں اس نے لندن سے گھر لوٹ کر اپنی ماں کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ اور اسی جدائی میں وہ ہمیشہ کے لیے دنیا سے چلی گئی۔ جونسن دکھی تھا اور تبھی تواریخِ راسلس تخلیق کیا۔

    1762ء میں جونسن کی مالی مشکلات میں خاطر خواہ فرق پڑا اور اس کی ادبی خدمات کے صلے میں حکومت نے اسے پینشن کی پیش کش کی۔ انگریزی کی لغت کے علاوہ جونسن نے شیکسپیئر کے ڈراموں کا ایک ایڈیشن بھی مرتب کیا تھا جسے مستند مانا جاتا ہے۔ اس نے سوانح اور تنقید بھی لکھی جو اس کی شہرت کا سبب بنا۔

    انگریزی زبان کے اس ادیب اور لغت نویس کا انتقال 1784ء میں ہوا۔

  • سلویا پلاتھ: منفرد شاعرہ، باکمال ادیب

    سلویا پلاتھ: منفرد شاعرہ، باکمال ادیب

    سلویا پلاتھ کو اس کی منفرد شاعری نے دنیا بھر میں پہچان دی۔ اس نے کہانیاں اور ایک ناول بھی تخلیق کیا۔ محض 31 سال کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوجانے والی سلویا پلاتھ کی موت آج بھی ایک معمّہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے خود کُشی کرلی تھی۔

    یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں‌ تھی کہ سلویا پلاتھ ایک عرصے تک شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہی۔ وہ تین مرتبہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی ناکام کوشش کرچکی تھی۔ اس نے ماہرِ نفسیات سے اپنا علاج بھی کروایا تھا، مگر ڈپریشن سے مکمل نجات حاصل نہیں کرسکی اور ایک روز اس کی موت کی خبر آئی۔

    اس منفرد شاعرہ اور باکمال کہانی نویس نے کم عمری میں شہرت حاصل کر لی تھی۔ 27 اکتوبر 1932ء کو پیدا ہونے والی سلویا پلاتھ کے والد ایک کالج میں پروفیسر اور ماہرِ حشرات تھے۔ سلویا شروع ہی سے فطرت اور حسین مناظر میں کشش محسوس کرنے لگی تھی۔ اسے زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں اپنے اندر ایک ایسی لڑکی مل گئی تھی جو اپنے جذبات اور محسوسات کو الفاظ میں قرینے سے ڈھالنا جانتی تھی۔ جب سلویا نے جان لیا کہ وہ شاعری کرسکتی ہے تو اس نے باقاعدہ قلم تھام لیا۔ وہ 18 سال کی تھی جب ایک مقامی اخبار میں اس کی پہلی نظم شایع ہوئی۔ بعد میں‌ اس نے نثر کی طرف توجہ دی اور آغاز بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے کیا۔ اس نے ایک ناول دی بیل جار کے نام بھی لکھا اور شاعری کے علاوہ یہ بھی اس کی ایک وجہِ شہرت ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ اس ناول کے چند ابواب دراصل سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں۔ اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960ء میں شایع ہوا تھا۔ سلویا کی الم ناک موت کے بعد کے برسوں بعد اس کی دیگر نظموں‌ کو کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا تھا۔ اس شاعرہ کی نظموں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ بعد از مرگ سلویا پلاتھ کو اس کی شاعری پر پلٹزر پرائز دیا گیا تھا۔

    شاعرہ اور ناول نگار سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی اتار چڑھاؤ اور تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ اس نے اپنے زمانے کے مشہور برطانوی شاعر ٹیڈ ہیوگس سے شادی کی تھی اور اس جوڑے کے گھر دو بچّوں نے جنم لیا، لیکن ان کی یہ رفاقت تلخیوں کا شکار ہوگئی اور ایک وقت آیا جب انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا، اس کے بعد حساس طبع سلویا پلاتھ شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوگئی اور خود کو سمیٹ نہ پائی۔ خیال ہے کہ ماضی کی تکلیف دہ یادوں نے اسے موت کو گلے لگانے پر اکسایا ہوگا۔ وہ 11 فروری 1963ء کو اپنے گھر میں‌ مردہ پائی گئی تھی۔

  • "زندگی کا نغمہ” جو اردو کے شیدائی رالف رسل کے قلم کی نوک سے نکلا

    "زندگی کا نغمہ” جو اردو کے شیدائی رالف رسل کے قلم کی نوک سے نکلا

    رالف رسل کو "بابائے اردو برطانیہ” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصّہ اردو کی خدمت میں گزار دیا تھا۔ ان کا تعلق برطانیہ سے تھا۔

    یہاں ہم ان کا ایک مضمون جو انھوں نے اپنے ادبی کام سے متعلق تحریر کیا تھا، نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    میں 1918ء میں پیدا ہوا اور سولہ برس کی عمر میں کمیونسٹ تحریک سے وابستہ ہو گیا اور ابھی تک خودکو کمیونسٹ تصور کرتا ہوں۔

    1946ء سے اب تک کمیونسٹ تحریک سے وابستہ لوگوں پر بدعنوانی کے الزام بھی لگے اور کمیونسٹ تحریک کو زوال کا سامنا بھی رہا۔ حتّیٰ کہ سویت یونین کی متحدہ ریاست بھی ٹوٹ گئی مگر میرے خیال میں انسانی اقدار کو سمجھنے اور انسانیت کی خدمت کرنے کا اب بھی بہترین ذریعہ کمیونسٹ تحریک ہی ہے۔

    1937ء سے 1940ء تک میں نے اس نظریہ سے متعلق بہت سا مواد اور خطوط سینٹ جان کالج میں پڑھے تھے۔ ازاں بعد قریب چھے سال کا عرصہ میں نے فوجی ملازمت میں بھی گزارا ہے، جس میں سے قریب ساڑھے تین سال یعنی مارچ 1942ء تا اگست 1945ء کا عرصہ میں نے برطانوی فوجی کے طور پر انڈین فوج کے ساتھ، انڈیا میں گزارا ہے۔

    اردو اس وقت فوج کی زبان تھی۔ میرے لیے مسئلہ یہ تھا کہ میں کسی طرح یہ زبان سیکھوں۔ ایک طریقہ یہ تھا کہ میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ گفتگو کرکے اردو زبان سے واقفیت حاصل کروں۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ میں خود اردو مسودے پڑھنا شروع کر دوں۔ میں نے اردو زبان میں ہونے والے کارل مارکس اور لینن کے تراجم پڑھ کر اردو زبان میں کسی قدر مہارت حاصل کی۔

    اس عرصہ کے دوران میرے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ میں اردو لٹریچر تک رسائی حاصل کرسکتا۔ البتہ جب میں نے فوج کی ملازمت کے بعد اورینٹل کالج آف لندن میں داخلہ لیا تو اردو کی بابت میرے اشتیاق نے مجھے اردو میں ڈگری حاصل کرنے پر اکسایا۔ چنانچہ 1949ء میں اردو اور معاون زبان کے طور پر سنسکرت میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک سال کے لیے مجھے لیکچرار کی آفر ہوئی جو میں نے بخوشی قبول کر لی۔

    اس کے بعد میں تعلیمی چھٹیوں پر انڈیا اور پاکستان کے دورے پر چلا گیا۔ میرا زیادہ وقت علی گڑھ میں گزرا جہاں اس وقت کے عالم، ادیب اور اسکالر کے ساتھ تبادلۂ خیال کرتے کرتے میری اردو کافی بہتر ہو گئی۔ یہیں میری دوستی جناب خورشید اسلام سے ہوئی۔

    1953ء تا 1956ء کے دوران خورشید اسلام کے ساتھ میں بطور "OVERSEAS LECTURER” منسلک رہا۔ اس عرصے میں ہم دونوں نے مل کر یہ طے کیا کہ ہم مشترکہ طور پر، ایک ایسی سلسلے وار کتاب تحریر کریں جس کی مدد سے انگلش بولنے والے لوگ اردو ادب بالخصوص مغل دور کے اہم شعرا کے علاوہ غالب کی بابت تفصیل سے معلومات حاصل کر سکیں۔

    میں نے اپنی تقرری کے دوران تعلیمی نصاب میں بہتری کا عمل جاری رکھا اور ایک کورس ترتیب دے کر اپنی یونیورسٹی کے طلبا کی آسانی کے لیے 1980ء میں "آسان اردو” کے نام سے شائع کرایا اور کیسٹ کے ذریعے بھی عام کیا۔

    1981ء میں "اردو نظم کے خاص میزان” کے نام سے بھی ایک کتاب شائع ہوئی۔ اس کے بعد بالغ انگریزوں کے لیے ایک ایسا کورس ترتیب دیا جس کی مدد سے وہ ہندوستان میں بسنے والے بچوں اور بڑوں کے ساتھ آسان اردو میں گفتگو کر سکیں۔ یہ قصہ 1981ء میں میری قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا ہے۔ جب میں یونیورسٹی سے ہٹ کر عام لوگوں کو وال تھم فوریسٹ، برمنگھم، بلیک برن، شوالے اور شیفیلڈ میں اردو سکھانے جایا کرتا تھا۔

    میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت عام لوگوں کو اردو سیکھنے کے لیے جو کورس میں نے ترتیب دیا تھا وہ ابتدائی مرحلے کا تھا مگر مجھے امید تھی کہ یہ ان اسکولوں میں بھی پڑھایا جائے گا جہاں میں اور میرے ساتھی اردو پڑھانے جایا کرتے تھے۔ اس کورس کا نام "FOR LEARNERS IN BRITIAN” تھا۔ اگر یہ کورس ہندوستان اور پاکستان میں ابتدائی اردو سیکھنے والوں کے لیے استعمال میں لایا جاتا تو ذخیرۂ الفاظ کے باعث کافی مفید ہوتا۔

    اہم تصانیف، مضامین اس میں شامل نہیں ہیں۔

    1۔ اپنی پہلی دو کتابیں میں خورشید الاسلام کے ساتھ مل کر لکھیں۔ پہلی کتاب کا عنوان تھا۔
    Three Mughal Poets: Mir, Sauda, Mir Hasan

    اس کتاب کو Harvard University Press,USA نے 1968ء میں شائع کیا۔ اس کا برطانوی ایڈیشن Allen and Unwin نے 1969ء میں شائع کیا۔

    2۔ Ghalib: Life and Letters
    اس کتاب کے بھی دو ایڈیشنز نکلے۔ اسے بھی Harvard University Press اور Allen and Unwin نے شائع کیا۔

    باقی درج ذیل کتابیں میری اپنی ہیں۔

    3۔ The Pursuit of Urdu Literature: A Select History
    اسے انگلینڈ میں Zed Press اور ہندوستان میں Oxford University Press, India نے 1992ء میں شائع کیا۔

    4۔ An Anthology of Urdu Literature
    اسے انگلینڈ میں Carcanet نے اور ہندوستان میں Viking نے شائع کیا۔
    یہ کتاب پہلی بار 1995ء میں شائع ہوئی، اور اس کا عنوان رکھا گیا: Hidden in the Lute
    بعد میں عنوان بدل کر An Anthology of Urdu Literature کر دیا گیا اور اس کا پیپر بیک ایڈیشن 1999ء میں شائع ہوا۔

    5۔ غالب کی فارسی غزلوں سے انتخاب: ترجموں کے ساتھ
    اس کتاب میں غالب کے فارسی اشعار کے ساتھ افتخار احمد عدنی کا اردو ترجمہ اور میرا انگریزی ترجمہ شامل ہے۔ آمنے سامنے کے صفحات پر ایک طرف انگریزی ترجمہ اور ایک طرف فارسی متن اور اس کا اردو ترجمہ دیا گیا ہے۔ یہ کتاب پاکستان رائٹرز کوآپریٹو سوسائٹی نے انجمن ترقیٔ اردو پاکستان کے تعاون سے 1997ء میں شائع کی۔

    6۔ The Famous Ghalib
    اس کتاب کو Roli Books نے ہندوستان سے 2000ء میں شائع کیا۔ اس میں غالب کی اردو غزلوں کا انتخاب اور اس کا انگریزی ترجمہ شامل ہے۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اشعار کا متن اردو، دیوناگری اور رومن میں دیا گیا۔

    7۔ How Not to Write the History of Urdu Literature and Other Essays on Urdu and Islam

    اسے Oxford University Press, India نے 1999ء میں شائع کیا۔

    8۔ The Oxford India Ghalib: Life, Letters and Ghazals
    یہ کافی ضخیم کتاب ہے اور 572 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں سے اکثر چیزیں وہ ہیں جو پہلے بھی شائع ہو چکی تھیں لیکن آخری حصے میں غالب کی فارسی شاعری پر الیساندرو بوسانی (Alessandro Bausani) کا مضمون ہے اور فارسی غزلوں کا انتخاب اور میرا انگریزی ترجمہ شامل ہے۔ یہ کتاب Oxford University Press, India سے 2003ء میں شائع ہوئی۔

    9۔ The Seeing Eye: Selection from the Urdu and Persian Ghazals of Ghalib
    یہ کتاب الحمرا، پاکستان نے 2003ء میں شائع کی۔ اس میں غالب کی اردو اور فارسی غزلوں کا وہی انتخاب اور ترجمہ ہے جو Oxford India Ghalib میں ہے لیکن اس میں انگریزی ترجمے کے ساتھ اردو اور فارسی متن شامل نہیں ہے۔

    10۔ اردو ادب کی جستجو
    یہ The Pursuit of Urdu Literature کا اردو ترجمہ ہے جو محمد سرور رِجا نے کیا ہے۔ اسے انجمن ترقی اردو پاکستان نے 2003ء میں شائع کیا۔

  • انگریزی کے مشہور شاعر اور نقّاد ٹی ایس ایلیٹ کا تذکرہ

    انگریزی کے مشہور شاعر اور نقّاد ٹی ایس ایلیٹ کا تذکرہ

    1917ء سے 1964ء تک ٹی۔ ایس ایلیٹ انگریزی ہی نہیں عالمی ادب میں‌ بھی ایک عظیم شاعر اور نقّاد کے طور پر پہچان بنانے میں‌ کام یاب رہا۔ وہ 4 جنوری 1965ء کو 77 سال کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوگیا تھا

    انگریزی زبان کا یہ مشہور شاعر اور نقّاد 1888ء میں‌ سینٹ لوئیس، امریکا میں پیدا ہوا۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں انگریزی ادب کا پروفیسر مقرر ہوگیا۔ 1915ء میں وہ برطانیہ چلا گیا اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

    ٹی ایس ایلیٹ نے 1922ء میں ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا جو آٹھ سال بعد ہو گیا۔ اسے 1948ء میں ادب کا نوبل پرائز دیا گیا۔ اگرچہ اس کے افکار اور مضامین پر اسے کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن ادب پر اس کی تنقید کے اثرات کم نہیں‌ ہوئے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں شاعری کا پروفیسر مقرر ہو گیا۔ اس وقت تک وہ اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کے سبب مشہور ہوچکا تھا۔ اس نے متعدد منظوم ڈرامے لکھے اور اپنے تنقیدی نظریات کے سبب دنیا بھر میں‌ نام کمایا۔

    اس نے اپنے زمانۂ طالبِ علمی ہی میں تنقیدی مضامین لکھنا شروع کر دیے تھے اور جب ”روایت اور انفرادی صلاحیت“ کے عنوان سے مضمون سامنے آیا تو اس نے کئی مباحث کو جنم دیا۔ اس کی تحریروں میں مذہب اور معاشرے کی تہذیبی و اخلاقی اقدار کو اہمیت دی گئی ہے۔ ایلیٹ روایت کا دلدادہ تھا۔ اسے رومانوی شاعری سے نفرت تھی۔

    معروف ادیب، محقّق اور نقّاد جمیل جالبی نے لکھا کہ ”ایلیٹ سے میری دل چسپی کا سبب یہ ہے کہ اس نے تنقید میں فکر کو جذب کر کے اسے ایک نئی قوّت دی ہے، اس لیے ان کی تنقید تاثراتی نہیں ہے اور اس کا طرزِ تحریر، تجزیہ و تحلیل حد درجہ سائنٹفک ہے۔ وہ اپنے خوب صورت جمے ہوئے انداز میں ٹھنڈے ٹھنڈے باوقار طریقے سے بات کرتا ہے۔ قدیم شعراء میں سے چند کو خاص دل چسپی کا محور بنا لیتا ہے۔ اور وہ ایسے شعراء ہیں جنھوں نے ماضی سے شدّت کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑا ہے۔“

  • وہ مشہور ڈکشنری جس کی اشاعت نے ایک نواب کو خفّت سے دوچار کردیا

    وہ مشہور ڈکشنری جس کی اشاعت نے ایک نواب کو خفّت سے دوچار کردیا

    1747ء میں انگریزی زبان کی ایک محققانہ ڈکشنری کی تالیف کا ارادہ کرکے جونسن صاحب نے ایک ممتاز ناشر رابرٹ ڈوڈسلے کے ساتھ گفت و شنید شروع کی تھی۔

    ڈوڈسلے نے مشورہ دیا کہ اس ڈکشنری کا انتساب لارڈ چیسٹر فیلڈ کے نام مناسب اور فائدہ مند رہے گا۔ جونسن صاحب اس لارڈ کو سلام کرنے پہنچے۔ لاٹ صاحب نے مربیانہ وتیرے کے ساتھ دس پاؤنڈ کی بھیک دی۔ کچھ مدّت بعد جونسن صاحب پھر حضور کو سلام کرنے ان کے دولت کدے پر حاضر ہوئے، لیکن افسوس، اب کے بار یابی نہ ہوئی۔ بد دل ہو کر انہوں نے لاٹ صاحب کے نام ڈکشنری معنون کرنے کا ارادہ فسخ کر دیا۔

    اس ڈکشنری کی تالیف پر آپ نے آٹھ برس (1747ء تا 1755ء) سے زیادہ صرف کیے۔ انگریزی کی یہ پہلی ڈکشنری نہ تھی، اس سے پہلے اس کی ایک ڈکشنری نتھینیل بیلی (Nathaniel Bailey) نے تالیف کر کے شائع کی تھی۔

    یورپ کی بیش تر زبانوں کے الفاظ بکثرت لاطینی اور یونانی زبانوں اور دیگر (مقامی) بولیوں سے مُستعار ہیں۔ بیلی اور جونسن دونوں نے اپنی ڈکشنریوں میں الفاظ کے معانی بتاتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ الفاظ کن زبانوں سے مستعار ہیں اور کن لفظوں سے مُشتق ہیں۔

    اکثر طالبانِ علم جب ڈکشنریوں سے اپنا کام نکالتے ہیں تو شاذ ہی خیال کرتے ہیں کہ ایک قابلِ اعتبار ڈکشنری کی تالیف کیسی صبر آزما جاں فشانی چاہتی ہے۔ انگریزی سے اُردو اور اُردو سے انگریزی میں ترجمہ کرتے ہوئے مجھے عربی، فارسی، انگریزی اور اُردو کی ڈکشنریوں کی ضرورت قدم قدم پر پڑتی رہی ہے، ان کے مؤلّفوں کی احسان مندی کا گہرا احساس میرے دل میں رہتا ہے۔ ان کی عرق ریزیوں کے بغیر تہذیب کی ترقّی ممکن نہ ہوتی۔

    انگلستان کی ادبی اور علمی زندگی میں جونسن صاحب کی ڈکشنری کی اشاعت ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ 1755ء میں یہ طبع ہو کر بازار میں آئی تو اس کی دھوم مچ گئی۔ جونسن صاحب کا بول بالا ہوا تو لارڈ چیسٹر فیلڈ کو خفّت ہوئی، حضور نے پاشا پن کے ساتھ اس ڈکشنری کے مؤلف سے حقارت اور بے التفاتی کا سلوک کیا تھا اور مُربّی کہلانے کا موقع کھو دیا تھا۔

    اب خفّت دور کرنے کے لیے انہوں نے ایک اخبار میں ڈکشنری کی تقریظ مربّیانہ زعم کے ساتھ شائع کرائی۔ اسے پڑھ کر جونسن صاحب کو طیش آیا اور انہوں نے لاٹ صاحب کو ایک طنز آمیز خط لکھا جو بَوزویل نے جونسن صاحب کی سوانح عمری میں نقل کر کے محفوظ کر دیا ہے، یہ خط یہاں نقل کیا جاتا ہے۔

    بخدمت عزّت مآب جناب لارڈ چیسٹر فیلڈ
    حضورِ والا!
    حال ہی میں رسالہ ورلڈ (World) کے مالک نے مجھے اطلاع دی ہے کہ دو کالم جن میں پبلک کی توجہ تعریف کے ساتھ میری ڈکشنری کی طرف دلائی گئی ہے حضور کے قلم سے ہیں۔ اکابر کی کرم فرمائیوں کا تجربہ مجھے کبھی میسّر نہیں ہوا، چنانچہ مجھے ٹھیک معلوم نہیں کہ یہ اعزاز جو مجھے بخشا گیا ہے اسے کن آداب کے ساتھ وصول کروں اور کن الفاظ میں اس کی رسید دوں۔

    آغاز میں جب ذرا سی حوصلہ افزائی کے آثار دیکھ کر میں حضور کے دولت کدے پر حاضر ہوا حضور سے ہم کلامی کی مسحور کن تاثیر کا خیال میرے جی میں اُسی طرح تھا جیسے ساری خلقِ خدا کے دلوں میں تھا۔ اور یہ تمنّا میرے دل سے دور نہ ہوتی تھی کہ میں ”فاتحِ کرّۂ ارض کا دل جیتنے والا“ کہلاؤں۔ لیکن میری پذیرائی ایسی حوصلہ شکن تھی کہ جبہ سائی جاری رکھنے کی اجازت مجھے نہ اپنی خود داری سے ملی نہ اپنی خاک ساری سے۔

    ایک بار جب پبلک کی موجودگی میں، مَیں حضور سے مخاطب ہوا تو میں خوشامد کے وہ سارے کرتب کام میں لایا جو ایک گوشہ گیر دربار ناآشنا اسکالر کے بس میں تھے، حضور کی عنایت کے حصول کے لیے جو کچھ مجھ سے بن آیا میں نے کیا، ایسی پوری کوشش سے خواہ وہ حقیر ہی کیوں نہ ہو بے اعتنائی کی برداشت کسی انسان کو نہ ہو گی۔

    جنابِ والا، آج سے سات برس پہلے میں حضور کی حویلی کے آستانے پر باریابی کا منتظر رہا اور دھتکارا گیا۔ سات برسوں کی اس مدّت میں بندہ اپنی ساری توانائی صرف کرکے جن دشواریوں کا مقابلہ کر کے اپنے کام میں لگا رہا، ان کی شکایت اب بے سود ہے، بغیر کسی مربیانہ امداد اور حوصلہ افزائی کے اور بغیر کسی متبسّم تشویق کے میں نے یہ کام کر ڈالا اور اسے اشاعت کی منزلِ مقصود تک پہنچایا، کہ سابق میں کسی مُربیّ سے تعلق کا مجھے تجربہ نہ ہوا تھا۔

    وَرجِل (زرعی گیت) میں گڈریا بالآخر محبّت آشنا ہوا، لیکن اس کا محبوب چٹانوں کا زائیدہ نکلا۔

    حضور والا! کیا مُربیّ اُسی شخص کو کہتے ہیں جو کسی مصیبت زدہ کو ڈوبنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھ کر لاپرواہی سے کنارے پر کھڑا رہے اور جب وہ بچارہ مصیبت کا مارا اپنی ہمّت سے خشکی پر آن پہنچے تو مدد کے دکھاوے کے لیے اس کی طرف تیزی سے بڑھ کر اُس کے آرام کے سانس میں مُخل ہو؟ میری محنتوں کو آپ نے جس التفات سے اب نوازا ہے یہ التفات اگر آپ نے سابق میں فرمایا ہوتا تو میں اسے مہربانی سمجھتا، لیکن اس میں اتنی تاخیر ہوئی ہے کہ اب میری طبیعت کی ویرانی کو اور میری گم نامی کو دور کرنے میں اس کی کوئی کارفرمائی نہیں۔

    اب جب کہ مجھے نام وری حاصل ہو گئی ہے تو میں اس نوٹس کا محتاج نہیں، اگر ایک شخص جس پر کوئی کرم نہیں کیا گیا ممنونیت کا اظہار نہ کرے تو اسے بد خُلقی کوئی نہ کہے گا، مشیتِ ایزدی نے مجھے اپنے استقلال اور اپنی محنت سے ایک ہمّت آزما کام سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی، کسی مُربیّ کے احسان کا اس میں کوئی دخل نہیں۔

    کسی مُربیّ کی مہربانی کے بغیر میں اپنے کام میں لگا رہا۔ اگر بے اعتنائی مزید ہوتی رہی تو یوں ہی سہی، ایک وہ زمانہ تھا، جب میں فخر و مباہات کے ساتھ مربّیوں کے کرم کا خواب دیکھا کرتا تھا، پھر تجربے نے میری آنکھیں کھول دیں۔

    حضور کا نہایت ناچیز اور نہایت تابع دار خادم
    سَیم جَونسن
    فروری 1755ء

    (علمی و ادبی شخصیت اور معروف اسکالر داؤد رہبر کے مضمون سے انتخاب)

  • مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    آسکر وائلڈ کی ادبی تحریریں اسلوبِ بیان اور ندرتِ ادا کے لحاظ سے بے حد دل کش تسلیم کی گئی ہیں۔ اس کی یہ خصوصیت اس کے ڈرامے میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ وہ شاعر بھی تھا، لیکن ڈرامہ نویسی میں اس نے بڑا نام و مقام پیدا کیا اور مقبول ہوا۔

    آسکر وائلڈ کا تعلق آئرلینڈ سے تھا۔ اس کے والد سَر ولیم وائلڈ مشہور ڈاکٹر تھے جب کہ والدہ جین وائلڈن ڈبلن کی مشہور شاعرہ اور ادیب تھیں۔ 1854ء میں دنیا میں آنکھ کھولنے والے آسکر وائلڈ کی پہلی معلّمہ اس کی والدہ تھی جنھوں نے اس کی بنیادی تعلیم و تربیت کے ساتھ اسے باذوق اور کتاب دوست بھی بنایا۔

    آسکر وائلڈ کی ادب میں دل چسپی نے اسے کالج تک پہنچتے ہوئے شاعر بنا دیا تھا۔ جب اسے زمانۂ طالبِ علمی میں اپنی ایک نظم پر انعام ملا تو اس کا خاصا شہرہ ہوا۔

    1878ء میں آسکر وائلڈ کی ملاقات ادب کے پروفیسر رسکن سے ہوئی جنھوں نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔1881ء میں آسکر وائلڈ کی چند نظموں کا ایک مجموعہ شایع ہوا اور 1891ء تک وہ ڈرامہ نویسی کی طرف مائل ہوچکا تھا۔ اس نے رزمیہ اور بزمیہ ڈرامے لکھے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    آسکر وائلڈ نے اپنے زمانے کی مختلف ادبی اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں ناول، مضمون نگاری اور ڈرامہ نویسی شامل ہیں۔ اس نے آرٹ اور تخلیقی ادب کے حوالے سے لیکچرز بھی دیے اور امریکا و کینیڈا کا دورہ کیا جہاں اسے ایک نثر نگار کی حیثیت سے اپنے افکار و خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا۔

    1890ء کی دہائی کے آغاز میں آسکر وائلڈ لندن کا سب سے مشہور ڈراما نگار بن چکا تھا۔ اسے جرمن اور فرانسیسی زبانوں‌ پر بھی عبور حاصل تھا۔

    اس کی جدّتِ طبع اور شگفتہ نگاری خصوصاً مغالطہ آمیز مزاح کے علاوہ چھوٹے چھوٹے خوب صورت جملے اور شگفتہ و برجستہ فقرے اس کی انفرادیت ہیں۔ نقّادوں کے مطابق انشا پردازی میں اس کا مخصوص رنگ ایسا ہے جس کا تتبع آسان نہیں۔ اس نے اپنے سحر نگار قلم سے قارئین اور ناقدین دونوں کو متاثر کیا۔

    برطانوی ہند میں آسکر وائلڈ کی تخلیقات کا اپنے وقت کے بلند پایہ ادیبوں اور تخلیقی شعور کے حامل ماہر مترجمین نے اردو ترجمہ کیا جس نے یہاں قارئین کو اس کی تخلیقات سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا اور اس کے افکار و اسلوب سے متعارف کروایا۔

    آسکر وائلڈ کی زندگی کے آخری ایّام بڑی مصیبت اور مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے گزرے جس میں‌ اکثر اسے پیٹ بھر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ ایک بیماری نے اس کے دماغ اور اس کے نتیجے میں‌ ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کیا تھا، جس سے وہ اذّیت میں‌ مبتلا ہوگیا اور اپنے بیٹے کے گھر پڑا زندگی کے دن گنتا رہا۔ 1900ء میں آج ہی کے دن 46 سال کی عمر میں‌ آسکر وائلڈ کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔

  • مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن جو امریکا کا مقبول ترین ناول نگار بنا

    مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن جو امریکا کا مقبول ترین ناول نگار بنا

    ایک وقت تھا جب پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جیک لندن گھروں سے روٹیاں مانگ کر کھایا کرتا تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب قسمت نے یاوری کی اور علمی و ادبی تقاریب میں لوگ اسے دیکھتے تو آٹو گراف لینے کے جمع ہوجاتے۔ دنیا بھر میں اسے ایک باکمال تخلیق کار کے طور پر شہرت ملی۔

    وہ اپنے دور کا مقبول ترین ناول نگار بنا۔ شہرت اور مقبولیت کے ساتھ دولت کی دیوی بھی پر جیک لندن پر مہربان ہوئی۔ اسے ایک صحافی کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

    روس اور جاپان کی جنگ کے دوران جیک لندن اخباری نمائندہ بن گیا۔ 1914ء میں جنگی خبر رساں بن کر میکسیکو پہنچا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس نے نہایت مختصر عمر پائی، لیکن ایک ولولہ انگیز، ترنگ اور امنگ سے بھرپور زندگی گزاری جس میں اس نے سب سے بڑی کام یابی ایک ناول نگار اور رائٹر کے طور پر حاصل کی۔

    جیک لندن نے 12 جنوری 1876ء کو سان فرانسسکو، امریکا کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کی فطرت میں‌ تجسس کا مادّہ اور طبیعت میں مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ اس نے کئی معمولی اور گھٹیا سمجھنے جانے والے ایسے کام کیے جس سے ایک وقت کی روٹی حاصل ہو جاتی، اور غربت اور فاقوں سے تنگ آکر چوری، لوٹ مار کے لیے ایک گروہ کا رکن بننا بھی قبول کرلیا، اسی طرح کبھی وہ سونے کی تلاش میں نکلا تو کہیں سمندر سے موتی نکالنے کے لیے جتن کیے۔

    17 سال کا ہوا تو بحری جہازوں پر ملازمت اختیار کرلی اور جاپان کا سفر کیا۔ اس نے زندگی میں‌ بہت سے سنسنی خیز، انوکھے تجربات کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ جیک لندن گھر بار کب کا چھوڑ چکا تھا اور در بدر پھرتا تھا۔ کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کاٹی، وہ خود بھی نہیں‌ جانتا تھا۔ اکثر فاقے کرنے پر مجبور ہو گیا اور کبھی مانگ کر اپنا پیٹ بھر لیا۔ اس کا تر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزرا۔

    وہ ذہین تھا اور حافظہ اس کا قوی۔ اس نوجوان نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی تھی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھ سکا تھا، وہ 19 سال کی عمر میں‌ اس وقت کام آیا جب اس نے پڑھائی شروع کی۔ اس نے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا اور پھر اسے جیسے پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جنون ہی ہو گیا۔ وہ ناولوں‌ میں‌ گم ہوگیا اور سوچا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔

    1900ء میں اس کی وہ کہانیاں منظرِ عام پر آئیں جو اس کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی تھیں اور اسے جیک لندن نے دل چسپ انداز میں کاغذ پر اتار دیا تھا۔ یہ کہانیاں رسالوں میں شایع ہوئیں۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جو بہت مشہور ہوئیں۔ اب وہ جم کر لکھنے لگا۔ اس نے کتّوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اور اتنی عمدہ کہانیاں تخلیق کیں جن کا ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ بعض کہانیاں اس کی اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی ہیں، جن میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    جیک لندن کو اس زمانے میں کہانیوں کا معقول معاوضہ ملنے لگا۔ اس نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ رقم کی ہے۔

    1916ء میں‌ آج ہی کے دن یہ ناول نگار دنیا سے رخصت ہوگیا۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔

  • جان ملٹن: انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ

    جان ملٹن: انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ

    اگر دنیا کے بڑے شاعروں‌ میں سے صرف بارہ کا انتخاب کیا جائے اور اس میں ملٹن کو شامل نہ کیا جائے تو یہ فہرست نامکمل رہے گی۔ جہاں تک انگریزی شاعری کا تعلق ہے ملٹن اس کے عناصرِ اربعہ یعنی چار اوّلین اکابر میں سے ایک ہے۔

    ملٹن نے جس فضا میں پرورش پائی وہ علمی اور فنی شوق اور تہذیبی نفاستوں کی فضا تھی جو حق پرستی اور حریّت پسندی کے جذبے سے بھی معمور تھی۔

    اُس نے گھر میں ایک صحت مند ماحول پایا اور لوگ ملٹن کے باپ کو راست گو، دیانت دار اور باشعور مانتے تھے جب کہ اس کی ماں‌ کو ایک سخی اور دردمند عورت کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اپنے علم و ادب اور شعور و آگاہی کے سفر کی بابت خود ملٹن کا کہنا ہے کہ یہ سب اس کے باپ کی بدولت ممکن ہوا جس نے اپنے بیٹے کے رجحان اور صلاحیتوں کو پہچان کر نہ صرف اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی بلکہ اسے ہر سہولت بھی فراہم کی۔ ملٹن لکھتا ہے کہ مجھے علم کا ایسا ہوکا تھا کہ بارہ سال کی عمر ہی سے میں مشکل ہی سے کبھی آدھی رات سے پہلے پڑھنا چھوڑ کر بستر پر گیا ہوں گا۔

    جان ملٹن عمر کے ایک حصّے میں‌ اپنی بینائی سے محروم ہوگیا تھا۔ اس بابت وہ لکھتا ہے کہ شروع ہی سے میری آنکھیں‌ کم زور تھیں اور میں اکثر دردِ سَر میں‌ مبتلا رہتا تھا، لیکن اس کے باوجود میں نے ہرگز مطالعے کا شوق، تحقیق کی لگن اور غور و فکر کی عادت کو ترک نہیں کیا۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں ملٹن اپنی علمی فضیلت، وسعتِ مطالعہ اور اچھوتے خیالات کی وجہ سے ہم جماعتوں‌ میں‌ نمایاں‌ رہا۔ کالج کے دور مین ملٹن کو خدا اور مذہب سے متعلق اپنے خیالات، عقائد اور بعض نظریات کی وجہ سے ناپسندیدگی کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن اس نے اپنا سفر جاری رکھا اور ڈگری لینے میں کام یاب رہا۔ اس وقت تک وہ شاعری کا سلسلہ شروع کرچکا تھا جب کہ متعدد زبانوں پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔

    اسے انگریزی زبان کا عظیم شاعر مانا گیا اور وہ انگلستان میں ادب کا روشن ستارہ بن کر ابھرا۔ 17 ویں صدی کے اس مشہور شاعر کی نظم "فردوسِ گم گشتہ” اور "فردوسِ باز یافتہ” دنیا بھر میں مقبول ہیں اور متعدد زبانوں میں ان کے تراجم کیے جاچکے ہیں۔

    اس کی یہ رزمیہ شاعری انگریزی ادب کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔اس نظم میں ملٹن انسان کی نافرمانی اور جنت سے نکالے جانے کا احوال بیان کرتا ہے۔ اس نظم میں اس نے خدا، انسان اور شیطان سے مکالمہ کیا ہے۔

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی ملٹن کی نظم فردوسِ گم گشتہ سے بے حد متاثر تھے اور انھوں نے اسی طرز پر رزمیہ نظم لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس بابت وہ اپنے ایک مکتوب بنام منشی سراج الدین میں لکھتے ہیں کہ:

    ‘‘ملٹن کی تقلید میں لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے۔ اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔پانچ چھے سال سے اس آرزو کی دل میں پرورش کر رہا ہوں، مگر جتنی خوہش آج کل محسوس کر رہا ہوں اس قدر کبھی نہ ہوئی۔ مگر روزگار سے نجات ملتی ہے تو اس کام کو باقاعدہ شروع کروں گا۔’’

    جان ملٹن 9 دسمبر 1608ء کو لندن میں پیدا ہوا۔ وہ انگریزی اور لاطینی زبانوں کا ماہر تھا۔ ذخیرۂ الفاظ سے مالا مال جس کا شاعری میں مخصوص طرزِ بیان، جذبات اور اچھوتے خیالات کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ سترھویں صدی کی غنائیہ نظموں میں شاید ہی کسی نے ایسا انگریزی ادب تخلیق کیا ہو۔ اُس نے شیکسپیئر کی رومانی مثنوی، ڈرامائی عناصر اور طنز و مزاح کا گہرا مطالعہ کیا اور وہ ادبی ماحول پیدا کیا جو اسی سے منسوب ہے۔

    ملٹن کی 1646ء میں جب کتاب شائع ہوئی تو وہ 38 سال کا تھا۔ کئی جلدوں پر مشتمل اپنی رزمیہ شاعری میں ملٹن نے قدیم داستانوں، روایت اور مافوق الفطرت کے کارناموں کا جو تذکرہ ہے، اس میں مذہبی عقائد اور روزِ ازل سے متعلق تصورات کو اس نے موثر اور دل کش پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ملٹن نے انگریزی کے علاوہ لاطینی زبان میں بھی نظمیں تخلیق کیں۔

    وہ ایک مصلح اور سیاست کار بھی تھا جس نے مختلف اصولوں، ضابطوں کو نام نہاد اور فرسودہ قرار دیتے ہوئے فرد کی آزادی کو سلب کرنے والے قوانین کے خلاف بھی لکھا۔ اس نے نثر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بیک وقت مذہبی اور سیاسی انقلابات پر لکھا۔

    جان ملٹن 8 نومبر 1674 کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے چلا گیا۔

  • نوبل انعام یافتہ ادیب اور نقّاد جارج برنارڈ شا کا تذکرہ

    نوبل انعام یافتہ ادیب اور نقّاد جارج برنارڈ شا کا تذکرہ

    بیسویں صدی کے نوبل انعام یافتہ ڈراما نویس، ناول نگار اور نقّاد جارج برنارڈ شا نے 2 نومبر 1950ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج اس مفکّر، عورتوں کے حقوق کے زبردست حامی اور تھیٹر کی تاریخ کی نام وَر شخصیت کا یومِ وفات ہے۔

    جارج برنارڈ شا آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں پیدا ہوا۔ اس کا سنِ پیدائش 1856ء ہے، وہ 15 سال کی عمر میں لندن آیا اور پھر لندن کا ہو کر رہ گیا۔ اس کا باپ شرابی تھا، لیکن ماں‌ موسیقی کے فن میں‌ طاق تھی اور خوب صورت آواز کی مالک تھی۔ اس نے اپنے شرابی شوہر کو چھوڑ دیا اور بچّوں کے ساتھ لندن چلی گئی جہاں گھر چلانے کے لیے لوگوں کو موسیقی سکھانا اور اوپیرا میں گیت گانا شروع کردیا۔ یوں‌ برنارڈ شا کو بھی فنونِ لطیفہ، ادب اور موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوا تاہم وہ لکھنے لکھانے میں زیادہ دل چسپی رکھتا تھا۔ اس نے اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہوئے ذہانت سے بہت کچھ سیکھا اور کتابوں سے دوستی نے اس کا علم بڑھایا جو بعد میں اس کے کام آیا۔

    برنارڈ شا لندن گیا تو اس کی جیب خالی تھی۔ اس نے لائبریریوں اور میوزیم میں وقت گزارا، علمی و ادبی مباحث میں‌ شریک رہا، اور پھر ایک دن سوچا کہ وہ ناول لکھ سکتا ہے۔ اس نے ناول لکھے، لیکن مایوسی اس کا مقدر بنی اور کسی نے اسے نہ سراہا، تب موسیقی کا فن اس کے کام آیا جو اس نے اپنی ماں سے سیکھا تھا۔ اسی زمانے میں‌ وہ کالم نگاری کی طرف متوجہ ہوا اور موسیقی سے متعلق مضامین اور تبصرے کرنے لگا۔

    برنارڈ شا 1892ء تک مختلف اخباروں میں تبصرہ نگار، نقّاد اور مبصّر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ اس نے لندن کے مشہور اخبارات میں موسیقی پر کالم لکھے اور ادبی فن پاروں پر تبصرے کرنے لگا۔ اس کے قلم اور فقرے کی کاٹ بہت تیز تھی۔ بعد میں اس نے ڈرامے لکھنے کی طرف دھیان دیا۔

    اس کی پہلی تخلیق جو نیم خود نوشت کہی گئی "امیچوریٹی” کے نام سے شایع ہوئی جسے ابتدا میں لندن کے تمام پبلشروں نے شایع کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد چار ناول بھی مسترد کر دیے گئے۔ لیکن وہ ایک زبردست نقّاد اور ڈرامہ نویس کے طور پر تھیٹر کی دنیا میں نام وَر ہوا۔ اس کی تخلیقات کا دنیا کی متعدد زبانوں‌ میں‌ ترجمہ ہوا اور اس کے تحریر کردہ ڈراموں کو تھیٹر کے شائقین میں زبردست پذیرائی ملی۔

  • انگریزی زبان کی معروف ادیب، شاعر اور صحافی زیبُ النسا حمیدُ اللہ کی برسی

    انگریزی زبان کی معروف ادیب، شاعر اور صحافی زیبُ النسا حمیدُ اللہ کی برسی

    ادب اور صحافت میں زیبُ النسا حمیدُ اللہ صرف اسی لیے ممتاز نہیں کہ انھوں نے اپنے دور میں تخلیقِ ادب اور کارِ صحافت کے لیے انگریزی زبان کا انتخاب کیا جو دنیا میں سب سے زیادہ بولی اور پڑھی جاتی ہے بلکہ انھوں نے اس زبان میں اپنی جان دار تخلیقات اور شان دار صحافت کے سبب نام و مقام بنایا تھا۔

    وہ انگریزی زبان کی معروف ادیب، شاعر اور صحافی تھیں۔ انھوں نے کراچی سے انگریزی جریدے دی مرر کا اجرا کیا اور پہلی خاتون مدیر رہیں۔

    آج زیبُ النسا حمید اللہ کی برسی ہے۔ وہ سن 2000ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    کلکتہ ان کا وطن تھا جہاں وہ 25 دسمبر 1921ء کو پیدا ہوئیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھوں نے پاکستان ہجرت کی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت زرخیز ذہن کی مالک تھیں۔ انھوں نے اکتوبر 1951ء میں انگریزی جریدے دی مرر کا اجرا کیا۔ کراچی سے شایع ہونے والا یہ جریدہ اپنی معیاری تحریروں، مفید اور معلوماتی مضامین کی وجہ سے پاکستان بھر میں‌ مقبول ہوا۔ اس کی اشاعت کا سلسلہ 1972ء تک جاری رہا۔

    تقسیمِ ہند سے قبل ہی زیبُ النسا حمید اللہ مختلف ہندوستانی اخبار و جرائد میں اپنے مضامین کی وجہ سے پہچان بنا چکی تھیں۔ انھیں پہلی مسلمان کالم نویس بھی کہا جاتا ہے۔

    پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں اور انگریزی زبان و ادب کے قارئین میں‌ ان کی ادبی اور سماجی موضوعات پر تحریروں کے علاوہ شایع ہونے والے سیاسی کالم بہت مقبول ہوئے۔

    ان کے شعری مجموعے The Lotus Leaves اور The Flute of Memory کے نام سے شایع ہوئے۔