Tag: انگریزی ناول

  • "Untouchable” ایک اچھوت عورت کی دردناک کہانی

    "Untouchable” ایک اچھوت عورت کی دردناک کہانی

    مُلک راج آنند نے ہندوستان کے طبقاتی اور ذات پات پر مبنی نظام، پیچیدہ سماجی گروہ بندیوں کے سبب جنم لینے والے مسائل، لوگوں‌ کی مشکلات اور ان کی ذہنی اذیت اور نفیساتی حالت کو اپنے انگریزی زبان میں‌ لکھے گئے ناولوں‌ کا موضوع بناکر شہرت حاصل کی اور ادبی دنیا میں‌ مقام بنایا۔

    اَن ٹچ ایبل (Untouchable) ان کا انگریزی زبان میں‌ لکھا گیا وہ ناول ہے جو انھوں نے اپنی ایک عزیزہ کی خود کُشی اور اس کا سبب بننے والے حالات سے متاثر ہو کر لکھا تھا۔

    مُلک راج آنند 1905 میں‌ پشاور میں‌ پیدا ہوئے۔ امرتسر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1920 کے عشرے میں لندن اور کیمبرج کی یونیورسٹیوں میں زیرِتعلیم رہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد تین دہائیوں تک برطانیہ میں‌ رہنے والے اس ناول نگار نے تقسیمِ ہند کے بعد متعدد بھارتی جامعات میں‌ درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔

    مُلک راج آنند اپنے وقت کے نام ور تخلیق کاروں جارج آر ویل، ای ایم فوسٹر اور ہنری ملر کے رفقا میں‌ شامل تھے۔ 2004 میں‌ انگریزی زبان کے اس ناول نگار کی‌ زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔

    1935 میں مُلک راج آنند کا ناول اَن ٹچ ایبل منظرِ عام پر آیا اور ان کی شہرت کا سبب بنا۔ یہ ناول دراصل مُلک راج آنند کے ذاتی المیے کی عکاسی تھا۔

    واقعہ یہ تھا کہ ان کی ایک رشتے دار (آنٹی) کو صرف اس بنا پر باہر ہندو برادری سے خارج کردیا گیا تھا کہ اس نے ایک مسلمان کے ساتھ کھانا کھایا تھا۔ گھر والوں‌ اور عزیزوں‌ کے لعن طعن پر دل گرفتہ اس عورت نے تنگ آکر اپنی زندگی ختم کرلی۔ اس ناول کا کردار ایک گندگی صاف کرنے والی عورت ہے جس کو مصنف نے طبقاتی نظام اور اچھوتوں‌ کی زندگی بیان کرنے کے لیے چنا ہے۔

    مُلک راج آنند برطانیہ میں‌ رہے تھے اور وہاں‌ کے نظام و معاشرت کو قریب سے دیکھا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ ان کے ذہن نے اس تفریق، فرسودہ سوچ اور ظالمانہ سلوک کو قبول نہ کیا۔ انھوں‌ نے اپنا یہ دکھ اور اس المیے کو کہانی کی شکل دے دی۔

    اس ناول کا پیش لفظ مُلک راج آنند کے دوست اور مشہور ناول نگار ای ایم فوسٹر نے لکھا۔ اسے اس وقت کے ناقدین نے جذبات کی عمدہ عکاسی اور مشکل موضوع پر ایک فکرانگیز تخلیق قرار دیا تھا۔

    مُلک راج آئند کے دیگر ادبی تخلیقات میں ناول’قلی‘، ’ٹُو لیوز اینڈ اے بڈ‘ ’ دی ویلج‘ اور ’ایکراس دی بلیک واٹرز‘ شامل ہیں۔

  • شالنی جسے بشیر احمد کی تلاش مقبوضہ کشمیر لے گئی

    شالنی جسے بشیر احمد کی تلاش مقبوضہ کشمیر لے گئی

    یہ کہانی آپ کو جموں و کشمیر کے ایک دور دراز گاؤں تک لے جائے گی۔

    اس کی مصنف مادھوری وجے ہیں‌اور یہ انگریزی زبان میں‌ تحریر کردہ کہانی ہے۔ نوجوان ناول نگار کو ان کی تخلیق پر ادب کی دنیا کا نقد انعام 25 لاکھ روپے بھی دیا گیا ہے۔

    یہ ناول مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال میں ایک بار پھر زیرِ بحث آرہا ہے۔

    مادھوری وجے کا یہ ناول "دی فار فیلڈ” کے نام سے شایع ہوا تھا۔

    اس کہانی کا اسلوب اور انداز ایسا ہے کہ قاری ہندوستانی فوج کے کشمیریوں پر مظالم اور بربریت کو گویا خود دیکھ سکتا ہے۔ آئیے اس ناول کے مرکزی کردار شالنی سے ملتے ہیں۔
    شالنی زندگی کی تیس بہاریں دیکھ چکی ہے۔ اس کی پیدائش بنگلور کی ہے، لیکن اب وہ کشمیر جارہی ہے۔

    بنگلور میں اس کی ماں نے ہمیشہ کے لیے اسے الوداع کہہ دیا۔ اس کی موت کے وقت شالنی چوبیس برس کی تھی۔

    والدہ کی موت کا غم بھلانے کی کوشش کرتے ہوئے شالنی بنگلور ہی میں ملازمت کر لیتی ہے، لیکن ایک موقع پر برطرفی کے بعد وہ جموں و کشمیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس فیصلے کی وجہ بشیر احمد ہے جسے اس نے بچپن میں دیکھا تھا۔

    وہ ایک ٹیکسٹائل سیلز مین اور وجیہہ صورت مرد تھا۔ اب وہ اسے تلاش کرنا چاہتی ہے۔ شالنی کسی طرح مقبوضہ کشمیر پہنچ جاتی ہے۔ کہانی کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں رہائش کے دوران شالنی ہندوستانی فوج کے سپاہیوں سے خوف محسوس کرتی۔ وہ کشمیری عوام کے مسائل اور ان پر ظلم و ستم دیکھتی تو تڑپ اٹھتی تھی اور پھر اس نے ان کی کہانیاں بیان کرنا شروع کر دیں۔

    ناول کا یہ مرکزی کردار آسان اور سادہ زبان میں ایک ایسے خطے کے بارے میں قارئین کو بتاتا ہے جہاں ریاستی تشدد اور ظلم و ستم کی مختلف صورتیں عام ہیں اور زندگی سسک رہی ہے۔

    بھارت میں موجودہ حکومت کے متنازع شہریت بل اور مقبوضہ کشمیر کے خودمختار اور انتظامی امور سے متعلق بدترین فیصلوں کے بعد مادھوری وجے کے اس ناول کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔