Tag: انگریز راج

  • میرٹھ کے باغی اور خفیہ میٹنگ

    میرٹھ کے باغی اور خفیہ میٹنگ

    ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں 1857ء ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی نے اس کو شورش قرار دیا تو کسی نے غدر اور فوجی بغاوت سے تعبیر کیا۔ ملک کی آزادی کے بعد سے 1857ء کو آزادی کی پہلی جنگ یا قومی تحریک کے عنوان سے پکارا جاتا ہے۔ غرض کہ ڈیڑھ سو سال قبل 9 مئی 1857ء کو جو فوجی بغاوت میرٹھ سے شروع ہوئی وہ انقلاب کا پہلا نقیب اور جنگِ آزادی کی پہلی آواز تھا۔

    تاریخ اور ادب سے متعلق مزید تحریریں‌ پڑھیں

    ملکی اور غیر ملکی مؤرخ 1857ء کی بغاوت کی ماہیت کے بارے میں جتنی بھی بحث کریں لیکن ہندوستان کے عوام یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ میرٹھ کی یہ بغاوت ہماری قومی تحریک کا سر چشمہ ہے۔

    خود فیلڈ مارشل لارڈ رابرٹس نے تسلیم کیا ہے کہ ’’حکومتِ ہند کے سرکاری کاغذات میں مسٹر فارسٹ کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ کارتوسوں کی تیاری میں جو روغنی محلول استعمال کیا گیا تھا، واقعی وہ قابلِ اعتراض اجزاء یعنی گائے اور سؤر کی چربی سے مرکب تھا اور ان کارتوسوں کی ساخت میں فوجیوں کے مذہبی تعصبات اور جذبات کی مطلق پروا نہیں کی گئی۔

    1857ء کے اس خونیں انقلاب میں میرٹھ کے 85 بہادر سپاہیوں نے پوری دنیا کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد، جذبۂ ایثار، مادرِ وطن کی خاطر مذہبی اتحاد اور رواداری کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ گائے کا گوشت کھانے والے اور گائے کی پوجا کرنے والے، لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ کا کلمہ پڑھنے والے مسلمان اور منتروں کا جاپ کرنے والے ہندوؤں نے مل کر بغاوت کی۔

    میرٹھ چھاؤنی سے جو بھی سپاہی ملک کے کسی حصہ کی طرف کوچ کرتا تھا وہ نعرہ لگاتا ہوا کہتا تھا کہ ’’ بھائیو! ہندو اور مسلمانو!! انگریزوں کو اپنے ملک سے باہر کرو۔‘‘ انقلابیوں کے اس حقارت آمیز نعرے میں تین الفاظ اہمیت کے حامل ہوا کرتے تھے یعنی ’’ہندو اور مسلمان ‘‘۔ ان تین الفاظ میں اس بات کی تلقین کی جا رہی تھی کہ ہندو اور مسلمان مل کر یہ قومی جنگ لڑیں کیونکہ اس کے بغیر غلامی سے نجات نہیں ہو سکتی۔ اس اعلان کے بعد پورے ہندوستان میں انقلاب کی لہر دوڑ گئی۔

    میرٹھ کے فوجیوں میں انقلاب کی روح پھونکنے والا شخص عبداللہ بیگ نام کا ایک بر طرف فوجی افسر تھا جس نے اپنے ہم وطن فوجی ساتھیوں سے کہا تھا کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کارتوس تمہیں دیے جا رہے ہیں ان میں سؤر اور گائے کی چربی لگی ہوئی ہے اور سرکار تمہاری ذات بگاڑنے کی خواہش مند ہے۔ میرٹھ فوج کے دو مسلم سپاہی شیخ پیر علی نائک اور قدرت علی نے سب سے پہلے 23 اپریل 1857ء کی رات کو ملٹری میس میں ایک خفیہ میٹنگ کی اور اسی وقت ہندو اور مسلم فوجیوں نے مقدس گنگا اور قرآن شریف کی قسمیں کھا کر حلف لیا کہ وہ اس کارتوس کا استعمال نہیں کریں گے۔ 24 اپریل 1857ء کو فوجی پریڈ گراؤنڈ پر نوے فوجیوں میں سے 85 فوجیوں نے جن میں سے اڑتالیس مسلمان اور37 ہندو تھے کمپنی کمانڈر کرنل اسمتھ (Smyth) کے سامنے اعلان کر دیا کہ وہ چربی والے کارتوس اس وقت تک استعمال نہیں کریں گے جب تک کہ وہ پوری طرح مطمئن نہیں ہو جاتے۔ چنانچہ ایک فوجی عدالت میں ان سپاہیوں کو پیش کیا گیا اور جابر فوجی عدالت نے تمام سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی۔ سپاہیوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جو جنرل ہیوٹ (Hewitt) نے مسترد کر دی۔

    9 مئی 1857ء کو ہندوستانی رسالے کی پلٹن کو میدان میں آنے کا حکم دیا گیا۔ چاروں طرف توپ اور گورا فوج تیار کھڑی تھی۔ پچاسی سپاہیوں کو ننگے پاؤں پریڈ کراتے ہوئے میدان میں لایا گیا اور چار سپاہیوں کو وہیں گولی کا نشانہ بنا دیا گیا اور بقیہ اکیاسی سپاہیوں کی وردیاں پھاڑ کر اتار دی گئیں، فوجی میڈل نوچ لئے گئے اور وہاں پہلے سے موجود لوہاروں سے ان باغی سپاہیوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔

    جو سپاہی پلٹن میدان سے واپس آ گئے تھے ان میں نفرت اور غصہ پھوٹ رہا تھا اور انہوں نے 10 مئی کو اتوار کے دن جب سبھی انگریز فوجی افسر گرجا گھر میں اتوار کی عبادت کے لئے جمع ہو رہے تھے کہ یکایک چند جوشیلے نوجوانوں نے مشتعل ہو کر ہندوستانی سپاہیوں کی بیرکوں میں آگ لگا کر آزادی کی جد و جہد کا اعلان کر دیا۔ کرنل فینس (Finnis) سب سے پہلے ان انقلابی سپاہیوں کی گولی کا نشانہ بنے۔ اس کے بعد نو اور انگریزوں کو قتل کر دیا گیا جن کی قبریں آج بھی میرٹھ۔ رڑکی روڈ پر واقع سینٹ جونس سیمٹری میں اس تاریخی واقعہ کی یاد دلاتی ہیں۔ حالانکہ بہت سے مؤرخین نے ہزاروں انگریزوں کے قتلِ عام کا حوالہ دیا ہے مگر میرٹھ کے قدیمی مسیحی قبرستان میں صرف دس قبریں ہیں جو دس مئی کے واقعہ کی خاموش گواہ ہیں۔

    ان انقلابی فوجیوں میں جوش و جذبہ پیدا کرنے میں میرٹھ کے صدر بازار کی چار طوائف صوفیہ، مہری، زینت اور گلاب کو بھی بہت دخل ہے۔ ان فوجیوں کو ان طوائفوں نے ہی وطن پرستی کے لئے للکارا تھا اور اس طرح 1806ء میں قائم میرٹھ کی فوجی چھاؤنی دیکھتے دیکھتے ہی انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گئی۔

    ظہیر دہلوی لکھتے ہیں کہ ان عورتوں نے لعن و طعن و تشنیع سے پنکھا جھل جھل کر نارِ فتنہ و فساد کو بھڑکانا شروع کیا اور ان کی چرب زبانی آتشِ فساد پر روغن کا کام کر گئی۔ ان عورات نے مردوں کو طعنے دینے شروع کیے کہ تم لوگ مرد ہو اور سپاہی گری کا دعویٰ کرتے ہو مگر نہایت بزدل بے عزت اور بے شرم ہو۔ تم سے تو ہم عورتیں اچھی ہیں تم کو شرم نہیں کہ تمہارے سامنے افسروں کے ہتھکڑیاں، بیڑیاں پڑ گئیں مگر تم کھڑے دیکھا کئے اور تم سے کچھ نہ ہو سکا۔ یہ چوڑیاں تو تم پہن لو اور ہتھیار ہم کو دے دو ہم افسروں کو چھڑا کر لاتی ہیں۔ ان کلمات نے اشتعال طبع پیدا کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مردانگی کی آگ بھڑک اٹھی اور مرنے مارنے پر تیار ہو گئے۔ میرٹھ کے اس واقعہ نے عام بغاوت کی کیفیت پیدا کر دی تھی اور آگ کی طرح یہ خبریں پھیل گئیں تھیں۔ میرٹھ چھاؤنی کی اس چنگاری نے دیکھتے ہی دیکھتے شعلۂ جوالہ بن کر پورے برِ صغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    اسی دوران انقلابیوں نے میرٹھ سینٹرل جیل کے دروازے توڑ دیے، کھڑکیاں اکھاڑ پھینکیں اور ایک دن پہلے جیل میں قید اپنے ساتھیوں کو آزاد کرا لیا۔ ان کے ساتھ تقریباً بارہ سو قیدی بھی جیل سے نکل بھاگے۔ بعض قیدی ہتھکڑی اور بیڑی لگے ہوئے وہاں سے چل دیے اور عبداللہ پور، بھاون پور، سیال، مبارک پور ہوتے ہوئے مان پور پہونچے جہاں کسی نے انگریزوں کے ڈر کی وجہ سے ان کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹنے کی ہمت نہیں کی۔ وہاں مان پور گاؤں کے ایک لوہار مہراب خاں نے بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان قیدیوں کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹ ڈالیں اور ان ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کو کنویں میں ڈال دیا۔

    میرٹھ کے عالم مولانا سید عالم علی اور ان کے بھائی سید شبیر علی جو صاحبِ کشف بزرگ تھے، دل کھول کر ان باغی سپاہیوں کی مدد کی۔ شاہ پیر دروازے سے نوچندی کے میدان تک ہزاروں جوان سر بکف آتشِ سوزاں بنے ہوئے نبرد آزما دکھائی دے رہے تھے۔ یکایک کپتان ڈریک اسلحہ سے لیس ایک فوجی دستہ لئے ہاپوڑ روڈ پر نمودار ہوا اور ہجوم پر فائرنگ کر دی۔ یہاں زبردست قتلِ عام ہوا۔ 11 مئی1857ء کو بائیس حریت پسندوں کو نوچندی کے میدان میں پھانسی دے دی گئی جن میں سید عالم اور سید شبیر علی صاحبان بھی شامل تھے۔ شہر کے باشندے یہ خبر سن کر بھڑک اٹھے اور اسی دن سرکاری دفاتر کو نذر آتش کر دیا۔ انتظامیہ مفلوج ہو گئی۔ ہر طرف آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے اور دھوئیں سے آسمان نظر نہیں آ رہا تھا۔

    میرٹھ کے ممتاز شاعر مولانا اسمٰعیل میرٹھی جو خود اس ہنگامے کے عینی گواہ تھے ان کے بیٹے محمد اسلم سیفی اپنے والد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ دس مئی 1857ء کا واقعہ ہے۔ ماہ رمضان المبارک کی 14تاریخ اس دن تھی۔ پڑوس میں دعوت روزہ افطار کی تھی۔ مولانا اور دیگر اعزا اس میں شریک تھے۔ یکایک ہولناک شور و غل کی آوازیں بلند ہوئیں۔

    معلوم ہوا کہ جیل خانہ توڑ دیا گیا ہے اور قیدی بھاگ رہے ہیں۔ لوہار ان کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹنے میں مصروف ہیں۔ شہر کے لوگ سراسیمہ ہر طرف رواں دواں نظر آ رہے تھے۔ کثیر التعداد آدمی جیل خانہ کی سمت دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ مولانا کے قلب پر اس ہنگامہ کا بہت گہرا اثر ہوا۔ اس عظیم الشان ہنگامۂ دار و گیر کا تلاطم۔ دہلی کی تباہی کا نقشہ، اہلِ دہلی کا حالِ پریشان، ان باتوں نے مولانا کے دل و دماغ پر بچپن ہی میں ایسا گہرا اثر بٹھایا کہ آئندہ زندگی میں فلاح و بہبود و خلائق کے لئے بلا لحاظ دین و ملت یا ذات پات مصروفِ کار رہے۔‘‘ مولانا اسماعیل میرٹھی کے دل میں بھی آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی جس کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا ہے۔

    ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
    ہے وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
    جو ٹوٹی ہوئی جھونپڑی بے ضرر ہو
    بھلی اس محل سے جہاں کچھ خطر ہو

    (برصغیر کی تاریخ پر مبنی تحقیقی کتاب "میرٹھ اور1857ء” سے اقتباس، تالیف و تدوین ڈاکٹر راحت ابرار)

  • وارن ہیسٹنگز: وہ اپنے سامنے افلاطون کی بھی حقیقت نہیں جانتا تھا!

    پروانۂ تجارت حاصل کرنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے جس طرح ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کر کے کروڑوں لوگوں پر راج کیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں‌ ملتی۔ کمپنی نے فوج کی مدد سے ایک قوم کو غلام بنا لیا تھا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں کمپنی ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرنے میں کام یاب ہوگئی اور بظاہر اقتدار مقامی حکم رانوں کے ہاتھ میں تھا، مگر آمدن و محصول سے برطانیہ مستفید ہو رہا تھا۔

    ہندوستان کے مشرقی صوبوں میں ٹیکس وصول کرنے اور انتظامی معاملات چلانے کا معاہدہ کرنے والے انگریزوں نے خود کو ہندوستان کے عوام کا خیر خواہ اور ان کی فلاح و بہبود کا خواہاں‌ ثابت کرنے کے لیے یہاں سڑکیں، پُل، سرائے تعمیر کروائے، درس گاہیں اور مدارس قائم کیے جہاں عربی بھی سکھائی جاتی تھی، اور ہندوستان کو ریل کا ذریعۂ سفر بھی دیا، لیکن اس ملک کی آزادی ختم ہو چکی تھی اور صوبوں کا انتظام انگریز منتظمین چلا رہے تھے۔

    یہاں ہم وارن ہیسٹنگز (Warren Hastings) جو گورنر جنرل بنگال تھا، کے بارے میں‌ مولوی ذکاءُ اللہ کے مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں جس میں وہ اس انگریز صوبہ دار کے سیاسی تدبّر، فہم و فراست اور بحیثیت منتظم اس کی خوبیوں کے معترف ہیں، لیکن کہا یہ بھی جاتا ہے کہ سنہ 1773ء سے بدعنوانی کے الزام میں اپنے مواخذے کی کارروائی تک یہ انگریز افسرِ اعلیٰ عوام کو اپنے حُسنِ‌ انتظام کا یقین دلاتے ہوئے انگریزوں کو ان کا محسن بتانے کے لیے پروپیگنڈہ کرتا رہا۔ مؤرخین نے اسے ذہین اور چالاک بھی لکھا ہے۔

    مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ کو مولوی ذکاءُ‌ اللہ نے سلطنتِ انگلیشیہ کے نام سے مضامین کو بہم کیا ہے۔ وہ مؤرخ اور مترجم مشہور تھے جن کے کئی مضامین یادگار ہیں۔

    وارن ہیسٹنگز کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
    شاید ہی کوئی دوسرا مدبّر و منتظمِ ملکی ایسا گزرا ہو کہ جس کی تفضیح اور ہجو اس مبالغہ سے اور تعریف اس شد و مد سے ہوئی ہو اور اس کی ساری زندگی کے افعال اور اعمال کی تحقیقات ایسی شہادتِ تحریری سے ہوئی ہو۔ مگر اس کی نسبت لکھنے والے طرف دار اور متعصب تھے۔

    اگر نظرِ انصاف سے دیکھیے تو اس کی یہ بھلائیاں اور برائیاں معلوم ہوں گی جو ہم نیچے لکھتے ہیں۔ اس کی فطانت اور فراست و ذہانت کے سب دوست دشمن قائل ہیں۔ کوئی اس میں شبہ نہیں کرتا کہ وہ بیدار مغز اور ہوشیار دل ایسا تھا کہ امورِ خطیر اور معاملاتِ عظیم کے انصرام اور سر انجام کرنے کی اس میں قابلیت اور لیاقت تھی۔ برسوں تک اس نے ایک سلطنتِ بزرگ اور مملکتِ عظیم کا نظم و نسق کیا۔ سوائے ذہین اور قابل ہونے کے وہ محنت شعار اور جفاکش پرلے درجہ کا تھا۔ کاہلی اس سے کروڑوں کوس دور رہتی تھی۔

    اس کے جانشین جو ہوئے ان میں دو چار قابلیت اور لیاقت میں تو ہم پلہ ہوئے مگر محنت مشقت و کار گزاری میں اس سے کہیں ہلکے تھے۔ یہی پہلا عالی دماغ تھا۔ جس نے یہ سوچا کہ انگریزی گورنمنٹ سب سے علیحدہ رہ کر قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اور ہندوستانی رئیسوں سے آمیزش اور سازش کرے۔ یہی باب فتح و نصرت کی کنجی ہے۔ یہی وہ روشن عقل تھا کہ اس شاہراہ پر انگریزی گورنمنٹ کو رستہ دکھایا۔ جس پر چلنے سے وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گئی۔ گو یہ خیالات اس وقت انگلستان میں عام نہ تھے مگر بری بھلی طرح سے تجربہ ہو کر آخر کار وہی صحیح ثابت ہو گئے۔

    اس نے انگریزی صوبوں کے حسنِ انتظام میں اپنی عقل و ذہن کو بہت خرچ کیا۔ انقلابوں کے طوفان نے سارے ملک میں اندھیر مچا رکھا تھا۔ کسی سلطنت کا چراغ روشن نہ تھا۔ شمعِ افسردہ کی طرح سب میں دھواں نکل رہا تھا۔ مالی اور دیوانی عدالتوں کا بہت برا حال تھا۔ وہ نام کی عدالتیں تھیں۔ حقیقت میں اس کے طفیل وہ ظلم و ستم ہوتے تھے کہ قلم لکھ نہیں سکتا۔

    غرض سارے زمانے کی عافیت تنگ تھی۔ اس نے ان سب عدالتوں کی اصلاح کی۔ گو ان کو ان کے درجۂ کمال تک نہیں پہنچایا اور نہ ان کو اچھا بنایا۔ مگر وہ ایک بنیاد اس کی ایسی ڈال گیا کہ پھر اس پر اوروں کو ردے لگا کر عمارت بنانی آسان ہو گئی۔ کوئی حکومت کا کارخانہ ایسا نہ تھا کہ جس کی طرف اس نے توجہ نہ کی ہو اور ان میں بہت سی مفید باتوں کا موجد نہ ہو۔

    اس نے اپنی سرکار کی ہوا خواہی اور خیر اندیشی میں بھی کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ مگر اس میں اس نے اخلاق کی نیکی پر خیال نہیں کیا۔ جس وقت سرکار نے روپیہ مانگا۔ تو اس کے سر انجام کرنے میں کسی بات کا آگا پیچھا نہیں سوچا۔ از راہِ ظلم و تعدی جو دولت کا سامان کیا اہلِ انگلستان نے اس کو سر بے سامانی سمجھا۔ اس کی طبیعت کا خمیر ایسا تھا کہ وہ عدالت اور صداقت کو ضرورت کے وقت کچھ چیز نہیں سمجھتا تھا اور مروت و فتوت کو انسانیت میں داخل نہیں جانتا تھا۔ "گر ضرورت بود روا باشند” پر عمل تھا۔ وہ خود رائی کے سبب بر خود غلط اتنا تھا کہ اپنے سامنے افلاطون کی بھی حقیقت نہیں جانتا تھا۔ ہر کام اس کا ایک راز سر بستہ اور سر پوشیدہ تھا۔ کسی کام کی اصل و حقیقت کھلنے ہی نہیں دیتا تھا۔ گو اس کے ظاہر ہو جانے سے نقصان نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ہر کام کو بڑے پیچ پاچ سے کرتا تھا۔ غرض اس میں جو خوبیاں تھیں، وہ تحسین کے قابل تھیں اور جو برائیاں تھیں وہ نفریں کے لائق۔

    یوں سمجھنا چاہیے کہ رعایا پروری۔ سپاہ کی دلداری۔ لوگوں کو اپنا کر لینا۔ رفاہیتِ عباد اور معموریٔ بلاد کا خیال یہ سب خوبیاں اس میں ایسی تھیں کہ وہ ایک طوطیِ خوش رنگ کی طرح خوش نما معلوم ہوتی تھیں۔ مگر اپنی سرکار کی نمک شناسی کے سبب سے اس کی گنجینہ آزمائی، دولت افزائی ایسی ایک بلّی اس میں تھی کہ وہ اس طوطیِ خوش رنگ کو نوچے کھاتی تھی۔ مگر اس بلّی کے بھنبھوڑنے کے لیے اس کے پاس ایک کتّا بھی موجود تھا، جو اس کی خود پرستی و خود رائی تھی۔

    غرض یہ فضائل اور رذائل اس میں کام کر رہے تھے جو ایک بڑے بند مکان میں طوطی اور بلّی اور کتّا کام کریں۔ ہیسٹنگز صاحب کی سب سے زیادہ تعریف اس بات میں تھی کہ اس نے سارے کارخانوں اور کاموں کے لیے خود ہی مقدمات کو ترتیب دیا اور اس بات کو سر انجام کیا۔ جب وہ ولایت سے ہندوستان آیا تو طفلِ مکتب تھا۔ نوکری ملی تو تجارت کے کارخانے میں۔ کبھی اس کو اہلِ علم اور منتظمانِ ملکی کی صحبت بھی میسر نہ ہوئی۔ جتنے اس کے یہاں جلیس و انیس تھے، ان میں کوئی اس سے زیادہ صاحبِ لیاقت نہ تھا کہ اپنی لیاقت کو بڑھاتا بلکہ اس کو خود استاد بن کر سب کو لیاقت کا سبق پڑھانا پڑا۔ وہ سب کا راہ نما تھا اور اس کا راہ نما فقط اس کی عقل و دانش کا نور تھا۔

  • "خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی!”

    "خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی!”

    تیمور کی وفات کے بعد اس کی نسل میں کوئی ایسا باصلاحیت شخص پیدا نہیں ہوا جو تیمور کی عظیم الشّان سلطنت کو بکھرنے سے بچا سکتا تھا۔ چنانچہ تیمور کے بعد وسط ایشیا میں تیموری شہزادے اور امرا نے چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں اور خانہ جنگی میں مبتلا ہو گئے۔

    انہیں میں ایک ریاست فرغانہ تھی جس کا حکم ران عمر شیخ مرزا تھا۔ ہندوستان کی مغل سلطنت کا بانی بابر مرزا اسی عمر شیخ مرزا کا لڑکا تھا۔ بابر کا سلسلۂ حسب و نسب باپ کی طرف سے تیمور اور ماں کی طرف سے چنگیز خان سے ملتا ہے۔ لہٰذا بابر کی رگوں میں تیمور اور چنگیز دونوں کا خون تھا۔ 1494ء میں عمر شیخ مرزا کا انتقال ہوا۔ اس وقت بابر کی عمر صرف 12 سال تھی۔ شدید خانہ جنگی کے حالات میں نو عمر بابر کے لیے فرغانہ کی چھوٹی سی ریاست کی حفاظت کرنا قریب قریب ناممکن تھا۔

    چنانچہ 10 سال تک بابر خود کو اور اپنی ریاست کو بچانے کے لیے ہمسایہ ریاستوں کے حکم رانوں سے جنگ و جدل میں الجھا رہا۔ وسط ایشیا کے حالات سے مایوس ہو کر بابر نے افغانستان کا رخ کیا اور 1504ء میں کابل فتح کر کے وہاں ایک مضبوط حکومت قائم کر لی۔ اس وقت ہندوستان میں لودھی پٹھان حکومت کررہے تھے۔ پنجاب کی خود مختار مسلم ریاستوں اور لودھی حکم رانوں کے درمیان علاقائی تسلط کے لیے اکثر جھڑپیں ہوا کرتی تھیں۔

    ملتان کے حاکم نے بابر مرزا کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ بابر ویسے بھی ہندوستان کے ان علاقوں پر جو تیمور فتح کرچکا تھا، اپنا حق سمجھتا تھا اور ان کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ہندوستان پر کئی حملے کیے تھے۔ ملتان کے حاکم کی دعوت پر بابر نے ہندوستان پر آخری حملہ کیا اور 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر آگرہ اور دہلی پر قبضہ کرلیا۔ پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کی شکست سے اقتدار پٹھانوں کے ہاتھ سے نکل کر تیموری مغل خاندان میں منتقل ہو گیا۔

    اگرچہ پٹھانوں نے راجپوتوں کو شکست دے کر ہندوستان کا اقتدار چھین لیا تھا، لیکن سلطنتِ دہلی کے دور میں راجپوتانہ عملاً مختلف راجپوت خاندانوں کے تسلط ہی میں رہا۔ لودھی حکومت کے دور میں سلطنتِ دہلی سکڑ کر ایک علاقائی حکومت بن گئی تھی اور راجپوت دوبارہ ہندوستان کا اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ لہٰذا بابر کے حملے کے وقت راجپوت ابراہیم لودھی کا ساتھ دے کر مشترکہ طاقت کے ساتھ بیرونی حملہ آور کا مقابلہ کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے رہے۔ کیونکہ راجپوت سمجھتے تھے کہ بابر تیمور کی طرح لودھی حکومت کو تباہ و برباد کرکے واپس چلا جائے گا اور وہ لودھیوں سے لڑ کر حکومت حاصل کرنے کے بجائے لودھی حکومت کے تباہ شدہ کھنڈر پر اپنی حکومت کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن بابر نے دہلی سلطنت کو ختم کر کے مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ تب راجپوتوں کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ دہلی کی مرکزی حکومت کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے حرکت میں آگئے۔

    چتوڑ کے راجہ رانا سانگا کی قیادت میں راجپوتوں کی متحدہ فوج نے بابر کو ہندوستان سے نکال کر باہر کرنے کے لیے پیش قدمی کی۔ بہت سارے افغان سردار جو لودھی خاندان کی تباہی کے بعد بابر کے جانی دشمن ہوگئے تھے وہ بھی راجپوتوں سے مل گئے۔ 16 مارچ 1527ء کو بابر نے 12 ہزار کی فوج کے ساتھ کنواہہ کے مقام پر راجپوتوں اور افغانوں کی دو لاکھ متحدہ فوج کا مقابلہ کیا اور انہیں شکستِ فاش دی۔

    کنواہہ کی جنگ کے بعد بہت سارے شکست خوردہ افغان سردار بنگال کے حاکم نصرت شاہ کے پاس پہنچ گئے اور نصرت شاہ کی مدد سے انہوں نے بابر سے ایک بار پھر جنگ کی۔ 6 مئی 1529ء کو بابر نے نصرت شاہ اور شکست خوردہ افغان سرداروں کی متحدہ فوج کو دریائے گھاگرا کے کنارے شکست دی۔ کنواہہ اور گھاگرا کی جنگ کے بعد مغل اقتدار کو چیلنج کرنے والا اور دہلی کی مرکزی حکومت کا کوئی دعویٰ دار باقی نہ رہا۔

    مغل سلطنت کا عروج و زوال:
    ہندوستان میں مغل حکومت 315 سال تک رہی۔ پہلے 181 سال بابر کی تخت نشینی (1526ء) سے لے کر اورنگ زیب کی وفات (1707ء) تک مغل سلطنت کے عروج کا زمانہ ہے۔ اگر ان 181 سالوں میں سے 15 سال جب اقتدار شیر شاہ سوری اور اس کے خاندان میں رہا (1540ء تا 1555ء) نکال دیے جائیں تو مغلیہ سلطنت کے عروج کا زمانہ 166 سال کا ہوتا ہے۔ اس دوران نہایت عظیم صلاحیتوں کے چھے بادشاہ مغلیہ سلطنت کو نصیب ہوئے:

    بابر (1526ء تا 1530ء)
    ہمایوں (1530ء تا 1556ء)
    اکبر (1556ء تا 1605ء)
    جہانگیر (1605ء تا 1627ء)
    شاہجہاں (1627ء تا 1657ء)
    اورنگ زیب (1657ء تا 1707ء)

    1707ء سے 1799ء یعنی 82 سال کا دور مغلیہ سلطنت کا عہدِ زوال ہے۔ اس دور میں مغلوں کی فوجی قوت آپس کی خانہ جنگی میں تباہ ہوگئی۔ انگریزوں نے بنگال اور مدراس کی طرف سے ہندوستان کی سیاست میں دخل اندازی شروع کردی تھی۔ لیکن دہلی کی مرکزی حکومت کا کوئی حقیقی دعوے دار ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔

    1799ء میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ہندوستان کے سیاسی افق پر صرف مرہٹہ طاقت باقی رہ گئی تھی جسے مختلف محاذوں پر شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1803ء تک اقتدار سے بے دخل کردیا اور مرہٹہ سردار ایک ایک کرکے کمپنی بہادر کے حلقہ بگوش ہو گئے۔

    مرہٹہ طاقت کو کچلنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی دہلی کی مرکزی حکومت کی دعوے دار بن کر ہندوستان کے سیاسی افق پر نمودار ہوئی۔ چنانچہ 1803ء میں جنرل لیک کی سرکردگی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں علی گڑھ اور آگرہ پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی میں داخل ہوئیں تو مغل شہنشاہ شاہ عالم بے بسی کے عالم میں ایک پھٹے ہوئے شامیانے کے نیچے انگریزوں کے استقبال کے لیے کھڑا ہوا تھا۔ جنرل لیک نے مغل شہنشاہ کو اپنی حفاظت میں لے کر اس کا وظیفہ مقرر کر دیا اور پھر برّعظیم کا اقتدارِ اعلیٰ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں چلا گیا۔ 1799ء سے 1857ء کی پہلی جنگِ آزادی یعنی 58 سال تک مغل اقتدار برائے نام باقی رہا۔

    اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نہایت حکمت سے ہندوستانی عوام کو باور کراتی رہی کہ خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی۔ یہ نعرہ انگریزوں نے اس لیے ایجاد کیا تھا کہ ہندوستانی عوام کیا ہندو، کیا مسلمان کی وفاداریاں مغل سلطنت سے اس درجہ مضبوطی سے وابستہ ہوچکی تھیں کہ وہ مغل حاکم کے علاوہ کسی اور کی بادشاہت کا تصور کر نہیں سکتے تھے۔

    1857ء کی جنگِ آزادی میں انگریزوں نے نہ صرف اپنی عسکری برتری کو منوالیا بلکہ سیاسی برتری بھی تسلیم کروا لی اور تاجِ برطانیہ نے کمپنی کو بے دخل کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو معزول کرکے ان پر بغاوت کا الزام لگا کر جلا وطن کر دیا۔ اب انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نعرہ کو بدل دیا اور کہنے لگے: "ملک ملک معظم کا اور حکم انگریزوں کا۔”

    (ماخوذ: ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا حصّہ، مؤلفہ ڈاکٹر محمد مظفر الدّین فاروقی)

  • سرکاری افسران کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اجازت نامہ

    سرکاری افسران کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اجازت نامہ

    ہندوستان پر انگریز راج کے دوران یہاں کے عوام جن مظالم اور غیرانسانی سلوک کا شکار ہوئے، وہ تاریخ کا ایک بدترین اور شرم ناک باب ہے۔انگریز مؤرخین نے اپنی کتب میں عام طور پر برطانوی افسران اور امرا کے اس ظلم و ستم کو نظر انداز کیا ہے، لیکن بعض مصنّفین نے اس پر بھی قلم اٹھایا ہے۔

    اس زمانے میں دراصل برطانوی فوج کے افسران اور منتظمین سمیت اعلیٰ حکام کا بالخصوص اپنے ہندوستانیوں ملازمین کے ساتھ نامناسب اور توہین آمیز سلوک عام تھا۔ اس کے علاوہ ایسے قوانین نافذ تھے جنھوں نے انسانوں کو گویا غلامی پر مجبور کر رکھا تھا۔

    اس حوالے سے چند سال قبل ہندوستان میں برطانوی دور کی ایسی تصاویر( پوسٹ کارڈز) کی خصوصی نمائش بھی منعقد ہوئی تھی جو انگریز حکم رانوں اور امرا کی ذہینت اور ہندوستانیوں کے ساتھ جانوروں جیسے سلوک کی بدترین مثال ہیں۔

    اس حوالے سے یہاں ہم ایک ایسے قانون یا ہدایت نامے کا ذکر کررہے ہیں جو انگریزوں کی حاکمانہ سوچ کے تحت ہندوستانیوں کی تذلیل کرنے اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے توہین آمیز سلوک کا عکّاس ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    برطانوی نوآبادیاتی عہد میں عام ہندوستانی کو کسی سرکاری آفس میں انگریز افسر کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔

    سرکاری دفتر میں کرسی صرف اسی ہندوستانی کو پیش کی جاتی تھی جس کے پاس اجازت نامہ "کرسی نشیں” ہوتا تھا۔

    اس اجازت نامہ کو جاری کرنے کا اختیار صرف ڈسٹرکٹ کے ڈپٹی کمشنر کے پاس تھا۔ یہ اجازت نامے کمشنر آفس سے جاری ہوتے تھے جو اسے حاصل کرنے کے لیے اپنے پاس آنے والوں کے مکمل کوائف، سماج میں ان کے مقام و مرتبے اور حیثیت کو دیکھتے ہوئے اجازت نامہ جاری کرتا تھا۔

  • جدوجہدِ آزادی: قائدِ اعظم کے معتمد اور مسلم لیگ کے راہ نما سردار عبدالرّب نشتر

    جدوجہدِ آزادی: قائدِ اعظم کے معتمد اور مسلم لیگ کے راہ نما سردار عبدالرّب نشتر

    سردار عبدالرّب نشتر ایک اچھے شاعر، مدبّر، شعلہ بیان مقرر اور تحریکِ پاکستان کے صفِ اوّل کے راہ نما تھے جنھوں نے قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد میں قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار ہوئے۔

    سردار عبدالرّب نشتر 13 جون 1899ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ مذہبی گھرانے کے فرد تھے اور جدید تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت دینی ماحول میں ہوئی۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے ایل ایل بی کی ڈگری 1925ء میں حاصل کی اور وکالت کا لائسنس بھی حاصل کرلیا۔ جس وقت وہ علی گڑھ میں پڑھ رہے تھے، ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ انھوں نے پشاور میں وکالت شروع کردی۔

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم بھی اُن کی فکری اور نظریاتی بنیادوں پر تربیت ہوتی رہی اور عنفوان شباب میں وہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے اکابرین کے قریب رہے۔ سامراج دشمنی گویا اُن کے خون میں تھی جو زمانۂ طالب علمی ہی میں اِن بزرگوں کے زیرِ اثر دو آتشہ ہوگئی۔

    وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست کا شوق پیدا ہوا تو نوجوانی میں تحریکِ خلافت میں عملی شرکت سے سفر کا آغاز کیا اور مسلمانانِ ہند کو درپیش مسائل اور مشکلات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے لگے۔ انھیں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی سازشوں اور ان کے رویّوں کا بھی اچھی طرح اندازہ ہوگیا۔

    1929ء میں جب صوبہ سرحد میں انتخابات کا اعلان کیا گیا تو سردار عبدالرب نشتر خلافت کمیٹی کی طرف سے میونسپل کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور مسلسل 1938ء تک رُکن رہے۔ بعد میں سردار عبدالرب نشتر نے آل انڈیا مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کی اور 1944ء میں اس تنظیم کی مجلسِ عاملہ کے رکن بنائے گئے۔ 1946ء کے انتخابات کے بعد بننے والی عبوری حکومت کے لیے نمائندہ بھی نام زد ہوئے جب کہ 3 جون کے اعلان کے حوالے سے’’پارٹیشن کمیٹی‘‘ کے ارکان میں سردار عبدالرب نشتر بھی شامل تھے۔

    سردار عبدالرب نشتر غیر منقسم ہندوستان کے وزیرِ مواصلات بھی رہے اور قیامِ پاکستان کے بعد لیاقت علی خان کی کابینہ میں بھی اِسی منصب پر کام کرتے رہے۔

    وہ متحدہ ہندوستان میں پنجاب میں پہلے مسلمان اور پاکستانی گورنر بھی رہے۔ وہ 14 فروری 1958ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔